مقالات قرآنی

یتیموں سے حسن سلوک اور ان کے حقوق

الکوثر فی تفسیر القران سے اقتباس
یتیم کی توہین نہ کریں۔
فَاَمَّا الۡیَتِیۡمَ فَلَا تَقۡہَرۡ ؕ﴿الضحیٰ:۹﴾
لہٰذا آپ یتیم کی توہین نہ کریں،
تشریح کلمات
تَقۡہَرۡ:( ق ھ ر ) القھر غلبہ اور تحقیر دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
تفسیر آیات
تَقۡہَرۡ: کے دونوں معانی میں سے تحقیر مراد لینا زیادہ مناسب ہے چونکہ یتیم پر غالب آنے کے معنوں میں لینا بظاہر مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ چونکہ کسی طاقت پر غالب آ جائے تو قھر کہتے ہیں ۔یتیم میں کوئی طاقت نہیں ہوتی جس پر قہر و غلبہ حاصل کیا جائے۔ اس لیے فَلَا تَقۡہَرۡ کے معنی ہوں گے: توہین نہ کر۔ چونکہ اول تو ہر بچہ اپنی شخصیت کی توازن کے ساتھ تشکیل کے لیے پیار و محبت کا محتاج ہوتا ہے، پیار نہ ملنے والے بچے بڑے ہو کر عموماً بدمعاش بن جاتے ہیں۔ ثانیاً یتیم بچہ احساس محرومیت میں ہوتا ہے اس کی شخصیت کو بچانے کا واحد ذریعہ پیار و محبت ہے۔ اسی اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے:
مَنْ مَسَحَ یَدَہُ عَلَی رَاْسِ یَتِیمٍ تَرَحُّماً لَہُ اَعْطَاہُ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ بِکُلَّ شَعْرَۃٍ نُوراً یَوْمَ القِیَامَۃِ۔۔۔۔ (الفقیۃ ۴: ۳۷۱)
کوئی شخص اپنا ہاتھ یتیم کے سر پر از راہ مہربانی پھیرے تو اللہ عزوجل قیامت کے دن اسے ہر بال کے مقابلے میں نور عنایت فرمائے گا۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 10 صفحہ 203)
اموال یتیم کی حفاظت
وَ اٰتُوا الۡیَتٰمٰۤی اَمۡوَالَہُمۡ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الۡخَبِیۡثَ بِالطَّیِّبِ ۪ وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَہُمۡ اِلٰۤی اَمۡوَالِکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حُوۡبًا کَبِیۡرًا﴿النساء:۲﴾
اور یتیموں کا مال ان کے حوالے کرو، پاکیزہ مال کو برے مال سے نہ بدلو اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھایا کرو، ایسا کرنا یقینا بہت بڑا گناہ ہے۔
تشریح کلمات
الۡیَتٰمٰۤی:( ی ت م ) یتیم کی جمع ہے۔ یتیم وہ نابالغ بچہ ہے جو شفقت پدری سے محروم ہو جائے۔ مجازاً ہر یکتا اور بے مثل چیز کو یتیم کہا جاتاہے۔ اسی لیے گوہر یکتا کو درۃ یتیمۃ کہتے ہیں۔
حُوۡب:( ح و ب ) جرم کا ارتکاب کرنا۔
تفسیر آیات
وَ اٰتُوا الۡیَتٰمٰۤی اَمۡوَالَہُمۡ: یتیم جب نابالغ ہوں تو ان کا مال ان پر خر چ کرو اور جب بالغ ہو جائیں تو ان کا مال انہیں واپس کر دو۔
وَ لَا تَتَبَدَّلُوا: یتیموں کے عمدہ اور اچھے مال کو اپنے برے اور ناقص مال سے نہ بدلو۔
وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَہُمۡ : یتیم کا مال یتیم پر خرچ کرو اور اپنا مال علیٰحدہ کھاؤ۔ دونوں کو ملا کر کھانے سے پر زیادتی کا احتمال باقی رہتا ہے۔ اگر ملانے میں یتیم کے لیے کوئی ضرر نہیں ہے تو ملانا جائز ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 244)
وَ ابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی حَتّٰۤی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ۚ فَاِنۡ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ رُشۡدًا فَادۡفَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ ۚ وَ لَا تَاۡکُلُوۡہَاۤ اِسۡرَافًا وَّ بِدَارًا اَنۡ یَّکۡبَرُوۡا ؕ وَ مَنۡ کَانَ غَنِیًّا فَلۡیَسۡتَعۡفِفۡ ۚ وَ مَنۡ کَانَ فَقِیۡرًا فَلۡیَاۡکُلۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ فَاِذَا دَفَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ فَاَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا﴿النساء:۶﴾
اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ یہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں رشد عقلی پاؤ تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے (اور مال کا مطالبہ کریں گے) فضول اور جلدی میں ان کا مال کھا نہ جانا، اگر (یتیم کا سرپرست ) مالدار ہے تو وہ (کچھ کھانے سے) اجتناب کرے اور اگر غریب ہے تو معمول کے مطابق کھا سکتا ہے، پھر جب تم ان کے اموال ان کے حوالے کرو تو ان پر گواہ ٹھہرایا کرو اور حقیقت میں حساب لینے کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے ۔
تشریح کلمات
اٰنَسۡتُمۡ:( ء ن س ) انس ۔ آنس ۔ کسی چیز سے انس پانا یااس کا مشاہدہ کرنا۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اسے انسیٌّ کہتے ہیں۔
رُشۡدًا:( ر ش د ) ہدایت ، صلاحیت۔
بِدَارًا:( ب د ر ) جلدی کرنا۔
تفسیر آیات
اس آیہ شریفہ میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:
۱۔ وَ ابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی: یتیموں کے سرپرستوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یتیموں کو مال واپس کرنے سے پہلے یہ دیکھیں کہ کیا وہ مالکانہ تصرف کے اہل ہوئے ہیں یا نہیں؟ یہاں مال ان کے حوالے کرنے کے لیے دو شرائط عائد کی گئی ہیں: ایک بلوغ اور دوسری رشد۔
الف۔ بلوغ: بچہ جب سن بلو غ کو پہنچ جاتاہے تو اس پر کچھ شرعی ذمے داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔ مثلاً نماز، روزہ، حدود و دیات وغیرہ۔ کیونکہ ان تکالیف کی فہم زیادہ سوجھ بوجھ کی محتاج نہیں ہے۔ مثلاً حدود و تعزیرات میں جرائم کی برائی کا ادراک نسبتاً آسان ہے۔
ب۔ رشد: فَاِنۡ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ رُشۡدًا ۔ مالکانہ تصرف کے نافذہونے کے لیے بلوغ کے علاوہ رشد کا ہونا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ یہاں اگر رشد نہ ہو تو مالی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور مفاد پرست لوگ اس کم فہم اور سوجھ بوجھ نہ رکھنے والے نادان کو آسانی سے دھوکہ دے سکتے ہیں۔ اسی لیے اس آیت میں بلوغ کے ساتھ رشد کی بھی شرط عائد کی ہے۔
ابو حنیفہ کے نزدیک بلوغ کے بعدرشد نہ ہو تو یتیم کا ولی سات سال اور انتظار کرے گا۔ اس کے بعد خواہ رشد ہو یا نہ ہو، مال اس کے حوالے کیا جائے گا۔ امامیہ کے نزدیک رشد کا ہونا ہر حال میں ضروری ہے۔ یعنی اگر وہ مالکانہ تصرف کے اہل نہیں ہے تو یہ مال اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا ۔ شافعی کا نظریہ بھی یہی ہے ۔
۲۔ وَ لَا تَاۡکُلُوۡہَاۤ اِسۡرَافًا: مال یتیم کے خرچ کے سلسلے میں اسراف اور بدار نہ کرو۔ اسراف یعنی ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کرو۔ بدار یعنی مال یتیم کے ساتھ کسی قسم کا معاملہ کرنے میں اس وجہ سے جلد بازی نہ کرو کہ یتیم کے بالغ اور رشید ہونے کی صورت اس کے راضی نہ ہونے کا خطرہ ہے۔ مثلاً سرپرست اپنی منشا کے مطابق اجرت وصول کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً وہ ایک عمدہ نسل کا گھوڑا اجرت میں لینا چاہتا ہے اور ساتھ یہ خوف ہے کہ اگر بچہ بلوغ و رشد کو پہنچ گیا تو وہ یہ گھوڑا مجھے نہیں دے گا، اس لیے جلدی میں وہ یہ گھوڑا لے لیتا ہے۔
