مقالات قرآنی

گناہان کبیرہ سے اجتناب کا حکم

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
’’اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ نُدۡخِلۡکُمۡ مُّدۡخَلًا کَرِیۡمًا‘‘
’’اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کر دیں گے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کر دیں گے‘‘۔
(سورہ آل عمران آیت۳۱)
تشریح کلمات
تَجۡتَنِبُوۡا:( ج ن ب ) جنب سے ہے جو پہلو کے معنی میں ہے۔ کسی چیز سے پرہیز کرنے کے لیے یہ بطور استعارہ استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ کسی چیز سے پرہیز کرنا ہو تو اس سے پہلو پھیر لیتے ہیں۔
نُکَفِّرۡ:( ک ف ر ) کفر ۔ چھپانا۔ قرآن میں یہ لفظ عفو و درگزر کے معنوں میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔
تفسیر آیات
اس آیت سے معلوم ہو اکہ گناہوں کی دو اقسام ہیں:
i۔ گناہان کبیرہ
ii۔ گناہان صغیرہ
اللہ کی نافرمانی اور گستاخی کے اعتبار سے تو ہر گناہ بڑا ہے، لیکن گناہ اور گناہ کی نسبت چھوٹے بڑے گناہ ہو سکتے ہیں ۔
گناہ کبیرہ کی تعریف: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
’’اَلْکَبَائِرُ الَّتِی اَوْجَبَ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَیْھَا النَّارَ ‘‘( اصول الکافی ۲: ۲۷۶)
’’ گناہ کبیرہ وہ ہے جس کا ارتکاب کرنے والے کے لیے اللہ نے جہنم کی سزا مقرر کی ہو‘‘۔
ان میں سرفہرست شرک ہے۔ اس کے بعد ناحق قتل، زنا، سود خوری، جنگ سے فرار، عقوقِ والدین، ولایت اہل بیت علیہم السلام کا انکار اور دیگر گناہان کبیرہ کی تعداد بعض روایات میں ستر تک پہنچ جاتی ہے۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں کبائر یعنی گناہان کبیرہ کے مقابلے میں سئیات کا ذکر آیا ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سئیات سے مراد چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں۔ ان چھوٹے گناہوں ہی کے بارے میں دوسری جگہ ارشا د ہوتا ہے:
’’اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ‘‘ ( ہود: ۱۱۴)
’’بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں‘‘۔
ان دونوں آیات سے یہ مطلب سامنے آتا ہے کہ اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو چھوٹے گناہوں کو اللہ خود عفو و درگزر یا نیکیوں کے ذریعے مٹا دیتا ہے، لیکن اگر گناہ بڑے ہوں تو ان سے درگزر کے لیے توبہ کی ضرورت ہے۔
گناہ کے بڑا ہونے کی صورت میں یہ دیکھنا چاہیے کہ ارتکاب گناہ کی نوعیت کیاہے؟ کیا ارتکاب نادانی کی وجہ سے ہوا ہے یا بارگاہ الٰہی میں جرأت اور گستاخی کی وجہ سے ہوا ہے یا خواہشات پر قابو نہ رکھنے کی وجہ یا گناہ کو خفیف سمجھنے کی وجہ سے ہوا ہے؟ پھر گناہ کبیرہ کے بھی مدارج ہیں۔ کچھ کبیرہ ہیں اور کچھ بہت زیادہ کبیرہ ہیں۔ مثلا زنا کبیرہ ہے۔ اگر یہ مسجد میں ہو تو زیادہ کبیرہ ہے۔ شادی شدہ عورت کے ساتھ ہو تو اور زیادہ کبیرہ ہے۔ یہ شادی شدہ عورت ہمسائے کی عورت ہو تو اور زیادہ کبیرہ ہے۔ یہ عورت اگر محرموں میں سے ہو تو اور زیادہ کبیرہ ہے۔
یہاں سے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ روایات میں گناہان کبیرہ کی تعداد میں اختلاف کیوں ہے۔
سوال: کیا اس سے چھوٹے گناہوں کے ارتکاب کی تشویق نہیں ہوتی؟
جواب: اولاً اگر گناہ کو خفیف اور ناچیز سمجھے تو اس سے گناہ چھوٹا نہیں رہتا، بڑا ہو جاتا ہے۔ ثانیاً یہ کہ گناہ صغیرہ کا ارتکاب بار بار ہو تو بھی صغیرہ نہیں رہتا، کبیرہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہؐ سے روایت ہے:
’’لاَ کَبِیْرَ مَعَ اُلِاسْتِغْفَارِ وَ لَا صَغِیْرَ مَعَ الْاِصْرَارِ‘‘
(الوسائل ۱۵ : ۳۳۵ باب صحۃ التوبۃ)
’’استغفار کے ساتھ کوئی گناہ، کبیرہ نہیں رہتا اور بار بار ارتکاب کی صورت میں کوئی گناہ، صغیرہ نہیں رہتا‘‘۔
