مجالسمصائب امیر المومنین ؑمکتوب مجالس

شہید کوفہ، امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام

مؤلف: سید مصباح حسین جیلانی
تاریخ انسانی روز اول سے ہی کشت و خون سے آلودہ نظر آتی ہے جہاں قابیل اور اسکے کے ورثاء، اہل اللہ سے سدا ہی ستیزہ کار رہے ہیں اور یوں بشریت ہمیشہ سے ہی ظالم و مظلوم کے درمیان بٹی ہوئی آ رہی ہے۔ خلقت آدم علیہ السلام پر ملائکہ نے خلافت ِبشری پر جن تحفظات کا اظہار کیا تھا، بظاہر وہ بھی درست نظر آتے ہیں کہ انسان نے زمین میں فساد اور خون ریزی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ لیکن اللہ کا فرمان کہ تم وہ نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں، اس کی حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لئے جہاں ایک گروہ بشریت بندگان خدا کو خاک و خوں میں میں غلطاں کرنے میں مشغول رہا ہے تو دوسرا گروہ اس زمین پر خلافت و ولایت الٰہی کے قیام میں مسلسل مصروف عمل ہے اور اپنی جان مال، اولاد اور عزت و آبرو سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا کر بھی اسکی وحدانیت پر شہادت دیتا ہوا نظر آتا ہے اور انکے کٹے ہوئے حلقوم نسل در نسل وجود الٰہی پر دلیل قائم کرتے رہے ہیں اور خدا سے کئے گئے پیمان کی تکمیل پر سجدہء ہائے شکر ادا کرتے رہے۔ اہل صفا کے اس قبیلے کے سید و سردار امام علی ابن ابی طالب ہیں جنہوں نے وقت شہادت فزت برب الکعبہ کہ کر اپنی کامیابی پر شکرِ ربی ادا کیا۔ آج اس مضمون میں ہم امام علی ابن ابی طالب علیھما السلام کی شہادت کے حالات مختصر ترین لفظوں میں بیان کر رہے ہیں۔
فطرت انسانی کا تقاضا یہ ہے کہ جب انسان کے سر پر کاری ضرب لگے تو انسان بے ساختہ درد کا اظہار ہائے وائے کی صدا سے کرتا ہے اور اگر ہوش قابو میں ہے تو اپنے حملہ آور کی طرف جواب کے لئے لپکتا ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ امام علی علیہ السلام نے نے زہر میں بجھی تلوار کا وار کھا کر نہ کوئی چیخ و پکار کی اور نہ اپنے دشمن پر غضب کا اظہار کیا۔ بلکہ ایک طرف فزتُ برب الکعبہ کہ کر اپنے پیمان کی تکمیل پر کامیابی کا اعلان کیا تو دوسری طرف اپنے ورثاء اور چاہنے والوں کو دشمن کے ساتھ مروت و کمال مہربانی کی تلقین کی اور اپنے لئے لایا گیا شربت دیکھ کر فرمایا کہ میرا قاتل گھبرایا ہوا لگتا ہے، اس لئے اس کو مجھ سے زیادہ شربت کی ضرورت ہے، لہذا یہ اسے پلا دو۔ جب نمازی اور محبان اس شدید صدمے پر واویلا کر رہے تھے اس وقت امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ
’’ھذا وعدنا اللہ و رسولہ‘‘
’’ یہ وہی ہے تو جس کا اللہ اور اسکے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا‘‘۔
ممکن ہے اس مراد آپ کا اشارہ رسول للہ ی طرف سے دی گئی شہادت کی خبر کی طرف ہو یا اُس حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف تھا جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ امت علی علیہ السلام سے غداری کرے گی۔
(حوالہ: المطالب العالیہ، جلد ٤، صفحہ ٥٦، حدیث ٣٩٤٦ از علامہ ابن حجر عسقلانی) ۔
پھر آپ نے اپنے وارث و جانشین سید الاشراف امام حسن المجتبیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ بیٹا آپ نماز پڑھائیں، اور خود بھی بیٹھ کر نماز فجر ادا کی۔ کائنات ارضی و سماوی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ مضروب اپنے قاتل کے ساتھ شفقت و مہربانی کا اظہار کرے اور اپنے سر پر ضرب کھا کر کہے تو یہ کہے کہ
’’بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ ، فزت بربّ الکعبہ‘‘
