مجالسمصائب امیر المومنین ؑمکتوب مصائب

حضرت علی علیہ السلام کی مظلومیت

حافظ کوثر عباس عسکری
مقدمہ
اھل لغت نے ظلم کی تعریف یہ کی ھے: وضع الشیء فی غیر محلہ او فی غیر موضعہ: کسی چیز کو اس کے مناسب مقام سے ھٹا کر نامناسب جگہ پر رکھنا ۔1 مزید کہا گیا ھے : و اذا نحر البعیر بغیر علة فظلم ‘ جب اونٹ کو بغیر کسی وجہ کے نحر کیا جائے تو گویا اس پر ظلم کیا گیا ۔ 2 بعض نے ظلم کی تعریف میں لکھا ھے : ‘ اخذک حق غیرک ۔ یعنی: آپ کسی اور کا حق غصب کریں اس کو ظلم کہتے ھیں ۔ 3 ظلم کی مندرجہ بالا تعریفوں کا حاصل یہ ھے کہ کسی کے مقام کو چھین لینے، یا کسی کے حق کو پائمال کرنے کو ظلم کہتے ھیں ۔
ظلم کے اثرات
کسی کے حق کو پائمال کرنے یا اس پر ظلم کرنے کے دو قسم کے اثرات ھوتے ھیں: انفرادی، اجتماعی ۔ ایک مرتبہ کسی پر ظلم کیا جاتا ھے لیکن اس ظلم کے اثرات خود اس شخص تک یا زیادہ سے زیادہ اس کے خاندان یا حلقہ احباب تک محدود ھوتے ھیں ۔ لیکن ایک مرتبہ کسی شخص کے حق کو پائمال کیا جاتا ھے، اس پر ظلم کیا جاتا ھے لیکن اس ظلم کے اثرات خود اس شخص کی ذات تک یا اس کے خاندان یا حلقہ احباب تک محدود نھیں ھوتے بلکہ اس ظلم کے اثرات پورے معاشرے اور پوری قوم پر مرتب ھوتے ھیں اور اگر ظلم ایسی شخصیت پر کیا گیا ھو جو اجتماعی حیثیت کی حامل ھو یا جس کو پوری انسانیت کے لئے راھنما منتخب کیا گیا ھو تو اس کی مظلومیت کے اثرات پوری انسانیت پر مرتب ھوتے ھیں ۔
حضرت علی علیہ السلام کی آفاقی شخصیت
اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ھدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ھزار انبیاء کو مبعوث فرمایا لیکن سب سے زیادہ کلی، عمومی اور ھمہ گیر نبوت ھمارے آخری پیامبر حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تھی ۔ یھی وجہ ھے کہ رحمۃ للعالمین ھمارے آخری نبی کا لقب ھے ۔ حضور اس بات سے آگاہ تھے کہ جس طرح شریعت اسلام پوری انسانیت کے لئے ھے اور جس طرح میری ذات تمام انسانیت کے لئے ھدایت کا سرچشمہ ھے اسی طرح جو میرا جانشین ھوگا وہ بھی تمام انسانیت کے لئے ھادی و مرشد ھوگا ۔ آپ (ص) یہ بھی جانتے تھے کہ صرف حضرت علی علیہ السلام ھی میرے جانشین بن سکتے ھیں ۔ اور یھی وجہ تھی کہ حضور نے اپنی زندگی میں کئی مرتبہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مولا علی علیہ السلام کی جانشینی کا اعلان کیا ۔ پس پیغمبر (ص) کے بعد حضرت علی علیہ السلام واجب الاطاعت، خلیفہ بلا فصل، تمام انسانوں کے راھنماء اور بہترین مخلوق ھیں ۔
حضرت علی (ع) کی مظلومیت تمام انسانیت کی مظلومیت
