حضرت فاطمہ زھراؑسیرت کتبکتبلائبریریمحمد و آل محمد علیھم السلام

خطبہ فدک حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا

خطبہ فدک حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا

ترجمہ و شرح: شیخ محسن علی نجفی دام عزہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پیش لفظ

خاندان عصمت و طہارت کائنات کا گلستان اور جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا اس گلستان کا مہکتا پھول ہیں۔ ا س کی مہک جہاں حسنین (علیہما السلام) کے کلمات اور زینبین سلام اللہ علیہما کے خطبات میں نظر آتی ہیں وہیں آپؑ کے اپنے ارشادات اور خطبات بھی عالم اسلام کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔

آپؑ کا ایک اہم خطبہ ’’خطبہ فدک‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ میری دیرینہ خواہش تھی کہ اردو زبان کے باذوق قارئین کے لیے ’’خطبہ فدک‘‘ کا ترجمہ اور تشریح کو طبع کیا جائے۔

اس لیے میں نے حجۃ اسلام والمسلمین شیخ محسن علی نجفی (دامت برکاتہ) سے خواہش ظاہر کی جن کا ترجمہ قرآن اردو زبان کے قارئین میں اس قدر مقبول ہوا ہے کہ چند برسوں کے دوران اس کے متعدد ایڈیشن طبع ہو کر ختم ہو چکے ہیں۔

شیخ محسن علی نجفی صاحب نے اس ذمہ داری کو بطریق احسن انجام دیا۔ خطبۂ فدک کا ترجمہ اور تشریح کو طبع کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ پھر ہم نے ان سے درخواست کی کہ ثانی زہراؑ حضرت زینبؑ کے اس خطبے کا ترجمہ کیا جائے جو آپؑ نے دربار یزید میں دیا تھا۔

اب اس خطبے اور ترجمے کو بھی خطبۂ فدک کے ساتھ شامل کرکے طبع کروایا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ خاتون جنت اور ثانی زہراؑ اس خطبے کے شارح اور طباعت میں تعاون کرنے والوں کی شفاعت فرمائیں گی۔

شیخ علی مدبر مسجد معصومین
دستگیر۔ کراچی

مقدمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد لولیّہ والصلوٰۃ علی نبیّہٖ والمیامین من آلہ

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا خطبۂ فدک ایک تاریخ، درد کی ایک داستان اور اہل فکر کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ خطبہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس دنیا سے جانے کے بعد رقم ہونے والی افسوسناک تاریخ کا عنوان ہے۔ اس تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہ خطبہ رُخ کا تعین کرتا ہے۔ اس طرف رُخ کئے بغیر نہ کوئی جملہ معنی دیتا ہے، نہ کسی تعبیر کے مفہوم کا تعین ہوتا ہے، نہ ہی واقعات اور حادثات کا ادراک ممکن ہوتا ہے۔ اس لیے اس خطبے کو اسی اہمیت کے ساتھ پیش کرنا ضروری ہے۔

جناب حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ علی مدبر دام مجدہ الشریف اس ترجمہ کے محرک ہیں، جن کے مخلصانہ مشوروں کی وجہ سے اس خطبہ کا ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ حدیث میں آیا ہے ’’الدالّ علی الخیر کفاعلہٖ‘‘ نیکی کی رہنمائی کرنے والا اس کو انجام دینے والے کی طرح ہے۔یعنی اجر و ثواب میں برابر کا شریک ہے، ایک اشارے کو وہ ثواب میسر آتا ہے جو اس پر عمل کرنے والوں کو مشقتوں کے بعد مل سکتا ہے۔ خداوند کریم ان کو صحت و عافیت سے نوازے اور ان کو توفیق مزید اور عمر مدید عنایت فرمائے۔ آمین!

محسن علی نجفی
۲۰ جمادی الاول ۱۴۲۹ھ
۲۵ مئی 2008ء

خطبہ فدک کی اسنادی حیثیت

تحقیق و نگارش علامہ آفتاب حسین جوادی

یہ حقیقت ناقابل انکار تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ عصمت و طہارت کی مرکز و محور اور وماینطق عن الہوی سے متصف رسول ؐ کی پروردہ حضرت فاطمۃ الزھراء ؑنے بھر پور انداز میں مسئلہ فدک کے اصل حقائق سے مسلمانوں کو آگاہ فرمایا، آپ نے اس معرکۃ الآراء تاریخی خطبے میں اللہ تعالی ٰ کی حمد و ثناء، نظریہ توحید، آقائے دو جہاں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقام و مرتبہ اور بعثت کے اغراض ومقاصد، امت اسلامیہ کی ذمہ داریاں اور نظریہ امامت و خلافت، قرآن مجید کی اہمیت وافادیت اور اس کی بالا دستی، شریعت محمدیہ کے احکام اور ان کا فلسفہ، اپنے شوہر نامدار حیدر کرار ؑکی جانفشانیوں کا تذکرہ اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے وقت کے حکمران، مہاجرین وانصار اور خواتین کے سامنے احتجاج فرمایا ہے ۔ تاریخ کے مختلف راویوں نے متعدد اسناد سے یہ تاریخ ساز خطبہ نقل کیا ہے اگر راویان اور حفاظ حدیث میں سے جس کسی سے محبت اہل بیتؑ کی خوشبو آتی تو ارباب اقتدار کی جانب سے ان پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی اور انہیں مطعون ومجروح کرنے اور درجہ وثاقت سے گرانے کی ہر ممکن کوشش کو بروئے کار لایا جاتا۔ حکمرانوں کے جبر و تشدد اور ان کی ہمنوا اکثریت کے شدید ردعمل کا خوف ہر وقت ان پر طاری رہتا تھا۔ موت کی تلوار ان کے سروں پر ہمہ وقت لٹکی رہتی تھی حکمران اور ان کے ہم نظریہ افراد اہل بیت ؑ کے حق میں کوئی بات سننے کی تاب نہ رکھتے تھے مگر اس کے باوجود خانوادہ رسالتؐ کی عظمت و رفعت کے متعلق احادیث و روایات، ان سے مروی خطبے اور ارشادات سینہ بہ سینہ چلے آتے رہے اور اس دوران جب بھی کبھی راویان حدیث کو وعظ یا تحریر کے ذریعے بیان کا موقع ملا تو انہوں نے برملا اظہار کر دیاحتی کہ مخالف طبقہ کے سنجیدہ افراد بھی ان حقائق کو بیان کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اس کے بعد ان پر کیا گزرتی؟

اس کی صرف ایک ادنیٰ سی مثال ذیل میں بیان کی جا رہی ہے جسے علامہ ذہبی نے رقم کیا ہے:

محدثین اہلسنت میں سے تیسری صدی کے ایک بہت بڑے بلند پایہ حافظ حدیث اور امام دارقطنی ایسے ائمہ حدیث کے استاد محدث محمد عبداللہ بن محمد بن عثمان الواسطی نے ایک موقع پر اہل واسط کو حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ’’حدیث طیر‘‘(۱) حفظ اور املا کرائی جسے ان کی طبیعتیں(بغض علیؑ کی بنا پر) برداشت نہ کر سکیں اس وجہ سے فوراً سب لوگ ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے ان کو مجلس درس سے اٹھا دیا اور ان کی جگہ کو پانی سے دھویا۔ محدث صاحب اس تکلیف دہ عمل سے کبیدہ خاطر ہو کر اپنے گھر میں ہی گوشہ نشیں ہوگئے اور اس کے بعد پھر کسی واسطی کو حدیث نہیں پڑھائی اہل واسط میں ان کی روایت کردہ احادیث کی کمی کی وجہ یہی ہے۔

(ملاحظہ ہو:تذکرۃ الحفاظ للذہبی جلد۳ صفحہ ۹۶۶، سیر اعلام النبلاء جلد۱۶ صفحہ ۳۵۲)

۱؎ ۔ حدیث طیریہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللھم ائتنی باحب خلقک الیک یاکل معی ھذا الطیر فجاء علی فاکل معہ’’ اے اللہ! میرے پاس اسے بھیج جو تجھے اپنی مخلوق سے سب سے زیادہ محبوب ہے وہ میرے ساتھ یہ (بھنا ہوا) پرندہ (کا گوشت)کھائے پس آپ ؐ کے پاس حضرت علی ؑ تشریف لائے اور مل کر کھایا‘‘۔ (تاریخ دمشق ابن عساکر ج ۴۵ صفحہ ۲۷۸، المعجم الکبیر طبرانی ج ۷ صفحہ ۹۵، مجمع الزوائد ج ۹ صفحہ ۱۲۶) ۔ اہل سنت کے مستند اور جید علماء نے اس حدیث کی بڑے شد و مد سے توثیق کی ہے جیسا کہ علامہ ہیثمی نے اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے: و رجال الطبرانی رجال الصحیح غیر فطر بن خلیفۃ و ھو ثقۃ امام حاکم نے کہا ہے : ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ (مستدرک علی الصحیحین ج ۳ صفحہ ۱۳۰) ۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں: واما حدیث الطیرفلہ طرق کثیرۃ جدا قد افردتھا المصنف و مجموعھا ھو یوجب ان یکون الحدیث لہ اصل’’ حدیث طیر بہت سی سندوں سے مروی ہے میں نے ان سب کو ایک الگ کتاب میں جمع کر دیا ہے جن سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس حدیث کی اصل موجود ہے‘‘۔ (تذکرۃ الحفاظ ج ۳ صفحہ ۱۰۴۳ طبع دکن، سیر اعلام النبلاء ج ۱۳ صفحہ ۲۳۳)۔یہ حدیث حضرت علی مرتضی ؑ، سعد بن ابی وقاصؓ، ابو سعید خدری ؓ، ابو رافع ؓ، جابر بن عبدا للہ انصاریؓ، حبشی بن جنادہ السلولیؓ، یعلی بن مرۃ ثقفیؓ، ابن عباسؓ، سفینہ مولی رسول اللہؐ، انس بن مالک ؓ، اور دیگر بہت سے صحابہ کرام ؓسے مروی ہے۔بصرہ شہر میں عثمانیوں کی اکثریت تھی حضرت علی ؑ کو ماننے والے صرف چند لوگ تھے جو نہ ہونے کے برابر تھے چنانچہ اس سلسلے میں حافظ ابن عبدالبر اندلسی نے العقد الفرید جلد۴ صفحہ ۲۶۷ میں تحریر کیا ہے البصرۃ کلہا عثمانیۃ بصرہ تمام تر عثمان کے ماننے والوں کا شہر تھا۔ (جوادی)

علامہ ذہبی کے اس بیان سے ہمارے بیان کردہ نقطۂ نظر کو زیادہ تقویت پہنچتی ہے۔

غور فرمائیے! صرف اموی انحراف پسندی کے تحفظ کے لئے اپنے ہی محدث کو ’’فضیلت علی ؑ‘‘ میں محض ایک حدیث پڑھانے کی پاداش میں ہمیشہ کے لئے کس طرح انہیں گھر کی چار دیواری میں محصور کر دیا، نہ صرف یہ، بلکہ آئندہ کے لئے بھی ان کی بیان کردہ کسی حدیث یا روایت کو درخور اعتنا نہ سمجھا گیا۔ ایسے لاکھوں کربناک واقعات آج بھی صفحات تاریخ پر نقش ہیں تاہم یہ سلسلہ تاہنوزجاری ہے مگر بقول عمر خیام ہم یہی عرض کریں گے ؎

تو خون کساں بخوری ماخون رزاں انصاف بدہ کدام خونخوار تریم

بنو امیہ کے ہمنوا اور ان کے نظریہ سے متاثر ہونے والے بے رحم قلمکاروں نے قلم و قرطاس کے ذریعے حضرت سیدہ خاتون جنت سلام اللہ علیہا پر گزرے ہوئے ناقابل برداشت جاں گداز واقعات کو نظروں سے اوجھل کرنے کی حتی المقدور سعی نافرجام کی ہے لیکن تاریخ آخر تاریخ ہوتی ہے جو امتداد زمانہ کے باوجود ہر دور میں اپنے سینے میں موجود سچائیاں منظر عام پر لاتی رہتی ہے اور جب بھی کوئی شخص مفاد یا تعصب وتنگ نظری کی عینک لگا کر اس کے حقائق کو جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے ناقابل تردید حوالوں کے ساتھ اپنا بھر پور دفاع کرتی ہے۔

اگرچہ اس خطبہ کو مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے اتنے علمائے حدیث و تاریخ نے بڑے وثوق سے درج کیا ہے کہ ان کا مختار ہی سند ہے لیکن اس کے باوجود اس کے راویوں پر علم رجال کی روشنی میں نظر ڈالنا مناسب ہو گا۔ اگر علی سبیل التنزل ایک لمحے کے لیے یہ باور کر لیا جائے کہ اس خطبہ کے کچھ راوی کمزور ہیں تب بھی یہ خطبہ قابل احتجاج و استشہادرہے گا وہ اس لیے کہ جمہور محدثین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جب حدیث ضعیف بھی متعدد اسانید سے مروی ہو توچاہیے الگ الگ ہر طریق بجائے خود ضعیف ہو مگر سب مل کر وہ حسن لغیرہ ہو جاتی ہے۔ چونکہ خطبہ فدک کئی اسانید و طرق کے ساتھ نقل ہوا ہے تو اس قاعدہ کی رو سے اس ضعف ختم ہو جائے گا اور لا محالہ اس کی صحت میں کلام ناممکن ہے۔

مذکورہ خطبے کے متعدد سلسلوں میں سے ایک سلسلہ کے زیر بحث راوی درج ذیل ہیں:

ام المومنین حضرت عائشہؓ المتوفاۃ ۵۸ھ

حضرت عروہ بن زبیر بن عوام مدنی ؓ متوفی ۹۴ھ

جناب صالح بن کیسان مدنی تابعیؒ متوفی ۱۴۶ھ

جناب محمد بن اسحاق بن یسارؒ متوفی ۱۵۱ھ

شرقی بن قطامیؒ متوفی ۲۴۵ ھ

محمد بن زیاد بن عبداللہ الزیادیؒ متوفی ۲۵۰ھ

جناب احمد بن عبید بن ناصح النحویؒ متوفی ۲۷۸ھ

جناب محمد بن عمران المرزبانی ؒمتوفی ۳۸۴ھ

جناب محمد بن احمد الکاتبؒ متوفی ۳۳۶ھ

اس خطبے کو حضرت عائشہ،ؓ حضرت عروہؓ بن زبیر او ر صالح بن کیسانؒ ایسے بہت سے جلیل القدر ائمہ ثقات اور حفاظ کی صحیح اسانید سے روایت کیا ہے لہٰذا اس کے صحیح ہونے میں کسی قسم کے شک وشبہ کے گنجائش نہیں ہے۔

جناب سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے اس فصیح وبلیغ خطبے کو بڑے بڑے جلیل القدر علماء واہل فن نے اپنی تالیفات میں سند کے ساتھ اور بعض نے اقتباسات کو درج کرنے کی سعادت حاصل کی ہے طوالت واطناب کو ملحوظ خاطر لاتے ہوئے ہم یہاں صرف ایک سند کے رواۃ پر تبصرہ کرنا مناسب سمجھتے ہیں اگر اس خطبہ کی متعدد اسناد کو زیر بحث لایا جائے تو اس کے لئے باقاعدہ ایک دفتر درکار ہے۔

دنیائے علم میں پانچویں صدی کی ایک نابغہ روز گار شخصیت، علم و ادب کے بحر زخار آیۃ اللہ فی العالمین السید شریف مرتضیٰ علم الہدی ؒالمتوفی ۴۳۶ھ ہیں جو محتاج تعارف نہیں۔ جن کو قدرت نے مبداء فیاضی سے علوم نقلیہ وعقلیہ پر یکساں دسترس اور وسعت نظر ودیعت فرمائی ہے اس بطل جلیل کے علمی تفوق و برتری کا اعتراف اہل سنت کے جید اور نامور علماء نے کیا ہے۔

چنانچہ علامہ شمس الدین الذہبی المتوفی ۷۴۸ھ جو فن رجال میں استقراء تام کے حامل اور ائمہ فنون میں سرخیل کا درجہ رکھتے ہیں انہوں نے ایک ضخیم کتاب ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ کے نام سے لکھی جو پچیس جلدوں پر مشتمل ہے اس کی جلد ۱۷ صفحہ ۵۸۸تا۵۸۹ طبع بیروت میں سرکار علامہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

العلامۃ الشریف المرتضیٰ۔۔۔من ولد موسی کاظم۔۔۔ وکان من الاذکیاء الاولیاء المتبحرین فی الکلام والا عتزال والادب والشعر۔۔۔

ان کے علاوہ دیگر بہت سے غیر شیعہ علماء نے ان کی عظمت و جلالت اور رفعت علمی کو بڑے شد و مد سے بیان کیا ہے۔

علامہ سید مرتضیٰ علم الہدیٰ ؒنے اس خطبہ کو اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’الشافی فی الامامۃ‘‘ میں اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے اس کتاب کی اہمیت و افادیت کے لئے یہی کافی ہے کہ علامہ یاقوت حموی شافعی کو یہ لکھنا پڑا:

وہو کتاب لم یصنف مثلہ فی الامامۃ

یہ وہ کتاب ہے جس کی مثل کوئی دوسری کتاب مسئلہ امامت میں نہیں لکھی گئی ۔

(معجم الادباء ج ۱۳ ۱۴۷؎ )

چنانچہ علامہ سید مرتضیٰ علم الہدی ؒ سلسلہ سند بیان کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں:

اخبرنا ابوعبداللہ محمد بن عمران المرزبانی قال حدثنی محمد بن احمد الکاتب قال حدثنا احمد بن عبید بن ناصح النحوی قال حدثنا الزیادی حدثنا شرقی بن قطامی عن محمد بن اسحاق قال حدثنا صالح بن کیسان عن عروۃ عن عائشۃ قالت لما بلغ فاطمۃ علیہاالسلام اجماع ابی بکر منعہا (فدک) لاثت خمارہا علی راسہا واشتملت بجلبابھا واقبلت فی لمۃ من حفدتہا۔۔۔۔۔الخ

’’ہم سے بیان کیا ابوعبداللہ محمد بن عمران المرزبانی نے اور اس سے بیان کیا محمد بن احمد الکاتب نے اور اس سے بیان کیا احمد بن عبید بن ناصح نحوی نے اور اس سے بیان کیا الزیادی نے اور اس سے بیان کیا شرقی بن قطامی نے اور اس سے بیان کیا محمد بن اسحاق نے اور اس سے بیان کیا صالح بن کیسان نے اور اس سے بیان کیا کہ عروہ بن زبیر نے اور اس سے بیان کیا حضرت عائشہؓ نے کہ جب حضرت فاطمۃ الزہراء ؑ نے سنا کہ ابوبکر نے ان کو فدک نہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے تو آپ نے سر پر مقنعہ ڈالا اور پھر سر سے پاؤں تک چادر اوڑھی او ر کنیزوں کے گروہ میں ابوبکر کے پاس آئیں۔۔۔۔۔‘‘

( ملاحظہ فرمائیے۔ الشافی فی الامامۃ صفحہ۲۳۰ طبع قدیم تہران ۱۳۰۱ھ )

اسی طرح ان کے تلمیذ رشید شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن حسن الطوسی ؒالمتوفی ۴۶۰ھ نے اس سند کو اپنی بیش بہا تالیف ’’تلخیص الشافی جلد ۳ صفحہ ۱۳۹ طبع نجف اشرف ۱۳۸۳ھ میں درج کیا ہے۔

سطور بالا میں درج کی گئی سند بالکل صحیح ہے راویوں کا علی الترتیب جائزہ پیش خدمت ہے۔

حضرت عائشہؓ:۔ جناب سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدک کی مرکزی راویہ حضرت عائشہؓ ہیں جو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں یہ حضرت ابوبکرؓ کی صاحبزادی ہیں ان کی والدہ کا نام ام روماں بنت عامر بن عویمر ہے صحابہ کرامؓ اور تابعین کے ایک بڑے طبقے نے ان سے روایات نقل کیں۔ انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان کے دور حکومت ۵۷ھ یا ۵۸ ھ مدینہ منورہ میں وفات پائی۔

عروۃ بن زبیر بن عوام ؓمدنی :۔ مشہور صحابی حضرت زبیر بن عوام کے فرزند تھے ان کی ماں جناب اسماء بنت ابوبکر تھیں آپ حضرت ابوبکر کے نواسے ہیں، آپ کی ولادت کے متعلق علامہ ذہبی خلیفہ بن خیاط کے حوالے سے لکھتے ہیں:

ولد عروۃ سنۃ ثلاث و عشرین فہذا قول قوی

عروہ ۲۳ ہجری میں پیدا ہوئے یہی قول معتبر اور قوی ہے

( سیراعلام النبلاء جلد ۲ صفحہ ۴۲۲)

ثقۃ فقیہ مشہور من الثانیہ

’’آپ مشہور ثقہ فقیہ تھے اور دوسرے طبقہ کی شخصیات میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔‘‘

کتب صحاح ستہ میں متعدد احادیث آپ سے مروی ہیں (تقریب التہذیب صفحہ ۲۶۳، الجمع بین رجال الصحیحین جلد ۱صفحہ۳۹۴)امام احمد بن عبداللہ عجلی نے کہا ہے کہ عروۃ بن الزبیر تابعی ثقۃ کان رجلا صالحاًثقہ تابعی اور نیک متدین شخص تھے حضرت عمر بن عبد العزیز نے کہا: مااجد اعلم من عروۃ بن الزبیر، میں نے عروہ بن زبیر سے بڑا عالم کسی کو نہیں پایا (تاریخ الثقات صفحہ ۳۳۱،سیراعلام النبلا جلد ۲ صفحہ۴۲۵؍۴۳۳، تاریخ دمشق ابن عساکر جلد ۱۱ صفحہ ۹۲۱) آپ نے اپنے والد او ر حضرت عائشہؓ سے خصوصیت کے ساتھ احادیث حاصل کیں انہوں نے حضرت عائشہ کا پورا علمی ذخیرہ اپنے سینہ میں محفوظ کر لیا تھا حضرت عروہ اس قدر محتاط تھے کہ کوئی مسئلہ محض رائے سے نہ بیان کرتے تھے (تہذیب التہذیب جلد۷ صفحہ ۱۸۳) انہوں نے مدینہ منورہ کے مضافات اپنے علاقے ’’مجاج ‘‘میں ۹۴ ہجری میں انتقال کیا۔

صالح بن کیسان مدنی ؒ:۔ صالح بن کیسان ابوالحارث الغفاری المدنی تابعین کے بڑے طبقہ میں شمار ہوتے ہیں آپ عمر بن عبدالعزیز اموی کی اولاد میں سے ہیں عروہ بن زبیر اور دیگر بہت سے صحابہ وتابعین سے روایت کرتے ہیں کتب صحاح ستہ اور دوسری کتابوں میں ان سے روایات نقل ہوئیں آپ ثقۃ، ثبت فقیہ اور چوتھے طبقہ کے راوی ہیں (تقریب التہذیب صفحہ ۱۷۴، الجمع بین رجال الصحیحین جلد ۱ صفحہ ۲۲۱، تذکرۃ الحفاظ جلد ۱ صفحہ ۱۴۸ طبع دکن) حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی شہرہ آفاق کتاب تہذیب التہذیب جلد ۴ صفحہ ۴۰۰ میں لکھتے ہیں:

کان صالحاً ثقۃ۔۔۔۔وقال ابن حبان فی الثقات کان من فقہاء المدینۃ والجامعین للحدیث والفقہ من ذوی الہیئۃ والمروۃ۔۔۔۔حافظا اماماً کثیر الحدیث ثقۃ حجۃ

آپ دیندار ثقہ تھے اور ابن حبان نے ثقات میں کہا ہے کہ یہ فقہا، مدینہ اور حدیث وفقہ کے جامعین میں سے تھے آپ حافظ، امام، کثیر الحدیث اور قابل وثوق حجت تھے۔

حافظ احمد عجلی نے تاریخ الثقات صفحہ ۲۲۶ پر ان کو ثقہ کہا ہے پھر اسی کتاب کے فاضل محشی ڈاکٹر عبدالمعطی قلعجی نے حاشیہ نمبر۱۰ پر’’ متفق علی توثیقہ ‘‘ کہہ کر ان کی ثقاہت پر تمام علماء کا اتفاق نقل کیا ہے۔ آپ ۱۴۶ہجری میں واصل بحق ہوئے۔

محمد بن اسحاق ؒ:۔ محمد بن اسحاق بن یسار اہلسنت کے جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ اور قابل اعتماد ہے چنانچہ امام کمال الدین محمد بن عبدالاحد المعروف ابن ہمام حنفی تحریر کرتے ہیں :

امام محمد بن اسحاق حدیث کے بارے میں ایمان والوں کے امیر ہیں اور بڑے بڑے علماء مثل امام ثوری، عبداللہ بن مبارک وغیرہ جیسے ان کے شاگرد ہیں امام یحی بن معین، امام احمد بن حنبل اور دوسرے ائمہ اہل سنت نے اس سے روایت لی ہے اور امام بخاری نے ’’جزء القرأۃ خلف الامام‘‘ میں ان کی وثاقت پر اعتماد کیا ہے امام ابن حبان نے بھی ان کا ذکراپنی قابل وثوق رواۃ پر مشتمل کتاب ’’الثقات‘‘ میں کیا ہے (ملاحظہ ہو فتح القدیرجلد۱ صفحہ ۹۰ مطبوعہ کوئٹہ)

اور امام بخاری نے محمد بن اسحاق کی توثیق کو اپنی کتاب ’’التاریخ الکبیر ‘‘جلد۱ صفحہ۴۱ طبع دکن میں بھی مختصر طور پر بیان کر دیا ہے۔ حنفی مسلک کے ترجمان امام جمال الدین زیلغی حنفی نے ابن اسحاق کے متعلق لکھا ہے:

وابن اسحاق الاکثر علی توثیقہ وممن و ثقہ البخاری۔۔۔قال شعبۃ محمد بن اسحاق امیر المومنین فی الحدیث وقال عبداللہ بن مبارک محمد بن اسحاق ثقۃ ثقۃ ثقۃ

ابن اسحاق کو(ائمہ )کی اکثریت نے ثقہ کہا اور توثیق کرنے والوں میں امام بخاری بھی ہیں شعبہ نے کہا کہ محمد بن اسحاق حدیث کے باب میں امیرالمومنین ہیں اور عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ محمد بن اسحاق ثقہ ہے ثقہ ہے ثقہ ہے۔

(نصب الرایہ لاحادیث الہدایہ جلد۱ صفحہ ۱۰۷جلد ۴صفحہ ۸ طبع ڈاھبیل )

اصول حدیث کے ابتدائی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ تعدیل کے الفاظ میں توثیق مقرر، درجہ اول کے الفاظ میں شمار ہوتے ہیں۔

جیسا کہ ابن حجر العسقلانی تقریب التہذیب صفحہ ۳ پر مراتب تعدیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

من اکدمدحہ اما بافعل کاوثق الناس اوبتکریر الصفۃ لفظاً کثقۃ ثقۃ اومعنی کثقۃ حافظ

’’دوسرے مرتبے میں وہ لوگ ہیں جن کی مدح تاکید کے ساتھ کی گئی ہے افعل التفضیل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہو جیسے ’’اوثق الناس‘‘ یا لفظوں میں صفت کو مکرر کر دیا جائے جیسے ’’ثقۃ ثقۃ‘‘ یا معنوں میں مکرر کر دیا جائے جسیے ثقہ حافظ‘‘

(کذافی، تاریخ اسماء الثقات لابن شاہین صفحہ۱۵ طبع کویت)

علامہ ذہبی اپنی مشہور عالم تصنیف میزان الاعتدال جلد۳ صفحہ۴۷۵ طبع مصر میں محمد بن اسحاق کے تذکرہ میں مختلف اقوال نقل کرکے تحقیق بسیار اور قیل و قال بے شمار کے بعد آخر میں بطور نتیجہ رقم طراز ہیں:

فالذی یظہر لی ان ابن اسحاق حسن الحدیث صالح الحال صدوق۔۔۔۔۔ وقد استشہد مسلم بخمسۃ احادیث لابن اسحاق ذکرہا فی صحیحہ

’’مجھے جو ظاہر ہوا وہ یہ ہے کہ محمد بن اسحاق حسن الحدیث صالح الحال اور صدوق ہے اور بے شک امام مسلم نے اس سے اپنی صحیح مسلم میں پانچ احادیث میں استشہاد کیا ہے‘‘۔

امام محمد بن اسحاق نے ۱۵۱ ہجری میں انتقال کیا ہے۔

مندرجہ بالا اہل سنت کے ائمہ فن اور اکابر احناف کی ان واضح تصریحات سے ثابت ہوا کہ جمہور ائمہ حدیث نے محمد بن اسحاق کو ثقہ اور حسن الحدث قرار دیا ہے۔

حَدَّثَنِی، سَمِعْتُ سے شبہ تدلیس کا ارتفاع:

البتہ بعض فن رجال کے ماہرین نے یہ وضاحت کی ہے کہ محمد بن اسحاق ثقہ ہیں مگر چونکہ مدلس بھی ہیں اس لئے جب وہ ’’عن‘‘ سے روایت کریں گے تو ان کی حدیث ضعیف ہو گی اور جب وہ ’’حدثنی‘‘ یا ’’حدثنا‘‘ اور’’سمعت‘‘ کہہ کر روایت کریں گے تو وہ حدیث صحیح ہو گی۔ جیسا کہ حافظ ابن تیمیہ اپنے مجموع فتاوی جلد۳۳ صفحہ ۸۵ میں لکھتے ہیں:

وابن اسحاق اذا قال حدثنی فحدیثہ صحیح عند اہل الحدیث

ابن اسحاق اگر حدثنی کہہ کر تصریح کرے تو محدثین کے نزدیک اس کی حدیث صحیح ہے۔

مزید برآں موجودہ زمانہ کے معروف ماہر رجال علامہ ناصرالدین البانی (المتوفی ۱۴۲۰ھ) نے بھی حافظ ابن تیمیہ حرانی کی کتاب ’’الکلم الطیب‘‘ کے حاشیہ صفحہ۴۴ پر اس بات کی وضاحت کر دی ہے۔ علاوہ ازیں طے شدہ قانون یہ ہے کہ ہر ثقہ مدلس راوی کے لیے سماع کی تصریح ضروری ہے ورنہ اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے۔

لہٰذا جناب فاطمۃ الزہراء ؑ بنت رسول اللہ ؐ کے خطبہ فدک کی حقانیت و صحت پورے طور پر ثابت ہے کیونکہ محمد بن اسحاق نے یہ خطبہ فدک ’’حدثنا صالح بن کیسان‘‘ کہ کر روایت کیا ہے۔ جو اس کے صحیح ہونے کی روشن دلیل ہے۔

شرقی بن قطامیؒ:۔ اس کا اصل نام ولید بن حصین بن جمال بن حبیب بن جابر بن مالک ہے اس کا تعلق مشہور قبیلہ بنی عمرو بن امریٔ القیس سے ہے۔

(ملاحظہ ہو التاریخ الکبیر للامام بخاری جلد ۲ صفحہ ۲۵۴ رقم ۲۷۱۵ طبع حیدر آباد دکن، تاریخ بغداد جلد۹ صفحہ ۲۷۸ رقم ۴۸۳۷ طبع بیروت)۔

