سلائیڈرقرآنیاتمقالات قرآنی

مباہلہ: اسلام کی حقانیت کی ایک واضح اور نا قابل تردید دلیل

( الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس)
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ﴿آل عمران: 61﴾
آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
مباہلہ:( ب ھ ل ) کسی چیز کو دیکھ بھال کے بغیر اپنی حالت پر چھوڑ دینا۔ نفرت کرنا۔ اللہ کی رحمت سے دور اپنے حال پر چھوڑدینے کے لیے بد دعا کرنا۔ الابتہال عاجزی سے دعا کرنا۔
تفسیر آیات
یہ آیت تاریخ اسلام کے ایک نہایت اہم واقعے کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو واقعہ مباہلہ کے نام سے مشہور ہے اور داعی اسلام کی حقانیت کی ایک واضح اور ناقابل تردید دلیل ہے۔
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ: علم آ جانے کے بعد بھی جو لوگ آپ (ص) سے جھگڑا کریں۔ فِيْہِ ، یعنی فی الحق۔ دلیل و برہان اور قطعی و یقینی دلیل قائم ہونے کے بعد بھی اگر نصارائے نجران جان بوجھ کر اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہیں تو نجران کے وفد کے عقیدے کو باطل ثابت کرنے اور ان کے مذہب کی قلعی کھولنے کا واحد حل یہ ہے کہ مباہلہ اور ملاعنہ کر کے جھوٹوں پر عذاب کے نزول کی دعا کی جائے۔ پس وہ دعا کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوںمیں اسلام کی حقانیت اور نصرانیت کی گمراہی ثابت ہو جائے گی۔
فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ: ہم قرار دیں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔ یعنی نَجۡعَلۡ، نَبۡتَہِلۡ کا نتیجہ قرار دیاگیا ہے کہ مباہلے کے نتیجے میں اللہ کی لعنت کا مرحلہ آئے گا۔ یہ نہیں فرمایا: نَبْتَھِل اَن یَجْعَل ۔ یعنی ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ لعنت کرے۔ دوسرے لفظوں میں لعنت کا سوال نہیں ہو رہا ہے، بلکہ مباہلے کے بعد لعنت کے خود بخود وقوع اور قرار پانے کی بات ہو رہی ہے۔ کیونکہ سوال میں قبولیت کا سوال پیدا ہوتا ہے، لیکن نَجۡعَلۡ میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے داعیٔ اسلام کے مرتبۂ ایقان و اطمینان کا اندازہ ہوتا ہے۔
عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ: جھوٹوں پر لعنت ہو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مباہلے کے فریقین اپنا اپنا دعویٰ رکھتے ہیں، جس میں ایک فریق صادق اور دوسرا کاذب ہو گا۔ نَجۡعَلۡ صیغہ جمع سے معلوم ہوا کہ حضور (ص) کے ساتھ دیگر افراد بھی ہیں، جو اس دعویٰ میں شریک اور دعوائے حقانیت میں حصہ دار ہیں۔ یہ ان ہستیوں کے لیے بڑی فضیلت ہے جو اس مباہلے میں رسالت مآب (ص) کے ساتھ شریک تھیں۔
