سیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ

عصر حاضر کے مسلمانوں کے لئے درپیش مسائل اور ان کا حل سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی روشنی میں

مؤلف: حجۃ الاسلام مولانا نجیب الحسن صاحب
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ان مسلمانوں کا درخشاں دور ختم ہوگیا۔ کل یورپ کے گھٹتے ہوئے ماحول میں علم و حکمت کے چراغ روشن کرنے والے آج اپنے گہروں سے تاریکی کو دور کرنے کے لئے دیئے کے محتاج ہیں۔ کل جنہوں نے اپنے کرشماتی ذہنوں کو بروئے کار لاکر مغربی ممالک کو نور کی لہروں سے نہلا دیا تھا۔ آج وہی اپنے سماج کی تاریکیوں کو ختم کرنے کے لئے انہیں ممالک کے محتاج ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب اہل یورپ جہل و ظلمت بہرے معاشروں میں حیران و سرگرداں تھے اور مسلمانوں کو لالچ بہری نظروں سے دیکھتے تھے، وہ مسلمانوں کی کتب کا ترجمہ کرتے جو ان کی درسگاہوں کی زینت بنتی لیکن آج مسلم معاشرے کی ثقافتی و تعلیمی پسماندگی، اخلاقی بدحالی اور معاشی استحصال کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اغیار کی طرف سے سیاسی اور فوجی یلغار کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ بقول علاّمہ اقبال

دیروز مسلم از شرف علم سر بلند
امروز پشت مسلم و اسلامیاں خم است
اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا؟ اس کا علاج کیوں کر ممکن ہے؟
اس لئے کہ جو ہوا سو ہوا، اس کی وجہ ہماری غفلت رہی ہو یا اسلام سے دوری رہی ہو یا آپسی اختلافات لیکن اب اس کا علاج کیا ہے؟ آج کل کے دور میں جو حالات ہیں وہ بہت ہی سنگین صورت حال اختیار کر چکے ہیں۔ آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای آج کل کے حالات کا تقابل حضرت علی علیہ السلام کی حکومت سے کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آج کے دور کے حالات وہی ہیں جو حضرت علی علیہ السلام کے دور میں موجود تھے ہم موجودہ دور میں آپ کی نظر سے دنیا کی حقیقت اور سماج کی واقعیت کو دیکھتے ہوئے بے شمار مسائل کا حل کر سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں اس زمانے میں ہم ہر وقت سے زیادہ نہج البلاغہ کے محتاج ہیں۔

(کنگرہ بین المللی نہج البلاغہ مباحث و مقالات آیۃ اللہ خامنہ ای صفحہ 52)
حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای کی اس فرمائش کو مدنظر رکھتے ہوئے کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں کو درپیش بنیادی مسائل کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے اور پہر نہج البلاغہ اور سیرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کی روشنی میں ان مسائل کا قابل قبول حل پیش کیا جاسکے جو آج کے مسلمانوں کو درپیش ہیں۔
مسلمانوں کے موجودہ مسائل

تعلیمی پس ماندگی اور جہالت

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ قوموں کے عروج و زوال میں جو چیز کلیدی حیثیت کی حامل ہے وہ ان کی تعلیم ہے۔ اور ہمارا مشاھدہ یہ بتاتا ہے کہ جس قوم نے تعلیمی میدان میں قدم آگے بڑھائے ہیں اس نے اپنی تعلیم کی روشنی میں ترقی کی منزلوں کو بھی یکے بعد دیگرے طے کیا ہے اور جو قوم جہالت کا شکار رہی ہے وہ ہمیشہ ماندہ رہی ہے، تعلیم کی کس قدر اہمیت ہے؟ اور تعلیم قوموں کے لئے کون سا سرمایہ حیات ہے؟ اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ خود قرآن مجید کی بے شمار آیات اس کے والا مقام کا پتہ دے رہی ہیں، تعلیم کی اہمیت اور اس کی افادیت کو جس قدر مکتب اسلام نے بیان کیا ہے شاید ہی کوئی ایسا دین ہو جس نے تعلیم کے سلسلے میں اس قدر تاکید کی ہو۔

’’ھل یستوی الذین یعلمون و الذین لا یعلمون‘‘

(سورہ زمر، آیت 9)

لیکن افسوس جس قدر تعلیم کی تاکید اسلام کے اندر ہے اسی قدر مسلمان تعلیم سے بیگانہ ہیں۔
فقر و ناداری

تعلیمی پسماندگی اور جہالت کے علاوہ دوسرا مسلمانوں کا سب سے اہم مسئلہ فقر و ناداری ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جو دہیرے دہیرے پورے مسلم معاشرہ کے بدن میں سرایت کر رہا ہے اور اگر جلد اس کا علاج نہیں کیا گیا تو اس کے نتائج بہت ہی زیادہ سنگین ہونگے اس لئے کہ علم اقتصاد کے ماہرین کا خیال ہے کہ جس معاشرہ کی اکثریت ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔

(نگاہی بہ فقر و فقر زدائی از دیدگاہ اسلام نقل از انتھونی کربلا سٹر ظہور و سقوط لیبرالیزم صفحہ 374)
اختلاف و افتراق

کسی بھی قوم کی نابودی کے لئے اب اس سے زیادہ عذاب اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو وہ جہالت اور غربت و افلاس سے جوجہ رہی ہو اور دوسری طرف آپس میں اختلاف و افتراق کا شکار ہو، وہ چیز جس نے آج مسلمانوں کو بالکل بے بس بنا دیا ہے وہ آپس کا اختلاف ہے، سچ ہے قرآن نے کتنی اچھی تعبیر استعمال کی ہے:

”اگر تمھارے اندر اختلاف رہا تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ضعف و سستی تمھارے اندر پیدا ہوجائے گی اور تم کسی قابل نہ رہو گے‘‘۔

’’و اطیعوا الله و لا تنازعوا فتفشلوا و تذهب ریحکم‘‘

(سورہ انفال،آیت 46 )

