محافلمناقب امیر المومنین عمناقب و فضائل

صادق و امین کی زبان سے وحی الٰہی کے نمونے (حصہ دوم)

شیخ ضیاء جواھری

حدیث آیات سورہ براۃ کے متعلق

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ برائت کی چند آیات حضرت ابوبکر کے سپرد کر کے انہیں مشرکین کی طرف تبلیغ کے لئے روانہ کیا اس وقت حضرت جبر ائیل امین نازل ہوئے اور کھاکہ اللہ تبارک تعالی نے آپ کو سلام کہلوا بھیجا ہے۔

اور ارشاد فرمایا ہے:

اس کام کو آپ خود انجام دیں یا وہ انجام دے جو آپ سے ہے ۔

اسی وقت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو بلوایا اور ان سے کہاتیز ترین ناقہ پر سوار ہوکر ابوبکر تک پہنچو اور اس کے ہاتھ سے سورہ برائت کی آیات کو واپس لے لو اور ان کو لے کر جاؤ اور مشرکین کے عھد کو ان کی طرف پہنچا دو اور ابو بکر کو اختیا ر دے دو کہ وہ تمہارے ہمراہ رہے یا میرے پاس واپس آجائے۔

حضرت ابو بکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس یہ کہتے ہوئے واپس لو ٹ آئے یا رسول اللہ آپ نے مجھے ایک اہم کام سونپا ، جب اس کی طرف متوجہ ہوا تو آپ نے مجھ سے وہ کام واپس لے لیا کیا قرآن میں اس کے متعلق کچھ نازل ہوا ہے حضرت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جی نہیں ! لیکن حضرت جبرائیل امین اللہ تعالی کی طرف سے میرے پاس یہ پیغام لائے ہیں کہ اس کام کو یا تو آپ خود انجام دیں یا وہ شخص اس کام کو انجام دے جو آپ سے ہو اور علی مجھ سے ہے اور میرے کام کی ذمہ داری حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی نہیں نبھا سکتا۔

(الارشاد و،شیخ مفید ج۱ ص۶۵،۶۶ ،تاریخ یعقوبی ج ۲ ص۷۶ سیرت ابن ھشام ج ۴ س۱۹۰)

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ

جو شخص چاہتا ہے کہ وہ میرے ساتھ زندہ رہے اور میرے ساتھ اس کی روح پرواز کرے اور میرے ساتھ ہمیشہ کے لئے اس جنت میں رہے( جس کا مجھ سے میرے رب نے وعدہ فرمایا ہے) تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف رجوع کرے۔ کیونکہ وہ کبھی بھی تمہیں ہدایت سے دور نہیں ہونے دیں گے اور کبھی بھی تمہیں گمراہی کی طرف نہیں لے جائیں گے۔

(المراجعات امام شرف الدین موسوی ص۱۷۶)

متقی ہندی نے اسی حدیث کو ابن عباس کی زبانی بیان کیا ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

جو میرے ساتھ جےنا اور مرنا چاھتا ہے۔ اور جنت عدن میں میرے ساتھ رہنا چاہتا ہے،وہ میرے بعد حضرت علی علیہ السلام سے محبت رکھے ۔اور اس کے محب سے محبت رکھنے والے میرے بعد میرے اہلبیت علیہم السلام کی اقتداء کرے کیو نکہ وہ میری عترت ہیں جنہیں میری مٹی سے پیدا کیا گیا اور انہیں میرا علم و فہم عطا کیا گیاہے۔ میری امت میں ان کی فضیلت کونہ ماننے والوں اور ان سے قطع رحم کرنے والوں کے لئے ہلاکت ہے اور اللہ تعالی انہیں میری شفاعت نصیب نہیں کرے گا۔

(مستدرک الصحیحین ج۳ص۱۲۹ ،پھر صاحب کتاب کھتے ہیں کہ یہ صحیح الاسناد حدیث ہے، اسی طرح اس حدیث کو کنز العمال نے ج ۶ ص۱۵۳ حدیث ۲۵۲۷ میں بےان کیا ہے)