امام بخاری کا اس پر تنقید اور جرح نہ کرنا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ یہ قابل اعتبار اورثقہ راویوں سے ہے۔ جیسا کہ اس سلسلے میں مولانا ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں:

سکوت ابن ابی حاتم او البخاری عن الجرح فی الراوی توثیق لہ

’’ ابن ابی حاتم یا امام بخاری کا راوی پر جرح کرنے سے سکوت اختیارکرنا گویا اس کی توثیق ہے ‘‘۔

(قواعد علوم الحدیث صفحہ ۲۲۳، ۳۵۸ طبع الریاض سعودی عرب)

انہی صفحات کے حاشیہ پر محقق محشی استاد شیخ عبد الفتاح ابو غدہ شاگرد علامہ زاھد الکوثری نے اس بات کی تائید کی ہے۔

علاوہ ازیں اس کے ثقہ اور معتبر ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ امام ابن حبان تمیمی جیسے فن علم حدیث کے امام نے اپنی کتاب الثقات جلد ۳صفحہ ۴۴۰ طبع دارالکتب العلمیہ بیروت میں اس کا تذکرہ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اور جس کو امام ابن حبان اپنی ثقات میں بیان کر دیں جہالت وجرح رفع ہو جاتی ہے۔

چنانچہ علامہ انور شاہ محدث کاشمیری نے حافظ ابن عبدالہادی کے حوالے سے لکھا ہے:

ان ابن حبان اذا ادرج احداً فی کتاب الثقات ولم یخرج فیہ احد فہو ثقۃ فالحدیث قوی،

امام ابن حبان تمیمی جب کسی کو ثقات میں ذکر کریں اور اس پر کوئی جرح نہ ہو تو وہ ثقہ ہوتا ہے اس کی حدیث مضبوط ہوتی ہے

(العرف الشذی علی سنن ترمذی صفحہ ۲۱۰ طبع دیوبند) ۔

اور اسی تناظر میں مولانا ظفر احمد عثمانی نے قواعد فی علوم الحدیث صفحہ۴۶ پر اور شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمن محدث مبارکپوری نے ابکار المنن صفحہ ۱۳۱ مطبع فاروقی دہلی میں حضرت علامہ انور شاہ محدث کاشمیری کے اس بیان کی بڑے شد ومد سے مزید تائید وتصویب کر دی ہے۔

مذکورہ بالا عبارت سے آشکار ہوا کہ محدثین اہلسنت کے نزدیک ابن حبان کی توثیق معتبر ہے اور صرف ابن حبان کی توثیق سے بھی راوی کی جہالت مرتفع ہو جاتی ہے۔درج بالا تحقیق سے شرقی بن قطامی کی ثقاہت مزید واضح ہو گئی ہے۔

محمد بن زیاد بن عبداللہ الزیادیؒ:۔ ان کا پورا نام یہ ہے محمد بن زیاد بن عبداللہ الزیادی جیسا کہ علامہ ذہبی ان کے حالات لکھتے ہوئے ابتداء ان الفاظ سے کرتے ہیں :

الامام الحافظ الثقۃ الجلیل ابوعبداللہ محمد بن زیاد بن عبیداللہ ابن الربیع بن زیاد بن ابیہ الزیادی البصری من اولاد امیر العراق زیاد الذی استلحقہ معاویۃ ولد فی حدو دسنۃ ستین ومائۃ ۔۔ حدث عنہ البخاری وابن ماجۃ وابن خزیمہ۔۔و عدد کثیر۔۔۔

’’امام حافظ بہت بڑا ثقہ ابوعبداللہ محمد بن زیاد۔۔ الزیادی بصری یہ زیاد بن ابیہ جسے معاویہ نے اپنا بھائی بنا لیا تھا اور جو عراق کا حکمران تھا کی اولاد سے ہیں اور ۱۶۰ ہجری کی حدود میں پیدا ہوئے۔ ان سے امام بخاری، امام ابن ماجہ اور امام ابن خزیمہ وغیرہ ائمہ کی زیادہ تعداد نے روایات لی ہیں۔‘‘

(سیر اعلام النبلاء جلد ۱۱ صفحہ۱۵۴) یہ امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں

(ملاحظہ ہو: اسامی مشایخ الامام البخاری لابن مندہ اصبہانی صفحہ ۶۷ طبع مکتبۃ الکوثر سعودیہ)۔

حافظ محمد بن طاہر مقدسی المعروف بابن قیسرانی نے صحیح بخاری کے راویوں میں ان کا تذکرہ یوں کیا ہے:

محمد بن زیاد بن عبداللہ بن الربیع بن زیاد سمع محمد بن جعفر عندناروی عنہ البخاری فی الادب۔۔

(الجمع بین رجال الصحیحین جلد ۲صفحہ ۴۵۹ طبع دکن)۔

علامہ ذہبی نے الکاشف جلد۳ صفحہ۳۸ پر اس کے حالات میں تحریر کیا :

۔۔۔ الزیادی بصری صدوق۔۔۔، یہ بصرے کا رہنے والا ہے روایت کے باب میں نہایت سچا ہے۔

مزید برآں سنن ترمذی جلد اول ’’باب المسح علی الخفین‘‘ میں بھی محمد بن زیاد الزیادی سے حدیث نقل کی گئی ہے۔

امام ترمذی نے اس سے مروی حدیث کے ذیل میں کہا ہے:

ہذا حدیث حسن صحیح ’’یہ حدیث حسن صحیح درجہ کی ہے‘‘

یہی حدیث مسند الامام احمد جلد ۴ صفحہ۲۳۹ طبع بیروت میں بھی موجود ہے۔

علاوہ ازیں امام الجرح والتعدیل ابن حبان تمیمی نے اپنی ثقات میں اس کی تصحیح کی ہے۔

ثابت ہوا کہ محمد بن زیاد الزیادی بلا شک وشبہ ثقہ اور انتہائی سچا ہے اس سے مروی روایت قابل قبول ہے لہٰذا خطبہ فدک کی صحت روز روشن کی طرح واضح ولائح ہو گئی ہے۔

چنانچہ حافظ ابن حجر العسقلانی کا تقریب التہذیب صفحہ ۳۲۰ میں یہ کہنا کہ ’’صدوق یخطی‘‘ محمد بن زیاد الزیادی سچا ہے خطاء کر جاتا ہے۔ اس کے متعلق جواباً گزارش یہ ہے کہ جب وہ صدوق ہے اور کبھی کبھی اس سے خطا ہو جاتی ہے تو اس سے بیان کردہ روایت میں ضعف پیدا نہیں ہوتا جیسا کہ سابقہ اوراق میں علامہ ذہبی کا بیان گذر چکا ہے کہ ائمہ حدیث میں سے خطا سے کوئی بھی نہ بچ سکا نیز یہ طے شدہ اصول ہے کہ فلیس من شرط الثقۃ ان لا یغلط ابداً، ’’پس ثقہ راوی کی یہ شرط نہیں کہ اس سے غلطی کا کبھی صدور نہ ہوا ہو‘‘ چونکہ یہ عقلاء کے نزدیک بھی ایک ممتنع اور نہایت محال امر ہے۔

لہٰذا یہ اس کی بیان کردہ روایت کے ضعف اور کمزوری کا باعث ہرگز نہیں بن سکتا بلکہ اس کی حدیث حسن درجہ سے کم نہیں ہوتی یہی وجہ ہے امام ترمذی اور ابن حبان تمیمی جیسے ائمہ حدیث نے اس کی اسناد کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔

احمد بن عبید بن ناصح النحویؒ:۔ علامہ ذہبی نے ان کا تعارف ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

ابو عصیدۃ الشیخ العالم المحدث ابو جعفر احمد بن عبید بن ناصح بن بلنجر الدیلمی ثم البغدادی الہاشمی۔۔الخ

(ملاحظہ فرمائیں سیر اعلام النبلاء جلد۱۳ صفحہ۱۹۳ طبع بیروت)

یہ جن ائمہ حدیث سے روایت بیان کرتے ہیں وہ کثیر تعداد میں ہیں مگر چند ایک کے نام یہ ہیں حسین بن علوان کلبی، علی بن عاصم، ابوداؤد الطیالسی اور محمد بن زیادالزیادی وغیر ہم ۔

(تاریخ بغداد جلد۴ صفحہ۲۵۹)

علاوہ بریں علامہ ذہبی سیراعلام النبلاء جلد۱۳ صفحہ۱۹۴ پر ان کے متعلق ابن عدی کا قول نقل کیا ہے :

کہ احمد بن عبید بمقام سرمن رائے میں رہائش پذیر تھا اصمعی اور محمد بن مصعب سے مناکیر بیان کرتا تھا اس کے بعد علامہ ذہبی ارقام فرماتے ہیں :قلت قد تابعہ احمد الحوطی قال وابو عصیدۃ مع ہذاکلہ من اہل الصدق، ’’میں (ذہبی کہتا ہوں) کہ احمد حوطی نے اس کی متابعت کی ہے اور کہا اس کے باجود ابو عصیدہ (احمد بن عبید) سچے لوگوں میں سے ہے‘‘۔

بعض لوگوں نے احمد بن عبید پر مبہم قسم کی جرح کی ہے جو ناقابل التفات وغیر مسموع ہے کیونکہ یہ اہل صدق میں سے ہیں پھر بھی بموجب ومن یعری من الخطأ والتصحیف یعنی وہم و خطاء سے کون بچ سکا ہے بعض اوقات انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔

علامہ ذہبی نے بڑے پتے کی بات کہی ہے چنانچہ فرماتے ہیں :

قلت۔۔۔فأرنی اماما من الکبارسلم من الخطاء والوہم فہذا شعبۃ وہو فی الذروۃ لہ اوہام وکذلک معمر والاوزاعی ومالک رحمۃ اللہ علیہم۔ ۔۔

’’ مجھے بڑے محدثین ائمہ میں سے کوئی ایسا امام دکھاؤ جس سے وہم اور خطاء نہ ہوئی ہو، یہ شعبہ چوٹی کے محدث ہیں ان سے کئی اغلاط ہوئے ہیں اور اس طرح معمر اور اوزاعی ومالک سے اوہام واغلاط سرزد ہوئے ہیں ۔‘‘

(سیر اعلام النبلاء جلد۶ صفحہ)

واضح ہو کہ احمد بن عبید النحوی نے ۲۷۸ ہجری میں وفات پائی ہے۔

محمد بن عمران المرزبانی ؒ:۔سید موصوف (علم الہٰدیؒ) نے اس خطبے کو اپنے شیخ ابو عبداللہ محمد بن عمران المرزبانی سے نقل کیا ہے۔

یہ جمادی الثانی ۲۹۷ھ پیدا ہوئے ( شذرات الذہب لابن حماد الحنبلی جلد ۳ صفحہ۱۱۱ طبع بیروت) یاقوت حموی کی معجم الادباء جلد۱۸ صفحہ ۲۶۸ طبع دار المامون مصر میں ان کے متعلق لکھا ہے:

کان راویۃ صادق اللہ جۃ واسع المعرفۃ بالروایات کثیر السماع روی عن البغوی و طبقتہ۔۔۔ وکان ثقۃ صدوقاً من خیار المعتزلۃ۔۔

معروف فاضل محشی ومحقق علامہ محمد ابوالفضل ابراہیم المصری نے کتاب غرر الفوائدو دررالقلائد کے مقدمہ میں لکھا ہے :

فقدکان اماماً من ائمۃ الادب وشیخا من شیوخ المعتزلۃ وعلما من اعلام الروایۃ۔۔۔

’’علم و ادب کے ائمہ میں سے ایک امام اور معتزلہ کے شیوخ اور راویان حدیث میں سے تھے۔‘‘

(غرر الفوائد جلد۱صفحہ۷ الطبعۃ الا ولی داراحیاء الکتب العربیہ مصر ۱۹۵۴ء)

حافظ ابن خلکان نے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

۔۔۔۔ المر زبانی الخراسانی الاصل البغدادی المولد صاحب التصانیف المشہورۃ والمجامیع الغریبۃ کان روایۃ للادب صاحب اخبارو توالیفہ کثیرۃ وکان ثقۃ فی الحدیث ومائلا الی التشیع فی المذہب۔۔۔

’’یہ اصل خراسانی تھے بغداد میں پیدا ہوئے، مشہور کتابوں کے مصنف ہیں علم و ادب کے راوی اور تالیفات کثیرہ کے مالک تھے اور حدیث بیان کرنے میں قابل وثوق ہیں اور مذہب میں ذراتشیع کی طرف میلان تھا۔‘‘

(وفیات الاعیان جلد۱ صفحہ ۶۴۲ طبع قدیم مصر، شذرات الذہب جلد۳ صفحہ۱۱۱) ۔

ممکن ہے کہ کوئی کم فہم یہ سمجھ بیٹھے کہ مرزبانی شیعہ تھا یہ تصور قطعاً غلط ہے بلکہ وہ معتزلی اہلسنت تھا بقول ابن خلکان صرف مائل بہ تشیع تھا حقیقی شیعہ بالکل نہ تھا چنانچہ ائمہ اہل سنت نے ان کے معتزلی المذہب ہونے کی صراحت بایں الفاظ فرمائی ہے علامہ ذہبی نے ان کے حالات میں واشگاف الفاظ میں لکھا ہے:

۔۔۔کان معتزلیاً ثقۃً

۔۔۔ ابوعبداللہ محمد بن عمران المرزبانی معتزلی اور قابل وثوق تھا ۔

(سیر اعلام النبلاء جلد ۱۶ صفحہ۴۴۸، میزان الاعتدال جلد۳ صفحہ ۶۷۲؍۶۷۳، العبرفی خبر من غبر جلد۲ صفحہ ۱۶۶ طبع بیروت)

اور بعینہا اسی طرح علامہ حافظ ابن حجر العسقلانی نے ان کا مذہب یہی بتلایا ہے :

کان مذہبہ الاعتزال وکان ثقۃ

’’ان کا مذہب معتزلی تھا اور (روایت کے باب میں) ثقہ تھے‘‘

(ملاحظہ ہو لسان المیزان جلد۵ صفحہ ۳۲۷ طبع دکن)

البتہ حضرت علی علیہ السلام سے محبت کے گہرے جذبات اور مخلصانہ عقیدت کی وجہ سے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کا تشیع کی طرف میلان تھا درحقیقت ان کا تعلق مسلک اہل سنت سے تھا۔ ابو عبداللہ محمد بن عمران مرزبانی ثقہ اور معتبر ہے اور اس نے خطبہ فدک کو اپنے بزرگ محمد بن احمد الکاتب سے سماعت فرمایا اور پھر ’’حدثنی‘‘ کہہ کر آگے پھیلایا ہے۔ مرزبانی نے ۳۸۴ھ کو وفات پائی ہے۔

شیعہ راوی سے مروی روایت کی حجیت تسلیم شدہ ہے

اگر بفرض محال یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ راوی شیعہ تھے تب بھی ان کی بیان کردہ حدیث یا روایت کے قبول کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے اس لئے کہ محدثین اور ماہرین اصول حدیث اہلِ سنت کا رواۃ حدیث کے بارے میں یہ مسلمہ اصول ہے:

الغلوفی التشیع لیس بجرح اذا کان الراوی ثقۃ

’’جب راوی ثقہ ہوتو محض غلودر تشیع موجب جرح نہیں ہے‘‘

اس موقف پر دلیل یہ ہے کہ کتب اہل سنت میں اکثر غالی شیعہ راویوں کو قابل وثوق اور ان سے مروی روایات کو قبول کیا گیا ہے چنانچہ مشہور ماہر علم رجال علامہ ذہبی نے کوفہ کے رہنے والے ایک کٹر شیعہ راوی ابان بن تغلب کے متعلق لکھا ہے:

ابان بن تغلب الکوفی شیعی جلد لکنہ صدوق فلنا صدقہ و علیہ بدعتہ وقد وثقہ احمد بن حبنل وابن معین وابو حاتم واوردہ ابن عدی وقال کان غالیاًفی التشیع۔۔۔ الخ

’’ ابان بن تغلب کوفی کٹر شیعہ ہیں لیکن یہ ہیں سچے، پس ان کی صداقت وسچائی ہمارے لئے اور بدعت ان کی اپنے لئے اور امام احمد بن حنبل، امام ابن معین اور امام ابوحاتم رازی نے بلاشبہ ان کی توثیق کی ہے اور ابن عدی ان کے حالات کو لائے ہیں اور کہا ہے کہ یہ غالی شیعہ تھے۔‘‘

یہ بات ذہن نشین رہے کہ اہل سنت کی اصطلاح میں غالی شیعہ اسے کہا جاتا ہے کہ جو شخص حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ محبت کرتا ہو اور انہیں تمام صحابہ ؓ سے افضل و ارفع جانتا ہو اور انہی کو بعد از پیغمبرؐ متصل خلیفہ سمجھتا ہواور ان کے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرتاہو۔واضح رہے کہ شیعہ سے متعلق اس قسم کی اصطلاحات کے دراصل خالق بنی امیہ ہیں اور اس کے پس منظرمیں امویوں کے جبر و تشدد کا نتیجہ اور ان کی شیعہ دشمنی کار فرما تھی۔ بعد ازاں علامہ ذہبی نے ان کے حالات پر اجمالی بحث کی ہے اس کے بعد بطور نتیجہ کلام یوں رقمطراز ہیں:

فہذا کثیر فی التابعین وتابعیہم مع الدین والورع والصدق فلورد حدیث ہؤلاء لذہب جملۃ من آلاثار النبویۃ وہذہ مفسدۃ بینۃ

’’اس قسم کا (تشیع) تابعین اور تبع تابعین میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے اس کے باجود وہ دیندار، پرہیزگار اور سچے ہیں اگر ان شیعہ راویوں کی احادیث کو رد کر دیا جائے تو اس سے احادیث نبویہ کا بڑاذخیرہ ضائع ہو جائے گا اور یہ بہت بڑی واضح خرابی ہے۔‘‘

(میزان الاعتدال جلد۱ صفحہ۵ طبع مصر، تدریب الراوی للسیوطی صفحہ ۱۲۹ طبع مدینہ منورہ)

اہل علم طبقہ جانتا ہے کہ اہل سنت کی بنیادی کتابیں صحاح ستہ میں بہت بڑی تعداد میں شیعہ رواۃ موجود ہیں ایسے راویوں کی نشاندی ہی کے لئے دیگر کتب رجال کے علاوہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی کتاب ’’مقدمہ فتح الباری شرح صحیح البخاری ‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔ مثال کے طور پر کتب صحاح ستہ کا ایک راوی عدی بن ثابت انصاری ہے جو صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ شیعوں کی مسجد کا امام اور ان کا بہت بڑا خطیب اور واعظ تھا، اس کے باوجود اس سے مروی احادیث اعلیٰ طبقہ میں شمار ہوتی ہیں۔

علامہ ذہبی اس کا تعارف ان الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں:

الامام الحافظ الواعظ الانصاری الکوفی۔۔۔

اور امام احمد بن حنبل، امام عجلی، امام نسائی اور امام ابوحاتم رازی وغیرہ آئمہ حدیث نے اس کی توثیق کی ہے ۔بعد ازں علامہ ذہبی لکھتے ہیں :

کان امام مسجد الشیعۃ وقاصہم

’’ عدی بن ثابت شیعہ کی مسجد کے امام اور ان کے خطیب تھے۔‘‘

(سیراعلام النبلاء ج۵ صفحہ۱۸۸، میزان الاعتدال ج۳ صفحہ۶۱،مقدمہ فتح الباری صفحہ۴۲۴ اور تہذیب التہذیب وغیرہ)

علاوہ بریں اس سلسلہ میں حاشیہ محمد حسن سنبہلی براصول شاشی صفحہ ۷۶ طبع دہلی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

مندرجہ بالا اخبار و آثار اور ناقابل تردید دلائل سے یہ حقیقت بالکل نکھر کر سامنے آگئی ہے کہ اہلسنت کے اصول حدیث کے مطابق شیعہ سے مروی احادیث و روایات قابل عمل اور لائق التفات ہیں یہاں اس مسئلہ پر مزید بحث باعث تطویل ہے لہٰذا ان ہی الفاظ پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

؎ قیاس کن زگلستان من بھار مرا

محمد بن احمد الکاتبؒ:۔ اس کا پورا نام اس طرح ہے ابوعبداللہ محمد بن احمد بن ابراہیم الحکیمی الکاتب ہے یہ بغداد کے رہنے والے تھے امام دارقطنی۔۔۔ محمد بن عمران المرزبانی جن کا ابھی اوپر تذکرہ ہوا ہے اور دیگر اکابر اس سے روایت کرتے ہیں یہ روایت کے باب میں ثقہ ہیں۔

(تاریخ بغداد جلد۱ صفحہ ۲۶۸؍۲۶۹ طبع بیروت، شذرات الذہب جلد۲ صفحہ۳۴۳، نشوار المحاضرہ للسیوطی جلد۶ صفحہ۱۷۷، ہدیۃ العارفین للبغدادی جلد۲صفحہ۳۸)۔

محمد بن احمد الکاتب ماہ ذی القعدہ ۲۵۲ ہجری میں پیدا ہوا اور ۳۳۶ ہجری میں انتقال کیا

(المنتظم لابن الجوزی جلد ۶ صفحہ۳۵۹ طبع دکن، الانساب للسمعانی جلد۲ صفحہ۲۴۴ طبع بیروت، الوافی بالوفیات للصفدی جلد۲ صفحہ۴۰ طبع مصر)

رفع اشکال : بعض طبائع کی طرف سے یہ سوال وارد کیا جا سکتا ہے کہ محمد بن احمد الکاتب کے لئے ’’ثقۃ الاانہ یروی مناکیر‘‘ استعمال ہوا ہے اس کے جواب میں گزارش ہے کہ یہ کوئی جرح نہیں ہے علمائے فن نے اس کی صراحت کی ہے چنانچہ اصول حدیث کے ماہر علماء ’’یروی مناکیر‘‘ اور ’’منکر الحدیث‘‘ میں فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وان تفرق بین روی المناکیر اویروی المناکیر اوفی حدیثہ نکارۃ نحوذلک وبین قولہم منکر الحدیث ونحوذلک بان العبارات الاولی لا تقدح الراوی قدحایعتد بہ والاخری تجرحہ جرحاً معتدابہ

تم پر ’’روی المنا کیر‘‘ یا ’’یروی المناکیر‘‘ یا ’’فی حدیثہ نکارۃ ‘‘ وغیرہ ایسے الفاظ کے اور ’’منکر الحدیث‘‘ کے درمیان فرق کرنا لازم ہے کیونکہ پہلے الفاظ قابل اعتبار جرح نہیں ہیں برعکس دوسرے یعنی منکر الحدیث کے کہ یہ راوی پر ایسی جرح ہے جس کا اعتبار کیا جاتا ہے۔‘‘

(الرفع والتکمیل صفحہ۱۵۰ طبع حلب، نصب الرایہ للزیلعی جلد۱ صفحہ۱۷۹ طبع قاہرہ، قواعد فی علوم الحدیث صفحہ۶۳ طبع الریاض، ابکار المنن مبارکپوری صفحہ ۱۹۱ طبع دہلی)

مزید تفصیل کے لئے عصر حاضر کے مشہور ماہر فن حدیث محمد عبدالرحمن المرعشیلی کی تازہ تصنیف فتح المنان مقدمہ لسان المیزان صفحہ۲۶۲ تاصفحہ۲۶۴ طبع دار احیاء التراث العربی بیروت ملاحظہ کیجیے

سطور بالا میں بیان کئے گئے دلائل سے ثابت ہوا کہ یروی المناکیر جیسے الفاظ محمد بن احمد الکاتب کے ثقہ اور صدوق ہونے کی منافی نہیں بڑے بڑے جید ائمہ نے اس کو ثقہ کہا ہے اس کے لئے کوئی جرح مفسر ثابت نہیں ہے حالانکہ معمولی فہم کا انسان بھی اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ

جس ثقہ یا صدوق راوی پر معمولی جرح یعنی یہم،لہ مناکیر، لہ اوہام اوریخطی وغیرہ ہو تو اس کی منفرد حدیث حسن درجہ کی ہوتی ہے۔

عطیہ عوفی ؒ پر جرح اور اس کا جواب

اس خطبہ (فدک) کی سند میں راوی عطیہ العوفی ہے جو کہ ضعیف ہے علماء نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے تو یہ خطبہ قابل احتجاج نہیں ہے۔

جواب:۔ جناب عطیہ بن سعد العوفی ؒکوفہ کے جلیل القدر تابعی ہیں ان کو بعض صحابہ کرامؓ سے روایت حدیث کا شرف حاصل ہے ان کا شمار اجلئہ روایان حدیث میں ہوتا ہے حضرت علی المرتضیٰ ؑ کے ظاہری زمانہ خلافت میں یہ پیدا ہوئے ان کے والد بزرگوار حضرت سعد بن جنادہ ؓ بارگاہ حضرت علی ؑ میں حاضر ہوئے عرض کیا اے امیر المومنین ؑ ! اللہ تعالیٰ نے مجھے فرزند عطا فرمایا ہے اس کانام تجویز کیجیے۔ آپ نے فرمایا ’’ہذا عطیۃ اللہ‘‘ یہیں سے ان کا نام عطیہ رکھا گیا۔

انہوں نے حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے خطبۂ فدک کو عبداللہ محض اور دیگر مشاہیر صحابہؓ وتابعینؒ سے روایت کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت علی ؑ کی محبت سے حظ وافر عطا فرمایا تھا یہی وجہ ہے کہ امتداد زمانہ کے زیر اثر کچھ متعصب لوگوں نے ان کی بے جا تضعیف کی ہے حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ جرح جب تعصب و عداوت اور منافرت و غیر کی بنا پر ہوتو ایسی جرح بالاتفاق قابل سماعت نہیں ہے بلکہ یہ جرح نہایت مردود اور مطرود ہے۔

عطیہ عوفی ؒ ۱۱۱ ھ کو شہر کوفہ میں واصل بحق ہوئے۔ ان کی حیات مستعار میں ۸۱ھ ان کے لیے انتہائی صبر آزما سال تھا۔

اسی سال سفاک زمانہ حجاج بن یوسف نے اپنے گورنر کو حکم دیا تھا کہ عطیہ اگر علی بن ابی طالبؑ کو سب و شتم کرے تو فبہا وگرنہ اسے ۴۰۰ کوڑے مارے جائیں اس کے سر اور داڑھی کے بال بھی نوچ لیے جائیں تو جناب عطیہ عوفی ؒ نے بھرے دربار میں جلادوں اور ننگی تلواروں کے ہجوم میں اس فعل قبیح سے صاف انکار کر دیا بالآخر اس کو ان سنگین مراحل سے گزرنا پڑا۔

(ملاحظہ ہو: طبقات ابن سعد ج ۶ صفحہ ۲۱۳ طبع لیدن، ذیل المذیل من تاریخ الصحابہ والتابعین لابن جریر الطبری صفحہ ۹۵ طبع مصر، تہذیب التہذیب ج ۷ صفحہ ۲۲۷ طبع دکن)

قارئین کرام! مذکورہ بالا بیان کیے گئے مندرجات سے یہ امر مترشح ہوتا ہے کہ اگر عطیہ عوفی ؒ خلیفہ راشد حضرت علی ؑ اور ان کی اولاد پاک کی شان اقدس میں خدا نخواستہ نازیبا کلمات استعمال کرتا تو ’’جمہور‘‘ کے نزدیک حریز بن عثمان حمصی (مشہور ناصبی، بخاری کا راوی ۱؎ ہے) اور عمران بن حطان (بخاری کا راوی ہے حضرت علی ؑ کے قاتل ابن ملجم مرادی ملعون کی مدح سرائی کیا کرتا تھا) کی طرح ثقہ، معتبر اور انتہائی قابل اعتماد راویوں میں شمار ہوتا حالانکہ اصول حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ ناصبی اپنی منافقت اور عداوت اہل بیتؑ کی وجہ سے غیر ثقہ اور ناقابل اعتماد ہوتا ہے۔ بلاوجہ صرف محبت علی ؑ کے جرم میں عطیہ العوفی ؒ کو متہم او ر مطعون کرنے کی سعی نا مشکور کی گئی۔

جبکہ امام بخاری کی ’’الادب المفرد‘‘ کے علاوہ سنن اربعہ یعنی ترمذی، ابوداود اور ابن ماجہ جیسے کتب صحاح کے مشاہیر ائمہ حدیث نے عطیہ عوفی ؒ سے روایت حدیث کو باعث شرف سمجھا۔ جو اس کے عادل اور قابل اعتبار ہونے کی ایک روشن دلیل ہے۔

سطور ذیل میں ہم اہل سنت کے مشاہیر ائمہ اور محدثین کی توثیقات پیش کئے دیتے ہیں تمام کا استقصاء تو دشوار ہے لیکن بطور مثال صرف چند ایک کی تصریحات یہ ہیں۔

امام ابن معین نے عطیہ عوفی ؒکی زبردست توثیق کی ہے۔

(ملاحظہ فرمائیے: مجمع الزوائد للہیثمی ج۹ صفحہ ۱۰۹ طبع بیروت، تہذیب التہذیب ج ۷ صفحہ ۲۲۵، تاریخ یحی ابن معین ج ۲ صفحہ ۴۰۶ طبع حلب)۔

جب یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا: کیف حدیث عطیۃ؟ آپ عطیہ عوفی کی حدیث کو کیسے پاتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا ’’ صالح ‘‘۔ ( مسند ابن الجعد صفحہ ۳۰۲ ۔ روایت نمبر ۲۰۴۸ طبع دار الکتب العلمیہ ۔ بیروت)

۱؎ اس سلسلہ میں کتب صحاح ستہ یعنی صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ترمذی، سنن ابو داؤد، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ کے ناصبی راوی اور ان پر سیر حاصل تبصرہ کے لیے ہماری تازہ تصنیف ’’الھدیۃ السنیۃ بجواب تحفہ اثنا عشریہ‘‘ کی پہلی جلد ملاحظہ فرمائیں۔

امام ابن معین علم حدیث اور فن جرح وتعدیل کے امام ہیں یہ مذہب کے لحاظ سے غالی حنفی تھے۔

جیسا کہ علامہ ذہبی نے اس کی تصریح اپنی کتاب ’’الرواۃ الثقات المتکلم فیہم بما لایوجب ردہم‘‘ میں کر دی ہے اتنے بڑے حنفی امام اور محدث کی توثیق و تصدیق کے بعد عطیہ عوفیؒ کے ثقہ اور معتبر ہونے میں کسی بھی شبہ کا احتمال ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔

چوتھی صدی ہجری کے بڑے محدث حافظ ابو حفض عمر بن احمد المعروف بابن شاہین بغدادی نے لکھا ہے :

عطیۃ العوفی لیس بہ بأس، یہ ثقہ ہے اس سے حدیث اخذ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

(تاریخ اسماء الثقات صفحہ ۱۷۲، رقم ۱۰۲۳ طبع الدارا لسلفیہ کویت ) ۔

واضح رہے کہ تمام مستند اصول حدیث کی کتابوں میں یہ بات مرقوم ہے کہ آئمہ حدیث کی اصطلاح میں ’’ لابأس بہ‘‘ راوی کے ثقہ ہونے کا ہی مفہوم ہے۔ (۱)