ھم نے پہلے اشارہ کیا ھے کہ بعض اوقات ظلم کے اثرات ھمہ گیر ھوتے ھیں اور اگر ظلم حضرت علی علیہ السلام جیسی شخصیت ( جو تمام انسانیت کے لئے ھادی و راھنما ھیں ) پر کیا گیا ھو تو کوئی شک نھیں کہ اس ظلم کے اثرات تمام انسانیت پر مرتب ھوں گے ۔ اس کی دلیل یہ ھے کہ آج ھم مشاھدہ کر رھے ھیں فلسطین، کشمیر، عراق، افغانستان، چیچنیا اور بوسنیا وغیرہ کے مسلمان ظلم کی چکی میں پس رھے ھیں اور اگر ھم تھوڑا اپنی نگاہ کو وسیع کریں تو معلوم ھوگا کہ پوری انسانیت ظلم کی چکی میں پس رھی ھے ۔ آج عدالت تمام معاشروں سے ناپید ھے ۔ تمام معاشرے اخلاق، امانتداری، حفظ ناموس اور معنویت سے محروم ھیں ۔ پوری انسانیت ظلم و ستم کا شکار ھے یہ سب کچھ ابتدائے اسلام میں مولا علی (ع) پر ھونے والے ظلم کا نتیجہ ھے ۔ اگر حضرت علی علیہ السلام کی ذات کو انسانیت کا ھادی و راھنما تسلیم کیا جاتا تو آج انسانیت اس گرد آب میں پھنسی ھوئی نہ ھوتی ۔
مظلومیت امام علی (ع) معصومین کی نگاہ میں
حضرت امام علی علیہ السلام کی ذات پر جو ظلم کیا گیا وہ کوئی عاطفی جذبہ نھیں تھا بلکہ امیر المومنین علیہ السلام کی مظلومیت کی خبر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ھی دے دی تھی ۔ نمونہ کے طور پر ھم چند موارد ذکر کر رھے ھیں : قال رسول اللہ: ‘ یا علی انت المظلوم بعدی؛ من ظلمک فقد ظلمنی ۔ 4 یعنی: ‘اے علی میرے بعد تجھ پر ظلم کیا جائے گا، جس نے تجھ پر ظلم کیا اس نے مجھ پر ظلم کیا ‘ ۔ قال رسول اللہ (ص): یا علی ابشر بالشھادة فانک مظلوم بعدی و مقتول ۔ 5 یعنی: ‘ اے علی تمھیں شھادت کی بشارت ھو، بتحقیق میرے بعد آپ پر ظلم کیا جائے گا اور آپ کو قتل کیا جائے گا ۔ بعض مقامات پر خود مولا علی (ع) نے بھی اپنی مظلومیت کی خبر دی ھے ۔ مثلاً ایک مرتبہ مولا خطبہ دے رھے تھے، اسی دوران ایک شخص اٹھا اور فریاد کی ‘ وا مظلمتاہ مولا نے اس کو اپنے نزدیک بلایا اور فرمایا : انا قد ظلمت عدد المدر و الوبر ۔ 6 یعنی: ‘ تمھارے اوپر ایک مرتبہ ظلم ھوا ھے اور میرے اوپر ریت کے ذرات اور چوپایوں کے بالوں کی تعداد کے برابر ظلم ھوا ھے ۔ امام علی (ع) نے طلحہ اور زبیر کی زیادتیوں سے تنگ آکر فرمایا : ‘ اللھم انھما قطعانی و ظلمانی و نکثا بیعتی و أَلبا الناس علیّ ‘ ۔ 7’ اے پروردگار ! طلحہ اور زبیر نے میرا ساتھ چھوڑا ھے، میرے اوپر ظلم کیا ھے، میری بیعت کو توڑا ھے اور لوگوں کو میرے خلاف جنگ پر اکسایا ھے ۔ امام علی (ع) ایک اور مقام پر فرماتے ھیں : ‘ ما لقی احد من الناس ما لقیت ۔ 8 یعنی: ‘ جو مصیبت مجھ پر آئی کسی دوسرے پر نھیں آئی ‘ ۔ امام صادق (ع) فرماتے ھیں : جب حضرت فاطمہ (س) کی وفات قریب ھوئی تو آپ بہت روئیں ۔ حضرت امیر المومنین (ع) نے پوچھا کہ آپ کیوں رو رھی ھیں ؟ تو جناب سیدہ (س) نے جواب دیا : ‘ اس ظلم کی وجہ سے رو رھی ھوں جو میرے بعد آپ پر کیا جائے گا ‘ ۔ 9
