سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

خیر نساء العالمین سلام اللہ علیھا کے ذیل میں جناب سیدہ کونین سلام اللہ علیھا کے امتیازات

مقالہ نگار: ثاقب علی ( متعلم جامعۃ الکوثر)
چکیدہ
رسول اللہؐ نے اپنے جانے سے پہلے امت کی ھدایت کیلئے دو گراں قدر چیزوں یعنی قرآن و اہل بیتؑ کا تعارف فرمایا اور امت مسلمہ پر ان سے تمسک کرنے کو لازم قرار دیا۔اس مقالے کا اصل موضوع”خیرنساء العالمین سلام اللہ علیھا ” کے ذیل میں جناب سیدہ کونینؑ کے امتیازات”ہے۔اس مقالے میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ آغاز میں اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر عورت سے متعلق بعض دیگر مذاھب و اقوام کے نکتہ نظر کی طرف اشارہ کیا جائے گا اور پھر اسلام کا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے اس نکتہ نظر پر کئے جانے والے بعض اہم اعتراضات کا جواب دیا جائے گا۔اس کے بعد کائنات کی چار افضل ترین خواتین حضرت آسیہؑ،حضرت مریمؑ،حضرت خدیجۃ الکبریٰؑ اور حضرت فاطمۃ الزہراءؑ کا ذکر کیا جائے گا اور اختصار کے ساتھ جناب سیدہ کونین ،مادر حسنین،سیدۃ نساء اہل جنت ،ام ابیھا،کوثر اہل بیتؑ حضرت فاطمۃ الزہراءؑ کے چند امتیازات کو بیان کیا جائے گا۔
مقدمہ
حمد و ثنا ہے اس ذات کی کہ جو عالمین کا پروردگار ہے۔پاک ہےوہ ذات کہ جس نے انسان کو اپنی عبادت کیلئے خلق فرمایا اور انبیا ء و اہل بیتؑ کو انسان کی ھدایت کیلئے چنا ۔درود و سلام ہو محمد و آل محمدؐ پر کہ جن کو اللہ تعالی نے ہر قسم کےرجس و ناپاکی سے دور کیا ۔اس بات پر اللہ تعالی کے شکر گزار ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمارے دلوں کو محمؐد و آل محمدؐ کی محبت سے منور کیا پس اگر انسان چاہتا ہے کہ ھدایت پائے تو ضروری ہے کہ ھادیان دین کی معرفت حاصل کرے اور ان کی پیروی کرے۔
مسلمان علماء و مفکرین نے آغاز سے لیکر آج تک ہر دور میں سیرت کے موضوع کو بہت اہمیت دی اور کسی بھی زمانے میں اس اہم موضوع کو فراموش نہیں کیا،اس موضوع پر بہت ساری کتابیں لکھی گئیں اور تاریخ کی عظیم شخصیات کا تعارف فرمایا۔جہاں مسلمان علماء نے انبیاء و بالخصوص حضرت محمد مصطفیٰؐ کی سیرت کو اہمیت کے ساتھ بیان کیا وہاں شیعہ و اہل سنت علماء نے ہر دور میں اہل بیتؑ کی سیرت کو بھی شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا اگر چہ حاسدین نے فضائل اہل بیتؑ کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن نور خدا کو پھونکوں سے بجھایا نہیں جاسکتا ۔اگر چہ آج بھی بعض اہل بیتؑ دل میں رکھنے والوں کی حد درجہ کوشش ہے کہ کسی طرح بھی ہو اہل بیتؑ کے فضائل بیان نہ ہوں لیکن روز بروز ذکر اہل بیتؑ میں اضافہ ہورہا ہے۔ایک دور ایسا تھا کہ کھل کر محبت اہل بیتؑ کا اظہار جرم سمجھا جاتا ہے لیکن آج بغض اہل بیتؑ دل میں رکھنے والے ناصبی بھی بظاہر زبان پر اپنی ناصبیت چھپانے کیلئے اہل بیتؑ کے فضائل بیان کرتے نظر آرہے ہیں۔
اس مختصر سی تحقیق میں کائنات کی عظیم ہستی،محور اہل بیتؑ شھزادی کونین حضرت فاطمۃ الزہراءؑ کا تعارف اور آپؑ کے امتیازات کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔حضرت فاطمۃ الزہراءؑ کے خصائص و فضائل اور آپؑ کے امتیازات کے بارے میں طول تاریخ میں بہت ساری کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن آج بھی اس عظیم ہستی سے متعلق اگرکوئی انسان تحقیق کرتا ہے تو تحقیق کے بعد بھی تشنگی کا احساس کرتا ہے۔ زیر نظر مقالے کی اہمیت کے پیش نظر ابتدا میں خود عورت سے متعلق اسلام کا نکتہ نظر مقدماتی طور پر بیان کیا گیا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں روز قیامت شفاعت فاطمۃ الزہراءؑ سے محروم نہ فرمائیے۔
عورت کے بارے میں اسلام کا نکتہ نظر
معاشرے میں عورت کا کیا مقام ہےیہ مسئلہ ان بنیادی مسائل میں سے ایک ہے کہ جو طول تاریخ میں زیر بحث رہے ہیں۔مختلف شخصیات،مذاھب و مختلف معاشروں میں عورت سے متعلق مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔عورت سے متعلق اسلام کا نکتہ نظر بالکل بھی وہ نہیں ہے کہ جو نکتہ نظر عورت سے متعلق یونان و مغرب کا ہے۔وہ نقطہ نظر کہ جس میں عورت کو ایک کنیز تصور کیا جاتا ہے،عورت بیچاری اپنی ملکیت سے محروم ، مرد کی تابع اور صرف مرد کی خواہشات کے رحم و کرم پر،بلکہ آج سے ایک صدی پہلے تو مغرب میں عورت کو شر محض سمجھا جاتا تھا جو کہ جہالت کی انتہا ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی "یونانی معاشرے میں عورت نامکمل انسان تھی”کے زیر عنوان اپنی ایک ریسرچ میں لکھتے ہیں کہ :”ارسطو کا خیال تھا کہ عورت نامکمل انسان ہے،عورت کی پیدائش نامکمل حمل کے نتیجے میں ہوتی ہے اس لئے وہ ناقص العقل اور ادھوری ہے۔ارسطو ہی نہیں بلکہ دوسرے یونانی مفکرین بھی عورت کو تمام برائیوں کی جڑ سمجھتےتھے ۔یونانی مفکرین کے اس نظرئیے نے نہ صرف یونان بلکہ آگے چل کر عیسائی دنیا میں بھی عورت کے بارے میں ان خیالات کو مستحکم کیا۔”(1)
رہبر معظم سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں کہ :”مغربی ثقافت میں قبل از قرون وسطیٰ سے اس صدی کے آخر تک عورت کو دوسرا درجہ دیا گیا،۔۔۔۔۔مغربی ادب میں مرد ،عورت کا سردار، مالک اور صاحب اختیار ہے اور اس ثقافت کی بعض مثالیں و آثار آج بھی باقی ہیں۔”(2)
