مناقب امام حسین عمناقب و فضائل

امام حسین علیہ السلام قرآن کریم کی نظر میں

قرآن کریم کے اندر امام حسین علیہ السلام کے بارے میں بہت سی آیات موجود ہیں۔ بعض افراد نے ٢٨ا آیات اور بعض نے ٢٥٠ آیات بیان کی ہیں۔ بعض آیات بطور آشکار امام حسین علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جبکہ بعض آیات کی روایات کے ذریعہ تفسیر و تاویل کی گئی ہے۔

ان آیات کی مندرجہ ذیل تقسیم بندی کی جاسکتی ہے۔

١۔وہ آیات جو بر بنائے منابع تفسیری و روائی امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ہیں:

(اسراء:٣٣، مریم:١، حج:٦٠، احقاف:١٥، رحمٰن:٢٢، نازعات:٦، تکویر:٨، فجر:٢٧، تین:١)

۲۔بعض وہ آیات ہیں جو امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کی جاتی ہیں:

(بقرہ: ٨٤ و ١٩٣، نساء:٣١و ٧٧، انعام:٦٢، انفال: ٧٥، اسراء: ٤و٦ ، مریم: ٧، حج: ١٩ و ٤٠، عنکبوت: ١٥، صافات: ٨٨ و٨٩، زخرف: ٢٨، دخان:٢٩، نبأ: ١٨، عبس: ٢٥، انشراح:١)

۳۔بعض وہ آیات ہیں جو امام حسن اور امام حسین علیہ السلام علیہما السلام کی شان میں ہیں:

(آل عمران:٦١، نساء:٣٦ و ٦٩، انعام: ٨٤، نور: ٣٥، فرقان: ٧٤، احزاب:٤٠، رحمن:١٧، واقعہ:٨٩، حدید: ١٢ و ٨٨، تغابن، فجر: ٣، بلد: ٣ و ٩، بروج:٣، شمس:٢و٣)

۴۔بعض آیات ہیں جو پنجتن پاک آل عبا ءعلیہم السلام کے بارے میں ہیں۔

(بقرہ:٣٧ و٥٤ و٦٠ و١٢٤ و ٢٣٨، آل عمران: ٧ و ١١٠، نساء: ٤٣، مائدہ:٥٤، اعراف: ٤٦و ١٥٧، یونس: ٦٣، نحل:٤٣، اسراء:٤٤، مؤمنون:١١١، فرقان:١٠و٥٤، فاطر: ٣٢، صافات:١٦٥ و١٦٦، شوریٰ: ٢٣، طور: ٢١، حشر:٩، صف:٤، حاقہ:١٧، انسان:٧، مرسلات:٤١)

۵۔بعض وہ آیات ہیں جو بارہ امام یا چودہ معصومین علیہم السلام کے بارے میں ہیں:

(بقرہ: ٣١، ٣٥، ١٣٦، ١٣٧، ١٤٣، ٢٥٦ ؛ سورہ آل عمران: ٣٦، ٩٥، ١٨٥ اور ٢٠٠؛ سورہ نساء: ٥٩؛ سورہ مائدہ: ٥٦؛ سورہ توبہ: ٣٦؛ سورہ ہود: ٩١؛ سورہ ابراہیم: ٢٤؛ سورہ حجر: ٤٥، ٤٦، ٤٧ اور ٧٥؛ سورہ نحل:٩٠؛ سورہ اسراء: ٧١؛ سورہ طہ: ١١٥؛ سورہ حج: ٧٧؛ سورہ نور: ٣٦، ٣٧ اور ٥٥؛ احزاب:١٢ اور ٣٣؛ سورہ صافات: ٨٣؛ سورہ شوریٰ: ٢٣؛ سورہ واقعہ:١٠؛ سورہ انسان: ٥؛ سورہ کوثر: ١)

٦۔بعض وہ آیات ہیں جو پنجتن و دیگر افراد جیسے جناب حمزہ ، جعفرطیار، عقیل اور حضرت خدیجہ علیہا السلام کے بارے میں ہیں:

(آل عمران: ٣٣، کہف:٢، حج:٤٠، فاطر:٢١، غافر:٧، تحریم:٨، مطففین: ٢٢)

ان کے علاوہ بھی اور بےشمار آیات ہیں جن کے ذیل میں امام حسین علیہ السلام کے بارے میں روایت وارد ہوئی ہیں۔

(جیسے:بقرہ:٤٩و ١٩٥و١٩٦و١٩٩، آل عمران:٣٤و٤٥و٤٩و ١٠٣، نساء:٥٦، مائدہ:١ و٣٥، انعام: ٦٢، اعراف:١٩٩، یوسف:١٣و ١٤و٦٧، اسراء:٧و١٧، مریم:٥٥، نور:٣١، نحل:٤٠، شعراء:٢٢٧، قصص: ٥و٢١، احزاب:٢٣ و ٥٨، زمر:٤٦،٦١، غافر:٧١، مجادلہ:٧)

(تاویل الآیات الظا هرة فی فضائل العترة الطاهرة؛ الحسین فی القرآن کریم)