’’ اللہ کے نام کے ساتھ اور اسی کی قسم کہ میًں رسول اللہ کی ملت پر ہوں اور رب کعبہ کی قسم کی میں کامیاب ہو گیا‘‘۔
اس کے بعد امام مظلوم کو شدید مجروح حالت میں گھر کی طرف لے جایا گیا۔ جب آپ گھر کے قریب پہنچے تو آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ آپ لوگ باہر ہی ٹھہریں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ آپ کا نالہ و فغاں میری مستورات تک پہنچے اور انکی آہ و فریاد آپ تک پہنچے۔ امام علیہ السلام کے لئے حکیم کو بلایا گیا تو اس نے کہا کہ زہر انتہائی مہلک ہے اور خون کے اندر گھُل چکا ہے اس لئے کوئی تدبیر ممکن نہیں ہوگی۔ خون کے بہنے اور زہر کے اثر سے امام علیہ السلام پر نقاہت و کمزوری کے اثرات آنے لگے۔ ایسے میں بھی آپ اپنی شرعیہ ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ تھے اور آپ نے اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو اپنی وصیتیں بطور جانشین امامت کیں اور باقی اولاد کو انکے متعلقہ امور پر وصایت فرمائی۔
یہاں پر ہم امام علیہ السلام کے آخری وصیت نامے سے چند اقتباسات نقل کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ
’’اے حسن و حسین (علیھما السلام) میں آپ کو خدا سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہوں اور دنیا کی طلب مت کرنا۔ پھر فرمایا کہ اے بیٹا حسن میں تمہیں اس چیز کی وصیت کرتا ہوں جس کی مجھے رسول اللہ نے کی تھی اور وہ یہ کہ جب امت تم سے مخالفت کی راہ پر چلنے لگے تو تم گھر میں خاموشی سے بیٹھ جانا، آخرت کے لئے گریہ کرنا اور دنیا کو اپنا مقصد نہ قرار دینا، نہ اسکی تلاش میں دوڑ دھوپ کرنا۔ نماز کو اول وقت میں ادا کرنا اور زکوٰت کو وقت پر مستحقین تک پہنچانا۔ مشتبہ امور پر خاموش رہنا اور غضب و رضا کے موقع پرعدل و میانہ روی سے کام لینا۔ اپنے ہمسایوں سے اچھا سلوک کرنا اور اور مہمان کی عزت کرنا۔ مصیبت زدہ لوگوں پر رحم کرنا، صلہ ء رحمی ادا کرنا اور غرباء و مساکین کو دوست رکھنا، ان کے ساتھ بیٹھنا اور تواضع و انکساری اختیار کرنا کہ یہ افضل عبادت ہے۔ اپنی آرزو اور امیدوں کو کم کرنا اور موت کو یاد رکھنا۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ ظاہر و باطن دونوں طریقوں سے خدا سے ڈرتے رہنا۔ بغیر غور و فکر کے بات نہ کرنا اور کام میں جلدی نہ کرنا۔البتہ کار آخرت کی ابتداء اور اس میں جلدی کرنا اور دنیا کے معاملہ میں تاخیر اور چشم پوشی کرنا۔
ایسی جگہوں سے جہاں تہمت اور ایسی مجلس سے بھی بچنا جس کے متعلق برا گمان کیا جاتا ہو کیونکہ برا ہمنشین اپنے ساتھی کو ضرور ضرر پہنچاتا ہے۔ اے بیٹا خدا کے لئے کام کرنا اور فحش و بیہودہ گوئی سے پرہیز کرنا اور اپنی زبان سے صرف اچھی چیزوں کا حکم دینا اور بری چیزوں سے منع کرنا۔ برادران دینی کے ساتھ خدا کی وجہ سے دوستی و برادری رکھنا اور اچھے شخص کے ساتھ اسکی اچھائی کی وجہ سے دوستی رکھنا اور فاسقوں کے ساتھ نرمی برتنا کہ وہ دین کو گزند نہ پہنچائیں تاہم انہیں دل میں دشمن سمجھنا اور اپنے کردار کو ان کے کردار سے الگ رکھنا تا کہ تم ان جیسے نہ ہو جاؤ۔ گزر گاہ پر نہ بیٹھنا اور بیوقوفوں اور جہلاء سے جھگڑا نہ نہ کرنا۔گزر اوقات میں میانہ روی اختیار کرنا اور اپنی عبادت میں بھی اعتدال رکھنا اور وہ عبادت چننا جس کو ہمیشہ قائم رکھ سکو۔