حضرت علی (ع) پر مظالم کا سبب
ابن ابی الحدید، شرح نھج البلاغہ میں لکھتے ھیں کہ آخر وجہ کیا تھی کہ اس قوم نے پیغمبر اکرم (ص) کے بعد حضرت علی (ع) پر اتنے ظلم کئے ؟ لکھتے ھیں : عربوں میں ایک جاھلانہ رسم چلی آرھی تھی کہ جب بھی ان کا کوئی عزیز یا رشتہ دار مارا جاتا تھا تو اس کا انتقام قاتل سے ضرور لیتے تھے ۔ اور اگر قاتل سے انتقام نہ لے سکتے اور وہ دنیا سے چلا جاتا تو جو سب سے زیادہ اس کا قریبی ھوتا تھا اس سے بدلا اور انتقام لیتے تھے ۔ حضور (ص) نے اپنے دور میں جن کفار کو اﷲ کے حکم سے اور حضرت علی (ع) کی تلوار سے واصل جہنم کیا تھا ان کے دلوں میں انتقام کی آگ بھڑک رھی تھی اور چونکہ پیغمبر (ص) سے بدلا نھیں لے سکتے تھے لھٰذا تمام کینہ، عداوت اور انتقام اور مظالم کا رخ حضرت علی (ع) کی طرف موڑ دیا ۔ 10
حضرت علی علیہ السلام پر مظالم
الف) غصب خلافت
خلافت چونکہ حضرت علی (ع) کا مسلم حق تھا جس کا حضور (ص) نے اپنی حیات طیّبہ میں بڑے اھتمام اور منظم طریقے سے اعلان کیا تھا کہ میرے بعد خلافت حضرت علی (ع) کے سپرد کر دینا ۔ حضرت علی (ع) کے اس حق کو جب پائمال کیا گیا اور بے بنیاد دلیلوں کی بنا پر آپ کا حق غصب کیا گیا تو فصاحت و بلاغت کی زینت مولائے متقیان نے اپنی مظلومیت اور درد دل کا اظھار اپنے مشھور اور معروف خطبہ \’\’شقشقیہ\’\’ میں یوں فرمایا : \” اما و اﷲ لقد تقمصھا ابن ابی قحافہ و انہ یعلم ان محلیٰ منھا محل القطب من الرحیٰ … \’\’ ۔ 11 \’\’ آگاہ ھو جاؤ ! خدا کی قسم ابو قحافہ کے بیٹے نے خلافت کا لبادہ خود سے پہن لیا، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ خلافت میں میرا مقام چکی کے اس محور کی طرح ھے جس کے گرد چکی گھومتی ھے \’\’ ۔ یعنی اے لوگو ! میں تمھیں بتا رھا ھوں کہ مجھ سے زیادہ اس خلافت کا کوئی حقدار نھیں ھے، اور یہ حق مجھ سے چھین لیا گیا ھے ۔ امام علیہ السلام خبردار کر رھے ھیں کہ کسی اجماع نے اس کو خلافت کا لبادہ نھیں پہنایا بلکہ \’\’ لقد تقمصھا \’\’ اس نے خود یہ لبادہ پہن لیا ھے ۔ امام آگاہ کر رھے ھیں کہ مجھ پر جو ظلم کیا گیا ھے اس کا اثر صرف میری ذات تک محدود نھیں رھے گا، بلکہ اس کا اثر پورے اسلام پر پڑے گا اور اس ظلم کے اثرات قیامت تک رھیں گے کیونکہ ابوبکر اور اس کے مدد کرنے والے بخوبی جانتے ھیں کہ حکومت اسلامی میں میری حیثیت چکی کے محور کی ھے ۔ اگر اس محور کو نکال دیا جائے تو چکی کے دونوں پاٹ ایک دوسرے سے ٹکرا کر مدار سے خارج ھو جائیں گے اور چکی کا پورا نظام درھم برھم ھوجائے گا ۔ گویا امام اپنے ان دو جملوں میں پورے اسلامی نظام کے درھم برھم ھونے کی وجہ بیان فرما رھے ھیں، اور جب امام کے اس مسلّم حق کو مسلسل پائمال کیا جانے لگا اور ایک کے بعد دوسرا آیا تو امام نے اپنی اور اسلام کی مظلومیت کا اظھار کرتے ھوئے فرمایا: \’\’ لشد ما تشطّر اضرعیھا \’\’ ۔ 12 یعنی: \’\’ دونوں نے خلافت کو اپنی اونٹی سمجھ کرخوب دوھا اور استفادہ کیا \’\’ ۔
ایک سوال … ؟
یہاں پر ایک سوال پیدا ھوتا ھے کہ اگر خلافت حضرت علی (ع) کا حق تھا تو خلفائے ثلاثہ کی خلافت کے دوران آپ نے صبر کیوں کیا اور عثمان کی موت کے بعد خلافت کو قبول کرنے سے انکار کیوں کر رھے تھے ؟ یہ سوال اپنی جگہ پر ھے لیکن ھم اس کی تفصیل میں نھیں جائیں گے کیوں کہ موضوع سے خارج ھو جائیں گے ۔ ھم کچھ موارد کی طرف صرف اجمالی طور پر اشارہ کریں گے جن سے مولائے متقیان کی مظلومیت چھلک رہی ھے ۔ خلافت کے غصب ھو جانے کے بعد مولا علی (ع) کے پاس صرف دو راستے تھے، یا تو جنگ کرتے اور قدرت و مقام حاصل کرتے یا پھر صبر کرتے اور مسلمانوں کی مشکلات کو حتیٰ الامکان حل کرتے اور اپنے وظیفہ کو انجام دیتے ۔ امام کئی وجوھات کی بنا پر مجبور تھے کہ دوسری راہ اختیار کرتے ۔ ان میں سے بعض اھم وجوھات مندرجہ ذیل ھیں : ١ ۔ جو شخص دینی قیادت و رھبری کے منصب پر فائز ھوتا ھے اس کا مقصد مقام و قدرت حاصل کرنا نھیں بلکہ مسلمانوں کی مشکلات کو حل کرنا ھوتا ھے ۔ ٢ ۔ اگر امام مسلحانہ قیام کرتے تو امام کے بہت سارے مخلص دوست مارے جاتے ۔ ٣ ۔ اگر امام مسلحانہ قیام کرتے تو نو مسلم جو پیغمبر (ص) کی وفات کے بعد گروہ ارتداد تشکیل دے چکے تھے اسلام پر کاری ضرب لگاتے ۔ ۴ ۔ مرتدّ افراد کے علاوہ نبوّت کے دعویداروں کا خطرہ بھی تھا ۔ ۵ ۔ رومیوں کے حملے کا خطرہ ۔ 13 یہ وہ موارد ھیں جن سے حضرت علی (ع) کی مظلومیت ظاھر ھو رھی ھے عرب کا مشھور شعر ھے : من نکد الدنیا علیٰ الحر ان یریٰ عدواً لہ من صداقتہ بد ۔ 14 : ‘ ایک آزاد انسان کی دنیا میں سب سے بڑی مظلومیت یہ ھے کہ وہ دشمن کا ساتھ دینے پر مجبور ھو ۔
قتل عثمان کے بعد خلافت قبول کرنے کے اسباب
١ ۔ قتل عثمان: جس کے بارے میں مولا جانتے تھے کہ یہ مسئلہ دو بڑی جنگوں (جمل و صفین) پر منتہی ھوگا ۔ ٢ ۔ عدالت علی (ع): جو کہ لوگوں کی عادت کے خلاف تھی اور جس کی وجہ سے سر سخت دشمن پیدا ھوسکتے تھے ۔ ٣ ۔ سیاست علی ( ع ): جو ھر قسم کے جھوٹ اور دھوکے سے پاک تھی اور دشمن مکار اور اور دھوکے باز تھا ۔ اسی وجہ سے مولا علی ( ع ) فرماتے ھیں: ‘ اگر خدا دھوکے بازی کو ناپسند نہ کرتا تو تم لوگ دیکھتے کہ دنیا کا چالاک ترین انسان علی ھے ‘ ۔ 15 ۴ ۔ سب سے بنیادی مشکل یہ تھی کہ جس وقت مولا علی (ع) کو حکومت دی جارھی تھی اس وقت جاھلوں کی تعداد زیادہ تھی کہ جنھوں نے خوارج کی صورت اختیار کر کے ‘ ان الحکم الا للّہ ‘ کا نعرہ بلند کیا ۔ 16