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی کا بازو پکڑ کر فرمایا:

"ھذا إمام البررہ ،قاتل الفجرہ ‘،منصور مَن نصرہ ، مخذول مَن خذَلہ ، ثم مدَّ بھا صوتہ”

(کنزالعمال ج۶ ص۲۱۷ ،حدیث ۳۸۱۹، انھی الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ میں ابو نعیم نے بھی اپنی کتاب حلیة ج ۱ ص۸۶ پر اس حدیث کو نقل کیا ہے)

"یہ نیک لوگوں کے امام ہیں ،فاسق و فاجر لوگوں کے قاتل ہیں ان کی مدد کرنے والا کامیاب اور انہیں رسواکرنے والا خود رسوا ہے ،یہ بات آپ نے بہت بلند آواز میں ارشاد فرمائی”۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

"إن الله عهد إليّٰ في علي اٴنه رایة الهدیٰ وإمام اٴولیائي، و نور من اٴطاعني وهو الکلمهَ التي اٴلزمتها المتقين”

"خدا وندعالم نے مجھ سے حضرت علی علیہ السلام کے متعلق عہد لیا ہے کہ علی ہدایت کا علم ،میرے اولیاء کاامام اور میرے اطاعت گزاروں کا نور ہے اور یہ متقےن کے لئے ایک لازمی کلمہ ہے”۔

(حلیة ا لا ولیا ء ابی نعیم ج۱ ص۶۷)

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

اٴنا مدینة العلم وعلي بابها ، فمن اٴراد العلم فلیاٴت الباب”

میں علم کا شھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے جس نے علم حاصل کرنے کا ارادہ کیااسے چاھیے کہ وہ اس دروازے پر آئے ۔

(مستدرک الصحیحین ج۳ص۲۲۶ ،جامع الصغیر سیوطی ص۱۰۷)

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : کہ ہر وہ آیت جہاں اللہ تعالی نے ”یا اٴیهاالذین آمنو ا “ فرمایا ہے۔ وہاں حضرت علی کے علاوہ کوئی مراد نہیں ہے حضرت علی علیہ السلام ہی مومنوں کے سردار اور امیر ہیں۔

(حلیة الاولیا ء ج۱س۶۴)

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

تاویل کرنے والوں سے اس طرح جنگ کرے جس طرح تنزےل کے مخالفوں سے لڑے تھے پھر حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:

"میں اس سے صلح کروں گا جس سے تم صلح کروگے اور میں اس سے جنگ کروں گا جس سے تم جنگ کرو گے۔تم ہی عروة الوثقی ہو اور میرے بعدہر مومن اور مومنہ کے ولی اور امام ہو”۔

(اس کے بعد )مزید فرمایا :

"اللہ تعالی نے مجھے آپ کے فضائل بیان کرنے کو کھاہے لہٰذا میں لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر ان تک وہ پہنچا رہاہوں جس کا خدا نے حکم دیا ہے”۔

پھر ان سے فرمایا:

"ان خیانت کاروں سے بچو جو تمہارے لیئے اپنے سینے میں بغض و کینہ رکھتے ہیں اور میری موت کے بعد وہ اس کو ظاہر کریں گے، یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں اس کے بعد حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گریہ کرنے لگے تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کیوں گریہ فرما رہے ہیں :

تب آپ نے فرمایا:

"مجھے جبرائیل علیہ السلام نے خبر دی ہے کہ وہ لوگ ان کے ساتھ ظلم کریں گے اور ان کے حق کو غصب کریں گے وہ ان سے جنگ کرےں گے اور ان کے فرزندوں کو قتل کریں گے اور میرے بعد ان پر ظلم کریں گے” ۔

(المناقب الخوارزمی ص ۶۱ ۔۶۲)

عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ ہم یہ گفتگو کیا کرتے تھے کہ اہل مدینہ میں سب سے افضل علی ابن ابی طالب ہیں اسی طرح یہ روایت بھی انہیں سے ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوستر سورتیں سنائیں اور دوسرے لوگوں میں سب سے بہتر انسان علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے پوراقرآن سنایا۔

(مجمع الزوائد ج۹ ص ۱۱۶)

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تین شخص صدیق ہیں:

۱ ۔مومن آل یٰسن حبیب النجار نے کہا۔

"یا قوم إتّبعوا المرسلین

"اے قوم، مرسلین کا اتباع کرو "۔

۲ ۔مومن آل فرعون جناب حزقیل نے یہ کہا:

"اٴتقتلون رجلا اٴن یقول ربي الله

"کیا تم اس شخص کو قتل کرتے ہو جو کھتا ہے کہ میرا رب فقط اللہ ہے”۔

۳ ۔لیکن حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام جوان سب سے افضل ہیں

(مختصر تاریخ دمشق ابن عساکر ج۱۷ص۳۰۷)

حضرت سلمان اور حضرت ابوذر کہتے ہیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:

"اٴلا إنّ هذا اٴول مَن آمن بي،و هذا اٴول من يصافحني یوم القیامة، و هذا الصديق الاٴکبروهذا فاروق هذه الامة يفرّق بین الحق و الباطل وهذا يعسوب المؤمنین والمال يعسوب الظالمین

"جان لو یہ سب سے پھلا شخص ہے جو مجھ پر ایمان لایا یہ پھلا شخص ہے جو قیامت کے دن مجھ سے مصافحہ کرے گا یہ صدیق اکبر اور اس امت کا فاروق ہے اور یھی حق وباطل کے درمیان فرق کرے گایہ مومنین کا رہبر وسردارہے اور مال ظالموں کا رہبر ہے "۔

(مختصر تاریخ دمشق ابن عساکر ج ۱۷ ص ۳۰۶)

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

"یا علي طوبیٰ لمن اٴحبّک و صدق فیک و ويل لمن اٴبغضک وکذّب فیک

"یا علی بشارت ہے اسی شخص کے لئے جو تم سے محبت کرے اور تیرے بارے میں (نازل ہونے والی وحی)کی تصدیق اور اس شخص کےلئے ھلاکت و تباھی ہے جو تم سے بغض و عداوت رکہے اور تم پر نازل ہونے والی وحی کو جھٹلائے”۔

(مستدرک صحیحین ج ۳ ص۱۳۵)

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

"من اٴراد اٴن ینظر الیٰ نوح في عزمهِ،والیٰ آدم في علمه، والیٰ ابراهیم فيحلمهِ، والیٰ موسیٰ في فطنتهِ، والی عیسیٰ في زهده فلینظر الیٰ علي بن اٴبي طالب”

"جو شخص نوح کا عزم‘ آدم کاعلم‘ ابراھیم کا حلم ‘موسی کی ذہانت و فطانت اورعیسیٰ کا زھد دیکھنا چاھتا ہے اسے چاھیے کہ وہ علی ابن ابی طالب کو دیکھ لے”

(آیت مباہلہ کے معنی میں تفسیر کبیر رازی ج۲ ص۲۸۸)

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دعوت حق کی طرف تین اشخاص سابق ہیں حضرت موسی کے زمانہ میں حضرت یوشع بن نون نے سبقت کی حضرت عیسی کے زمانہ میں صاحب یسٰین نے سبقت کی اورحضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں علی ابن ابی طالب علیہما السلام نے سبقت کی ہے ۔

(صواعق محرقہ ابن حجر ص ۱۲۵)

عبد اللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

"النظر الی علی عبادة“

"علی کی طرف دیکھنا عبادت ہے "۔

(مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۱۹)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں ۔

"حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بتایا کہ میرے بعد امت تجھ پر ظلم کرے گی”۔

