خطبات جمعہعلامہ محمد شفاء نجفیمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:126)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 10 دسمبر2021ء بمطابق 05 جمادی الاول 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

آئمہ جمعہ و جماعت سے متعلق ہماری وٹس ایپ براڈکاسٹ لسٹ میں شامل ہونے کے لیے ہمیں وٹس ایپ کریں۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
آخرت، دنیا کے بعد والا عالَم ہے۔ لفظ "آخرت”، "آخر” کا مونث ہے جو اختتام کے معنی میں ہے اور "اوّل” کے مدمقابل ہے۔قرآن کریم انسان کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے: اختتام پذیر ہونے والا حصہ اور باقی رہنے والا حصہ۔ پہلے حصہ کو "الدنیا” اور "الاُولی” اور دوسرے حصہ کو "الآخرۃ” اور "الیوم الآخر” کہا ہے۔
لفظ "آخرت”، دنیا کے بعد والے عالَم کے معنی میں 113 بار قرآن میں ذکر ہوا ہے۔
قرآن مجید میں آخرت کے موضوع کی بحثوں کو بہت سارے الفاظ سے ماخوذ کیا جاسکتا ہے، جیسے: برزخ، بعث، حشر، نشر، صراط، قیامت، میزان، یوم الدین، یوم الفرقان، یوم الحسرۃ، یوم الحساب اور کئی دیگر الفاظ۔ کیونکہ یہ الفاظ آخرت کے مراحل میں سے کسی ایک مرحلہ یا اُس جہان کی کسی خصوصیت کو بیان کرتے ہیں۔خدا پر ایمان کے بعد قرآن کریم میں ایسی بے شمار آیتیں پائی جاتی ھیں جن میں موت کے بعد کی دنیا، روزقیامت،انسانوں کے زندہ ھونے، میزان، حساب و کتاب اور موت کے بعد کے حالات سے مربوط مسائل پر گفتگو کی گئی ھے۔ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک ہزار چار سو آیتیں موت کے بعد کی دنیاسے مربوط ہیں لیکن علامہ طباطبائی کے مطابق ان آیتوں کی تعداد دو ھزار سے بھی زیادہ ھے۔ ان آیتوں کی کثرت اور زیادتی ھی مذھب اسلام میں قیامت کی اھمیت اور عظمت نیز سعادت بشر میں اس کے تعمیری کردار کو بیان کرنے کے لئے کافی ھے ۔ یھی وجہ ھے کہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر خدا پرایمان واعتقاد کے فوراً بعد ”روز آخرت پر ایمان“ کو ترجیح دی گئی ھے مثلاً مندرجہ ذیل آیت:
اِن الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِیْنَ هادُوا وَالنَّصَارَیٰ وَالصَّابِئِینَ مَنْ آمَنَ بِااللهِ وَالْیَومِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهمْ اٴَجْرُهمْ عِنْدَ رَبِّهمْ وَلَا خَوفٌ عَلَیْهمْ وَلا همْ یَحْزَنُونَ ۔(البقرۃ:۶۲)
ے شک جو لوگ ایمان لا چکے ہیں اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابئین میں سے جو کوئی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے تو ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
قرآن مجید میں جگہ جگہ خدا پر ایمان کے بعد دوسرے عالم پر ایمان کا ذکر ہوا ہے، قرآن میں تقریبا ۳۰ مقامات پر ان دوتوں کو ساتھ میں بیان کیا گیا ہے: «یُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَ الْیَوْمِ الاْخِرِ(سورۂ مجادلہ، آیت:۲۲)جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھنے ہیں»،
