توحیدعقائد

توحید در خالقیت و ربوبیت

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۫ وَّ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ﴿الزمر:۶۲﴾
ترجمہ: اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا نگہبان ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ: قرآنی تعلیمات میں ایک مسلمہ امر ہے کہ خلق و تدبیر دو مختلف امور نہیں ہیں جیسا کہ مشرکین نے خیال کر رکھا ہے کہ خالق تو اللہ ہے لیکن امور کائنات کی تدبیر ان کے معبودوں یعنی شریکوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس آیت میں اسی بات کو واضح لفظوں میں بیان فرمایا:
۲۔ وَّ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ: وہ جہاں ہر چیز کا خالق ہے وہاں ہر چیز اس کے تحفظ میں ہے۔ ہر چیز کی بقا کا انحصار اسی ذات پر ہے۔ وَّکِیۡلٌ مدبر ہے، محافظ ہے، ذمہ دار ہے۔
اہم نکات
۱۔ اللہ ہی خالق اور وکیل ہے کہ خلق و تدبیر دونوں اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 439)
تخلیق و تدبیر دونوں اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔
سُبۡحٰنَ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ﴿زخرف:۸۲﴾
آسمانوں اور زمین کا رب، عرش کا رب، پاکیزہ ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ بیان کر رہے ہیں۔
تفسیر آیات
۱۔ سُبۡحٰنَ: اللہ کی ذات پاک و منزہ ہے ان باتوں سے جو مشرکین اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ کائنات اور اللہ کا تعلق رَبِّ یعنی مالک اور مملوک کا ہے لہٰذا کوئی موجود اللہ کا مملوک تو ہو سکتا ہے، اولاد نہیں ہو سکتا۔
۲۔ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: آسمانوں اور زمین کے رَبِّ کے بعد عرش کے رَبِّ کا ذکر بتلاتا ہے کہ ان دونوں کی ربوبیت میں فرق ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا مقام تخلیق میں رَبِّ ہے اور عرش کا مقام تدبیر میں رَبِّ ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ رب الخلق و التدبیر ہے۔ واضح رہے کہ عرش اللہ تعالیٰ کے مقام تدبیر کا نام ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 154)
تخلیق و تدبیر کائنات کا سر چشمہ
قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ مَّا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ اَمۡ لَہُمۡ شِرۡکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ؕ اِیۡتُوۡنِیۡ بِکِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ ہٰذَاۤ اَوۡ اَثٰرَۃٍ مِّنۡ عِلۡمٍ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿احقاف:۴﴾
کہدیجئے: یہ تو بتاؤ جنہیں اللہ کے سوا تم پکارتے ہو، مجھے بھی دکھاؤ انہوں نے زمین کی کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں میں ان کی شرکت ہے؟ اگر تم سچے ہو تو اس سے پہلے کی کوئی کتاب یا کوئی باقی ماندہ علمی (ثبوت) میرے سامنے پیش کرو۔
تفسیر آیات
۱۔ قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ: یہ ترکیب ہمیشہ اخبرونی کے معنوں میں ہے۔ یعنی مجھے بتاؤ۔
۲۔ اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا: یہ بات ذہن میں رہے کہ کائنات خلق کرنے (تخلیق) اور چلانے (تدبیر) کے دو الگ الگ سرچشمے نہیں ہو سکتے کہ ایک ہستی خلق کرے اور دوسری ہستی تدبیر کرے۔ قرآن نے بڑی شد و مد، تکرار اور پوری وضاحت کے ساتھ اس بات کو بیان کیا ہے کہ جس نے کائنات کو خلق کیا ہے وہی اس کی تدبیر کر سکتا ہے، چلا سکتا ہے۔