(مستدرک الصحیحن ج۳ ص ۱۴۰،چنا نچہ صاحب مستدرک کھتے ہیں کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے درست ہے اس روایت کو خطیب بغدادی نے اپنی کتاب تاریخ کی ج ۱۱ ص ۲۱۶ پر بھی بیان کیا ہے)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں ۔

ہم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم دونوں مدینہ سے باہر کی سمت نکل پڑے، راستے میں ایک باغ آیا۔

میں نے کھا:

یا رسول اللہ کتنا اچھا باغ ہے:

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

جنت میں اس سے بھی بہترباغ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت ہے ۔

پھر ہمارا گزر ایک اور باغ سے ہوا۔

میں نے کھا: یا رسول اللہ یہ بھی کتنا اچھا باغ ہے۔

حضرت نے فرمایا :

"جنت میں آپ علیہ السلام کا اس سے بھی خوبصورت باغ ہے”۔

یہاں تک کہ ہم سات باغوں سے گزرے اور ہر باغ کے بارے میں میں نے یھی کھاکہ یہ کتنا اچھا اور خوبصورت باغ ہے حضرت نے ہر مرتبہ فرمایا جنت میں آپ کا اس سے بھی اچھا باغ ہے جب میرا راستہ ان سے جدا ہونے لگا تو مجھے قریب بلایا اور پھر گریہ کرنے لگے ۔

میں نے عرض کی یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ آپ گریہ کیوں فرما رہے ہیں

حضرت نے فرمایا:

” لوگوں کے دلوں میں آپ علیہ السلام کے متعلق ایسا بغض موجود ہے جو میری وفات کے بعد آپ علیہ السلام پر ظاہر ہو گا ۔میں نے عرض کی یا رسول اللہ میرا دین تو سالم رہے گا فرمایا آپ علیہ السلام یقینا میرے دین پر سالم رہیں گے”۔

(مجمع الزوائد ج ۹ ص۱۱۸ تاریخ بغداد ج۱۲ ص۳۹۸)

حارث ہمدانی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا:

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے اللہ تعالی کا یہ فیصلہ صادر ہوا ہے:

"اٴنه لا یحبنی الاّ مؤمن ولا يُبغضني الاّ منافق وقد خاب من افتریٰ

"فقط مجھ علی سے محبت کرنے والا مومن ہے اور مجھ سے بغض رکھنے والا منافق ہے اور جھوٹ و افتراء باندھنے والا نقصان اٹھائے گا”۔

(ارشاد مفید ج۱ ص۴۰۔ بحار الانوار ج ۳۹ ص ۲۵۵)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :

حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ حضرت ام سلمہ سے حضرت علی ابن ابی طالب کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے:

"انّ علیا وشيعته هم الفائزون

یقینا حضرت علی علیہ السلام اور اس کے شیعہ ہی کامیاب ہیں”۔

(بحار ج ۶۸ص ۳۱ ،ارشاد شیخ مفید ج ۱ ص۴۱)

ابن عبا س کہتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"حب علی بن ابی طالب یاٴکل السیئات کما تاٴکل النار الحطب”

"حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت گناہوں کو اس طرح کھا جاتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو راکھ بنا دیتی ہے "۔

(کفایة الطالب ص ۳۲۵)

ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کیا جہنم سے بچنے کا کوئی طریقہ ہے؟ فرمایا جی ہاں میں نے کہاوہ کیا ہے؟ تو حضرت نے فرمایا:

"حب علي بن اٴبي طالب

"وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت ہے”۔

(کفایت الطالب ص ۳۲۵)

ام سلمہ کہتی ہیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تشریف لائے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جھوٹا ہے وہ شخص جو یہ دعوی کرے کہ وہ مجھ سے محبت رکھتا ہے جب کہ وہ علی علیہ السلام سے بغض رکھتا ہو۔

(کفایة الطالب ،ص ۳۲۰ ۔کنز العمال ج ۶ ص ۳۹۹)

ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان کلمات کے متعلق سوال کیا گیا جنہیں حضرت آدم علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی سے سیکھا اوران کے ذریعہ توبہ کی تو ان کی توبہ قبول ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"اساٴلک بحق محمد وعلي وفاطمه والحسن والحسین الا تبت عليّ فتاب علیه”

"وہ کلمات محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، علی علیہ السلام ،فاطمہ سلام اللہ علیھا حسن علیہ السلام حسین علیہ السلام ہیں جن کا واسطہ دے کر حضرت آدم علیہ السلام نے سوال کیا اور توبہ کی تو ان کی تو بہ قبول ہوئی”۔

(درمنثور سیوطی تفسیر ذیل آیت سورہ بقرہ فتلقی آدم من ربہ کلمات)

عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ باطل احادیث کے ساتھ خالص احادیث کے مخلوط اور مشتبہ ہو جانے سے پہلے مجھ سے یہ حدیث سن لو۔ میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

انا الشجرة و فاطمه فرعها وعلي لقاحهاو الحسن والحسین ثمرتهاو شيعتنا ورقها واٴصل الشجرةفي جنةعدن

"میں درخت ہوں ۔فاطمہ سلام اللہ علیھا اس کی شاخیں ہیں۔ علی علیہ السلام اس کا تنا ہے ۔ حسن علیہ السلام اورحسین علیہ السلام اس کے پھل ہیں اور ہمارے شیعہ اس درخت کے پتے ہیں اور اس مبارک درخت کی جڑیں جنت الفردوس میں ہیں” ۔

(مستدرک الصحیحین ج ۳ ص ۱۶۰)

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھاسے فرمایا:

کیا آپ جانتی ہیں کہ اللہ تعالی نے زمین والوں کی طرف جب رخ کیا تو سب سے پہلے آپ کے باپ کو منتخب کیا اور پھر آپ کے شوہر کو منتخب فرمایا اس نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ میں علی علیہ السلام کو اپنا جانشین اور وصی مقرر کروں۔

(مجمع الزوائد ج ۸ ص۲۵۳ کنز العمال ج۶ ص ۱۵۳)

جناب عمار بن یاسر کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

"اوصي مَن آمن بي وصدّقني بولایة علي بن اٴبي طالب، فمن تولاّه فقد تولاّني ومَن تولاّني فقد تولیٰ اللّه عزوجل”

"جو بھی مجھ پر ایمان لایا میں اسے وصیت کرتا ہوں کہ وہ میری رسالت کی تصدیق علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کے ساتھ کرے جو شخص ان کی ولایت کا اقرار کرتا ہے وہ مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے تو وہ یقینا اللہ سے محبت رکھتا ہے ہو گا”۔

(کفایةالطالب ،ص ۷۴)

حدیث طائر :

انس ابن مالک کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک پرندہ تحفہ کے طور پر دیا گیا جب آپ نے تناول فرمانا چاہاتو فرمایا:

پروردگارا!

جو تجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے اسے میرے پاس بھیج تا کہ وہ میرے ساتھ اسے تناول کرے چنانچہ اسی وقت میں حضرت علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام تشریف لائے اور پوچھا کیا میں حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آسکتا ہوں۔

وہ کہتاہے۔

میں نے کہااجازت نہیں ہے کیونکہ میں چاہتاتھا کہ حضرت کے ساتھ انصار سے کوئی شریک ہو آپ چلے گئے۔ پھر دوبارہ وآپس آئے اور پھر اجازت طلب فرمائی۔ تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ علیہ السلام کی آواز کو سن لی اور فرمایا:

"یاعلی اندر تشریف لائیے اور پھر فرمایا۔ پروردگارا یھی تیرا محبوب ہے ، یھی تیرا محبوب ہے”۔

(ارشاد ج ۱ ص ۳۸، کفایة الطالب ص ۱۴۵، کنز العمال ج۶ ص ۴۰۶)