۱؎جس راوی کے بارے میں ’’لا بأس بہ‘‘ کہا جائے تو وہ ثقہ ہوتا ہے ۔ اس مطلب کو مزید دیکھنے کے لیے ملاحظہ فرمائیں ! تقریب النواوی مع شرحہ نوع ۲۳ صفحہ ۲۳۱ طبع مدینہ منورہ، تذنیب لتقعیب التقریب صفحہ ۴۰ از مولانا امیر علی حنفی ملیح آبادی طبع ناول کشور۔

نہا یت ثقہ اور معتمد مورخ محمد ابن سعد بصری نے عطیہ عوفی ؒ کے حالات میں لکھا ہے:

وکان ثقۃ ان شاء اللہ تعالیٰ ولہ احادیث صالحۃ

عطیہ عوفی ؒ انشااللہ تعالیٰ قابل وثوق ہے اور اس سے مروی احادیث بالکل درست ہیں۔

(طبقات ابن سعد ج ۶ صفحہ ۲۱۳ طبع لیدن ۱۳۲۱ھ)

اصح الکتب صحیح بخاری کے شارح علامہ بدرالدین عینی نے فقہ حنفی کی استدلالی کتاب ’’طحاوی شریف‘‘ کے راویوں کے حالات میں ایک ضخیم کتاب ’’مغانی الاخیارمن رجال معانی الآثار‘‘ کے نام سے تصنیف فرمائی جو تین جلدوں پر مشتمل ہے اس کی تلخیص مولانا رشد اللہ السندی نے ’’کشف الاستار عن رجال معانی الآثار‘‘ کے نام سے ایک جلد میں مرتب کی جسے دارالعلوم دیو بند کے مفتی اعظم مولانا محمد شفیع الدیوبندی نے اپنے مفید مقدمہ وحواشی کے ساتھ اپنے مرکزی ادارہ ’’دار الاشاعت والتدریس دار العلوم دیوبند‘‘ سے ۱۹۳۰ ء کو شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے یہی نسخہ ہمارے پیش نظر ہے۔

چنانچہ اس مذکورہ کتاب میں امام بدرالدین عینی اور مولانا رشداللہ السندی حضرت عطیہ عوفیؒ کے بارے میں رقم طراز ہیں:

عطیۃ بن سعد بن جنادۃ العوفی الجدلی الکوفی ابوالحسن صدوق

’’عطیہ بن سعد عوفی (روایت حدیث کے باب میں) سچا ہے‘‘

(کشف الاستار صفحہ۷۵ طبع دیوبند)

او ر اسی طرح ماضی قریب کے مشہور محقق علامہ استاذ احمد محمد شاکر نے بھی سنن ترمذی کی شرح میں ان کی بھرپور مدافعت کی ہے اور واشگاف الفاظ میں کہا ہے :

’’لوگوں نے عطیہ کے بارے میں کلام کیا ہے حالانکہ وہ (حدیث کے باب میں) سچا ہے میرے نزدیک اس کی حدیث حسن درجہ سے کم نہیں ہے اور بلا شبہ امام ترمذی نے اس کی سب سے زیادہ تحسین کی ہے ۔‘‘

چنانچہ ان کی اصل عبارت یہ ہے:

وعطیۃ ہذا تکلموا فیہ کثیراً وہو صدوق وفی حفظہ شئی و عندی ان حدیثہ لا یقل عن درجۃ حسن وقد حسن لہ الترمذی کثیراً کما فی الحدیث

(التعلیقات علیٰ سنن ترمذی ج ۲ صفحہ ۳۴۲ باب ماجاء فی صلاۃ الضحی طبع قاہرہ)

نیز امام ترمذی نے عطیہ عوفی ؒ سے مروی اس محولہ بالا باب کی حدیث اور حدیث ثقلین کے ذیل میں ان دونوںکو حسن اور بعض دیگر احادیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔

نواب صدیق حسن خان ایک حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

و در سندش عطیہ بن سعد عوفی ست… وابن معین وغیرہ توثیقش نمودہ و ترمذی حدیث او را تحسین کردہ وایں حدیث از ہماں جنس ست کہ آن را حسن گفتہ وابن خزیمہ حدیث اورا در صحیح خود آوردہ ونسائی باسناد صحیح از طارق بن شہاب بجلی آوردہ۔

’’اس حدیث کی سند میں عطیہ بن سعد عوفی ہے ابن معین اور دیگر آئمہ نے اس کی توثیق کی ہے امام ترمذی نے اس کی حدیث کو حسن کہا اور یہ حدیث اسی جنس سے ہے کہ جسے ہم حسن کہا جائے امام ابن خزیمہ اس کی حدیث کو اپنی ’’صحیح‘‘ میں لائے ہیں اور امام نسائی صحیح سند کے ساتھ طارق بن شہاب بجلی کے طریق سے عطیہ عوفی کی حدیث لائے ہیں۔‘‘ (ریاض المرتاض صفحہ۲۱۱ طبع بہوپال، اکلیل الکرامۃ فی تبیان مقاصد الامامۃ ص۲۱۹ مطبع صدیقی ۱۲۹۴ھ)

حافظ ابن حجر عسقلانی نے امالی الاذکار جلد۲ صفحہ۴۱۴ طبع بیروت میں کچھ تفصیل سے عطیہ عوفی کی توثیق نقل کی ہے۔ مزید برآں احناف کے فقیہ شہیر ابو الحسنات مولانا عبد الحی لکھنوی کے مایہ ناز شاگرد مولانا امیر علی حنفی ملیح آبادی متوفی ۱۹۱۹ء مترجم ہدایہ وفتاویٰ عالمگیری نے بھی اپنی کتاب تقعیب التقریب مطبوع برحاشیہ تقریب التہذیب صفحہ ۲۶۵ طبع نول کشور میں عطیہ عوفی کے بارے میں امام ترمذی کی تحسین کو نقل کیا ہے۔

یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ امام ترمذی کا عطیہ سے مروی حدیث کو ’’حسن ‘‘کہنا اس سے مراد سند کا اچھا ہونا ہے خود امام ترمذی نے کتاب ’’العلل‘‘ میں اس بات کی تصریح بھی کر دی ہے :

’’جہاں ہم ’’حدیث حسن‘‘ کہتے ہیں وہاں ہماری مراد سند کا حسن ہونا ہے جو کئی سندوں سے مروی ہو جس میں کوئی راوی متہم بالکذب نہ ہو اور وہ حدیث شاذ بھی نہ ہو، تو وہ ہمارے نزدیک حسن ہے‘‘۔

اب یہ کہنا کہ عطیہ عوفی غیر ثقہ ہے محض تعصب اور تحکم و سینہ زوری ہے ورنہ ان مندرجات کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ امور ثابت اور واضح و آشکار ہو چکے ہیں کہ عطیہ عوفی ؒحدیث کے باب میں ثقہ، صدوق اور نہایت اعلیٰ درجہ کی صفات کا حامل ہے اس سے مروی احادیث اور روایات عند المحدثین صحیح ہیں۔ اس حقیقت کے واضح ہونے کے باوجود پھر بھی کوئی بلا تدبر و تفکر انکار پر مصر رہے تو یہ لا علاج مرض ہے کیونکہ:

؎ گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمۂ آفتاب را چہ گناہ

اکابر علماء اہل سنت جنہوں نے خطبہ فدک کو نقل کیا ہے

ان ہی حقائق کے پیش نظر بہت سے وسیع النظر محققین اور اساطین علم وتحقیق نے کھلے دل سے اس خطبہ فدک کو تسلیم کیا اور اپنی تالیفات میں بلا نکیر اسے نقل کر دیا ہے۔

ذیل میں مزید ان مصنفات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

چنانچہ تیسری صدی ہجری کے معروف ادیب اور مشہور مورخ ومحقق ابوالفضل احمد بن ابی طاہر المعروف ابن طیفور جو بغداد میں ۲۰۴ ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۸۰ ھ میں انتقال فرما گئے آپ اہل سنت کے بلند پایہ محدث ہیں ان کے مزید حالات کے لیے تاریخ بغداد، جلد ۴ صفحہ ۲۱۱، معجم الادباء جلد۱ صفحہ۳۸۵، الاعلام للزرکلی جلد۱ صفحہ۱۳۸، فہرست لابن ندیم صفحہ۱۸۰ وغیرہ کتب رجال کو دیکھا جائے۔

انہوں نے اپنی تاریخی کاوش ’’بلاغات النساء‘‘ میں ان خطبوں کو شامل کرنے کا شرف حاصل کیا اور تین سلسلوں سے وہ ان کی سند لائے ہیں بلاغات النساء مطبوعہ الطبعۃ الاولی دارالاضواء بیروت ۱۹۹۹ء اس کی تحقیق وتخریج کا نہایت قابل ستائش کام ڈاکٹر یوسف البقاعی نے کیا ہے یہی نسخہ ہمارے کتب خانہ کی زینت ہے چنانچہ مورخ موصوف خطبہ فدک کو بعنوان ’’کلام فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے ذیل میں لائے ہے جو صفحہ ۲۰ تا صفحہ۳۰ تک پھیلا ہوا ہے اس خطبہ کی صحت کے لئے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے صاحبزادے جناب زید شہید ؓ کا یہ بیان لکھا ہے:

رایت مشایخ آل ابی طالب یروونہ عن آبائہم ویعلمونہ ابنائہم

’’میں نے خاندان ابوطالب کے بزرگوں کو اپنے آباء و اجداد سے یہ خطبہ روایت کرتے ہوئے دیکھا اور وہ اپنی اولاد کو یہ خطبہ یاد کرواتے تھے‘‘

اور مورخ ابن طیفور نے یہ جملہ بھی جناب زید شہید ؓ کا ہی ارقام کیا ہے

وقد حدثنیہ ابی عن جدی یبلغ بہ فاطمۃ علی ہذہ الحکایۃ

’’اور بے شک مجھے اپنے پدر بزگوار نے میری جدہ ماجدہ کے حوالے سے یہ خطبہ بیان فرمایا ہے۔‘‘

۲۔ برادران اہلسنت کے ایک اور قابل قدر دانشمند امام ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری بغدادی متوفی ۳۲۳ھ کا نام ملتا ہے۔ جنہوں نے چوتھی صدی ہجری میں خاصے تحقیقی کارنامے سر انجام دیے ہیں اور جن کی ایک تصنیف ’’السقیفۃ وفدک‘‘ ہے بحمد اللہ ہمارے کتب خانہ میں اس کا ایک مطبوع نسخہ موجود ہے یہ وہ علمی شخصیت ہیں کہ جن کے بارے میں ممتاز عالم عبدالحمید ابن ابی الحدید بغدادی نے اپنے تاثرات یوں بکھیرے ہیں:

و ابوبکر الجوہری ہذا عالمٌ محدّثٌ، کثیر الادب، ثقۃٌ، ورعٌ اثنی علیہ المحدثون وروواعنہ مصنفاتہ

’’اور ابوبکر جوہری۔ یہ مانے ہوئے عالم، محدث، ادب آفریں۔ نہایت معتبر اور پرہیز گار بزرگ ہیں۔ سارے محدثین نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے اور ان کے متاع فکر کی روایت کی ہے۔‘‘ (شرح ابن ابی الحدید جلد۱۶صفحہ۲۱۰ طبع مصر)

ان کے علاوہ امام ابوبکر جوہری کی توثیق بہت سی کتب رجال میں موجود ہے لیکن یہ اوراق مزید تذکرہ کے متحمل نہیں ہیں۔

امام جوہری نے اپنی مذکورہ بالا کتاب کے صفحہ ۹۷تا صفحہ ۱۰۵ طبع مکتبہ نینوی الحدیثہ میں خطبہ فدک کو چار طرق و اسانیدسے بیان کیا ہے ۔

۳۔اور علامہ ابن ابی الحدید بغدادی نے اپنی مایہ ناز کتاب شرح ابن ابی الحدید جلد۱۶ صفحہ۲۱۰ تا صفحہ۲۳۴طبع دار احیاء الکتب العربیہ مصر ۱۹۶۲ء میں حضرت علی المرتضیٰ ؑ کے خطبہ میں مروی ’’وکانت فی ایدینا فدک‘‘ کے تحت بڑی شرح و بسط کے ساتھ درج کیا ہے۔ابن ابی الحدید کی یہ شرح بہت سے اہم اور دقیق مطالب پر مشتمل ہے جس سے بعد میں آنے والے اہل سنت کے علماء نے اس سے استفادہ کیا ہے۔

۴۔شہرہ آفاق مورخ احمد بن ابی یعقوب بن واضح الکاتب عباسی، یہ تیسری صدی کا مورخ ہے اور بقول علامہ شبلی نعمانی کہ ’’اس کی کتاب خود شہادت دیتی ہے کہ وہ بڑے پایہ کا مصنف ہے چونکہ اس کو دولت عباسیہ کے دربار سے تعلق تھا اس لئے تاریخ کا اچھا سرمایہ بہم پہنچا سکا ہے اس کی کتاب جو ’’تاریخ یعقوبی ‘‘کے نام سے مشہور ہے ‘‘ اس کتاب کے صفحہ ۸۶ جلد ۲ طبع دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۶۰ ء میں حضرت بتول عذرا ء ؑ کے اس احتجاجی خطبے کا حوالہ دیا گیا ہے ۔

۵۔تیسری اور چوتھی صدی کے معروف مؤرخ ابوالحسن علی بن حسین المسعودی الشافعی المتوفی ۳۴۶ ھ جو بقول شبلی نعمانی کہ’’فن تاریخ کا امام ہے اسلام میں آج تک اس کے برابر کوئی وسیع النظر مؤرخ پیدا نہیں ہوا وہ دنیا کی اور قوموں کی تواریخ کا بھی بہت بڑا ماہر تھا‘‘ (الفاروق صفحہ ۷)۔

انہوں نے اپنی تصنیف ’’مروج الذہب ‘‘ جلد اول صفحہ۴۱۶ المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر ۱۹۲۷ء میں بعد از وفات پیغمبر ؐ رونما ہونے والے واقعات اور اس خطبے کی جانب یوں اشارہ کیا ہے:

واخبار من قعد من البیعۃ ومن بایع وما قالت بنو ہاشم وما کان من قصۃ فدک وماقالہ اصحاب النص والاخبارفی الامامت وما قالوہ فی امامۃ المفضول و غیرہ وما کان من فاطمۃ وکلامہا متمتلۃ حین عدلت الی قبر ابیہا علیہ السلام ۔۔۔۔ مماترکنا ذکرہ من الاخبار فی ہذا الکتاب اذکنا قدأتینا علی جمیع ذلک فی کتابنا اخبار الزمان والکتاب الاوسط فاغنی ذلک عن ذکرہ ہاہنا،

اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے خاندان بنو ہاشم کا ابوبکر کی بیعت اور واقعہ فدک کے متعلق مفسرین و مؤخرین کے بیانات امامت اور مفضول کی امامت کے متعلق ان کی آراء اور سیدہ فاطمۃ الزہراء ؑ کا اپنے بابا رسول خداؐ کی قبر مبارک پر فریاد کرنا اور جناب فاطمہ زہر اور ان کے خطبے کا تذکرہ اس کتاب میں نہیں کیا بلکہ اپنی دوسری تصانیف ’’اخبار الزمان‘‘ اور ’’کتاب الاوسط‘‘ میں ہم نے اس کا تفصیلی ذکر کر دیا ہے ۔

ہمیں مؤثق ذرائع سے مسموع ہوا ہے کہ علامہ مسعودی شافعی کی محولہ بالا دونوں کتابیں بیروت سے چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہیں لیکن تلاش بسیار کے باوجود ہمیں دستیاب نہ ہو سکیں ورنہ ہم اپنے قارئین کے لیے انہی کتابوں سے اصل عبارت کو نقل کر دیتے۔

۶۔ دنیا ئے اسلام کے سیرت نگار ابوالفرج علی بن حسین اصبہانی اموی متوفی ۳۵۶ھ نے اپنی تالیف ’’مقاتل الطالبیین‘‘ جلد اول صفحہ۶۲تا صفحہ۶۳طبع داراحیاء العلوم بیروت ۱۹۶۲ ء میں جناب عون ابن عبداللہ ابن جعفر کے حالات میں اس خطبے کی نشاندہی اس طرح کی ہے:

اُمّہ زینب العقیلۃ بنت علی ابن ابی طالب وامّہا فاطمۃ بنت رسوال اللہﷺ والعقیلۃ ہی الّتی رویٰ ابن عبّاس عنہا کلام فاطمۃ ص فی فدک فقال: حدّثتنی عقیلتنا زینب بنت علیؓ۔۔۔۔الخ۔

’’جناب عون کی والدہ۔ علی ؑ ابن ابی طالب اور رسول کریم کی بیٹی جناب فاطمہ زہراء ؑ کی صاحبزادی حضرت زینب ؑعقیلہ تھیں اور فہم وفراست کی نشانی یہ وہی زینبؑ ہیں جن کے بارے میں جناب عبداللہ ابن عباس نے کہا تھا کہ: ’’حضرت فاطمہ ؑ کا فدک والا خطبہ مجھے عقلیہ بنی ہاشم جناب زینب بنت علی سے دستیاب ہوا ‘‘

۷۔ بلند پایہ محدّث اور قابل تعریف مورخ شمس الدین ابوالمظفر یوسف بن فرأغلی بن عبداللہ بغدادی المعروف سبط ابن جوزی حنفی نزیل دمشق (متوفی ۶۵۴ھ)

اپنی معرکۃ الاراء کتاب ’’تذکرۃ الخواص من الامۃ‘‘ صفحہ ۲۸۵طبع دارالاضواء بیروت ۱۴۰۱ ھ میں جناب سیدہ ؑکی فصاحت و بلاغت پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے آپ کے خطبہ فدک کے ایک خاص حصے کو تحریر میں لائے ہیں

۸۔ عربی ادب کے نامور سکالر امام مجدالدین ابو سعادات مبارک المعروف ابن اثیر الجزری متوفی ۶۰۶ھ نے اپنی لغت کی مشہور ومتداو ل کتاب ’’النہایہ فی غریب الحدیث والاثر‘‘ جلد ۳ صفحہ ۳۵۷ المطبعۃ الخیریہ بمصر قاہرہ ۱۳۰۶ھ میں لفظ ’’لمۃ‘‘ کی وضاحت میں

لخت جگر پیغمبر کے خطبے کی جانب با یں الفاظ اشارہ فرمایا ہے:

’’لمہ‘‘ فی حدیث فاطمۃ رضی اللہ عنہا انہا خرجت فی لمۃ من نسائہا تتوطا ذیلہا الی ابی بکر فعاتبتہ ای فی جماعۃ من نسائہا،

۹۔حافظ ابن اثیر جزری نے منال الطالب شرح غریب الطوال صفحہ ۵۰۱ تا صفحہ۵۳۴ مطبوعہ مکہ مکرمہ میں جناب زینبؑ بنت علی ؑ کے حوالے سے خطبہ فدک کو نقل کیا ہے نیز ابن اثیر نے ابن قتیبہ کا یہ قول لکھا ہے قد کنت کتبتہ وانا أری ان لہ اصلاً خطبہ نقل کرنے کے بعد اس امر کی صراحت یوں کی ہے ہذا طرف من حدیث اطول منہ یروی من طریق اہل البیت و حکمہ حکم الحدیث الذی قبلہ فی الرد والقبول فان لفظہا ومعناہما معترفان من بحر واحد

۱۰۔لغت عرب کے امام جمال الدین محمد ابن مکرم افریقی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’لسان العرب ‘‘ جلد ۱۲ صفحہ ۵۲۲طبع دار صادر بیرو ت۱۹۹۷ء میں لفظ ’’لم‘‘ کی تشریح کے ذیل میں اس خطبے کا اقتباس وہی نقل کیا ہے جو نہایہ کے حوالے سے اوپر گزر چکا ہے۔

۱۱۔دور حاضر کے محقق، مورخ اور نقاد ڈاکٹر عبد الفتاح عبدالمقصود المصری نے اپنی گراں مایہ کتاب ’’سیدتنا البتول فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا‘‘ جلد ۲ صفحہ ۳۷۳ تا صفحہ۳۷۸ طبع مکتبۃ المنھل الکویتیہ بیروت ۱۹۸۲ء میں اس خطبے کو اپنی کتاب کی زینت بنایا۔

۱۲۔دمشق کے ایک سوانح نگار مصنف علامہ عمر رضاکحالہ نے اپنی کتاب ’’اعلام النساء فی عالمی العرب و الاسلام‘‘ جلد ۴ صفحہ ۱۱۶تا۱۲۳ مطبوعہ مطبعہ ہاشمیہ دمشق۱۹۵۹ء میں پورا خطبہ درج کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔

۱۳۔ماضی قریب کے ایک صائب الرائے اور صحیح الفکر دانشور محقق استاد محمد بن حسن الحجوی الفاسی متوفی ۱۳۷۶ھ اپنی تالیف ’’ الفکر السامی فی تاریخ الفقہ الاسلامی‘‘ جلد اول صفحہ ۲۰۳ مطبوعہ الطبعۃ الاولیٰ مکتبہ علمیہ مدینہ منورہ ۱۳۹۶ھ میں زیر عنوان ’’سیدتنا فاطمۃ بنت مولانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ میں اس خطبہ کی طرف یوں توجہ مبذول فرماتے ہیں:

۔۔۔ لکن ترجمۃ فضلہا وعقلہا وادبہا وشعرہا و خطبہا وجودھا وفقہہا خصت بالتالیف وانظر خطبہا فی کتاب بلاغات النساء۔۔۔۔الخ

حقیقت حال یہ ہے کہ مؤلف موصوف فقہی مسلک کے لحاظ سے مالکی ہیں اور عقیدے کے اعتبار سے پکے سلفی اہلسنت ہیں جیسا کہ اسی کتاب جلد ۲ صفحہ ۲۰۰ کی ’’القسم الرابع‘‘ میں خود فرماتے ہیں:

اما عقیدتی فسنیۃ سلفیۃ اعتقد عن دلیل قرآنی برہانی ماکان علیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ الراشدوں۔۔۔مالکی المذہب ماقام دلیل۔۔۔

اس کتاب کے فاضل محشی استاد عبدا لعزیز بن عبدا لفتاح القاری نے بھی اس کتاب کے ابتدائی صفحہ پر مؤلف کا یہی مذہب ومسلک تحریر کیا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ زیر نظر کتاب اپنے موضوع پر مرجع اور ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے مؤلف نے کمال درجہ مطالعہ وتحقیق کے بعد بی بی عالیہ سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدک کی توثیق وتصویب فرمائی ہے۔

۱۴۔زمانہ حاضر کے ایک مشہور سکالر و دانشور استاد توفیق ابوعلم جن کا شمار اہلسنت کے شہیراور نامور محققین علماء میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی تصنیف ’’اہل البیتؓ‘‘ صفحہ۱۵۷ طبع ا لطبعۃ الاولیٰ مصر ۱۹۷۰ء اور دوسری کتاب ’’فاطمۃ الزہراء ؓ ‘‘ صفحہ ۲۱۴ طبع دار المعارف بمصر قاہرہ،میں عنوان ’’بلاغتہا وفصاحتہا رضی اللہ عنہا‘‘ کے تحت جناب خاتون جنت ؑ کے پورے خطبے کو تحریر کیا ہے۔

مشاہیر علماء شیعہ جنہوں نے خطبہ فدک کو اپنی تالیفات میں درج کیا ہے

مندرجہ بالا تمام تصریحات برادران اسلامی کے معتمد علیہ اور جید علمائے کرام کی تھیں جنہوں نے اپنی تالیفات میں جناب مخدرہ کائنات سلام اللہ علیہا کے اس خطبے کو ارقام فرمایا ہے اور اب شیعہ مکتب فکر سے وابستہ جن علماء اعلام نے جناب فاطمۃ الزہراء ؑ کے ان ارشادات کو اپنی تصنیفات میں درج کرنے کا شرف حاصل کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک کے اسمائے گرامی یہ ہیں

۱۵۔اعاظم علمائے شیعہ میں سے چوتھی صدی ہجری کے بطل جلیل عالم محمد بن جریر ابن رستم طبری اپنی معرکہ آراء کتاب ’’دلائل الامامۃ الواضحۃ‘‘ صفحہ ۳۰ تا صفحہ ۳۹ طبع نجف ۱۹۶۳ئمیں زیر عنوان ’’حدیث فدک‘‘ جگر گوشہ امام الانبیاء ؐکے خطاب کو پانچ طرق واسانید کے ساتھ تحریر میں لائے ہیں ۔

۱۶۔رئیس المحدثین ابو جعفر محمد ابن علی یعنی شیخ صدوق علیہ الرحمۃ متوفی ۳۸۱ھ نے اپنی ایک بیش بہا تصنیف ’’علل الشرائع‘‘ جلد ۱صفحہ۲۴۸طبع نجف میں موضوع کی مناسبت سے صدیقہ طاہرہؑ کے اس خطبے سے استنباط فرمایا ہے اور اپنی دوسری کتاب ’’معانی الاخبار‘‘ صفحہ ۳۵۴طبع موسسۃ الاعلمی بیروت میں جناب سیدہ ؑ کے ان ارشادات کا پورا متن درج کیا جو آپ نے مدینے کی خواتین کے سامنے فرمائے تھے چونکہ آپ پوری کائنات کی خواتین کے لئے ایسا نمونہ عمل اور اسوہ کامل ہیں کہ مہتاب بھی آپ کے نقوش کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

۱۷۔چھٹی صدی ہجری کے بلند دانشمند شیخ احمد بن علی بن ابی طالب الطبرسی نے کتاب ’’احتجاج طبرسی‘‘ میں اس خطبہ کو حسب ذیل سند کے ساتھ نقل کیا ہے:

روی عبداللّہ بن الحسن باسنادہ عن ابائہ علیہم السلام انہ لما اجتمع ابوبکر و عمر علی منع فاطمۃ فدک وبلغہا ذلک لاثت خمارہا علی راسہا۔۔۔۔الخ

(ملاحظہ فرمائیں :احتجاج طبرسی صفحہ ۶۱تاصفحہ۶۵ مطبوعہ المطبعۃ المرتضویہ نجف اشرف ۱۹۳۲ء)

۱۸۔ابو جعفر رشید الدین محمد بن علی بن شہر آشوب مازندرانی متوفی ۵۸۸ھ نے ’’مناقب آل ابی طالب‘‘ جلد۲ صفحہ ۲۰۶تا صفحہ ۲۰۸مطبوعہ قم المقدسہ میں جناب بتول ؑ عذراء کے ان ارشادات کو لکھا ہے ۔

۱۹۔امام السالکین جناب سید ابن طاؤس متوفی ؒ ۶۶۴ھ نے بھی اپنی تالیف ’’الطرائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف‘‘ صفحہ ۲۶۳تا صفحہ ۲۶۴ طبع موسسۃ البلاغ بیروت ۱۴۱۹ھ میں بعنوان ’’خطبہ فاطمۃ الزہراء ؑ فی مجلس ابی بکر‘‘ کے ذیل میں اس خطبے کے اہم حصوں کو پوری سند کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔

۲۰۔ساتویں صدی ہجری کے بہت بڑے عالم اور شارح نہج البلاغہ شیخ کمال الدین میثم بن علی ابن میثم بحرانی متوفی ۶۷۹ھ نے جناب عثمان ابن حنیف کے نام مولائے متقیان حضرت علی مرتضیٰ ؑ کے مکتوب گرامی کی تشریح میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’یہ نہایت طولانی خطبہ ہے۔ بعد ازاں انہوں نے اس کے بعض جملے بھی نقل کیے ہیں‘‘۔

(ملاحظہ ہو:شرح نہج البلاغہ لابن میثم بحرانی جلد ۵صفحہ ۱۰۵ طبع بیروت)

۲۱۔ساتویں صدی کے ایک عظیم دانشور علی ابن عیسیٰ اربلی متوفی ۶۹۳ھ اپنی کتاب ’’کشف الغمہ‘‘ جلد ۲ صفحہ ۱۰۸ تا صفحہ ۱۱۶ طبع نجف ۱۳۸۵ھ میں اس خطبے کو ابوبکر احمد بن عبدالعزیز بغدادی کی کتاب ’’السقیفۃ وفدک‘‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔

۲۲۔علامہ محمد باقر مجلسی متوفی ۱۱۱۱ھ نے اس سر چشمہ نور اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تنہایادگار کے انتہائی خوش نما تنوع کے بکھرے ہوئے پھولوںکو جمع کیا اور متعلقہ حوالوں کو بڑی وضاحت سے ’’بحار الانوار‘‘ جلد۶ صفحہ ۱۰۷ طبع بیروت میں رقم فرمایا ہے!

