خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:181)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک23 دسمبر 2022ء بمطابق 28جمادی الاول 1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
سیدہ سلام اللہ علیھا بطورمجموعہ کمالات:
دینِ اسلام اس لحاظ سے غنی ہے کہ اس کا دامن عظیم شخصیات سے بھرا پڑا ہے۔دینِ اسلام کے مطابق ہر دور میں انبیائے کرام کو بنی نوعِ انسان کے لئے ایک رول ماڈل اور نمونہ عمل کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ سب سے آخر میں پیغمبرِ اسلام ﷺ کو پورے عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل اور رول ماڈل قرار دیا گیا ہے۔
امتِ مسلمہ کے ہر فرد کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ہر عمل پیغمبرِ اسلام کے اعمال کے مطابق ہو، اللہ نے پیغمبرِ اسلام کو مبعوث ہی اس لئے کیا ہے تاکہ لوگ اُنہی کے نقش قدم اور انہی کے راستے پر چلیں۔چونکہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی ظاہری زندگی صرف تریسٹھ برس ہے جبکہ آپ قیامت تک کے لئے اسوہ حسنہ اور نمونہ عمل ہیں۔ اس لئے پیغمبرِ اسلامﷺ نے اپنے بعد بھی کچھ ہستیوں کو نمونہ عمل قرار دیا ہے جنہیں ہم اہل بیت ؑ کہتے ہیں۔
پیغمبرِ اسلام کا ارشاد ہے :
مَثَلُ أهلِ بَيتي مَثَلُ سَفينَةِ نُوحٍ؛ مَن رَكِبَها نَجا و مَن تَخَلّفَ عَنها غَرِقَ
میرے اھل بیت سفینہ نوحؑ کی مانند ہیں جو اُس میں سوار ہو گیا اس نے نجات پائی اور جس نے اس سے منہ موڑا وہ ہلاک ہوا۔
اہلِ بیت اطہار علیھم السلام وہ ہستیاں ہیں جو ظاہری و باطنی طہارت اور محبوبِ خدا ہونے کی وجہ سے رسولِ خداﷺ کے بعد ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں۔اُن ہستیوں میں سے ہر ہستی اپنے فضائل و اعمال کے اعتبار سے خصوصی شان و فضیلت کی حامل ہے۔
انہی ہستیوں میں سےایک عظیم ہستی حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا ہیں جن کے مقام و مرتبہ کو امت نے فراموش کر دیا اور صحیح معنوں میں ان کی معرفت حاصل نہ کر سکے۔آپ کی شان میں قرآن مجید کی متعدد آیات نازل ہوئی ہیں اور آپ کے فضائل کے بارے میں بے شمار احادیث وارد ہوئی ہیں، جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بھی اپنے والد ماجد ﷺ کی طرح عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل ہیں۔
اس معظمہ خاتونؑ کی زندگی کی زندگی کے مختلف ادوار پر گفتگو کرنے اور انہیں سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔
آپ کی حیات طیبہ میں بحیثیت بیٹی ، بحیثیت زوجہ ، بحیثیت ماں، بحیثیت عابدہ و زاہدہ ، بحیثیت مدافع اسلام اور بحیثیت جامعِ اوصاف ہمیں عظیم تعلیمات ملتی ہیں۔آج آپ کی زندگی کے مختلف پہلووں پہ گفتگو کریں گے تاکہ ان کی زندگی سے درس لیتے ہوئے اپنی زندگیاں دینی تعلیمات کے مطابق گزار سکیں۔
سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا بحیثیت بیٹی
