امامت

پیغمبر امامت کو الٰہی منصب سمجھتے ہیں

آیۃ اللہ جعفر سبحانی

اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ امت کی رہبری کا مسئلہ مسلمان معاشرہ کے لئے اساسی اور حیاتی حیثیت رکھتا ہے۔چنانچہ اسی مسئلہ پر اختلاف پیدا ہوا اور اس نے امت کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ان کے درمیان گھرا اختلاف پیدا کردیا ۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام چیزوں کے بارے میں واجب، مستحب ،حرام و مکروہ سے متعلق تو ساری باتیں بیان فرمائیں لیکن امت کی قیادت و رہبری اور حاکم کے خصوصیات سے متعلق کوئی بات کیوں بیان نہیں کی؟ کیا انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اتنے اہم موضوع پر کوئی توجہ نہ دی ہوگی بلکہ خاموشی اختیار کی ہوگی اور امت کو بیدار نہ کیا ہوگا؟!
علمائے اہل سنت فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیادت وامامت کے طریقہ کے سلسلہ میں نفیاًو اثباتاً کوئی بات نہیں بیان کی اور یہ واضح نہیں کیا کہ قیادت و رہبری کا مسئلہ انتخابی ہے یا تعیینی ہے۔
سچ مچ کیا عقل باور کرتی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس انتہائی اہم اور حیاتی مسئلہ پر خاموشی اختیار کی ہوگی اور قضیہ کے ان دونوں پہلوں سے متعلق کوئی اشارہ نہ کیا ہوگا؟
عقل کے فیصلہ سے آگے بڑھ کر تاریخ اسلام کا جائزہ بھی اس نظریہ کے خلاف گواہی دیتا ہے ۔اور یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف موقعوں پر یہ یاد دہانی کی ہے کہ میرے بعد امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ خدا سے مربوط ہے اور وہ اس سلسلہ میں کوئی اختیار نہیں رکھتے ۔یہاں ہم تاریخ اسلام سے چند نمونے پیش کرتے ہیں :
جب مشرکوں کے ایک قبیلہ کے سردار ”اخنس“ نے اس شرط پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حمایت کا اظہارکیا کہ اپنے کے بعد امت کی قیادت و سرپرستی آپ ہمارے حوالے کر جائیں گے تو پیغمبر اسلام نے اسے جواب دیا کہ ” الا مر الیٰ اللہ یضعہ حیث یشاء “یعنی امت کی قیادت کا مسئلہ خدا سے مربوط ہے وہ جسے بہتر سمجھے اس امر کے لئے منتخب کرے گا ۔قبیلہ کا سردار یہ بات سن کر مایوس ہو گیا اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جواب میں کھلایا کہ یہ بات بالکل درست نہیں ہے کہ رنج و زحمت میں اٹھاؤں اور قیادت و رہبری کسی اور کو ملے!
) تاریخ طبری ،ج۲، ص۱۷۲)
تاریخ اسلام میں یہ واقعہ بھی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ”یمامھ“ کے حاکم کو خط لکہ کر اسے اسلام کی دعوت دی اس نے بھی ”اخنس “ کے مانند آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آپ کی جانشینی کا تقاضا کیا تو آنحضرت نے اسے انکار میں جواب دیتے ہوئے فرمایا:”لا ولاکرامة “ یعنی یہ کام عزت نفس اور روح کی بلندی سے بعید ہے۔
)تاریخ کامل، ج۲،ص۶۳)
امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ اتنا اہم ہے کہ اس کی اہمیت کو صرف ہم ہی نے محسوس نہیں کیا ہے بلکہ صدر اسلام میں بھی یہ مسئلہ بہت سے لوگوں کی نظر میں بڑی اہمیت رکھتا تھا ۔ مثلا جس وقت خلیفہ دوم ،ابو لو لو کی ضرب سے زخمی ہوئے اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر نے اپنے باپ کو مرتے ہوئے دیکھا تو اپنے باپ سے کہا جتنی جلدی ہو سکے اپنا ایک جانشین معین کیجئے اور امت محمدی کو بے حاکم وبے سر پرست نہ چھوڑئے ۔
بالکل یہی پیغام ام المومنین عائشہ نے بھی خلیفہ دوم کو کھلایا اور ان سے درخواست کی کہ امت محمدی کے لئے ایک محافظ و نگہبان معین کر جائیں۔اب کیا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ان دو شخصیتوں نے امت کی قیادت و رہبری کے مسئلہ کی اہمیت کو تو اچھی طرح محسوس کر لیا تھا لیکن رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان دو افراد کے بقدر بھی اس مسئلہ کی اہمیت کو سمجھ نہیں پائے تھے ؟!
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کی دس سالہ زندگی کا ایک ہلکا سا جائزہ لینے کے ساتھ ہی یہ بات پوری طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ آنحضرت جب بھی کہیں جانے کے لئے مدینہ سے نکلتے تھے کسی نہ کسی کو مدینہ میں اپنا جانشین معین کر جاتے تھے ،تاکہ اس مختصر سی مدت میں بھی جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ میں تشریف نہیں رکھتے لوگ بے سر پرست اور بے پناہ نہ رہیں۔ کیا یہ بہتر ہے کہ جو جانشین معین کرنے کی اہمیت سے آگاہ ہو اور یہ جانتا ہو کہ حتی مختصر مدت کے لئے بھی جانشین معین کئے بغیر مدینہ کو ترک نہیں کرنا چاہئے ۔وہ دنیا کو ترک کرے اور اپنا کوئی جانشین معین نہ کرے یا کم از کم قیادت و رہبری کی شکل ونوعیت اور حاکمیت کے طریقہ کار کے بارے میں کچھ نہ کہے ؟!