۳۔ وَ مَنۡ کَانَ غَنِیًّا: ولی اور سرپرست اگر مالدار ہے تو وہ یتیم کے مال سے اجرت لینے سے اجتناب کرے اور اگر فقیر ہے تو معمول کے مطابق اجرت لے سکتا ہے۔
۴۔ فَاِذَا دَفَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ جب یتیم رشد کو پہنچ جائے تو سرپرست پر واجب ہے کہ اس کا مال اس کے حوالے کر دے۔ اس عمل کے لیے گواہ رکھنا چاہیے تاکہ یتیم اور سرپرست کے درمیان نزاع کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔
۵۔ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا: اگر ولی اور گواہ سب نے مل کر یتیم کے حقوق ادا نہ کیے یا ادا کرنے کے باوجود ناحق ولی اور سرپرست پر دعویٰ ہوجائے تو ان حالات میں حساب لینے والا اللہ ہے۔ یہ اسلامی تربیت ہے۔ اگر یہ مطلب انسان کے ذہن میں جاگزیں ہو تو اس صورت میں کوئی نزاع واقع نہ ہو گا۔
اہم نکات
۱۔ ملکیت کے بارے میں اسلامی تصور اس طرح ہے:
الف۔ حقیقی مالک اللہ ہے۔
ب۔ اللہ کی طرف سے مال معاشرے کے سپرد ہوتا ہے۔
ج۔ معاشرہ اہلیت کی بنیاد پر یہ مال فرد کے حوالہ کرتا ہے۔ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ رُشۡدًا ۔۔۔۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 255)
میراث میں بھی یتیموں کا حصہ
وَ اِذَا حَضَرَ الۡقِسۡمَۃَ اُولُوا الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنُ فَارۡزُقُوۡہُمۡ مِّنۡہُ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا﴿النساء:۸﴾
اور جب (میراث کی) تقسیم کے وقت قریب ترین رشتے دار یتیم اور مسکین موجود ہوں تو اس (میراث) میں سے انہیں بھی کچھ دیا کرو اور ان سے اچھے انداز میں بات کرو ۔
تفسیر آیات
۱۔ وَ اِذَا حَضَرَ الۡقِسۡمَۃَ: یہاں خطاب میت کے ولی اور ورثاء سے ہے کہ میراث کی تقسیم کے وقت جو رشتہ دار اور غریب و مسکین اور یتیم بچے موجود ہوں تو اگرچہ از روئے قانون میراث میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے، لیکن از روئے شفقت تم خود اپنی طرف سے انہیں کچھ دے دیا کرو۔
۲۔ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا: اور مال و میراث سے محرومی کے ساتھ تم ان سے دل شکنی کی باتیں نہ کیا کرو۔ مال سے محرومیت کی صورت میں معمولی سی بدکلامی دل میں کینہ اور عداوت پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اس ممکنہ فساد کی روک تھام کے لیے کچھ مال دینے اور اچھے انداز میں بات کرنے کا حکم دیا۔
یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ محکم ہے (التبیان ۳: ۱۲۲) اور حکم واجب ہے یا مستحب اپنے مرجع تقلید کے فتویٰ کے مطابق عمل کرنا ہو گا۔
اہم نکات
۱۔ جہاں مال دینے کا حکم آتا ہے وہاں احترام آدمیت ملحوظ رکھنے کا بھی حکم ہوتا ہے۔ ممکن ہے یہ اس لیے ہو کہ اس جگہ انسان کا وقار مجروح ہونے کا زیادہ امکان رہتا ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 258)
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ الۡیَتٰمٰی ظُلۡمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ نَارًا ؕ وَ سَیَصۡلَوۡنَ سَعِیۡرًا﴿النساء:۱۰﴾