مشرکین جن ہستیوں اور بتوں کی طرف تدبیر کائنات کی نسبت دیتے تھے، ان سے یہ کہا جا رہا ہے: پھر ان کی طرف سے خلق بھی ہونا چاہیے۔ مشرکین خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ خلق کا کام صرف اللہ کر سکتا ہے:
وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ (۲۹ عنکبوت:۶۱)
اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیداکیا اور سور ج اور چاند کو کس نے مسخر کیا تو ضرورکہیں گے: اللہ نے، تو پھر یہ کہاں الٹے جا رہے ہیں؟
اگر ایسا ہے کہ تخلیق میں بھی کسی غیر اللہ کا کردار ہے تو فرمایا: اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا مجھے دکھاؤ زمین میں انہوں نے کیا خلق کیا ہے یا آسمان کی تخلیق میں ان کا کیا حصہ ہے۔ اس کے اثبات کے لیے دو علمی مصادر کا ذکر فرمایا:
۳۔ اِیۡتُوۡنِیۡ بِکِتٰبٍ: ایک علمی مصدر کتاب ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ جیسے توریت اور انجیل، ان میں کسی غیر اللہ کی پرستش یا ان کے خالق ہونے کا ذکر ملتا ہو تو پیش کرو۔ چنانچہ وہ وحی اور رسالت کے قائل نہیں ہیں۔
۴۔ اَوۡ اَثٰرَۃٍ مِّنۡ عِلۡمٍ: دوسرا مصدر وہ منقول وما ثور علم ہے جو مصادر وحی سے مربوط ہو جسے اسلامی اصطلاح میں سنت کہتے ہیں۔ چنانچہ اسلام میں علمی مصادر انہی دو مصادر میں منحصر ہیں۔ کتاب اور سنت اور سنت کی سند عترت ہے۔
چنانچہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے:
و اَثَارَۃٍ مِنْ عِلْمٍ فَاِنَّمَا عَنَی بِذَلِکَ عِلْمَ اَوْصِیَائِ الْاَنْبِیَائِ۔ (الکافی ۱: ۴۲۶)
اور اَثٰرَۃٍ مِّنۡ عِلۡمٍ سے انبیاء کے اوصیاء کا علم مراد لیا گیا ہے۔
اس آیت سے ضمناً یہ بات واضح ہو گئی تمام ادیان میں دینی مآخذ و مصادر دو ہیں: کتاب اور جس نبی پر کتاب نازل ہوئی ہے اس سے منقول سنت۔ مشرکین، رسالت قبول نہیں کرتے۔ جب ان دونوں مصادر کو تم مانتے نہیں ہو تو تمہیں کس نے بتایا کہ اللہ کے ساتھ کوئی شریک ہے؟ جواب میں وہ یہی کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 210)
تخلیق کائنات میں تعادل اور حکمت
سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی ۙ الَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی ۪ۙ﴿الاعلیٰ،1-2﴾
” (اے نبی) اپنے رب اعلیٰ کے نام کی تسبیح کرو، جس نے پیدا کیا اور توازن قائم کیا”
الَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی: تخلیق کے ساتھ توازن اور تناسب قائم کیا۔ چنانچہ اس کائنات میں کوئی شے کسی شے سے متصادم نہیں ہے۔ یہ کائنات اپنے حسن و جمال میں ایسی شکل میں ہے کہ اس سے بہتر قابل تصور نہیں ہے۔ جیسے فرمایا:
الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ۔۔۔۔ (۳۲ سجدہ: ۷)
جس نے ہر اس چیز کو جو اس نے بنائی بہترین بنایا۔
چنانچہ انسان، حیوانات، نباتات، اجرام سماوی، کل کائنات اسی تناسب اور توازن پر قائم ہے۔ عناصر کے توازن کے بغیر کوئی پودا نہیں اُگ سکتا اور خلیوں کی باہمی ہم آہنگی کے بغیر کوئی مخلوق وجود میں نہیں آ سکتی۔ چنانچہ توازن بحسب زمان خلقت کے ساتھ اور خلقت کے بعد بھی ہے۔ البتہ بلحاظ رتبہ خلقت پہلے، توازن بعد میں ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 10 صفحہ 133)
الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ وَ بَدَاَ خَلۡقَ الۡاِنۡسَانِ مِنۡ طِیۡنٍ ۚ﴿السجدہ:۷﴾
جس نے ہر اس چیز کو جو اس نے بنائی بہترین بنایا اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی۔
تفسیر آیات