قیامت پر عقیدے کے ذریعہ انسان پر بہت زیادہ آثار مترتب ہوتے ہیں۔ اسلام قیامت کے اعتقاد کو انسان کے حیاتی ارکان میں سے ایک رکن قرار دیتا ہے جس کے بغیر حقیقی انسان کی شکل ایک بے روح جسم کے مانند ہے۔
قیامت پر ایمان کے اثرات میں سے یہ ہے کہ انسان کی روح ہمیشہ اس ایمان سے زندہ رہتی ہے، وہ جانتا ہے کہ اگر وہ کبھی کسی مظلومیت یا محرومیت سے دوچار ہوا ہے، تو ایک دن آنے والا ہے جب انتقام لیا جائے گا اور اس کا حق اسے واپس ملے گا اور وہ جو بھی نیک کام انجام دے گا ایک دن اس کی بہترین صورت میں تجلیل و تعظیم کی جائے گی۔
اور انسان کے فردی اور اجتماعی اعمال میں اس کا اثر اس طرح ہے کہ جو انسان قیامت پر اعتقاد رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کے اعمال ہمیشہ تحت نظر ہیں، اور اس کے عمل کا ظاہر اور باطن ہمیشہ خداوند متعال کے سامنے موجود ہے۔۔
قیامت پر چند دلائل:
یہاں ہم قیامت پر چند دلائل ذکر کریں گے:
1۔دنیوی زندگی کا بیکار لازم آنا:
دنیاوی زندگی، خلقت انسان کا حقیقی اور نھائی ھدف قرار نھیں پاسکتی کیونکہ یہ ایک مختصر ، وقتی، گزرجانے والی اور مشکلات ومصائب سے پر،نیز آخر میں ختم ھوجانے والی زندگی ھے۔ لھٰذااگر قیامت نہ ھو تو زندگی انسان دنیاوی زندگی میں ھی محدود و مختصر ھو کر رہ جائگی جس کے نتیجہ میں خلقت انسان، عبث، لغو اور لایعنی ھو کر رہ جائے گی۔ایک مقام پہ ارشاد خدا ہمیں قیامت کی جانب متوجہ کررہا ہے کہ:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (المومنون :۱۱۵)
کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاؤ گے؟
عَبَثًایعنی کھیل کے طور پر۔ کھیل کے لیے دونوں معنی مراد لیے جا سکتے ہیں:
i۔ تم نے یہ خیال کر رکھا تھا کہ تمہاری خلقت کے سامنے کوئی معقولیت، کوئی غرض نہیں ہے۔ اس زندگی کا کوئی حساب، کوئی جوابدہی نہیں ہے۔
ii۔ کیا تمہارا یہ عقیدہ تھا: وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ تمہیں ہمارے سامنے حاضر ہونا نہیں ہے؟ ظالم مظلوم یکساں ہیں، مجرم اور نیک برابر ہیں
پس اگر قیامت نہ ہوتو گویا دنیا کی زندگی عبث، فضول اور ایک کھیل تماشے کی طرح ہوجائے گی۔
امام علی علیہ السلام کی سے روایت ہے:
إِنَّكَ مَخْلُوقٌ لِلْآخِرَةِ فَاعْمَلْ لَهَا (غرر الحکم ج۱ ص۲۶۷)
تمہیں آخر ت کے لیے پیدا کیا گیا ہے پس اسی کے لیے عمل کرو۔
2. عدل الٰہی کا تقاضا:
عدل خدا کا تقاضا ھے اس دنیا میں اکثر نیک و بد دونوں قسم کے افراد ایک ھی صف میں کھڑے ھوتے ھیں اور مساوی طور پر دنیاوی نعمتوں سے لطف اندوز ھوتے ھیں بلکہ ایسا بھی ھوتا ھے کہ شریف النفس افراد دیکھتے رہ جاتے ھیں اور ظالم صفت اشخاص سب کچھ اپنے قبضے میں کرلیتے ھیں ۔یھاں عدل خداوند عالم کاتقاضا ھے کہ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے سے جدا ھوں اور دونوں کو ان کے اعمال کی سزا یا جزا دی جائے اورچونکہ دنیا میں ایسا ھونے والا نھیں ھے لھٰذا یہ دوسری دنیا یعنی آخرت میں یقینا واقع ھوگا۔
اَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرِحُوا السَّیِّئَآتِ اٴَنْ نَجْعَلَهمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْیَا هم وَمَمَا تُهمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ(الجاثیہ :۲۱)
برائی کا ارتکاب کرنے والے کیا یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو ایک جیسا بنائیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جائے؟ برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔
ایسا ہو نہیں سکتا کہ برائی کا ارتکاب کرنے والوں اور ایمان وعمل صالح والوں کو اللہ تعالیٰ ایک جیسا بنائے
: اَمۡ نَجۡعَلُ الۡمُتَّقِیۡنَ کَالۡفُجَّارِ۔ ( ۳۸ ص: ۲۸) یہ بھی عدل الٰہی کے خلاف ہے کہ فاجر اور متقی ایک جیسے ہو جائیں۔
اگر ظالم و مظلوم، نیک اور بد، فاجر اور متقی کا ایک جیسا انجام ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کائنات میں اقدار کی حکمرانی نہیں ہے اور جہاں اقدار کے لیے کوئی جگہ نہ ہو وہ کائنات عبث اور بے معنی کھیل ہو کر رہ جائے گی۔
3.رحمت خدا کا تقاضا:
خداوند عالم بے حد وحدود رحمت وکرم والا ھے اور اس کی یہ رحمت وکرم اس بات کی موجب ھے کہ اس کا یہ فیض انسان کی موت پر ھی اختتام پذیر نہ ھو جائے بلکہ اس کے صالح اور مومن بندے اس کی نعمتوں سے مرنے کے بعد بھی فیضیاب ھوتے رھیں۔امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان ہے:
اَلْآخِرَةُ فَوْزُ اَلسُّعَدَاءِ (غرر الحکم ج۱ ص۲۴)
آخرت نیک لوگوں کی کامیابی کا مقام ہے۔
کَتَبَ عَلٰی نَفْسِه الرَّحْمَةَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلیٰ یَومِ الْقِیَامَةِ لَا رَیبَ فِیْه
اللہ تعالیٰ نے خود رحمت کو اپنے پر لازم کر دیا ہے۔ واضح رہے رحمت، ذات الٰہی کا لازمۂ ذات ہے۔ ممکن نہیں ذات الٰہی ہو اور اس سے رحمت کا فیض جاری نہ ہو۔ اللہ کے بارے میں اہل علم میں یہ مقولہ مشہور ہے: لا انقطاع فی الفیض ۔ لہٰذا یہ بات ناقابل تصور ہے کہ ذات خداوندی سے فیض رحمت کا سلسلہ ایک لمحے کے لیے بھی بند ہو۔ لہٰذا کَتَبَ عَلٰی نَفۡسِہِ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قرارداد کے ذریعے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔ وہ ارحم الرٰحمین ہے۔ وہ انسان کی تخلیق میں رحیم ہے کہ انسان کو احسن تقویم کے سانچے میں ڈھالا۔وہ انسان کے لیے تسخیر کائنات میں رحیم ہے۔ وہ انسان کی تعلیم و تربیت میں رحیم ہے۔ اس کی ہدایت و رہنمائی میں رحیم ہے۔ عفو و درگزر میں رحیم ہے۔ قیامت کے دن قائم ہونے والی عدالت گاہ میں بھی رحیم و کریم ہے۔ اس رحیم و کریم رب کو چھوڑ کر بتوں کے سامنے کس لیے جھکتے ہو؟ جاہلیت جدید میں دولت و اقتدار والوں کے سامنے کس لیے جھکتے ہو؟
رحمت اللہ پر واجب ہے: خود اللہ نے اپنے ذمے رحمت کو واجب و لازم گردانا ہے، کسی اور کی طرف سے نہیں۔ لہٰذا اشعریہ کا یہ عقیدہ قطعاً فاسد ہے، جو کہتے ہیں: اللہ پر کوئی شے واجب نہیں ہے۔ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے، مؤمنین کو جہنم اور کفار کو جنت بھیج سکتا ہے، البتہ ایسا کرنے کا اللہ عادی نہیں ہے۔یہ اشاعرہ عقیدہ باطلہ ہے۔