اگرچہ اَبۡنَآءَنَا ، نِسَآءَنَا اور اَنۡفُسَنَا میں جمع ہونے کی وجہ سے مفہوم کے اعتبار سے بہت وسعت اور بڑی گنجائش تھی کہ حضور (ص) اصحاب و انصار بلکہ خود بنی ہاشم کے بہت سے بچوں کو اَبۡنَآءَنَا کے تحت اور جلیل القدر خواتین کو نِسَآءَنَا کے تحت اور بہت سی قدآور شخصیات کو اَنۡفُسَنَا کے تحت اس تاریخ ساز مباہلے میں شریک فرما تے، لیکن اَبۡنَآءَنَا میں صرف حسنین علیہما السلام، نِسَآءَنَا میں صرف حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور اَنۡفُسَنَا میں صرف حضرت علی علیہ السلام کو شامل فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت اسلام کا ان ہستیوں کے ساتھ ایک خاص ربط ہے اور یہی ہستیاں ارکان دین میں شامل ہیں۔
نہایت قابل توجہ امر یہ ہے کہ زمخشری نے اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نِسَآءَنَا اور اَنۡفُسَنَا میں تو ایک ایک ہستی حضرت فاطمہ(س) اور حضرت علی(ع) پر اکتفا کیا، لیکن اَبۡنَآءَنَا میں ایک ہستی پر اکتفا نہیں کیا۔ کیونکہ نساء اور انفس میں چونکہ حضرت فاطمہ (س) اور علی (ع) کی کوئی نظیر موجود نہیں تھی، لہٰذا ان کے وجود کے بعد کسی اور کے وجود کی گنجائش باقی نہیں رہتی، لیکن حسنین (ع) میں سے کسی ایک کے وجود کی صورت میں بھی دوسرے کا وجود ضروری تھا، لہٰذا ان دونوں ہستیوں کو بلایا۔ (زمخشری، الکشاف۔)
اگر ان افراد کے علاوہ کسی اور فر دکے لیے کوئی گنجائش ہوتی تو حضور (ص) نجرانی وفد کی تعداد کے برابر افراد مباہلے میں شامل کر لیتے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نجران کا وفد چودہ افراد پر مشتمل تھا۔
واقعہ مباہلہ: فتح مکہ کے بعد غلبہ اسلام کا دور شروع ہوا اور اسلام نے جزیرہ نمائے عرب سے باہر پھیلنا شروع کیا۔ چنانچہ ہرقل روم، کسرائے ایران، مقوقس، حارث شاہ حیرہ، شاہ یمن اور شاہ حبشہ تک اسلام کی دعوت پہنچ گئی۔ نجران کے مسیحی ان حالات سے نہایت پریشان تھے۔ اتنے میں ان کے پاس رسول اللہ (ص) کی طرف سے دعوت اسلام پہنچ گئی۔ نجران کے مسیحی پادریوں میں بے چینی پھیل گئی۔ ان کے ارباب حل و عقد اور سرداران قبائل ایک جگہ جمع ہو گئے اور اسلام سے بچنے کی تجاویز زیر غور آئیں۔ اس گرما گرم بحث میں کچھ لوگ اسلام کے حق میں مؤقف رکھتے تھے، لیکن اکثر لوگ اسلام کے خلاف سخت مؤقف رکھتے تھے۔ آخر میں اپنے رہنماؤں السید اور العاقب کی رائے معلوم کی تو ان دونوں نے کہا: دین محمد (ص) کی حقیقت معلوم ہونے تک اپنے دین پر قائم رہیں۔ ہم خود یثرب جا کر قریب سے دیکھتے ہیں کہ محمد (ص) کیا دین لائے ہیں۔ چنانچہ السید اور العاقب اپنے مذہبی پیشواء ابو حاتم کی معیت میں چودہ رکنی وفد اور ستر افراد کے ہمراہ یثرب کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ لوگ نہایت نفیس لباس زیب تن کیے، نہایت تزک و احتشام کے ساتھ شہرمدینہ میں داخل ہوئے۔ اہل مدینہ کا کہنا ہے:
"ما رأینا وفداً اجمل من ھؤلاء " (ہم نے ان سے زیبا ترین وفد نہیں دیکھا تھا۔)
