مکتوب مجالس

مجلس بعنوان: تربیت اولاد از سیرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا (حصہ اول)

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ (التحریم:06)
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔
صاحب الکوثر فی تفسیر القرآن اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ "وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا ” کے تحت یہ بات کافی نہیں ہے کہ انسان خود تقدس مآب بن جائے اور اہل و عیال کو آتش جہنم سے نہ بچائے۔ مذکورہ آیت اور حدیث مبارکہ "کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ (تم میں سے ہر ایک ذمے دار ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا) ۔ (بحار ۷۲: ۳۸) کی روشنی میں جس طرح ہر شخص اپنی ذات کے بارے میں ذمہ دار ہے۔ اپنے اہل و عیال جو اس کی رعیت ہے، کا ذمے دار ہے۔ (الکوثر فی تفسیر القرآن، ج:09 ص:229)
اسی طرح رسالتمآب ؐ نے ارشاد فرمایا: أدبوا أولادكم على ثلاث خصال: حب نبيكم، وحب أهل بيته، وقراءة القرآن۔( ميزان الحكمة ۔ ج ٤ – الصفحة: ٣٦٨٠)
"اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تربیت دو: اپنے نبی کی محبت، اپنے نبی کے اہل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن مجید”
تربیت اولاد کس قدر سنگین ذمہ داری ہے اور اس کی کس قدر ضرورت و اہمیت ہے ا سکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام جیسی ہستی اپنی دعاؤں میں اولاد کے حق میں دعا کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
اللَّهُمَّ وَ مُنَّ عَلَی بِبَقَاءِ وُلْدِی وَ بِإِصْلَاحِهِمْ لِی و بِإِمْتَاعِی بِهِمْ. وَ أَصِحَّ لِی أَبْدَانَهُمْ وَ أَدْیانَهُمْ وَ أَخْلَاقَهُمْ۔۔
اے میرے معبود! میری اولاد کی بقا اور ان کی اصلاح اور ان سے بہرہ مندی کے سامان مہیا کرکے مجھے ممنون احسان فرما اور ان کی جسمانی، ایمانی اور اخلاقی حالت کو درست فرما۔
اللھم اعنّی علی تربیتھم و تادیبھم و برّھم۔
(اے اللہ! (میری اولاد) کی تربیت و تادیب اور ان سے اچھے برتاو میں میری مدد فرما” ((” صحیفہ کاملہ ، پچیسویں دعا)
شہید مرتضی مطہری ؒ فرماتے ہیں:
” تربیت کا معنی پرورش دینا ہے اس سے مراد کسی جاندار شیء کے اندرموجود بالقوہ صلاحیتوں کو فعلیت کے مرحلہ پر لے آنا اور ان کی پرورش کرنا ہے”
” قال رسول اللہ ﷺ کل مولود يولد فهو على الفطرة، وإنما أبواه يهودانه أو ينصرانه”
” ہر بچہ جوپیدا ہوتا ہے وہ فطرت ” دین الہی” پر قائم ہوتا ہے یہ اسکے والدین ہیں جو اسکو یہودی اور نصرانی بناتے ہیں” ( .تصحيح اعتقادات الإمامية -ص 60، 62)
معلوم ہوا کہ بچے کی شخصیت سازی میں والدین کا بنیادی اور نمایاں کردار ہوتا ہے حتی کہ بعض اوقات زندگی کے پیشے بھی والدین کے اتباع میں اختیار کرتے ہیں. اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے آیۃ اللہ خمینی فرماتے ہیں ؛
” گھر کا پرسکون ماحول اور ماں کی آغوش در اصل ایک بچہ کی تربیت کا نقطہ آغاز ہے اگر گھر کے ماحول اورماں کی آغوش جو ایک بچہ کیلے سب سے بڑی تربیت گاہ ہے، سے ایک بچہ اچھی تربیت نہ پائے تو یہ بچہ زمانہ طفولیت کی اسی تربیت پر زندگی کے آخری لمحات تک باقی رہتا ہے مگر یہ کہ بہت ہی مضبوط عوامل اسے اسکی بری تربیت سے لوٹا دیں ۔” ( تعلیم وتربیت، سید روح اللہ خمینی رح، ص ۲۷۶)
سیرت سیدہ کونین علیھا السلام میں تربیت اولاد کے نمونے