اسلام اس نقطہ نظر کو شدت کے ساتھ رد کرتا ہے اور معاشرے میں عورت کےایک عظیم مقام کا قائل ہے۔اسلام عورت کو معاشرے کا اساسی رکن سمجھتا ہے،عورت کو عائلی زندگی کا محور سمجھتا ہے،عورت کیلئے ملکیت کا قائل ہے حتی کہ اسلامی معاشرے میں عورت اگر بیٹی کی صورت میں ہے تو باپ اس کو اپنے لئے اللہ کی رحمت سمجھتا ہے،اگر بیوی کی صورت میں ہے تو بیوی کو مرد کیلئے اسلامی معاشرے میں نصف ایمان سمجھا جاتا ہے اور اگر ماں کی صورت میں ہو تو ماں کے پاوں تلے بچوں کیلئے جنت کو قرار دیا جاتا ہے۔اسلام پہلے دن سے ہی معاشرے میں عورتوں پر ہونے والے مظالم کی نفی کرتا ہے اور عورت کو مرد کی طرح معاشرے کا ایک اساسی رکن سمجھتا ہے۔اسلام کسی بھی صورت میں عورت کا مقام مرد سے کم نہیں سمجھتا خداوند تبارک و تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ :اِنَّ الۡمُسۡلِمِیۡنَ وَ الۡمُسۡلِمٰتِ وَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَ الۡقٰنِتِیۡنَ وَ الۡقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیۡنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیۡنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الۡخٰشِعِیۡنَ وَ الۡخٰشِعٰتِ وَ الۡمُتَصَدِّقِیۡنَ وَ الۡمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآئِمِیۡنَ وَ الصّٰٓئِمٰتِ وَ الۡحٰفِظِیۡنَ فُرُوۡجَہُمۡ وَ الۡحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیۡنَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ مَّغۡفِرَة وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا۔” یقینا مسلم مرد اور مسلم عورتیں، مومن مرد اور مومنہ عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، راستگو مرد اور راستگو عورتیں، صابر مرد اور صابرہ عورتیں، فروتنی کرنے والے مرد اور فروتن عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی عفت کے محافظ مرد اور عفت کی محافظہ عورتیں نیز اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں وہ ہیں جن کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔”(3)
اسلام میں آزادی کا تصور
بعض نام نہاد روشن خیال یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو گھر میں قید کرکے رکھا ہے اْسے پردے کے خول میں بند کرکے رکھا ہے حالانکہ عورت کو بھی مرد کی طرح آزاد ہونا چاہئے۔یہ وہ افراد ہیں کہ جو لبرل ازم کا شکار ہوچکے ہیں۔لبرل ازم میں بھی آزادی کا تصور ہے اور اسلام میں بھی آزادی کا تصور ہے لیکن لبرل ازم میں آزادی کا مطلب یہ ہے کہ انسان جسمانی ، فکری بلکہ ہر لحاظ سے آزاد ہے یعنی انسان ہر قسم کے حدود و قیود سے آزاد ہے ،انسان ہر قسم کے قانون سے آزاد ہے۔درحقیقت لبرل ازم میں آزادی نہیں بلکہ آزادی کے نام پر ایک دھوکہ ہے قانون شکنی و آوارہ گردی کو آزادی کا لبادہ پہنایا جاتا ہے۔اگر کسی شھر کے اندر ایک گھنٹے کے لئیے بھی ٹریفک کے قوانین کو اٹھا لیا جائے تو ایک گھٹنے میں بہت ساری جانیں جاسکتی ہیں اور اسی طرح بہت سارے صحت مند معذور ہو سکتے ہیں لھذا آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قوانین کو انسان پر سے اٹھا لیا جائے اور پھر انسان جو چاہئے کرے جیسا چاہئے کرے بلکہ آزادی کا مطلب قانون کے اندر رہ کر ترقی و کمال تک پہنچنے کیلئے راستے میں موجود ہر قسم کے رکاوٹوں کو اٹھانا ہے نہ کہ خود قانون کو اٹھانا۔
اگر اسلام میں عورت کیلئے پردے کا حکم ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کو پردے کے خول میں بند کیا ہوا ہے،اگر ایک مسلمان عورت کو زیادہ تر گھر میں رہنا پڑتا ہے جبکہ مرد کو زیادہ تر گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے اس کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ اسلام نے عورت کو گھر میں قیدی بنا رکھا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام عورت کو گھر کا محور و مرکز قرار دیتا ہے،عورت کو گھر کی شہزادی و مہارانی قرار دیتا ہے۔اگر کوئی کہے کہ سونے کو بھی لوہے کی طرح تالے سے باہر ہونا چاہئے سونے کو صندوق کے اندر رکھ کر بند کردینا درست نہیں ہے اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو یقینا غلط سوچتا ہے اس بندے کو نہ سونے کی اہمیت کا علم ہے اور نہ وہ یہ چاہتا ہے کہ سونا محفوظ رہے ،سونے کو لوہے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔لھذا اسلام نے عورت کو بہت اہمیت دی ہے مرد کو عورت کا محافظ قرار دیا ہے جبکہ عورت کو گھر میں شہزادی و مہارانی کے طور پر متعارف کرایا ہے کہ جسکی حفاظت بھی مرد پر واجب ہے اور اسکے نان و نفقہ کا بھی مرد ہی ذمہ دار ہے۔
لھذا اسلام کا عورت سے متعلق جو نقطہ نظر ہے دنیا میں کسی بھی مذھب کا نہیں ہے بلکہ اکثر مذاھب افرا ط و تفریط کا شکار ہوچکے ہیں۔ایک اسلامی معاشرے کے اجتماعی امور میں نہ صرف یہ کہ عورت حصہ لے سکتی ہے بلکہ لازمی ہے کہ ایک مسلمان عورت اجتماعی امور میں حصہ لے وگرنہ ایک بہترین اسلامی معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا۔اسلام کے آغاز سے لیکر آج تک بہت ساری عورتوں کا تاریخ میں ذکر ہے کہ جنہوں نے مردوں کے ساتھ نہ صرف اجتماعی امور میں حصہ لیا بلکہ بڑھ چڑھ کر اس انداز سے حصہ لیا کہ تاریخ کے رخ کو ہی بدل ڈالا ،اس کی ایک مثال خود حضرت فاطمة الزہراءؑ ہیں۔اسکے علاوہ جنگوں میں رسول اللہؐ کے ساتھ صرف اصحاب شریک نہیں ہوئے بلکہ صحابیات بھی شریک ہوئیں اور دوران جنگ کئی شعبوں کو سنھبالتی رہیں۔
جو معاشرہ آج سے ایک صدی پہلے تک عورت کو شر محض قرار دے رہا تھا آج کچھ مالی مفادات اور نفسیاتی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے حقوق نسواں کا ڈھونگ رچاتا ہے اس معاشرے اور اسمعاشرے سے متاثر نام نہاد روشن خیالوں کو یہ حق نہیں کہ اسلام کے خلاف زبان درازی کریں کیونکہ عورت کی آزادی کا جو نعرہ لگایا جارہا ہے اسکی حقیقت عورت تک مرد کو پہنچنے کی آزادی ہے۔