مگر آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے قرآنی دستورات کو سرے سے نظر انداز کرتے ہوئے اس قدر اپنے اندر اختلاف پیدا کر لیا ہے کہ ہمارے اختلاف کی آگ میں استعمار اپنی روٹیاں سیک رہا ہے اور ہمیں دکھا دکھا کر کھا رہا ہے اور ہم فقر و ناداری میں میں تڑپ رہے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ یہ سب اختلاف کی وجہ سے ہورہا ہے۔ بقول سید جمال الدین اسدآبادی:

”اسلامی ممالک کو جو مرض لاحق ہے اس کی تشخیص کے لئے میں نے بہت فکر کی اور بہت سوچا آخر انجام میں نے پایا کہ مہلک ترین مرض تفرقہ ہے لیکن گویا مسلمانوں نے تنہا اس سلسلہ میں اتحاد کیا ہے کہ متحد نہ ہوں۔“

(یادنامہ سید جمال الدین، ج1 مقالہ دکتر عثمان امین، ص 239)
امام خمینی اسی تفرقہ کے سلسلے میں فرماتے ہیں:

”تفرقہ آج کے دور میں اسلام سے خیانت ہے چاہے وہ کسی بھی عنوان کے تحت ہو‘‘۔

(صحیفہ نور ج8 ص 43)
قرآنی تعلیمات سے دوری

قرآنی تعلیمات کی فراموشی نے ہی آج مسلمانوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ انہیں خود بھی نہیں معلوم واپس جانے کا راستہ کیا ہے چنانچہ امام خمینی مسلمانوں کی مشکلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل اسلام اور قرآنی تعلیمات  سے دوری ہے۔“

(شناخت کشورہای اسلامی، غلام رضا، ص36)
بدعتوں کا رواج

مسلم معاشرہ آج جن ان گنت مسائل سے دوچار ہے ان میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بدعتوں کو ہم نے اپنے پورے سماج میں یوں رچا بسا لیا ہے گویا ہمارے لئے کوئی ایسی کتاب نازل ہی نہیں ہوئی جو ہمارے لئے آئین زندگی کی حیثیت رکھتی ہو، جو ہمارے لئے مشعل راہ ہو بلکہ جو کچھ ہے وہ تمام کی تمام وہ چیزیں ہیں جنہیں ہمارا تقلیدی ذہن ہمیں انجام دینے پر اکساتا ہے اور ہم دین سے بے خبر بنا ساچے سمجھے انہیں شریعت کا جز بنا کر انجام دیتے رہے ہیں چنانچہ شہید مطہری اسی مشکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”انواع تحریف میں سب سے خطرناک تحریف، دینی اسناد، آسمانی کتب، احادیث اور سیرت پیمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تحریف ہے “۔

(آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی ص 29)
لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ جس جگہ بھی کسی بھی عنوان کے تحت کوئی ایسا نعرہ بلند ہوتا ہے جو ہمیں اچھا لگتا ہو تو فوراً اسے اپنا شعار بنا لیتے ہیں حتیٰ دین میں داخل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور بے جا تحلیل اور تفسیر کرکے یہ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں کہ یہ چیز تو پہلے سے ہی اسلام میں موجود تھی کوئی نئی چیز نہیں جبکہ اسلام اس طرح کی چیزوں کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتا ہے۔

’’اذا ظهرت البدعة فی امتی فلیظهر العالم علمه و الاّ فعلیه لعنة الله و الملائکة و الناس اجمعین‘‘

(آسیب شناسی فرہنگی جوامع اسلامی نقل از سفینۃ البحار ج1 ص63)
ان تمام مسائل کو دیکھنے کے بعد ہر احساس رکھنے والا انسان جو ایسے سماج اور معاشرہ سے تعلق رکھتا ہے کہ جس کے اندر لاتعداد ایسے مسائل ہیں جو سماج کو آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں لیکن ان کا کوئی حل کہیں نظر نہیں آرہا، حیران و سرگرداں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہے کہ کل کیا ہوگا؟ اور ہمارا یہ معاشرہ اور سماج یوں افسردہ و ساکت ہے جیسے فرشتہ موت کے گہرے گہرے سانسوں نے اسے کہر آلود بنا دیا ہو، کسی جنگ کے دیوتا نے بڑہ کر اپنی خونخوار انگلیوں سے اس کی نبض تھام لی ہو، دور دور تک سناٹا چھایا ہوا ہے! ظلمت و تاریکی کے امنڈتے ہوئے بادل ماحول کو خوفناک بنانے پر تلے ہیں ساتھ ہی ظلم و استبداد کی آندھیاں گو کہ ہر شیٴ کو متلاشی کر دینے کے در پئے ہیں ایسے میں کہیں کوئی ٹمٹماتا دیا بھی تو نہیں جس کی روشنی میں اپنی منزل کا پتہ لگایا جاسکے لیکن اسی تاریکی و ظلمت کے مہیب سناٹے میں ایک آواز ہے جو بار بار ہمیں اپنی طرف متوجہ کررہی ہے گوکہ کوئی چراغ تاریخ اور زمانے کے دبیز پردوں کے پیچہے سے ہماری حالت دیکھ رہا ہو اور اپنے نور سے ہمیں ھدایت کا راستہ دکھانا چاہتا ہو“۔ میں تمہارے درمیان اس چراغ کی مانند ہوں کہ تاریکی میں بھی اگر کوئی اس سے قریب ہوتا ہے تو اس کے نور سے استفادہ کرتا ہے اے لوگو! میری باتوں کو سنو اور یاد رکہو اور دل کے کانوں کو کہول کر سامنے لاوٴ تاکہ سمجھ سکو۔

’’انما مثلی بینکم مثل السراج فی الظلمة یستضیئی به من ولجها فاسمعوا ایها الناس و عوا و احضروا آذان قلوبکم تفهموا‘‘