چنانچہ جب وہ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو ان کی عبادت کا وقت آگیا۔ ناقوس بجا اور انہوں نے مشرق کی طرف رخ کر کے عبادت شروع کر دی۔ لوگوں نے روکنا چاہا، لیکن حضور (ص) نے منع فرمایا۔ یہ آزادیٔ عقیدہ و عمل کا بے مثال نمونہ ہے کہ مسجد نبوی (ص) کی چار دیواری کے اندر بھی غیر مسلموں کو اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کرنے اور اعمال بجا لانے کی آزادی دی گئی، جب کہ یہ لوگ رسالت محمدی (ص) کے منکر تھے۔ عقیدے کے معمولی اختلاف پر دیگر مسلمانوں کو واجب القتل قرار دینے والے دہشت گردوں کی پالیسی اور رسول رحمت (ص) کی پالیسی میں کس قدر فاصلہ نظر آتا ہے۔
انہیں تین دن تک مہلت دے دی گئی۔ تین روز کے بعد حضور (ص) نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے کہا: مسیح علیہ السلام کے بعد آنے والے نبی سے متعلق توریت میں موجود تمام اوصاف آپ (ص) کے اندر موجود ہیں، سوائے ایک صفت کے، جو سب سے اہم ہے۔ وہ یہ کہ آپ مسیح علیہ السلام کو برا بھلا کہتے ہیں، ان کی تکذیب کرتے ہیں، انہیں بندۂ خدا کہتے ہیں۔ حضور (ص) نے فرمایا: میں مسیح علیہ السلام کی تصدیق کرتا ہوں، ان پر ایمان لاتا ہوں اور گواہی دیتاہوں کہ وہ نبی مرسل اور عبد خدا تھے۔
وفد: کیا وہ مردوں کو زندہ نہیں کرتے تھے، مادر زاد اندھوں کو بینائی نہیں دیتے تھے اور برص کے مریضوں کو شفا نہیں دیتے تھے؟
حضور(ص): یہ سب باذن خدا انجام دیتے تھے۔
وفد: مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ بھلا کوئی بندہ بغیر باپ کے پیدا ہوتا ہے؟
حضور(ص): اللہ کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم علیہ السلام کی طرح ہے کہ اسے مٹی سے خلق فرمایا پھر حکم دیا: بن جاؤ، وہ بن گیا۔
نجران کا وفد اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا۔ انہوں نے دلیل و برہان کو قبول نہیں کیا۔
اس وقت حضور (ص) پر غشی کی سی کیفیت طاری ہوگئی اور وحی نازل ہوئی:
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ﴿آل عمران:61﴾
حضور (ص) نے یہ آیت پڑھ کر حاضرین کو سنائی اور فرمایا: اگر تم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے ساتھ مباہلہ کروں۔
وفد والے اپنے ٹھکانے پر واپس چلے گئے اور آپس میں کہنے لگے کہ محمد (ص) نے ہمیں ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔ کل دیکھو وہ کس قسم کے لوگوں کے ساتھ مباہلے کے لیے نکلتے ہیں۔ اپنے سارے پیروکاروں کے ساتھ؟ یا اپنے بڑے اصحاب کے ساتھ؟ یا اپنے قریبی رشتہ داروں اور تھوڑے دیندار لوگوں کے ساتھ؟ اگر یہ بڑی جمعیت کی معیت میں جاہ و جلالت کے ساتھ شاہانہ انداز میں نکلتے ہیں تو کامیابی تمہاری ہے۔ اگر تواضع کے ساتھ چند ہی لوگوں کے ساتھ نکلتے ہیں تو یہ انبیاء کی سیرت اور ان کے مباہلے کا انداز ہے۔ اس صورت میں تمہیں مباہلے سے گریز کرنا چاہیے۔

دوسری طرف رات بھر مسلمان آپس میں قیاس آرائیاں کرتے رہے کہ کل رسول خدا (ص) اَبۡنَآءَنَا، نِسَآءَنَا اور اَنۡفُسَنَا میں کن کن ہستیوں کو شامل کریں گے؟