فرزند رسول ؐ حجت برحق قائم آل محمد عج نے اپنی توقیع میں "فی ابنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ لی اسوۃ حسنۃ” "میرے لیے رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی میں بہترین نمونہِ عمل ہے”( ، الاحتجاج للطبرسی جلد:2، ص: 238) کہہ کر آپ ؑ کی شخصیت کو ائمہ اطہار سمیت مرد و عورت سبھی انسانوں کے لئے نمونہ عمل ہونے کو واضح فرمایا۔ واضح ہوگیا کہ سیدہ کونین علیھا السلام کی پوری زندگی تمام انسانوں کے لئے بالعموم اور خواتین عالم کے لئے بالخصوص نمونہ عمل ہے۔
مزرعِ تسلیم را حاصل بتولؑ
مادراں را اسوہ کامل بتولؑ
1۔ تربیت اولاد کا آغاز رشتہ قائم کرنے کے وقت سے ہوتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر خانوادگی زندگی میں افکار و عقیدہ اور ہدف میں ہم آہنگی ہو تو ایسی خا نوادگی زندگی ہر زاویہ نظر سے مہر ومحبت ،عشق و علاقہ اور ہم سر کے حقوق کی پاسبانی و رعایت سے معمور ہوتی ہے اور ایسے گھرانوں میں جسمانی و فکری لحاظ سے صحت مند بچے سامنے آتے ہیں۔ جبکہ اسکے بر عکس اگر زوجین فکری، عقیدتی اور مزاج کے اعتبار سے ہم پلہ نہ ہوں تو کئی مسائل جنم دیتے ہیں اور نوبت لڑائی جھگڑوں تک جا پہنچتی ہے جس سے خاندانی نظام زندگی تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور اولاد پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی لئے زوجین کا ہم کفو ہونا ضروری ہے جس کا نمونہ ہمیں سیرت سیدہ کونین علیھا السلام سے ملتا ہے۔
” لو لا علی(ع) لم یکن لفاطمۃ سلام اللہ علیہا کفو” قال رسول اللہ ﷺ
"اگر علیؑ نہ ہوتے تو فاطمہ سلام اللہ علیہا کا کوئی کفو نہ ہوتا” (بحار الانواار ، ج 43، ص 58،98)
معلوم ہوا کہ کامیاب ازدواجی زندگی کیلے زوجین کا ہم فکر وہم پلہ ہونا اور افکار و عقیدے کے لحاظ سے موافق ہونا بھی ضروری ہے بلکہ کامیاب خاندانی زندگی کیلےمزاج میں بھی کچھ حد تک یکسانیت ضروری ہے .
2 ۔ اولاد کے لئے اچھے ناموں کا انتخاب
بچے کی پیدائش کے بعد اولین کام جس کا والدین کو حکم ہے بچے کے لئے بہترین نام کا انتخاب ہے۔ اس حوالے سے بہت ساری روایات وارد ہوئیں ہیں ۔ جیسا کہ ارشاد رسول گرامی ؐ ہے۔ ” ان اول ماینحل احدکم ولدہ الاسم الحسن فلیحسن احدکم اسم ولدہ”( بحار الانوار،, ج:104، ص:130)
”باپ کابیٹے کے لئے پہلاتحفہ اچھانام رکھناہے لہذا تم میں سے ہر ایک کو بچے کے لئے اچھے نام کا انتخاب کرناچاہئے.۔
پیغمبراکرم ﷺ سے ایک روایت ہے جس میں اولاد کے تین حقوق کاذکر ہواہے :
وَ قَالَ ص‏ مِنْ حَقِ‏ الْوَلَدِ عَلَى وَالِدِهِ ثَلَاثَةٌ يُحَسِّنُ اسْمَهُ وَ يُعَلِّمُهُ الْكِتَابَةَ وَ يُزَوِّجُهُ إِذَا بَلَغَ۔ ( روضة الواعظين و بصيرة المتعظين ، ج‏2، ص369)
بچے کا اس کے والد کے زمے تین حقوق ہیں:
1۔اس کے لئے خوبصورت اور اچھے ناموں کا انتخاب کریں۔
2۔ اس کو قرآن کی تعلیم دی جائے۔
3۔ بلوغت کے بعد اس کی تزویج کی جائے۔
سیرت سیدہ کونین ؑ میں اس اصول کا عملی نمونہ یوں ملتا ہے کہ سیرت کی کتابوں کے مطابق بیت فاطمہ زھراء علیھا السلام میں بچوں کے نام رکھنے کے حوالے سے خاص اہتمام ہوا کرتا تھا۔ آپ کے دونوں بیٹوں کی پیدائش کے وقت امام علی ع پہلے جناب زھراء علیھا السلام سے پوچھتے ہیں بچے کا نام کیا رکھا ہے؟ جناب زھراء علیھا السلام عرض کرتی ہیں یا علی ع کیسے ہوسکتا ہے میں اس کام میں آپ پر سبقت لے جاوں۔ پھرجب رسول خدا ﷺ تشریف لاتے ہیں اور نام کے بارے میں استفسار کرتے ہیں تو امیر کائنات ؑ یہی عرض کرتے ہیں ، یا رسول اللہ ﷺ کیسے ہوسکتا ہے اس کام میں آپ کے ہوتے ہوئے ہم آپ ص پر سبقت لے جائیں۔ تو رسول اللہ ﷺ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ پھر اس کام میں کیسے میں اپنے خا لق کائنات سے سبقت لے سکتا ہوں۔ اتنے میں جبرئیل ؑ پیغام الٰہی کو لیکر نازل ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ!پروردگار آپ کو سلام کہتاہے اورفرماتاہے کہ علی ؑ کو آپ ؐسے وہی نسبت ہے جوہارون کوموسی سے ہے مگریہ کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے لھذا اپنے بیٹے کاوہی نام رکھیں جوہارون کے بیٹے کانام تھا ۔ جناب ہارون کے بیٹوں کے نام شبر و شبیر تھے۔ رسول اللہ ؑ فرماتے ہیں یہ تو عبرانی نام ہیں تو جناب جبرئیل ؑ اس کا عربی نام حسن ؑ و حسین ؑ تجویز کرتے ہیں۔ دونوں فرزندوں کے نام اسی اہتمام کے ساتھ معین ہوتے ہیں ۔ (معانی الاخبار، ص،96-97)یہ واقعہ دونوں بیٹوں کی ولادت کے وقت الگ الگ پیش آیا ہے ۔اسی طرح بیٹیوں کے نام رکھنے میں بھی خاص اہتمام نظر آتا ہے۔
3۔ توحید، بندگی، ایثار، آداب دعا، خلق خدا سے محبت اور حقوق و فرائض کا عملی درس
آپ ؑ کی حیات طیبہ میں اولاد کی عملی تربیت کے حوالے سے جو واقعات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں ان میں سے ہر واقعہ اپنے اندر عملی درس زندگی کے کئی گوشے پنہاں رکھتا ہے۔ جیسا کہ آپ ؑ کے فرزند ارجمند امام حسن مجتبیٰ ؑ سے روایت ہے ۔
قال الحسن ابن العلی علیھما السلام: "رایت امی فاطمۃ علیھا السلام قامت فی محرابھا لیلۃ جمعتھا فلم تزل راکعۃ و ساجدۃحتی اتضح عمود الصبح سمعتھا تدعو للمومنین و المومنات و تکثر الدعاء لھم ولا تدعو لنفسھا بشئی فقلت لھا یا اماہ! لم تدعین لنفسک کما تدعین لغیرک ، فقالتؑ: الجار ثم الدار۔”
امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ کو دیکھا وہ شب جمعہ محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں اور ساری رات رکوع و سجود میں گزار دیتی ہیں حتی کہ صبح نمودار ہوجاتی ہے اور ساری رات مومنین اور مومنات کے لیے دعائیں مانگتی ہیں اپنے لیے کوئی سوال نہیں کرتیں تو میں نے عرض کیا اے مادر گرامی ! آپؑ نے دوسروں کے لئے دعائیں کیں لیکن اپنے لئے کو ئی دعا نہیں مانگی ۔ تو آپ (س) نے فرمایا!”پیارے بیٹے : پہلے پڑوسی پھر گھر والے ۔” (وسائل الشیعہ، دار احیاء التراث، جلد:4، ص:1151،حدیث:08)
یہ دیکھنے میں ایک واقعہ ہے لیکن اس کے اندر تربیت اولاد کے کئی عملی دروس پنہاں ہیں۔ اس واقعہ میں جہاں جناب فاطمہ علیھا السلام اپنے بچوں کے سامنے رات بھر عبادت الٰہی میں مصروف رہ کر معرفت خداوندی، توحید اور بندگی کا عملی درس دے رہی ہیں وہاں اسی واقعے میں آداب دعا ، ایثار اور حقوق و فرائض بھی عملی طور پر بچوں کو سیکھا رہی ہیں۔ کیونکہ آپ ؑ نے بچوں کے سامنے عبادت الٰہی کی بجا آوری کے بعد اپنے لئے خدا سے کچھ مانگے بغیر ہاتھ اٹھا کر تمام مومنین و مومنات کے حق میں دعا فرما کر اور اپنے فرزند کے سوال پر " الجار ثم الدار” کہہ کر آداب و روش دعا، جذبہ ایثار اور خلق خدا سے محبت کا عملی نمونہ یہاں پیش کیا۔ ساتھ ہی پڑوسیوں اور دیگر مومنین و مومنات کے حقوق اور ان سے متعلق فرائض کی جانب بھی بچوں کو متوجہ فرمایا۔اس کے علاوہ اسی واقعہ میں آپ بچوں کو خود پسندی ، لہو و لعب اور فرائض میں کوتاہی سے دوری کا عملی درس بھی دے رہی تھی۔

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button