مرد و زن میں مساوات کا حقیقی تصور
اسمیں کوئی شک نہیں کہ مرد و زن معاشرے میں مساوی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ یہاں مساوات سے مراد کیا ہے۔اگر کوئی اس سے یہ مراد لیتا ہے کہ مرد و زن مساوی ہیں یعنی جیسے مرد کو ہونا چاہئے ویسے ہی عورت ہو،جو احکام مرد کیلئے ہیں وہی احکام عورت کیلئے ہونے چاہئے اور جو وسائل مرد کیلئے ہیں بعینہ وہی وسائل عورت کیلئے بھی ہونے چاہئے۔اگر کوئی مساوات سے یہ مراد لیتا ہے تو یہ بالکل بھی درست نہیں ہے چونکہ مرد و عورت طبیعتا و فطرتا ایک جیسے نہیں ہیں اور جب ایک جیسے نہیں ہیں تو یہ ممکن نہیں کہ ان دونوں کیلئے ایک جیسے احکام ہوں اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ان کو ایک جیسے ہی وسائل دے دئیے جائیں۔اگر کوئی کہے کہ ایک چھوٹا بچہ بھی انسان ہے اور ایک اسی سالہ بوڑھا بھی انسان ہے اسی طرح ایک بیس سالہ جوان بھی انسان ہے،ایک مرد بھی انسان ہےاور ایک عورت بھی انسان ہے لھذا ان سب پر ایک جیسے احکام لاگو ہوں اور ان تمام کیلئے ایک جیسے وسائل ہی فراہم کیئے جائیں تو کوئی بھی اس بات کو قبول نہیں کرے گا۔چونکہ ایک بچے کو دودھ چاہیئے ایک بچے پر ان احکامات کا جاری کرنا ممکن ہی نہیں ہے جو ایک بیس سالہ جوان یا ایک پندرہ سالہ نوجوان کیلئے ہیں اور یہ بھی ممکن نہیں کہ ایک جوان ہمیشہ ایک بچے کی طرح دودھ ہی پیتا رہے یا ایک جوان اسی سالہ بوڑھے کی طرح زندگی گزارے،یہ بھی ممکن نہیں کہ ایک ملائم مزاج رکھنے والی عورت پر وہ بوجھ ڈال دیا جائے یا ایک ایسی سخت ذمہ داری دے دی جائے جو اسلام نے ایک سخت جان مرد کے کاندھوں پر رکھی ہے اگر ایسا ہوا تو عورت اپنی فطرت سے ہٹ جائے گی یعنی عورت سے وہ کام لیا جارہا ہے جس کا کرنا اسکے لئیے ناممکن حد تک مشکل ہے،اسی طرح ایک ملازم و نوکر اور ایک اہم عہدے پر فائز فوجی آفسر کے احکام و وسائل ایک جیسے کردیں تو کوئی بھی اس کو مساوات نہیں کہتا بلکہ یہ ایک بیوقوفی ہے اور نہ کبھی دنیا میں کسی نے ایسا کیا ہے۔
مساوات کا مطلب یہ نہیں ہے جو اوپر بیان کیا گیا بلکہ مساوات کا مطلب یہ ہے کہ چاہئے مرد ہو یا عورت،چھوٹا ہو یا بڑا یہ سب کے سب انسانیت میں مساوی ہیں جب انسانیت میں مساوی ہیں تو یہاں تک توان سب کے احکام بھی ایک جیسے ہونے چاہیں انکے لئیے اس انسانیت کی حد تک ہمیں چاہئے کہ ایک جیسے وسائل کے قائل ہوں لیکن اسکے بعد جہاں طبیعتوں میں اختلاف ہے جہاں سے انکے خواص مختلف ہیں لھذا اس کے بعد انکی طبیعتوں اور خواص کو مد نظر رکھتے ہوئے انکے لئیے احکام وضع کئےجائیں اور اسلام نے ایسا ہی کیا ہے۔جہاں مساوات ہے وہاں مساوات کا درس دیا ہے اورجہاں طبیتعوں و خواص میں اختلاف ہے وہاں اس اختلاف کو سامنے رکھتے ہوئے احکام جاری کئے ہیں۔
مساوات کا جو درس ہمیں اسلام دیتا ہے ،قرآن دیتا ہے وہ بے مثال ہے اس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی قرآن مجید میں اللہ تعالی کا فرمانہ ہے۔یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ۔ "اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیداکیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ تعالی کے نزدیکیقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔”(4)
اسلام میں عورت کو مرد پر ترجیح :
اگر کوئی اسلام سے آگاہی رکھتا ہے تو وہ کبھی یہ نہیں کہے گاکہ اسلام نے مرد کو عورت پر ترجیح دی ہے بلکہ وہ اس بات پر یقین رکھے گا کہ اسلام نے عورت کو مرد پر ترجیح دی ہے۔حتی کہ قرآن مجید میں اہل ایمان کیلئے بطور مثال اللہ تعالی مردوں کی بجائے چند مقامات پر عورتوں کا ذکر کرتا ہے رسول اللہؐ کی حدیث مبارک ہے کہہ :نِعْمَ الْوَلَدُ الْبَنَاتُ مُلْطِفَاتٌ مُجَهِّزَاتٌ مُونِسَاتٌ مُبَارَکَاتٌ مُفَلِّیَاتٌ۔"بہترین اولاد بیٹیاں ہیں جو مہربان، آمادۂ خدمت، مانوس، بابرکت اور چست ہوتی ہیں۔”(5)
اسی طرح حضرت امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ :الْبَنُونَ نَعِیمٌ وَ الْبَنَاتُ حَسَنَاتٌ وَ اللَّهُ یَسْأَلُ عَنِ النَّعِیمِ وَ یُثِیبُ عَلَی الْحَسَنَاتِ(بیٹے نعمتیں ہیں اور بیٹیاں نیکیاں ہیں۔اللہ تعالی نعمتوں سے متعلق بندے سے سوال کرے گا اور نیکیوں پر ثواب دے گا۔)(6)
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہؐ کے پاس ایک صحابی آتا ہے اور رسول اللہؐ سے پوچھتا ہے:یَا رَسُولَ اللہِ مَنْ اَبَرُّ؟ قَالَ: اُمَّکَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: اُمَّکَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: اُمَّکَ۔ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: اَبَاکَ۔”میں کس پر احسان کروں؟ فرمایا: اپنی ماں پر۔ کہا: پھر کس پر؟ فرمایا: اپنی ماں پر۔ کہا: پھر کس پر؟ فرمایا: اپنی ماں پر۔ کہا: پھر کس پر؟ فرمایا اپنے باپ پر۔”(7)
بہت سارے احکامات میں عورت کو رعایت دی ہے کچھ سزائیں ایسی ہیں کہ جو عورت کیلئے نہیں ہیں حالانکہ اگر وہی گناہ مرد کرے تو اسکے لئیے وہ سزائیں ہیں لیکن عورت کو رعایت دی ہے یعنی عورت کی سزا مرد سے کئی مقامات پر کم ہے اس کے ساتھ ہی احکامات و وسائل کی بنا پر بھی کئی مقامات پر عورت کو ترجیح دی گئی ہے۔کچھ ذمہ داریاں ایسی ہیں کہ جو عورت کے دوش پر نہیں ہیں جیسے عورت قاضی نہیں بن سکتی یا مثلا مرجع تقلید نہیں بن سکتی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت اجتہاد نہیں کرسکتی ایسا بالکل بھی نہیں ہے اجتہاد کرسکتی ہے لیکن قضاوت و مرجعیت کسی خصوصیت کا نام نہیں کہ جو عورت میں آہی نہیں سکتی بلکہ یہ ذمہ داریاں ہیں اور یہ بہت سخت ذمہ داریاں ہیں ایک نازک مزاج عورت ان ذمہ داریوں کو کاندھوں پہ نہیں اٹھا سکتی ۔باالفاظ دیگر یہاں بھی اللہ تعالی نے عورت کو رعایت دی ہے کہ وہ مثلا علم حاصل کرسکتی ہے اجتہاد کرسکتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی سخت ذمہ داریاں اس کے دوش پہ نہیں رکھی،اب یہاں پر بھی اگر ہم دیکھیں تو اللہ تعالی نے عورت کو مرد پر ترجیح دی ہے مرد کو ذمہ داری دی ہے جبکہ عورت کے کاندھوں سے ذمہ داری اٹھائی ہے۔