۲۴ ذی الحجۃ کی صبح طلوع ہوئی اور حق و باطل میں ہمیشہ کے لیے فیصلہ کن دن آ گیا۔ رسول خدا (ص) نے حکم دیاکہ دو درختوں کو کاٹ کر ان کی درمیانی جگہ کو جھاڑو دے کر صاف کیا جائے۔ صبح ہوئی تو ان دونوں درختوں پر ایک سیاہ کساء (چادر) خیمے کی شکل میں ڈال دی گئی۔
نجرانی وفد میں السید اور العاقب اپنے دونوں بیٹوں کی معیت میں نکلے۔ وفد کے دیگر ارکان یعنی قبائل کے سردار بھی بہترین لباس زیب تن کیے نہایت تزک و احتشا م کے ساتھ ہمراہ تھے۔
دوسری طرف رسول اللہ (ص) حسنین (ع) کا ہاتھ پکڑے نکلے۔ پیچھے حضرت فاطمہ (س) اور ان کے پیچھے علی (ع) تھے۔ اس کساء کے نیچے پانچوں تن تشریف فرما ہوئے اور حضور (ص) نے فرمایا: میں دعا کروں تو تم آمین کہنا۔ اس کے بعد حضور (ص) نے السید اور العاقب کو مباہلے کی دعوت دی۔ ان دونوں نے عرض کی: آپ (ص) کن لوگوں کو ساتھ لے کر ہمارے ساتھ مباہلہ کر رہے ہیں؟ حضور (ص) نے فرمایا: باھلکم بخیر اھل الارض ۔ میں اہل زمین میں سب سے افضل لوگوں کو ساتھ لے کر تمہارے ساتھ مباہلہ کر رہا ہوں۔
یہ دونوں اپنے اسقف (پادری) کے پاس لوٹ گئے اور اس سے پوچھا: آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟ پادری نے کہا: انی لأری وجوھاً لوسئل اللہ بہا ان یزیل جبلاً من مکانہ لازالہ ۔ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ شخص (محمدؐ) ان کو وسیلہ بنا کر خداسے دعا کرے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو ضرور ہٹ جائے گا۔ خبردار ان کے ساتھ ہرگز مباہلہ نہ کرنا، ورنہ روئے زمین پر قیامت تک کوئی نصرانی نہیں رہے گا۔ چنانچہ وہ مباہلہ کی جرأت نہ کر سکے اور جزیہ دینے کا معاہدہ کر کے واپس چلے گئے۔ (سید ابن طاؤسؒ کی الاقبال)
محدثین، مفسرین، مورخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور (ص) نے مباہلے کے موقع پر حسنین، فاطمہ اور علی علیہم السلام کو ساتھ لیا۔ چنانچہ چوتھی صدی کے مقتدر عالم ابوبکر جصاص لکھتے ہیں:

رواۃ السیر و نقلۃ الاثر لم یختلفوا فی ان النبی صلی اللّٰہ علیہ (و آلہ) وسلم اخذ بید الحسن و الحسین و علی و فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہم ثم دعا النصاری الذین حاجوہ الی المباہلۃ ۔ (احکام القرآن ۲:۱۵)
سیرت نگاروں اور مورخین میں سے کسی نے بھی اس بات میں اختلاف نہیں کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ (و آلہ) و سلم نے حسن، حسین، فاطمہ اور علی رضی اللہ عنہم کا ہاتھ پکڑ کر نصاریٰ کو مباہلے کی دعوت دی۔
ہم ذیل میں چند اصحاب کا ذکر کرتے ہیں۔ جنہوں نے مباہلے میں صرف اہل البیت(ع) کی شرکت کا ذکر کیا ہے۔
i۔ سعد بن ابی وقاص۔ ان کی روایت صحیح مسلم ۷: ۱۲۰ طبع مصر۔ مسند احمد بن حنبل ۱: ۱۸۵ اور المستدرک للحاکم ۳: ۱۵۰ میں ملاحظہ ہو۔
ii۔ عبد اللہ بن عباس۔ ملاحظہ ہو معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص ۵۰۔ الدر المنثور۔
iii۔جابر بن عبد اللہ انصاری۔ ملاحظہ ہو دلائل النبوۃ ص ۲۹۷ اور اسباب النزول ص ۷۴۔
