محافلمناقب رسول خدا صمناقب و فضائل

مقام و منزلت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، نہج البلاغہ کی روشنی میں

تحریر : مختار حسین توسلی ( فاضل جامعۃ الکوثرو متعلم حوزہ علمیہ نجف اشرف)
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے مختلف خطبات و ارشادات میں پیغمبر ِ اسلام حضرت محمد مصطفى صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندانی شرف و مقام، بعثت سے قبل عربوں کے سماجی و سیاسی حالات، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت و رسالت، آپ کی بعثت کے مقاصد، مکارم ِ اخلاق، سیرت و کردار اور آپ کی شخصیت کے دیگر پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے، ذیل میں اِس حوالے سے نہج البلاغہ میں موجود امام ِ عالی مقام کے خطبات میں سے چند اقتباسات کو اختصار کے ساتھ کچھ عناوین کے تحت بیان کیا گیا ہے۔
آنحضرت کے اوصاف و کمالات :
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کائنات میں اللہ تعالی کے بعد سب سے عظیم بستی ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو بے پناہ اوصاف و کمالات سے نوازا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اوصاف و کمالات یا تو خود اللہ رب العزت بیان کرسکتا ہے جو سب کا خالق و مالک ہے، یا وہ معصوم ہستیاں بیان کرسکتی ہیں جنہیں اللہ تعالی نے برگزیدہ کرکے دنیا میں بھیجا ہے، چنانچہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس حوالے سے فرماتے ہیں :” حَتَّی بَعَثَ اللہُ محمّدًا صلی اللہ علیہ وآلہ، شھیداً و بَشِیراً، و نذیراً، خَیر البَرِّیةِ طِفلاً، واَنْجَبَھَا کَھْلاً، وَ اَطْھَرَ الْمُطَھَّرِینَ شِیمَةً، وَ اَجْوَدَ المُسْتَمطَرِینَ دِیمَةً۔ ‘
یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امت کے اعمال کا گواہ، ثواب کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا، جو بچپن میں بہترین خلائق اور سن رسیدہ ہونے پر بھی اشرف ِ کائنات تھے، عادات کے اعتبار سے تمام پاکیزہ افراد سے زیادہ پاکیزہ اور باران رحمت کے اعتبار سے ہر سحاب ِ رحمت سے زیادہ کریم و جواد تھے۔
( نہج البلاغہ خطبہ : 103)
ایک اور مقام پر امام عالی مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزید اوصاف و کمالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :” فَھُوَ اِمامُ مَنِ اتَّقٰی، و بَصیرَة مَنِ اھْتَدیٰ، سراج لَمَعَ ضَوْئُهُ وَ شِھَاب سَطَعَ نُورُہ و زَنْد بَرَقَ لَمْعُہُ، سِیرَتُہُ الْقَصْدُ، و سُنَّتُہُ الرُّشْدُ وکَلَامُہُ الْفَصْل، و حُکْمُہُ الْعَدْلُ، اَرْسَلَہُ عَلَیٰ حِینَ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ وَ ھَفْوَةٍ عَنِ العَمَلِ، غَبَاوَةٍ مِنَ اْلُامَمِ ۔
یعنی : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل تقویٰ کے امام اور طالبان ِ ہدایت کے لئے سرچشمہ بصیرت ہیں، آپ ایسا چراغ ہیں جس کی روشنی لو دے رہی ہے اور ایسا ستارہ جس کا نور درخشاں ہے اور ایسا چقماق ہیں جس کی چمک شعلہ ور ہے، ان کی سیرت میانہ روی، سنت رشد و ہدایت، ان کا کلام حرف آخر اور ان کا فیصلہ عادلانہ ہے، اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس وقت بھیجا جب انبیاء کا سلسلہ موقوف تھا اور بدعملی کا دور دورہ تھا اور امتوں پر غفلت چھائی ہوئی تھی۔
(حوالہ سابق خطبہ : 92)
آنحضرت کی نبوت، وعدہ الہی کی تکمیل :
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے سابقہ انبیآء و مرسلین علیہم السلام سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ اپنے حبیب، وجہ تخلیق کائنات اور رحمة للعالمين حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آخری نبی کے طور پر مبعوث فرمائے گا، یعنی ان پر نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہوگا اور اُن سے عہد لیا تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لے آئیں گے اور لوگوں کو آپ کی آمد کی بشارت دے دیں گے.
نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ایک میں امیر المومنین علیہ السلام نے اسی نکتے کی جانب اشارہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت وعدہ آلہی کی تکمیل ہے، آپ کی آمد سے قبل لوگوں کی حالت دگرگون تھی، وہ جہالت اور گمراہی کا شکار تھے، چنانچہ خدا وند متعال نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کے ذریعے انہیں علم و ہدایت کی راہ پر ڈال دیا ۔
چنانچہ آپ فرماتے ہیں :” إِلَی أَنْ بَعَثَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ مُحَمَّداً رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وآله لِإِنْجَازِ عِدَتِهِ وَ إِتْمَامِ نُبُوَّتِهِ مَأْخُوذاً عَلَی النَّبِیِّینَ مِیثَاقُهُ مَشْهُورَةً سِمَاتُهُ کَرِیماً مِیلَادُهُ وَ أَهْلُ الْأَرْضِ یَوْمَئِذٍ مِلَلٌ مُتَفَرِّقَةٌ وَ أَهْوَاءٌ مُنْتَشِرَةٌ وَ طَرَائِقُ مُتَشَتِّتَةٌ بَیْنَ مُشَبِّهٍ لِلَّهِ بِخَلْقِهِ أَوْ مُلْحِدٍ فِی اسْمِهِ أَوْ مُشِیرٍ إِلَی غَیْرِهِ فَهَدَاهُمْ بِهِ مِنَ الضَّلَالَةِ وَ أَنْقَذَهُمْ بِمَکَانِهِ مِنَ الْجَهَالَةِ۔۔۔
ترجمہ : یہاں تک کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ایفائے عہد و اتمام نبوت کے لئے آنحضرت کو مبعوث کیا، جن کے متعلق نبیوں سے عہد وپیمان لیا جا چکا تھا، جن کی علامات مشہور اور ولادت مبارک تھی، اس وقت زمین پر بسنے والے مختلف ملتوں میں بھٹے ہوئے، ان کی خواہشیں پراگندہ اور راہیں الگ الگ تھیں، کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے، کچھ اس کے ناموں کو بگاڑ دیتے، کچھ اسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کرتے تھے، پھر خدا وندِ عالم نے آپ کی وجہ سے انہیں گمراہی سے ہدایت کی راہ پر لگایا اور آپ کے وجود سے انہیں جہالت سے نجات عطا فرمائی۔
( حوالہ سابق خطبہ: 1 )
عربوں کو جہالت و گمراہی سے نجات دینا :
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں متعدد مقامات پر پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے قبل عربوں کی سیاسی اور معاشرتی حالات کی منظر کشی کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ ایسے ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے نکلنا بظاہر ناممکن نظر آتا تھا، لوگ خدا کی بجائے شیطان کے پیروکار بن گئے تھے اور ضلالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں پڑے ہوئے تھے گویا اس زمانے میں ہر سمت جہالت کا دور دورہ تھا۔
چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام نے ایک مقام پر عربوں کی جہالت پر مبنی طرز معاشرت کی یوں وضاحت فرمائی ہے :” إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّداً صلی الله علیه وآله نَذِیراً لِلْعَالَمِینَ وَ أَمِیناً عَلَی التَّنْزِیلِ وَ أَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلَی شَرِّ دِینٍ وَ فِی شَرِّ دَارٍ مُنِیخُونَ بَیْنَ حِجَارَةٍ خُشْنٍ وَ حَیَّاتٍ صُمٍّ تَشْرَبُونَ الْکَدِرَ وَ تَأْکُلُونَ الْجَشِبَ وَ تَسْفِکُونَ دِمَاءَکُمْ وَ تَقْطَعُونَ أَرْحَامَکُمْ الْأَصْنَامُ فِیکُمْ مَنْصُوبَةٌ وَ الْآثَامُ بِکُمْ مَعْصُوبَةٌ .