لہٰذا گناہ صغیرہ کی تشویق کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
احادیث
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
’’اَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَھَانَ بِہٖ صَاحِبُہُ‘‘
(نہج البلاغۃ حکمت: ۳۴۸۔ ص ۸۸۳ ۔ طبع امامیہ کتب خانہ۔ لاہور)
’’سب سے بھاری گناہ وہ ہے جس کا ارتکاب کرنے والا اسے سبک سمجھے‘‘۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
’’لَا صَغِیرَۃَ مَعَ الْاِصْرَارَ ‘‘
(من لا یحضرہ الفقیہ ۴: ۱۷)
’’بار بار گناہ کے ارتکاب سے گناہ، صغیرہ نہیں رہتا‘‘۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 303)
شراب اور جوا دو بڑے گناہ
’’یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِؕ قُلۡ فِیۡہِمَاۤ اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۫ وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا ؕ وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَکَّرُوۡنَ‘‘ (بقرہ:219)
’’لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: ان دونوں کے اندر عظیم گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی، مگر ان دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے کہیں زیادہ ہے اور یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ کہدیجئے: جو ضرورت سے زیادہ ہو، اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو‘‘۔
تشریح کلمات
الۡخَمۡرِ:( خ م ر ) کسی چیز کے چھپانے کے معنوں میں ہے، کیونکہ شراب عقل کو پس پردہ ڈال کر اسے زائل کر دیتی ہے اور اس کی وجہ سے اچھی اور بری چیزمیں تمیز نہیں ہو سکتی۔
الۡمَیۡسِرِ:( ی س ر )جوئے کو مَیسِرِ (آسان)کہتے ہیں، کیونکہ جوئے کے ذریعے آسانی سے پیسہ ہتھیا لیا جاتا ہے۔
اِثۡمٌ:( ا ث م ) پیچھے رہنا اور تاخیر کے معنوں میں آتاہے۔ لہٰذا کارخیر سے پیچھے رکھنے والی ہر چیز کو اثم یعنی گناہ کہا گیا ہے۔
تفسیر آیات
شراب نوشی ایام جاہلیت میں ایک عام بیماری تھی، جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اسے معاشرے سے دور کرنے کے لیے حکمت عملی اختیار کی گئی۔ چنانچہ شراب کی حرمت کو تدریجاً چار مرحلوں میں بیان اورنافذ کیا گیا:
۱۔ سب سے پہلے مکہ میں یہ آیت اتری، جس میں شراب جیسی ناپاک چیزوں کی حرمت کی طرف اشارہ فرمایا:
’’قُلۡ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الۡاِثۡمَ وَ الۡبَغۡیَ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ‘‘
(۷ اعراف : ۳۳)
’’کہدیجیے: میرے رب نے علانیہ اور پوشیدہ بے حیائی (کے ارتکاب)، گناہ، ناحق زیادتی اور اس بات کو حرام کیا ہے‘‘۔
۲۔ شراب پی کر نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا:
’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی ‘‘(نساء : ۴۳)
’’اے ایمان والو !نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جایا کرو‘‘۔
۳۔ اس کے بعد زیر بحث آیت نازل ہوئی۔ اس میں شراب اور جوئے کے نقصانات کی طرف اشارہ فرمایا گیا اور اس بات کو بھی قبول کیا گیا کہ اس میں کچھ فوائد بھی ہیں جو گناہ کے مقابلے میں کم ہیں۔ اس میں حرمت کی تصریح ہے۔ کیونکہ شراب کو اثم یعنی گناہ کہا گیا ہے۔
۴۔ آخر میں شراب اور چند دیگر چیزوں کی حرمت کے بارے میں فیصلہ کن حکم آ گیا:
’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‘‘ (مائدہ : ۹۰)
’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور مقدس تھان اور پانسے سب ناپاک شیطانی عمل ہیں، پس اس سے پرہیز کرو تاکہ تم نجات حاصل کر سکو‘‘۔
وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے اثم کے معنی میں سستی اور پسماندگی کا مفہوم مضمر ہے اور آیہ شریفہ کے مطابق شراب اور جوئے میں یہ اثرات بہت بڑے پیمانے پر موجود ہوتے ہیں۔ چنانچہ:
۱۔ طبی لحاظ سے بادہ خواری سے معدہ، آنتوں، جگر، اعصاب، شریانوں، قلب اور حواس مثلاً بصارت وغیرہ پر برے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں اور شرابی معاشروں میں ان برے اثرات کے بے پناہ اعداد و شمار سامنے آتے رہتے ہیں۔
۲۔ اخلاقی لحاظ سے شراب انسان کو درندہ بنا دیتی ہے جسے جرائم کے ارتکاب، قتل و غارت اور عصمت دری وغیرہ میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی۔
۳۔ عقلی نقطۂ نظر سے شراب انسان سے اس کی انسانیت کو سلب کر لیتی ہے۔ عام طور پر آدمی غیر انسانی حرکتوں سے اس لیے باز رہتاہے کہ اس میں ضمیر، غیرت و حمیت، مہر و محبت، شرم و حیا، ایثار و احسان، ہمدردی اور رحم جیسے پاک جذبات موجود ہوتے ہیں۔ شراب انسان سے ان تمام اقدار کو سلب کر لیتی ہے اور انسان کو احساس جرم و گناہ سے محروم کر دیتی ہے۔ چنانچہ اس وقت دنیامیں بہت سے انفرادی و اجتماعی جرائم شراب نوشی کے بالواسطہ یا بلا واسطہ اثرات ہیں۔
جوئے اور دیگر شیطانی اعمال کے بارے میں ہم سورۂ مائدہ میں تفصیل بیان کریں گے۔
احادیث
حدیث نبوی ہے:
’’اِنَّ الْخَمْرَ رَاْسُ کُلِّ اِثْمٍ‘‘(اصول الکافی ۶ : ۴۰۲)
’’شراب تمام گناہوں کا سرچشمہ ہے‘‘۔
اصول کافی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں:
’’لَعِنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فِی الْخَمْرِ عَشَرۃً: غَارِسَھَا وَ حَارِسَھَا وَ عَاصِرَھَا وَ شَارِبَھَا وَ سَاقِیْھَا وَ حَامِلَھَا وَ الْمَحْمُوْلَۃَ اِلَیْہِ وَ بَایِعَھَا وَ مُشْتَرِیْھَا وَ آکِلَ ثَمَنِھَا ‘‘(اصول الکافی ۶ : ۴۲۹)
’’رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شراب کے بارے میں دس افراد پر لعنت بھیجی ہے: پودا لگانے والے، اس کی نگہداری کرنے والے، کشید کرنے والے، پینے والے، پلانے والے، اٹھانے والے، جس کے لیے اٹھائی جائے اس پر، فروخت کرنے والے، خریدنے والے اور اس کی کمائی صرف کرنے والے پر‘‘۔
اہم نکات
۱۔ احکام شریعت انسانی مصالح و مفاسد کی بنیاد پر استوار ہیں: وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا
۲۔ شراب نوشی اور جوا گناہان کبیرہ میں سے ہیں: فِیۡہِمَاۤ اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ ۔
۳۔ جزوی فوائد حرمت کو جواز میں بدل نہیں سکتے: وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۫ وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا
۴۔ ضرورت سے زائد مال کو راہ خدا میں زاد آخرت کے طور پر خرچ کرنا چاہیے: مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ
۵۔ احکام شریعت اللہ کی واضح نشانیاں ہیں جن میں غور و فکر کرنا ضروری ہے: کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَکَّرُوۡنَ ۔
تحقیق مزید:
(آیت ۲۱۹: الکافی ۴ : ۵۲، ۶ : ۴۰۶، الفقیہ ۲ : ۶۴، الوسائل ۱۷ : ۳۲۵، ۲۱ : ۵۵۴، ۲۵ : ۳۰۱، مستدرک الوسائل ۱۷ : ۸۳۔
آیت ۲۲۰: الکافی ۵ : ۱۲۹ ۔ ۱۳۰، التہذیب ۶ : ۳۳۹ تا ۴۱)
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 550)
گناہان کبیرہ پراصرار
’’وَ کَانُوۡا یُصِرُّوۡنَ عَلَی الۡحِنۡثِ الۡعَظِیۡمِ ‘‘( واقعہ:46)
اور گناہ عظیم پر اصرار کرتے تھے‘‘۔
تشریح کلمات
الۡحِنۡثِ:گناہ کو کہتے ہیں۔ دراصل یہ لفظ قسم توڑنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے:
’’وَ خُذۡ بِیَدِکَ ضِغۡثًا فَاضۡرِبۡ بِّہٖ وَ لَا تَحۡنَثۡ‘‘ (صٓ: ۴۴)
’’(ہم نے کہا) اپنے ہاتھ میں ایک گچھا تھام لیں اور اسی سے ماریں اور قسم نہ توڑیں‘‘۔
لَا تَحۡنَثۡ یعنی قسم نہ توڑ۔ بعض اہل علم نے حنث کے یہ معنی کیے ہیں: قیامت کے انکار پر قسم کھانے کو کہتے ہیں۔ یہ اس لفظ کے لغوی معنی اور شرعی استعمال کے اعتبار سے بہتر تشریح ہے۔
تفسیر آیات
