خطبات جمعہرسالاتسیرت

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:214)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک18اگست2023ء بمطابق 30محرم الحرام 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: فکر و تدبر از قرآن و حدیث
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پہ انسان کو اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے مختلف اشیاء میں غور و فکر کی ترغیب دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور تفکر و تدبر کی قوت عطا کرکے اسے حیوانات سے ممتاز کر دیا ہے۔ انسان جن گروہوں کے بیچ میں رہتا ہے اپنے آس پاس موجود اشیاء کا اور رونما ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے، حقائق کو دیکھتا ہے، پرکھتا ہے ، اور ان محرکات کے اچھے برے نتائج کا اندازہ لگاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے راستے کا تعین کرنے پر آمادہ ہوتا ہے جس کے نتائج دیر پاہوں۔ اور ان کاموں سے دوری اختیار کرتا ہے جن پرچلنے سے نقصان اٹھانا پڑے۔یہ سب فکر و تدبر اور عقل کے استعمال سے ممکن ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ انسان کو غور و فکر کے لیے مختلف مشاہدات کی طرف رہنمائی فرماتا ہے، ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ﴿۱۹۰﴾ۚۙالَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴿۱۹۱﴾
بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں صاحبان عقل کے لیے نشانیاں ہیں۔جو اٹھتے بیٹھتے اور اپنی کروٹوں پر لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں، (اور کہتے ہیں:) ہمارے پروردگار! یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا، تیری ذات (ہر عبث سے) پاک ہے، پس ہمیں عذاب جہنم سے بچا لے۔
(آل عمران 190،191)
ایک اور آیت میں غور وفکر کی یوں دعوت دی گئی ہے:
اَوَ لَمۡ یَنۡظُرُوۡا فِیۡ مَلَکُوۡتِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنۡ شَیۡءٍ ۙ وَّ اَنۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ قَدِ اقۡتَرَبَ اَجَلُہُمۡ ۚ فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَہٗ یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۸۵﴾
کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اور جو چیزیں اللہ نے پیدا کی ہیں ان میں غور نہیں کیا اور(یہ نہیں سوچا کہ) شاید ان کی موت کا وقت نزدیک ہو رہا ہو؟ آخر اس (قرآن) کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے؟
پس جب انسان اپنے ارد گرد موجود مشاہدات میں غور و فکر کرتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ ان میں کسی قسم کا نقص و عیب نہیں ہے۔دن رات کا ایک دوسرے کے پیچھے آنا جانا انسان کو بتاتا ہے کہ اس نظم و ضبط کے پیچھے کوئی حکیم و دانا ذات ہے کہ جس کا نظام اس قدر احسن ہے کہ سورج کبھی ایک سیکینڈ کے لیے بھی اپنے مقررہ وقت سے دیر نہیں کرتا۔رات اور دن کی آمد و رفت۔ نور اور تاریکی کا تبادلہ، شروق و غروب کا یکے بعد دیگرے آنا، شعور و ارادہ اور حکمت و صنعت کی ایک دلیل ہی نہیں، بلکہ اس صاحب قصد و ارادہ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے۔ دن میں سورج کا نور سرچشمۂ حیات ہے اور اس تاریک و سرد فضا میں نور و حرارت کا منبع ہے۔ اگر یہ عظیم چراغ گل ہو جائے تو زندگی کا یہ کاروان فوراً رک جائے گا۔ پس اس کائنات کے پورے نظام کا ایک ہم آہنگ طریقے سے ہونا انسان کو بتاتا ہے کہ اس نظام کا خالق بھی ایک ہے۔ان سب چیزوں کی طرف انسان تب متوجہ ہو سکتا ہے جب وہ خدا کی کائنات میں غور و فکر سے کام لے۔ اس لیے انسان کو غور و فکر کی تاکید کی گئی ہے۔
احادیث میں بھی غور و فکر کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تَفَكُّرُ سَاعَةٍ خَيْرٌ مِنْ قِيَامِ لَيْلَة(وسائل الشيعة، ج‏15، ص: 197)
ایک گھڑی غور و فکر کرنا رات بھر کے قیام سے بہتر ہے۔
اسی طرح کائنات میں غور و فکر کے علاوہ عام زندگی میں انسان کو اپنے معاملات میں بھی غور وفکر کی ترغیب دی گئی ہے۔ ایک روایت میں ہے:
إِنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ ص فَقَالَ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْصِنِي
ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے نصیحت کیجیے،
فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ص فَهَلْ أَنْتَ‏ مُسْتَوْصٍ‏ إِنْ أَنَا أَوْصَيْتُكَ حَتَّى قَالَ لَهُ ذَلِكَ ثَلَاثاً
آپ ﷺ نے اس سے تین بار پوچھا:اگر میں تمہیں نصیحت کروں تو کیا اس پر عمل کرو گے؟
وَ فِي كُلِّهَا يَقُولُ لَهُ الرَّجُلُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ
اس نے تینوں بار کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول
فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ص فَإِنِّي أُوصِيكَ إِذَا أَنْتَ هَمَمْتَ بِأَمْرٍ فَتَدَبَّرْ عَاقِبَتَهُ
تب آپﷺ نے فرمایا: میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم جب بھی کوئی کام کرنا چاہو تو اس کے انجام پہ غور کرو،
فَإِنْ يَكُ رُشْداً فَامْضِهِ وَ إِنْ يَكُ غَيّاً فَانْتَهِ عَنْهُ.