(شرح نہج البلاغہ علامہ محمد تقی جعفری ج9، نہج البلاغہ ترجمہ و حواشی علامہ مفتی جعفر حسین ص 514)

’’ یہ آواز کسی اور کی نہیں بلکہ اس چراغ ھدایت کی ہے کہ ظلمتوں نے مل کر جس کا گلا گھوٹنا چاہا لیکن ناکام رہیں لیکن افسوس کا مقام اس وقت ہوگا جب اس چراغ ہدایت سے ہم کچھ حاصل نہ کرسکیں تو آئیے چلتے ہیں در باب العلم پر اور اپنے مسائل کا حل ڈھونڈتے  ہیں۔
ہمارے مسائل کا حل

تحصیل علم

یہی وہ راہ ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ہم اپنی تعلیمی پس ماندگی کو دور کرسکتے ہیںاور معاشرے میں سر اٹھا کر جی سکتے ہیں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’العلم اصل کل خیر‘

’’علم ہر اچھائی کی بنیاد ہے‘‘۔
’’اکتسبوا العلم یکسبکم الحیات‘‘

’’ تم علم حاصل کرو علم تمہیں زندگی عطا کرے گا‘‘۔
’’ایها الناس اعلموا انّ کمال الدین طلب العلم و العمل به‘‘

’’ اے لوگو! جان لو کہ دین کا کمال یہ ہے کہ علم حاصل کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے‘‘۔

(غرر الحکم، باب علم)
’’الحکمة ضالة الموٴمن فخذ الحکمة و لو من اهل النفاق‘‘

’’حکمت مومن کی گمشدہ چیز ہے پس حکمت کو لے لو چاہے اھل نفاق سے ہی کیوں نہ ہو‘‘۔

( کافی ج1، ص 35)
اور خود حضرت علی علیہ السلام کی سیرت یہ رہی ہے کہ آپ نے بے شمار شاگردوں کی تربیت کی۔ بقول ابن ابی الحدید:

”علوم کے سارے سرچشمہ آپ ہی کی ذات پر منتھی ہوتے ہیں۔“

(ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ)
آپ تعلیم و تعلم کے اس قدر شیدا تھے کہ تاریخی کتب میں ملتا ہے کہ میدان جنگ میں بھی اگر کوئی سپاہی آپ سے کوئی سوال کرتا تو آپ اسے فوراً جواب دیتے اور اس کے فکری شبھات کا ازالہ کرتے۔

( امام علی علیہ السلام و مباحث اعتقادی، ص 32)

حتی اگر ایک ہی سوال آپ سے کئی بار بھی ہوتا تو بھی آپ جواب دینے میں کوئی تامل نہیں کرتے اور جس حالت میں ہوتے اسی حالت میں جواب دیتے چنانچہ جنگ جمل میں ایک سپاہی نے آپ سے خدا کی وحدانیت کے بارے میں سوال کیا تو لشکریوں نے اسے ٹوکا اور کھا یہ کون سی سوال کرنے کی جگہ ہے؟ تو امام نے جواب دیا:

”دعوه فانّ الّذی یریده الا عرابی هو الّذی نریده من القوم“

(وہی مدرک)
”سلونی سلونی قبل ان تفقدونی“

یہ وہ جملہ ہے جسے تاریخ کبھی بھلا نہیں پائے گی، آپ کی نظر میں تعلیم کس قدر اہمیت ہے اس کا اندازہ ان روایات سے لگایا جاسکتا ہے۔

(الف) ’’ ایها الناس انّ لی علیکم حقا و لکم علیّ حق فامّا حقکم علیّ فالنصیحة لکم و توفیر فیئکم علیکم و تعلیمکم کی لا تجهلوا و تاٴدیبکم کیما تعلموا‘‘

(نہج البلاغہ، خطبہ)

’’اے لوگو! ایک حق میرا تمھارے اوپر ہے اور ایک حق تمھارا میرے اوپر ہے۔ تمھارا حق جو میرے اوپر ہے وہ یہ کہ میں تمہیں نصیحت کروں اور تمھاری معیشت کو نظم بخشوں اور تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاھل نہ رہ جاوٴ ‘‘۔

ان روایات سے بخوبی اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ علی کی زندگی میں تعلیم اولین درجہ کی اہمیت رکھتی ہے نیز یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ حاکم کا جس طرح اپنی رعیت پر حق ہوتا ہے اسی طرح رعیت کا حاکم پر بھی حق ہوتا ہے، جس میں ایک تعلیم ہے، علم کی اس قدر تاکید کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ ایک عالم انسان کا علم اسے افراط و تفریط کا شکار ہونے سے روکتا ہے کیونکہ افراط و تفریط دو ایسی آفات ہیں جو دین کو اس کی اصلی راہ سے ھٹاکر دین کی نابودی کا باعث بنتی ہیں اور افراط و تفریط وہیں ہوتی ہے جہاں جہل ہوتا ہے۔

’’لاتری الجاهل الّا مفرطاً اٴو مفرّطا‘‘

(نہج البلاغہ، حکمت70)
تعلیم کے لئے سب سے مفید وقت

نہ صرف یہ کہ مولائے کائنات علیہ السلام نے تعلیم کی افادیت کے پیش نظر اپنے حکیمانہ اقوال سے بنی نوع بشر کو تعلیم کی طرف متوجہ کیا ہے بلکہ بتایا ہے کہ تعلیم و تربیت کے لئے سب سے اچھا وقت کون سا ہوسکتا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

جوان کا دل ایک خالی زمین کی مانند ہے جو دانہ بھی اس میں ڈالیں وہ اسے قبول کر لے گا۔“

’’و انّما قلب الحدیث کالارض الخالیة ماالقی فیها من شیٴ قبلته‘‘

( اما م علی علیہ السلام و امور معنوی و عبادی، ص 28)
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:

”فبادرتک بالادب قبل ان یقسو قلبک و یشتغل لبّک لتستقبل بجدّ راٴیک من الاٴمر‘‘
’’میں نے تمہاری تعلیم و تربیت میں جلدی کی اس سے قبل کہ تمہارا قلب سخت ہوجائے تمہاری عقل فکر کو دوسرے امور میں مشغول کردے“۔

(وہی مدرک)

حضرت علی علیہ السلام کے دھان مبارک سے نکلے ہوئے یہ کلمات ان تمام افراد کے لئے مشعل راہ ہیں جو اپنے بچوں کے لئے ایک خوشگوار مستقبل کا خواب دیکھ رہے ہیں اس سے قبل کہ ان کے بچوں کے دل سخت ہوجائیں دینی معارف اور تمام وہ باتیں جو ان کے مستقبل کے لئے مفید ثابت ہوسکتی ہیں انہیں تعلیم دے دینی چاہئیں۔
 سالم اور بہتر معیشت کے لئے جد و جہد

آج ہمارے سماج اور معاشرے میں کچھ ایسے افراد بھی ہیں کہ جو معیشت کو بہتر بنانے کے لئے بھاگ دوڑ کو دنیاداری سے تشبیہ دیتے ہیں اور ان کا خیال یہ ے کہ اس چند روزہ زندگی کے لئے بھاگ دوڑ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے تو جو کچھ بھی روکھی سوکہی ملے اسی پر گزر بسر کرلینا بہتر ہے اور اپنے زعم میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہی زہد ہے جبکہ ان کے لئے بہترین ذریعہٴ معاش کا فراہم ہے اگر وہ چاہیں تو ایک خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں لیکن وہ اسے دنیاداری سے تعبیر کرتے ہوئے فرار اختیار کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے امام علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

’’لیس منا من ترک الدنیا لآخرة ‘‘

(من لا یحضرہ الفقیہ ج3، ص156)

اور حقیقی زہد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’الزھد بین کلمتین من القرآن قال الله سبحنه لکی لاتاٴسوا علی مافاتکم و لا تفرحوا بما آتاکم و من لم یائس علی الماضی و لم یفرح بالآتی فقد اخذ الزهد بطرفیه‘‘

(نہج البلاغہ فیض الاسلام، حکم)

بلکہ ان افراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنہوں نے دنیا کی نعمتوں سے بھی استفادہ کیا اور اپنی آخرت بھی سنوار لی آپ فرماتے ہیں:

’’ ان المتقین ذهبوا بعاجل الدنیا آجل الاجل الآخره۔۔ سکنوا الدنیا فافضل ماسکنت و اکلوها مااکلت فحظوا من الدنیا بما حظی به المعترفون ‘‘

(نہج البلاغہ فیض الاسلام، مکتوب 27)
جہاں کچھ ایسے متدین افراد ہیں کہ جو زہد کے معنی کی غلط تفسیر کرتے ہوئے دنیا کی نعمتوں کو خود پر حرام کرلیتے ہیں اور نتیجۃ فقر و ناداری میں زندگی بسر کرتے ہیں وہیں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں کہ جو اپنے لئے بڑے بڑے افعال و امور کا تصور ذہن میں لئے بیٹھے رہ جاتے ہیں اور معیشت کی طرف توجہ نہیں دے پاتے کیونکہ وہ چھوٹے موٹے کاموںکو اپنے لئے بے عزتی کا سبب سمجھتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے کام کی تلاش میں یوں ہی بیٹھے بیٹھے عمر گزر جاتی ہے اور کوئی بھی کام ہاتھ نہیں آتا ہے جب کہ یہی افراد اگر حضرت علی علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کریں تو انہیں معلوم ہوگا کہ آپ معیشت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے تھے۔
جب ہم حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ملتا ہے:
’’کان اٴمیر الموٴمنین یضرب بالمرّ و یستخرج الاٴرضین‘‘

’’علی علیہ السلام بیلچہ چلاتے اور زمین کی نعمتوں کو آشکار کرتے تھے‘‘۔  

( فروع کافی ج5، ص74)
’’درخت کاری و زراعت کرتے تھے اور کنوئیں کھودتے تھے‘‘۔

(فروع کافی، ج5، ص 75)
کسی نے آپ کے ہاتھوں ایک من خرمے کی گٹھلیاں دیکھیں تو سوال کیا کہ اے امیر المومنین!علیہ السلام ان کا کیا مصرف ہے؟ آپ نے جواب دیا خداوند متعال کے اذن سے ان گٹھلیوں سے خرمے کے درخت تیار کرونگا اور پھر آپ نے ان سے ایک نخلستان بنایا اور اسے راہ خدا میں وقف کردیا“۔

(وسائل الشیعہ، ج13، ص 203)
ایک بوڑھا شخص فقیری کر رہا تھا آپ نے پوچھا کون ہے؟ جواب ملا نصرانی ہے آپ نے حکم دیا اسے بیت المال سے کچھ خرچ کے لئے دے دو

(مناقب، ج1، ص 321)
آپ کی حکومت کے دوران عمومی رفاہ کا یہ حال تھا کہ کوفے میں رھنے والا غریب سے غریب شخص بھی گیہوں کی روٹی کھاتا اور اس کے سر پر چھت کا سایہ رھتا تھا

 ’’استعملتموه حتیّ اذا کبر و عجز منعتموه اٴنفقوا علیہ من بیت المال‘‘

( تجلی امامت نقل از المصدر، ص 206)
فقر و ناداری کے بارے میں آپ کے اقوال یقیناً ہمارے معاشرے کے لئے رہ گشا ثابت ہوسکتے ہیں۔ کہیں آپ نے فقیری کو موت سے تعبیر کیا ہے تو کہیں فقیری کو اپنے وطن میں غربت قرار دیا ہے۔ آپ کی نظروں میں معیشت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ جھاں آپ نے اپنی وصیت میں اور دوسری باتوں کی طرف اپنے فرزندوں کو متوجہ کیا ہے وہیں اس طرف بھی ان کو متوجہ کیا ہے کہ ان کی معیشت کبھی خراب نہ ہو۔