کوئی کھانا نہ کھانا جب تک اس کھانے میں سے کچھ صدقہ نے دے دو۔ تم پر روزہ رکھنا ضروری ہے کہ یہ بدن کی زکوٰت ہے اور جہنم کی آگ کے سامنے ڈھال ہے۔ اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا اور اپنے ہمنشین (نفس) سے ڈرتے رہنا ( کہ یاد اللہ سے ہٹا نہ دے)۔ دشمن سے اجتناب کرنا اور ان محفلوں میں جانا تمہارا ضروری ہے جہاں ذکر اللہ ہوتا ہو اور دعا زیادہ کیا کرنا‘‘۔
اس وصیت نامے کی شرح ہم پھر کسی اور موقعے کے لئے اٹھا رکھتے ہیں ۔
انیس رمضان المبارک کی نماز فجر میں آپ کے سر اقدس پر جو ضرب لگی وہ ابن ملجم ملعون خارجی نے اپنے منصوبہ بندوں کے ساتھ مل کر لگائی تھی اور زخم آپ کے سر سے لیکر آپ کے ماتھے تک آ گیا تھا۔ انیسویں رمضان سن چالیس ہجری کی سحر کو کوفہ کی جامعہ مسجد میں یہ بد بخت و شقی ترین انسان امیرالمومنین علی علیہ السلام کے آنے کا انتظار کر رہا تھا ۔ دوسری طرف کوفہ کی ایک بد کردار عورت قطامہ نے ” وردان بن مجالد” نامی شخص کو اپنے عقد کے لالچ میں تیار کیا اور اسکے ساتھ اپنے قبیلےکے دو آدمی اس کی مدد کیلیے روانہ کیے۔ وردان ولید بن عتبہ اموی کا اس وقت سے معتمد خاص تھا جب وہ حضرت عثمان بن عفان کے عہد میں کوفہ کا گورنر تھا۔ اس لئے وردان کی خانوادہ اہلبیت علیھم السلام سے دشمنی اسکے رزق رسانوں نے اس کے خون میں انڈیل رکھی تھی۔
اشعث بن قیس کندی جو کہ اپنے زمانے کا زبردست چاپلوس اور منافق آدمی تھا، اس نےحضرت امام علی علیہ السلام کو قتل کرنے کی سازش میں ان کی رہنمائی کی اور انکا حوصلہ بڑھایا۔ حضرت علی علیہ السلام انیسویں رمضان کے شب اپنی بیٹی ام کلثوم سلام اللہ علیھا کے ہاں مہمان تھے ۔ آپ کے سامنے دودھ، نمک اور پانی رکھا گیا تو آپ نے افطاری کے لئے نمک یا پانی میں سے ایک چیز اٹھا کر باقی دو واپس کر دیں کیونکہ آپ کے نزدیک دسترخوان پر اس قدر اغذیہ اور لوگوں کے حقوق پامال کرنے کے مترادف تھا۔ روایت میں آیا ہے کہ
آپ اس رات بیدار تھے اور کئی بار کمرے سے باہر آ کر آسمان کی طرف دیکھ کر فرماتے تھے :
’’خدا کی قسم ، میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ کہا گيا ہے ۔ یہی وہ رات ہے جس میں مجھے شھادت کا وعدہ دیا گيا ہے ‘‘۔
صبح آپ گھر سے برآمد ہوجر مسجد جانے لگے تو گھر کی بطخوں نے بھی آپ کا دامن پکڑ لیا اور کوشش کی کہ آپ کو مسجد سے آج روک لیں۔ لیکن جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ
’’عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ لَا يَسْبِقُونَہ بِالْقَوْلِ وَھم بامْرِہ يَعْمَلُونَ ‘‘
(الانبیاء آیت ٢٦ ، ٢٧)
کہ اللہ کے مکرم بندے نہ بات میں اس سے بڑھتے ہیں اور اسی کے امر سے کام کرتے ہیں۔ پس اسی کے مصداق مصائب کا پہاڑ سامنے پاکر بھی آپ مسجد جانے کے پابند تھے۔ بہر حال نماز صبح کیلیےآپ کوفہ کی جامعہ مسجد میں داخل ہوے اور سوئے ہوے افراد کو نماز کیلیے بیدار کیا، من جملہ خود عبد الرحمن بن ملجم مرادی کوجوکہ پیٹ کے بل سویا ہوا تھا کو بیدار کیا۔اور اسے نماز پڑھنے کوکہا ۔
جب آپ محراب میں داخل ہوئے اور نماز شروع کی تو پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے تھے کہ شبث بن بجرہ ملعون نے شمشیر سے حملہ کیا مگر وہ محراب کے طاق کو جالگی اوراسکے بعد عبد الرحمن بن ملجم مرادی نے نعرہ لگایا کہ :
” للہ الحکم یاعلی ، لا لک و لا لاصحابک "
!اور اپنی شمشیر سے حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر حملہ کیااور آنحضرت کا سر سجدے کی جگہ( ماتھے ) تک زخمی ہوگیا۔ جب امام علیہ السلام کے سر اقدس پر ضرب لگی تو اہل مسجد نے ایک ندائے ہاتف سنی کہ
’’ان تَہَدّمَت و اَللہ اَرکان الہُدیٰ”
’’خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہوگئے‘‘۔