سب سے پہلے ہم رسولﷺ کی دخترِ گرامی ؑ کی شخصیت کا بطور بیٹی جائزہ لیتے ہیں۔آپ اپنی ولادت کے وقت سے ہی عظیم برکات لے کر آئیں۔آپ کی ولادت ایسے حالات میں ہوئی جب کفار مکہ پیغمرِ خداﷺ کو ابتر یعنی بے نام و نشان اور بے نسل ہونے کے طعنے دیا کرتے تھے کہ ایسے میں خدا نے اس بیٹی کو عطا کر کے ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا :
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
اِنَّـآ اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ
بے شک ہم نے آپ کو کوثر دی۔
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔
اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَـرُ
بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے۔
اس سورہ میں خداوند عالم نے اپنے حبیبﷺ کو تسلی دی ہے کہ ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے اور آپ کا دشمن ابتر ہے۔ لفظ کوثر کی مفسرین نے مختلف تفسیریں کی ہیں یہاں تک کہ فخر رازی نے اس بارے میں پندرہ اقوال نقل کئے ہیں۔تفسیر المیزان سمیت متعدد علمائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ کوثر یعنی خیر کثیر کے متعدد مصادیق میں سے ایک روشن ترین مصداق حضرت فاطمہؑ کا وجود مبارک ہے ۔اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ یہ سورۃ ان لوگوں کی رد میں نازل ہوئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابتر، لاولد کہتے تھے۔واقعہ یہ پیش آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرینہ اولاد میں سے حضرت قاسم علیہ السلام کا انتقال ہوا۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ علیہ السلام کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس پر کفار قریش نے خوشیاں منانا شروع کر دیں۔
جب حضورؐ کے دوسرے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو ابو لہب دوڑتا ہوا مشرکین کے پاس گیا اور ان کو یہ خبر خوشی کے ساتھ سنائی:
بتر محمد اللیلۃ۔
آج رات محمد لا ولد ہو گئے۔
ابن عباس کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ کے دوسرے فرزند حضرت عبد اللہ کی وفات پر ابو جہل نے بھی ایسی باتیں کی تھیں۔ اسی طرح عقبہ بن ابی معیط نے بھی اسی قسم کی خوشیاں منانے کا مظاہرہ کیا تھا۔ عاص بن وائل نے ایسے موقع پر کہا تھا:
إِنَّ مُحَمَّداً رَجُلٌ أَبْتَرُ لاَ وَلَدَ لَهُ، فَلَوْ قَدْ مَاتَ اِنْقَطَعَ ذِكْرُهُ
محمد ابتر ہیں۔ ان کا کوئی بیٹا نہیں جو ان کی جگہ پر کرے۔ جب وہ فوت ہو جائیں گے تو ان کانام مٹ جائے گا اور تمہیں اس سے چھٹکارا ملے گا۔
اس موضوع پر روایات اس کثرت سے ہیں کہ کوئی منصف اس بات میں شک نہیں کرے گا کہ یہ سورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابتر یعنی لا ولد کہنے والوں کی رد میں نازل ہوئی ہے۔
اس سورہ کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بی بی ، رسولِ دو عالم کے لئے ؑ اپنی ولادت سے ہی خیر کثیر ہے ۔یعنی یہ فقط ایک بیٹی نہیں ہے بلکہ یہ بیٹی کے قالب میں اللہ کی طرف سے رسولﷺ کو خیر کثیر عطا کیا گیا ہے اور اس خیر کثیر کے ذریعے رسولﷺ کو طعنے دینے والوں کا منہ بند کیا گیا ہے۔