(تاویل آیات القرآن کریم فی سید الشهداء)

نام امام حسین علیہ السلام اور قرآن کریم

کبھی کبھی اعتراض کرنے والا یہ اعتراض کرتا ہے یا ممکن ہے کہ کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ جب امام حسین علیہ السلام اور خاندان عصمت و طہارت کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کی تعداد ٢٥٠ تک بیان کی جاتی ہے تو پھر امام حسین علیہ السلام کا نام مبارک قرآن کریم میں کیوں نہیں آیا ہے؟

اگر بارگاہ خدا میں آپ عظیم المرتبت ہوتے تو یقینا دیگر انبیاء و اولیاء کی طرح آپ کے نام نامی کا بھی قرآن کریم میں ذکر ہوتا!

اولاً: سوال کا انداز بتارہا ہے کہ معترض یہ سمجھتا ہے کہ امت کے ہادی و رہبر اور واجب الاطاعت امام کے نام کا آسمانی کتاب میں ذکر ہونا ضروری ہے۔اسکے خیال میں ہادی و راہنما کی پہچان کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے۔حالانکہ قرآن کریم کےمطالعہ سےپتہ چلتاہےکہ خودقرآن کریم نےہادی وراہنما اورالٰہی شخصیات کےتعارف کیلئےمصلحت کی بناء پر تین مختلف طریقے استعمال کیئے ہیں:

١۔ بیان اسم:

انجیل میں حضورسرورکائنات کااسم مبارک بیان کرکےتعارف کرایاگیاتھا:

"وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ”

(سورہ صف، آیت ٦)

اسی طرح حضرت داؤد کا نام مبارک بطور خلیفہ آیا ہے:

"يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ”

(سورہ، ص، آیت٢٦)

۲۔ بیان عدد:

کبھی پروردگاراپنےخاص بندوں کےنام ذکرنہیں کرتاہےبلکہ ان کی تعداد بیان کرتاہےجیساکہ قرآن کریم بنی اسرائیل کےنقباءاورحضرت موسیٰ کے انتخاب کےمطابق کوہ طور پرانکےہمراہ جانےوالوں کی تعداد بیان کرتاہے۔

(سوره مائدہ، آیت ١٢٥ ؛ اعراف، آیت ١٥)

۳۔ بیان صفت:

کبھی کبھی قرآن کریم، الٰہی شخصیات اور خاصان خدا کی پہچان و تعارف کیلئے نہ نام بیان کرتا ہے اور نہ ہی ان کی تعداد بتاتا ہے بلکہ ان کی مخصوص صفات بیان کرتا ہے تاکہ لوگ انہیں صفات کمالیہ کے ذریعہ پہچان لیں۔

(پرسش ها و پاسخ ها ص ١٨٢)

اورکبھی قرآن کریم نےنام اورصفت دونوں کو ایک ساتھ ذکر کیاہے جیسے آیۂ طالوت اورکبھی فقط ذکر صفات پر اکتفاء کیا ہے، جیسے:

"فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لآئِمٍ”

(سوره مائدہ: آيت٥٤)

اے ایمان لانے والو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو (کچھ پروا نہیں پھرجائے) عنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کو ظاہر کردے گا جنہیں خداوند دوست رکھتا ہوگا اور وہ اس کو دوست رکھتے ہوں گے۔ایمانداروں کےساتھ منکسر(اور)کافروں کےساتھ کڑے خدا کی راہ میں جہاد کریں گےاورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کچھ پرواہ نہ کریں گے۔

امامت خاصہ (یعنی کسے امام ہونا چاہیے)کےسلسلے میں قرآن کریم نے راہ سوم کا انتخاب کیا ہے۔ بعض آیات میں صراحتاً امامت کے موضوع کو بیان کیا گیا ہے اور مختلف آیتیں مثلاً آیۂ تبلیغ، آیہ ولایت، آیۂ اولی الامر، آیہ صادقین، آیۂ ذوی القربی وغیرہ اس موضوع کو وضاحت کےساتھ بیان کررہی ہیں۔جبکہ بعض دوسری آیات مثلاً مباہلہ و تطہیر وغیرہ ضمنی طور پر اس مسئلہ کو بیان کررہی ہیں۔

قرآن کریم کی روشنی میں شیعہ نقطہ نظر کے مطابق امام میں دو خصوصیات خاص طور پر ہونی چاہئیں۔ عصمت اور علم لدنّی۔

(بقرہ: ۲ آیت:١٢٤، نمل: ۲۷ آیت ۴۰ ؛ آل عمران:۳ آیت٧)

اور شیعہ و سنی دونوں مکاتب فکر کا اتفاق نظرہے کہ پیغمبر اکرم صلى‌الله‌عليہ وآلہ‌وسلم کے بعدحضرت امیرالمؤمنین اور ان کے پاکیزہ فرزندوں کے علاوہ کسی میں بھی یہ صفات موجود نہ تھیں۔

(پیام قرآن کریم: ج٩ ص ١٧٧)