مخنف بن سلیم کہتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری گھوڑے پر سوار ہو کر ہمارے پاس آئے میں نے ان سے کہا،اے ابو ایوب انصاری آپ نے تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہمراہی میں مشرکین سے قتال کیا تھا لیکن اب مسلمانوں سے قتال کرنے میں لگے ہوئے ہو، حضرت ابوایوب انصاری نے جواب دیا:

مجھے رسول خدا نے تین قسم کے لوگوں سے قتال کرنے کا حکم دیا تھا:

۱۔ ناکثین

۲۔قاسطین

۳۔ مارقین

اب تک میں نے فقط قاسطین اورناکثین سے جنگ کی ہے ۔ اب انشاء اللہ مارقین سے جنگ کرنے ولا ہوں ۔میدانوں‘ میں راہوں اورنہروان میں میرے لیے کوئی فرق نہیں کہ یہ قاسطین اور ناکثین اور مارقین کوئی بھی ہوں۔

(کفایة الطالب ص۱۶۹ ،اسد الغابہ ج۴ص۳۳)

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

"اٴنا و علي من شجرة واحده والناس من اٴشجار شتیٰ

"میں اور علی علیہ السلام شجرہ واحدہ سے ہیں جبکہ لوگ مختلف اشجار سے ہیں”۔

(کنز العمال ج۶ص ۱۵۴)

جناب شیخ صدوق اپنی کتاب اکمال میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے حدیث نقل کرتے ہیں امام نے فرمایا مجھ سے میرے والد محترم نے اور ان سے ان کے آباء اجدادنے اور ان سے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حدیث کو بیان فرمایا:

"واٴنا وعلی اٴبوا هذه الاٴمُّة من عرفنا فقد عرف اللّه ومن اٴنکرنافقد اٴنکر الله عزوجل و من علی سبطا اٴمتُي وسیدا شباب اٴهل الجنة،الحسن والحسین‘ من ولد الحسین تسعه طاعتهم طاعتي و معصيتهم معصيتي ، تاسعهم قائمهم و مهدیهم

"میں اور علی علیہ السلام اس امت کے باپ ہیں جس نے ہمیں پہچان لیا اس نے خدا کو پہچانا اور جس نےہمارا انکار کیا اس نے اللہ تعالی کا انکار کیا اور علی علیہ السلام سے میرے دو نواسے ہیں اور جوانان جنت کے سردار ہیں وہ حسن علیہ السلام وحسین علیہ السلام ہیں اور حسین علیہ السلام کی اولاد سے ۹ بیٹے ہوں گے، ان کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی میری نا فرمانی ہے اور ان میں (نویں) حضرت قائم اور مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں ۔

(مراجعات سید شرف الدین المراجہ ۶۲ص۲۰۲ بحوالہ صدوق مرحوم کی کتاب اکمال دین و اتمام النعمة)

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اے ابن سمرہ جب خواہشات پر اگندہ ہوں اورآراء متفرق ہوں تو آپ پر حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف رجوع کرنا لازم ہے، کیونکہ وہ میری امت کے امام اور میرے بعد میرے خلیفہ ہیں ۔

(مراجعات امام شریف الدین مراجعہ ۶۲ص ۲۱۰ بحوالہ کتاب صدوق اکمال الدین)

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

"الائمة بعدي اثنا عشر اٴوّلهم علي وآخرهم القائِم هم خُلفائي و اٴوصیائي

"میرے بعد بارہ امام ہیں ان میں پہلے حضرت علی علیہ السلام اور آخری حضرت قائم عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں یہ سب کے سب میرے خلفاء اور اوصیاء ہیں” ۔

(مراجعات امام شرف الدین کے مراجعہ ۶۲ ص۲۰۱ پررجوع کریں وہاں انہوں نے جناب صدوق کی کتاب اکمال الدین و اتمام النعمةکے حوالے سے اس حدیث نقل کیا ہے) ۔

( علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم سے اقتباس)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button