انسان قیامت کا انکار کیوں کرتا ہے؟
معمولاً انسان چاھتا ھے کہ اس دنیا میں بغیر کسی قید و بند کے آزاد زندگی گزارے تاکہ جو چاھے کرے، جو چاھے سنے، دیکھے یا کھے۔ دوسری طرف، قیامت پر اعتقاد، عدالت الٰھی میں حاضری اور نامہٴ اعمال کا کھلنا اس کی زندگی کو محدود ومقید بنادیتا ھے اور ساتھ ھی ساتھ اس کو بعض قوانین واحکام پر بھی عمل کرنا پڑتا ھے ۔یھی وجہ ھے کہ انبیاء کی مسلسل تاکیدات کے باوجود قیامت کا انکار کیا جاتا رھا ھے۔
اٴیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اٴَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَه، بَلیٰ قَادِرِیْنَ عَلیٰ اٴَنْ نُسَوِّیَ بَنَانَه، بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ لِیَفْجُرَاَمَامَه
کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے؟ہاں! (ضرور کریں گے) ہم تو اس کی انگلیوں کی پور بنانے پر بھی قادر ہیں۔
ھویٰ و ھوس کی پیروی ھی باطل پرستوں کے لئے قیامت اور اس کے وقوع پذیر ھونے کے انکارکی باعث ھوتی ھے اور یہ لوگ مختلف بھانوں اور حیلوں کے ذریعے اس حقیقت سے بچنے کی کوشش کرتے رھتے ھیں۔کل کے ملحدوں اور آج کے نیچر پرستوں (مادہ پرستوں) کا یہ گمان ہے جب انسان کی ہڈیاں خاک میں مل جاتی ہیں تو کون انہیں دوبارہ زندہ کر سکتا ہے:
مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ﴿۷۸﴾ (۳۶ یٰسٓ: ۷۸)
ان ہڈیوں کو خاک ہونے کے بعد کون زندہ کرے گا؟
پھر یہ سوال بھی پیدا کرتے ہیں کہ جب ہڈیاں خاک بن کر دوسری ہڈیوں سے مل جائیں یا کسی جانور کی غذا بن کر اس کی ہڈیوں کا حصہ بن جائیں تو اللہ انہیں کیسے جدا کرے گا؟
بلکہ یہ سوال مزید آگے بڑھتا ہے کہ انسان کا جسم ہڈیوں سمیت ہمیشہ تحلیل ہوتا رہتا ہے اور انسان کے تحلیل شدہ عناصر کاربن کی شکل میں آ کر درختوں اور فصلوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ درختوں کے میووں اور فصلوں کو دیگر انسان اور جانور اپنی غذا کے طور پر کھا لیتے ہیں جس سے ایک انسان کے تحلیل شدہ عناصر دوسرے مسلم اور غیر مسلم انسانوں کے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح ہم دنیا میں ایک دوسرے کو کھا رہے ہوتے ہیں تو اللہ انہیں کیسے جدا کرے گا؟
۲۔ بَلٰی قٰدِرِیۡنَ: جواب میں فرمایا: ہم انسان کی انگلیوں کی پوروں کو بنانے پر قادر ہیں۔ اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ پوروں کے بنانے اور منتشر ہڈیوں کے جمع کرنے پر قادر ہونے میں کوئی قدر مشترک موجود ہے۔ یعنی پوروں کے بنانے پر قادر ہونے میں ایک دلیل ہے کہ اللہ منتشر ہڈیوں کو یکجا کر سکتا ہے۔ وہ دلیل کیا ہے؟ جواب دیا گیا ہے کہ انسان کی انگلیوں کی ساخت اللہ کی حکیمانہ تخلیق کی ایک اہم نشانی ہے۔ انگلیوں کی ساخت، اس میں چیزوں کو اپنے گرفت لینے کے لیے بند کرنے اور کھولنے کی صلاحیت، پھر ان انگلیوں کے ساتھ انگوٹھے کا کردار وغیرہ، دلیل ہے کہ یہ ذات ہڈیوں کے منتشر اجزا یک جا کر سکتی ہے۔
دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انسان کی پوروں میں موجود لکیریں ہر ایک کی مختلف ہوتی ہیں۔ کسی دو شخص کی آپس میں نہیں ملتیں لہٰذا جو ذات ہر ایک شخص کی شناخت دنیا میں پوروں کی لکیروں کے ذریعہ کروا سکتی ہے کیا وہ قیامت کے دن انسانوں کی ہڈیوں کی شناخت نہیں کر سکے گی۔
ہڈیوں کے ذرات جمع کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ذات کا قادر ہونا آج کے طالب علم کے لیے کوئی معمہ نہیں رہا۔ ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ دانہ جب خاک میں جاتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نے یہ سمجھ دی ہے کہ زمین کے بیسوں عناصر میں سے کس عنصر کو جذب کرنا ہے۔ اگر دانہ گندم کا ہے تو اس دانے کو پتہ ہے کہ کن عناصر کو جذب کر کے جوڑ دوں تو گندم بن جائے گی۔ اگر یہ دانہ مکئی کا ہے تو اسے علم ہے کہ مکئی اگانے کے لیے کن عناصر کو ملانا ہے۔ اسی طرح دنیا میں وجود میں آنے والے لاکھوں دانوں اور پودوں کا مختلف ہونا عناصر ترکیب کے مختلف کی وجہ سے ہے۔
یہ حقیقت کل کے سطحی لوگوں کے لیے دلیل ہے اور آج کے دانشوروں کے لیے بھی:
وَ اللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ الرِّیٰحَ فَتُثِیۡرُ سَحَابًا فَسُقۡنٰہُ اِلٰی بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحۡیَیۡنَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ کَذٰلِکَ النُّشُوۡرُ﴿۹﴾ (۳۵ فاطر: ۹)
اور اللہ ہی ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں پھر ہم اسے ایک اجاڑ شہر کی طرف لے جاتے ہیں پھر ہم اس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتے ہیں، اسی طرح (قیامت کو) اٹھنا ہو گا۔
وَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ وَ کَذٰلِکَ تُخۡرَجُوۡنَ﴿۱۹﴾ (۳۰ روم: ۱۹)
اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے اور اسی طرح تم بھی نکالے جاؤ گے۔
یعنی جس طرح خاک میں موجود عناصر جمع کر کے ہم سبزہ نکالنے پر قادر ہیں اسی طرح تمہارے ذرات جمع کر کے تمہیں زمین سے نکالنے پر قادر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جہاں دانہ اپنے مطلوبہ عناصر پہچان لیتا ہے وہاں کیا اللہ تعالیٰ انسان کے منتشر ذرات نہیں پہچان لے گا؟ فَمَا لَکُمۡ ۟ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ۔(۱۰ یونس: ۳۵)
پس قیامت کے حالات و واقعات سے متعلق آگاہی او رآشنائی کے لئے فقط ایک ہی راستہ اور ذریعہ ہے اور وہ ہے قرآن کریم اور اقوال معصومین علیھم السلام ۔اگر قرآن مجید سے رجوع کیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ قیامت کا رونماہونا اس کائنات کے نظام میں ایک بہت بڑا انقلاب لے کر آئے گا۔ ایسا انقلاب کہ یہ عالم ایک دوسرے عالم میں تبدیل ہو جائے گا۔ پھر تمام انسان، از اول تا آخر، دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اور اپنے اعمال کے نتائج کا مشاہدہ کریں گے۔