جو لوگ ناحق یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بس آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی جہنم کی بھڑکتی آگ میں تپائے جائیں گے۔
تفسیر آیات
سابقہ آیت میں انسان کے اپنے وجود کے اندر موجود فطری عوامل سے یتیموں پر ظلم کرنے سے باز رہنے کی بات ہوئی۔ اس آیت میں بیرونی عوامل سے خوف دلایا جا رہا ہے کہ یتیم کا مال کھانا درحقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھرنے کے مترادف ہے۔
یتیم کا مال کھانا پیٹ میں آگ بھرنا ہے۔ اس تعبیر سے دو باتیں سامنے آتی ہیں:
i۔ اعمال کی سزا اورجزا قراردادی نہیں بلکہ طبیعی ہے۔ یعنی گناہ کا ایک طبیعی نتیجہ ہوتا ہے جو ارتکاب کرنے والے کے لیے عذاب پر منتج ہوتاہے۔ چنانچہ یتیم کا مال کھانے کا طبیعی نتیجہ آگ ہے۔
ii۔ اعمال مجسم ہو کر سامنے آئیں گے۔ جیساکہ پہلے بھی ذکر ہوا کہ انسان کے اعمال قیامت کے دن بذات خود مجسم ہو کر سامنے آئیں گے۔ چنانچہ توانائی کے مادے میں تبدیل ہونے کے اصول کے مطابق عین ممکن ہے کہ یتیم کا مال کھانے کا عمل آگ کی شکل اختیار کر کے کھانے والے کو جلا دے۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اس آیت کی کسی قسم کی تاویل کی ضرورت نہیں ہے کہ مال یتیم کو مجازاً آگ کہا گیا ہے وغیرہ۔
اہم نکات
۱۔ قیامت کے دن برے اعمال خود سزا بن کر سامنے آئیں گے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 259)
وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ ۚ (انعام:152)
اور یتیم کے مال کے نزدیک نہ جانا مگر ایسے طریقے سے جو (یتیم کے لیے) بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنے رشد کو پہنچ جائے۔
تفسیر آیات
۱۔ مال یتیم کے نزدیک نہ جاؤ۔ یعنی یتیم کے مال پر تصرف نہ کرو۔ البتہ وہ تصرف جائز ہے جو یتیم کے حق میں ہو۔ مثلا یتیم کا مال خراب ہونے کا خطرہ ہے، کوئی پھل گل سڑ جانے کا خطرہ ہے تو اسے فروخت کرنا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ کے مصداق ہے۔ البتہ رشد کو پہنچ جائے اور اس وقت خود تصرف کرنے کا اہل ہو جائے تو اس کو یتیم نہیں کہتے۔ اس کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورہ نساء آیت ۶۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 158)

وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ ۪ وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا﴿الاسراء:۳۴﴾
اور تم یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس طریقے سے جس میں بہتری ہو یہاں تک کہ وہ اپنے سن بلوغ کو پہنچ جائے اور عہد کو پورا کرو، یقینا عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
تفسیر آیات
۱۔ وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ: مال یتیم کے بارے میں سورۃ النسآء آیت نمبر۲ تا ۱۰ میں تفصیل آ گئی ہے۔ یتیم کے مال کے نزدیک نہ جانے کا مطلب اس پر تصرف ہے۔ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ میں استثناء اس صورت میں ہے کہ یہ تصرف یتیم کے مال کی حفاظت کے لیے ہو۔ سورۃ الانعام آیت ۱۵۲ میں اس کا ذکر آچکا ہے۔ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ جب وہ بلوغ کو پہنچ جائے اور اپنے مال کا خود تحفظ کرسکے تو مال اس کے حوالے کرنا ہو گا۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 4 صفحہ 51)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button