کائنات کی چار عظیم خواتین
حضرت آدم سے لیکر آج تک تاریخ انسانیت میں بہت ساری ایسی خواتین ہر دور میں رہی ہیں کہ جنکی عظمت و فضیلت قابل بیان ہے تاریخ نے ان عظیم ہستیوں کے کارنامےاور انکے خصائص و فضائل کو قلم بند کیا ہے۔ان ہستیوں میں سے چار وہ عظیم ہستیاں ہیں کہ جنکو کائنات کی سب سے بافضیلت ہستیاں قرار دیا گیا ہے۔
رسالت مآبؐ سے شیعہ و اہل سنت کتب احادیث میں مختلف عبارات کے ساتھ مروی ہےکہ:أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَرْبَعٌ خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ وَ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ وَ مَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ آسِیَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ۔”اہل جنت کی عورتوں میں سب سےافضل ترین خواتین خدیجہ بنت خویلد،فاطمہ بنت محمد،مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم فرعون کی بیوی ہیں۔”(8)
یہ وہ عظیم خواتین ہیں کہ جن کی اللہ تعالی کی راہ میں ثابت قدمی و مجاھدانہ جذبہ طول تاریخ میں بے مثال ہے۔
حضرت آسیہ سلام اللہ علیھا
کائنات کی چار عظیم خواتین میں سے تاریخ انسانیت کی پہلی خاتون حضرت آسیہ ؑ ہیں۔حضرت آسیہؑ فرعون کی بیوی ہیں وہ فرعون کہ طول تاریخ میں جسکی سرکشی بے مثال ہے وہ فرعون کہ جو دنیا کے طواغیت کیلئے ایک نمونہ ہے لیکن اسی فرعون کی بیوی حضرت آسیہؑ کو اللہ تعالی مومنین کیلئے ایک مثال قرار دیتے ہوئے قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ:وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡن۔"اوراللہ نےمومنین کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال پیش کی ہے۔”(9)
ایک طرف فرعون ہے کہ جو اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت موسی کو جادوگر کہہ کر پیغام الہی کو جھٹلا رہا ہے دوسری طرف حضرت آسیہؑ اپنے تمام تر دنیاوی وسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ جملے دھرا رہی ہیں۔اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡن۔"اس نے دعا کی: اے میرے رب! جنت میں میرے لیے اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کی حرکت سے بچا اور مجھے ظالموں سے نجات عطا فرما۔”(10)
بے شک حضرت آسیہؑ نے تاریخ میں ایک ایسی مثال قائم کردی جس کی نظیر نہیں ملتی۔
حضرت مریم سلام اللہ علیھا
کائنات کی چار عظیم خواتین میں سے تاریخ انسانیت کی دوسری عظیم ترین خاتون ام عیسیٰؑ حضرت مریمؑ ہیں وہ عظیم خاتون کہ جن کی پاکدامنی کی گواہی و عبادت گزاری کی گواہی قیامت تک قرآن مجید دے رہا ہے ۔اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ:وَ اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰامَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰکِ وَ طَہَّرَکِ وَ اصۡطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الۡعٰلَمِیۡنَ۔"اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا: اے مریم!بیشک اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں پر برگزیدہ کیا ہے۔”(11)
حضرت مریمؑ بھی وہ بے مثال خاتون ہیں کہ خداوند تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں جن کو مومنین کیلئے نمونہ قرار دیا ہے۔خداوند تبارک و تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ:وَ مَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ صَدَّقَتۡ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہٖ وَ کَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِیۡنَ۔”اور مریم بنت عمران کو بھی (اللہ مثال کے طور پر پیش کرتا ہے) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح میں سے پھونک دیا اور اس نے اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی۔”(12)
حضرت خدیجة الکبری سلام اللہ علیھا
تاریخ انسانیت کی تیسری عظیم خاتون حضرت خدیجة الکبریؑ ہیں کہ جن کا شمار بھی کائنات کی چار عظیم و بافضیلت خواتین میں ہوتا ہے حضرت خدیجہؑ بھی حضرت آسیہؑ کی ایک شبیہ ہیں۔مکہ کے مشرکین رسول خدا کو جھٹلارہے ہیں لیکن حضرت خدیجہؑ رسول اللہؐ پر ایمان لاتی ہیں اور ہر میدان میں اپنے زمانے کی حجت خدا کی مدد کیلئے کمر بستہ ہوجاتی ہیں۔جب تک حضرت ابو طالبؑ اور حضرت خدیجة الکبریؑ زندہ تھے رسول اللہؐ کو اللہ تعالی نے مکہ سے ہجرت کی اجازت نہیں دی لیکن جب ان عظیم شخصیات کی شھادت واقع ہوجاتی ہے تو اس کے بعد رسول اللہؐ کو ہجرت کا کہاجاتا ہے۔
اس عظیم خاتون کی بصیرت کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو شخص بظاہر ایک یتیم نظر آتا تھا اور جو مالی لحاظ سے بھی کوئی امیر شخصیت نہیں تھے لیکن حضرت خدیجة الکبریؑ نے اس یتیم کے اندر موجود کمال کو بصیرت کی نگاہ سے دور جاھلیت میں درک کیا،اور نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ اپنا سارا مال بغیر کسی لالچ کے اسلام کی تقویت کیلئے صرف کیا۔ابن عباس سے روایت ہے کہ:أَوَّل مَن آمن برسول اللهؐ من الرِجَالِ عَلّيِ، وَ مِنَ النِّساءِ خَدِيجَةٌ۔”سب سے پہلے رسول اللہ پر مردوں میں سے علیؑ ایمان لیکر آئے اور عورتوں میں سے حضرت خدیجة ؑایمان لیکر آئی۔”(13)