ب) غصب فدک
واضح سی بات ھے کہ حکومت و اقتدار کو مستحکم کرنے کے عوامل میں سب سے بڑا ایک عامل اقتصاد ھے اور جو تحریک اقتصادی اعتبار سے مضبوط ھوتی ھے ایک نہ ایک دن اقتدار تک ضرور پہنچتی ھے ۔ خاص طور پر اگر وہ اپنا سرمایہ غریب و نادار افراد پر خرچ کرے تو لوگ اس کی طرف مایل ھو جاتے ھیں اور اس کی حمایت کرتے ھیں ۔ اس کے برعکس استعماری طاقتیں جب بھی کسی تحریک کو کچلنا چاھتی ھیں تو سب سے پہلے ان سے ان وسائل کو چھینتے ھیں جو ان کے اقتصاد کا ذریعہ ھوتے ھیں، تاکہ عوام ان کی طرف مائل ھوکر ھمارے اقتدار کے زوال کا سبب نہ بنیں ۔ یھی وجہ تھی کہ پیغمبر (ص) کی وفات کے بعد اور علی (ع) کے مسلّمہ حق خلافت پر قبضہ کرنے کے بعد اس دور کے استعمار نے علوی تحریک کو ختم کرنے کے لئے جو سب سے پہلا حربہ استعمال کیا وہ فدک کو ان سے چھیننا تھا ۔ کیونکہ وہ لوگ جانتے تھے کہ حضرت زھراء (س) اور حضرت علی (ع) فدک کی تمام آمدنی غریب اور ناچار افراد پر خرچ کرتے ھیں اور لوگ آھستہ آھستہ ان کی خلافت کے لئے جمع ھو رھے ھیں اگر آمدنی کا یہ وسیلہ ان سے چھین لیا جائے تو لوگوں کی مدد نھیں کرسکیں گے اور لوگ ان سے دور ھو جائیں گے، اسی بات کی طرف حضرت علی (ع) نھج البلاغہ میں اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں : \” بلیٰ کانت فی ایدینا فدک من کل ما اظلتہ السماء ۔ فشحت علیھا نفوس قوم، و سخت عنھا نفوس قوم آخرین، و نعم الحکم اللہ، وما اصنع بفدک و غیر فدک و النفس مظآنّھا فی غد جدث \’\’ 17 یعنی: ھاں ھمارے ھاتھوں میں جاگیر فدک تھی جس میں ھر وہ چیز تھی جس پر آسمان سایہ فگن ھے ۔ کچھ لوگوں سے یہ برداشت نہ ھوا اور انھوں نے بخل کیا اور جو لوگ سخاوتمند شمار ھوتے تھے انھوں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں، لیکن بہترین انصاف کرنے والا خدا ھے ۔ مجھے فدک یا دوسری چیزوں سے کیا سروکار؛ حالانکہ ھر آدمی کی اصل جایگاہ قبر ھے ‘ ۔ فدک وہ مال تھا جو پیغمبر (ص) نے خدا کے حکم سے آیۂ مبارکہ ‘ و آت ذا القربیٰ حقہ ‘ کے تحت جناب سیدہ (س) کو دیا تھا ۔ چونکہ پیغمبر (ص) فرماتے ھیں : میں نے جبرائیل سے پوچھا کہ ذی القربیٰ سے مراد کون ھیں ؟ جبرائیل نے جواب دیا: جناب زھرا علیھا السلام ۔ 