’’مااصبح بالکوفة اٴحد الاّ ناعما اٴنّ اٴدنی ہم منزلة لیاٴکل البرّ و یجلس فی الظلّ و یشرب من ماء الفرات‘‘

(مناقب آل ابی طالب، ج2، ص 99)
فقیری سے کیسے بچا جائے؟

آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی میانہ روی اختیار کرتا ہے میں اس کی ضمانت لیتا ہوں کہ وہ کبھی فقیر نہیں ہوسکتا
آپ  فقیری سے بچنے کا علاج بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’اتجروا بارک الله لکم‘‘

(الفقر موت الاٴکبر۔ نہج البلا غہ  کلمہ  163)
’’انّ معایش الخلق خمسة الامارة، و التجارة، الاجارة، و الصدقات‘‘

’’تجارت کرو کہ تجارت تمہیں لوگوں سے بے نیاز کردیگی حتیٰ ذریعہ معاش کی اقسام کو بیان کرتے ہوئے آپ زریعہ معاش کو پانچ حصوں میں تقسیم کرتے ہیں‘‘۔

(وسائل الشیعہ، ج12، ص4)

علی علیہ السلام کی نگاہ میں فقر کے عوامل

’’مامنع فقیر الاّ متّع بہ غنی ‘‘

’’کوئی بھی فقیر اپنے معاش سے محروم نہیں ہوتا مگر یہ کہ ایک غنی اس کے مال میں تصرف کرلیتا ہے‘‘۔

(علامہ محمد تقی جعفری شرح نہج البلاغہ، ج10، ص 26)
’’جو شخص اپنے کام کی زحمت کو نہیں برداشت کرسکتا وہ فقیری کو تحمل کرنے کے لئے آمادہ ہوجائے ‘‘۔

(الحیات، ج4، ص 319)
’’اوقات کو تنظیم نہ کرنا اور کسی وقت جو دل میں آئے وہ کام کرنا ‘‘۔

(الحیات، ج4، ص 33)
’’سوء تدبیر فقر پیدا کرتی ہے‘‘۔

(الحیات، ج4، ص 32)
علی علیہ السلام کی نگاہ میں غربت کے اثرات

’’حقارت ! لوگ فقیر کو فقیر کی بناپر حقیر سمجھتے ہیں‘‘۔
’’فقیر کو بہت چھوٹا سمجھا جاتا ہے اور اس کی بات ان سنی کردی جاتی ہے‘‘۔
’’فقیری ایک انسان کو استدلال کے وقت گنگ بنا دیتی ہے‘‘۔

(الحیات، ج4، ص 286)
جہاں حضرت علی علیہ السلام کی پوری زندگی فقر و ناداری کے خلاف جھاد میں گزری وہیں آج مسلم معاشرے کی اکثریت فقر و ناداری کا شکار ہے جس کی ایک وجہ خود ہماری سستی اور کام سے فرار ہوسکتی ہے جب کہ حضرت علی علیہ السلام معیشت کو سدھارنے کے لئے طاقت فرسا کام انجام دینے سے گریز نہیں کرتے تھے اور آپ لوگوں کی معیشت کو سنوارنا خود پر لوگوں کا حق سمجھتے تھے ۔
(علامہ تقی جعفری، شرح نہج البلاغہ، ج9، ص 25)

اب یہ ہمارے معاشرے کے پڑہے لکھے طبقے کا کام ہے کہ آئے اور بیٹھ کر اپنے معاشرے میں فقیری کی وجوہات تلاش کرے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرے اس لئے کہ جب تک یہ مشکل حل نہیں ہوجاتی معاشرہ مزید فقر و ناداری کے دلدل میں پھنسا جائے گا۔ ماہرین اقتصادیات کے بقول فقر، فقر پیدا کرتا ہے

(نگاہی بہ فقر زدائی از دیدگاہ اسلام ص 34)

’’لہذا اس کا ایک حل ہونا چاہیئے جب کہ فقیری ضعف ایمان کا باعث بھی ہے‘‘۔

(الحیات، ج4، ص 309)

اس لئے کہ اگر اس کا حل خود قوم کے افراد نہیں کریں گے تو پہر کون کرے گا؟ خدا نہ کرے علی علیہ السلام کی آواز صدا بہ صحرا ہو کر رہ جائے جس میں انہوں نے فقراء کی دسترسی اور ان کی دیکھ بھال کے لئے فرمایا:

’’ الله الله فی الطبقة السفلیٰ من الذین لا حیلة لهم‘‘

(نہج البلاغہ مکتوب 53)
اتحاد و ہم دلی

امام خمینی فرماتے ہیں: ”اگر مسلمان خداوند متعال کے اس فرمان کے مطابق کہ جس میں کھا گیا ہے و اعتصموا بحبل اللہ جمیعاً و لاتفرقوا پر عمل کرے تو ان کی تمام مشکلات حل ہو جاتیں اور کوئی بھی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی‘‘۔

(شناخت کشور ہائے اسلامی ص36)