کتب تاریخ میں ہے کہ جب عبدالرحمن بن ملجم نے سرمبارک حضرت علی علیہ السلام پر شمشیر ماری تو زمین لرز گئی ، دریا کی موجیں تھم گئیں اور آسمان متزلزل ہوا کوفہ مسجد کے دروازے آپس میں ٹکرائے آسمانی فرشتوں کی صدائیں بلند ہوئیں، کالی گھٹا چھا گئیں، اس طرح کہ زمین تیرہ و تار ہو گی اور جبرائيل امین نے صدا دی اور ہر کسی نے اس آواز کو سنا وہ کہہ رہا تھا:
’’تھدمت و اللہ اركان اللہ ھدي، و انطمست اعلام التّقي، و انفصمت العروۃ الوثقي، قُتل ابن عمّ المصطفي، قُتل الوصيّ المجتبي، قُتل عليّ المرتضي، قَتَلہ اشقي الْاشقياء‘‘
’’ خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہوگئے علم نبوت کے چمکتے ستارے کو خاموش کیا گيا اور پرہیزگاری کی علامت کو مٹایا گيا اور عروۃ الوثقی کو کاٹا گيا کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ابن عم کو شہید کیا گيا۔ سید الاوصیاء ، علی مرتضی کو شہید کیا گيا، انہیں شقی ترین شقی [ابن ملجم ] نے شہید کیا‘‘۔
انیس رمضان سے اکیس تک آپ گھر میں اپنے بچوں اور اہل خاندان کے ساتھ انتہائی زخمی حالت میں رہے اور زبان پر ذکر و تسبیح مسلسل جاری رہی۔ جب اکیس رمضان کو آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا تو اس سےچند دقیقے پہلے آپ کی زبان اقدس پر سورہ زاریات کی یہ آیات تھیں ۔
’’ فمن يعمل مثقال ذرت خيراً يرہ ومن يعمل مثقال ذرت شراً يرہ ‘‘
’’ جو زرہ بھر بھی نیکی کرے گا اس کو بھی دیکھ لے گا اور جو زرہ بھر برائی کرے گا اس کو بھی سامنے دیکھ لے گا‘‘۔
سبحان اللہ کی شان ہے کہ وقت ضرب رب کعبہ کی قسم اٹھا کر اپنی کامیابی کی قسم اٹھا رہے ہیں اور وقت شہادت اس بات کی گواہی دی وعدہ آخرت حق ہے اور ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ یہ صرف شان مرتضوی ہے، ورنہ تاریخ میں جو بھی انسان اس دار فانی سے گیا وہ ہاتھ ملتے ہوئے اور وقت و توشہء آخرت کی کمی کا رونا روتا ہوا گیا۔
امام علی علیہ السلام کا جو سفر ٣٠عام الفیل کو مکہ معظمہ میں بیت اللہ سے شروع ہا تھا وہ چالیس ہجری کو مسجد کوفہ میں انجام کو پہنچا۔ جب امام علیہ السلام مضروب تھے تو آپ نے بتایا کہ ایک شب پہلے انہیں خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ہوئی اور انہوں نے نبیء کریم سے امت کی بد عہدی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی اس امت کے لئے بد دعا کرو تو میں نے کہا کہ اے اللہ ان لوگوں پر میرے عوض برے لوگوں کو مسلط فرما۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی، اللہ نے تمہاری دعا قبول کر لی ہے اور تم تین دن بعد مجھ سے آن ملو گے۔ پھر فرمایا کہ اے حسن آج رات میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔ اولاد سے جب آپ وصیت فرما رہے تھے تو امام حسین علیہ السلام کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ اے ابا عبد اللہ یہ امت آپ کو شہید کرے گی، اس مصیبت پر صبر کرنا تم پر لازم ہے۔ اس بعد چند ثانئیے آپ بیہوش رہے اور پھر ہوش آیا تو فرمایا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، چچا حمزہ اور بھائی جعفر طیار آئے تھے اور کہتے ہیں کہ علی جلدی کرو ہم تمہارے مشتاق ہیں۔ پھر آپ نے قبلہ رو ہو کر اپنے ہاتھ پاؤں دراز فرما لئے اور آنکھیں بند کر کے زبان مبارک پر کلمہ جاری کیا
اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمد عبدہ و رسولہ
آہ۔۔۔امت محمدیہ کا بہترین فرد آج کے دن اٹھا لیا گیا۔
Source: Alhasnain.org urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button