18 جناب سیدہ (ع) کا دربار میں جاکر حق فدک کو اتنے دلائل کے ساتھ ثابت کرنا مولا علی (ع) کے حق خلافت کو ثابت کرنے کا مقدمہ اور پیش خیمہ تھا: ورنہ بعید ھے کہ حضرت زھراء (س) جیسی شخصیت محض فدک کے لئے دربار چلی جائیں ۔ چونکہ جناب سیدہ (س) نے دربار میں غاصبین خلافت کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: اے غاصبین فدک ! کس نے تم لوگوں کو پیغمبر (ص) کا جانشین بنایا ھے ؟ علی (ع) کی خلافت پر پیغمبر (ص) کی نص کی مخالفت کر کے کتنے بڑے گناہ کے مرتکب ھوئے ھو ! جناب سیدہ فدک کو بہانا بناکر درحقیقت حضرت علی ( ع ) کے لئے حق خلافت کو ثابت کر رھی تھیں ۔ 19
ج) شھادت حضرت زھراء سلام اللہ علیھا
حضرت زھرا (س) کی شھادت مولا علی (ع) کے لئے سب سے بڑا حادثہ تھی، ایسی کیا وجہ تھی کہ جناب زھراء ١٨ سال یا بقول اھلسنت ٢٨ سال کی عمر میں اتنی جلدی اس دنیا سے رخصت ھوگئیں ؟ آیا اپنے باپ کی جدائی کا صدمہ برداشت نہ کرسکیں یا بیماری سبب بنی ؟ تاریخ سے معلوم ھوتا ھے کہ جناب زھراء (س) کی شھادت کا سبب نہ تو کوئی بیماری تھی اور نہ ھی بابا کی جدائی کا صدمہ ۔ بلکہ پیغمبر (ص) کی وفات کے بعد جناب سیدہ کے ساتھ امت کا سلوک ھی آپ کی شھادت کا سبب تھا ۔ کیونکہ غاصبین خلافت یہ جانتے تھے کہ لوگ جناب سیدہ (س) کو دختر رسول اور جگر گوشہ رسول (ص) اور ذی القربیٰ کا قطعی مصداق سمجھتے ھیں ۔ اور اس وقت حضرت علی (ع) کی خلافت کی تنہا دلیل اور گواہ اور تبلیغ کرنے والی جناب زھراء (س) ھیں ۔ لھٰذا انھوں نے طے کرلیا کہ اگر خلافت کو اپنے تک محدود رکھنا ھے تو علی (ع) کی اس تنہا دلیل کو ختم کیا جائے لھٰذا انھوں نے جناب سیدہ کے گھر کو آگ لگادی کہ جو دختر رسول (ص) کی شھادت پر منتہی ھوئی ۔ حضرت علی حضرت زھراء (س) کی شھادت پر اپنی مظلومیت کا اظھار کرتے ھوئے فرماتے ھیں : ‘ اے رسول خدا (ص) ! میری طرف سے آپ پر سلام ھو اور آپ کی اس بیٹی کی طرف سے بھی آپ پر سلام ھو جو بہت جلد آپ تک پہنچی ھیں ۔ یا رسول اللہ ! جناب سیدہ کے جدا ھو جانے سے میرا صبر و تحمل کم ھوگیا ھے ۔ آپ نے جو امانت میرے حوالے کی تھی وہ آپ کے حوالے کر رھا ھوں ۔ پس اس کے بعد غم ھمیشہ کے لئے میرا ساتھی بن گیا ھے اور بہت جلد آپ کی بیٹی آپ کو بتائے گی کہ امت نے مجھ پر کتنا ظلم کیا ھے ‘ ۔ 20
د) حضرت علی (ع) کے فضائل کو چھپانا اور آپ پر سب و شتم کرنا