اپنی تمام صفوف کے اندر یک جہتی پیدا کرکے اور آپسی رواداری کو فروغ دے کر بھی ہم آپس کے اختلافات کو ختم کر سکتے ہیں اس لئے کہ افتراق و اختلافات کسی بھی طرح ہمارے فائدے میں نہیں ہیں اور اگر ہم حضرت علی علیہ السلام کی سیرت کا اس زاویہ سے جائزہ لیں کہ آپ نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کئے تو ہمیں آپ کی زندگی سراپا جہاد نظر آئے گی۔ آخر ہم کب تک تشنہٴ اتحاد عروس زندگی کو آپسی اختلافات کے نتیجے میں بھنے والے لہو کی سرخی و غازہ لگاتے رہیں گے؟ کیا ہماری زندگی یوں ہی اختلافات میں گزر جائے گی؟ اگر ہم علی علیہ السلام کے ماننے والے ہیں تو ہمارا تعلق چاہے جس مسلک سے ہو اگر ہم آپ کی زندگی سے کچھ حاصل کرنا چاھتے ہیں تو ہمیں دشمن کی نیرنگی چالوں سے بچنے کے لئے اپنے اندر اتحاد پیدا ہی کرنا ہوگا ورنہ ہم اسی طرح دنیا کو متحرک رکھنے کے لئے اپنا قیمتی سرمایا لٹاتے رہیں گے اور دشمن ہمیں گروہوں اور فرقوں میں بانٹتا رہے گا اور ہمارے درمیان اپنے تخت و تاج کی خاطر بغض و عناد کی اونچی دیواریں چنتا رہے گا اور ہمیں اس قدر بے بس کردے گا کہ ہم اسی میں محصور ہوکر رہ جائیں اس لئے کہ اتحاد وہ طاقت ہے جس کے ذریعہ ہم دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کی ہر دھمکی کا جواب دے سکتے ہیں چنانچہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

”دیکھو وہ آپ میں متحد تھے تو ان کی حالت کتنی بہتر تھی مضبوط ارادے تھے آیا اس وقت وہ دنیا پر حاکم نہیں تھے؟“

’’فانظروا کیف کانوا حیث کانت الاٴملاء مجتمعة و الاٴهواء موٴتلفة و القلوب معتدلة۔۔ اٴ لم یکونوا اٴربابا فی اقطار الاٴرضین و ملوکا علیٰ رقاب العلمین؟‘‘

(نہج البلاغہ  خطبہ 192)
’’گذشتہ امتوں کی عزت و شوکت کا راز بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تم پر لازم ہے کہ تفرقہ و اختلاف سے دوری اور ایک دوسرے کو اتحاد کی ترغیب اور ان تمام امور سے اجتناب جن سے قدرت ضعیف ہو جائے ‘‘۔

’’من الاجتناب الفرقة و اللزوم الاٴلفة و التخاض علیها و التواصی بها و الجتنبوا کلّ اٴمر کسر فقرتهم‘‘

(وہی مدرک)

حتیٰ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: جو تفرقہ اندازی کرے وہ قتل کا سزاوار ہے چاہے یہ تفرقہ اندازی مجہ سے ہی کیوں نہ سرزد ہو‘‘۔

’’ فاقتلوه و لو کان تحت عما متی ھذہ‘‘

(نہج البلاغہ خطبہ127)

خود اپنی عملی زندگی میں اتحاد کی خاطر جو فداکاریں انجام دیں وہ کسی بھی صاحب بصیرت کے لئے پوشیدہ نہیں۔ آپ کا 52سال تلخ سکوت خود پکار پکار کر آواز دے رہا ہے کہ میری خاموشی کا راز اتحاد ہے۔ چنانچہ جب ابوسفیان نے آپ سے کہا کہ علی علیہ السلام اپنے حق کے لئے کھڑے ہو کر کہو تو میں مدینہ کی گلیوں کو سواروں اور پیادوں سے بہر دوں تو آپ نے جواب دیا کہ مجھےتمھاری مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

( طبری ج2 ص449، خلافت و ملوکیت، ابو العلاء مودودی ص104)

حضرت علی علیہ السلام کی سیرت اور آپ کے اقوال کی روشنی میں یہ تو واضح ہوگیا کہ اتحاد کس قدر اہمیت کا حالم ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ نے اتحاد کے لئے کس قدر قربانیاں دیں ہیں اب یہ ہمارے اوپر موقوف ہے کہ ہم علی علیہ السلام کی قربانیوں کو کس قدر محترم رکھتے ہیں؟ اگر ہمیں علی علیہ السلام کی قربانیوں کا کچھ پاس و لحاظ ہے تو آج ہمیں ایک پرچم تلے جمع ہوکر علی علیہ السلام سے وفاداری کا اعلان کرنا چاھئے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس ایک مرکزیت ہو، امام علیہ السلام فرماتے ہیں: ”امت میں حاکم کا مقام دھاگے کی طرح ہے جو سارے دانوں کو پروئے ہوئے اور متحد کئے ہوئے ہے لیکن جب یہ رشتہ ٴ اتحاد ٹوٹ جاتا ہے تو سارے دانے بکھر جاتے ہیں اور پھر کسی صورت جمع نہیں ہوسکتے۔“

(نہج البلاغہ خطبہ 146)
حضرت علی علیہ السلام کے اس حکیمانہ قول سے یہ واضح ہوتا ہے کہ معاشرہ و سماج ایک سرپرست و رہبر کا محتاج ہے جو لوگوں کو نظریاتی و طبقاتی اختلاف اور تفرقہ و جدائی کے عوامل سے نجات دلاکر ایک مرکز پر جمع کرسکے اور افتراق و اختلاف کے شگافوں کو پر کرکے طبقاتی دیواروں کو تدبیر کے تیشوں سے ڈھاکر توحید کے پرتو میں اتحاد کا پرچم لہرا سکے۔ راہ حل مل گیا لیکن اب ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ایسا شخص کون ہوسکتا ہے؟


 قرآنی تعلیمات پر عمل

آج جس قرآن کو ہم نے غلافوں میں بند کرکے الماریوں اور طاقوں کی زینت بنا دیا ہے اس کے بارے میں ہمارے دشمن کا خیال یہ ہے:

”ہمارے اوپر واجب ہے کہ ہم اسلام کے مہلک ترین اسلحے، قرآن کی خدمات حاصل کرسکیں تاکہ اسلام کو مٹایا جاسکے۔“۔

(التبشیر و الاستعمار فی البلاد العربیہ ص40)

گلادسٹرون برطانیہ کا یہودی النسل سابق وزیر اعظم پالمینٹ میں یہ جملے کھتا نظر آتا ہے: اسلامی دنیا پر تسلط کے لئے ضروری ہے کہ ہم دو چیزوں کو نابود کریں 1۔ قرآن 2۔ کعبہ ۔“ ۔