حضرت فاطمة الزہراء سلام اللہ علیھا
تاریخ انسانیت میں کائنات کی چار عظیم و بافضیلت خواتین میں سے چوتھا نام خاتون جنت حضرت فاطمة الزہراء کا ہے۔جناب سیدہ ؑ خواتین میں سے کائنات کی سب سے افضل ترین ہستی ہیں رسول اللہ ؐ شھزادی کونین سے متعلق فرماتے ہیں کہ:ابْنَتِی فَاطِمَةُ فَهِیَ سَیِّدَةُ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ مِنَ الْأَوَّلِینَ وَ الْآخِرِینَ۔”میری بیٹی فاطمہ ؑعالمین کی عورتوں کی سردار ہے۔”(14)
خاتون جنت،شھزادی کونین،کوثر اہل بیت،محور عصمت و طھارت،سیدة النساء العالمین حضرت فاطمة الزہراءؑ کا شمار امت کی ان عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے کہ جنکی عظمت و فضیلت پر امت کااجماع ہے۔قرآن کی دسیوں آیات اور معصومین سے مروی سینکڑوں روایات حضرت فاطمہؑ کی عظمت و فضیلت پر دلیل ہیں ۔اہل تشیع کے بعض محققین نے قرآن مجید کی 112آیات کے بارے میں بتایا ہے کہ جو شہزادی کونین کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔البتہ ان میں سے کچھ آیات ایسی ہیں کہ جنکی دلالت عمومی ہے لیکن شہزادی کونین ان آیات کی صفِ اول کے مصادیق میں سے ہے۔اسی طرح اہل سنت مفسرین میں سے بعض نے بھی 40سے زیادہ آیات کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو شہزادی کونین کی شان میں نازل ہوئی ہیں بلکہ سورة الکوثر تو پورے کا پورا سورہ حضرت فاطمہؑ کی شان میں نازل ہوا ہے۔
ایسا ہر گز نہیں ہے کہ بی بی فاطمة الزہراءؑ کی شان میں صرف اہل تشیع کے کتب میں احادیث وارد ہوئی ہیں بلکہ اہل سنت کی کتب میں بھی بی بی فاطمۃ الزہراءؑ کی شان میں پیغمبرِ اسلامؐ سے دسیوں احادیث موجود ہیں ۔صحیح بخاری میں مسورابن مخرمہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا :فاطمةُ بضعة منّی فمن اعضبھا اعضبنی۔"فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا”(15)
بلکہ ایک حدیث میں تو رسول اللہ سے یہاں تک مروی ہے کہ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله: إِنَّ اللَّهَ لَیَغْضَبُ لِغَضَبِ فَاطِمَةَ وَ یَرْضَی لِرِضَاهَا۔"رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی فاطمہ کے غضبناک کرنے سے غضبناک ہوجاتا ہے اور فاطمہ کی رضایت سے راضی ہوتا ہے۔”(16)
حضرت فاطمة الزہراء سلام اللہ علیھا کے امتیازات
حضرت فاطمة الزہراء ؑ کی زندگی اگر چہ صرف ١٨سال پر مشتمل ہے جو کہ ایک بہت ہی قلیل مدت ہے لیکن اس قلیل مدت میں جو خصائص و فضائل جناب سیدہؑ کی ذات سے جلوہ گر ہوئے وہ بہت زیادہ ہیں اور اتنے زیادہ ہیں کہ عقل انسانی حیران رہ جاتی ہے کہ بلا آخر کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ١٨ سال کی خاتون اتنے زیادہ خصائص و فضائل کی مالک بنے۔بالعموم جناب سیدہ کے سب کے سب خصائص و فضائل کا بیان کرنا اور ان کا احاطہ کرنا ایک غیر معصوم انسان کیلئے ممکن ہی نہیں ہے یہر کیف یہاں اختصار کے ساتھ جناب سیدہ کے کچھ امتیازات کا تذکرہ کرتے ہیں اگر چہ ہمیں جناب سیدہ کے تمام امتیازات سے بھی مکمل طور پر آگاہی نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارے لئیے آگاہی ممکن ہے۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کوثر اہل بیتؑ
حضرت فاطمۃ الزہراءؑ وہ ہستی ہیں کہ قرآن مجید نے جن کو کوثر سے تعبیر کیا ہے فاطمہؑ یعنی کوثر رسول اللہؐ ،فاطمہؑ یعنی کوثر اہل بیتؑ۔سورۃ الکوثر قرآن مجید کا وہ سورہ ہے کہ جو پورے کا پورا سورہ حضرت فاطمۃ الزہراءؑ کی شان میں نازل ہوا ہے۔سورۃالکوثر کی شان نزول میں جو روایات نقل ہوئی ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ سورہ جناب سیدہؑ کی شان میں نازل ہوا ہے۔جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدر المنثور میں محمد ابن علی سے اس بارے میں ایک روایت نقل کی ہے کہ رسالت مآبؐ کے بیٹے قاسمؑ اس عمر کو پہنچےکہ وہ جانور پر سواری اور تیز رفتاری کے ساتھ چل سکیں۔تب اللہ نےانکو وفات دے دی۔تو عمروابن عاص نے کہا (بعض روایات میں عاص ابن وائل کا ذکر ہے):کہ محمدؐ اپنے بیٹے کی موت سے ابتر ہوگئے تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی "انّااعطینٰک الکوثر”۔(17)اسی صفحہ پر تفسیر الدر المنثور میں اوپر والی روایت کے بعد لکھا ہے کہ ایک اور روایت بھی ہے کہ جب یہ مکمل سورة نازل ہوا تو کہ حمزہ ابن عبدالمطلب کی بیوی نے آپؐ کوکوثر کی مبارکباد پیش کی۔(18)
بعض علماء نے یہاں کوثر سے خیر کثیر یا جنت میں ایک نہر مراد لیا ہے ۔اسمیں کوئی شک نہیں کہ روایات میں کوثر نامی ایک نہر کا ذکر ہے لیکن اس سورے کی تیسری آیت "انّاشانئک ھو الابتر”(19)سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس سے مراد حضرت فاطمة الزہراءؑ ہی ہیں۔
یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ نسل رسول اللہؐ کو نہ صرف قیامت تک باقی رکھے بلکہ ایک کثیر تعداد میں پوری جہاں میں پھیلائے اور دشمن رسولؐ کو ابتر کردے لھذا آج ہمیں کوئی ایسا فرد دنیا میں نہیں ملتا کہ جو یہ دعوی کرے کہ میں عمرو ابن عاص یا عاص ابن وائل کی نسل سے ہوں لیکن دنیا کے ہر خطے میں سادات کرام آپ کو ملیں گے کہ جو فخر سے یہ کہتے ہوئے نظر آئیں گے کہ ہم اولاد فاطمہؑ میں سے ہیں ہمارا نسب رسول اللہؐ سے جاملتا ہے اور یہی سورۃ الکوثر کی عملی تفسیر ہے۔
حضرت فاطمة الزہراء سلام اللہ علیھا سیدة نساء العالمین