۲۳۔علامہ سید محسن الامین الحسینی العاملی نے ’’اعیان الشیعہ‘‘ جلد ۱ صفحہ ۴۵۹ تا صفحہ ۴۶۳ مطبوعہ دار التعارف للمطبوعات بیروت میں دختر پیغمبرؐکے ان احتجاجی فرمودات کو شامل کتاب کرنے کا شرف پایا ہے۔مذکورہ بالا سطور میں چند مصنفات کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے وگرنہ بی بی پاک سلام اللہ علیہا کے ان ارشادات کو اہل فکر ونظر کی ایک بڑی تعداد نے نقل کیا ہے جنہیں خوف طوالت کی وجہ سے نظر انداز کیا جار ہا ہے فذلک بحر لاساحل لہ ۔

؎گر نیاید بگوش حقیقت کس بر رسولاں بلاغ باشد و بس

یہ وہ تاریخی حقائق تھے جنہیں اجمالی طور پر ہدیہ قارئین کیا گیا ہے۔ اس کے بعد حضرت فاطمۃ الزہراء ؑ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس تاریخی خطبہ کی وثاقت میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔ واللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل۔

قرآنی آیات سے استشہاد

الغرض عالمہ غیر معلمہ بی بیؑ نے اپنے بصیرت افروز خطبے میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے قرآن مجید کی متعدد آیات سے استدلال کرتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کی۔ مزید برآں ایسی بکثرت روایات اور مستند علماء کی توضیحات بھی وارد ہوئی ہیں کہ جن سے ثابت ہے کہ حضرت صدیقہ کبریٰ سلام اللہ علیہا نے اپنے مؤقف کی تائید میں قرآنی آیات کو استحضار و استشہاد کے طور پر پیش کیا۔

چنانچہ یوصیکم اللہ اولاد کم کی تفسیر میں امام فخرالدین رازی یوں تحریر کرتے ہیں: احتجت فاطمۃؓ بعموم قولہ تعالیٰ یوصیکم اللہ فی اولاد کم للذکر مثل حظ الانثیین۔

حضرت فاطمہ زہراء ؓنے حضرت ابوبکر کے سامنے اس عمومی آیت کو بطور احتجاج پیش کیا۔

امام المناطقہ علامہ عبد العزیز بخاری اصول بزدوی کی مشہور شرح کشف الاسرار جلد۱ صفحہ۳۰۸ طبع الصدف پبلشرز کراچی میں ’’ باب العام اذا لحقہ الخصوص‘‘ کے تحت رقم طراز ہیں:

اجماع السلف علی الاحتجاج بالعموم الی بالعام الذی خص منہ فان فاطمۃ احتجت علی ابی بکر فی میراثہا من ابیہا بعموم قولہ تعالیٰ یوصیکم اللہ فی اولادکم الآیۃ مع ان الکافرو القاتل وغیرہما خصومنہ۔

اسلاف کا اجماع ہے کہ جس عام کی تخصیص کی گئی ہو اس سے احتجاج کرنا درست ہے کیونکہ حضرت فاطمہؓ نے اپنے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میراث کے بارے میں حضرت ابوبکرؓ کے خلاف اس آیت کے عموم کے ساتھ دلیل پیش کی تھی کہ یوصیکم اللہ فی اولاد کم… الخ باوجود اس کے کہ آیت کا عموم کافر اور اپنے باپ کی قاتل اولاد سے تخصیل خوردہ ہے۔

اور بعینہا اسی طرح قاضی بیضاوی نے اپنی تصنیف ’’مرصاد الافہام الی مبادی الاحکام‘‘ جو مختصر اصول ابن حاجب کی نہایت عمدہ شرح ہے، اس کے صفحہ ۹۸،۱۰۴ طبع قدیم بولاق مصر میں عموم جمع استدلال ہو سکتا ہے؟ کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ویدل علیہ وجوہ الاول تمسک الصحابۃ فان فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا تمسک بعموم قولۃ تعالی یوصیکم اللہ فی اولادکم… الخ

یہ چند وجوہات سے ثابت ہے پہلی یہ کہ صحابہ کرامؓ نے عموم حکم سے تمسک کیا ہے چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عموم آیت یوصیکم اللہ فی اولادکم کے ساتھ تمسک کرکے استدلال پیش کیا۔ (کذا فی مختصر الاصول بن حاجب نحوی صفحہ ۷۵ المطبعۃ السعادۃ بمصر سن اشاعت ۱۳۲۶ھ)۔

اسی طرح شاہ ولی اللہ محدث الدہلوی رقم طراز ہیں:

پس ازاں صعب ترین اشکالات آن بود کہ حضرت فاطمہؓ و عباسؓ بظاہر عموم آیت یوصیکم اللہ متمسک شدہ میراث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طلب کردند تمام مشکلات سے زیادہ مشکل حضرت ابوبکرؓ کے لیے یہ ہوئی کہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ نے آیت مبارکہ یوصیکم اللہ فی اولادکم… الخ کے ظاہری عموم سے دلیل پکڑتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کا مطالبہ کیا۔ (ازالۃ الخفاعن خلافۃ الخلفاء مقصد۲ صفحہ ۲۹،۳۰ مطبوعہ صدیقی بریلی ۱۲۸۶ ھ)

مزید برآں اس سلسلے میں طبقات ابن سعد جلد دوم صفحہ ۸۶ طبع لیدن ’’باب ذکر میراث رسول اللہ صلعم وما ترک‘‘ کے ذیل میں حضرت امام جعفر الصادق ؑ سے مروی ایک روایت بایں الفاظ موجود ہے:

جاء ت فاطمۃ ابی بکر تطلب میراثہا وجاء العباس بن عبد المطلب یطلب میراثہ وجاء معہما علی فقال ابوبکر قال رسول اللہ لا نورث ما ترکناہ صدقۃ وما کان النبی یعول فعلی فقال علی وورث سلیمان داؤد قال زکریا یرثنی وترث من ال یعقوب قال ابوبکر ہو ہکذا وانت واللہ تعلم مثلما اعلم فقال ہذا کتاب اللہ ینطق فسکتوا وانصرفوا۔

(کذا فی کنزل العمال ج۳ صفحہ ۱۳۴ طبع دکن، جمع الجوامع للسیوطی ج۱۵ صفحہ ۳۷۸ طبع بیروت)

حضرت فاطمہ زہراء ؑ حق میراث طلب کرنے کے لیے ابوبکرؓ کے پاس آئیں اور جناب عباسؓ بن عبد المطلب بھی میراث مانگنے کے لیے آئے اور ان دونوں کے ساتھ سیدنا علی المرتضیٰ ان کی ترجمانی کے لیے تشریف لائے، سو ابوبکرؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہم انبیاء کی میراث نہیں ہوتی جو کچھ چھوڑ جائیں صدقہ ہوتا ہے اور نبی کریمؐ جس کی کفالت کرتے تھے وہ میں کردوں گا۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ نے اس میراث انبیاء کے جواب میں یہ آیات پیش کیں کہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں: کہ حضرت زکریاؑنے دعا کی کہ مجھے بیٹا عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ وہ ایسا ہی ہے اور آپ قسم بخدا جیسا ہم جانتے ہیں ویسا آپ جانتے ہیں۔ اس پر حضرت علی مرتضیٰ ؓ نے کہا کہ اللہ کی کتاب بول کر میراث انبیاء کو بیان کر رہی ہے اس پر مکالمہ ختم ہو گیا اور وہ چلے گئے۔

برصغیر کے مشہور سیرت نگار عالم مولانا حافظ عبد الرحمن امرتسری اپنی مشہور تصنیف ’’ الصدیق‘‘ میں قدرے وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں:

جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو ابوبکر صدیق ؓکے شروع میں خلافت میں بی بی فاطمہؓ بنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق کے پاس آئیں اور اپنے باپ کی وراثت کی دعویدار ہوئیں جس میں فدک اور دیگر اموال شامل تھے۔ ان کا دعویٰ قرآن مجید کی اس آیت پر مبنی تھا یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ (۴ نساء: ۱۱) یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد (کے حصوں) کے بارے میں تم سے کہ رہا ہے کہ لڑکے کا دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔ ابوبکر صدیقؓ نے یہ جواب دیا کہ پیغمبروں کے مال میں وراثت نہیں ہوتی۔ اس پر بی بی فاطمہ ؓ ناراض ہو کر چلی گئیں اور مرتے دم تک ابوبکر صدیقؓ سے نہ بولیں۔ یہ قصہ کتب حدیث اور تاریخ میں بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

(ملاحظہ ہو کتاب الصدیق یعنی حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے حالات۔ صفحہ ۱۰۴۔ ۱۰۵ ضمیمہ باب پنجم قصہ فدک و جمع قرآن۔ مطبع روز بازار امرتسر طبع اول ۱۸۹۷ ء)

تایخ شاہد ہے کہ حضرت سیدہ خاتون جنت ؑ کے جواب میں مخالف نے کوئی آیت پیش نہیں کی تو اس تناظر میں دختر رسول کا موقف انتہائی مضبوط ثابت ہوتا ہے۔

اس موضوع پر مستقل کتب رقم کی جا چکی ہیں جن کی طرف مراجعت باعث استفادہ ہے۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ ان احتجاجات کا اثر حکمرانوں پر بھی ہوا یا نہیں؟؟ اسلامی تاریخ اس کا جواب نفی میں دیتی ہے حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ حاکم وقت ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر ہی قبضے سے دستبردار ہو جاتا مگر افسوس کہ ارباب اقتدار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی بلکہ انصاف دینے کے بجائے درباری فیصلے نے مخدرۂ کائنات حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو گونا گوں مصفائب و آلام کی سنگلاخ وادی میں ڈال دیا۔ ہر آئے دن ایک نئی مصیبت سامنے آتی تھی۔ انتہائی حیرت ہے کہ فدک کے مقدمے میں حکمران خود ہی فریق بھی ہیں اور خود ہی فیصلے بھی کرتے ہیں کیا دنیا کی کوئی عدالت ایسے انصاف کی اجازت دیتی ہے؟ کلیجہ کانپ جاتا ہے ایسے فیصلے پر۔ اور یہی وجہ ہے کہ پیغمبر گرامیؐ قدر کی رحلت کے بہت قلیل عرصہ بعد سیدہ خاتونؑ جنت ان حکمرانوں سے اپنا حق لیے بغیر دار فانی سے دار البقا کی طرف رخصت ہو گئیں لیکن آج بھی یہ قرض حکمرانوں کی گردنوں پر ہے جو تاقیامت رہے گا۔

حضرت علی علیہ السلام نے فدک کیوں نہ واپس لیا؟

جواب: آپ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مندرجہ ذیل احادیث پر عمل کرتے ہوئے فدک واپس نہ لیا چنانچہ حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

کیف انتم والائمۃ من بعدی یستأثرون بھذا الفیٔ قلت اما والذی بعثک بالحق اصنع سیفی علی عاتقی ثم اضرب بہ حتی القاک اوالحقک قال اولا ادُلک علی خیر من ذلک تصبر حتی تلقانی

تمہارا کیا حال ہو گا کہ میرے بعد ائمہ مال فئی کو ذاتی مال سمجھیں گے میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھ لوں گا اور اس سے ماروں گا حتی کہ آپ سے آملوں تو آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں اس سے بہتر بات نہ بتادوں؟ صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آملو۔

۱۔ سنن ابوداؤد کتاب السنۃ باب قتل الخوارج جلد۲ صفحہ ۲۹۹ حدیث ۴۷۵۹ طبع دہلی ۱۲۷۱ھ

۲۔ مسند احمد جلد۵ صفحہ ۱۷۹،۱۸۰، المطبعۃ المیمنیہ مصر ۱۳۱۳ھ۔

۳۔ مشکوٰۃ المصابیح کتاب الامارۃ والقضاء الفصل الثانی حدیث ۳۷۱۰، طبع مجتبائی دہلی

یہ حدیث ’’حسن‘‘ ہے ملاحظہ ہو:

سنن ابوداؤد ترجمہ و فوائد ابوعمار عمر فاروق سعیدی جلد۴ صفحہ۶۱۱،۶۱۲ طبع دارالسلام لاہور ۱۴۲۸ھ، مشکوٰۃ مترجم اردو کتاب الامارۃ والقضاء الفصل الثانی ناشر مکتبہ اسلامیہ لاہور کے فاضل محشی نے بھی اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔

اعتراض: اس حدیث کی سند ’’خالد بن وھبان‘‘ راوی کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔

الجواب: ابن حجر عسقلانی کا خالد بن وھبان کے اس بارے میں یہ کہنا کہ قال ابو حاتم مجھولٌ ’’ابو حاتم نے کہا کہ خالد مجہول ہے‘‘

چند وجوہ سے مخدوش اور ناقابل اعتبار ہے ۔ پہلی وجہ: یہ کہ اس قول کی سند ثابت نہیں ہے۔ نیز ابو حاتم نے بہت سے معروف راویوں کو مجہول کہدیا ہے۔ مثال کے طور پر حکم ابن عبد اللہ بصری کو انہوں نے مجہول کہا جب کہ اس سے چار ثقہ راویوں نے روایت لی ہے اور بعض نے خود اس کی توثیق کی ہے۔ لہٰذا ابو حاتم کے مجہول کہنے سے راوی کی روایت قابل قبول ہے اور ان کے ہاں مجہول سے مراد مجہول العین نہیں بلکہ مجہول الوصف ہوتا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے الرفع و التکمیل لابی الحسنات محمد عبد الحئی لکھنوی صفحہ ۱۰۷ ۔ مکتب المطبوعات الاسلامیہ حلب)

دوسری وجہ: یہ کہ دو محدثین حافظ حاکم نیشا پوری متوی ۴۰۵ ھ اور محدث محمد بن حبان متوفی۳۵۴ھ نے خالد بن وھبان کی توثیق کی ہے چنانچہ امام حکم نیشا پوری نے اس کے بارے میں لکھا ہے:

خالدُ بْنُ وُھْبانَ لَمْ یُجْرَحْ فی رِوَایَاتِہ وَھُوَ تابِعیٌّ مَعْرُوْفٌ اِلاَّ اَنَّ الشَّیخَین لَم یُخَرِّ جَاھُ

خالد بن وھبان معروف تابعی ہیں ان کی روایات پر جرح نہیں کی گئی لیکن بخاری ومسلم نے ان سے روایت نہیں لی۔

(مستدرک علی الصیححین جلد ۱ صفحہ۱۱۷ کتاب العلم طبع حیدر آباد دکن)

علامہ ذہبی نے اس کے ذیل میں لکھا ہے:

خالد لم یضعّف ’’خالد کو ضعیف نہیں کہا گیا‘‘

(تلخیص المستدرک جلد۱ ص۱۱۷)

علاوہ ازیں حافظ ابن حبان نے اسے اپنی کتاب ’’الثقات‘‘ میں ذکر کرکے کہا ہے۔

خالد بن وھبان، ابن خالۃ ابی ذر الغفاری یروی عن ابی ذرٍ، روی عنہ الناس

خالد بن وھبان حضرت ابوذر غفاریؓ کا خالہ زاد تھا یہ حضرت ابوذرؓ سے روایت کرتا ہے اس سے لوگوں نے روایت کی ہے۔

۱۔ کتاب ثقات ابن حبان تیمی جلد۴ صفحہ ۲۰۷ طبع حیدر آباد دکن۔

۲۔ تاریخ الکبیر للبخاری جلد۲، القسم الاول صفحہ۱۷۸ ترجمہ نمبر۶۰۶ طبع حیدر آباد دکن ۱۹۶۳ء

بعض محدثین کے ہاں مجہول سے اگر راوی روایت کریں تو اس کی جہالت رفع ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں:

وعند بعض المحدثین ترتفع جھالۃ الحال ایضاً بروایۃ الاثنین ولولم یوثق بشرط عدم تضعیف احد ایاہ ففی التعلیق الحسن قال السخاوی فی فتح المغیث قال الدارقطنی من روی عنہ ثقتان فقد ارتفعت جھالتہ وثبتت عدالتہ۔

اور بعض محدثین کے نزدیک روای کی جہالت حال بھی اس سے دو راویوں کے روایت کرنے سے رفع ہو جاتی ہے اگرچہ اس کی توثیق نہ ہو بشرطیکہ اسے کسی نے ضعیف نہ کہا ہو، ’’التعلیق الحسن‘‘ میں ہے کہ علامہ سخاوی نے فتح المغیث میں کہا ہے کہ دارقطنی نے کہا جس سے دو راوی روایت کریں تو اس سے جہالت ختم ہو جاتی ہے اور اس کی عدالت ثابت ہو جاتی ہے۔

(اعلاء السنن جلد۴ صفحہ ۲۴۰ طبع کراچی)

جب دو شخصوں کی روایت کے بعد کوئی راوی مجہول نہیں رہ سکتا تو خالد بن وھبان سے بہت سے اشخاص روایت کرتے ہیں تو یہ مجہول کہاں ہوا۔ ظفر احمد عثمانی کے ہاں خیر القرون کے مجہول راوی کی روایت قابل قبول ہے جیسا کہ اعلاء السنن جلد۷ صفحہ۲۳۳ باب استحباب سجود الشکر میں لکھتے ہیں:

والمجھول من القرون الثلاثۃ مقبول عندنا

قرون ثلاثہ کے مجہول ہمارے نزدیک مقبول ہیں

یہی بات انہوں نے اپنی اسی کتاب جلد اول صفحہ ۳۰۹، ۳۱۸ جلد سوم صفحہ۱۶۱،۱۶۵ جلد ہفتم ص۱۷۴ جلد ہشتم صفحہ ۳۵،۸۷،۲۴۵،۲۷۰، قواعد علوم الحدیث صفحہ۲۰۸،۲۰۹ میں تحریر کی ہے۔

مجہول اس راوی کو کہا جاتا ہے جس سے بجز ایک راوی کے کسی دوسرے نے نہ روایت کی ہو اور نہ ہی کسی مستند ومعتمد محدث سے اس کی توثیق ثابت ہو۔ جبکہ اہل فن میں سے جب ایک بڑے واقف کار اور نہایت وسیع النظر محقق کی توثیق ثابت ہو جائے تو اس کے بعد وہ راوی مجہول نہیں رہتا۔ مگر یہاں تو حاکم نیشاپوری، ذہبی اور حافظ محمد ابن حبان تمیمی تینوں نے خالد بن وہبان کی توثیق کر دی ہے مزید یہ کہ اس سے لوگ روایت بھی کرتے ہین تو اس قاعدہ کی رو سے وہ مجہول کہاں ہوا۔ محض ابو حاتم کے بلا سند قول کی بنا پر مجہول کہہ دینا انصاف و دیانت کے بالکل خلاف ہے لہٰذا تصریحات بالا سے روز روشن کی طرح ثابت ہوا کہ ازروئے اصول حدیث خالد بن وہبان قابل اعتماد ہے۔ اس سے مروی حدیث صحیح ہے۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

آفتاب حسین جوادی

جامعۃ الکوثر ۔ اسلام آباد

حضرت فاطمۃ الزہراء علیہا السلام کا خطبۂ فدک

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بنام خدائے رحمن رحیم
اَلْحَمْدُلِلَّهِ عَلی ما اَنْعَمَ،
ثنائے کامل ہے اللہ کے لیے ان نعمتوں پر جو اس نے عطا فرمائیں۔
وَ لَهُ الشُّکْرُ عَلی ما اَلْهَمَ،
اور اس کا شکر ہے اس سمجھ پر جو اس نے (اچھائی اور برائی کی تمیز کے لیے) عنایت کی ہے۔ (۱)
وَ الثَّناءُ بِما قَدَّمَ، مِنْ عُمُومِ نِعَمٍ اِبْتَدَاَها،
اور اس کی ثنا و توصیف ہے ان نعمتوں پر جو اس نے پیشگی عطا کی ہیں۔ (۲)

۱۔علی ما الہم: الہام انسان کے نفس کے اندر ایک ایسی طاقت کا نام ہے جس کے ذریعے وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کر سکتا ہے۔ اس طاقت کو حجت باطنی کہتے ہیں نیز اسے عقل اور وجدان بھی کہا جاتا ہے ۔ کبھی ہم اسے ضمیر کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ انسانی ضمیر میں اللہ تعالی نے خیر و شر، پاکیزگی و پلیدی، فسق و فجور اور تقوی کا ادراک اور فہم دویعت فرما دی ہے۔ اسی لئے یہ نفس اچھائی کی طرف بلانے والے اور برائی سے روکنے والے کی آواز پہچان لیتا ہے اور اسے پذیرائی ملتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ﴿﴾ فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا

(شمس ؍۷۔۸۔)

اور قسم ہے نفس کی اور اس کی جس نے اسے معتدل کیا پھراس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ عطا فرمائی

۲۔وہ نعمتیں جو اللہ تعالیٰ سوال کے بغیر از خود عنایت فرماتا ہے ۔ دعائے رجبیہ میں آیا ہے:

یا من یعطیہ من لم یسئلہ ومن لم یعرفہ

اے وہ ذات جو اسے بھی عنایت فرماتا ہے جس نے نہ سوال کیا، نہ اس نے پہچان لیا۔

وَ سُبُوغِ الاءٍ اَسْداها،
ان ہمہ گیر نعمتوں پر جن کے عطا کر نے میں اس نے پہل کی۔(۳)
وَ تَمامِ مِنَنٍ اَوْلاها،
اور ان نعمتوں کی فراہمی میں تواتر کے ساتھ فراوانی فرمائی۔ـ
جَمَّ عَنِ الْاِحْصاءِ عَدَدُها،
اور یہ نعمتیں دائرہ شمار سے وسیع تر ہیں(۴)
وَ نَأى عَنِ الْجَزاءِ اَمَدُها،
اور ان کے ادائے شکر کی حدود تک رسائی بہت بعید ہے(۵)
وَ تَفاوَتَ عَنِ الْاِدْراکِ اَبَدُها،
اور (انسان)ان کی بے پایانی کا ادراک کرنے سے قاصر ہے۔ (۶)

تشریح کلمات

سبوغ :
فراوان۔
جم :
زیاد ۔
نأی:
دور ۔
ندب :
پکارا ۔ دعوت دی ۔

۳۔ وہ نعمتیں جو تمام انسانوں کیلئے یکساں طور پر عنایت فرماتا ہے۔

۴۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا :

وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا (سورہ النحل آیت ۱۸)

اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہ کر سکو گے۔

۵۔جب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار ممکن نہیں ہے تو ان نعمتوں کا حق ادا کرنا یقینا ممکن نہیں ہے۔ یعنی کسی محدود عمل سے لامحدود نعمتوں کا حق کیسے ادا ہو سکتا ہے۔

۶۔بہت سی ایسی نعمتیں ہیں جن کی گہرائی اور ان کی انتہائی حدود انسان کے احاطۂ ادراک میں نہیں آسکتیں۔ بہت سی نعمتوں سے آج کا انسان آشنا ہے مگر کل کے انسان آشنا نہ تھے۔ اسی طرح انسانی ادراکات کا سلسلہ جاری رہے گا مگر ان نعمتوں کی آخری حدود تک پہنچنا ممکن نہیں۔

وَ نَدَبَهُمْ لاِسْتِزادَتِها بِالشُّکْرِ لاِتِّصالِها،
نعمتوں میں اضافہ اور تسلسل کیلئے لوگوں کو شکر کرنے کی ہدایت کی۔(۷)
وَ اسْتَحْمَدَ اِلَى الْخَلائِقِ بِاِجْزالِها، وَ ثَنی بِالنَّدْبِ اِلى اَمْثالِها.
حمد کا حکم اس لئے دیا کہ نعمتوں میں فراوانی ہو ایسی نعمتوں کی طرف مکرر دعوت دی (جو خود بندوں کے لیے مفید ہیں)۔(۸)
وَ اَشْهَدُ اَنْ لا اِلهَ اِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَریکَ لَهُ،
اور میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔
کَلِمَةٌ جَعَلَ الْاِخْلاصَ تَأْویلَها،
(کلمہ شہادت) ایک ایسا کلمہ ہے کہ اخلاص (در عمل) کو اس کا نتیجہ قرارد یا ہے۔ (۹)

تشریح کلمات

اجزال:
فراوانی۔
ثنی، الثّٰنْی:
مکرر ۔

۷۔جیسا کہ قرآن میں فرمایا:

لئن شکرتم لازیدنکم (۱)

اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا

نعمتوں پر شکر کرنا اعلیٰ قدروں کا مالک ہونے کی دلیل ہے ایسے لوگ ہی نعمتوں کی قدر دانی کرتے ہیں۔ امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں:

شکر النعمۃ اجتناب المحارم و تمام الشکر قول الرجل: الحمد للّہ رب العالمین (ابراہیم؍ ۷)

حرام چیزوں سے اجتناب ہی نعمت کا شکر ہے اور شکر اس وقت پورا ہو جاتا ہے جب بندہ یہ کہدے: الحمدللہ رب العالمین۔

۸۔یعنی نیک اعمال کی دعوت دی تاکہ اس قسم کی نعمتیں آخرت میں بھی میسر آئیں۔

۹۔یعنی: ایک خدا پر ایمان کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ دوسرے خود ساختہ خداؤں سے بے نیاز ہو کر صرف اس قادر لایزال کے ساتھ وابستہ ہو۔ توحید عقیدتی کا لازمی نتیجہ توحید عملی ہے اور عمل میں توحید پرست ہونے یعنی صرف اور خالصۃً اللہ تعالی پربھروسہ کرنے کی صورت میں مؤحد جبرائیل جیسے مقتدر فرشتہ کو بھی اعتنا میں نہیں لاتا۔ چنانچہ یہ واقعہ مشہور ہے کہ آتش نمرود میں جاتے وقت جبرئیل نے حضرت ابراہیم ؑسے کہا تھا کوئی حاجت ہے؟ تو حضرت ابراہیم نے فرمایا :

اما الیک فلا

آپ سے نہیں۔

وَ ضَمَّنَ الْقُلُوبَ مَوْصُولَها،
کلمۂ توحید کے ادراک کو دلوں میں جاگزین فرمایا۔(۱۰)
وَ اَنارَ فِی التَّفَکُّرِ مَعْقُولَها،
اور اس کے ادراک کے ذریعے ذہنوں کو روشنی بخشی۔
الْمُمْتَنِعُ عَنِ الْاَبْصارِ رُؤْیَتُهُ،
نہ وہ نگاہوں کی(محدودیت)میں آ سکتا ہے۔ (۱۱)

۱۰۔ماہرین نفسیات کی تحقیق میں یہ بات سامنے آگئی ہے :

’’معرفت الٰہی فطری ہے اس سے پہلے وہ ذوق جمالیات، انسان دوستی اور علم دوستی ہی کو فطری تصور کرتے تھے۔‘‘

اب معلوم ہو اہے کہ خدا پرستی ہر انسان کی فطرت اور جبلت میں موجود ہے، البتہ خدا پرستی کے خلاف منفی اثرات کی وجہ سے بہت سے لوگوں میں فطرت کے یہ تقاضے ابھر کر سامنے نہیں آتے، چنانچہ انسان دوستی ایک فطری امر ہونے کے باوجود بعض لوگوں پر منفی اثرات مترتب ہونے کی وجہ سے انسان دوستی کی جگہ وہ انسان دشمنی پر اتر آتے ہیں۔

۱۱۔اللہ تعالیٰ حاسہ بصر کی محدودیت میں نہیں آ سکتا بلکہ رؤیت خدا کا تصور ہی شان الٰہی میں گستاخی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی علانیہ دکھانے کے مطالبے پر قوم موسیٰ پر عذاب نازل ہوا جس کا تذکرہ قرآن حکیم میں اس طرح آیا ہے:

فقالوا ارنا اللہ جھرۃ فاخذتہم الصاعقۃ بظلمہم (نساء ؍۱۵۳)

انہوں نے کہا: ہمیں علانیہ طور پر اللہ دکھا دو ان کی اسی زیادتی کی وجہ سے انہیں بجلی نے آ لیا۔

وَ مِنَ الْاَلْسُنِ صِفَتُهُ،
اورنہ ہی زبان سے اس کا وصف بیان ہو سکتا ہے۔
وَ مِنَ الْاَوْهامِ کَیْفِیَّتُهُ.
اور وہم و خیال اس کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
اِبْتَدَعَ الْاَشْیاءَ لا مِنْ شَىْ‏ءٍ کانَ قَبْلَها،
ہر چیز کو لا شی ٔ سے وجود میں لایا (۱۲)
وَ اَنْشَاَها بِلاَاحْتِذاءِ اَمْثِلَةٍ اِمْتَثَلَها،
اور کسی نمونے کے بغیر ان کو ایجاد کیا۔
کَوَّنَها بِقُدْرَتِهِ وَ ذَرَأَها بِمَشِیَّتِهِ،
اپنی قدرت سے انہیں وجود بخشا اور اپنے ارادے سے ان کی تخلیق فرمائی۔(۱۳)
مِنْ غَیْرِ حاجَةٍ مِنْهُ اِلى تَکْوینِها،
نہ ان کی ایجاد کی اسے ضرورت تھی۔

تشریح کلمات

الاحتذا:
پیروی کرنا۔
ذرأ:
خلق کرنا۔

۱۲۔ عدم سے وجود دینے کو خلق ابداعی کہتے ہیں اس معنی میں صرف اللہ تعالیٰ خالق ہے جبکہ اجزائے موجودہ کو ترکیب دینے کو بھی تخلیق کہا جاتا ہے، اس سے غیر اللہ بھی متصف ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں ہے :

و اذ تخلق من الطین کھیئۃ الطیر باذنی۔ ( سورہ مائدہ؍۱۱۰)

اور میرے حکم سے مٹی کا پتلا پرندے کی شکل کا بناتا۔

۱۳۔ ان اشیاء کی ایجاد و تخلیق پر صرف اور صرف اللہ تعالی کی قدرت اور ارادہ صرف ہوا ہے۔ حتی کہ کاف و نون بھی خرچ نہیں ہوا بلکہ کن فیکون انسان کے فہم کے لیے صرف ایک تعبیر ہے۔

چنانچہ روایت میں آیا ہے:

فارادۃ اللہ الفعل لا غیر ذلک یقول لہ کن فیکون بلا لفظ ولا نطق بلسان (الکافی ۱؍۱۰۹)

ارادۂ خدا فعل خدا ہے جب وہ کن کہتا ہے وہ بغیر کسی لفظ اور زبانی نطق سے ہوتا ہے۔‘‘

وَ لا فائِدَةٍ لَهُ فی تَصْویرِها،
نہ ان کی صورت گری میں اس کا کوئی مفاد تھا (۱۴)
اِلاَّ تَثْبیتاً لِحِکْمَتِهِ
وہ صرف اپنی حکمت کو آشکار کرنا چاہتا تھا
وَ تَنْبیهاً عَلی طاعَتِهِ،
اور طاعت و بندگی کی طرف توجہ دلانا چاہتا تھا
وَ اِظْهاراً لِقُدْرَتِهِ
اور اپنی قدرت کا اظہار کرنا چاہتا تھا
وَ تَعَبُّداً لِبَرِیَّتِهِ،
اور مخلوق کو اپنی بندگی کے دائر میں لانا چاہتا تھا
وَ اِعْزازاً لِدَعْوَتِهِ،
اور اپنی دعوت کو استحکام دینا چاہتا تھا
ثُمَّ جَعَلَ الثَّوابَ عَلی طاعَتِهِ، وَ وَضَعَ الْعِقابَ عَلی مَعْصِیَتِهِ،
پھر اس نے اپنی اطاعت کو باعث ثواب اور معصیت کو موجب عذاب قرار دیا
ذِیادَةً لِعِبادِهِ مِنْ نِقْمَتِهِ
تاکہ اس کے بندے اس کی غضب سے بچے رہیں۔
وَ حِیاشَةً لَهُمْ اِلى جَنَّتِهِ
اور اس کی جنت کی طرف گامزن رہیں (۱۵)

تشریح کلمات

ذیادۃ:
ذود سے رفع کرنا، دور کرنا۔
حیاشۃ:
چلانا، گامزن کرنا۔

۱۴۔ اشیاء اپنی وجود اور اپنے بقا میں اللہ تعالی کی محتاج ہیں اللہ تعالی ان اشیاء کا محتاج نہیں ہے مگر ان اشیاء کو وجود دے کر اللہ اپنی کسی ضرورت کو پورا نہیں کر رہا، بلکہ ان مخلوقات کی خلقت کی غرض و غایت خود مخلوقات کی ارتقا ہے، چنانچہ اللہ تعالی کی اطاعت اور اس کی بندگی انسانیت کیلئے معراج ہے کیونکہ بندگی کمال کے ادراک کا نتیجہ ہے اور کمال کا ادراک خود اپنی جگہ ایک کمال ہے لہذا اطاعت و بندگی انسان کے لئے ارتقا ء ہے۔

۱۵۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو نعمت وجود کے ساتھ بے شمار نعمتیں عنایت فرمائیں ہیں ہماری طرف سے اللہ کی اطاعت سے تو ان نعمتوں کا بھی حق ادا نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ وہ اطاعت پر ثواب بھی مرحمت فرماتا ہے اور اپنی جنت کی دائمی زندگی عنایت فرماتا ہے۔ یعنی دنیا کی چند روزہ اطاعت کے عوض ابدی ثواب عنایت فرماتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں: اطاعت کے ایک لمحے کے مقابلے میں جنت میں ابدی زندگی عنایت فرماتا ہے۔

وَ اَشْهَدُ اَنَّ اَبی‏مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ،
اور میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے پدر محمد اللہ کا عبد اور اس کے رسول ہیں،
اِخْتارَهُ قَبْلَ اَنْ اَرْسَلَهُ،
اللہ نے ان کو رسول بنانے سے پہلے انہیں برگزیدہ کیا تھا
وَ سَمَّاهُ قَبْلَ اَنْ اِجْتَباهُ،
اور ان کی تخلیق سے پہلے ہی ان کا نام روشن کیا۔ (۱۶)

تشریح کلمات

انتجبہ:
برگزیدہ کیا
اجتبلہ:
اس کو خلق کیا

۱۶۔ چنانچہ تغیر و تحریف کے باوجود آج بھی توریت و انجیل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری کے بارے میں تصریحات موجود ہیں۔

توریت استثنا ۱۸۔۵۱ میں مذکور ہے:

’’ خداوندا ! تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اس کی طرف کان دھر یو‘‘۔

انجیل یوحنا میں آیا ہے:

’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا کہ وہ تمہیں دوسرا مددگار ’’فارقلیط‘‘ بخشے گا جو ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا‘‘۔

’’فارقلیط‘‘ یونانی لفظ ہے اس کا تلفظPARACLETEہے اس سے مراد ہے عزت یا مدد دینے والا اس کا دوسرا تلفظ ’’فیرقلیط‘‘ ہے اور یونانی تلفظ PERICLITEہے جس سے مراد عزت دینے والا بلند مرتبہ اور بزرگوار ہے جو محمد اور محمود کے قریب المعنی ہے۔

وَ اصْطَفاهُ قَبْلَ اَنْ اِبْتَعَثَهُ،
اور مبعوث کرنے سے پہلے انہیں منتخب کیا
اِذ الْخَلائِقُ بِالْغَیْبِ مَکْنُونَةٌ،
جب مخلوقات ابھی پردہ غیب میں پوشیدہ تھیں
وَ بِسَتْرِ الْاَهاویلِ مَصُونَةٌ،
وحشت ناک تاریکی میں گم تھیں
وَ بِنِهایَةِ الْعَدَمِ مَقْرُونَةٌ،
اور عدم کے آخری حدود میں دبکی ہوئی تھیں۔
عِلْماً مِنَ اللَّهِ تَعالی بِمائِلِ الْاُمُورِ،
اللہ کو(اس وقت بھی)آنے والے امور پر آگہی تھی
وَ اِحاطَةً بِحَوادِثِ الدُّهُورِ،
اور آئندہ رونما ہونے والے ہر واقعہ پر احاطہ تھا۔
وَ مَعْرِفَةً بِمَواقِعِ الْاُمُورِ
اور تمام مقدرات کی جائے وقوع کی شناخت تھی۔ (۱۷)

تشریح کلمات

مکنون:
پوشیدہ۔
مایل الامور :
انجام پانے والے امور۔

۱۷۔ اللہ کا علم معلوم کے وجود پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ معلومات کے وجود میں آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ ان پر احاطۂ علم رکھتا تھا۔ کیونکہ اللہ کے لئے بعد قبل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کے علم کے لئے زمانہ حائل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا علم زمانی نہیں ہے۔ اس کے علم کے لئے ماضی اور مستقبل یکساں ہے۔

چنانچہ امیر المؤمنین علی مرتضیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:

عالم اذلا معلوم و رب اذلا مربوب وقادر اذلا مقدور (نہج البلاغہ۹؍۱۴۷)

وہ اس وقت بھی عالم تھا جب کوئی معلوم موجود نہ تھا اور اس وقت بھی رب تھا جب کوئی مربوب نہ تھا، اور اس وقت بھی قادر تھا جب کوئی مقدور نہ تھا۔

اِبْتَعَثَهُ اللَّهُ اِتْماماً لِاَمْرِهِ، وَ عَزیمَةً عَلى اِمْضاءِ حُکْمِهِ، وَ اِنْفاذاً لِمَقادیرِ رَحْمَتِهِ،
اللہ نے رسول کو اپنے امور کی تکمیل اور اپنے دستور کے قطعی ارادے اور حتمی مقدرات کو عملی شکل دینے کے لیے مبعوث فرمایا۔(۱۸)
فَرَأَى الْاُمَمَ فِرَقاً فی اَدْیانِها،
رسول خداؐ نے اس وقت اقوام عالم کو اس حال میں پایا کہ وہ دینی اعتبار سے فرقوں میں بٹی ہوئی ہیں
عُکَّفاً عَلی نیرانِها،
کچھ اپنے آتشکدوں میں منہک
عابِدَةً لِاَوْثانِها،
اور کچھ بتوں کی پوجا پاٹ میں مصروف
مُنْکِرَةً لِلَّهِ مَعَ عِرْفانِها
معرفت کے باوجود اللہ کی منکر تھیں (۱۹)

تشریح کلمات

عکفا :
منہمک، ملتزم
اوثان:
وثن کی جمع ۔ بت

۱۸۔ حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے امور الٰہی کی تکمیل ہوئی، احکام خداوندی کا نفاذ ہوا اور مقدرات حتمی کو عملی شکل مل گئی۔ اس کایہ واضح مطلب ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مظہر تکمیل امر الہٰی ہیں وہ مظہر ارادۂ خداوندی ہے انہیں کے ذریعہ مقدرات الہٰی مرحلہ علم سے مرحلہ وجود میں آتے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حدیث قدسی میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے:

لولاک لما خلقت الافلاک (بحار الانوار ۱۵؍۲۷)

اگر آپ پیدا نہ ہوتے تو میں زمین و آسمان کو بھی خلق نہ کرتا۔

۱۹۔چنانچہ حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب ؑ اسی مطلب کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:

واہل الارض یومئذ ملل متفرقۃ واھواء منتشرۃ و طرائق متشتتہ، بین مشبہ للّہ بخلقہ او ملحد فی اسمہ او مشیر الی غیرہ فھدیھم من الضلالۃ و انقذہم بمکانہ من الجھالۃ۔ (نہج البلاغہ)

اس وقت کرۂ ارض کے باشندے متفرق قوموں میں بٹے ہوئے تھے منتشر خیالات اور مختلف راہوں میں سرگرداں تھے کچھ اللہ کو مخلوق کے مانند سمجھتے تھے کچھ ملحد ومنکر تھے اور کچھ غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ایسے حالات میں اللہ نے محمدؐ کے ذریعہ ان کو گمراہی سے ہدایت بخشی اور ان کے ذریعہ انہیں جہالت سے بچا لیا۔

فَاَنارَ اللَّهُ بِاَبی‏مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ و الِهِ ظُلَمَها،
پس اللہ تعالیٰ نے میرے والد گرامی محمدؐ کے ذریعے اندھیروں کو اجالا کر دیا
وَ کَشَفَ عَنِ الْقُلُوبِ بُهَمَها،
اور دلوں سے ابہام کو
وَ جَلى عَنِ الْاَبْصارِ غُمَمَها،
اور آنکھوں سے تیرگی کو دور کر دیا
وَ قامَ فِی النَّاسِ بِالْهِدایَةِ،
(میرے والدنے) لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھایا
فَاَنْقَذَهُمْ مِنَ الْغِوایَةِ،
اور انہیں گمراہوں سے نجات دلائی۔
وَ بَصَّرَهُمْ مِنَ الْعِمایَةِ،
آپ انہیں اندھے پن سے بینائی کی طرف لائے
وَ هَداهُمْ اِلَى الدّینِ الْقَویمِ،
نیز آپ نے استواردین کی طرف ان کی راہنمائی کی۔
وَ دَعاهُمْ اِلَى الطَّریقِ الْمُسْتَقیمِ
راہ راست کی طرف انہیں دعوت دی
ثُمَّ قَبَضَهُ اللَّهُ اِلَیْهِ
پھر اللہ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا
قَبْضَ رَأْفَةٍ وَ اخْتِیارٍ،
شوق و محبت اور اختیار و رغبت کے ساتھ
وَ رَغْبَةٍ وَ ایثارٍ،
نیز(آخرت کی) ترغیب و ترجیح کے ساتھ۔(۱۹)

تشریح کلمات

بُھْم :
ابہام
غُمَم :
حیرانی، راہ نہ پانا۔

۱۹۔ ممکن ہے اس کا مطلب یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے از راہ محبت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے وصال کو اختیار فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جانے کو اختیار فرمایا ہو، چنانچہ روایت ہے کہ حضرت عزرائیل کسی کی روح قبض کرنے کے لئے اجازت نہیں مانگتے لیکن صرف رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے موقع پر آپ سے اجازت طلب کی اور حضورؐ کی اجازت سے قبض روح عمل میں آیا۔

فَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ و الِهِ مِنْ تَعَبِ هذِهِ الدَّارِ فی راحَةٍ،
اب محمدؐ دنیا کی تکلیفوں سے آزاد ہیں۔
قَدْ حُفَّ بِالْمَلائِکَةِ الْاَبْرارِ
مقرب فرشتے ان کے گرد حلقہ بگوش ہیں۔
وَ رِضْوانِ الرَّبِّ الْغَفَّارِ،
آپ ربّ غفار کی خوشنودی
وَ مُجاوَرَةِ الْمَلِکِ الْجَبَّارِ،
اور خدائے جبار کے سایۂ رحمت میں آسودہ ہیں۔
صَلَّى اللَّهُ عَلی أَبی نَبِیِّهِ وَ اَمینِهِ
اللہ کی رحمت ہو اس کے نبی امین پر
وَ خِیَرَتِهِ مِنَ الْخَلْقِ وَ صَفِیِّهِ،
جو ساری مخلوقات سے منتخب و پسندیدہ ہیں۔
وَ السَّلامُ عَلَیْهِ وَ رَحْمَةُاللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ
اور اللہ کا سلام اور اس کی رحمت اور برکتیں ہوں آپ پر۔
ثم التفت الى اهل المجلس و قالت:
پھر اہل مجلس کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا:
اَنْتُمْ عِبادَ اللَّهِ نُصُبُ اَمْرِهِ وَ نَهْیِهِ،
اللہ کے بندو! تم ہی تو اللہ کے امر و نہی کے علمدار ہو،
وَ حَمَلَةُ دینِهِ وَ وَحْیِهِ،
اللہ کے دین اور اس کی وحی (کے احکام) کے ذمے دار ہو۔
وَ اُمَناءُ اللَّهِ عَلى اَنْفُسِکُمْ،
تم اپنے نفسوں پر اللہ کے امین ہو،
وَ بُلَغاؤُهُ اِلَى الْاُمَمِ،
دیگر اقوام کے لئے (اس کے دین کے) بھی مبلغ تم ہو۔ (۲۰)

۲۰۔ احکام خداوندی اور وحی الٰہی کے پہلے مخاطبین وہ لوگ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے براہ راست احکام سنتے تھے۔ ان پر یہ فرض بھی عائد ہوتا تھا کہ وہ ان احکام کو پوری دیانتداری سے حفظ کرکے دوسرے لوگوں تک امانتداری سے پہنچا دیں۔ چنانچہ آپ ؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:

فلیبلغ الشاھد الغائب

حاضر لوگ غیر حاضر لوگوں تک پہنچا دیں۔

البتہ ان احکام کو حفظ کرنے اور امانتداری کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے میں سب لوگ یکساں نہ تھے۔ کچھ لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی باتیں سنتے تو تھے لیکن کچھ سمجھنے کے اہل نہ تھے چنانچہ قرآن حکیم اس کی یوں گواہی دیتا ہے ۔

وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ۔ حَتّٰی اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ اُوْتُواالْعِلْمَ مَاذَا قَالَ اَنِفًا۔ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَاتَّبَعُوْآ اَھْوَآئَ ھُم (سورہ ٔ محمد آیت ۱۶)

اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو آپ(کی باتوں) کو سنتے ہیں لیکن جب آپ کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو جنہیں علم دیا گیا ہے ان سے پوچھتے ہیں کہ اس (نبی) نے ابھی کیا کہا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔

اسی طرح فرمودات رسولؐ کو پوری امانت کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے کے فریضے پر بھی لوگ یکساں طور پر عمل پیرا نہ ہوئے۔یہاں مزید بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ تاریخی کتب کا مطالعہ کیا جائے۔

زَعیمُ حَقٍّ لَهُ فیکُمْ،
اس کی طرف سے برحق رہنما تمہارے درمیان موجود ہے۔ (۲۱)
وَ عَهْدٍ قَدَّمَهُ اِلَیْکُمْ،
اور تم سے عہد و پیمان بھی پہلے سے لیا جا چکا ہے۔(۲۲)

۲۱۔ زعیم حق سے مراد حضرت علی ؑ کی ذات ہو سکتی ہے۔ لہ‘ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹتی ہے یعنی اللہ کی طرف سے وہ ذات بھی تمہارے درمیان موجود ہے جس کی زعامت اور قیادت مبنی برحق ہے۔

۲۲۔ اس عہد سے مراد وہ عہد ہو سکتا ہے جو غدیر خم کے موقع پر لوگوں سے لیا گیا۔ چنانچہ غدیر خم کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ بہت سے جلیل القدر اصحاب رسول ؐ اور تابعین ؒکی متواتر روایت کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے۔ ظاہر ہے ایک لاکھ کے مجمع نے رسول اللہؐ سے یہ حدیث سنی تھی تو حضرت زہرا ؑکے زمانے میں یقینا ایسے لوگ ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے جنہوں نے رسولؐ اللہ سے یہ حدیث سنی تھی۔

وَ بَقِیَّةٍ اِسْتَخْلَفَها عَلَیْکُمْ:
آپ نے ایک (گراں بہا) ذخیرے کو تمہارے درمیان جانشین بنایا (۲۳)
وَ مَعَنَا کِتابُ اللَّهِ
اور اللہ کی کتاب بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔
کِتابُ اللَّهِ النَّاطِقُ
یہ اللہ کی ناطق کتاب
وَ الْقُرْانُ الصَّادِقُ،
سچا قرآن،
و النُّورُ السَّاطِعُ
چمکتا نور،
وَ الضِّیاءُ اللاَّمِعُ،
اور روشن چراغ ہے
بَیِّنَةً بَصائِرُهُ،
اس کے دروس عبرت واضح
مُنْکَشِفَةً سَرائِرُهُ،
اور اس کے اسرار و رموز آشکار
مُنْجَلِیَةً ظَواهِرُهُ،
اور اس کے ظاہری معانی روشن ہیں۔
مُغْتَبِطَةً بِهِ اَشْیاعُهُ،
اس کے پیروکار قابل رشک ہیں(۲۴)

۲۳۔ یہ ایک متواتر حدیث ثقلین کی طرف اشارہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: (إنی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اہل بیتی ما ان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی) یہ حدیث بھی متعدد صحابہ کرامؓ اور تابعین کے ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہے۔ برصغیر کے محقق علی الاطلاق علامہ میر حامد حسین لکھنوی ؒ نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب دو ضخیم جلدوں میں ’’عبقات الانوار‘‘ کے نام سے تصنیف فرمائی ہے۔

۲۴۔ اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حدیث مروی ہے:

والفضیلۃ الکبری و السعادۃ العظمی من استضاء بہ نورہ اللہ ومن عقد بہ امرہ عصمہ اللہ ومن تمسک بہ انقذہ اللہ (بحار الانوار ۸۹؍۳۱)

قرآن سب سے بڑی فضیلت اور سب سے بڑی سعاوت ہے جو اس کے ذریعے روشنی طلب کرے اللہ اسے منور کر دیتا ہے اور جو اپنے معاملہ کو قرآن سے وابستہ کرے اللہ اسے محفوظ رکھتا ہے۔ اور جو اس سے متمسک ہوا اللہ اسے نجات دیتا ہے۔

قائِداً اِلَى الرِّضْوانِ اِتِّباعُهُ،
اس کی پیروی رضوان کی طرف لے جاتی ہے۔ (۲۵)
مُؤَدٍّ اِلَى النَّجاةِ اسْتِماعُهُ
اسے سننا بھی ذریعۂ نجات ہے۔ (۲۶)
بِهِ تُنالُ حُجَجُ اللَّهِ الْمُنَوَّرَةُ،
اس قرآن کے ذریعے اللہ کی روشن دلیلوں کو پایا جا سکتا ہے۔ (۲۷)

۲۵۔ قرآن مجید کا اتباع مؤمن کو مقام رضوان پر فائز کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ سورۂ توبہ آیت ۷۲ میں جنت کے اعلی ترین درجہ یعنی جنت عدن کے ذکر کے بعد یوں فرمایا گیا ہے:

ورضوان من اللہ اکبر ذلک ہو الفوز العظیم

اور اللہ کی طرف سے خوشنودی ان سب سے بڑھ کر ہے، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی جنت کے اعلی ترین درجہ یعنی جنت عدن سے بھی بڑھ کر ہے۔ ممکن ہے ’’اکبر‘‘ سے مراد اکبر من کل شئیہو یعنی جنت کی تمام نعمتیں خواہ کتنی عظیم کیوں نہ ہوں رضائے رب کے مقابلہ میں کچھ نہیں اور ممکن ہے اکبر من ان یوصف ہو یعنی اللہ کی خوشنودی کی نعمت توصیف و بیان کی حد سے بڑھ کر ہے۔ مؤمن جب جنت میں رب رحیم کے جوار میں اس کی خوشنودی کی پرسکون اور کیف و سرور کی فضا میں قدم رکھے گا تو اس کے لئے ایک لمحہ بھی وصف و بیان سے بڑھ کر ہو گا۔

۲۶۔ قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب تمام اعمال میں سب سے زیادہ ہے۔ پیغمبر اسلامؐ سے حدیث ہے:احب الاعمال الی اللہ الحال المرتحل حضرت امام زین العابدین ؑسے جب پوچھا گیا تو یہی فرمایا کہ بہترین عمل الحال المرتحل(العدۃ ص ۲۹۹)ہے یعنی قرآن کی تلاوت شروع کر کے ختم کرنا۔ اسی طرح قرآن کی تلاوت کا سننا بھی کار ثواب ہے۔ بلکہ جب تلاوت قرآن کی آواز آ رہی ہو تواسے توجہ سے سننا بھی موجب ثواب ہے۔

واذاقری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون (سورہ اعراف آیت ۲۰۴)

جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے

۲۷۔ اللہ تعالیٰ کی روشن دلیلیں جس کے پاس ہوں وہ یقینا کامیاب وکامران ہے۔ چنانچہ جب قل فللّہ الحجۃ البالغۃ کا مطلب حضرت امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا تو آپ ؑنے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر ایک بندہ سے سوال فرمائے گا کہ تو دنیا میں عالم تھا یا جاہل؟ اگر جواب دے کہ میں عالم تھا تو فرمائے گا: پھر تم نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟ اور اگر کہے جاہل تھا تو فرمائے گا کہ تم نے علم حاصل کیوں نہیں کیا تاکہ تم اس پر عمل کرتا ؟یہی حجت بالغہ ہے جو اللہ اپنے بندے پر قائم فرماتا ہے۔ اگر انسان قرآنی تعلیمات حاصل کر کے اس پر عمل کرے تو اس صورت میں حجت اور دلیل اس کے پاس ہوتی ہے۔(امالی شیخ طوسی صفحہ ۹)

وَ عَزائِمُهُ الْمُفَسَّرَةُ،
بیان شدہ واجبات کو،(۲۸)
وَ مَحارِمُهُ الْمُحَذَّرَةُ،
منع شدہ محرمات کو،
وَ بَیِّناتُهُ الْجالِیَةُ،
روشن دلائل کو،
وَ بَراهینُهُ الْکافِیَةُ،
اطمینان بخش براہین کو،
وَ فَضائِلُهُ الْمَنْدُوبَةُ،
مستحبات پر مشتمل فضائل کو،(۲۹)
وَ رُخَصُهُ الْمَوْهُوبَةُ،
جائز مباحات کو،
وَ شَرائِعُهُ الْمَکْتُوبَةُ.
اور اس کے واجب دستور کو پایاجا سکتا ہے۔
فَجَعَلَ اللَّهُ الْایمانَ تَطْهیراً لَکُمْ مِنَ الشِّرْکِ،
اللہ نے ایمان کو شرک سے تمہیں پاک کرنے کا، (۳۰)
وَ الصَّلاةَ تَنْزیهاً لَکُمْ عَنِ الْکِبْرِ،
نماز کو تمہیں تکبر سے محفوظ رکھنے کا،(۳۱)

۲۸۔ (عزائم) فرائض اور واجبات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ’’رخص‘‘ آتا ہے جو مباحات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں رخص بھی ہیں اور عزائم بھی واجبات کا ذکر ہے اور مباحات کا بھی۔ مثلاً

وکلوا مما رزقکم اللہ حلالا طیبا(۵:۸۸)

جو حلال و پاکیزہ روزی اللہ نے تمہیں دی ہے اسے کھاؤ۔

۲۹۔ اس جملے کا دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے کہ’’ اس کی طرف سے دعوت شدہ فضائل کو‘‘ ممکن ہے مندوب کا مطلب مستحبات ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ مندوب لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہو یعنی ’’دعوت شدہ‘‘ـ

۳۰۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے ساتھ غیر اللہ پرتکیہ کرنا سراسر ایمان کے منافی ہے۔ یعنی اللہ پر ایمان اور غیر اللہ پربھی جن سے شرک لازم آتا ہو یہ دونوں ہرگز جمع نہیں ہو سکتے۔ البتہ جہاں ایمان باللہ کمزور ہو جاتا ہے تو وہاں غیر اللہ پر بھروسہ کے لئے گنجائش نکل آتی ہے۔ لیکن جب ایمان پختہ ہو تو ایسی آلودگیوں سے انسان محفوظ رہتا ہے۔

۳۱۔ نماز اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا عملی اعتراف ہے۔جب بندہ خدا کی کبریائی کا معترف ہو جائے تواپنی کبریائی کا تصور نہیں کر سکتا لہٰذا نمازی تکبر کی بیماری میں مبتلا نہیں ہو سکتا جیسا کہ حضرت علی ؑ فرماتے ہیں:

ولنا فی ذلک من تعفیر عتاق الوجوہ بالتراب تواضعاً والتصاق کرائم الجوارح بالارض تصافرا ً (نہج البلاغۃ)

اور ہمارے خوبصورت چہروں کو خاک پر رکھنے میں تواضع ہے اور اہم اعضاء کو زمین پر رکھنے میں فروتنی ہے۔

وَ الزَّکاةَ تَزْکِیَةً لِلنَّفْسِ وَ نِماءً فِی الرِّزْقِ،
زکوۃ کو نفس کی پاکیزگی اور رزق میں اضافے کا،(۳۲)
وَ الصِّیامَ تَثْبیتاً لِلْاِخْلاصِ،
روزہ کو اخلاص کے اثبات کا،(۳۳)
وَ الْحَجَّ تَشْییداً لِلدّینِ،
حج کو دین کی تقویت کا،
وَ الْعَدْلَ تَنْسیقاً لِلْقُلُوبِ،
عدل و انصاف کو دلوں کو جوڑنے کا،

۳۲۔جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے:

خذ من امو آلہم صدقۃ تطہرھم و تزکیہم (سورۃ توبہ آیت ۱۰۳)

اے رسول آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجئے اس کے ذریعہ آپ ان کو پاکیزہ اور بابرکت بنائیں۔

یعنی زکوۃ وصول کرکے ان کو بخل، طمع، بے رحمی اور دولت پرستی جیسے برے اوصاف سے پاک کریں۔ وتزکیۃ :یعنی سخاوت، ہمدردی اور ایثار و قربانی جیسے اوصاف کو پروان چڑھانا۔ اس طرح زکوۃ اوصاف رذیلہ کی تطہیر اور اوصاف حمیدہ کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ واضح رہے کہ زکوۃ ’’انفاق‘‘ ایک عنوان ہے اس کی کئی اقسام ہیں مثلاً فطرہ، مالی کفارہ،عشر، خمس، صدقہ واجب اور صدقہ مستحب۔ البتہ فقہی اصطلاح میں زکوۃ کا لفظ معینہ نصاب پر عائد ہونے والے مالی حقوق کے ساتھ مختص ہے۔

۳۳۔ عبادات میں روزہ اخلاص کی خصوصی علامت اس لئے ہے کہ باقی عبادات کا مظاہرہ عملاً ہوتا ہے جن میں ریاکاری کا امکان رہتا ہے مگر روزہ دار کے بارے میں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس نے روزے کی حالت میں کچھ کھایا پیانہیں ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

الصوم لی وانا اجزی بہ (الوافی ازفیض کاشانی ج۲ص۵طبع تہران

روزہ میرے لئے ہے اور میںخود اس کی جزا دوں گا۔

وَ طاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ،
ہماری اطاعت کو امت کی ہم آہنگی کا، (۳۴)
وَ اِما مَتَنا اَماناً لِلْفُرْقَةِ،
ہماری امامت کو تفرقہ سے بچانے کا،(۳۵)
وَ الْجِهادَ عِزّاً لِلْاِسْلامِ،
جہاد کو اسلام کی سربلندی کا، (۳۶)
وَ الصَّبْرَ مَعُونَةً عَلَی اسْتیجابِ الْاَجْرِ
صبر کو حصول ثواب کا،

۳۴۔اطاعتنا: ہماری اطاعت ۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی اہل بیت کی اطاعت مراد ہے جیسا کہ فرمایا:

یا ایہا الذین آمنوا اطیعوا اللّہ و اطیعواا لرسول ولا تبطلوا اعمالکم (سورہ محمد آیت۳۲)

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو۔

۳۵۔ اگر امت اسلامیہ ائمہ اہل بیتؑ کی امامت پر مجتمع ہو جاتی تو اس امت میں تفرقہ وجود میں نہ آتا۔ امت محمدیہ میں جو بھی تفرقہ وجود میں آیا ہے وہ بنی ہاشم کے ساتھ محض حسد و عداوت کی وجہ سے آیا ہے۔ اس کی صرف ایک مثال پیش خدمت ہے کہ جب مکہ میں عبد اللہ بن زبیر کی حکومت قائم ہوئی تو اس کا یہ موقف بناکہ رسالتمآب ؐپر درود بھیجنے سے کچھ لوگوں کی ناک اونچی ہوتی ہے اس لئے میں درود نہیں بھیجتااس قسم کے کئی واقعات پیش کیے جاسکتے ہیں آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی اطاعت تفرقہ اور ہلاکت سے محفوظ رہنے کا سبب ہے چنانچہ اہل بیت کا اہل زمین کے لئے امان ہونے کے بارے میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ مثلاً فرمایا:اہل بیتؑ سفینہ نوح ؑکے مانند ہیں، اہل ارض کے لئے امان اور باب حطّہ ہیں۔

(ملاحظہ ہو: صواعق محرقہ ابن حجر مکی صفحہ۱۷۸ طبع قاہرہ)

۳۶۔جہاد کی دو قسمیں ہیں:

i۔جہاد برائے دعوت اسلام۔ii۔جہاد برائے دفاع۔

جہاد برائے دعوت میں امام کی اجازت شرط ہے۔ امام خاص شرائط کے تحت دعوت کے لئے جہاد کا حکم صادر فرماتے ہیں اور جہاد برائے دفاع اس وقت واجب ہو جاتا ہے جب دشمن کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ اس میں اذن امام شرط نہیں ہے اور یہ جہاد ہر ایک پر واجب ہو جاتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام جہاد کے بارے میں فرماتے ہیں : واللہ ما صلحت دین ولا دنیا الا بہ’’ قسم بخدا دین اور دنیا کی بہبودی صرف جہاد ہی کے ذریعہ ممکن ہے‘‘۔

وَ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلِحَةً لِلْعامَّةِ،
امر بالمعروف کو عوام کی بھلائی کا،(۳۷)
وَ بِرَّ الْوالِدَیْنِ وِقایَةً مِنَ السَّخَطِ،
والدین پر احسان کو قہرِ الٰہی سے بچنے کا،(۳۸)
وَ صِلَةَ الْاَرْحامِ مَنْساءً فِی الْعُمْرِ وَ مَنْماةً لِلْعَدَدِ،
صلۂ رحمی کو درازی عمر اور افرادی کثرت کا،(۳۹)

تشریح کلمات

سخط :
ناراض ہونا۔
منماۃ :
رشد اور نمو۔

۳۷۔ امر باالمعروف اور نہی از منکر اصلاح معاشرہ کے لئے اسلام کا ایک زرین اصول ہے جس پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ایک متوازن سوچ کا حامل با شعور معاشرہ وجود میں آتا ہے، جس میں کسی ظالم کو ظلم کرنے اور کسی استحصالی کو استحصال کرنے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ ایک آگاہ اور باشعور معاشرہ ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بصورت دیگر ایک تاریک اور شعور سے خالی معاشرے میں ہر قسم کی ظالم اور استحصالی قوتوں کے لیے کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ حدیث میں مروی ہے : تم اگرامربالمعروف اور نہی از منکر کے عمل کو ترک کرو گے تو تم پر ایسے ظالم لوگ مسلط ہو جائیں گے جن سے نجات کے لئے تم دعا کرو گے لیکن تمہاری دعا قبول نہ ہو گی۔

۳۸۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے :

من اسخط والدیہ اسخط اللہ ومن اغضبھما فقد اغضب اللہ (مستدرک الوسائل)

جس نے والدین کو ناراض کیا اس نے اللہ کو ناراض کیا اور جس نے والدین کو غصہ دلایا اس نے اللہ کو غصہ دلایا۔

۳۹۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

واتقو اللہ الذی تساء لون بہ والارحام (نساء ؍ ۱)

اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (خوف کرو۔)۔

اس آیت مبارکہ میں صلہ ٔ رحمی کو خوف خدا کے ذکر کے ساتھ رکھا گیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

وَ الْقِصاصَ حِقْناً لِلدِّماءِ،
قصاص کو خون کی ارزانی روکنے کا، (۴۰)
وَ الْوَفاءَ بِالنَّذْرِ تَعْریضاً لِلْمَغْفِرَةِ،
وفا با لنذرکو مغفرت میں تأثیر کا،
وَ تَوْفِیَةَ الْمَکائیلِ وَ الْمَوازینِ تَغْییراً لِلْبَخْسِ
پورے ناپ تول کے حکم کو کم فروشی سے بچنے کا،
وَ النَّهْىَ عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ تَنْزیهاً عَنِ الرِّجْسِ،
شراب نوشی کی ممانعت کو آلودگی سے بچنے کا، (۴۱)

تشریح کلمات

حقن :
محفوظ رکھنا، روکنا ۔
بخس :
کم دینا۔

۴۰۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب (بقرہ؍۱۷۹)

اے صاحبان عقل ! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔

یعنی قانون قصاص کے ذریعے قتل کا عمل رک سکتا ہے۔ اس طرح اس قانون کے نفاذ سے تمہاری زندگیاں محفوظ ہو جائیں گی۔ چنانچہ اسلام کا قانون قصاص نافذ نہ ہونے کی وجہ سے بعض قبائل میں آج بھی قتل کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

۴۱۔ شراب کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دس افراد پرلعنت بھیجی ہے:

لعن رسول اللہ فی الخمر عشرۃ غارسھا و حارسھا و عاصرھا، وشاربھا وساقیھا و حاملھا، والمحمول لہ و بایعھا ومشتریھا و آکل ثمنھا (الکافی ۶؍۴۲۹)

وہ دس افراد یہ ہیں: اس کی زراعت کرنے والا، اس کی حفاظت کرنے والا، اس کو کشید کرنے والا، اس کو پینے والا، اس کو پلانے والا، اس کو حمل و نقل کرنے والا، اس کو وصول کرنے والا، اس کو فروخت کرنے والا، اس کو خریدنے والا اور اس کی قیمت کھانے والا۔