جب اس بی بی کی عمرِ مبارک فقط دوسال ہوئی تو شعبِ ابی طالب میں مسلمانوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نبیﷺ کی یہ اکلوتی بیٹی ان بھوک، افلاس اور مشکلات کے دنوں میں، دو سال کی عمر میں شعبِ ابی طالب میں دیگر مسلمانوں کے ہمراہ محصور رہی۔اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں تین سال تک آپ نے شعب ابی طالب کی قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔( دلایل النبوة، ج ۲، ص ۳۱۱ و ۳۱۲)
شعبِ ابی طالب کا محاصرہ در اصل مسلمانوں کی تربیت کے لئے ایک بنیادی مرحلہ تھا، جس طرح ایک بیج کو زمین کے اندر دفنایا جاتا ہے اور وہ زمین کے نیچے سخت دباو کو برداشت کرنے کے بعد زمین کی سخت جلد کو ننھی سی کونپل سے چیر کر باہر نکل آتا ہے اور تندو طوفان ہواوں اور شدید موسم کے مقابلے میں کھڑا ہوجاتا ہے ، اسی طرح شعب ابیطالب کے دوران مسلمانوں کی روحانی و جسمانی تربیت کی گئی تاکہ وہ بدترین مشکلات اور خوفناک حالات کا مقابلہ کر سکیں، اس تربیتی مرحلے میں حضرت خاتون جنتؑ بھی ان مسلمانوں کے درمیان موجود تھیں۔
اس سخت اور کٹھن دور میں بی بیؑ کے خیر کثیر وجود کو دیکھ کر پیغمبر اسلام ﷺ کو کتنا حوصلہ ملتا ہوگا اس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے۔
بعثت کے دسویں سال جب رسولِ گرامیﷺ کی دختر نیک اخترؑ ؑ کی عمر فقط پانچ یا چھ سال تھی تو پیغمرِ اسلام ﷺپر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے ، اس سال حضرت ابوطالبؑ اور حضرت خدیجہ ؑ کا انتقال ہوگیا۔ ان دو بزرگوار شخصیتوں کے انتقال سے گویا پیغمبرِ اسلام کی کمر ٹوٹ گئی تھی اور پیغمبرؐ نے اس سال کا نام عامُ الحزن یعنی غم کا سال رکھا۔
پیغمبرِ اسلام ﷺ کی زندگی میں آنے والے اس خلا کو سیّدہ زہراؑ نے کم سنی کے باوجود اس محبت اور خدمت سے پُر کیا کہ آپ اُمُّ ابیھا کی کنیت سے مشہور ہوئیں۔اُمُّ ابیھا یعنی اپنے باپ کی ماں۔ یہ اس منفرد بی بی کا منفردمقام ہے جو کائنات کی کسی اور خاتون کے حصّے میں نہیں آیا۔یعنی آپ اس مشکل ترین دور میں فقط نبی اکرمﷺ کی ایک بیٹی نہیں تھیں بلکہ بیٹی ہونے اور نمونہ عمل ہونے کے اعتبار سے اُمِّ ابیھا تھیں۔( اسد الغابه، جلد 5، صفحه 520)
آپ کمال معنویت و بشریت کے اس درجے پر فائز تھیں کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ نے آپ کے بارے میں فرمایا:
إِنَّ اَللَّهَ لَيَغْضَبُ لِغَضَبِ فَاطِمَةَ وَ يَرْضَى لِرِضَاهَا
بے شک اللہ فاطمہؑ کے غضب کی وجہ سے غضبناک ہوتا ہے اور آپ کی رضا سے راضی ہوتا ہے( بحار الانوار ج۴۳ ص۵۴)
کتنا باعظمت ہوگا وہ باپ ، جس کی بیٹی کی عظمت یہ ہے کہ اس کی ناراضی سے اللہ ناراض اور اس کی خوشی سے اللہ خوش ہوتا ہے ، بلکہ رسولِ خدا ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے :
فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي مَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِي وَ مَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اَللَّهَ