حضرت علی (ع) کی شخصیت کہ جن کے باپ ابوطالب سید البطحا، شیخ القریش اور سالار مکہ ھیں اور جو خود انبیاء کے سردار نبی محمد (ص) مصطفیٰ کے چچا زاد بھائی ھیں اور جن کے بھائی حضرت جعفر دو پروں کے ذریعے بہشت میں پرواز کرتے ھیں، جن کی زوجہ سیدۃالنساء العالمین اور جن کے دو فرزند جوانان جنت کے سردار ھیں اور جن کی ذات کے لئے حضور (ص) نے فرمایا: ْ’ ضربة علی یوم الخندق افضل من عبادة الثقلین ‘ دشمنوں نے بھی ان کے فضائل کا اقرا ر کیا لیکن جب بنی امیہ تخت خلافت پر بیٹھے تو اپنے تمام مکر و فریب کے ذریعے حضرت علی (ع) کے فضائل کو کم کرنے لگے اور اس بات کی کوشش کرتے رھے کہ عیوب اور برے کاموں کی نسبت حضرت کی طرف دیں اور جو بھی حضرت کے فضائل کا اظھار کرتے ان کو یا تو زندانوں میں ڈالا جاتا تھا یا ان کی زبانیں کھنیچی جاتی تھیں یا پھر ان کو قتل کیا جاتا تھا اور ھر اس حدیث کو مٹانے کی کوشش کرتے تھے جس سے حضرت علی (ع) کے فضائل کی جھلک نظر آتی تھی۔ یھاں تک کہ اگر کوئی اپنے بچے کا نام علی رکھتا تھا تو اس کو سزائیں سناتے، اس سے بڑھ کر یہ کہ منبر سے حضرت علی ( ع ) پر سب و شتم کیا جاتا تھا ۔ 21 کتاب الغدیر میں آقائے امینی ایک روایت نقل کرتے ھیں \’\‘ فبلغ معاویة فکان اذا قنت لعن علیا و ابن عباس و الاشتر و حسنا و حسینا ۔ 22 لیکن اس کے باوجود سورج کے نور کو کبھی ھاتھوں سے چھپایا نھیں جاسکتا ۔
ھ) مسلمانوں کا حضرت علی (ع) کے احکام کی مخالفت کرنا
حضرت علی (ع) نھج البلاغہ میں اپنی خلافت کے دوران اپنی مظلومیت کو یوں بیان فرماتے ھیں :: الا و انی قد دعوتکم الیٰ قتال ھٰؤلاء القوم لیلاً و نھاراً و سراً و اعلانا۔ 23′ تم کتنے بے حس ھو، میں نے کتنی بار تم لوگوں کو شامیوں کے ساتھ جنگ کی دعوت دی، راتوں کی تاریکی میں، اور روز روشن میں اعلان کر کے؛ لیکن تم لوگوں نے سستی کی اور ذلت و خواری کو اپنے لئے قبول کیا امام شدید افسوس کرتے ھوئے فرماتے ھیں: ‘ عجبا عجبا و اللہ یمیت القلب و یجلب الھم من اجتماع ھٰؤلاء القوم علیٰ باطلھم و تفرقکم عن حقکم ۔ 24 خدا کی قسم ! یہ حالات و واقعات ایک غیرتمند انسان کے مرنے کے لئے کافی ھیں، میرا دل خون کے آنسو روتا ھے کہ وہ لوگ ( شامی ) باطل پر ھوتے ھوئے بھی متحد ھیں اور تم لوگ حق پر ھونے کے باوجود بھی پراکندہ ھو \’\’ ۔ امام (ع) اپنی بے پر وبال حکمرانی کا اظھار کرتے ھوئے فرماتے ھیں : \’\’ جب میں تمھیں گرمیوں میں دشمن کے ساتھ جنگ کرنے کو کہتا ھوں تو تم کہتے ھو، ابھی موسم گرم ھے اور جب سردیوں میں جنگ کرنے کو کہتا ھوں ، تم کہتے ھو کہ ابھی موسم سرد ھے ۔ یہ سب بہانے ھیں، تم سب بہانے تلاش کرتے ھو ‘ اور آخر کار امام تنگ آکر فرماتے ھیں : ‘ خدا تم لوگوں کو ھلاک کردے کہ تم لوگوں کی وجہ سے میرا دل خون کے آنسو رو رھا ھے ‘ ۔ 25 ایک اور جگہ پر امام فرماتے ھیں : ‘ جس طرح مجھ سے پہلے والی قومیں اپنے حکمرانوں کے ظلم کی وجہ سے پریشان و نالاں تھیں اسی طرح میں بھی اپنی رعیت کے ظلم کی وجہ سے نالاں ھوں گویا کہ وہ حکمران ھیں اور میں ان کا پیروکار ھوں، وہ حاکم ھیں اور میں محکوم ھوں ‘ ۔ 26