تاریخی مناسبت: ولادت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا
سیدہ زینب بنت علی ؑ کی ولادت 5 جمادی الاول 5ھجری یا 6 ھجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔
آپ سلام الله علیها کی ولادت کے وقت، پیغمبر خدا صلی الله علیه و آله سفر پر تھے، امیرالمؤمنین علیه السلام نے آپ کی نامگذاری کے لیے فرمایا:میں پیغمبر پر سبقت نہیں کرسکتا،یہاں تک کہ آنحضرت (ص) تشریف لائے اور وحی کے منتظر ہوئے، جبرئيل نازل ہوئے اور عرض کیا:اللہ آپ کو سلام کہتا ہےاور ارشاد فرماتا ہے کہ: اس دختر کا نام "زینب” رکھیئے ، کیونکہ اس نام کو ہم نے لوح محفوظ میں تحریر کیا ہے۔
پیغمبر(ص) نے حضرت زینب سلام الله علیها کو طلب کیا اوربوسہ لیا ،پھر فرمایا:میں حاضرین و غائبیں کو وصیت کرتا ہوں کہ اس مولود کا میری خاطر پاس و لحاظ رکھیں،بیشک یہ خدیجۂ کبری کی طرح ہے۔(خصائص الزینبیه ص60) رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے اس فرمان سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جس طرح جناب خدیجہ(سلام اللہ علیہا) نے اپنے مال سے اسلام کی حفاظت کی، اسی طرح جناب زینب(سلام اللہ علیہا) نے خود کو اسلام پر وقف کرتے ہوئے اس کا دفاع کیا۔
آپ کی ماں کا نام حضرت فاطمۃ الزھراء اور والد گرامی کا نام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیھم السلام ہے ۔آپ کی مدت زندگی اپنی ماں کے ساتھ تقریباً ۵ یا ۶ سال لکھی گئی ہے ۔۳ جمادی الثانی ۱۱ھجری کو اپنی مظلومہ ماں کی جدائی کا سامنا کرنا پڑا۔آپ کے شوھر کا نام عبداللہ بن جعفر تھا جو کہ آپ کے چچا کے بیٹے تھے ۔عبد اللہ بن جعفر تاریخ اسلام کے سخاوتمند اورمشھور انسان تھے ۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے بہت سے القاب اور کنیہ ہیں :
ان میں سے ایک عقیلہ بنی ھاشم ہے ، (یعنی اپنے خاندان بنی ہاشم میں بلند مرتبہ والی عقل مند خاتون )۔اسی طرح روایات میں یہ بھی نقل ہیں ،صدیقہ صغری ، عارفہ ، عالمہ، فاضلہ ، کاملہ،عابدہ آل علی۔حضرت زینب سلام الله علیها جب تک امیر المؤمنین مدینہ میں تھے آپ بھی مدینہ میں رہیں اور جب امیرالمؤمنین کوفہ منتقل ہوئے تو آپ بھی کوفہ چلیں گئی ۔ آپ کوفہ میں کوفہ کی خواتین کو دینی تعلیم دیتی تھیں ۔
حضرت علی علیہ السلام ۴۰ ھجری کو شھر کوفہ میں شھید ہو گئے تب حضرت زینب علیھا السلام کا سن تقریباً۳۵سال تھا اور ۱۰ سال بعد ۵۰ھجری میں امام حسن علیہ السلام شھید ہوگئے ۔
امام حسن علیہ السلام کی شھادت کے بعد ۱۰ سال ہی گزرے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا پہنچی اور اس غمناک اور مظلومانہ واقعہ کو دیکھنا پڑا ، بلکہ یوں کہوں کہ حضرت زینب علیھا السلام کی زندگی میں مصائب ہی مصائب تھے ۔بالخصوص واقعہ کربلا نے تو شہزادی کو ایک دو پہر میں بوڑھاکردیا اپنی آنکھوں کے سامنے بھائی بھتیجے اور بیٹوں کے لاشوں کو خوں میں غلطاں دیکھا،تب آپ کا سن ۵۵ سال تھا ۔