۱۔ الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ: اللہ نے جو خلق فرمایا، وہ بہترین خلق فرمایا۔ کسی تخلیق میں کوئی نقص نہیں ہے۔ ہر مخلوق اپنی جگہ بہتر مخلوق ہے۔ ہر ایک کی تخلیق میں حکمت و مصلحت ہے:
مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ۔۔۔۔ (۶۷ ملک: ۳)
تو رحمن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا۔
اللہ نے مخلوقات کو عبث اور بے نظمی میں خلق نہیں فرمایا بلکہ ایک نظام کے تحت خلق فرمایا ہے:
وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا﴿﴾ (۲۵ فرقان: ۲)
جس نے ہر چیز کو خلق فرمایا پھر ہر ایک کو اپنے اندازے میں مقدر فرمایا۔
لہٰذا ہر چیز میں اللہ کی طرف سے خیر ہی خیر ہے۔ اگر شر آتا ہے تو بندے کی طرف سے آتا ہے۔ بندے نے اس خیر کو شر سے بدل دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کوئی بھی چیز مطلق شر اور خیر نہیں ہے بلکہ خیر و شر اضافتی و نسبی ہیں۔ یہ انسان ہے جو خیر کو شر بناتا ہے۔
تلوار کی دھار کا تیز ہونا تلوار کا کمال ہے۔ اگر اس سے کسی مظلوم کا گلا کٹ جاتا ہے تو یہ تلوار کا نقص نہیں ہے، یہ انسان ہے جس نے تلوار کے کمال کو نقص میں بدل دیا۔ اسی طرح بچھو، سانپ، مگرمچھ وغیرہ میں اپنے تخلیقی اعتبار سے کوئی نقص نہیں ہے۔ ان کی خلقت میں موجود ہر چیز کی افادیت ہے۔ اگر کسی کو اس سے ضرر پہنچا ہے تویہ شخص کی نسبت سے شر ہے، یہ نسبت اللہ کی مخلوق نہیں ہے۔ اس کی ایک اور واضح مثال پانی ہے۔ پانی کی تخلیق میں مصلحت سب کو معلوم ہے اور اس پانی کا وافر ہونا بھی بہتر ہے لیکن اگر پانی کے طوفان کی وجہ سے کسی کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ اس شخص کی نسبت شر ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 6 صفحہ 414)
رازقیت خالقیت کا لازمہ
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ ؕ ہَلۡ مِنۡ خَالِقٍ غَیۡرُ اللّٰہِ یَرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۫ۖ فَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ﴿فاطر:۳﴾
اے لوگو! اللہ کے تم پر جو احسانات ہیں انہیں یاد کرو، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو آسمان اور زمین سے تمہیں رزق دے؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں الٹے پھرے جا رہے ہو؟
تفسیر آیات
۱۔ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ: خطاب عامۃ الناس سے ہے جو اللہ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں کی نسبت غیر اللہ کی طرف دیتے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اس کے دروازے پر جاتے ہیں۔ نعمتیں اللہ دیتا ہے پوجا دوسروں کی کرتے ہیں۔
۲۔ ہَلۡ مِنۡ خَالِقٍ غَیۡرُ اللّٰہِ یَرۡزُقُکُمۡ: ہے کوئی خالق سوائے اللہ کے جو تمہیں روزی دے؟ مشرکین اللہ کو خالق مانتے تھے مگر یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ رزق دینے کا کام دوسروں کو سونپا گیا ہے۔ اب اللہ رزق نہیں دیتا دوسرے رزق دیتے ہیں۔ اس آیت میں یہ بات واضح فرما دی کہ خالق ہی رازق ہے: ہَلۡ مِنۡ خَالِقٍ غَیۡرُ اللّٰہِ یَرۡزُقُکُمۡ یا اللہ کے علاوہ کوئی خالق ہے جو تمہیں رزق دے؟ اس سے واضح ہو گیا خالق ہی رازق ہو سکتا ہے اور خالقیت اور رازقیت میں تفریق ممکن نہیں ہے۔ رازقیت تخلیق مسلسل سے عبارت ہے۔ خالق ہی دانے کا سینہ چاک کر کے روزی دیتا ہے۔
۳۔ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ: پس معبود وہی ہوتا ہے جو خالق اور رازق ہو۔ اس کے علاوہ دوسروں کے پاس خالقیت کا اختیار نہیں ہے تو رزق دینے کا بھی اختیار نہیں ہے۔ ان کی پوجا کرکے کیا حاصل کر سکو گے۔