ترجمہ : یقینا خدا وند متعال نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عالمین کے لئے تنبیہ کرنے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا ہے، اے گروہ عرب ! اُس وقت تم بدترین دین پر اور بدترین گھروں میں رہتے تھے، کھردرے پتھروں اور زہریلے سانپوں کے ساتھ تم رہن سہن رکھتے تھے، تم گدلا پانی پیتے اور غلیظ غذا استعمال کرتے تھے، ایک دوسرے کاخون بہاتے اور قرابتداروں سے قطع تعلقی کرتے تھے، بت تمہارے درمیان گڑے ہوئے اور گناہ تم سے چمٹے ہوئے تھے۔
(حوالہ سابق خطبہ: 26)
عین اسی وقت جب عربوں کی جہالت و گمراہی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی خدا وند متعال نے اپنے حبیب کو ان کی ہدایت و رہبری کے مبعوث فرمایا، اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :” بَعَثَهُ وَ النَّاسُ ضُلَّالٌ فِی حَیْرَةٍ وَ حَاطِبُونَ فِی فِتْنَةٍ قَدِ اسْتَهْوَتْهُمُ الْأَهْوَاءُ وَ اسْتَزَلَّتْهُمُ الْکِبْرِیَاءُ وَ اسْتَخَفَّتْهُمُ الْجَاهِلِیَّةُ الْجَهْلَاءُ حَیَارَی فِی زَلْزَالٍ مِنَ الْأَمْرِ وَ بَلَاءٍ مِنَ الْجَهْلِ فَبَالَغَ صلی الله علیه وآله فِی النَّصِیحَةِ وَ مَضَی عَلَی الطَّرِیقَةِ وَ دَعَا إِلَی الْحِکْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ .
ترجمہ : خدا وند متعال نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں سرگرداں تھے، فتنوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے، خواہشات نے انہیں بھٹکا دیا تھا، غرور و تکبر نے انہیں بہکا دیا تھا، جاہلیت نے انہیں بے عقل بنا دیا تھا اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں میں حیران و سرگرداں تھے، آپ نے نصیحت کا حق ادا کر دیا، خود سیدھے راستے پر چلے اور لوگوں کو حکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔
(حوالہ سابق خطبہ : 93)
آنحضرت کی بعثت کے مقاصد :
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے خطبات و ارشادات میں پیغمبر ِ اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے مختلف مقاصد بیان فرمائے ہیں جن میں سے چند مقاصد کو ذیل میں کچھ عناوین کے تحت سپرد قرطاس کیا جائے گا :-
1 ۔ خدا و بندوں کے مابین پیغام رسانی :
اللہ تعالی جسم و جسمانیت سے مبرا ہے لہذا وہ بندوں کے سامنے نہیں آ سکتا اور بندوں میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کی بارگاہ میں جا سکیں چنانچہ رب العامین نے اپنے احکامات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے نبوت و رسالت کا سلسلہ شروع کیا اور اپنے بندوں میں سے کچھ خاص ہستیوں کو اس منصب پر فائز کر دیا تاکہ وہ پیغام رسانی کا کام انجام دے سکیں، جنہیں ہم انبیاء ومرسلین کہتے ہیں چنانچہ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ومرسلین آئے ان میں سے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سابقہ تمام انبیآء کے سردار اور آخری رسول ہیں جنہوں نے پوری جانفشانی سے اللہ تعالی کے احکام و پیغامات کو لوگوں تک پہنچایا اور جہالت و گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کو ہدایت و کرامت سے نوازا۔