شھیدمطھری فرماتے ہیں کہ صبروتحمل وبردباری کا بہترین نمونہ اگر تاریخ اسلامی میں دیکھا جائے تو وہ سیدہ زینب علیھا السلام کی شخصیت ہے ۔ (حماسہ حسینی ج 2، ص 225) تایخ میں کوئی بھی خاتون ایسی نہیں گزری جو(سیدہ زھراء علیھا السلام کے بعد) جناب زینب سلام اللہ علیھا سے حلم اور بردباری میں بڑھ کر ہو ۔
آپ کی عبادت کی مثال یوں دی جاتی ہے کہ ساری زندگی حتی قید میں بھی آپ کی نماز شب قضا نہیں ہوئی ۔
ریاحین الشریعہ میں لکھا ہے کہ آپ کی عبادت اور شب زندہ داری ایسی تھی حتی ۱۱ محرم کی رات بھی آپ نے نماز شب قضا نہیں کی ۔
شھید مطھری فرماتے ہیں کہ شھزادی فصاحت اور بلاغت میں اس اعلی درجے پر فائز تھیں کہ جو خطبہ یزید کے دربار میں دیا دنیا کا بے نظیر خطبہ تھا ۔جو خطبہ کوفہ کے بازار میں دیا اس کے بارے میں امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں آپ عالمہ غیر معلمہ ہیں ۔
ابن اثیر لکھتا ہے : حضرت زینب فصاحت و بلاغت و زهد و عبادت و فضیلت و شجاعت و سخاوت میں اپنے بابا علی اور ماں فاطمہ علیہما لسلام پر تھیں ۔
جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کی عبادت کی عظمت کو روشن کرنے کے لئے امام حسین(علیہ السلام) کا اپنی بہن سے یہ کہنا کافی ہے کہ "اے بہن زینب مجھے اپنے رات کی نمازوں میں نہ بھولنا”، امام حسین(علیہ السلام) کے اس جملہ سے جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کی عظمت اور معرفت کو سمجھ سکتے ہیں[عوالم العلوم و المعارف والأحوال من الآيات و الأخبار الأقوال، ج:۱۱،ص:۹۵۴]۔
امام سجاد(علیہ السلام) آپ کی عبادت کی عظمت کو بتاتے ہوئے فرمارہے ہیں: «اِنَّ عَمَّتي زَيْنَب کانَتْ تُؤَدّي صَلَواتِها مِنْ قِيام، اَلفَرائِضَ وَ النَّوافِلَ، عِنْدَ مَسيرِنا مِنَ الکُوفَةِ اِلَي الشّامِ، وَ في بَعْضِ المَنازِل تُصَلّي مِنْ جُلُوسٍ… لِشِدَّةِ الجُوعِ وَ الضَّعْفِ مُنْذُ ثَلاثِ لَيالٍ لاَنَّها کانَتْ تَقْسِمُ ما يُصيبُها مِنَ الطَّعامِ عَلَي الاَطْفالِ، لِاَنَّ القَوْمَ کانُوا يَدْفَعُونَ لِکُلِّ واحِدٍ مِنّارغيفاً واحِداً مِنَ الخُبْزِ فِي اليَوْمِ وَ اللَّيلَة؛ یقنا میرے پھوپی زینب(سلام اللہ علیہا) کوفہ سے شام کے تمام راستوں میں نماز کھڑے ہوکر پڑھتی تھیں اور بعض مقامات پرتین رات کی بھوک اور کمزوری کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھتی تھیں کیونکہ وہ اپنے حصے کا کھانا بچوں میں تقسیم کر دیتی تھیں۔وہ ظالم لوگ ہم میں سے ہر ایک کو دن اور رات میں روٹی کا فقط ایک ٹکڑا دیتے تھے۔( عوالم العلوم ج:۱۱،ص:۹۵۴)
جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کے ان مصائب اور پریشانیوں میں اس طرح کی عبادت سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہم بھی اپنے آپ کو جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کی اتباع کرتے ہوئے خدا سے عبادت کے ذریعہ خدا سے اپنے رشتہ کو مضبوط کریں تاکہ مشکلات اور پریشانیوں میں خدا سے شکایت کرنے کے بجائے صبر سے کام لیتے ہوئے اس سے رشتہ کو اور مضبوط کریں۔

 

 

تمت بالخیر
٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button