نازپروری اور دولت کے نشے نے انہیں انکار آخرت جیسے عظیم گناہ پر ڈٹ جانے پرآمادہ کیا ہے۔ اصرارکسی گناہ کو جاری رکھنے اور اس سے باز نہ آنے کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:
’’لَا صَغِیرَۃَ مَعَ الْاِصْرَارِ وَ لَا کَبِیرَۃَ مَعَ الْاِسْتَغْفَارِ‘‘(الکافی۲: ۲۸۸)
’’اصرار کے ساتھ گناہ، صغیرہ نہیں رہتا اور استغفار کے ساتھ گناہ، کبیرہ نہیں رہتا‘‘۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 25)
’’اَفَمَنۡ زُیِّنَ لَہٗ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا ؕ فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۫ۖ فَلَا تَذۡہَبۡ نَفۡسُکَ عَلَیۡہِمۡ حَسَرٰتٍ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ‘‘
’’بھلا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگا ہو (ہدایت یافتہ شخص کی طرح ہو سکتا ہے؟) بے شک اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے لہٰذا ان لوگوں پر افسوس میں آپ کی جان نہ چلی جائے، یہ جو کچھ کر رہے ہیں یقینا اللہ کو اس کا خوب علم ہے‘‘۔
(سورہ فاطر، آیت ۰۸)
تفسیر آیات
۱۔ اَفَمَنۡ زُیِّنَ لَہٗ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ:
کیا وہ شخص جس کی عقل پر خواہشات غالب آجائیں، اس کی نادانی دانائی پر چھا جائے کہ اس کی نگاہ میں قدریں بدل جائیں، برائی خوشنما بن جائے اور گناہوں کے ارتکاب پر فخر کرنا شروع کر دے، جرائم پر عمل کرنے میں لذت محسوس کرے، حق باطل اور باطل حق نظر آئے، اس طرح سب سے بڑے گناہ، احساس گناہ کے فقدان کا کوئی مرتکب ہو جائے تو کیا ایسا شخص ہدایت یافتہ شخص کی طرح ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔
۲۔ فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ:
اللہ ایسی قدروں کے مالک افراد کو ہدایت نہیں دیتا بلکہ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ اللہ کی طرف سے ہدایت نہ ملنے کی صورت میں ضلالت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
۳۔ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ:
اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے۔ اللہ کی چاہت اور مشیت اندھی بانٹ نہیں ہے۔ وہ اہل کو ہدایت دیتا ہے۔ نااہل کو جو ہدایت قبول نہیں کرتا، نہ ہدایت قبول کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، اس پر حجت پوری کرنے کے بعد جب وہ راہ راست پر نہیں آتا اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا اور ہدایت کا ہاتھ روک لیتا ہے۔ اس ہاتھ روکنے کو یُضِلُّ کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے۔ ورنہ ابتداء میں اللہ بلاوجہ کسی کو گمراہی میں نہیں ڈالتا۔ گمراہی و ضلالت اللہ کی ناپسندیدہ ہے۔ خود اللہ ناپسندیدہ چیز اختیار نہیں کرتا۔
۴۔ فَلَا تَذۡہَبۡ نَفۡسُکَ عَلَیۡہِمۡ حَسَرٰتٍ:
ان کی گمراہی پر اپنی جان گھلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان میں ہدایت کی اہلیت نہیں ہے ورنہ ان پر اللہ تعالیٰ آپؐ سے زیادہ مہربان ہے۔ اگرچہ ابدی سعادت کا موقع ہاتھ سے دینا بہت حسرت و افسوس ناک بات ہے تاہم یہ لوگ اپنے اختیار سے کفر پرقائم رہنے پر مصر ہیں تو ہم ان پر ہدایت جبراً مسلط نہیں کر سکتے۔ لہٰذا انہیں ان کے عمل کے ساتھ چھوڑ دینا پڑتا ہے۔
۵۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ:
چونکہ اللہ کو ان کی کرتوتوں کا بخوبی علم ہے۔ اس علم کے مطابق اللہ ان کے ساتھ سلوک کرتا ہے۔
اہم نکات
۱۔ سب سے بڑا گناہ، احساس گناہ کا نہ ہونا ہے۔
۲۔ ناقابل ہدایت کو اللہ اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہربان جان لوگوں کے گمراہ ہونے پر افسوس سے گھل جاتی ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 195)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button