فاطمہ میرا حصہ ہے جس نے اسےاذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت دی ہے اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی۔
(بحار الانوار ج۳۵ ص۳۵۳)
یہ فقط کسی عام باپ اور بیٹی کی محبت نہیں ہے بلکہ یہ رسولِ دوعالم ﷺ کی محبت ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شخصیت بیٹی ہونے کے اعتبار سے بھی بے مثل اور نمونہ عمل ہے۔
انسان ہر کسی سے اپنے ظرف کے مطابق محبت کرتا ہے ، پیغمبر اسلام کی حضرت فاطمہ الزہرا ؑ سے محبت عام انسانوں یا عام باپ بیٹی سے قطعاً مختلف ہے چونکہ خود پیغمبرِ اسلام ﷺبھی ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں اور ان کی بیٹی بھی ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہیں۔
دنیا جہاں میں جتنی بھی بیٹیاں ہیں اگر وہ سعادت مند بننا چاہتی ہیں تو رسولِ اسلام کی بیٹی کے اسوہ حسنہ کامطالعہ کریں اور ان کی سیرت پر عمل کریں۔
خود پیغمبرِ اسلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ: فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ اَلْعَالَمِينَ مِنَ اَلْأَوَّلِينَ وَ اَلْآخِرِينَ فاطمہ اولین و آخرین میں تمام جہان کی عورتوں کی سردار ہیں ۔(بحار الانوار ج۴۳ ص۲۶) یہاں پر یہ بات ذہن میں رہے کہ خود پیغمبرِ اسلام ﷺ بھی عالمین کے لئے نبی اور رحمت ہیں ۔اور آپ نے عالمین کی عورتوں کی سردار اس بی بی ؑ کو قرار دیا ہے۔پس سردار وہ ہوتا ہے جس کی اطاعت کی جاتی ہے اور جس کے نقشِ قدم پر عمل کیا جاتا ہے۔
اگر کوئی آدمی اپنے سردار کے دائرہ اطاعت سے نکل جائے تو اس کی مذمت کی جاتی ہے اور اسے سزا دی جاتی ہے۔
بلا شبہ اسلامی معاشرے میں مسلمان خواتین کے پاس حضرت فاطمۃ الزہراؑ کی اطاعت کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ نجات ہی نہیں ہے۔
سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا بحیثیت زوجہ
امام علی علیہ السلام کی تمام تر زندگی جدو جہد اور جہاد سے عبارت ہے، آپ جب بھی جنگوں سے لوٹتے تو بنتِ پیغمبر آپ کے زخموں پر مرہم لگاتیں، آپ کی تلوار کو دھوتیں اور آپ کی ڈھارس بڑھاتیں یہانتک کہ کائنات کے سب بڑے عادل اور منصف مزاج انسان علی ابن ابیطالب نے آپؑ کے بارے میں یہ گواہی دی ہے کہ خدا کی قسم اپنی ساری زندگی میں کبھی میں بی بی پر غضبناک نہیں ہوا اور کبھی بی بیؑ نے بھی مجھ پر غصہ نہیں کیا۔شادی کے بعد بی بیؑ نے محض ایک ناز و نعم سے بھرپور زندگی نہیں گزاری بلکہ امورِ خانہ داری کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کی مثالی رفیقِ حیات ثابت ہوئیں۔آپ نے ایک مثالی بیوی ہونے کے ناطے مثالی بچوں کو پروان چڑھایا اور اپنے شوہر کی اجتماعی و انفرادی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں بھرپور تعاون کیا۔