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب کسی علاقہ کو فتح بھی کرتے تھے تو اسے ترک کرنے سے پہلے وہاں ایک حاکم معین فرماتے تھے پھر ان حالات میں یہ کیسے کھا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا جانشین معین کرنے میں غفلت سے کام لیا ہوگا اور اس کے لئے میں کوئی فکر نہ کی ہوگی ،جو ان کے بعد امت کی قیادت و رہبری اپنے ہاتھ میں لے سکے اور اسلام کے نو پا درخت کی نگہبانی و سرپرستی کر سکے؟!
نبوت و امامت باہم ہیں
متواتراحادیث اور اسلام کی قطعی تاریخ صاف گواہی دیتی ہیں کہ نبوت اور امامت دونوں کا اعلان ایک ہی دن ہوا اور جس روز پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا کی طرف سے اپنے خاندان والوں کے درمیان اپنی رسالت کا اعلان کرنے پر مامور ہوئے تھے اسی روز آپ نے اپنا خلیفہ و جانشین بھی معین فرمادیاتھا۔
اسلام کے گراں قدر مفسرین و محدثین لکھتے ہیں کہ جب آیت
و انذر عشیرتک الاقربین.(شعراء ۲۱۴)
نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو خاندان والوں کے لئے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا جنہیں آنحضرت نے مہمان بلایا تھا۔حضرت علی علیہ السلام نے بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے کھانا تیار کیا اور بنی ہاشم کی پینتالیس شخصیتیں اس مجلس میں اکٹھا ہوئیں۔پہلے روز ابو لہب کی بیہودہ باتوں کی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی رسالت کا پیغام سنانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔دوسرے روز پھر یہ دعوت کی گئی اور مہمانوں کے کھانا کھالینے کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی جگہ کھڑے ہوئے اور خداوند عالم کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا:
میں تم لوگوں اور دنیا کے تمام انسانوں کے لئے خدا کا پیغمبر ہوں اور تم لوگوں کے لئے دنیا وآخرت کی بھلائی لایا ہوں۔خدانے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اس دین کی طرف دعوت دوں تم میں سے جو شخص اس کام میں میری ا مدد کرے گا وہ میرا وصی اور جانشین ہوگا۔
اس وقت حضرت علی بن ابیطالب علیہما السلام کے علاوہ کسی نے بھی اٹھ کر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصرت و مدد کا اعلان نہیں کیا۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو بیٹھ جانے کا حکم دیا اور دوبارہ اور تیسری بار بھی اپنا جملہ دہرایا اور ہر بار حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی نے آپ کی حمایت اور اس راہ میں آپ کی نصرت و فدا کاری کا اظہار نہیں کیا۔اس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے خاندان والوں کی طرف رخ کرکے فرمایا:
”ان هذااخی و وصی و خلیفتی فیکم فاسمعوا و اطیعوا “
یعنی علی علیہ السلام میرا بھائی اور تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ہے،پس تم پر لازم ہے کہ اس کا فرمان سنو اور اس کی اطاعت کرو۔
) تاریخ طبری ج۲،ص۶۲،۶۳۔ تاریخ کامل ج۲،ص۴۰،۴۱۔ مسند احمد ،ج۱،ص۱۱۱ ۔اور دیگرماخذ)
تاریخ کا یہ واقعہ اس قدر مسلّم ہے کہ ابن تیمیہ جس کا خاندان اہل بیت علیہم السلام سے عناد سب پر ظاہر ہے ،کے علاوہ کسی نے بھی اس کی صحت سے انکار نہیں کیا ہے۔یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی امامت کی دلیل ہونے کے علاوہ اس بات کی سب سے اہم گواہ ہے کہ امامت کا مسئلہ امت کے اختیار میں نہیں ہے۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جانشین کا اعلان اس قدر اہم تھا کہ نبوت و امامت دونوں منصبوں کے مالک افراد کا اعلان ایک ہی دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان والوں کے سامنے کیا گیا ۔ یہ واقعہ تین بعثت کو پیش آیا اور اس وقت تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت مخصوص افراد کے ذریعہ لوگوں تک پہنچائی جاتی تھی اور تقریباً ۵۰پچاس افراد اس وقت تک مسلمان ہوئے تھے۔
(اقتباس از کتاب: امت کی رہبری)
http://alhassanain.org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button