جیسا کہ اوپر بیان بھی ہوا کہ جناب سیدہ حضرت فاطمة الزہراءؑ کائنات کی چار عظیم خواتین میں سے ایک ہے بلکہ یوں کہوں تو بہتر ہوگا کہ شھزادی کونین کائنات کی چار عظیم و افضل ترین خواتین میں سب سے افضل ہیں اور عالمین کے عورتوں کی سردار ہیں۔اس حوالے سے شیعہ و اہل سنت کتابوں میں کافی احادیث وارد ہوئی ہیں۔اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں صرف ایک روایت پر اکتفا کرتے ہیں کہ جو رسول اللہ ؐ سے ابن عباس نے نقل کیا ہے۔ابن عباس روایت کرتے ہیں ہے کہ رسول اللہ ؐ نے حضرت فاطمہ ؑ سے فرمایا:اَمَا تَرْضِیْنَ اَنْ تَکُوْنِیْ سَیِّدَۃَ نِسَآئِ الْعَالَمِیْنَ۔ قَالَتْ: فَاَیْنَ مَرْیَمُ بِنْتِ عِمْرَان؟ قَالَ لَھاَ: اَیْ بُنَیَّ تِلْکَ سَیِّدَۃُ نِسَآئِ عَالَمِھَا وَ اَنْتِ سَیِّدَۃُ نِسَآئِ الْعَالَمِیْنَ۔”کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ آپ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں؟ عرض کیا: مریم بنت عمران پھر کہاں ؟ فرمایا: بیٹی! وہ اپنے عالم کی عورتوں کی سردار ہیں اور آپ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔”(20)
حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا سیدة النساء اہل جنت
جناب سیدہ کونین حضرت فاطمة الزہراء ؑ کے حوالے سے ایک قسم کی احادیث وہ ہیں کہ جن میں یہ وارد ہوا ہے کہ جناب سیدہ ؑعالمین کے عورتوں کی سردار ہیں اور دوسری قسم کے احادیث وہ ہیں کہ جسمیں یہ وارد ہوا ہے کہ آپ جنت کی خواتین کی سردار ہیں یا بعض روایات میں مومنین خواتین کی سرداری کا ذکر ہے چونکہ یہ دونوں الگ الگ امتیازات ہیں لھذا یہاں پر بھی ہم نے ان کو الگ الگ ذکر کیا ہے۔رسول اللہ سے روایت ہے کہ:‏‏‏فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ۔"فاطمہؑ جنتی عورتوں کی سردار ہے اور حسن ؑو حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں۔”(21)
اس بات کی عظمت میں کچھ کلام نہیں کہ نہ فقط جناب سیدہ کونینؑبذات خود خواتین جنت کی سردار ہیں بلکہ آپ کے دو فرزندان حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔ایک روایت جو کہ عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے اس میں وارد ہوا ہے کہ:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” الحسن والحسين سيدا شباب اهل الجنة وابوهما خير منهما۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں، اور ان کے والد ان سے بہتر ہیں”(22)
فاطمہ خواتین جنت کی سردار،حسنین جوانان جنت کے سردار اور علی ابن ابی طالبؑ ان سے بھی بہتر ہیں۔رسول اللہ کی تو بات ہی نہیں جن ہستیوں کو یہ درجات مل رہے ہیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ خود رسول اللہ کے ہی اہل بیت ہیں باالفاظ دیگر ان فضائل و مراتب کا منبع و سر چشمہ ذات گرامی رسول اللہ ہے پس معلوم ہوا نعمات اللہی و فضل اللہی جو اس گھرانے پر ہے کائنات میں کسی اور گھرانے پر نہیں ہے اس خاندان کو اللہ تعالی نے اپنے لئے چنا ہے بلکہ یوں کہوں تو بہتر ہوگا کہ کائنات میں مخلوقات کے شامل حال جو فضل الہی ہے وہ اسی گھرانے کے طفیل ہے۔
حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا محور عصمت و طھارت
حضرت فاطمة الزہراءؑ کے خصائص و فضائل ہر حوالے سے بلند پایہ اور منفرد نظر آتے ہیں۔اسمیں کوئی شک نہیں کہ انبیاء و آئمہ اہل بیتؑ صاحبان عصمت و طہارت ہیں لیکن جب حضرت فاطمہؑ کی طرف نظر کرتے ہیں تو فاطمہ ؑ کو محور عصمت طہارت پاتے ہیں۔قرآن نے اگر اہل بیت ؑ کی عصمت بیان کیا ہے تو سنت نے فاطمہ کی محوریت کو بیان کیا ہے۔حدیث کساء جو کہ مختلف عبارات کے ساتھ شیعہ و اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہے اس حدیث کے بعض متون میں آیا ہے کہ ۔فَقالَ الاْمينُ جِبْراَّئيلُ يا رَبِّ وَمَنْ تَحْتَ الْكِساَّءِ فَقالَ عَزَّوَجَلَّ هُمْ اَهْلُ بَيْتِ النُّبُوَّةِ وَمَعْدِنُ الرِّسالَةِ هُمْ فاطِمَةُ وَاَبُوها وَبَعْلُها وَبَنُوها۔"جبرائیل امین نے پوچھا:آے پروردگار اس چادر کے نیچے کون ہیں اللہ تعالی نے جواب دیا یہ نبوت کا خاندان ہے،رسالت کے خزانے ہیں،یہ فاطمہ،اسکے بابا،اسکے شوہر اور اسکے بچے ہیں۔”(23)
اہل بیتؑ میں سے فاطمہ کو محور قرار دے کر اللہ نے اہل بیتؑ کا تعارف کروایا۔جب جبرائیلؑ نے سوال کیا:اے پروردگار یہ ہستیاں کون ہیں جو چادر کے نیچے ہیں تو اللہ تعالی نے یوں جواب نہیں دیا کہ محمدؐ ہے ، محمد ؐ کی بیٹی فاطمہ ہے،محمدؐ کا داماد علی ابن ابی طالب ؑ ہے اور محمدؐ کےدو پھول حسن ؑ و حسین ؑ ہیں بلکہ تعارف یوں ہوا فاطمہ ہے ، فاطمہ کے بابا ہیں ،فاطمہ کا شوہر ہے اور فاطمہ کے دو لال حسن و حسین ہیں۔
یہی حالت ایک اور مقام پر بھی پیش آئی کہ جب اللہ تعالی کی طرف سے آیت مباھلہ نازل ہوا(اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُم)(24)توجس انداز میں آیت نازل ہوئی اسی انداز میں رسول اللہ ؐ مباھلہ کرنے چل پڑے۔کہ حسنین علیھما السلام رسول اللہؐ کے ہاتھ پکڑے آگے آگے جارہے ہیں درمیان میں شہزادی کونین ؑ ہیں اور شھزادی کونینؑ کے بعد علی ابن ابی طالبؑ ہیں۔
حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا ام ابیھا
حضرت فاطمة الزہراءؑ وہ بے مثال ہستی ہیں کہ جن کو ام ابیھا کا لقب ملا تاریخ میں یہ لقب کسی اور ہستی کو نہیں ملا۔وہ بیٹی جس نے اپنے بابا کی اتنی خدمت کی کہ جس کو ام ابیھا یعنی اپنے باپ کی ماں کے لقب سے جانا گیا۔ ابن البر نے حضرت امام محمد باقر سے ایک روایت نقل کی ہے کہ:کانت کنیة فاطمة بنت رسول اللہ ام ابیہا۔” بنت رسول حضرت فاطمہ ؑ کی کنیت ام ابیہا تھی”(25)