جس شخص میں بھی یہ خصائل پائے جائیں وہ اس لعنت کا مستوجب قرار پاتا ہے۔

وَ اجْتِنابَ الْقَذْفِ حِجاباً عَنِ اللَّعْنَةِ،
بہتان تراشی سے اجتناب کو نفرت سے بچنے کا،(۴۲)
وَ تَرْکَ السِّرْقَةِ ایجاباً لِلْعِصْمَةِ،
چوری سے پرہیز کو شرافت قائم رکھنے کا،
وَ حَرَّمَ اللَّهُ الشِّرْکَ اِخْلاصاً لَهُ بِالرُّبوُبِیَّةِ
اور شرک کی ممانعت کواپنی ربوبیت کو خالص بنانے کا ذریعہ بنایا۔
فَاتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ، وَ لا تَمُوتُنَّ اِلاَّ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُونَ،
اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو جیسا کہ اس کا خوف کرنے کا حق ہے اور جان نہ دینا مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ (سورہ آل عمران؍۱۰۳)
وَ اَطِیْعُوا اللَّهَ فِیْمَا اَمَرَکُمْ بِهِ وَ نَهَاکُمْ عَنْهُ، فَاِنَّهُ اِنَّمَا یَخْشَی اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ.
اس نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے اور جن چیزوں سے روکا ہے ان میں اللہ کی اطاعت کرو کیونکہ بندوں میں سے صرف علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔

۴۲۔تہمت لگانے کی مذمت کرتے ہوئے اللہ تعالی نے سورۃ نور آیت نمبر۲۳ میں فرمایا:

ان الذین یرمون المحصنات الغافلات المؤمنات لعنوا فی الدنیا و الآخرۃ ولھم عذاب عظیم

جو لوگ بے خبرپاک دامن مؤمنہ عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لئے عذاب عظیم ہے۔

ثُمَّ قَالَتْ:
پھر فرمایا:
اَیُّهَا النَّاسُ! اِعْلَمُوْا اَنّیِ فَاطِمَةُ
لوگو ! تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں فاطمہ ہوں۔ (۴۳)
وَ اَبی مُحَمَّدٌ،
اور میرے پدر محمدؐ ہیں۔

۴۳۔ اصحاب کوعلم تھا کہ فاطمہ کون ہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی منزلت و عظمت اور فضائل کے بارے میں بہت سے فرامین سن چکے تھے۔

چنانچہ فرمایا:

اَقُوْلُ عَوْداً وَ بَدْءاً، وَ لا اَقُوْلُ
میرا حرفِ آخر وہی ہو گا جو حرفِ اول ہے۔
مَا اَقُوْلُ غَلَطاً،
میرے قول میں غلطی کا شائبہ تک نہ ہو گا (۴۴)
وَ لا اَفْعَلُ ما اَفْعَلُ شَطَطاً،
اور نہ میرے عمل میں لغزش کی آمیزش ہو گی۔

تشریح کلمات

شطط :
حق سے دوری۔

الفاطمۃسیدۃ نساء العالمین و سیدۃ نسآء اہل الجنۃ ۔ فاطمۃ بضعۃ منی من اغضبہا اغضبنی (صحیح بخاری ج۱ ص ۵۲۶ ۔۵۳۲ طبع ہاشمی میرٹھ)

فاطمہ میراٹکڑا ہے جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔

انما فاطمۃ بضعۃ منی یوذینی ما آذاھا (صحیح مسلم ج۲ صفحہ ۲۹۰ طبع نول کشور)

فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جو چیز فاطمہ کو اذیت دے اس سے مجھے اذیت ہوتی ہے۔

فاطمۃ بضعۃ منی یوذینی ما اذاہا و ینصبنی ما انصبہا ھذا حدیث حسن صحیح (سنن ترمذی ج۲ صفحہ۲۲۹ طبع دیوبند)

فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس چیزنے فاطمہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔ جس نے فاطمہ سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

۴۴۔امام حاکم نے مستدرک علیٰ الصحیحین جلد ۳ صفحہ ۱۶۰ طبع حیدر آباد دکن میں حضرت عائشہ ؓسے روایت نقل کی ہے :

ما رأیت احد کان اصدق لھجۃ منھا الا ان یکون الذی ولدھا

میں نے فاطمہ سے راست گو کسی کو نہیں دیکھا۔ ہاں صرف ان کے والد کو مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے۔

امام حاکم نے اس حدیث کے ذیل میں اس پر صحت کا حکم یوں لگایا ہے:

لَقَدْ جاءَکُمْ رَسُولٌ مِنْ اَنْفُسِکُمْ عَزیزٌ عَلَیْهِ ما عَنِتُّمْ حَریصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنینَ رَؤُوفٌ رَحیمٌ
بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے۔ تمہیں تکلیف میں دیکھنا اس پر شاق گزرتا ہے۔ وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے۔ اور مؤمنین کیلئے نہایت شفیق و مہربان ہے۔ (سورہ توبہ آیت ۱۲۸) (۴۵)
فَاِنْ تَعْزُوهُ وَتَعْرِفُوهُ تَجِدُوهُ اَبی دُونَ نِسائِکُمْ،
اس رسول کو اگر تم نسب کے حوالے سے پہچاننا چاہتے ہو تووہ میرے باپ ہیں تمہاری عورتوں میں سے کسی کا نہیں۔
وَ اَخَا ابْنِ عَمّی دُونَ رِجالِکُمْ،
وہ میرے چچا زاد (علی ؑ) کے بھائی ہیں تمہارے مردوں میں سے کسی کا نہیں ۔
وَ لَنِعْمَ الْمَعْزِىُّ اِلَیْهِ
یہ نسبت کس درجہ باعث افتخار ہے۔
صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَ الِهِ
اللہ کی رحمت ہوان پر اور ان کی آل پر۔

تشریح کلمات

عنت :
مشقت۔
تعزو:
نسبت دینا۔

ہذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ولم یخر جاہ

یہ حدیث مسلم کی شرط پر بالکل صحیح ہے۔

(المستدرک للحاکم ج ۳ص۱۶۱ طبع دکن)

۴۵۔ اس آیت مبارکہ کے ذریعے سیدۃ کونین سلام اللہ علیھا یہ بتانا چاہتی ہیں کہ میں اس رسولؐ کی بیٹی ہوں جسے تمہیں تکلیف میں دیکھنا شاق گزرتا تھا۔ آج اس نبی کی بیٹی تکلیف میں ہے لیکن تمہیں اس کی پروا نہیں۔ وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں تھے اور مومنین کے لئے نہایت شفیق و مہربان تھے۔ لیکن آج اس نبیؐ بیٹی کا کوئی ہمدرد نظر نہیں آتا۔

فَبَلَّغَ الرِّسالَةَ صادِعاً بِالنَّذارَةِ،
رسولؐ نے اللہ کے پیغام کو واشگاف انداز میں تنبیہ کے ذریعے پہنچایا۔(۴۶)
مائِلاً عَنْ مَدْرَجَةِ الْمُشْرِکینَ، ضارِباً ثَبَجَهُمْ،اخِذاً بِاَکْظامِهِمْ
آپ نے مشرکین کی راہ و روش کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ان پر کمر شکن ضرب لگاکر ان کی گردنیں مروڑ دیں
داعِیاً اِلى سَبیلِ رَبِّهِ بِالْحِکْمَةِ و الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ،
پھر حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ اپنے ربّ کی طرف بلایا۔
یَجُفُّ الْاَصْنامَ وَ یَنْکُثُ الْهامَّ، حَتَّى انْهَزَمَ الْجَمْعُ وَ وَ لَّوُا الدُّبُرَ.
بتوں کو پاش پاش کر دیا اور طاغوتوں کو اس طرح سرنگوں کیا کہ وہ شکست کھا کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔

تشریح کلمات

صادعاً، الصدع:
کھلے طور سے اظہار کرنا۔
مدرجہ :
راہ، مرکز۔
ثبج :
ہر چیز کا درمیانی حصہ۔ کاندھے اور پیٹھ کا درمیانی حصہ۔
ینکت :
سر کے بل گرانا۔

۴۶۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو نذیر و بشیر بناکر بھیجا یعنی تنبیہ کرنے والا اور بشارت دینے والا۔ ان دونوں میں سے تنبیہ کو زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ تنبیہ کا مقصد خطرے سے بچانا ہے۔ خطرات سے بچنے کے بعد بشارت کی نوبت آتی ہے اس لئے فرمایا:

وقل انی انا النذیرالمبین (سورہ حجرآیت ۸۹)

کہدیجئے: میں واضح طور پر تنبیہ کرنے والا ہوں۔

واوحی الی ہذا القرآن لانذرکم بہ ومن بلغ (سورہ انعام آیت ۱۹)

یہ قرآن بذریعہ وحی مجھ پر نازل کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعے تمھاری تنبیہ کروں اور اس کی بھی جس تک یہ قرآن پہنچے۔

حَتَّى تَفَرََّى اللَّیْلُ عَنْ صُبْحِهِ،
یہاں تک کہ شب دیجور میں صبح امید کی روشنی پھیل گئی
وَ اَسْفَرَ الْحَقُّ عَنْ مَحْضِهِ،
اور حق اپنی بے آمیزی کے ساتھ نکھر کر سامنے آ گیا
و نَطَقَ زَعیمُ‏الدّینِ،
اور دین کے پیشوا نے زبان کھولی(۴۷)
وَ خَرَسَتْ شَقاشِقُ الشَّیاطینِ،
اور شیاطین کی زبانوں کو لگام دے دی۔
وَ طاحَ وَ شیظُ النِّفاقِ،
نفاق کی بے وقعت جماعت بھی ہلاک ہو گئی۔
وَ انْحَلَّتْ عُقَدُ الْکُفْرِ وَ الشَّقاقِ،
اور کفر و شقاوت کے بند ٹوٹ گئے،
وَ فُهْتُمْ بِکَلِمَةِ الْاِخْلاصِ فی نَفَرٍ مِنَ الْبیضِ الْخِماصِ.
چند معزز فاقہ کش ہستیوں کی معیت میں تم کلمۂ توحید کا اقرار کرنے لگے،(۴۸)
وَ کُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ،
جبکہ تم آگ کے گڑھے کے دہانے پر تھے

تشریح کلمات

اَلھام:
بزرگان قوم

تفری، الَفْ:

ریُ:
کاٹنا چیرنا۔
شقاشق :
شقشقہ کی جمع اونٹ کا بلبلانا۔
طاح :
ہلاکت۔
وشیظ :
بے وقعت جماعت۔
فُہتُمُ :
تم نے اقرار کیا، زبان پر لایا۔
بیض :
سفید رنگ ہستیاں۔ یعنی معززین۔
خماص:
گرسنہ شکم، زاہد۔

۴۷۔یعنی اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے اپنی زبان گوہر افشاں سے دنیائے انسانیت کے لئے دستور حیات اور آئین زندگی بیان فرمائے جس سے انسانیت بلوغت کے مرحلے میں داخل ہو گئی۔ آپ نے دنیا کو تہذیب سکھائی اور تمدن دیا۔

۴۸۔وہ زہد و تقوی کی پیکر ہستیاں جو دنیا کی تمام آلائشوں سے بے نیاز تھیں اور اکثر اوقات فاقے میں رہتی تھیں۔ وہ کون ہیں وہ صرف اور صرف اہل بیت اطہار ؑکے افراد ہی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام اہلبیتؑ کے بارے میں فرماتے ہیں:

ہم دعائم الاسلام وولائج الاعتصام بہم عاد الحق فی نصابہ و انزاح الباطل عن مقامہ و انقطع لسانہ عن منبتہ (نہج البلاغۃ خطبہ نمبر۲۳۶مطبوعہ مصر)

وہ اسلام کے ستون اور نجات کا مرکز ہیں ان کی وجہ سے حق اپنے اصلی مقام پر پلٹ آیا اور باطل اپنی جگہ سے ہٹ گیا اور اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی۔

مُذْقَةَ الشَّارِبِ، وَ نُهْزَةَ الطَّامِعِ، وَ قُبْسَةَ الْعِجْلانِ، وَ مَوْطِی‏ءَ الْاَقْدامِ،
تم (اپنے دشمنوں کے مقابلے میں) پینے والے کے لئے گھونٹ بھر پانی، طمع و لالچ والے (استعمار گروں کے لیے) ایک تر نو آلہ، جلدی بجھ جانے والی چنگاری اور قدموں کے نیچے پامال ہونے والے خس و خاشاک تھے (یعنی اس سے زیادہ تمہاری حیثیت نہ تھی۔)(۴۹)

تشریح کلمات

مذقہ:
گھونٹ بھر پانی۔
نہزۃ :
فرصت ۔
قبسۃ:
معمولی شعلہ۔

۴۹۔ چنانچہ مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

والدنیا کاسفۃ النور ظاہرۃ الغرور علی حین اصفرار من ورقہا و ایاس من ثمرھا و اغورار من مائھا قد درست منار الہدی وظہرت اعلام الردی فہی متجہمۃ لا ھلھا عابسۃ فی وجہ طالبھا ثمرھا الفتنۃ و طعامہا الجیفۃ وشعارہا الخوف و دثارھا السیف (نہج البلاغہ ج ۱ خطبہ نمبر ۸۷)۔

رسالتمابؐ جب مبعوث ہوئے تو اس وقت دنیا بے رونق و بے نور تھی اور اس کی فریب کاریاں کھلی ہوئی تھیں اس وقت اس کے پتوں میں زروی دوڑی ہوئی تھی اور پھلوں سے ناامیدی تھی۔ پانی زمین میں تہ نشین ہو گیا تھا، ہدایت کے مینار مٹ گئے تھے۔ ہلاکت کے پرچم کھلے ہوئے تھے اس کا پھول فتنہ تھا اور اس کی غذا مردار تھی، اندر کا لباس خوف باہر کا پہناوا تلوار تھا۔‘‘

تَشْرَبُونَ الطَّرْقَ،
تم کیچڑ والے بدبو دار پانی سے پیاس بجھاتے تھے،
وَ تَقْتاتُونَ الْوَرَقَ،
اور گھاس پھونس سے بھوک مٹاتے تھے۔
اَذِلَّةً خاسِئینَ،
تم (اس طرح) ذلت و خواری میں زندگی بسر کرتے تھے۔ (۵۰)
تَخافُونَ اَنْ یَتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِکُمْ،
تمہیں ہمیشہ یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ آس پاس کے لوگ تمہیں کہیں اچک نہ لیں۔
فَاَنْقَذَکُمُ اللَّهُ تَبارَکَ وَ تَعالی بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَ الِهِ بَعْدَ اللَّتَیَّا وَ الَّتی،
ایسے حالات میں اللہ نے تمہیں محمدؐ کے ذریعے نجات دی۔ (۵۱)

تشریح کلمات

الطرق:
تعفن والا پانی۔ اونٹ کے پیشاب سے ملا ہوا پانی۔

قوت سے یعنی غذا ۔

خاسئین، خاسیٔ ؟؟:
ذلیل۔
یتخطفکم،الخطف:
اچک کر لے جانا، اغوا کرنا۔
انقذ :
نجات بخشی۔

۵۰۔اس بات کو مولائے متقیان حضرت علی ؑ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:

ان اللّہ بعث محمداً صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم نذیراً للعالمین و امیناً علی التنزیل و انتم معشر العرب علی شر دین وفی شردار منیخون بین حجارۃ خشن و حیات صم، تشربون الکدر و تأکلون الجشب وتسفکون دمائکم وتقطعون ارحامکم (نہج البلاغۃ خطبہ۲۶طبع مصر)

اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تمام جہانوں کو تنبیہ کرنے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا۔ اے گروہ عرب !اس وقت تم بد ترین دین پر اور بدترین گھروں میں تھے۔ کھردرے پتھروں اور زہریلے سانپوں میں تم بود باش رکھتے تھے۔ گدلا پانی پیتے تھے اور بد ترین غذا کھاتے تھے۔ اپنا خون بہایا کرتے تھے اور قطع رحمی کرتے تھے۔

۵۱۔اشارہ سورہ انفال کی آیت نمبر۲۶ کی طرف ہے، جس میں فرمایا:

واذکروا اذ انتم قلیل مستضعفون فی الارض تخافون ان یتخطفکم الناس فآواکم وایدکم بنصرہ ورزقکم من الطیبات لعلکم تشکرون۔

وہ وقت یاد کرو جب تم تھوڑے تھے تمہیں زمین میں کمزور سمجھا جاتا تھا اور تمہیں خوف رہتا تھا کہ کہیں لوگ تمہیں اچک کر نہ لے جائیں تو اللہ نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہیں تقویت پہنچا دی اور تمہیں پاکیزہ روزی عطا کی تاکہ تم شکر کرو۔

وَ بَعْدَ اَنْ مُنِیَ بِبُهَمِ الرِّجالِ، وَ ذُؤْبانِ الْعَرَبِ، وَ مَرَدَةِ اَهْلِ الْکِتابِ.
(اس سلسلے میں) انہیں زور آوروں، عرب بھیڑیوں اور سرکش اہل کتاب کا مقابلہ کرنا پڑا۔
کُلَّما اَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ اَطْفَأَهَا اللَّهُ،
دشمن جب بھی جنگ کے شعلے بھڑکاتے اللہ انہیں بجھا دیتا۔
اَوْ نَجَمَ قَرْنُ الشَّیْطانِ، اَوْ فَغَرَتْ فاغِرَةٌ مِنَ الْمُشْرِکینَ،
جب بھی کوئی شیطان سر اٹھاتا یا مشرکین میں سے کوئی اژدھا منہ کھولتا،
قَذَفَ اَخاهُ فی لَهَواتِها،
رسول اپنے بھائی(علی ؑ) کو اس کے حلق کی طرف آگے کرتے تھے۔
فَلا یَنْکَفِی‏ءُ حَتَّى یَطَأَ جِناحَها بِأَخْمَصِهِ،
اور وہ (علی ؑ) ان لوگوں کے غرور کو اپنے پیروں تلے پامال کیے بغیر
وَ یَخْمِدَ لَهَبَها بِسَیْفِهِ،
اور اپنی تلوار سے اس آتش کو فرد کیے بغیر نہیں لوٹتے تھے۔(۵۲)

تشریح کلمات

مُنِیَ:
دوچار ہونا پڑا۔
بُہم الرجال:
زور آور لوگ
مردۃ :
سرکش
نجم:
ظاہر ہونا
فغرت:
فاغرۃ، منہ کھولنے والا۔
لہوات:
حلق کا دھانا۔
لاینکفی:
نہیں لوٹتے تھے
صماخ:
کان کے سوراخ پر مارنا۔
اخمص:
تلوے کا وہ حصہ جو زمین سے نہ لگے پورا قدم بھی مراد لیتے ہیں
اخماد:
خاموش کرنا۔

۵۲۔اس سلسلہ میں خود حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

ولقد واسیتہ بنفسی فی المواطن التی تنکص فیھا الابطال وتتأخر فیھا الاقدام (نہج البلاغہ خطبہ۱۹۵)

میں نے پیغمبرؐ کی مدد ان موقعوں پر کی جن موقعوں پر بہادر بھی بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور قدم پیچھے ہٹ جاتے تھے۔

علامہ ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغۃ میں جنگ احد کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’جنگ احد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب زخمی ہو گئے تو لوگوں نے کہا: محمدؐ شہید ہو گئے۔ اس وقت مشرکین کے ایک لشکر نے دیکھا کہ پیغمبرؐ ابھی زندہ ہیں چنانچہ وہ حملہ آور ہوئے۔ رسول ؐخدا نے فرمایا: اے علی اس لشکر کو مجھ سے دور کرو۔ علی ؑ نے اس لشکر پر حملہ کیا اور اس لشکر کے سربراہ کو قتل کیا اسی طرح دوسرے اور تیسرے لشکر نے پھر رسول ؐ اللہ پر حملہ کیا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اے علی ؑ! اس لشکر کو مجھ سے دور کرو۔ علی ؑ نے اس لشکر کے سربراہ کو قتل کیا اور دور بھگا دیا۔ رسول ؐ اللہ نے فرمایا: اس موقع پر جبرئیل نے مجھ سے کہا: علی ؑ کا یہ دفاع حقیقی مواساۃ اور مدد ہے ۔میں نے جبرائیل سے کہا: ایسا کیوں نہ ہو علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔ جبرائیل نے کہا: میں آپ دونوں سے ہوں۔‘‘

مَکْدُوداً فی ذاتِ اللَّهِ،
وہ راہ خدا میں جانفشاں،
مُجْتَهِداً فی اَمْرِ اللَّهِ،
اللہ کے معاملے میں مجاہد (۵۳)،
قَریباً مِنْ رَسُولِ‏اللَّهِ،
رسول اللہ کے نہایت قریبی (۵۴)

تشریح کلمات

مکدود:
کدّسے اسم مفعول جاں فشانی۔

۵۳۔ روایت میں آیا ہے کہ حضرت علی ؑ کے جسم اطہر پر صرف احد کی جنگ میں اسی (۸۰) زخم ایسے لگ گئے تھے کہ مرہم زخم کی ایک طرف سے دوسری طرف نکل جاتا تھا۔

۵۴۔ اس سلسلہ میں متعدد احادیث تمام اسلامی مکاتب فکر کی بنیادی کتب میں موجود ہیں۔ مثلاً حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی ؑ سے فرمایا:

لحمک لحمی ودمک دمی۔ انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی۔ علی منی و انا منہ

سَیِّداً فی اَوْلِیاءِ اللَّهِ،
اور اولیاء اللہ کے سردار تھے۔ (۵۵)
مُشَمِّراً ناصِحاً مُجِدّاً کادِحاً،
وہ(جہاد کیلئے) ہمہ وقت کمر بستہ، امت کے خیر خواہ، عزم محکم کے مالک (اور) راہ حق میں جفاکش تھے۔
لا تَأْخُذُهُ فِی اللَّهِ لَوْمَةَ لائِمٍ.
راہ خدا میں وہ کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے تھے
وَ اَنْتُمَ فی رَفاهِیَّةٍ مِنَ الْعَیْشِ،
مگر تم ان دنوں عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے تھے،
و ادِعُونَ فاکِهُونَ آمِنُونَ،
نیز سکون اور خوشی میں امن و امان کے ساتھ رہتے تھے۔
تَتَرَبَّصُونَ بِنَا الدَّوائِرَ،
تم اس انتظار میں رہتے تھے کہ ہم پر مصیبتیں آئیں
وَ تَتَوَکَّفُونَ الْاَخْبارَ،
اور تمہیں بری خبریں سننے کو ملیں۔

تشریح کلمات

مشمراً :
کپڑے کو پنڈلیوں سے اوپر اٹھانا۔
کادح:
جفاکش۔
وادعون :
آسودہ ۔
فاکھون :
ہنسی مزاح۔
تربص:
انتظار۔
دوائر:
مصائب۔
تتوکفون :
توقع رکھتے تھے۔

۵۵۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء جلد اول ص۴۳ مطبوعہ بیروت میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی ؑ کے بارے میں فرمایا:

یا انس اسکب لی وضؤاً فصلی رکعتین ثم قال یا انس یدخل علیک من ہذا الباب امیر المؤمنین و سید المرسلین وقائد الغر المحجلین و خاتم الوصیین

اے انس! وضو کے لئے پانی فراہم کرو۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی پھر فرمایا: اے انس! اس دروازے سے تیرے پاس وہ شخص آئے گا جو مومنوں کا امیر، مسلمانوں کا سردار اور روشن چہرے والوں کے رہنما اور خاتم اوصیاء ہو گا۔

وَ تَنْکُصُونَ عِنْدَ النِّزالِ،وَ تَفِرُّونَ مِنَ الْقِتالِ
تم جنگ کے وقت پسپائی اختیار کر تے تھے اور لڑائی میں راہ فرار اختیار کرتے تھے۔ (۵۶)
فَلَمَّا اِختارَ اللَّهُ لِنَبِیِّهِ دارَ اَنْبِیائِهِ وَ مَأْوى اَصْفِیائِهِ،
پھر جب اللہ نے اپنے نبیؐ کے لئے مسکن انبیاء اور برگزیدہ گان کی قرار گاہ (آخرت) کو پسند کیا۔

تشریح کلمات

نکص:
پسپائی اختیار کی۔
نزال:
مقابلہ۔ جنگ کا۔

۵۶۔ تاریخ کے ادنی طالب علم پر بھی یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام کی فیصلہ کن جنگوں میں کن لوگوں نے راہ فرار اختیار کی۔ قرآن کریم نے بھی اس بات کو اپنے صفحات پر اس انداز میں ثبت کیا ہے کہ بھاگنے والوں کے لیے عذر کی گنجائش باقی نہ رہے فرمایا:

اذتصعدون ولاتلوون علی احد و الرسول یدعوکم فی اخراکم ( سورہ آل عمران آیت۱۵۳)

جب تم چڑھائی کی طرف بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو پلٹ کر نہیں دیکھ رہے تھے حالانکہ رسول تمہارے پیچھے تمہیں پکار رہے تھے۔

اس آیت میں والرسول یدعوکم ’’رسول تمہیں پکار رہے تھے‘‘ کا جملہ شاہد ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پکار سن رہے تھے اور بھاگ رہے تھے۔ اگر نہ سنتے تو یدعوکم کی تعبیر اختیار نہ فرماتا۔

یوم حنین کے بارے میں فرمایا:

لقد نصرکم اللّہ فی مواطن کثیرۃ و یوم حنین اذا عجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئاً و ضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین (سورہ توبہ آیت۲۵)

بتحقیق اللہ بہت سے مقامات پر تمہاری مدد کر چکا ہے اور حنین کے دن بھی جب تمہاری کثرت نے تم کو غرور میں مبتلا کر دیا تھا مگر وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آیا اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ پھر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

ظَهَرَ فیکُمْ حَسْکَةُ النِّفاقِ،
تو تمہارے دلوں میں نفاق کے کانٹے نکل آئے (۵۷)
وَ سَمَلَ جِلْبابُ الدّینِ،
اور دین کا لبادہ تار تار ہو گیا۔
وَ نَطَقَ کاظِمُ الْغَاوِیْنَ،
ضلالت کی زبانیں چلنے لگیں۔
وَ نَبَغَ خَامِلُ الْاَقَلّینَ،
بے مایہ لوگوں نے سر اٹھانا شروع کیا،
وَ هَدَرَ فَنیقُ الْمُبْطِلینَ،
اور باطل کے سرداروں نے گرجنا شروع کر دیا۔ (۵۸)
فَخَطَرَ فی عَرَصاتِکُمْ،
پھر وہ دم ہلاتے ہوئے تمہارے اجتماعات میں آگئے۔

تشریح کلمات

حسیکۃ:
کانٹا۔
سمل:
بوسیدہ ہو گیا۔
جلباب:
قمیص، چادر۔
نبغ:
نبوغ ظاہر ہونا۔
خامل:
گمنام پست آدمی۔
ہدر:
گرجنا، اونٹ کا بلبلانا۔
فنیق:
سردار۔نر اونٹ ۔
خَطَرَ:؟
دم ہلایا۔

۵۷۔صحیح بخاری کتاب الدیات میں حسب ذیل حدیث مروی ہے :

عن ابن عمر انہ سمع النبیؐ یقول: لا ترجعوا بعدی کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض

عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ انہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا : میرے بعد تم کافر مت بنو کہ ایک دوسرے کی گردن مارو۔

ابوذرعہ اپنے دادا حضرت جریر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:

انصت الناس ثم قال: لا ترجعوا بعدی کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض

لوگوں کو خاموش کیا پھر فرمایا: میرے بعد کافر مت بنو کہ ایک دوسرے کی گردن مارو

۵۸۔ حضرت علی ؑ نے بھی اس وقت کے حالات پر اسی قسم کا تبصرہ فرمایا ہے:

الا و ان بلیتکم قد عادت کھیئتھا یوم بعث اللّہ نبیکم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم والذی بعثہ بالحق لتبلبلُن بلبلۃ ولتغربلن غربلۃ و لتساطن سوط القدر حتی یعود اسفلکم اعلاکم و اعلاکم اسفلکم ولیسبقن سابقون کانوا قصروا و لیقصرن سباقون کانوا سبقوا (نہج البلاغۃ خطبہ۱۶طبع مصر)

تمہیں جاننا چاہئے کہ تمہارے لیے وہی ابتلا پھر پلٹ آیا ہے جو رسولؐ کی بعثت کے وقت موجود تھا۔ اس ذات کی قسم جس نے رسول کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا تم بری طرح تہ و بالا کیے جاؤ گے اور اس طرح چھانٹے جاؤ گے جس طرح چھلنی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور تم اس طرح خلط ملط کیے جاؤ گے جس طرح(چمچے سے) ہنڈیا۔ یہاں تک تمہارے ادنی لوگ اعلیٰ اور اعلیٰ لوگ ادنی ہو جائیں گے، جو پیچھے تھے وہ آگے بڑھ جائیں گے اور جو ہمیشہ آگے رہتے تھے وہ پیچھے چلے جائیں گے۔

وَ اَطْلَعَ الشَّیْطانُ رَأْسَهُ مِنْ مَغْرَزِهِ،هَاتِفاً بِکُمْ،
شیطان بھی اپنی کمین گاہ سے سر نکالا اور تمہیں پکارنے لگا۔
فَأَلْفاکُمْ لِدَعْوَتِهِ مُسْتَجِیْبَیْنَ،
اس نے تمہیں اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے پایا۔
وَ لِلْغِرَّةِ فِیهِ مُلاحِظِیْنَ،
اور اس کے مکرو فریب کے لیے آمادہ و منتظر پایا۔
ثُمَّ اسْتَنْهَضَکُمْ فَوَجَدَکُمْ خِفافاً،
پھر شیطان نے تمہیں اپنے مقصد کے لئے اٹھایا اور تمہیں سبک رفتاری سے اٹھتے دیکھا۔

تشریح کلمات

مغرز:
ڈسنے کی جگہ ۔ کمین گاہ۔
الفاکم:
پایا تم کو۔
الغرۃ:
دھوکہ۔
وَ اَحْمَشَکُمْ فَاَلْفاکُمْ غِضاباً،
اس نے تمہیں بھڑکایا تو تم فوراً غضب میں آ گئے۔
فَوَسَمْتُمْ غَیْرَ اِبِلِکُمْ،
تم نے اپنے نشان دوسروں کے اونٹوں پر لگا دیے۔ (۵۹)
وَ وَرَدْتُمْ غَیْرَ مَشْرَبِکُمْ. هذا،
اور اپنے گھاٹ کی جگہ دوسروں کے گھاٹ سے پانی بھرنے کی کوشش کی۔(۶۰)
وَ الْعَهْدُ قَریبٌ،وَالْکَلْمُ رَحیبٌ،
یہ تمہاری حالت ہے جبکہ ابھی عہد رسول قریب ہی گذرا ہے، زخم گہرا ہے (۶۱)
وَ الْجُرْحُ لَمَّا یَنْدَمِلُ،
اور جراحت ابھی مندمل نہیں ہوئی۔
وَ الرَّسُولُ لَمَّا یُقْبَرُ، اِبْتِداراً زَعَمْتُمْ خَوْفَ الْفِتْنَةِ،
ابھی رسول ؐ کی تدفین نہیں ہوئی تھی کہ تم نے فتنہ کا بہانہ بنا کر عجلت سے کام لیا۔

تشریح کلمات

احمسکم :
تمہیں بھڑکایا حمس جوش دلایا۔
وسمتم الوسم:
نشان لگانا۔
الکلم:
زخم۔
رحیب:
وسیع

۵۹۔ تم نے دوسروں کے اونٹوں پر اپنا نشان لگایا ہے یعنی دوسروں کے حقوق پر بے جا تصرف کیا ہے۔ واضح رہے کہ عربوں میں یہ رواج عام تھا کہ ہر مالک اپنے اونٹوں پر خاص قسم کی نشانی لگاتے تھے کہ مالک اپنے اونٹ کو پہچان سکے۔