کتبِ تواریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے گھریلو امور کو نبی اکرم ﷺ نے میاں بیوی کے درمیان تقسیم کردیا تھا، اندرونِ خانہ کا کام کاج آپ انجام دیتی تھیں اور بیرونِ خانہ کے کام امیرالمومنینؑ کے سپرد تھے۔ اگرچہ امیرالمومنینؑ بھی گھر کے کاموں میں آپ کا ہاتھ بٹاتے تھے لیکن کام کرنے کی وجہ سے آپ کے مقدس ہاتھوں پر زخموں کے نشانات پڑ گئے تھے۔
(ناسخ التواريخ ، ص ‍ ۴۱۷)
اس کے باوجود آپ نے کبھی امورِ خانہ داری کو اپنے لئے بوجھ نہیں سمجھا اور کبھی بھی امام علیؑ سے اس بارے میں کوئی شکایت نہیں کی۔
آپ صرف ایک مثالی بیٹی ہی نہیں بلکہ ایک مثالی بیوی بھی ہیں، ایک ایسی بیوی کہ جن کی عظمت کا معترف امام علی ؑ جیسا عظیم انسان بھی ہے۔قابلِ ذکر ہے کہ دنیا میں قوّت برداشت کے اعتبار سے انسان دو طرح کے ہیں، بعض چھوٹی چھوٹی مشکلات سے بھی بوکھلا جاتے ہیں اور بعض بڑی بڑی مشکلات کو صبر اور حوصلے سے سر کرجاتے ہیں۔
حضرت امام علیؑ کے صبر اور حوصلے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کو دنیا مشکل کشا کے لقب سے یاد کرتی ہے اور دنیا میں امام علیؑ کے نام کو، عظمت ، شجاعت، بہادری اور آرام و سکون کا استعارہ سمجھا جاتا ہے لیکن امام علیؑ، حضرت فاطمہؑ کے وصال مبارک کے موقع پر ارشاد فرماتے ہیں:
بِمَنِ العَزاءُ‌ یا بِنتَ مُحمَد؟ كُنتُ بِكِ اَتَعزی فَفیمَ العَزاء مِن بَعدِكِ
اے دختر محمدﷺ ! اب مجھے کیسے سکون ملے ، میرا سکون آپ سے تھا، آپ کے بعد سکون کہاں( فاطمة الزهرا بهجة قلب مصطفی: ص ۵۷۸)
یقیناً ایسی بیوی کائنات کی بیویوں کے لئے نمونہ عمل ہے جو امام علیؑ جیسے شجاع اور بہادر مرد کے لئے باعث آرام و سکون تھی۔
ہر انسان اپنے ظرف اور ہمت کے مطابق بے قراری کا اظہار کرتا ہے، حضرت فاطمۃ الزہراؑ جب اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو آپ کے شوہر یعنی حضرت امام علیؑ نے آپ کے ہجر اور فراق کے دکھ کو پیغمبر اسلامﷺ کی رحلت کے مساوی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خدا کی قسم آپ کے جانے سے میرے لئے رسولِ خدا ﷺکی موت کا دکھ تازہ ہو گیا ہے۔(فاطمة الزهرا من المهد الی اللحد۶۰۹)
بحیثیت ایک بیوی ہونے کے آپ اس مقام و مرتبے پر فائز تھیں کہ امام علی ؑ جیسے شجاع انسان کے لئے اس دکھ کا سہنا محال تھا۔یہ فقط ایک بیوی سے محبت کی وجہ سے ایسا نہ تھا بلکہ اس لافانی و لاثانی محبت کے پیچھے دخترِرسولﷺ کا اللہ کی راہ میں وہ مجاہدانہ کردار موجزن تھا جس کی یاد امام علیؑ کو بے تاب کئے ہوئے تھی۔
اب بھی مومنینِ کرام کی بیویاں اگر اپنے لئے امیرالمونینؑ کی اس بیوی کو نمونہ عمل بنا لیں تو اسلامی معاشرہ عزت و عظمت اور عطوفت و مہربانی کی مثالیں آج بھی قائم کر سکتا ہے۔
سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا بحیثیت ماں
ایک مثالی بزوجہ اور بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت فاطمہؑ ؑ ایک مثالی اور کامل ترین ماں بھی ہیں۔ایک نمونہ عمل بیٹی اور اسوہ حسنہ کی حامل بیوی ہونے کے ناطے آپ بطریقِ احسن جانتی تھیں کہ بہترین ، مثالی اور کامل ترین ماں کسے کہتے ہیں۔