یہاں کنیت سے مراد لقب ہے جناب سیدہ نے اپنی والدہ ماجدہ کی شھادت کے بعد بچپنے سے اپنے والد کی خدمت کی اور اپنے والدہ کی طرح ہر میدان میں رسول اللہ ؐ کا ہاتھ بٹایا۔رسول اللہؐ نے یوں ہی جناب سیدہ کونینؑ کو یہ لقب نہیں دیا بلکہ جناب سیدہ کونینؑ اس لائق تھیں کہ آپؑ کو یہ لقب دے دیا جائے۔رسول اللہ ؐ اپنی اس بے مثال بیٹی کی بہت قدر کیا کرتے تھے۔شیعہ و اہل سنت کی کتابوں میں وارد ہوا ہے کہ جب فاطمہؑ آتیں تو رسول اللہ ؐ فاطمہؑ کیلئے اپنی جگہ سے اٹھا کرتے ،ان کو اپنی جگہ پر بٹھاتے اور فاطمہ کا ہاتھ چومتے۔اس بارے میں ام المومنین حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ:اَنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَي رَسول ِاللہ ِقَامَ لَهَا مِن مَجلِسِہِ وقَبَّلَ رَاسَهَا وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلسَه۔"فاطمہؑ جب رسول اللہؐ کے پاس آتیں تو رسول اللہؐ فاطمہؑ کیلئے اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاتے ،ان کے سر کوچومتے اور اپنی جگہ بٹھادیتے۔”(26)۔بلکہ بعض روایات میں تو یہاں تک وارد ہوا ہے کہ رسول اللہؐ کہیں سفر کا ارادہ کرتے تو سب سے آخر میں شھزادی کونینؑ سے رخصتی لیتے اور جب واپس آتے تو سب سے پہلے شھزادی کونین سے ملاقات کرتے۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا شبیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
جناب سیدہ مادر حسنین حضرت فاطمۃ الزہراءؑ کے امتیازات میں سے ایک اہم امتیاز کہ جس کا ذکر شیعہ و اہل سنت کتب احادیث میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ آپؑ لوگوں میں سے سب سے زیادہ رسول اللہؐ سے مشابہ تھیں۔حضرت فاطمہ سے متعلق ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ:مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشْبَهَ سَمْتًا وَهَدْيًا وَدَلًّا. وَفِي رِوَايَةٍ حَدِيثًا وَكَلَامًا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فَاطِمَةَ كَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ قَامَ إِلَيْهَا فَأَخَذَ بِيَدِهَا فَقَبَّلَهَا وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ وَكَانَ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا قَامَتْ إِلَيْهِ فَأَخَذَتْ بِيَدِهِ فَقَبَّلَتْهُ وَأَجْلَسَتْهُ فِي مجلسِها۔”میں نے رسول اللہؐ سے ہیٔت ،سیرت و صورت میں فاطمہ ؑسے زیادہ کسی کو مشابہ نہیں پایا۔ ایک روایت میں ہے : بات چیت میں فاطمہؑ سے زیادہ کسی کو مشابہ نہیں پایا ، جب وہ آتیں تو آپ ؐ ان کا استقبال کرتے ، آپؐ ان کا ہاتھ پکڑتے اور ان کا (پیشانی پر) بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے ، اور جب آپؐ ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ بھی آپ ؐ کا استقبال کرتیں ، آپؐ کا ہاتھ پکڑتیں اور آپ کا بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں”(27)
شھزادی کونین حضرت فاطمۃ الزہراءؑ صرف ظاہری صورت کے اعتبار سے رسول اللہؐ سے مشابہ نہ تھی بلکہ باطنی صفات و کمالات میں بھی جناب سیدہؑ رسول اللہؐ کی مشابہ تھیں ۔ایمان ،تقوی،عبادت خدا و ندی اور اللہ تعالی کی راہ میں قربانی جیسی صفات میں بھی شھزادی کونین اپنے بابا کی مشابہ تھی ۔جب کبھی دین پر مشکل آئی تو اپنے بابا کی طرح دین خدا کی حفاظت میں کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا ۔
حضرت فاطمۃ الزہراء ؑ اولین محافظہ ولایت و امامت
دنیا کی کچھ عورتیں ایسی ہیں کہ جنہوں نے وہ بے مثال کارنامے انجام دیئے کہ جو مرد بھی نہ کرسکے،ایک مثال دیتا چلو اگر چہ شاید یہاں جناب فاطمہ کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے جناب زینبؑ کی مثال دینا اتنا مناسب نہ ہو لیکن اس مورد بحث کیلئے ہمارے پاس اس سے بہترین کوئی مثال موجود نہیں ہے جیسے بنت زہراء حضرت زینبؑ نے وہ تاریخی کارنامہ انجام دیا کہ جو مرد بھی آج تک انجام نہ دے سکے اور نہ تا قیامت ممکن ہے۔جناب زینبؑ نے اپنے خطبات کے ذریعے سے یزید کی فتح کو شکست میں تبدیل کرکے رکھ دیا یعنی ایک قیدی زنجیروں میں جس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں وہ بلند آواز سے بات تک نہیں کرسکتا جبکہ جناب زینبؑ نے یزید کے دربار میں ہی یزید کو رسوا کیا ۔اس طرح کی کوئی اور بے مثال خاتون تاریخ میں موجود نہیں سوائے جناب سیدہ فاطمۃ الزہراءؑ کے کہ آپؑ وہ بے مثال خاتون ہیں کہ جنہوں نے سب سے پہلے ولایت و امامت کی حفاظت کی ۔
اعلان ولایت ایک ایسےاجتماع میں ہوا کہ جس میں ایک لاکھ یا اس سے کچھ کم و بیش اصحاب موجود تھے لازم سی بات ہےکہ ایک کثیر تعداد مدینہ کی بھی اس اجتماع میں موجود تھی لیکن جب امامت و ولایت پر مشکل آئی تو ہمیں ولایت و امامت کی دفاع کرتے صرف جناب سیدہ نظر آئیں۔جناب سیدہ اپنی زندگی کے آخری وقت تک امامت و ولایت کادفاع کے لئے برسر پیکار رہیں حتی کہ شھادت کے درجے پر فائز ہوئیں اور سب سے اولین قربانی ولایت و امامت کی راہ میں حضرت فاطمۃ الزہراءؑ نے ہی دی۔
بعض افراد یہ سوال کرتے ہیں کہ جب مرد گھر میں ہوتے ہیں تو عورت دروازے پر نہیں آتی۔اگر بعض افراد علی ؑو فاطمہ ؑکے در پر آئے اور دھمکی دی کہ اگر علی ؑ باہر نہیں نکلے تو دروازے کو آگ لگادیں گے تو اس صورت میں مناسب تھا کہ علی ؑدروازے پر آتے نہ کہ فاطمہؑ؟
اس سوال کا جواب ہمیں دینے کی ضرورت نہیں بلکہ فاطمہ نے اپنے عمل سے اس سوال کا جواب دیا وہ یہ کہ اے علیؑ: جب میرے بابا رہبر و رہنما تھے تو آپ نے ان کی حفاظت کی جس نے محمدؐ کو للکارا میدان میں علیؑ اترے جواب علیؑ نے دیا اے: علیؑ آج آپؑ رہبر و رہنما ہے آج آپؑ زمانے کے امام ہیں میں محمدؐ کی لخت جگر آپکی حفاظت کروں گی اور ولایت و امامت کی حفاظت و اثبات پر سب سے پہلی قربانی پیش کروں گی۔