( شناخت قرآن، سید علی کمالی ص18)

’’وہ کتاب جس کے لئے خداوند متعال فرما رہا ہے‘‘۔

(سورہ ابراہیم، آیت 1)

آج دشمن اسی کتاب کو اسلام کو مٹانے کے لئے استعمال کررہا ہے اور ہم اسلام بچانے کے لئے اس کتاب کا صحیح استعمال نہیں کرپا رہے ہیں جب کہ اگر ہم اس کا صحیح استعمال کریں تو ہمارے معاشرے سے برائیاں خود بخود ختم ہوجائیں گی اس لئے کہ قرآن ہر درد کی دوا ہے۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن سے اپنی بیماریوں کے لئے شفا طلب کرو اور اس کی مدد سے اپنی مشکلات حل کرو اس لئے کہ قرآن بڑے بڑے دردوں کی دوا ہے قرآن درد کفر و ضلالت اور درد گمراہی کی دوا ہے۔

’’ فاستشفوه من عدوائکم و استعینوا به علیٰ الآوئکم فانّ فیہ شفاء من اکبر الداء و هو الکفر و النفاق الغیّ و الضلال‘‘

(نہج البلاغہ، خطبہ174)

دوسری جگہ فرماتے ہیں:

(نہج البلاغہ خطبہ 174)
 بدعتوں سے مقابلہ

آپ نے اس وقت بدعتوں سے مقابلہ کے لئے کمر ہمت باندگی جب عالم یہ تھا کہ دین اشرار کے ھاتہوں میں کٹھ پتلی بنا ہوا تھا

’’فانّ هذا الدین کان اسیرا فی اٴیدی الاشرار یعمل فیه بالهواء و تطلب به الدنیا‘‘

(نہج البلاغہ، خطبہ 122)

آپ بدعت کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’کوئی بھی بدعت پیدا نہیں ہوتی مگر یہ کہ ایک سنت ترک کرنے کا باعث ہوتی ہے‘‘۔

’’و ما اٴحدثت بدعة الاّ ترک بها السنّة‘‘

( تقی جعفری نہج البلاغہ ج24، ص166)

حسن بصری کو حضرت علی علیہ السلام نے بدعتوں کے رواج ہی کی بنیاد پر مسجد سے خارج کیا تھا اور اسی بنیاد پر آپ نے اسے اپنی امت کا سامری اور شیطان کا بھائی کہا تھا۔

(الکتّانی التراتیب الاداریہ، ص272۔)
بدعتوں کو کیسے ختم کیاجائے؟

امر بالمعروف و نہی از منکر اسلام کا ایسا حکم ہے جس پر اگر صحیح صورت میں عمل ہو تو ہمارے سماج سے بدعتوں کا رواج ختم ہوسکتا ہے اس لئے کہ یہ وہ فریضہ ہے جس کے بارے میں مولا فرماتے ہیں کہ

’’امر بالمعروف و نہی از منکر کو ترک نہ کرو! اس لئے کہ یہ فریضہ اگر ترک ہوگیا تو اشرار تمہارے اوپر مسلط ہوجائیں گے اور پھر تمہاری دعائیں قبول نہ ہوں گی ‘‘۔ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ خداوند متعال نے گذشتہ قوم پر اس لئے ملامت کی کہ انہوں نے امر بالمعروف و نہی از منکر کو ترک کردیا تھا۔
یہ چند وہ بنیادہ مسائل تھے جن کا حل سیرت امیر المومنین علیہ السلام اور ان کے اقوال کی روشنی میں پیش کیا گیا لیکن اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کے مسائل اس سے کہیں زیادہ ہیں جنہیں بیان کیا جاسکے لیکن اگر مسلمانوں کے تمام مسائل کی اصل وجہ ڈھونڈی جائے تو شاید جستجو اور تحقیق کے بعد یہی وجہ کھل کر سامنے آئے کہ مسلمانوں کے تمام مسائل کی اصل وجہ مکتب اہل بیت علیہم السلام سے دوری ہے اسی لئے کسی اور کے پاس جانے کے بجائے ہم اپنے تمام مسائل کا حل اس ذات کی زندگی کے اندر تلاش کریں جس کی نمونہ عمل زندگی کی ہر سانس زندگی بخش ہے اور جس کا کلار رہتی دنیا تک بنی نوع بشر کے زخموں کے لئے مرہم بنتا رہے گا۔
اب تک جن مسائل کا تذکرہ کیا گیا وہ ایسے بنیادی مسائل تھے جن کا تدارک سیرت امیر المومنین علیہ السلام کی روشنی میں خود باآسانی کیا جاسکتا ہے لیکن چند ایسے مسائل بھی ہیں جن کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی صفوں کو آمادہ کریں ان ظالم حکام سے جہاد کے لئے جو اسلامی معاشروں کی زبوں حالی کے اصل ذمہ دار ہیں اگر ان کے سیاہ کرتوت نہ ہوتے تو شاید ہمارے مسائل اتنے زیادہ نہ ہوتے کچھ ایسے افراد کے بارے میں مولائے کائنات فرماتے ہیں:

” لیکن مجھےافسوس ہے اس بات کا کہ اپنی املاک اور اس کے بندوں کو اپنا غلام بنالیں گے خدا کے صالح بندوں سے برسر پیکار رہیں گے اور بدکرداروں کے ساتھ اپنا گروہ تشکیل دیں گے“۔

’’ و لکن آسی اٴن یلی اٴمر هذہ الاٴمة سفهاء ها و فجّارها فیتخذوا مال الله دولا و عباده خولا و الصالحین حربا و الفاسقین حزبا فانّ منهم الذی قد شرب فیکم الحرام‘‘