یوں آپ صرف ایک ماں ہی نہیں ہیں بلکہ کائنات کی ساری ماوں کے لئے نمونہ عمل ہیں۔آپ کی گود میں ایسے بچوں نے تربیت پائی ہے جن کے فضائل و مناقب شمار سے باہر ہیں۔
آپ کے ہاں چار بچوں کی ولادت ہوئی جن میں سے دو بچے یعنی امام حسنؑ اور امام حسینؑ امام معصوم بنے اور دو بیٹیاں حضرت زینب ؑ اور حضرت کلثوم ؑ واقعہ کربلا کی سفیر ٹھہریں۔
کتب تواریخ میں ایک اور بچے حضرت محسنؑ کا ذکر بھی ملتا ہے ، جن کے بارے میں شکم مادر میں ہی شہادت کے واقعات منسوب ہیں۔
حضرت فاطمہؑ نے چار بچوں کو صرف پالا نہیں بلکہ اپنے حسنِ عمل سے بچوں کی ایسی تربیت کی کہ خودآپ کے بچے بھی اہلِ عالم کے لئے نمونہ عمل ہیں۔
ہم مختصراً فقط یہ عرض کریں گے کہ اگر بزبانِ رسالت ؐ،
الحَسَنُ و الحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
امام حسن اور امام حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں (امالی الصدوق ص۵۷) اور یہ بلا شبہ ایک بہت بڑی فضیلت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمانِ رسولﷺ ہی ہے کہ تَحْتَ أَقْدَامِ اَلْأُمَّهَاتِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ اَلْجَنَّةِ ماں کے قدموں تلے جنت کا باغ ہے(مستدرک الوسائل ج۱۵ ص۱۸۱) ، حضرت امام حسن اور حسینؑ بھی کمالات کے جن مدارج پر فائز ہیں اُن کمالات کا چشمہ حضرت فاطمہؑ کے قدموں سے ہی پھوٹتا ہے وہ چاہے شہادت کا دریا ہو یا کوثر کا۔
اسی طرح آپ کی دونوں بیٹیوں کی زندگی میں بھی حق گوئی، بیباکی اور دین کی حفاظت کا جو پہلو نمایاں نظر آتا ہے اس میں بھی در اصل سیدہ کی تربیت ہی چھلک رہی ہے۔
آپ کی شخصیت آپ کے بچوں کے سامنے صرف کھلی ہوئی کتاب کی طرح نہیں تھی بلکہ ایک عملی مربّی کی سی تھی۔خدا پر توکل، خدا کے رسول کی اطاعت، شب و روز عبادت ، دوسروں کے لئے جانثاری، اعمال میں خلوص، سخت حالات کے باوجود سخاوت، ہر حال میں حسنِ نیت، گنہگاروں کے ساتھ عفو و درگزر ، آنے والوں کے ساتھ مہمان نوازی،اپنے پیکر میں خلقِ عظیم اور غیرت دینی جیسے تمام اوصاف آپ نے بچوں کو گھٹی میں پلائے تھے۔بے شک آپ کی اولاد نے اسلام اور توحید کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے لیکن بلاتردید ایسی اولاد کی تربیت کا سہرا دُخترِ رسول ؐ کے سر جاتا ہے۔
حضرت امام حسنؑ سے روایت ہے کہ ایک شب میری والدہ گرامی ساری رات عبادت کرتی رہیں، یہاں تک کہ سپیدہ سحر نمودار ہوگیا، میں سنتا رہا ساری رات میری والدہ ماجدہ ، ہمسایوں، عزیزو اقارب اور مسلمین کے مسائل کے حل کے لئے دعا کرتی رہیں، صبح ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ اے والدہ گرامی آپ نے اپنے لئے کیوں دعا نہیں کی اس پر سیّدہ دوعالم ؐنے شہزادے کو جواب دیا:
یا بُنیَّ الجارُ ثُمَّ الدّارُ
اے میرے نونہال!پہلے پڑوسی پھر گھر(بحار الانوار ج ۴۳ ص ۸۱ و ۸۲)