چنانچہ اسی نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :” ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ بَعَثَ مُحَمَّداً ( صلی الله علیه وآله ) بِالْحَقِّ حِینَ دَنَا مِنَ الدُّنْیَا الِانْقِطَاعُ وَ أَقْبَلَ مِنَ الْآخِرَةِ الِاطِّلَاعُ وَ أَظْلَمَتْ بَهْجَتُهَا بَعْدَ إِشْرَاقٍ وَ قَامَتْ بِأَهْلِهَا عَلَی سَاقٍ وَ خَشُنَ مِنْهَا مِهَادٌ وَ أَزِفَ مِنْهَا قِیَادٌ فِی انْقِطَاعٍ مِنْ مُدَّتِهَا وَ اقْتِرَابٍ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَ تَصَرُّمٍ مِنْ أَهْلِهَا وَ انْفِصَامٍ مِنْ حَلْقَتِهَا وَ انْتِشَارٍ مِنْ سَبَبِهَا وَ عَفَاءٍ مِنْ أَعْلَامِهَا وَ تَکَشُّفٍ مِنْ عَوْرَاتِهَا وَ قِصَرٍ مِنْ طُولِهَا جَعَلَهُ اللَّهُ بَلَاغاً لِرِسَالَتِهِ وَ کَرَامَةً لِأُمَّتِهِ وَ رَبِیعاً لِأَهْلِ زَمَانِهِ وَ رِفْعَةً لِأَعْوَانِهِ وَ شَرَفاً لِأَنْصَارِهِ ۔
یعنی : اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، جب دنیا فنا کی منزل کے قریب تر ہو گئی تھی اور آخرت سر پر منڈلانے لگی تھی، اس کی رونقوں کا اجالا اندھیرے سے بدلنے لگا تھا اور اپنے رہنے والوں کے ليےمصیبت بن کر کھڑی ہو گئی تھی، اس کا فرش نا ہموار ہوگیا اور فنا کے ہاتھو ں میں باگ ڈور دینے کے ليےآمادہ ہو گئی تھی، اس وقت کہ جب اس کی مد ت اختتام پذیر اور (فنا کی ) علامتیں قریب آگئیں، اس کے بسنے والے تباہ اور اس کے حلقہ کی گڑیاں الگ ہونے لگیں، اس کے بندھن پراگندہ اور نشانات بوسیدہ ہوگئے، اس کے عیب کھلنے اور پھیلے ہوئے دامن سمٹنے لگے، ( پھر ) آنحضرت کو اللہ تعالٰی نے پیغام رسانی کا وسیلہ، امت کی کرامت، اہل عالم کے لیے بہار، اعوان و انصار کی رفعت و عزت کا سبب قرار دیا۔
(حوالہ سابق خطبہ : 196)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :” اَرْسَلَہُ بوُجُوب الحُحَج، و ظُھُورِ الفَلَجِ، وَ اِیضَاحِ المَنْھَجِ، فَبَلَّغَ الرِّسالَةَ صَادِعاً بِھَا و حَمَلَ عَلَی المَحَجَّةِ دَالّا عَلَیْھَا وَ اَقَامَ اَعْلَامَ الِا ھْتِدَائِ ومَنَارَ الِضّیَائِ، وَ جَعَلَ اَمْرَ اسَ الِاسْلامِ مَتِینَةً وَعُرَیٰ الاِ یمٰانِ وَثِیقَةً۔ ”
اللہ تعالٰی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ناقابل انکار دلیلوں، واضح کامرانیوں اور راہ (شریعت) کی راہنمائیوں کے ساتھ بھیجا آپ نے اس کے پیغام کو واشگاف انداز میں پیش کر دیا اور لوگوں کو سیدھے راستے کی راہنمائی کر دی، ہدایت کے نشان قائم کر دیئے اور روشنی کے منارے استوار کر دیئے، اسلام کی رسیوں کو مضبوط بنا دیا اور ایمان کے بندھنوں کو مستحکم کر دیا۔
(حوالہ سابق خطبہ: 183)
2 ۔ لوگوں کو حق کی طرف دعوت دینا :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد لوگوں کو حق کی طرف دعوت دینا ہے، اور اس راہ میں آپ نے بے پناہ مشقتیں برداشت کی ہیں لیکن ابلاغ ِ پیغام ِ حق میں کوتاہی نہیں برتی چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام اپنے ایک خطبے میں فرماتے ہیں :” أَرْسَلَهُ دَاعِیاً إِلَی الْحَقِّ وَ شَاهِداً عَلَی الْخَلْقِ فَبَلَّغَ رِسَالَاتِ رَبِّهِ غَیْرَ وَانٍ وَ لَا مُقَصِّرٍ وَ جَاهَدَ فِی اللَّهِ أَعْدَاءَهُ غَیْرَ وَاهِنٍ وَ لَا مُعَذِّرٍ إِمَامُ مَنِ اتَّقَی وَ بَصَرُ مَنِ اهْتَدَی مِنْهَا ۔”
یعنی : اللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حق کی طرف بلانے والا اور مخلوق کی گواہی دینے والا بنا کر بھیجا، چنانچہ آپ نے اپنے پروردگار کے پیغامات کو لوگوں تک پہنچایا، نہ اس میں کچھ سستی کی نہ کوتاہی اور اللہ کی راہ میں اس کے دشمنوں سے جہاد کیا، جس میں نہ کمزوری دکھائی، نہ حیلے بہانے کئے، وہ پرہیز گاروں کے امام اور ہدایت پانے والے (کی انکھوں) کے لیے بصارت ہیں۔
(حوالہ سابق خطبہ : 114)