( نہج البلاغہ، مکتوب62)
مولا کے ان حکیمانہ کلمات سے واضح ہوتا ہے کہ خیانت کار حاکموں کی دو خصلتیں ہونگی، جہالت و سفاہت، فسق و فجور اور یہ افراد قوم کو تاراج کرنے کے بعد بیت المال کو اپنا مال سمجھیں گے اور بساط عیش طرب بچھا کر اپنے آقاوٴں کے حضور سجدہ ریز دنیا کی تباہ کاریوں کے ترانہ گائیں گے اور خدا کے ناتواں بندے ان کے غلام ہوں گے اب ہمیں سوچنا چاہیے کہ ایسے افراد کیوں کر مسند حکومت پر پہنچے؟ ! اور ہم ان کے خلاف کیا کرسکتے ہیں اس لئے کہ اگر ہم نے ایسے ظالموں کو خلاف کوئی ردّ عمل نہیں کیا تو اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک بار پہر مولا کی یہ تعبیر عملی ہوجائے جس کے لئے آپ نے فرمایا:

”اس زمانے کے لوگ بھیڑیے ہوجائیں گے اور بادشاہ و حکام درندے، متوطہ طبقہ شکم پرور ہوگا اور غریب و پست طبقہ کے افراد مردہ ہونگے، صداقت ناپید ہوجائے گی اور جہوٹ کا بول بالا ہوگا اور لوگوں کے قلوب ایک دوسرے سے کشیدہ ہونگے‘‘۔

’’و کان اٴھل ذٰلک الزمان ذئابا و سلاطین سباعا و اٴوساب اٴکلالا و فقراء امواتا‘‘

(خطبہ 108)
راہ حل

جب ماحول اس قدر سنگین صورت حال اختیار کر جائے گا تو اس کا حل کیا ہوگا؟ امام علیہ السلام راہ حل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”دیکھو! ایسے بے غیرتوں کی اطاعت سے گریز کرو کہ اپنے صاف پانی کے ساتھ تم نے جن کا گندا پانی پیا اور ان کی خرابیوں کو اپنی اچھائیوں میں ملا دیا اور ان کے باطل کو اپنے حق کے ہمراہ شامل کرلیا یہ فسق و فجور کی بنادیں اور ان کا منبع ہیں اور عصیان و نافرمانی کے دلدادہ ہیں۔ ابلیس نے انہیں اپنی سواری اور گمراہی کا جانور بنا لیا ہے اور ان سے فوج درست کرلی ہے جن کے ذریعہ وہ لوگوں پر حملے کرتا ہے، ان کی زبانوں سے حملے کرتا ہے تاکہ تمہاری عقل اور تمہارے افکار تم سے چھین لے اور تمہاری آنکھوں میں اتر جائے اور تمہارے کانوں میں وسوسے پھونک دے اور اس کے بعد اپنے زہر آنگیں تیروں سے تمہیں نشانہ بنائے تمہارے سروں پر اپنے قدم رکھے اور آخر کار تمہیں اپنا آلہ کار بنالے۔“

’’و لاتطیعوا الاٴدعاء الذین شربتم یصفوکم کدرہم و خلطتم بصحتکم مرضهم و اٴدخلتم فی حقّکم باطلهم و هم اساس الفسوق و احلاس العقوق اتّخذهم ابلیس مطایا ضلال‘‘

(خطبہ 192)
طغیان پیشہ حاکموں کی ناھنجاریوں کے اثرات بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ کس طرح انسانیت کو نابود کرسکتے ہیں لہذا آپ فرماتے ہیں کہ لوگوں کا فریضہ ہے کہ ذلت و خواری اختیار نہ کریں اور ایسے افراد کے آگے سرتسلیم خم نہ کریں بلکہ ایسے غاصبوں کے حلق میں اپنا ہاتھ  ڈال کر اپنا حق نکال لیں۔ یہی اس مسئلہ کا حل ہے۔
نتیجہ

حضرت علی علیہ السلام کی سیرت آئینہ کی طرح شفاف ہے جس میں ہم اپنے اندر جو موجودہ نقائص کو آسانی کے ساتھ تلاش کرسکتے ہیں لیکن صرف تلاش کرنا ہی کافی نہیں ہوگا جب تک ہم انہیں دور کرنے کی کوشش نہ کریں اس لئے کہ آئینہ صرف نقائص کی طرف متوجہ کرتا ہے اب اگر ہم متوجہ ہوکر بھی کوئی اقدام نہ کریں اور اپنے مسائل کے حل کرنے کے لئے تگ و دو نہ کریں تو پہر اپنی تمام بدبختیوں کے ذمہ دار ہم خود ہونگے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی انہیں افراد کی طرح ہوجائیں جن کے بارے میں مولا نے فرمایا:

” جب میں نے تمہیں تمھارے بھائیوں کو دعوت کے لئے بلایا تو تم زخم خوردہ شتر کی طرح نالہ و شیون کرنے لگے اور مجروح اونٹ کی طرح حرکت سے باز آئے اور زمین سے چپک کر بیٹھ گئے اور پہر چند متزلزل و ناتواں افراد کہ گویا جنہیں موت کے منہ میں ڈھکیل دیا گیا ہو اس طرح انہوں نے حرکت کی (اور یہ بھی کیا حرکت تھی) کہ انہوں نے محض دیکھنے پر اکتفا کیا۔۔۔!“

’’فما یدرک بکم ثار و لایبلغ مران دعوتکم الیٰ نصر اٴخوانکم فجررتم جرجرة الجمل الاٴسرّ و تثاقلتم‘‘

(علامہ تقی جعفری شرح نہج  البلاغہ ج9، ص210)

اس سے پہلے کہ سب کچھ دیکھنے اور کف افسوس ملنے میں ختم ہوجائے، اٹھیں اور کمر ہمت باندہ کر اپنے مولا کی سیرت کو اپنا آئینہ بناکر تمام مسائل کو خود ہی حل کریں۔ اس لئے کہ

’’ انّ اللہ لا یغیر ما بقومٍ حتّی یغیّروا ما بانفسہم ‘‘

(رعد 11)

http://alhassanain.org/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button