۴۔ فَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ: پھر تم کہاں الٹے پھرے جا رہے ہو۔ جس کے پاس سب کچھ ہے اس کا دروازہ چھوڑ کر ایسوں کے دروازے پر جاتے ہو جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
اہم نکات
۱۔ خالق ہی رازق ہوتا ہے۔ خالقیت اور رازقیت قابل تفریق نہیں ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 192)
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙبقرہ:۲۱﴾
۲۱۔ اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے والے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (خطرات سے) بچاؤ کرو۔
تشریح کلمات
خلق:( خ ل ق ) پیدا کرنا۔ اصل میں درست اندازہ گیری کو خلق کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں خلق ’’ایجاد‘‘ کے لیے استعمال ہواہے۔ یعنی کسی شے کو عدم سے وجود میں لانا۔اسے خلق ابداعی کہتے ہیں اور یہ صرف خداوند تعالیٰ سے مخصوص ہے۔ البتہ یہ لفظ دیگر معانی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ مثلاً کسی موجود چیز کو ایک حال سے دوسرے حال میں تبدیل کرنا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا گیا:
وَ اِذۡ تَخۡلُقُ مِنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ بِاِذۡنِیۡ ۔۔۔{۵ مائدہ : ۱۱۰}
اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے پرندے کا پتلا بناتے تھے۔
تفسیر آیات
گزشتہ آیات میں مختلف اور متعدد انسانی گروہوں ـ(متقین، کفار اور منافقین) کا ذکر گزرا اور اب ان آیات میں اللہ تعالیٰ انسانوں کو فکر و استدلال اور عقل و تدبرکے ذریعے دعوت دیتا ہے کہ وہ متقین سے پیوست ہو جائیں۔ مذکورہ تین گروہوں میں سے متقین کے گروہ کو اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے خالق نے منطقی بنیادوں کا ذکر فرمایا، جو ربوبیت ، خالقیت اور رزاقیت سے عبارت ہیں۔
ربوبیت کے ادراک کے بعد عبودیت ہے۔ یعنی اپنے مربی اور تربیت کنندہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ایک ضروری اور فطری امر ہے۔
جب انسان اپنے آپ کو مخلوق سمجھتا ہے تو اپنے خالق کی طرف متوجہ ہونا ایک فطری امر ہے۔ کتاب خلقت (کائنات) کے مطالعے کے ذریعے توحید تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قاری صرف خلقت کے موجودہ صفحات پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خلقت کے گزشتہ ادوار پرمشتمل صفحات کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ میں موجودہ نسل سے قبل یاموجودہ انسانی نوع سے پہلے، یعنی انسانی خلقت سے پہلے کی مخلوقات غرضیکہ تمام ممکنہ مخلوقات اس میں شامل ہیں۔
اہم نکات
۱۔ مختلف نظریاتی گروہوں کے تقابلی مطالعے کے بعد انسان کو متقین (صاحبان عقل و منطق) کے ساتھ رہنے کی دعوت دی گئی ہے۔
۲۔ انسان کو خلقت کے حوالے سے آفاقی مطالعے کی دعوت دی گئی ہے۔
۳۔ انسانی خلقت کا مقصد خالق کی پرستش ہے: اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ ۔
۴۔ عابد کے پیش نظر صرف اللہ کی ربوبیت اورخالقیت ہونی چاہیے: الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ ۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 240)
ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ٭ ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰىہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ ؕ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿بقرہ:29﴾
وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا، پھر آسمان کا رخ کیا تو انہیں سات آسمانوں کی شکل میں بنا دیا اور وہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔
تشریح کلمات
اسْتَوٰٓى🙁 س و ی ) ہر طرف سے احاطہ کرنا اور کسی عمل پر استقرار ۔ جب اس لفظ کے ساتھ اِلَى آئے تو اس کا معنی ہے ’’خود کسی چیز تک پہنچ جانا ‘‘ یا ’’ اس کا قصد و ارادہ اور تدبیر کرنا ‘‘۔ اسی لیے ہم نے اسْتَوٰٓى کا ترجمہ ’’قصد‘‘ کیا ہے۔
سوّی:( س و ی ) حکمت و تدبیر سے کسی چیز کو درست کرنا: الَّذِيْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ ۔۔۔ {۸۲ انفطار : ۷}
عَلِيْمٌ؛( ع ل م ) عالم کا صیغہ مبالغہ۔ کسی عالم کے بارے میں جب یہ بتانا مقصود ہو کہ وہ زیادہ اور خوب جاننے والاہے تو اسے علیم کہتے ہیں۔
تفسیرآیات
الہٰی تصور کائنات کے مطابق انسان مخدوم کائنات ہے۔ وہ صرف بندۂ زر نہیں اور نہ ہی اقتصادی عوامل اور پیداواری وسائل کا غلام ہے۔ الٰہی انسان سے تو یہ خطاب ہوتاہے: ھُوَالَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۔۔۔۔
وَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مِّنۡہُ }۴۵ جاثیہ: ۱۳}
جوکچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کیا ہے۔
وَ سَخَّرَ لَکُمُ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ دَآئِبَیۡنِ }۱۴ ابراہیم : ۳۳}
اور اسی نے ہمیشہ چلتے رہنے والے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا ہے ۔
الہٰی انسان کی عزت و تکریم کے بارے میں فرمایا:
وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ ۔۔۔ {۱۷ اسراء : ۷۰}
اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
خُلِقَ لَکُمْ لِتَعْتَبِرُوْا بِہِ وَ تَتَوَصَّلُوْا بِہِ اِلَی رِضْوَانِہِ وَ تَتَوَقَّوا مِنْ عَذَابِ نِیْرَانِہ ۔ {تفسیر امام حسن عسکریؑ ص ۲۱۵}
یہ سب کچھ تمہارے لیے خلق ہوا ہے تاکہ تم اس سے عبرت حاصل کرو اور اسے اللہ کی خوشنودی کا وسیلہ بناؤ اور اس کے ذریعے آتش جہنم سے بچنے کا سامان مہیا کرو۔
اس آیت سے منابع ارضی کی حلیت کا قانون بنتا ہے، جس کی تفصیل فقہی کتب میں موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دنوں میں خلق فرمایا: خَلَقَ الۡاَرۡضَ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ ۔۔{ ۴۱ حم سجدہ : ۹۔ زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔} اس کے بعد زمین کو اس پر بسنے والوں کے لیے مسخر کیا اور چار دن میں اسے قابل استفادہ بنا دیا: وَ قَدَّرَ فِیۡہَاۤ اَقۡوَاتَہَا فِیۡۤ اَرۡبَعَۃِ اَیَّامٍ ۔۔۔ {۴۱ حم سجدہ : ۱۰۔ اور اس میں چار دنوں میں سامان خوراک مقرر کیا۔}
اس کے بعد آسمانوں کی خلقت کا مرحلہ آتا ہے: ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ ۔۔۔ { ۴۱ حم سجدہ : ۱۱} ’’پھر آسمان کا قصد کیا۔‘‘ البتہ وَ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِکَ دَحٰىہَا ۔ { ۷۹ نازعات:۳۰ ۔ اور اس کے بعداس نے زمین کو بچھایا۔} سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو آسمان کے بعد بنایا۔
دونوں آیات سے مجموعی طور پر جو مطلب سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے زمین کو خلق فرمایا، پھر آسمانوں کا قصد کیا اور انہیں سات آسمانوں کی شکل میں مرتب کیا۔ اس کے بعد زمین کو دحو کیا۔
عام طور پر دحو کا ترجمہ ’’ بچھانا‘‘ کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں ترتیب کار یہ ہے :
۱۔ زمین کی خلقت۔
۲۔ آسمانوں کی خلقت۔
۳۔ زمین کا بچھانا۔
راغب نے مفردات میں دحو کا یہ معنی بیان کیا ہے: ازالھا عن مقرھا۔ زمین کو اس کے ٹھکانے سے ہٹا دیا۔ اس صورت میں ترتیب عمل اس طرح ہو گی :