ثانیاً: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کریم، معارف و احکام اسلامی کا اہم منبع ہے، اگر خدانخواستہ اس مقدس کتاب میں تھوڑی سی بھی تحریف ہوجاتی تو تمام مسلمانوں کیلئے یہ غیر معتبر ہوجاتا اور اس کے کسی مطلب کے صحیح ہونے کے بارے میں اعتماد قائم نہ ہوتا۔ نتیجتاً یہ بھی انجیل و توریت کی طرح مشکلات سے دوچار ہوجاتی۔

قرآن کریم کےتصرف وتحریف سےمحفوظ رہنےکےاسباب میں سےایک سبب یہ بھی ہےکہ معاصرین نزولِ قرآن کریم میں سے(زیدوابولھب کےعلاوہ)کسی کا نام بھی مقامِ تعریف وتنقید میں صراحت کےساتھ بیان نہیں کیا گیا ہے حالانکہ نیک لوگوں (مثلاً حضرت علی و عمار و سلمان و۔۔۔) کی تعریف اور مشرکین (جیسے ابوجھل و ۔۔۔) کی مذمت میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں۔

لہٰذااگرحضرت امام حسین علیہ السلام کا نام مبارک قرآن کریم میں ذکر کردیا جاتا تو بعض عداوت و دشمنی رکھنے والے قرآن میں ردّو بدل اور آپ کے نام مبارک کو ہٹانے کی مسلسل کوشش کرتے رہتے لیکن اب جبکہ قرآن کریم میں ان کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے تو صرف زرخرید لوگوں کے ذریعہ آیات کی شان نزول وغیرہ میں خیانت کرتے رہے ہیں جیسا کہ سمرة بن جندب نے حاکم شام کے حکم سے وہ آیت جو امیرالمؤمنین کی شان میں تھی ابن ملجم کی شان میں بیان کی۔ اس سے بھی بڑھ کر بات یہ ہے کہ جب خود پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضورحَسْبُنَا كِتَابُ اللَّه ‏، نعرہ بلند کیا جاسکتا ہے تو کیا آپ صلى‌الله‌عليہ‌وآلہ‌وسلم کی رحلت کے بعد یہ لوگ خاموش بیٹھے رہتے!؟

پس یقیناًاگراہل بیت علیہم السلام کا نام قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ آجاتا تو یہ لوگ ان آیات کو حذف کردیتے بالکل اسی طرح جیسے آج بہت سی کتابوں میں سے اہل بیت علیہم السلام کے فضائل حذف کیئے گئے ہیں اور کتابوں میں ردّ وبدل کی گئی ہے۔ دشمنان اہل بیت علیہم السلام ان کے نام قرآن کریم سے حذف کرتے او ریہی کہتے کہ ہمیں ”اتنا قرآن کریم کافی ہے“ اور سادہ لوح لوگ خاموش بیٹھے دیکھتے رہتے اور کچھ نہ بولتے بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے اہل بیت علیہم السلام کو شدید اذیتیں پہنچائیں اور لوگ خاموش رہے۔

ثالثاً: قرآن کریم میں ائمہ علیہم السلام کے اسماء نہ آنے کی ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ قرآن کریم نے فقط کلّی مسائل کو بیان کیا ہے جبکہ جزئیات کا بیان پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليہ‌وآلہ‌وسلم پر عائد کیا گیا ہے مثلاً قرآن کریم میں نماز کا عام حکم آیاہے لیکن تین یا چار رکعت کا ذکرنہیں کیا گیا بلکہ پیغمبراسلام صلى‌الله‌عليہ وآلہ‌وسلم نےنماز کی تمام جزئیات کو بیان کیا ہے۔

(امام حسین علیہ السلام علیہ السلام قرآن وسنت کےآئینے میں)

امام حسین علیہ السلام کی شان میں نازل ہونے والی چند آیات:

1۔آیۂ تطہیر:

"اِنّما یُرِیدُ اللّٰهُ لِیُذهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً”

(سورہ اِحزاب: ٣٣)

2۔آیۂ مباہلہ:

"فمن حاجَّکَ فیه من بعد ما جاءَ ک من العلم فقل تعالوا ندعُ ابناء نا و ابنائَکم و نساء نا و نساء کم و أنفسنا و أنفسکم ثُمَّ نبتهل فنجعل لعنت الله علی الکاذبین”

سید الشہداء مظلوم کربلا وارث انبیاء صاحب ھل أتیٰ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کو بیان کرنے والی آیات میں سے ایک آیہ مباہلہ ہے، جسے تمام فرق اسلامی نے متفقہ طور پر تسلیم کیا ہے۔

3۔آیۂ مودّت:

"قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى”

(سوره شوریٰ آیت ٢٣)

امام حسین علیہ السلام کی عظمت و رفعت بیان کرنے والی آیات میں سے ایک یہ آیۂ کریمہ ہے۔

آیہ اولی الامر:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ”

(سورہ نساء، ٥٩)

اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں۔”

اس کے علاوہ سورہ صافات میں آیہ ذبح عظیم اور سورہ فجر میں آیہ نفس مطمئنہ وغیرہ بھی ہیں۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button