۶۰۔ ہر قوم اور ہر قبیلہ اپنا اپنا گھاٹ مخصوص رکھتے تھے۔ اس فرمان میں یہ اشارہ ہے کہ تم کو اپنی حدود میں رہنا چاہئے تھا مگر تم نے دوسروں کے حقوق پر دست درازی کی ہے۔

۶۱۔ یعنی عہد رسالتؐ کو کوئی زیادہ عرصہ نہیں گذرا۔

۶۲۔یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تدفین سے پہلے مسند خلافت پرقبضہ کرنے کے عمل کی سرزنش کی جا رہی ہے۔ خلافت پر قبضہ کرنے والوں کی یہ توجیہ پیش کی کہ ہم نے فتنہ کے خوف سے تدفین رسولؐ پر خلافت کو ترجیح دی۔ حضرت فاطمہ زہرا ؑ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی جس کی رو سے جنگ تبوک میں شرکت نہ کرنے والوں نے یہ عذر تراشا تھا کہ ہم نے جنگ میں اس لیے شرکت نہیں کی کہ رومی عورتوں پر فریفتہ ہو کر کہیں فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ قرآن حکیم نے ان کے جواب میں فرمایا تھا: الا فی الفتنہ سقطوا دیکھو یہ فتنے میں پڑ چکے ہیں یعنی یہ عذر تراشی خود سب سے بڑا فتنہ ہے۔

۶۳۔ یعنی امامت و خلافت سے تمہارا دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ عام انسان نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ مقام تمہارے پاس آئے گا۔ چنانچہ تاریخی شواہد گواہ ہیں کہ عام مہاجرین اور انصار میں سے کسی کو اس بات میں شک نہ تھا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد خلافت حضرت علی ؑ کی ہو گی۔

(ملاحظہ فرمائیں:موفقیات ص۵۸۰ طبع بغداد)

۶۴۔تمام ادیان میں امامت کا جو مقام و معیار رہا ہے وہ قرآن پاک سے ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی نسلوں میں امامت کا سلسلہ قائم رہا تو کس اساس پر رہا۔

اَلا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوا، وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحیطَةٌ بِالْکافِرینَ.
دیکھو یہ فتنے میں پڑ چکے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو گھیر رکھا ہے۔ (توبہ؍۴۹)
فَهَیْهاتَ مِنْکُمْ، وَ کَیْفَ بِکُمْ،
تم سے بعید تھا کہ تم نے یہ کیسے سوچا؟
وَ اَنَّى تُؤْفَکُونَ،
تم کدھر بہکے جا رہے ہو؟ (۶۳)
وَ کِتابُ اللَّهِ بَیْنَ اَظْهُرِکُمْ،
حالانکہ کتاب خدا تمہارے درمیان ہے، (۶۴)
اُمُورُهُ ظاهِرَةٌ،
جس کے دستور واضح،
وَ اَحْکامُهُ زاهِرَةٌ،
احکام روشن،
وَ اَعْلامُهُ باهِرَةٌ،
تعلیمات آشکار،
و زَواجِرُهُ لائِحَةٌ،
تنبیہات غیر مبہم،
وَ اَوامِرُهُ واضِحَةٌ،
اور اس کے اوامر واضح ہیں۔
وَ قَدْ خَلَّفْتُمُوهُ وَراءَ ظُهُورِکُمْ،
اس قرآن کو تم نے پس پشت ڈال دیا۔ کیا تم اس سے منہ موڑ لینا چاہتے ہو؟
أَرَغْبَةً عَنْهُ تُریدُونَ؟ اَمْ بِغَیْرِهِ تَحْکُمُونَ؟
کیا تم اس کے بغیر فیصلے کرنے کے خواہاں ہو؟
بِئْسَ لِلظَّالمینَ بَدَلاً،
یہ ظالموں کے لیے برا بدل ہے
وَ مَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلامِ دیناً فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ، وَ هُوَ فِی الْاخِرَةِ مِنَ الْخاسِرینِ.
اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواہاں ہو گا وہ اسے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔
ثُمَّ لَمْ تَلْبَثُوا اِلى رَیْثَ اَنْ تَسْکُنَ نَفْرَتَها، وَ یَسْلَسَ قِیادَها،
پھر تمہیں خلافت حاصل کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ خلافت کے بدکے ہوئے ناقہ کے رام ہونے اور مہار تھامنے کا بھی تم نے مشکل سے انتظار کیا (۶۵)
ثُمَّ اَخَذْتُمْ تُورُونَ وَ قْدَتَها،
پھر تم نے آتش فتنہ کو بھڑکایا
وَ تُهَیِّجُونَ جَمْرَتَها،
اور اس کے شعلے کو پھیلانا شروع کیا

تشریح کلمات

لم تلبثوا، لبث:
انتظار کرنا۔ ٹھہرے رہنا۔
ریثما:
بقدر۔
یسلس، سلس:
آسان ہونا۔
تورون:
آگ بھڑکانا۔
وَقْدَۃ:
شعلہ۔
جمرۃ:
چنگاری۔

۶۵۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کا وصال سوموار کے دن ظہر کے وقت ہوا۔ حضرت عمر بن خطاب، مغیرہ بن شعبہ کے ہمراہ آئے اور نبی کریمؐ کے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹا کر کہنے لگے: کیا گہری بے ہوشی ہے رسولؐ اللہ کی، مغیرہ نے کہا: حضور کا انتقال ہو گیا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو۔ تم فتنہ پرور آدمی ہو۔ رسولؐ اللہ منافقین کے خاتمہ تک زندہ رہیں گے (مسند امام احمد ج۳ ص ۲۱۰)۔ اس وقت حضرت ابوبکر مدینہ سے باہر اپنے گھر ’’المسنح‘‘نامی جگہ پر تھے۔

مشہور مؤرخ ابن جریر طبری نے لکھا ہے : لما قبض النبیؐ کان ابوبکر غائباً فجأبعد ثلاثۃ ایام ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتقال ہوا تو ابوبکر غائب تھے، تین دن بعد آئے‘‘۔(تاریخ طبری ج۳ ص ۱۹۸ طبع مصر)

حضرت ابن ام مکتوم ؓنے حضرت عمر کو یہ آیت پڑھ کر سنائی: وما محمد الارسول قد خلت من قبلہ الرسل افأن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم تو حضرت عمر نے اعتنا نہ کی۔

دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر کو مسجد میں لوگوں نے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ حضرت عمر اس قدر بولتے رہے کہ منہ سے جھاگ نکلنے لگا (کنزالعمال ج ۲ص۵۳طبعدکن) جب حضرت ابوبکر اپنے گھر مسخ سے آگئے تو انہوں نے بھی اسی آیت کی تلاوت کی جو ابن ام مکتومؓ پہلے سنا چکے تھے۔ اس پر حضرت عمر نے کہا :کیا یہ آیت قرآن میں ہے؟ اور بعد ازاں مان گئے کہ حضور ؐکا انتقال ہو گیا ہے یعنی حضرت ابوبکر کے آنے کے بعد قبول کیا۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابو بکر کی بیعت لینے کے بعد عام بیعت کے لئے وہ مسجد نبوی آگئے تو حضرت عباس ؓاور حضرت علی ؑابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غسل دینے میں مصروف تھے (العقد الفرید ج ۴ ص ۲۵۸ طبع مطعبۃ ازہریہ مصر)۔چنانچہ حضرت عروہ بن زبیر جو حضرت ابوبکر کے نواسے اور جناب اسماء بنت ابی بکرؓ کے فرزند ارحمبند ہیں روایت کرتے ہیں کہ ان ابابکر وعمر لم یشہدا دفن النبی ؐ وکانا فی الانصار فدفن قبل ان یرجعا ’’حضرت ابوبکر وعمر دونوں جنازہ اور دفن رسول ؐ میں حاضر نہیں ہوئے اور وہ دونوں انصار میں تھے اور حضورؐ ان دونوں کے واپس ہونے سے پہلے ہی دفن کر دئیے گئے‘‘ (کنز العمال ج۳ص۱۴۰ طبع دکن)۔یہ لوگ رسول اللہؐ کی تدفین کے لیے بھی حاضر نہ ہوئے۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ’’ہمیں رسول اللہ ؐ کی تدفین کا علم بدھ کی رات کو ہوا‘‘۔(تاریخ طبری ۲ ص ۴۵۲)۔ اس سلسلہ میں مزید تحقیق کے لیے تاریخی کتب کا مطالعہ ضرور کریں۔

وَ تَسْتَجیبُونَ لِهِتافِ الشَّیْطانِ الْغَوِىِّ،
اور تم شیطان کی گمراہ کن پکار پر لبیک کہنے لگے۔
وَ اِطْفاءِ اَنْوارِالدّینِ الْجَلِیِّ، وَ اِهْمالِ سُنَنِ النَّبِیِّ الصَّفِیِّ،
تم دین کے روشن چراغوں کو بجھانے اور برگزیدہ نبی کی تعلیمات سے چشم پوشی کرنے لگے۔

تشریح کلمات

ہتاف:
پکار۔
تُسِرُّونَ حَسْواً فِی ارْتِغاءٍ،
تم بالائی لینے کے بہانے پورے دودھ کو پی جاتے ہو(۶۶)
وَ تَمْشُونَ لِاَهْلِهِ وَ وَلَدِهِ فِی الْخَمَرِ وَ الضَّرَّاءِ،
اور رسولؐ کی اولاد اور اہل بیت ؑکے خلاف خفیہ چالیں چلتے ہو۔ (۶۷)
وَ نَصْبِرُ مِنْکُمْ عَلى مِثْلِ حَزِّ الْمَدى، وَ وَخْزِالسِّنَانِ‏فىِ‏الْحَشَاءِ
تمہاری طرف سے خنجر کے زخم اور نیزے کے وار کے باوجود ہم صبر سے کام لیں گے

تشریح کلمات

حسواً:
تھوڑا تھوڑا کر کے پینا۔
الارتغاء:
دودھ سے جھاگ اتارنا۔
الخمر :
چھپانا، خفیہ رکھنا۔
الضراء :
گھنے درخت۔
الحز:
کاٹنا۔
الُمدُی :
چھری، خنجر۔
وَخز:
زخم لگانا۔

۶۶۔ ایک ضرب المثل مشہور ہے :’’ دودھ کے برتن سے بالائی لینے کے بہانے پورے دودھ کو پی جانا‘‘۔ یہ اس شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو کسی کے لیے بظاہر کام کرتا دکھائی دے لیکن درحقیقت وہ اپنے مفاد میں کام کر رہا ہو۔

۶۷۔ حکومت کو تین گروہوں کی طرف سے مخالفت کا خدشہ تھا۔ انصار، بنی امیہ اور بنی ہاشم۔ مگر سب سے زیادہ بنی ہاشم سے خطرہ تھا۔ اس لیے اہل بیت ؑپر تشدد کیا گیا اور بنی ہاشم میں سے کسی کو بھی کوئی منصب نہیں دیا گیا۔ البتہ انصار اور بنی امیہ کے ساتھ سمجھوتہ ہو گیا اور ان کو بھی اقتدار میں شریک کیا گیا ان کو بڑے کلیدی عہدوں سے نوازا۔ چنانچہ حبر الامت حضرت ابن عباسؓ نے حلب کی گورنری کی درخواست پیش کی لیکن یہ کہ کر رد کر دی گئی کہ اگر ہم بنی ہاشم کو شریک اقتدار کریں تو وہ اسے اپنے مفاد میں استعمال کر سکتے ہیں جبکہ ابو سفیان نے حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں کہا تھا: انی لاری عجاجۃ لایطفئہا الا الدم ’’میں اس قسم کا گرد و غبار دیکھ رہا ہوں جس کو صرف خون ہی ختم کر سکتا ہے‘‘ لیکن برسر اقتدار افراد نے ابوسفیان کے بیٹے یزید بن ابی سفیان کو شام کا والی بنا دیا اور اس کے مرنے کے فوراً بعد اس کے بھائی معاویہ کو والی بنا دیا گیا۔

وَ اَنْتُمُ الانَ تَزَْعُمُونَ اَنْ لا اِرْثَ لَنا
اب تمہارا یہ خیال ہے کہ رسول ؐ کی میراث میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہیـ۔
أَفَحُکْمَ الْجاهِلِیَّةِ تَبْغُونَ،
کیا تم لوگ جاہلیت کے دستور کے خواہاں ہو؟(۶۸)
وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُکْماً لِقَومٍ یُوقِنُونَ،
اور اہل یقین کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے؟
أَفَلا تَعْلَمُونَ؟
کیا تم جانتے نہیں ہو؟
بَلى،قَدْ تَجَلَّى لَکُمْ کَالشَّمْسِ الضَّاحِیَةِ
کیوں نہیں! یہ بات تمہارے لیے روز روشن کی طرح واضح ہے
أَنّی اِبْنَتُهُ
کہ میں رسولؐ کی بیٹی ہوں۔
اَیُّهَا الْمُسْلِمُونَ! أَاُغْلَبُ عَلى اِرْثی؟
مسلمانو! کیا میں ارث میں محرومی پر مجبور ہوں (۶۹)
یَابْنَ اَبی‏قُحافَةَ! اَفی کِتابِ اللَّهِ تَرِثُ اَباکَ وَ لا اَرِثُ اَبی؟ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئاً فَرِیّاً،
اے ابو قحافہ کے بیٹے!کیا اللہ کی کتاب میں ہے کہ تمہیں اپنے باپ کی میراث مل جائے اور مجھے اپنے باپ کی میراث نہ ملے۔ (۷۰)
اَفَعَلى عَمْدٍ تَرَکْتُمْ کِتابَ اللَّهِ
تم نے بری چیز پیش کی کیا تم نے جان بوجھ کر کتاب اللہ کو ترک کیا
وَ نَبَذْتُمُوهُ وَراءَ ظُهُورِکُمْ،
اور اسے پس پشت ڈال دیا ہے

۶۸۔ چونکہ جاہلیت میں لڑکی و ارث نہیں بن سکتی تھی۔

۶۹۔اس تعبیر میں کہ (کیا میں ارث سے محرومی پر مجبور و مغلوب ہوں؟) اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ارث سے محرومی کے لئے منطق اور دلیل کی جگہ طاقت استعمال کی گئی ہے۔

۷۰۔اس جملے میں میراث نہ ملنے کو ایک قسم کی اہانت قرار دیا ہے : اے مخاطب! کیا تو اس قابل ہے کہ اپنے باپ کا وارث بن جائے لیکن میں اس قابل نہیں ہوں کہ اپنے والد کی وارث بنوں؟۔

ترکہ ٔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے درج ذیل املاک بطور ترکہ چھوڑے:

۱۔ حوائط سبعہ سات احاطے

۲۔ بنی نضیر کا قطعہ ارضی

۳۔ خیبر کے تین قلعے

۴۔ وادی قری کی ایک تہائی حصہ

۵۔ مھزور (مدینہ میں بازار کی ایک جگہ)

۶ ۔ فدک

حوائط سبعہ میں سے چھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وقف فرمایا تھا۔ بنی نضیر کی زمین میں سے کچھ عبدالرحمن ؓبن عوف اور ابی دجانہ ؓوغیرہ کو مرحمت فرمایا تھا۔ خیبر کے کچھ قلعے ازواج کو عنایت فرمایا اور فدک حضرت فاطمۃ الزھراء علیھا السلام کو عنایت فرمائے اس سلسلہ میں مزید کتب تاریخ کا مطالعہ کیا جائے۔

تاریخ شاہد ہے کہ جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد دیگر افراد سے کوئی چیز واپس نہیں لی گئی۔ صرف فدک کو حضرت زھراء علیھا السلام کے قبضہ سے واپس لیا گیا۔ جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کو حاکم وقت سے تین چیزوں کا مطالبہ تھا:

۱۔ ھبہ: حضرت فاطمہؑ نے فرمایا : فدک رسول اللہ ؐنے مجھے ہبہ کر کے دیا۔ جس پر حضرت ابو بکر نے گواہ طلب کیے حضرت فاطمہؑ نے حضرت ام ایمن، رسول کے غلام رباح اور حضرت علی ؑ کو بطور گواہ پیش کیا لیکن یہ گواہ رد کردئے گئے(ملاحظہ ہو فتوح البلدان ج۱ ص۳۴ مطبوعہ مصر)

۲۔ ارث: یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت فاطمہ علیہا السلام نے اپنے والد کی میراث کا مطالبہ کیا تو صرف ایک راوی کو روایت کی بنیاد بنا کریہ مطالبہ مسترد کیا گیا اور راوی بھی خود مدعی ہے۔

۳۔سہم ذوالقربیٰ: حضرت فاطمہ ؑ نے اپنے والد کی میراث سے محرومیت کے بعد خمس میں سے سہم ذوالقربی (یعنی رسول کے قرابتداروں کا حصہ) کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ بھی صرف ایک صحابی کی روایت کی بنیاد پر رد کیا گیا۔ حضرت ام ہانی ؓکا بیان ہے کہ حضرت فاطمہ ؑنے سہم ذوالقربی کا مطالبہ کیا تو حضرت ابو بکر نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ ذوالقربی کا حصہ میری زندگی میں تو ان کو ملے گا لیکن میری زندگی کے بعد ان کو نہیں ملے گا (ملاخطہ ہو کنز العمال ج۵ ص۳۶۷)

إذْ یَقُولُ‪:‬
جبکہ قرآن کہتا ہے
وَ وَرِثَ سُلَیْمانُ داوُدَ
اور سلیمان داؤد کے وارث بنے(۷۱)
وَ قالَ فیما اقْتَصَّ مِنْ خَبَرِ زَکَرِیَّا اِذْ قالَ:
اور یحییٰ بن زکریا کے ذکر میں فرمایا: جب انہوں نے خدا سے عرض کی:
فَهَبْ لی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیّاً
پس تو مجھے اپنے فضل سے ایک جانشین عطا فرما
یَرِثُنی وَ یَرِثُ مِنْ الِ‏یَعْقُوبَ،
جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے، (۷۲)

۷۱۔ اس آیت مبارکہ کا اطلاق مالی میراث کو بھی شامل ہے، بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ یہاں وراثت سے مراد حکمت و نبوت نہیں ہے کیونکہ قرآن میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو حضرت داؤد علیہ السلام کی زندگی میں ہی حکمت دے دی گئی تھی چنانچہ ارشاد رب العباد ہے:

و داؤد و سلیمان اذ یحکمٰن فی الحرث اذ نفشت فیہ غنم القوم و کنا لحکمھم شاھدین۔ ففھمنٰھا سلیمان وکلاً آتینا حکماً و علماً (سورۂ انبیاء ۷۸۔۷۹)

اور داؤد و سلیمان کو بھی (نوازا) جب وہ دونوں ایک کھیت کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں رات کے وقت لوگوں کی بکریاں بکھر گئی تھیں اور ہم ان کے فیصلے مشاہدہ کر رہے تھے۔ تو ہم نے سلیمان کو اس کا فیصلہ سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو حکمت اور علم عطا کیا ۔

۷۲۔حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی:

انی خفت الموالی من ورائی و کانت امرأتی عاقراً فہب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من آل یعقوب.

میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو اپنے فضل سے مجھے ایک جانشین عطا فرما جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے۔

ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اپنے رشتہ داروں سے نبوت کی میراث لے جانے کا خوف تو نہیں تھا کیونکہ نبوت ایسی چیز نہیں جسے رشتہ دار ناجائز طور پر لے جائیں۔ بلکہ یہاں یقینا مالی وارثت مراد ہے۔

اس سلسلے میں امام سرخسی کا استنباط قابل توجہ ہے ۔ آپ اپنی معروف فقہی کتاب ’’المبسوط‘‘ جلد ۱۲، صفحہ ۳۶ باب الوقف طبع دار الکتب العلمیہ بیروت میں لکھتے ہیں :

واستدل بعض مشایخنا رحمھم اللّٰہ تعالی بقولہ علیہ الصلوۃ والسلام انّا معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقۃ فقالوا معناہ ما ترکناہ صدقۃ لا یورث ذلک و لیس المراد ان اموال الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام لا تورث وقد قال اللّہ تعالی {وورث سلیمان داؤد} وقال اللّہ تعالی: {فھب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من آل یعقوب} فحاشا ان یتکلم رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم بخلاف المنزل فعلی ھذا التاویل فی الحدیث بیان ان لزوم الوقف من الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام خاصۃ بناء علی ان الوعد منھم کالعھد من غیرھم.

ہمارے بعض اساتذہ نے وقف کے ناقابل تنسیخ ہونے پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے: انّا معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقۃ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے جو مال بعنوان صدقہ (وقف) چھوڑا ہے اس کا ہم سے کوئی وارث نہیں ہوتا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے اموال کے وارث نہیں ہوتے جب کہ اللہ تعالی نے فرمایا:وورث سلیمان داؤد نیز فرمایا :فھب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من اٰل یعقوب پس ممکن نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے خلاف بات کریں۔ حدیث کی اس توجیہ سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف سے وقف کا ناقابل تنسیخ ہونا ایک خصوصی بات ہے کیونکہ انبیاء کے ’’وعدے‘‘ دوسرے لوگوں کے ’’معاہدے‘‘ کی طرح ہے‘‘۔

وَ قالَ: وَ اوُلُوا الْاَرْحامِ بَعْضُهُمْ اَوْلی ببَعْضٍ فی کِتابِ اللَّهِ،
نیز فرمایا: اللہ کی کتاب میں خونی رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ (۷۳)

۷۳۔اس آیت میں وراثت کا ایک اصول صریح لفظوں میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ خونی رشتہ دار وراثت کے زیادہ حقدار ہیں۔ اس سے پہلے انصار و مہاجرین میں باہمی توارث کا حکم نافذ تھا جو اس آیت سے منسوخ ہو گیا۔

وَ قالَ‪:‬
نیز فرمایا:
یُوصیکُمُ اللَّهُ فی اَوْلادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ،
اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں ہدایت فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔ (۷۴)
وَ قالَ‪:‬
نیز فرمایا:
اِنْ تَرَکَ خَیْراً الْوَصِیَّةَ لِلْوالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبَیْنِ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَى الْمُتَّقینَ
اگر مرنے والا مال چھوڑ جائے، تو اسے چاہیے کہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے مناسب طور پر وصیت کرے۔ (۷۵)
وَ زَعَمْتُمْ اَنْ لا حَظْوَةَ لی، وَ لا اَرِثُ مِنْ اَبی، وَ لا رَحِمَ بَیْنَنا،
اس کے باوجود تمہارا خیال ہے کہ میرے باپ کی طرف سے میرے لیے نہ کوئی وقعت ہے نہ ارث اور نہ ہمارے درمیان کوئی رشتہ۔
اَفَخَصَّکُمُ اللَّهُ بِایَةٍ اَخْرَجَ اَبی مِنْها؟
کیا اللہ نے تمہارے لیے کوئی مخصوص آیت نازل کی ہے جس میں میرے والد گرامی شامل نہیں ہیں؟
اَمْ هَلْ تَقُولُونَ: اِنَّ اَهْلَ مِلَّتَیْنِ لا یَتَوارَثانِ؟
کیا تم یہ کہتے ہو کہ دو مختلف دین والے باہم وارث نہیں بن سکتے۔

تشریح کلمات

حْظوۃ:
عزت، منزلت۔

۷۴۔ اولاد کی میراث کے بارے اللہ تعا لیٰ کی طرف سے اس صریح ہدایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی اولاد کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔

۷۵۔والدین اور قریبی رشتہ داروں کے بارے میں ارث کے باوجود وصیت کی تاکید ہے چونکہ والدین ہر صورت میں وارث ہیں تو جہاں میراث کے باوجود وصیت کا حکم ہے وہاں اصل میراث سے محروم کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟

اَوَ لَسْتُ اَنَا وَ اَبی مِنْ اَهْلِ مِلَّةٍ واحِدَةٍ؟
کیا میں اور میرے والد ایک ہی دین سے تعلق نہیں رکھتے؟
اَمْ اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِخُصُوصِ الْقُرْانِ وَ عُمُومِهِ مِنْ اَبی وَابْنِ عَمّی؟
کیا میرے باپ اور میرے چچازاد (علی ؑ) سے زیادہ تم قرآن کے عمومی و خصوصی احکام کا علم رکھتے ہو۔ (۷۶)

۷۶۔ جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے میراث کی چار صورتیں بتائی ہیں جن کے مطابق آپ ارث سے محروم رہ سکتی تھیں۔

پہلی صورت :یہ کہ درمیان میں کوئی رشتہ نہ ہو ٫لا رحم بیننا۔

دوسری صورت :یہ کہ قرآنی آیت سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہو کہ ان کا کوئی وارث نہیں بن سکتا۔

تیسری صورت : یہ کہ اگر دونوں رشتہ دار ایک دین سے تعلق نہ رکھتے ہوں تو آپس میں وارث نہ بن سکیں گے۔

چوتھی صورت :یہ کہ میراث کے بارے میں قرآن کے عمومی حکم کی تخصیص پر کوئی دلیل موجود ہو۔

پہلی صورت سب کے لئے واضح ہے کہ جناب فاطمۃ الزھراء ؑ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی ہیں۔

دوسری صورت بھی واضح ہے کہ قرآن میں کوئی ایسی آیت موجود نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مستثنیٰ قرار دے۔

تیسری صورت بھی واضح ہے کہ (باپ اور بیٹی) دونوں ایک ہی دین(اسلام) سے تعلق رکھتے ہیں۔

چوتھی صورت یہ تھی کہ کسی خاص ارث کے بارے میں قرآن کے حکم کی عام دلیل سے تخصیص ہو گئی ہو۔

اس چوتھی صورت کے بارے میں جناب فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا یہ استدلال فرماتی ہیں کہ اگر میراث کے قرآنی حکم کی تخصیص ہو گئی ہوتی تو اس کا واحد ماخذ میرے پدر بزرگوار ہیں۔ کیا تم ان سے زیادہ جانتے ہو؟ ان کے بعد میرے ابن عم (علی ابن ابی طالبؑ) قرآنی علوم کا سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ آیا تم ان سے بھی زیادہ جانتے ہو؟ واضح رہے کہ آیت وانذر عشیرتک الاقربین (سورہ شعراء آیت :۲۱۴) ’’اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو تنبیہ کیجئے‘‘ کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر فرض عینی ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ان کے متعلقہ احکام بیان فرمائیں۔ یہاں نہ اللہ کا رسول اس حکم قرآنی کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں کہ جناب فاطمہ ؑ کو میراث کا حکم تعلیم نہ فرمائیں نہ حضورؐ کی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمۃ الزھراء ؑ اپنے باپ کے حکم کی نافرمانی کر سکتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیان کے باوجود میراث کا مطالبہ کریں۔

یہ بھی واضح رہے کہ میراث رسول ؐ کے بارے میں خود مدعی کے علاوہ کوئی اور شاہد یا راوی موجود نہ تھا چنانچہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے :

واختلفوا فی میراثہ فما وجدوا عند احد من ذلک علما فقال ابوبکر سمعت رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم یقول: انا معشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقۃ (کنز العمال ج۱۴ص۱۳۰)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میراث کے بارے میں اختلاف ہوا تو اس بارے میں کسی کے پاس کوئی علم نہ تھا صرف ابوبکر نے کہا :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے فرماتے تھے: ہم انبیاء وارث نہیں بناتے جو ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہے۔

علاوہ ازیں علامہ ابن ابی الحدید بغدادی نے بھی شرح نہج البلاغہ میں اس امر کی وضاحت کی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وارث نہ بننے کی روایت صرف حضرت ابوبکر نے بیان کی ہے۔

فَدُونَکَها مَخْطُومَةً مَرْحُولَةً
لے جاؤ!! (میری وراثت کو) اس آمادہ سواری کی طرح جس کی مہار ہاتھ میں ہو۔
تَلْقاکَ یَوْمَ حَشْرِکَ
تمہارے ساتھ حشر میں میری ملاقات ہو گی
فَنِعْمَ الْحَکَمُ اللَّهُ،
جہاں بہترین فیصلہ سنانے والا اللہ ہو گا
وَ الزَّعیمُ مُحَمَّدٌ،
اور محمدؐ کی سرپرستی ہو گی
وَ الْمَوْعِدُ الْقِیامَةُ،
اور عدالت کی وعدہ گاہ قیامت ہو گی،
وَ عِنْدَ السَّاعَةِ یَخْسِرُ الْمُبْطِلُونَ،
جب قیامت کی گھڑی آئے گی تو باطل پرست خسارہ اٹھائیں گے
وَ لا یَنْفَعُکُمْ اِذْ تَنْدِمُونَ،
اس وقت ندامت سے کوئی فائدہ نہیں ملے گا،

تشریح کلمات

مخطومۃ:
الخطام نکیل ڈالنا۔
مرحولہ:
کجاوہ باندھا ہو آمادہ اونٹ۔
وَ لِکُلِّ نَبَأٍ مُسْتَقَرٌّ، وَ لَسَوْفَ تَعْلَمُونَ
ہر خبر کے لیے ایک وقت مقرر ہے عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا۔(۷۷)
مَنْ یَأْتیهِ عَذابٌ یُخْزیهِ،
کس پر رسوا کن عذاب آتا ہے
وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذابٌ مُقیمٌ
اور کس پر دائمی عذاب نازل ہونے والا ہے۔(۷۸)
ثم رمت بطرفها نحو الانصار،فقالت:
پھر انصار کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
یا مَعْشَرَ النَّقیبَةِ وَ اَعْضادَ الْمِلَّةِ
اے بزرگو اور ملت کے بازؤو
وَ حَضَنَةَ الْاِسْلامِ!
اور اسلام کے نگہبانو! (۷۹)
ما هذِهِ الْغَمیزَةُ فی حَقّی
میرے حق میں اس حد تک تساہل،
وَ السِّنَةُ عَنْ ظُلامَتی؟
مجھے میرا حق دلانے میں اتنی کوتاہی کا کیا مطلب ؟
اَما کانَ رَسُولُ‏اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَ الِهِ اَبی یَقُولُ:
کیا اللہ کے رسول اور میرے پدر بزرگوار یہ نہیں فرماتے تھے:
اَلْمَرْءُ یُحْفَظُ فی وُلْدِهِ،
کہ شخصیت کا احترام اس کی اولاد کے احترام کے ذریعے برقرار رکھا جاتا ہے؟

تشریح کلمات

طَرَفْ:
نگاہ ۔
البقیۃ:
قوم کے با اثر افراد۔
حضنۃ:
نگہبان۔
غمیزۃ :
عقل و علم میں تساہل و کمزوری۔
سنۃ :
اونگھ، کوتاہی۔

۷۷۔ سورہ انعام آیت ۶۷۔۷۸۔ سورہ زمر آیت ۴۰۔

۷۹۔ا نصار کے متعلق حضرت علی ؑ فرماتے ہیں:

ہم واللّہ ربوا الاسلام کما یربی الفلو مع غنائہم بایدیہم السیاط والسنتہم السلاط (نہج البلاغہ ج ۳حکمت نمبر۴۶۵)

خدا کی قسم انہوں نے اپنی خوشحالی سے اسلام کی اس طرح تربیت کی جس طرح ایک سالہ بچھڑے کو پالا پوسا جاتا ہے اپنے کریم ہاتھوں اور تیز زبانوں کے ساتھ۔