۱۔ زمین کی خلقت۔
۲۔ آسمانوں کی خلقت۔
۳۔ زمین کو مدار میں چھوڑنا، اسے حرکت دینا۔ یعنی زمین کی خلقت آسمانوں سے پہلے ہوئی مگر اسے اصل جگہ سے ہٹا کر حرکت دینے کا عمل بعد میں انجام پایا۔ واللہ اعلم بالصواب
قرآن مجید کی متعدد آیات میں سات آسمانوں کا ذکر ہے۔ ان آیات میں آسمانوں کے لیے جمع کا صیغہ سَمٰوٰتٍ ذکر کیا گیا ہے جب کہ زمین کے لیے مفرد کا صیغہ الۡاَرۡضَ ذکر ہوا ہے۔ صرف ایک جگہ آسمانوں کے ذکر کے بعد زمین کا ذکر وَّ مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَہُنَّ ۔۔۔ { ۶۵ طلاق: ۱۲} کی تعبیر کے ساتھ آیا ہے، جس میں اس بات کی صراحت موجود نہیں ہے کہ زمینیں بھی سات ہیں، کیونکہ مِثۡلَہُنَّ میں تعدا دکے لحاظ سے مِثلیّت ضروری نہیں بلکہ ممکن ہے کہ عناصر تخلیق یا دیگر جہات میں مِثلیّت مراد ہو۔
سات آسمانوں کے بارے میں ہماری معلومات نہایت محدود ہیں۔ قدیم زمانے میں کچھ حضرات نے بطلیموسی تصور افلاک کی روشنی میں سات آسمانوں کی توجیہ سات سیاروں کے ساتھ کی ہے۔
واضح رہے کہ اولاً تو بطلیموسی تصور افلاک صد در صد باطل ثابت ہوا ہے۔ ثانیاً ہمارے پورے نظام شمسی کو کائنات کے اس حصے میں بھی کوئی اہمیت حاصل نہیں جو ہمارے مشاہدے میں آچکا ہے اور کائنات کا وہ حصہ جو ہمارے مشاہدے میں نہیں آیا اس کا اندازہ کرنا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ اس کائنات میں اگر ہمارا پورا نظام شمسی تباہ ہوجاتا ہے تو یہ ایسے ہی ہوگا جیسے ایک چیونٹی کسی کے پاؤں تلے آکر ہلاک ہوجائے۔ لہٰذا یہ تصور مضحکہ خیز ہے کہ سات آسمانوں سے مراد سات سیارے ہیں۔
سات آسمانوں میں سے کسی ایک آسمان کے بارے میں بھی اگر کچھ تفصیل ہمیں معلوم ہوجاتی تو باقی آسمانوں کے بارے میں ایک اجمالی تصور قائم کرنا ممکن ہوتا۔ روایات میں بھی آسمان اول، دوم، سوم تا آخر کا ذکر آتا ہے، لیکن کسی آسمان کی ہیئت ترکیبی کے بارے میں کوئی تفصیل موجود نہیں ہے ۔
البتہ قرآن میں تین آیات ایسی ہیں جن سے آسمان اول کی تشخیص میں کچھ مدد ملتی ہے:
پہلی آیت: اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِزِیۡنَۃِۣ الۡکَوَاکِبِ {۳۷ صافات: ۶}
ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا،
دوسری آیت: وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ ۔۔ {۴۱ حم سجدہ: ۱۲}
اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے آراستہ کیا۔
تیسری آیت: وَ لَقَدۡ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ {۶۷ ملک : ۵}
اور بے شک ہم نے قریب ترین آسمان کو (ستاروں کے) چراغوں سے آراستہ کیا۔
ان آیات سے بظاہر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جو ستارے اور کہکشائیں انسان کے مشاہدے میں آئی ہیں، وہ سب سات آسمانوں میں سے صرف آسمان اول السَّمَآءَ الدُّنۡیَا سے متعلق ہیں۔ اس مؤقف کے مطابق آسمان اول کی وسعت کا اندازہ کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے۔ چنانچہ بعض کہکشاؤں سے روشنی چلے ہوئے اربوں سال گزر چکے ہیں، لیکن ہنوز ہم تک نہیں پہنچی۔ یاد رہے کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکینڈ ہے۔
لہٰذا دیگر آسمانوں کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔
اہم نکات
۱۔ انسان مخدوم کائنات ہے ۔
۲۔ نظام کائنات توحیدکی مستحکم ترین دلیل ہے۔
تحقیق مزید: تفسیر الامام ص ۲۱۵۔ عیون اخبار الرضا ۲: ۱۲
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 259)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button