iv۔ سلمۃ بن یسوع عن ابیہ عن جدہ۔ دیکھیے البدایۃ و النھایۃ ۵: ۵۲۔
سید ابن طاؤس علیہ الرحمہ اپنی کتاب سعد السعود میں لکھتے ہیں:
میں نے کتاب ما نزل من القرآن فی النبی و اہل بیتہ تالیف محمد بن العباس بن مروان میں دیکھا کہ انہوں نے حدیث مباہلہ پچاس سے زائد صحابیوں سے روایت کی ہے۔ ان میں سے حسن بن علی(ع)، عثمان بن عفان، سعد بن ابی وقاص، بکر بن سمال، طلحہ، زبیر، عبد الرحمن بن عوف، عبد اللہ بن عباس، ابو رافع، جابر بن عبد اللہ، براء بن عازب اور انس بن مالک قابل ذکر ہیں۔
علیؑ نفس رسول(ص): بعض اردو مترجمین نے اس آیت میں اَنۡفُسَنَا کا یہ ترجمہ کیا ہے:’’آؤ ہم اور تم خود بھی آ جائیں۔‘‘ جب کہ آیت میں ’’آ جانے‘‘ کا نہیں بلکہ ’’بلانے‘‘ کا ذکر ہے اور انسان اپنے آپ کو بلایا نہیں کرتا۔ اَنۡفُسَنَا کی جگہ حضور (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو بلایا ہے، جس پر سب کا اجماع ہے۔ لہٰذا حضرت علی علیہ السلام نفس رسول (ص) کے مقام پر فائز ہیں۔

اگر نفس سے مراد خود رسول اللہ (ص) ہیں تو حسنین (ع) اور حضرت زہراء (ع) کو ساتھ لینے سے حکم خدا کی تعمیل ہو جاتی اور حضرت علی (ص) کو ساتھ لینے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہتی۔
واحدی نے اسباب النزول صفحہ۷۵ میں شعبی کا یہ قول نقل کیاہے کہ اَبۡنَآءَنَا میں حسن و حسین علیہما السلام ہیں، نِسَآءَنَا سے مراد فاطمہ (س) ہیں اور اَنۡفُسَنَا سے مراد علی علیہ السلام ہیں۔
اور حضرت علی علیہ السلام نے خود شوریٰ کے موقع پر استدلال میں فرمایا:
اَنْشُدُکُمْ اللہَ ھَلْ فِیْکُمْ اَحَدٌ جَعَلَہُ اللہُ نَفْسَ النَّبِیِّ وَ اَبنَائَہُ اَبْنَائَہُ وَ نِسَائَہُ نِسَائَہُ غَیْرِیْ قَالُوْا:اَللّٰھّمَّ لَا ۔ (الصواعق المحرقۃ)
بخدا تم یہ بتاؤ کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا فرد موجود ہے جسے اللہ نے نفس نبی قرار دیا ہو؟ جس کے بیٹوں کو رسول خدا (ص) کے بیٹے اور جس کی خاتون کو رسول خدا (ص) کی بیٹی قرار دیا ہو؟ لوگوں نے کہا: نہیں۔
اس روایت سے یہ توجیہ بھی غلط ثابت ہوگئی کہ حضرت علی(ع) اَبۡنَآءَنَا میں شامل ہیں۔ جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی کی کوشش ہے۔ ( بیان القرآن ۱: ۲۰۰)
تفسیر المنار نے علامہ محمد عبدہ کا یہ قول اپنے صفحات پر ثبت کر کے محدثین خاص کر ارباب صحاح کے علمی مقام کو مخدوش کر دیا ہے:
مباہلے میں حضور (ص) نے صرف علی، فاطمہ اور حسنین (علیہم السلام) کو ساتھ لیا۔ یہ متفقہ روایت ہے مگر شیعوں کی عادت یہ رہی ہے کہ انہوں نے اپنے خاص مقصد کے لیے اس کو ہوا دی ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے اہل سنت میں بھی یہ بات رائج ہو گئی اور اس حدیث کے گھڑنے والوں نے آیت کی تطبیق کا خیال بھی نہیں رکھا۔ کیونکہ عربی محاورے میں نساء کہ کر اپنی بیٹی مراد نہیں لی جاتی۔(المنار ۳: ۳۲۲)
جواب یہ ہے:
۱۔ کیا ارباب صحاح، مثلاً مسلم اور ترمذی، محدثین، مورخین اور مفسرین کے پاس کوئی معیار نہیں ہے کہ وہ ایک من گھڑت روایت پر متفق ہوجاتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس کے بعد کسی صحیح محدث، راوی اور جرح و تعدیل کرنے والے پر وثوق نہیں رہتا۔
۲۔ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ نساء کا مفہوم بیٹی ہے اور روایات کا مفہوم بھی یہ نہیں ہے، بلکہ روایات اس بات کو بالاتفاق بیان کرتی ہیں کہ حضور (ص) نے عملی طور پر مباہلے کے لیے نِسَآءَنَا کی جگہ صرف حضرت فاطمہ (س) کو اور اَنۡفُسَنَا کی جگہ حضرت علی علیہ السلام کو ساتھ لیا۔ لہٰذا یہ حضرات ان الفاظ کے مصداق قرار پائے، نہ کہ مفہوم۔ ورنہ مفہوم کے اعتبار سے ان الفاظ میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے۔ اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت اس بات سے زیادہ اجاگر ہو جاتی ہے کہ مفہوم و معنی میں گنجائش کے باوجود ان کے علاوہ کسی کو مباہلے میں شریک نہیں کیا گیا۔
بعض اہل تحقیق نے خوب کہا ہے: قرآنی استعمالات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جہاں نسآء کا لفظ اَبۡنَآءَ کے ساتھ ذکر ہوا ہے، وہاں نِسَآءَ کا مفہوم بیٹیاں ہوتی ہیں۔ چنانچہ قرآن میں متعدد مقامات پر یہ استعمال موجود ہے: یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ۔۔۔۔(۲ بقرۃ: ۴۹) تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ ملاحظہ ہوں آیات: الاعراف: ۱۲۷۔ ابراھیم: ۶۔ قصص: ۴۔ غافر: ۲۵۔ آیہ مباہلہ میں بھی نسآء کا لفظ اَبنآء کے ساتھ ہے، لہٰذا یہاں نسآء سے مراد بیٹیاں ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ (ص) کو یہ حکم تھا کہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر مباہلہ کریں۔
اہم نکات
۱۔ مباہلے کی باری تب آتی ہے جب واضح عقلی دلائل سے انکار کیا جائے۔
۲۔ مباہلے کے افراد کا تعین اللہ نے کیا: فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا ۔۔۔۔
۳۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ اَبۡنَآءَنَا سے مراد حسنین علیہما السلام اور نِسَآءَنَا سے مراد فاطمہ سلام اللہ علیہا اور اَنۡفُسَنَا سے مراد علی علیہ السلام ہیں۔ واضح ہو گیا کہ آل رسول (ص) کون ہیں۔
۴۔ حق و باطل کے اس عظیم معرکے میں یہی پانچ ہستیاں شامل ہوئیں۔ ثابت ہوا کہ دعوت اسلام کی کامیابی ان کے بغیر ممکن نہیں۔
۵۔ آج بھی داعیان حق کوانہی کے دامن سے متمسک رہنا چاہیے۔
۶۔ جو ان کے منکر ہیں، وہ دعوت رسول (ص) سے ناآشنا ہیں۔
۷۔ یہ صادقین کا گروہ تھا اور ان کے مقابلے پر آنے والے کاذبین تھے۔
۸۔ ان عظیم ہستیوں کی ہم پلہ مزید ہستیاں موجود نہیں تھیں، ورنہ مباہلے کے دن رسول (ص) انہیں بھی لے کر نکلتے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 87)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button