اگر وہ ہدایت کا سبب ہو تو اس پر عمل کرو اور اگر گمراہی کا سبب ہو تو ا س سے اجتناب کرو۔(الكافي ج‏8، ص: 150)
اسی طرح قرآن میں تدبر اورعبادت میں بھی تفکر کا حکم دیا گیا ہے۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام سے روایت ہے:
‏أَلَا لَاخَيْرَ فِي قِرَاءَةٍ لَيْسَ فِيهَا تَدَبُّرٌآگاہ رہو کہ اس تلاوت میں کوئی خیر نہیں جس میں تدبر نہ ہو ،
أَلَا لَاخَيْرَ فِي عِبَادَةٍ لَيْسَ‏ فِيهَا تَفَكُّر
اور اس عبادت میں کوئی بھلائی نہیں جس میں تفکر نہ ہو۔(الکافیج‏1، ص: 87)
امام علی علیہ السلام کی ایک حدیث میں آپ نے اسلام کی خصوصیات بتاتے ہوئے فرمایا:
شَرَعَ الْإِسْلَام ۔۔وَ جَعَلَه‏۔۔۔َ لِبَاساً لِمَنْ‏ تَدَبَّرَ وَ فَهْماً لِمَنْ تَفَطَّن‏ (الکافیج‏2، ص: 49)٭
اللہ نے اسلام کو بطور قانون وضع کیا اور اسے تدبر کرنے والون کا لباس اور تیز بین اور دانا لوگوں کے لیے فھم کا ذریعہ قرار دیا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
‏عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ: «أَفْضَلُ الْعِبَادَةِ إِدْمَانُ‏ التَّفَكُّرِ فِي اللَّهِ‏ وَ فِي قُدْرَتِهِ».
(الکافیج‏3، ص: 141)
بہترین عبادت اللہ اور اس کی قدرت کے بارے میں مسلسل غور و فکر کرنا ہے۔
اسی طرح امام علی علیہ السلام فکر و تدبر کو انسانی زندگی کا معیار قرار دیتے ہیں:
قِوَامُ‏ الْعَيْشِ‏ حُسْنُ‏ التَّقْدِيرِ وَ مِلَاكُهُ حُسْنُ التَّدْبِيرِ.(عیون الحکم و المواعظ6229)
مستحکم زندگی وہ ہے جو منصوبہ بندی پر مشتمل ہو اور اس کا معیار اچھی تدبیر ہے۔
عزم و ہمت فکر و تدبر کی کمی سے انسان نقصا ن کا شکار ہو سکتا ہے۔امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
ثَلَاثٌ يَحْجُزْنَ الْمَرْءَ عَنْ طَلَبِ‏ الْمَعَالِي‏ قَصْرُ الْهِمَّةِ وَ قِلَّةُ الْحِيلَةِ وَ ضَعْفُ الرَّأْي‏
(تحف العقول، النص، ص: 318)
تین چیزیں انسان کو اعلی مقامات تک پہنچنے سے روکتی ہیں: عزم و ہمت کی کمی،تدبیر کی کمزوری اور فکر و نظر کی ناتوانی
امير المؤمنين عليہ السلام :الفِكرُ فِى الخَيرِ يَدعُو إلَى العَمَلِ بِهِ؛نیکی کے بارے میں غور و فکر کرنا بھی اسے انجام دینے کی طرف راغب کرتا ہے۔[غررالحکم ،باب التفکر ] رسول اسلام صلی الله عليہ و آلہ نے فرمایا:مَن جَعَلَ الهُمومَ هَمّا واحِدا ؛ هَمَّ آخِرَتِهِ
جو اپنے تمام ھم وغم کو ایک پیکر اور جسم میں ڈھال دے اور وہ اخرت ہو ( یعنی جسے فقط و فقط اخرت کی فکر لاحق ہو)
، كَفاهُ اللّه ُ هَمَّ دُنياهُ . تو خداوند متعال اس کی دنیا کی پریشانیوں اور ھم و غم کو برطرف کردے گا،
ومَن تَشَعَّبَت بِهِ الهُمومُ في أحوالِ الدُّنيااس کے برخلاف جس کا پورا وجود دنیا کے ھم و غم میں گھرا ہو
لَم يُبالِ اللّه ُ في أيِّ أودِيَتِها هَلَكَ .