د) شھادت حضرت علی علیہ السلام
بالآخر اس نابغہ روزگار، غرباء کی رات کی تاریکیوں میں مدد کرنے والے اول مظلوم تاریخ اور اسلام کے گمنام سپاھی کو ١٩ رمضان المبارک کی صبح مسجد کوفہ میں امّت کے بدبخت ترین فرد نے زھر آلود تلوار کا وار کرکے خاک و خون میں لت پت کر دیا ۔ آپ کے بارے میں کہا جاتا ھے : ‘ قتل فی محراب عبادتہ لشدة عدلہ ۔ 27 یہ کتنی مظلومیت ھے کہ کسی کو اس کی عدالت کی وجہ سے قتل کیا جائے اور اس سے بھی زیادہ غربت یہ ھے کہ شھادت کی خبر سن کر لوگ علی (ع) جیسی عظیم ھستی کے بارے کہیں: ‘ آیا علی نماز بھی پڑھتے تھے ۔
حوالہ جات
1. مقاییس اللغة ، ج ٣ ص ۴۶٨ ۔ 2. مقاییس اللغة ، ج ٣ ص ۴۶٨ ۔ 3. ابو عبد الرحمان الخلیل ابن احمد الفراھیدی، کتاب العین ، ج ٨ ص ١۶٣ ؛ الصحاح ص ١٩٧٧ ، جزء ۴، اسماعیل بن حماد الجوھری، القاموس المحیط ، جزء ۴ ، ص ١۴٧ ؛ مجد الدین محمد ابن یعقوب الفیروز آبادی ۔ 4. موسوعة الامام علی ابن ابی طالب فی الکتاب و السنة و التاریخ محمد الریشھری ؛ ج ٩ ، ص ۴١٣ ۔ 5. ترتیب الامالی ج ۴ ، ص ۶٠٩ ؛ امالی صدوق مجلس ۵٨ ، الحدیث ١٩ ۔ 6. موسوعة الامام علی ابن ابی طالب ؛ محمد الریشھری ؛ ج ٩ ، ص ۴١٧ ۔ 7. نھج البلاغہ ؛ خ / ١٣٧ ۔ 8. ابن ابی الحدید ، شرح نھج البلاغہ ،ج ۴ / ص١٠٣ ۔ 9. مجلسی محمد باقر ؛ بحار الانوار ؛ ج ۴٣ ، ص ٢١٨ ۔ 10. ابن ابی الحدید ، شرح نھج البلاغہ ، ج ١٣ ص٣٠٠ ۔ از غدیر تا عاشورا ، ص ٣٣٩ ، سید کاظم پرنیچی ۔ 11. نھج البلاغہ ، خ ٣ ۔ 12. نھج البلاغہ ، خ ٣ ۔ 13. سیرۂ پیشوان ، مھدی پیشوائی ، ص ۶٣ تا ٧٠ ۔ 14. قول متنبی ۔ جواھر البلاغہ ، ص ١٢٧ ۔ 15. نھج البلاغہ ، خ٢٠٠ ۔ 16. خلاصہ از سیری در سیرہ معصومین، ص ۴١ ، شھید مطھری ۔ 17. مکتوب ۴٠ عثمان بن حنیف کے نام ، نھج البلاغہ ص ۵۵٢ ، محمد دشتی ۔ 18. بندگی راز آفرینش، شرح خطبہ حضرت زھرا (س) ج ١ ، ص ١۵ ، آیة اللہ دستغیب شیرازی ۔ 19. بندگی راز آفرینش، شرح خطبہ حضرت زھرا (س) ج ١ ، ص ٢١ ، آیة اللہ دستغیب شیرازی ۔ 20. نھج البلاغہ خ ٢٠٢ ، ص ۴٢٢ ، محمد دشتی ۔ 21. غدیر سے عاشورا تک ، ص ٣۵٨ ، سید محمد کاظم پرنیچی ۔ 22. الغدیر ، ج ٢ ، ص ١٣٢ ، نقل از تاریخ طبری ، ج ۶ ، ص ۴٠ ۔ 23. نھج البلاغہ ، خ ٢٧ ، ص ٧۵ ، محمد دشتی ۔ 24. نھج البلاغہ ، خ ٢٧ ۔ 25. نھج البلاغہ ، خ ٢٧ ۔ 26. نھج البلاغہ ، کمات قصار ۶١ ، محمد دشتی ۔ 27. غدیر سے عاشورا تک ص۵٣۴ ، سید کاظم پرنیچی ۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button