یہ ہے وہ نظریہ حیات، وہ سوچ ، وہ فکر اور وہ راہِ بندگی جس پر آپ نے اپنے بچوں کی تربیت کی۔ اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ آپ کی آل کو قرآن مجید میں صادقون، مطهرون، فائزون، متوسّمین، راسخون فی العلم، سابقون، مقرّبون، متقون، خاشعون، مصطفون، ابرار، اولوالامر، اهل الذکر، وارثان کتاب، آیات، نذر، امّت هادی به حقّ، بیوت اذن الله ان ترفع و یذکر فیها اسمه، خیر البریّه و اولوالالباب جیسے القابات سے یاد کیا گیا ہے۔
اگر دنیا بھر کی مائیں سیدہ دوعالمؐ کو اپنا رول ماڈل اور نمونہ عمل جان کر اپنے بچوں کی تربیت کریں تو یقینا اس سے ہمارے معاشرتی و سماجی حالات سنور جائیں گے اور مسلمان دنیا و آخرت کی سعادت سے بہرہ مند ہونگے۔
سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا بحیثیت عابدہ و زاہدہ
ایک مثالی بیٹی، نمونہ عمل بیوی اور بہترین ماں ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایسی عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں کہ فرشتے بھی آپ پر درود و سلام بھیجتے تھے۔
بعض روایات میں ملتا ہے کہ اہل مدینہ رات کے وقت حضرت امام علیؑ کے گھر سے ایک نور کو بلند ہوتے دیکھتے تھے، انہوں نے اس نور کے بارے میں پیغمبرِ اکرمﷺ سے استفسار کیا تو پیغمبرﷺ نے فرمایاکہ جب میری بیٹی فاطمہؑ محرابِ عبادت میں کھڑی ہوتی ہے تو ہزاروں فرشتے اس پر درودو سلام بھیجتے ہیں اوراسے عالمین کی عورتوں کی سردار کے لقب سے پکارتے ہیں(در مكتب فاطمه ، ص ۱۷۱)
اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ جب سیدہ محرابِ عبادت میں کھڑی ہوجاتی تھیں تو آسمان پر ملائکہ ؑ کے لئے ایک ستارہ چمکنے لگتا تھا، اور خدا فرشتوں سے فرماتا تھا کہ اے فرشتو ! دیکھو میری بہترین عبد فاطمہ ؑ میری عبادت کر رہی ہے۔وہ میری بارگاہ میں کھڑی میری ہیبت سے لرز رہی ہے اور پورے خضوع و خشوع کے ساتھ میری عبادت کر رہی ہے۔( بحارالانوار، ج ۴۳، ص ۱۷۲)
سیرت کی کتابوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بی بی صرف ذکر و اذکار اور نماز و دعا میں مشغول نہیں رہتی تھیں بلکہ آپ عبادت کو قربِ الٰہی کا وسیلہ سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر مشکلات بھی عبادت کے ذریعے حل کرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی متعدد آیات آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ، جیساکہ سورہ انسان یا سورہ دہر کے بارے میں علمائے اسلام اورمفسّرین کا کہنا ہے کہ یہ سورہ بی بی دو عالم کے صبر اور سخاوت کی وجہ سے اہل بیت رسولﷺ اور خصوصاً سیدہ دو عالم کی شان میں نازل ہوا ہے۔
اس سورہ کے نزول کے بارے میں مفسرین کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام حسنؑ اورامام حسینؑ بیمار ہوگئے، اس موقع پر حضرت امام علیؑ، سیّدہ دو عالم ؑ اور ان کی کنیز فضہؓ نے منت مانی کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے شفا یاب ہونے پر وہ سب تین دن روزے رکھیں گے۔
جب دونوں شہزادوں کو شفا مل گئی تو دونوں شہزادوں سمیت اہل بیت رسولﷺ نے روزہ رکھا، افطاری کے لئے حضرت فاطمہ ؑ نے پانچ روٹیاں پکائیں، عین افطار کے موقع پر سائل نے آ کر روٹی کا سوال کیا، سب نے اپنے اپنے حصے کی روٹی سائل کو دےدی، اسی طرح تین دنوں تک ہوا۔