3 ۔ لوگوں کو عبادت ِ الہی کی طرف بلانا :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مبعوث بہ رسالت ہونے کا ایک اہم ہدف و مقصد لوگوں کو بت پرستی اور شیطان کی اطاعت سے نجات دلا کر توحید پرستی اور عبادت ِ الہی کی طرف لے آنا ہے، چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام اس ضمن میں فرماتے ہیں :” فَبَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّداً صلی الله علیه وآله بِالْحَقِّ لِیُخْرِجَ عِبَادَهُ مِنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ إِلَی عِبَادَتِهِ وَ مِنْ طَاعَةِ الشَّیْطَانِ إِلَی طَاعَتِهِ بِقُرْآنٍ قَدْ بَیَّنَهُ وَ أَحْکَمَهُ لِیَعْلَمَ الْعِبَادُ رَبَّهُمْ إِذْ جَهِلُوهُ وَ لِیُقِرُّوا بِهِ بَعْدَ إِذْ جَحَدُوهُ وَ لِیُثْبِتُوهُ بَعْدَ إِذْ أَنْکَرُوهُ ۔۔۔
یعنی : پروردگار نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ آپ لوگوں کو بت پرستی سے نکال کر عبادت الٰہی کی طرف لے آئیں اور شیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمٰن کی اطاعت سے روشناس کرائیں، اس قرآن کے ذریعہ جسے اُس نے واضح اور محکم قرار دیا ہے تاکہ بندے اپنے رب سے جاہل و بے خبر رہنے کے بعد اُسے پہچان لیں، ہٹ دھرمی اور انکار کے بعد اس کے وجود کا یقین اور اقرار کریں۔
(حوالہ سابق : 145)
آنحضرت کے اخلاق و کردار :
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جن اوصاف ِ حمیدہ کو بڑے فخر سے بیان فرمایا ہے ان میں سے ایک آپ کا اخلاق ِ کریمہ ہے، گویا آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز تھے، جس سے اوپر کسی کا اخلاق نہیں تھا، نیز خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی مکارم اخلاق کی تکمیل کو نمایاں طور پر اپنی بعثت کا مقصد قرار دیا ہے۔
اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و کردار بھی بے مثال ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی سیرت و کردار کو دوسروں کے لئے رول ماڈل یعنی نمونہ عمل قرار دیا ہے۔
نہج البلاغہ میں امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے متعدد خطبات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اخلاق و کردار کے مختلف گوشوں کو بیان فرمایا ہے، ذیل میں اختصار کی خاطر کچھ اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں۔
چنانچہ ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں :” وَلَقَدْ کَانَ صَلَّیٰ اللہ صَلّى اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ، یأکُلُ عَلَیٰ اْلَٔارضِ، وَ یجْلِسُ جِلْسَةَ اَلْعَبْدِ، وَ یخْصِفُ بِیدِہِ نَعْلَہُ، وَ یرْقَعُ بِیدہِ ثَوْبَہُ، و یرْکَبُ اَلْحِمَارَ اَلْعَارِیَ وَ یرْدِفُ خَلْفَہُ .”
یعنی : رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے اپنے ہاتھ سے جوتی گانٹھتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگائے تھے اور بے پالان گدھے پر سوار ہوتے تھے اور اپنے پیچھے کسی کو بیٹھا بھی لیتے تھے۔
(حوالہ سابق خطبہ 158)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکارم ِ اخلاق اور بلند سیرت و کردار کی وجہ سے اللہ تعالی نے آپ کے ہر قول و فعل کو لوگوں کے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے چنانچہ اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین علیہ السلام ایک مقام پر فرماتے ہیں :” وَ لَقَدْ کَانَ فِی رَسُولِ اللَّهِ ( صلی الله علیه وآله ) کَافٍ لَکَ فِی الْأُسْوَةِ وَ دَلِیلٌ لَکَ عَلَی ذَمِّ الدُّنْیَا وَ عَیْبِهَا وَ کَثْرَةِ مَخَازِیهَا وَ مَسَاوِیهَا إِذْ قُبِضَتْ عَنْهُ أَطْرَافُهَا وَ وُطِّئَتْ لِغَیْرِهِ أَکْنَافُهَا وَ فُطِمَ عَنْ رَضَاعِهَا وَ زُوِیَ عَنْ زَخَارِفِهَا .