حضرت فاطمۃ الزہراء ؑ ام الائمہؑ
اگر چہ حضرت فاطمۃ الزہراءؑ کے خصائص و امتیازات لاتعداد ہیں اور مجھ ناچیز کی یہ بساط نہیں کہ میں ان سب کا احاطہ کرسکوں تاہم اختصار کے ساتھ جناب سیدہؑ کی ایک اور امتیاز ی خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے اس تحقیقی مقالے کا اختتام کرتاہوں۔جناب سیدہ وہ عظیم ہستی ہیں کہ جو ام الائمہ ہیں یعنی وہ عظیم ہستی کہ جو گیارہ اماموں کی ماں ہیں۔وہ ماں کہ جس کے دونوں بیٹے جوانان جنت کے سردار قرار پائے گیارہ ہستیاں جن کی نسل میں سے امامت کے درجے پر فائز ہوئیں حتی کہ بعض اہل سنت روایات میں بھی خصوصیت کے ساتھ اس بات کا تذکرہ ہے کہ منجی بشریت امام مھدیؑ بھی حضرت فاطمہؑ کی اولاد میں سے ہوں گے۔(28)
اتنی عظمتوں کی مالک ہستی اور اْن کے امتیازات سے متعلق مزید کیا کہوں کہ مسلمانوں کے درمیان اگر چہ یہ مشھور ہے کہ بیٹی والدین کیلئے اللہ کی رحمت ہے،بیوی اپنے شوہر کیلئے نصف ایمان ہے اور ماں کے پاوں تلے بچوں کیلئے جنت ہے تو پھر کیوں نہ میرا سلام ہو شھزادی کونین پر جو رحمت العٰلمین کیلئے رحمتِ خدا بن کرآئیں،جو کل ایمان کیلئے نصف ایمان ہیں اور جن کے پاوں تلے جوانان جنت کے سرداران حسنؑ و حسین ؑ کی جنت ہے۔
نتیجہ
اگر چہ ہمارے لئیے یہ ممکن نہیں کہ ہم جناب سیدہ ،شھزادی کونین ،مادر حسنین حضرت فاطمۃ الزہراءؑ کے خصائص و امتیازات کو کماحقہ بیان کرسکیں ۔کیونکہ جناب سیدہؑ وہ جامع الصفات ہستی ہیں کہ کوئی صاحب علم بھی ان کے اوصاف و امتیازات کا احاطہ نہیں کرسکتا ۔
خداوند تبارک و تعالی کے بہت بہت شکر گزار ہیں کہ جس نے ہمیں جناب سیدہ ،شھزادی کونین، کوثر اہل بیت ، حضرت فاطمۃ الزہراءؑ کے امتیازات سے متعلق قلم فرسائی کی توفیق دی۔اس مختصر سے مقالے میں مقدمے کے طور پر اہمیت کے پیش نظر عورت سے متعلق اسلام کا حقیقی نکتہ نظر بیان کیا گیا،اور اس بات کی وضاحت کی گئی کہ عورت سے متعلق لبرل ازم کا دیا ہوا نظریہ بالکل ایک غلط اور معاشرے کیلئے ایک نقصاندہ نظریہ ہے،اس کا ظاہر کچھ جبکہ اس کا باطن کچھ اور ہے۔عورت سے متعلق اسلام کے نکتہ نظر پر کئے جانے والے بعض اعتراضات کا جواب دیا گیا ۔کائنات کی چار عظیم خواتین اور بالخصوص حضرت فاطمۃ الزہراءؑ کی عظمت و فضیلت کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا۔اس مقالے کا مرکزی موضوع کہ جو جناب سیدہ کے امتیازات کو بیان کرنا تھا اگر چہ اس مختصر سے مقالے میں جناب سیدہؑ کے تمام امتیازات سے متعلق بحث کرنا ممکن نہیں تھی تاہم لیکن اپنی توفیق کے مطابق جناب سیدہؑ کی چند امتیازی صفات و خصوصیات کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
حوالہ جات؛
1 : علی،ڈاکٹر مبارک ،ویب سائٹ،انڈیپنڈٹ اردو،بدھ 19 جون2019https://www.independenturdu.com/node/9561
2:الخامنہ ای ، آیت اللہ سید علی،عورت گوہر ہستی ،صفحہ /24،
3 :القرآن الکریم:33: 35
4 : القرآن الکریم :49: 13
5 :الکلینی، محمد بن یعقوب، الکافی،ج/۴،ص/5، (البیروت،دار التعارف للمطبوعات، 1190م)
6 :الکلینی، محمد بن یعقوب، الکافی،ج/6،ص/7، (البیروت،دار التعارف للمطبوعات، 1190م)
7:الکلینی، محمد بن یعقوب، الکافی،ج/2،ص/159، (البیروت،دار التعارف للمطبوعات، 1190م)
8 :الصدوق، ابی جعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی ، الخصال ص/206(تہران، علمیہ اسلامیہ )
9 :القرآن الکریم:11:66
10 :القرآن الکریم:11:66
11:القرآن الکریم:42:3
12 :القرآن الکریم:12:66
13:الطوسی ،ابو جعفر محمد بن الحسن ،امالی الطوسی صفحہ/380 (موسسۃ البعثۃ ،مرکز الطباعۃ و النشر، 1385)
14:الصدوق، ابی جعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی ،امالی شیخ صدوق ،ص/485 (ایران ،انتشارات کتابخانہ اسلامیہ،سال 1434ھ )
15:البخاری ،ابو عبد اللہ محمد ابن اسماعیل ،صحیح البخاری،حدیث نمبر/٣٧١۴،ج/2،(مرکزی جمیعت اہل حدیث ہند،2004)
16: المفید،محمد بن محمد بن نعمان، امالی الشیخ المفید،ص/79 (حوزہ علمیہ قم ،موسسۃ عمران مساجد،1415ق)
17: السیوطی،جلال الدین ،تفسیر الدر المنثور،ج/6،ص/404(بیروت ،دار الفکر)
18:السیوطی، جلال الدین ،تفسیر الدر المنثور،ج/6،ص/404(بیروت ،دار الفکر)
19:القرآن الکریم:3:108
20:المجلسی،محمد باقر بن محمد تقی ،بحار الانوار ،الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطھار ،ج/37،ص/8،(بیروت ،دار الاحیاء التراث،1403)
21:المفید،محمد بن محمد بن نعمان ،امالی الشیخ المفید،ص/120(قم ،موسسہ عمران)
22 :ابن ماجہ،محمد بن یزید القزوینی ،سنن ابن ماجۃ ج/1،ص/118(بیروت،دار الفکر)
23 :قمی،الشیخ محمد عباس ،مفاتیح الجنان صفحہ /564( تہران ،برہان ،1381)
24: القرآن الکریم :61:3
25:مجلسی،محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار ،الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطھار ،ج/43،ص/19 (بیروت ،دار الاحیاء التراث،1403)
26: مجلسی،محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار ،الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطھار ،ج/45،ص/43 (بیروت ،دار الاحیاء التراث ،1403)
27 :احمد،امام احمد بن محمد بن حنبل ،مسند امام احمد بن حنبل ،حدیث نمبر/10968(پاکستان،مکتبہ رحمانیہ)
28:الشیرازی ،محمد حسینی ،فضائل آل الرسول من الصواعق المحرقۃ،ص/57(دفتر آیت اللہ محمد حسینی الشیرازی)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button