تو خداوند متعال اس پر توجہ نہیں دیتا کہ وہ کس وادی اور کس جگہ نابود ہوگا ۔(حلية الأولياء : ج 2 ص 105 )
نبی کریم کا یہ فرمان مبارک دراصل قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر ہے جس میں خدا فرماتا ہے:
فَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ
پس لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے: ہمارے رب! ہمیں دنیا ہی میں (سب کچھ) دے دے اور ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔
وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ﴿۲۰۱﴾
اور ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں: ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بہتری اور آخرت میں بھی بہتری عطا کر نیز ہمیں آتش جہنم سے بچا۔(سورۃ البقرۃ 200-201)
یعنی جن لوگوں کو ہر وقت اپنی دنیا داری کی فکر لگی رہتی ہے انہیں دنیا تو مل جاتی ہے لیکن آخرت میں کچھ نہیں ملے گا۔ لیکن وہ لوگ جو اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت کی بہتری کے لیے بھی اعمال صالحہ کے ذریعے کوشش کرتے ہیں انہیں دنیا میں سے بھی حصہ ملے گا اور آخرت میں بھی اجر عطا ہوگا۔ لہذا عقل مندی یہی ہے کہ ہمیں اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی بھی فکر کرنی چاہیے۔
پس آیات و روایات کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ فکر و تدبر کی کتنی ضرورت و اہمیت ہے لہذا جہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل و شعور جیسی نعمت سے نوازا ہے تو اس کا حق یہ ہے کہ ہم اسے استعمال کرتے ہوئے خالق کائنات کی معرفت حاصل کریں نیز اپنی خلقت کا مقصد پہچانیں اور اپنی زندگی کے معاملات میں بھی اس کا بہترین استعمال کریں۔

 

رسالۃ الحقوق
پچھلے خطبہ جمعہ میں ہم نے وعدہ کیا تھا کہ آئیندہ اپنے خطبے میں امام زین العابدین علیہ السلام کے رسالۃ الحقوق سے امام کے بیان کردہ حقوق سلسلہ وار بیان کریں گے ۔ پچھلے جمعہ ہم نے پہلا حق یعنی خدا کا حق بیان کیا تھا جس میں امام علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ خدا کا حق ہم پر یہ ہے کہ فقط اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں یعنی شرک نہ کریں۔
نفس کا حق:
آج دوسرا حق بیان کریں گے جوکہ نفس کا حق ہے۔ نفس یعنی انسان کی اپنی ذات کا اس پر کیا حق لازم ہوتا ہے۔ امام فرماتے ہیں:وَ أَمَّا حَقُّ نَفْسِكَ عَلَيْكَ فَأَنْ تَسْتَوْفِيَہَا فِي طَاعَةِ اللَّہِ
تمہارے نفس کا (یعنی تمہاری ذات، تمہارے جسم و جان کا)تم پر یہ حق ہے کہ اسے بھرپور طریقہ سے راہ خدا میں مشغول رکھو
فَتُؤَدِّيَ إِلَى لِسَانِكَ حَقَّہُ وَ إِلَى سَمْعِكَ حَقَّہُ وَ إِلَى بَصَرِكَ حَقَّہُ وَ إِلَى يَدِكَ حَقَّہَا وَ إِلَى رِجْلِكَ حَقَّہَا وَ إِلَى بَطْنِكَ حَقَّہُ وَ إِلَى فَرْجِكَ حَقَّہُ
اگر تم نے ایسا کیا تو گویا تم نے اپنی زبان کا حق، اپنے کان کا حق، اپنی آنکھ، ہاتھ، پاوں اور شکم و شرمگاہ کا حق ادا کر دیا
وَ تَسْتَعِينَ بِاللَّہِ عَلَى ذَلِكَ اور دیکھو ان کے حقوق کی ادائیگی میں خدا سے مدد طلب کرتے رہو۔
(ان حقوق کی تشریح کے لیے کتاب "آئنہ حقوق شرح رسالۃ الحقوق” کا مطالعہ کریں)

عربی متن
• اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ﴿۱۹۰﴾ۚۙالَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴿۱۹۱﴾
• اَوَ لَمۡ یَنۡظُرُوۡا فِیۡ مَلَکُوۡتِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنۡ شَیۡءٍ ۙ وَّ اَنۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ قَدِ اقۡتَرَبَ اَجَلُہُمۡ ۚ فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَہٗ یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۸۵﴾
• امام جعفر صادق علیہ السلام ::تَفَكُّرُ سَاعَةٍ خَيْرٌ مِنْ قِيَامِ لَيْلَة
• روایت: إِنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ ص فَقَالَ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْصِنِي ۔۔۔۔ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ص فَهَلْ أَنْتَ‏ مُسْتَوْصٍ‏ إِنْ أَنَا أَوْصَيْتُكَ حَتَّى قَالَ لَهُ ذَلِكَ ثَلَاثاً۔۔۔۔۔۔ وَ فِي كُلِّهَا يَقُولُ لَهُ الرَّجُلُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ۔۔۔۔۔ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ص فَإِنِّي أُوصِيكَ إِذَا أَنْتَ هَمَمْتَ بِأَمْرٍ فَتَدَبَّرْ عَاقِبَتَهُ ۔۔۔۔ فَإِنْ يَكُ رُشْداً فَامْضِهِ وَ إِنْ يَكُ غَيّاً فَانْتَهِ عَنْهُ.
• امام علی ؑ: أَلَا لَاخَيْرَ فِي قِرَاءَةٍ لَيْسَ فِيهَا تَدَبُّرٌ ۔۔۔ أَلَا لَاخَيْرَ فِي عِبَادَةٍ لَيْسَ‏ فِيهَا تَفَكُّر
• امام علی ؑ: شَرَعَ الْإِسْلَام ۔۔وَ جَعَلَه‏۔۔۔َ لِبَاساً لِمَنْ‏ تَدَبَّرَ وَ فَهْماً لِمَنْ تَفَطَّن
• امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
• ‏عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ: «أَفْضَلُ الْعِبَادَةِ إِدْمَانُ‏ التَّفَكُّرِ فِي اللَّهِ‏ وَ فِي قُدْرَتِهِ».
• اسی طرح امام علی علیہ السلام فکر و تدبر کو انسانی زندگی کا معیار قرار دیتے ہیں:
• قِوَامُ‏ الْعَيْشِ‏ حُسْنُ‏ التَّقْدِيرِ وَ مِلَاكُهُ حُسْنُ التَّدْبِيرِ.
• امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:ثَلَاثٌ يَحْجُزْنَ الْمَرْءَ عَنْ طَلَبِ‏ الْمَعَالِي‏ قَصْرُ الْهِمَّةِ وَ قِلَّةُ الْحِيلَةِ وَ ضَعْفُ الرَّأْي‏
• امير المؤمنين عليہ السلام :الفِكرُ فِى الخَيرِ يَدعُو إلَى العَمَلِ بِهِ؛
• رسول اسلام صلی الله عليہ و آلہ نے فرمایا:
مَن جَعَلَ الهُمومَ هَمّا واحِدا ؛ هَمَّ آخِرَتِهِ كَفاهُ اللّه ُ هَمَّ دُنياهُ ۔۔۔۔۔
ومَن تَشَعَّبَت بِهِ الهُمومُ في أحوالِ الدُّنيا۔۔۔ لَم يُبالِ اللّه ُ في أيِّ أودِيَتِها هَلَكَ .
• نبی کریم کا یہ فرمان مبارک دراصل قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر ہے جس میں خدا فرماتا ہے:
فَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ
وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
• رسالۃ الحقوق نفس کا حق:
وَ أَمَّا حَقُّ نَفْسِكَ عَلَيْكَ فَأَنْ تَسْتَوْفِيَہَا فِي طَاعَةِ اللَّہِ
• فَتُؤَدِّيَ إِلَى لِسَانِكَ حَقَّہُ وَ إِلَى سَمْعِكَ حَقَّہُ وَ إِلَى بَصَرِكَ حَقَّہُ
• وَ إِلَى يَدِكَ حَقَّہَا وَ إِلَى رِجْلِكَ حَقَّہَا وَ إِلَى بَطْنِكَ حَقَّہُ وَ إِلَى فَرْجِكَ حَقَّہُ
• وَ تَسْتَعِينَ بِاللَّہِ عَلَى ذَلِكَ

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button