سَرْعانَ ما اَحْدَثْتُمْ
کس سرعت سے تم نے بد عت شروع کر دی
وَ عَجْلانَ ذا اِهالَةٍ،
اور کتنی جلدی اندر کی غلاظت باہر نکل آئی۔
وَ لَکُمْ طاقَةٌ بِما اُحاوِلُ،
حالانکہ تم میری کوششوں میں تعاون کر سکتے تھے
وَ قُوَّةٌ عَلى ما اَطْلُبُ وَ اُزاوِلُ.
اور میرے مطالبے کی تائید و حمایت کر سکتے تھے۔
اَتَقُولُونَ ماتَ مُحَمَّدٌ؟
کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ محمدؐ اس دنیا میں نہیں رہے (لہٰذا ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی)؟
فَخَطْبٌ جَلیلٌ اِسْتَوْسَعَ وَ هْنُهُ،
ان کی رحلت عظیم سانحہ ہے،
وَاسْتَنْهَرَ فَتْقُهُ،
جس کی دراڑ کشادہ ہے،
وَ انْفَتَقَ رَتْقُهُ،
اس کا شگاف اتنا چوڑا ہے جسے بھرا نہیں جا سکتا۔

تشریح کلمات

عجلان ذا اہالہ:
کتنی جلدی اس کی چربی نکل آئی۔

کہتے ہیں ایک شخص کا ایک لاغر بکرا تھا جس کی ناک سے برابر چھینک نکلتی رہتی تھی۔ لوگ اس سے پوچھتے یہ کیا ہے؟ تو وہ جواب دیا کرتا تھا کہ یہ بکرے کی چربی ہے جو اس کی ناک سے بہہ رہی ہے۔ یہاں سے یہ ضرب المثل مشہور ہو گئی کہ ہر اس بات کے لیے جس میں تیزی سے تبدیلی آتی ہے۔

ازاول :
المزاولۃ کوشش کرنا
الخطب:
عظیم سانحہ۔
وہیہ: اَلَوَہْی:
شگاف۔
استنھر:
وسیع ہو گیا۔
فتقہ:
اس کا شگاف۔
رتقہ، الرتق:
جوڑنا۔
وَ اُظْلِمَتِ الْاَرْضُ لِغَیْبَتِهِ،
ان کی رحلت سے زمین پر اندھیرا چھا گیا
وَ کُسِفَتِ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ انْتَثَرَتِ
نیز سورج اور چاند کو گرہن لگ گیا،
النُّجُومُ لِمُصیبَتِهِ،
ستارے بکھر گئے،
وَ اَکْدَتِ الْامالُ،
امیدیں یاس میں بدل گئیں،
وَ خَشَعَتِ الْجِبالُ،
اور پہاڑ شکست و ریخت سے دوچار ہو گئے۔
وَ اُضیعَ الْحَریمُ،وَ اُزیلَتِ الْحُرْمَةُ عِنْدَ مَماتِهِ
حضور کی رحلت کے موقع پر نہ تو حرم رسول کو تخفظ ملا اور نہ ہی حرمت رسول کا لحاظ رکھا گیا۔(۸۰)
فَتِلْکَ وَاللَّهِ النَّازِلَةُ الْکُبْرى
بخدا یہ بہت بڑا حادثہ تھا
وَ الْمُصیبَةُ الْعُظْمى،
اور عظیم مصیبت تھی۔

تشریح کلمات

انتشرت:
پراکندہ ہوئی، پھیل گئی۔
اکدت:
کسی چیز کو ہاتھ سے چھینا۔

۸۰۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ حضرت فاطمۃ الزھراء ؑ کے گھر کو آگ لگانے کی جسارت کی گئی کہ جس دروازے پر پیغمبر خاتم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر روز صبح آیت تطہیر تلاوت فرمایا کرتے تھے چنانچہ مہاجرین کی چند شخصیات جو حضرت ابو بکر کی بیعت سے راضی نہ تھے وہ حضرت علی ؑ کے ہاں حضرت فاطمہ ؑ کے گھر میں جمع ہو گئے(تاریخ یعقوبی ج۲ص۱۲۶طبع بیروت، تاریخ ابو االفداء ج۱ص۶۴ طبع مصر)حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو بھیجا کہ جاکر انہیں حضرت فاطمہ کے گھر سے نکالیں۔ اور ان سے کہا کہ اگر وہ نہ نکلیں تو گھر کو جلا دو، وہ آگ لے کر دروازہ زہراء پر پہنچ گئے کہ گھر کو آگ لگا دیں۔ تو گھر سے حضرت فاطمہؑ نے فرمایا: کیا تو ہمارا گھر جلانے آیا ہے؟ کہا: ہاں! مگر یہ کہ آپ لوگ بھی داخل ہو جائیں، جس میں امت داخل ہو گئی ہے۔ (انساب الاشراف ج۱ص۵۸۶ طبع بیروت،کنز العمال ج۱ ص۵۸۶، ج۳ ص۱۴۰ طبع دکن، العقد الفرید ج۲ ص۶۴طبع قاہرہ)۔

امام بلاذری کی مشہور کتاب انساب الاشراف میں یہی واقعہ ان الفاظ میں آیا ہوا ہے :

فتلقتہ فاطمۃ علی الباب فقالت فاطمۃ: یا ابن الخطاب اتراک محرقا علی بابی؟ قال:نعم

اے ابن خطاب! کیا تو میرا دروازہ جلانے والا ہے؟ کہا: ہاں۔

تاریخ یعقوبی میں یہ واقعہ ان لفظوں میں بیان ہوا ہے :

فاتوا جماعۃ ھجموا علی الدار ۔۔۔ وکسر سیفہ۔۔ای سیف علی ودخلوا الدار(تاریخ یعقوبی ج۲ص۱۲۶)

ایک جماعت نے گھر پر حملہ کیا اور حضرت علیؑ کی تلوار توڑدی۔ پھر گھر میں داخل ہو گئی۔

امام ابوبکر جوہری اپنی بیش بہا تصنیف ’’ السقیفۃ وفدک‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:

وخرجت فاطمۃ تبکی وتصیح فنہنہت من الناس(السقیفۃ وفدک صفحہ ۸۸،۔ شرح ابن ابی الحدید ج۱ص۱۳۴ طبع مصر)

حضرت فاطمہؑ گھر سے روتی ہوئی او ر فریاد کرتی ہوئی نکلیں اور لوگوں سے رک جانے کا مطالبہ کیا۔

حضرت ابو بکر نے اپنی وفات سے تھوڑا پہلے اس سانحہ پر اظہار ندامت کیا تھا خود ان کے الفاظ یہ ہیں:

وددت انی لم اکشف بیت فاطمۃ عن شئی وان کانوا قد اغلقوہ علی الحرب (تاریخ الطبری ج ۲ص۲۱۹، طبع مصر تاریخ الاسلام للذہبی ج۲ صفحہ۲۰۱ قاہرہ، کنز العمال ج۳ صفحہ ۱۳۵ طبع دکن)

کاش کہ میں نے فاطمہ کے گھر پر حملہ نہ کیا ہوتا اگرچہ وہ جنگ کے لئے ہی جمع ہو گئے ہوتے۔

لامِثْلُها نازِلَةٌ، وَ لا بائِقَةٌ عاجِلَةٌ
نہ اس جیسا کوئی دل خراش واقعہ کبھی پیش آیا نہ اتنی بڑی مصیبت واقع ہوئی۔(۸۱)

تشریح کلمات

بائقۃ :
مصیبت ۔

۸۱۔ یہ جملے حرم رسول کی اہانت سے متعلق ہیں۔

اُعْلِنَ بِها، کِتابُ اللَّهِ جَلَّ ثَناؤُهُ فی
اللہ کی کتاب نے تو اس کا پہلے اعلان کر دیا ہے (۸۲)
اَفْنِیَتِکُمْ هِتَافاً وَصُراخاً وَتِلاوَةً وَاِلْحاناً،
جسے تم اپنے گھروں میں بلند اور دھیمی آواز میں خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کرتے ہو
وَ لَقَبْلَهُ ما حَلَّ بِاَنْبِیاءِ اللَّهِ وَ رُسُلِهِ، حُکْمٌ فَصْلٌ وَ قَضاءٌ حَتْمٌ.
ایسا اعلان جس سے سابقہ انبیا و رُسل کو دوچار ہونا پڑا ہے جو ایک حتمی فیصلہ اور قطعی حکم ہے (۸۳) (وہ اعلان یہ ہے)

تشریح کلمات

افنیتکم :
جمع فناء المنزل۔ گھر کے آس پاس۔

۸۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد لوگوں کے الٹے پاؤں پھر جانے سے متعلق قرآن مجید کی پیش گوئی کی طرف اشارہ ہے۔

۸۳۔ یعنی یہ ایک حتمی اور قطعی واقعہ ہے کہ ہر امت اپنے رسول کی وفات کے بعد الٹے پاؤں پھر گئی جیسا کہ سورۃ مریم میں انبیاء کرام علیہم السلام کے ذکر کے بعد فرمایا:

اولئک الذین انعم اللّہ علیھم من النبین من ذریۃ آدم وممن حملنا مع نوح ومن ذریۃ ابراہیم و اسرائیل و ممن ہدینا و اجتبینا اذا تتلی علیہم آیات الرحمن خروا سجدا و بکیاۃ فخلف من بعد ہم خلف اضاعوا الصلوۃ و اتبعوا الشہوات فسوف یلقون غیا ۃ (سورہ مریم؍۵۸۔ ۵۹)

یہ وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا۔ اولاد آدم میں سے اور ان میں سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں اٹھایا۔ اور ابراہیم و اسرائیل کی اولاد میں سے۔ اور ان لوگوں میں سے جنہیں ہم نے ہدایت دی اور برگزیدہ کیا، جب ان پر رحمن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کی پیروی کی پس وہ عنقریب ہلاکت سے دوچار ہوں گے۔

مندرجہ بالاآیت میں تمام انبیاء علیہم السلام کا اجمالی ذکر آیا ہے۔ چونکہ انبیاء علیہم السلام تین سلسلوں میں آئے ہیں۔ حضرت آدمؑ۔ حضرت نوح ؑاور حضرت ابراہیمؑ۔ ان کے ساتھ دیگر برگزیدہ ہستیوں کا بھی ذکرآیا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام نازل فرمایا ہے اس جامع ذکر کے بعد یوں استثنا فرما دیا کہ ان کے بعد ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے۔

وَ ما مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَاِنْ ماتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى اَعْقابِکُمْ وَ مَنْ یَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَضُرَّ اللَّهَ شَیْئاً وَ سَیَجْزِى اللَّهُ شَیْئاً وَ سَیَجْزِى اللَّهُ الشَّاکِرینَ.
اور محمدؐ تو بس رسول ہیں ان سے پہلے اور بھی رسول گذر چکے ہیں بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ جو الٹے پاؤں پھر جائے گا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ شکر گزاروں کو عنقریب جزا دے گا۔(۸۴)

۸۴۔ اِنْقَلَبَ منقلب ہونا الٹے پاؤں پھر جانا کے معنوں میں آتا ہے جس سے مرتد ہونا مراد لیا جاتا ہے جیسا کہ تحویل قبلہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:

لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ (سورۃ بقرہ آیت ۱۴۳)

تاکہ پہچان لے کہ رسول کے اتباع کرنے والے کون ہیں اور مرتد ہونے والے کون ہیں۔

دوسری جگہ فرما یا:

یا ایہا الذین آمنوا ان تطیعوا الذین کفروا یردوکم علی اعقابکم (آلعمران؍۱۴۹)

اے ایمان والو ! اگر تم نے کافروں کی اطاعت کی تو وہ تم کو الٹا پھیر دیں گے (مرتد بنا دیں گے)

شیخ رشید رضا مصری نے اس آیہ مجیدہ کے ذیل میں حافظ ابن قیم الجوزیہ کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ: یہ آیت رسول اللہ ؐ کی وفات سے پہلے تمہیداً نازل ہوئی ہے اور اس آیت کے ذریعہ جن لوگوں کی تنبیہ کی گئی تھی وہ وفات رسولؐ کے موقع پر ظاہر ہوا چنانچہ جس نے مرتد ہونا تھا وہ الٹے پاؤں پھر کر مرتد ہو گیا اور سچے لوگ اپنے دین پرقائم رہے۔(تفسیر المنار ج۴ ص۱۶۰ طبع مصر)

بعض کا الٹے پاؤں پھر جانا

حضرت زہراء سلام اللہ علیہانے خطبے میں مہاجرین کے بارے میں فرمایا کہ’’ تم اللہ تعالیٰ کے بندے ہو اس کے امر و نہی میں مخاطب تم ہو اور اللہ کے دین اور وحی کے تم ذمے دار ہو تم اپنے نفسوں پر امین ہو۔ دیگر اقوام کے لئے مبلغ بھی تم ہو‘‘۔

اور انصار کے بارے میں فرمایا:

’’تم ملت کے بازو ہو اسلام کے نگہبان ہو۔ خیر و صلاح میں تم معروف ہو، جنگیں تم نے لڑی ہیں‘‘

لیکن افسوس جناب سیدہ آج مہاجرین و انصار دونوں سے نالاں ہیں۔ یہاں آپ کو عہد رسولؐ اور بعد از رسولؐ ایک نمایاں فرق نظر آئے گا جو مہاجرین و انصار زمانہ رسولؐ میں ان اوصاف کے ساتھ متصف تھے مگر آج پیغمبر کی لخت جگر جناب سیدۃ نسآء العالمین ان سے نالاں ہیں۔ دراصل مسئلہ ’’بعدی‘‘ کا ہے۔

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متعدد احادیث میں آیا ہے کہ آپ نے بعض صحابہ سے خطاب کر کے فرما یا: ما تحدثون بعدی میرے بعد کیا کچھ بدعتیں پیدا کرنے والے ہو۔ حضرت رسول اللہؐ سے کہا جائے گا لا تدری ما احدثوا بعدک۔ آپ کو معلوم نہیں انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کیں۔ چنانچہ حدیث حوض میں موجود ہے کہ قیامت کے دن حوض کوثر سے بعض لوگوں کو دور کیا جائے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں گے یہ تو میرے اصحاب ہیں! اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئے گی: لا تدری ما احدثوا بعدک آپ کو کیا معلوم انہوں نے آپ کے بعد کیا کچھ کیا ہے۔(۱) صحیح بخاری باب الحوض ج۱ ص۵۷۰ طبع میرٹھ، صحیح مسلم ج۲ صفحہ ۲۴۹ طبع نول کشورسنن ترمذی ابواب القیامۃ ج۲ ص۳۰۶ طبع دیوبند، سنن ابن ماجہ ص۱۴۱ طبع دہلی

امام مالک نے موطا میں ایک حدیث نقل کی ہے جس میں خطاب کر کے صراحت کے ساتھ یہی مطلب بیان فرمایا ہے :

ان رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم قال لشہداء احد: ھؤلاء اشہد علیہم فقال ابوبکر الصدیق السنا یا رسول اللّہ اخوانہم اسلمنا کما اسلموا وجاہدنا کما جاہدوا فقال رسول اللّہ: بلی، ولکن لا ادری ما تحدثون بعدی فبکی ابوبکر ثم بکی قال ائنا لکائنون بعدک۔ (مؤطا امام مالک کتاب الجہاد ص۲۸۵ طبع دیوبند)(تنویر الحوالک شرح مؤطا امام مالک ج۱ ص۳۰۷ طبع قاہرہ )

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہداء احد کے بارے میں فرمایا: ان لوگوں کے متعلق میں گواہی دوں گا (کہ ان کا ایمان صحیح تھا) ابو بکر صدیق نے کہا: یا رسول اللہ کیا ہم ان کے بھائی نہیں ہیں؟ ہم بھی اسلام لے آئے ہیں جس طرح یہ اسلام لائے ہیں اور ہم نے بھی جہاد کیا ہے جس طرح انہوں نے جہاد کیا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ہاں!۔لیکن مجھے کیا معلوم تم میرے بعد کیا کچھ کرو گے۔ اس پر ابو بکر رو پڑے اور کہا: کیا ہم آپ کے بعد زندہ رہ جائیں گے۔‘‘

ایهاً بَنی قیلَةَ! ءَ اُهْضَمُ تُراثَ اَبی
تم سے بعید تھا اے قیلہ کے فرزندو(۸۵)
وَ اَنْتُمْ بِمَرْأى مِنّی وَ مَسْمَعٍ وَ مُنْتَدى وَ مَجْمَعٍ،
(کہ) میرے باپ کی میراث مجھ سے چھینی جائے اور تم سامنے کھڑے دیکھ رہے ہو، میری آنکھوں کے سامنے بھرے مجمعوں اور محفلوں کے سامنے میری دعوت تم تک پہنچ چکی ہے
تَلْبَسُکُمُ الدَّعْوَةُ وَ تَشْمَلُکُمُ الْخُبْرَةُ،
میرے حالات سے تم آگاہ ہو

تشریح کلمات

اَیھاً : اسم فعل:
ھیھات دور ہونا۔
منتدی:
محفل۔
الجُنۃ:
ڈھال۔

علامہ جلال الدین سیوطی درج بالا حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:

’’ھؤلاء اشہد علیہم‘‘ ای اشہد لہم بالایمان الصحیح والسلامۃ من الذنوب الموبقات ومن التبدیل و التغییر و المنافستہ و نحو ذلک.

نبی اکرم نے جو فرمایا میں ان شہداء کے متعلق گواہی دوں گا یعنی: ان کا ایمان صحیح تھا اور بڑے مہلک گناہوں سے محفوظ تھے اور کسی تبدیلی و تغیراور دنیا کے لالچ سے بھی محفوظ تھے۔ (وفاء الوفاء ج۳ صفحہ ۹۳۱ طبع بیروت)

علامہ سہودی نے بھی اس واقعہ کو بعنوان شہادۃ الرسول لشہداء احد کے ذیل میں لکھا ہے:

ثم وقف رسول اللّہ موقفاً آخر فقال ھؤلاء اصحابی الذین اشہدلہم یوم القیمۃ فقال ابو بکر: فما نحن باصحابک فقال بلی ولکن لا ادری کیف تکونون بعدی انہم خرجوا من الدنیا خماصاً.

پھر رسول اللہ دوسری جگہ (لاشوں کے پاس) کھڑے ہوے اور فرمایا یہ میرے وہ اصحاب ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن گواہی دوں گا۔ پس ابوبکر نے کہا: کیا ہم آپ کے اصحاب نہیں ہیں؟ حضورؐ نے فرمایا: ہاں! لیکن میں نہیں جانتا میرے بعد تمہارا کردار کیسے ہو گا۔ یہ لوگ دنیا سے خالی شکم گئے ہیں۔

۸۵۔قیلۃ: قبیلہ اوس اور خزرج کا سلسلٔہ نسب جس نامدار خاتون تک پہنچتا ہے اس کا نام قیلہ تھا۔

وَ اَنْتُمْ ذَوُو الْعَدَدِ وَ الْعُدَّةِ وَ الْاَداةِ وَ الْقُوَّةِ، وَ عِنْدَکُمُ السِّلاحُ وَ الْجُنَّةُ،
اور تم تعداد و استعداد سامان حرب اور قوت میں کمزور نہیں ہو، تمہارے پاس کافی اسلحہ اور دفاعی سامان موجود ہے
تُوافیکُمُ الدَّعْوَةُ فَلا تُجیبُونَ،
میری پکار تم تک پہنچ رہی ہے اور چپ سادھے ہوئے ہو۔
وَ تَأْتیکُمُ الصَّرْخَةُ فَلا تُغیثُونَ، وَ اَنْتُمْ مَوْصُوفُونَ بِالْکِفاحِ،
میری فریاد تم سن رہے ہو اور فریاد رسی نہیں کرتے ہو حالانکہ بہادری میں تمہاری شہرت ہے
مَعْرُوفُونَ بِالْخَیْرِ وَ الصَّلاحِ،
اور خیر و صلاح میں تم معروف ہو
وَ النُّخْبَةُ الَّتی انْتُخِبَتْ،
تم وہ برگزیدہ لوگ ہو
وَ الْخِیَرَةُ الَّتِی اخْتیرَتْ لَنا اَهْلَ الْبَیْتِ
جو ہم اہل البیت کے لئے پسندیدہ لوگوں میں شمار ہوتے ہو۔
قاتَلْتُمُ الْعَرَبَ،
عربوں کے خلاف جنگ تم نے لڑی
وَ تَحَمَّلْتُمُ الْکَدَّ وَ التَّعَبَ،
اذیت اور سختیاں تم نے برداشت کیں
وَ ناطَحْتُمُ الْاُمَمَ،
دیگر اقوام کے ساتھ نبرد آزما تم ہوئے
وَ کافَحْتُمُ الْبُهَمَ،
جنگجوؤں کا مقابلہ تم نے کیا (۸۶)

تشریح کلمات

کفاح:
ڈھال اور زرہ کے بغیر لڑنا۔
النخبۃ:
چیدہ لوگ۔
ناطحتم:
ایک دوسرے کو سینگ مارا۔

۸۶۔زر ارہ حضرت امام محمد باقر ؑ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:

فرزندان قیلہ (انصار) کے اسلام قبول کرنے کے بعد ہی تلواریں اٹھائی جا سکی اور نماز اور جنگ میں صفیں باندھی گئی اور علناً اذان دی گئی اور یا ایہا الذین امنوا پر مشتمل آیتیں نازل ہونا شروع ہو گئی۔ بحار الانوار ۲۲:۳۱۲۔

لا نَبْرَحُ اَوْ تَبْرَحُونَ،
تم ہمیشہ ہمارے ساتھ اور ہم تمہارے ساتھ رہے
نَأْمُرُکُمْ فَتَأْتَمِرُونَ،
اور تم نے ہمارے احکام کی تعمیل کی
حَتَّى اِذا دارَتْ بِنا رَحَى الْاِسْلامِ، وَ دَرَّ حَلَبُ الْاَیَّامِ،
یہاں تک جب ہمارے ذریعے اسلام اپنے محور میں گھومنے لگا اور زمانے کی برکتیں فرواں ہو گئیں۔
وَ خَضَعَتْ نُعْرَةُ الشِّرْکِ،
شرک کا نعرہ دب گیا
وَ سَکَنَتْ فَوْرَةُ الْاِفْکِ،
جھوٹ کا زور ٹوٹا
وَ خَمَدَتْ نِیْرَانُ الْکُفْرِ،
کفر کی آگ بجھی
وَ هَدَأَتْ دَعْوَةُ الْهَرَجِ،
فتنے کی آواز دب گئی
وَ اسْتَوْسَقَ نِظامُ الدّینِ،
اور دین کا نظام مستحکم ہو گیا
فَاَنَّى حِزْتُمْ بَعْدَ الْبَیَانِ،
تو اب حقیقت واضح ہونے کے بعد متحیر کیوں ہو
وَاَسْرَرْتُمْ بَعْدَ الْاِعْلَانِ،
(حقیقت) آشکار ہونے کے بعد پردہ کیوں ڈالتے ہو
وَ نَکَصْتُمْ بَعْدَ الْاِقْدَامِ، وَاَشْرَکْتُمْ بَعْدَ الْاِیْمَانِ؟
پیش قدمی کے بعد پیچھے کیوں ہٹ رہے ہو ایمان کے بعد شرک کے مرتکب کیوں ہو رہے ہو؟

تشریح کلمات

رحی:
چکی۔
در:
فراواں ہونا۔
حلب:
دودھ دوہنا۔
النعرۃ:
تکبر۔ ناک کا اندرونی حصہ۔
فورۃ :
پھوٹنا۔ جوش مارنا۔
الافک:
جھوٹ۔
خمدت:
خاموش ہو گئی۔
ہدأت :
ساکن ہونا ٹھرنا۔
استوسق:
منظم حاصل ہوا۔
الا تقاتلون ِقَوْماً نَکَثُوا اَیْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ،
کیا تم ایسے لوگوں سے نہیں لڑو گے جو اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑتے ہیں
وَ هَمُّوا بِاِخْرَاجِ الرَّسُولِ
اور جنہوں نے رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا؟
وَ هُمْ بَدَؤُکُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ،
انہی لوگوں نے تم سے زیادتی میں پہل کی کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟
اَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ کُنْتُمْ مُؤمِنینَ
اگر تم مؤمن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔(۸۷)
اَلا وَ قَدْ أَرىٰ اَنْ قَدْ اَخْلَدْتُمْ اِلَى الْخَفْضِ،
اچھا۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ تم راحت طلب ہو گئے ہو
وَ اَبْعَدْتُمْ مَنْ هُوَ اَحَقُّ بِالْبَسْطِ وَ الْقَبْضِ،
اور جو شخص معاملات کے حل و عقد یعنی امور مملکت چلانے کا زیادہ حقدار تھا اسے تم نے نظر انداز کر دیا،
وَ خَلَوْتُمْ بِالدَّعَةِ،وَ نَجَوْتُمْ بِالضّیقِ مِنَ السَّعَةِ،
تم نے اپنے لیے کنج عافیت تلاش کر لیا اور تنگ دستی سے نکل کر تونگری حاصل کر لی (۸۸)

تشریح کلمات

نکثوا:
نکث عہد توڑنا۔
الخفض:
آسائش زندگی۔
الدعۃ:
راحت کی زندگی۔
السعۃ:
تونگری۔

۸۷۔ سورۂ توبہ؍ ۱۳۔

۸۸۔اسلامی تاریخ میں کچھ حضرات کی دولت کا ذکر آیا ہے سب کو بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے البتہ صرف ایک اشارہ کیا جاتا ہے کہ ایک انصاری نے ترکہ میں جو سونا چھوڑا تھا اس کو کلہاڑے سے کاٹ کر وارثوں میں تقسیم کیا گیا۔

فَمَجَجْتُمْ ما وَعَبْتُمْ،وَ دَسَعْتُمُ الَّذى تَسَوَّغْتُمْ،
تم نے ایمان کی جو باتیں یاد کی تھیں انہیں ہوا میں بکھیر دیا اور جس طعام کو گوارا سمجھ کر نگل لیا تھا اسے نکال پھینکا۔(۸۹)
فَاِنْ تَکْفُرُوا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمیعاً فَاِنَّ اللَّهَ لَغَنِیٌّ حَمیدٌ.
اگر تم اور زمین میں بسنے والے سب کفران نعمت کریں تو بھی اللہ بے نیاز اور لائق حمد ہے
اَلا، وَ قَدْ قُلْتُ ما قُلْتُ هذا عَلى مَعْرِفَةٍ مِنّی
سنو! جو کچھ میں نے کہا وہ اس علم کی بنیاد پر کہا جو مجھے حاصل تھا
بِالْخِذْلَةِ الَّتی خامَرْتُکُمْ،
اس بے وفائی پر جو تمہارے اندر رچ بس گئی ہے۔
وَ الْغَدْرَةِ الَّتِی اسْتَشْعَرَتْها قُلُوبُکُمْ،
اس عہد شکنی پر جسے تمہارے دلوں نے اپنا شعار بنا لیا ہے۔
وَ لکِنَّها فَیْضَةُ النَّفْسِ، وَ نَفْثَةُ الْغَیْظِ،
میری یہ گفتگو سوزش جان تھی اور غیض و غضب کا اظہار تھا۔

تشریح کلمات

مججتم: المج۔
نکال پھینکنا۔
وعیتم:
الوعی حفظ کرنا۔
دسعتم: الدسع:
منہ بھر کے قے کرنا۔
تسوغتم، ساغ:
آسانی سے گلے سے اتارنا۔
خامرتکم: خامر
کسی چیز کا اندر تک اترنا۔
الخذلۃ:الحذلان:
مدد چھوڑنا۔
نفثۃ : نفث:
جوش کے ساتھ خارج ہونا۔

۸۹۔یعنی جس طرح طعام انسانی بدن کا جزو بن کر جسم میں زندگی کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے اسی طرح اسلامی تعلیمات کو بھی اپنا کر انسان اپنے لیے ارتقا و افتخار حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اگر طعام کھانے کے بعد جزو بدن بننے سے پہلے قے کیا جائے تو ایسے طعام کے کھانے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اس طرح اسلام کی جن تعلیمات کو تم نے حاصل کیا تھا اس پر عمل نہ کرنے سے وہ جزو ایمان نہ بن سکے۔

وَ حَوَزُ الْقَناةِ، وَ بَثَّةُ الصَّدْرِ،
اور غم و غصہ کی آگ تھی جو بھڑک اٹھی اعضاء و جوارح کا ساتھ چھوڑ دینے کی نقاہت تھی۔
وَ تَقْدِمَةُ الْحُجَّةِ،
سینے کا درد و الم تھا اور حجت تمام کرنا چاہتی تھی
فَدُونَکُمُوها فَاحْتَقِبُوها
اقتدار کے اونٹ کو سنبھالو اس پر پالان کس لو
دَبِرَةَ الظَّهْرِ، نَقِبَةَ الْخُفِّ، باقِیَةَ الْعارِ،
مگر یاد رکھو کہ اس کی پیٹھ مجروح اور پاؤں کمزور ہیں۔ دائمی عارو ننگ اس کے ساتھ ہے۔(۹۰)
مَوْسُومَةً بِغَضَبِ الْجَبَّارِ وَ شَنارِ الْاَبَدِ،
اور یہ اللہ تعالیٰ کے غضب کی نشانی ہو گی اور ساتھ ابدی عار و ننگ ہو گا۔
مَوْصُولَةً بِنارِ اللَّهِ الْمُوقَدَةِ الَّتی تَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْئِدَةِ.
یہ اس آتش سے وابستہ ہے جو اللہ نے بھڑکائی ہے جس کی تپش دلوں تک پہنچتی ہے۔

تشریح کلمات

خور:
کمزور ہونا ٹوٹنا۔
القناۃ:
نیزہ۔
فاحتقبوھا:احقبہ:
پیچھے سوار کرنا۔ کجاوہ یا پالان کے پیچھے باندھنا۔
دَبِرَۃ:
اونٹ کی پیٹھ کا زخمی ہونا۔
نقبۃ:
اونٹ کا گھسے ہوئے کھر والا ہونا۔
سنار:
عار۔ بے عزتی۔
الموقدۃ:
بھڑکی ہوئی آگ۔
الافئدۃ :
فؤاد کی جمع دل۔

۹۰۔ یعنی: اس کی پیٹھ مجروح ہے اس پر سوار ہونے والا اس زخم کی پیپ سے ملوث ہو سکتا ہے اور پیر کمزور ہے کہ یہ منزل تک نہ پہنچا سکے گا۔ چنانچہ کتب اہل سنت میں یہ حدیث موجود ہے کہ خلافت تیس سال تک رہے گی اس کے بعد ملوکیت ہو گی۔

فَبِعَیْنِ اللَّهِ ما تَفْعَلُونَ،
تمہارا یہ سلوک اللہ کے سامنے ہے
وَ سَیَعْلَمُ الَّذینَ ظَلَمُوا اَىَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ،
ظالموں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام کو پلٹ کر جائیں گے
وَ اَنَا اِبْنَةُ نَذیرٍ لَکُمْ بَیْنَ یَدَىْ عَذابٌ شَدیدٌ،
اور میں اس کی بیٹی ہوں جو تمہیں شدید عذاب کی آمد سے پہلے تنبیہ کرنے والا ہے۔
فَاعْمَلُوا اِنَّا عامِلُونَ،
تم نے جو کرنا ہے وہ کر لو ہم بھی اپنا عمل انجام دیں گے
وَ انْتَظِرُوا اِنَّا مُنْتَظِرُونَ.
تم بھی انتظار کرو۔ ہم بھی انتظار کریں گے۔

خواتین سے خطاب

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button