یعنی : رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی یقینا تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے، آپ کی ذات دنیا کے عیوب اور اس کی ذلت و رسوائیوں کی کثرت کو دکھانے کے لئے راہنما ہے اس لئے کہ آپ سے دنیا کے دامنوں کو سمیٹ لیا گیا اور دوسروں کے لئے اس کی وُسعتیں ہموار کر دی گئیں آپ کو اس کے منافع سے الگ رکھا گیا اور اس کی آرائشوں سے کنارہ کش کر دیا گیا۔
( حوالہ سابق )
نیز اسی خطبے میں آگے جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت و کردار پر عمل کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :” فَتَأَسَّ بِنَبِیِّکَ الْأَطْیَبِ الْأَطْهَرِ ( صلی الله علیه وآله ) فَإِنَّ فِیهِ أُسْوَةً لِمَنْ تَأَسَّی وَ عَزَاءً لِمَنْ تَعَزَّی وَ أَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَی اللَّهِ الْمُتَأَسِّی بِنَبِیِّهِ وَ الْمُقْتَصُّ لِأَثَرِهِ قَضَمَ الدُّنْیَا قَضْماً وَ لَمْ یُعِرْهَا طَرْفاً أَهْضَمُ أَهْلِ الدُّنْیَا کَشْحاً وَ أَخْمَصُهُمْ مِنَ الدُّنْیَا بَطْناً عُرِضَتْ عَلَیْهِ الدُّنْیَا فَأَبَی أَنْ یَقْبَلَهَا وَ عَلِمَ أَنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ أَبْغَضَ شَیْئاً فَأَبْغَضَهُ وَ حَقَّرَ شَیْئاً فَحَقَّرَهُ وَ صَغَّرَ شَیْئاً فَصَغَّرَهُ وَ لَوْ لَمْ یَکُنْ فِینَا إِلَّا حُبُّنَا مَا أَبْغَضَ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ تَعْظِیمُنَا مَا صَغَّرَ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ لَکَفَی بِهِ شِقَاقاً لِلَّهِ وَ مُحَادَّةً عَنْ أَمْرِ اللَّهِ ۔
یعنی : تم لوگ اپنے طیب و طاہر پیغمبر کی پیروی کرو چونکہ ان کی ذات اتباع کرنے والوں کے لئے بہترین نمونہ اور صبر و سکون کے طلب گاروں کے لئے بہترین سامان ِ صبر و سکون ہے، اللہ کی نظر میں محبوب ترین بندہ وہ ہے جو اس کے رَسُول کی پیروی کرے اور ان کے نقش قدم پر چلے، انہوں نے دنیا سے صرف مختصر غذا حاصل کی اور اسے نظر بھرکر دیکھا بھی نہیں، ساری دنیا میں سب سے زیادہ خالی پیٹ رہنے والے تھے، ان کے سامنے دنیا کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے اُسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور جب جان لیا کہ اللہ نے ایک چیز کو پسند نہیں کیا تو آپ نے بھی اُسے ناپسند کیا ہے اور اللہ نے ایک چیز کو حقیر سمجھا ہے تو آپ نے بھی اُسے حقیر ہی سمجھا ہے اور اللہ نے ایک چیز کو پست قرار دیا ہے تو آپ نے بھی اُسے پست قرارد یا ہے اور اگر ہم میں اس کے علاوہ کوئی عیب نہ بھی ہوتا کہ ہم خدا اور رسول کے مبغوض کو محبوب سمجھنے لگیں اور خدا اور رسول کی نگاہ میں پست اور حقیر کو عظیم اور بڑا سمجھنے لگیں تو اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سر تابی کے لئے یہی عیب کافی ہے۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں دنیا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیھم السلام کی سیرت و کردار پر عمل کرکے اپنی عاقبت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العامین ۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button