رمضان المبارکمقالہ جات و اقتباسات

اعتکاف کی فضیلت اور احکام

اعتکاف کی تعریف اور احکام
اعتکاف اسلام میں ایک مستحب عبادت کی طرح ہے جس کے معانی یہ ہیں کہ عبادت کی غرض سے ایک معینہ مدت (کم از کم 3 دن) کیلئے مسجد میں ٹھہر نا۔ روزہ رکھنا،مسجد میں ٹھہرنا اور ہمہ وقت ذکرِ الٰہی میں مشغول رہنا یہ اعتکاف کے ارکان ہیں اور جو شخص اعتکاف کرتا ہے اُسے معتکف کہا جاتا ہے۔
اعتکاف مادہ "عکف” سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طرف متوجہ ہونے، رخ کرنے اور اس کی تکریم کرنے کے ہیں۔اور یہ لفظ قرآن کریم میں کئی مواقع پر اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور بعض لغت میں اسکے معنی "ٹھہر جانے” کے بھی ہیں کیونکہ معتکف ذکرِ الٰہی کے لئے مسجد میں رہتا ہے اور عبادت الٰہی میں مصروف و مشغول رہتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعتکاف کب کیا جائے تو اس ضمن میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اعتکاف کے لیے کوئی دن معیّن نہیں ہیں البتہ روایات میں یہ بات موجود ہے کہ ماہ رمضان میں اعتکاف کرنے کے بہت فضیلت ہے اور رمضان میں بھی اسکا بہترین وقت ماہ رمضان کا آخری عشرہ جانا گیا ہے.
کیا تمام مساجد میں اعتکاف کر سکتے ہیں یا مخصوص مساجد میں؟
اس سلسلے میں کچھ روایات آئی ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اعتکاف کو مکہ میں مسجد الحرام، مدینہ میں مسجد النبیؐ اور کوفہ کی مسجد کوفہ نیز بصرہ کی مسجد کے لئے مختص کیا گیا ہے مگر ایسی روایتیں بھی آئی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ جامع مسجد میں اعتکاف کرنا جائز ہے جب کسی امام عادل نے نماز جماعت یا نماز جمعہ ادا کی ہو۔
اعتکاف کی اہمیت اس قدر ہے کہ بعض بزرگان اسلام نے اعتکاف کو حج اصغر کا نام دیا ہے۔اور بعض اولیاء الہی نے لباس احرام میں اعتکاف کیا۔
اعتکاف کا ثواب زیادہ ہے اور ذات خدا کے سوا کوئی اسکے ثوابات کو نہیں جانتا۔
خدا وند فر ماتا ہے:-روزہ میرا ہے اور میں اسکی جزا دوں گا۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:- قلب اللہ کا حرم ہے پس حرم خدا میں غیر خدا کو نہ رہنے دوعظمت اور فضیلت خدا اس قدر زیادہ ہے کہ زمین،آسمان اپنی تمام وسعت کے ہوتے ہوئے بھی عظمت الہی کا ادراک نہیں کر سکتے۔مگر مومن کا دل تذکیہ نفس کے ساتھ عظمت الہی کا ادراک کر سکتا ہے۔اور وہ اپنی نظروں سے عا لم برزخ کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔جیسے کہ ایک صحابی سے رسولؐ نے پوچھا "تم نے کیسے صبح کی”؟تو جواب میں کہا”حالت یقین میں صبح کی وہ بھی اس طرح سے کہ میں ضمیر افراد کو دیکھ رہا ہوں اور انکے مقام کو بہشت میں مشاہدہ کر رہا ہوں۔
بعض حضرات یہ خیال کرتے ہیں کہ اعتکاف کا مطلب دنیا سے کنارہ کشی یا گوشہ نشینی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اعتکاف بصیرت کے ساتھ اور احوال مسلمین کی آگاہی کے ساتھ رہنا چاہئے۔اسلئے کہ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:-"جس نے صبح کی اور مسلمانوں کے امور سے آگاہ نہیں ہے وہ مسلم نہیں ہے”
فوائد:
الف- ظاہری طہارت اور باطنی طہارت: خدا فرماتا ہے:- إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
بتحقیق خدا توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے(سورہ بقرہ آیت 222)
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:- "ہمیشہ با وضو رہو تاکہ خدا وند تمہاری عمر کو طویل کرے اور اگر ہو سکے تو رات کو با وضو سویا کرو اسلئے کہ اگر باوضو دنیا سے چلے گئے تو شہید کا ثواب عطا ہوگا۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:- "ہر وقت اپنے اعضاء کو پاک رکھو اور اپنے قلب کو بھی تقویٰ اور یقین سے پاک کرو
ب:- تذکیہ نفس اور خود سازی:
یہ ایسا مورد ہے جسکے سلسلہ میں خداوند نے سورہ شمس میں گیارہ مرتبہ قسم کھائی اور پھر تذکیہ نفس کے بارے میں کہا قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا
بے شک وہ کامیاب ہوگیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنالیا۔امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:- "جو شخص اپنے نفس کا تذکیہ نہیں کرےگا وہ اپنے عقل سے فائدہ نہیں اٹھائیگا”دوسری جگہ فرماتے ہیں "جو شخص اپنے آپ کو لوگوں کا امام،پیشوا کہتا ہے تو اسے چاہئے کہ دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے نفس کو تعلیم دے،اپنی زبان سے ادب سکھانے سے پہلے اپنے کردار سے ادب سکھائے،اور اپنے آپ کو تعلیم دینا اور ادب سیکھانا دوسروں کو تعلیم دینے اور ادب سیکھانے سے افضل ہے”
ج:- ذکر الہی:خدا وند نے ہر عبادات کی حدود کو مشخص کیا ہے جیسے نماز،روزہ،حج وغیرہ مگر خدا نے جس عبادت کی حدود معین نہیں کیا ہے وہ ذکر الہی ہےخدا فرماتا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيرًا یعنی اے ایمان والوں اللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو(سورہ احزاب آیت 41)
وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًااور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو(سورہ احزاب آیت 42)
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:- "کبھی بھی اہل بہشت غمگین نہیں ہوتے ہیں مگر صرف ایک وقت کہ جب وہ ذکر الہی میں مشغول نہیں ہوتے ہیں”ایک جگہ فرماتے ہیں:- "تین طرح کے لوگ ابلیس اور اسکے فوج سے بچے رہتے ہیں” ایک وہ لوگ جو ذکر خدا کرتے ہیں دوسرے وہ لوگ جو خوف خدا سے گریہ کرتے ہیں تیسرے وہ لوگ جو بہت زیادہ استغفار کرتے ہیں”
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:- "ہمیشہ ذکر خدا کرنا قلب اور فکر کی نورانیت کا سبسب بنتی ہے”
د:- خدا کی نشانیوں میں فکر کرنا:
خدا فرماتا ہے:- إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ بے شک زمین و آسمان کی خلقت لیل و نہار کی آمدو رفت میں صاحبانِ عقل کے لئے قدرت کی نشانیاں ہیں۔(سورہ آل عمران آیت 190)الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّٰهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، جو لوگ اٹھتے, بیٹھتے, لیٹتے خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غوروفکر کرتے ہیں… کہ خدایا تو نے یہ سب بے کار نہیں پیدا کیا ہے- تو پاک و بے نیاز ہے ہمیں عذاب جہّنم سے محفوظ فرما۔(سورہ آل عمران آیت 191)
ھ:- غفلت سے دوری:
خدا فرماتا ہے :- وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ، اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں۔یہ چوپائے جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ اصل میں غافل ہیں۔(سورہ اعراف آیت 179)
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:- "ہمیشہ ذکر خدا کرنا غفلت سے دوری کا سبب ہے”دوسری جگہ فرماتے ہیں:- "غفلت بینا کو نابینا کر دیتا ہے”
و:- نماز شب:
قرآن کہتا ہے:- وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَىٰ أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا، اور رات کے ایک حصہ میں قرآن کے ساتھ بیدار رہیں یہ آپ کے لئے اضافہ خیر ہے عنقریب آپ کا پروردگار اسی طرح آپ کو مقام محمود تک پہنچادے گا۔(سورہ اسراء آیت 79)
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:- "جو شخص خدا اور روز قیامت پہ ایمان رکھتاہے وہ صبح نہیں کرتا مگر یہ کہ نماز شفع اور وتر پڑھ کے”
ز:- محاسبہ نفس:
قرآن میں ہے:- يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۚ إِنَّ اللّٰهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ، ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیج دیا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ وہ یقینا تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔(سورہ حشر آیت 18)
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللّٰهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ، اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے خدا کو بھلادیا تو خدا نے خود ان کے نفس کو بھی بھلا دیا اور وہ سب واقعی فاسق اور بدکار ہیں۔(سورہ حشر آیت19)
امام کا ظم علیہ السلام فرماتے ہیں:- ” جو ہر روز اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ گویا یہ بات سامنے آتی ہے کہ اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جس سے دوسری عبادات کی حقانیت کا اندازہ ہوتا ہے اور انسان کو ایک بہترین انسان،متقی،پرہیزگار بننے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
اعتکاف ایک ایسا عمل ہے جو ہمارا تذکیہ نفس تو کرتا ہی ہے ساتھ ساتھ اللہ سے وابستگی میں اضافہ کر دیتا ہے اور اعتکاف انسان کی ہدایت کے لیے خاموش پیغمبر کی طرح ہے۔جس طرح رسولوں نے اپنی زبان اور افعال کے ذریعے ہماری ہدایت کی اُسی طرح اعتکاف بھی اپنے ارکان سے ہماری ہدایت کرتا ہے۔مگر رمضان میں اعتکاف کرنے کی زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے یہ اللہ کا مہینہ ہے اور اس مہینے سے زیادہ کسی اور مہینے میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ بندوں کو اسکے خالق سے قریب کر سکے۔رمضان میں اعتکاف کرنا نور علی النور کی منزل جیسی ہے۔ اعتکاف ایسی راہ کو کہتے ہیں جو راہی کو اپنی منزل واقعی یعنی قرب خدا تک رسائی کو ممکن بناتی ہے۔ مذکورہ آیات اور احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اعتکاف بھی اُن اعمال میں سے ہے جس کی فضیلت عرش کے ستاروں سے کئی گنا زیادہ ہے۔
https://ur.hawzahnews.com/news/397790

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button