تیسرے دن پیغمبر ﷺاپنی بیٹی کے گھر تشریف لائے اور بیٹی کو مصلے پر مشغولِ عبادت پایا، اس وقت جبرائیل امین ، نبی اکرمﷺ پر سورہ انسان لے کر نازل ہوئے اور پیغمبر سے فرمایا کہ خداوند عالم ایسے اہل بیتؑ کی وجہ سے آپ کو مبارکباد دیتا ہے۔(مجمع البیان، ج ۱۰، ص ۶۱۱)
حضرت فاطمہؑ کی خداوند عالم کی بارگاہ میں عبودیت اور بندگی بھی اپنی مثال آپ تھی۔ آپ نے اپنے تمام اجتماعی وسیاسی امور کے ساتھ انفرادی زندگی کے فرائض اور خدا کے ساتھ دعا و مناجات کے فریضے کو بھی بطریق احسن ادا کیا۔
سیدہ سلام اللہ علیھا بطورمجموعہ کمالات:
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک شخصیت میں بہت زیادہ صفات خصوصاً متضاد صفات جمع نہیں ہو سکتیں اور اگر ایسا کہیں ہوا بھی ہے تو زیادہ سے زیادہ حضرت امام علیؑ کے بارے میں یہ اعتراف کیا جاتا ہے کہ آپ میں متضاد صفات جمع تھیں، مثلا آپ بیک وقت ادیب بھی تھے اور جنگجو بھی، نرم دل بھی تھے اور عدالت میں سخت بھی ، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام علی ؑ کے علاوہ حضرت فاطمہ الزہراؑ نے بھی ایک ایسی مختصر اور بھرپور زندگی گزاری ہے کہ گویا کائنات کے تمام کمالات کو آپ نے اپنے اندر سمو لیا ہے۔ آپ جس طرح اپنی کم سنی کے باعث نوعمر ننھی سی بچی ہیں اُسی طرح اپنی لطافت و نزاکت اور فہم و شعور کے باعث اُمُّ ابیھا بھی ہیں،آپ جس طرح ایک گھریلو خاتون اور ماں ہیں اُسی طرح اپنے شوہر کی مشیر اور شریکِ جہاد بھی ہیں، آپ جس طرح شرم و حیا اور حجاب کا مجسمہ ہیں اُسی طرح دشمنانِ اسلام کے خلاف پیکرِ غضب ہیں، آپ جس طرح خواتین کے لئے اسوہ ہیں اسی طرح مردوں کے لئے بھی نمونہ عمل ہیں۔
آپ جس وقار کے ساتھ ، اسلام کی حقانیت کو بیان کرنے کے لئے نجران کے عیسائیوں کا سامنا کرنے کے لئے نکلتی ہیں،آپ اسی طرح خلافت کے منصب کو بچانے کے لئے مدینے کے مسلمانوں کے دروازوں پر دستک دیتی ہیں، آپ جس طرح محرابِ عبادت میں کامل یکسوئی کے ساتھ مشغولِ حق ہو جاتی ہیں ، آپ اسی طرح مسلمانوں کے دربار میں کامل فصاحت و بلاغت کے ساتھ خطبہ ارشاد فرماتی ہیں، آپ ایک طرف تو روزے کے باوجود اپنے سامنے کا کھانا افطار کے وقت سائل کو دے دیتی ہیں لیکن دوسری طرف اصولوں کی پاسداری کے وقت فدک کو معاف نہیں کرتیں۔
آپ ایک طرف جنگ و جدال میں مشغول اپنے والدِ ماجدﷺ اور اپنے شوہر نامدارؑ کا ہاتھ بٹاتی ہیں اور دوسری طرف حسنین کریمینؑ اور زینبؑ و کلثومؑ جیسی اولاد کی تربیت کرتی ہیں۔ہاں آپ سو فیصد علی ابن ابیطالبؑ کی ہم کفو اور ہم پلہ ہیں۔
آپ صرف مختلف فضائل اور اوصاف کا مجموعہ نہیں ہیں بلکہ آپ اپنے شوہر نامدار کی طرح عالم بشریت کے لئے ایک نمونہ عمل اور اعمال کی کسوٹی ہیں۔پس تمام انسانوں کو اور بالخصوص خواتین کو سیدہ سلام اللہ علیہا کی مختصر مگر پر اثر زندگی کا بغور مطالعہ کرکے ان کی سیرت سے عملی درس لینا چاہیے۔

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button