امیرالمومنین

آیۃ اللہ مکارم شیرازی دام ظلہ کی نظر میں حضرت علی علیہ السلام کی شہادت

مترجم : سید حسین حیدر زیدی
خلاصہ:
جی ہاں ! جس دن مظہر عدالت لوگوں کے درمیان سے چلا گیا ، جس دن اس دلسوز اور مہربان رہبر نے اپنی جگہ دوسروں کو دیدی ، جس دن علوم الہی کے خزینہ دار جو کہ خطبہ دیتے وقت علم و دانش کو بیان کرتے تھے ، اس دنیا سے چلے گئے اور بنی امیہ کے ظالم و جابر افراد جو کہ شیطانی ہوس اور حیوانی زندگی کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے تھے ، ان کی جگہ پر بیٹھ گئے اور بہت سے بے گناہوں کا خون بہانے لگے اس وقت مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ وہ کس شخص کو کھو چکے ہیں۔
کلمات کلیدی:
یہ بات جان لینا چاہئے کہامام علی علیہ السلام نے اسلام کے نونہال کی حفاظت اور مشکلات کو دور کرنے کیلئے ٢٥ سال تک زحمتوں کو برداشت کرنے کے بعد اسلامی حکومت تشکیل دی اور حدود الہی کو قائم کیا ، منحرف لوگوں سے جنگ کی ، ضرورت مندوں اور فقیروں کو ان کا حق دلایا ، مظلوموں کے حق کو پہچنوایا اور بیت المال کو عدالت کے ساتھ تقسیم کرنے کی کوشش کی ، اگر چہ بعض مسلمان نما لوگوں کو ان کی عدالت پسند نہیں تھی اور اسی وجہ سے ان کو شہید کردیا گیا ۔
(قہرمان توحید ، شرح و تفسیر آیات مربوط بہ حضرت ابراہیم ع ، ص١٩٥)
حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں شہادت کی وسعت
آیۃاللہ مکارم شیرازی نے اس مسئلہ کو امام علیہ السلام کے ملاک پر بیان کرتے ہوئے فرمایا : حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر کو خط میں لکھا تھا :
وَ أنَا أسْئَلُ اللّهَ بِسِعَةِ رَحْمَتِهِ وَ بِعَظِيمِ قُدْرَتِهِ أنْ يَخْتِمَ لِى وَ لَكَ بِالسَّعَادَةِ وَ الشَّهَادَةِ
میں خداوندعالم کی وسیع رحمت اور اس کی عظیم قدرت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ میرا اور تمہارا خاتمہ سعادت اور شہادت پر قرار دے۔
( نہج البلاغہ ،مکتوب نامہ ٥٣)
اس سلسلہ میں اور دوسری آیات و روایات بھی موجود ہیں جو کہ شہداء کے بلند و بالا مقام کو بیان کرتی ہیں ، دوسری طرف اسلام میں شہادت کے معنی کو بہت وسعت دی گئی ہے۔
اس کے مخصوص معنی یہ ہیں کہ خدا کی راہ میں میدان جنگ میں قتل ہوجائے۔
(مشکات ہدایت ، ص ٨٢)
جس کے خاص احکام ہیں ، یعنی اگر میدان جنگ سے باہر قتل ہو تو شہید کے بعض احکام میں اس میں نہیں پائے جاتے ،اگر چہ وہ بھی شہید ہے۔
لیکن اس کا ایک دوسرامعنی بھی موجود ہے جس کے ذریعہ اس کا مفہوم وسیع ہوجاتا ہے ، یعنی جو بھی وظیفہ الہی کو انجام دیتے ہوئے مرجائے وہ بھی شہید ہے ، مثال کے طور پر
مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ
جو بھی اپنے مال کا دفاع کرتے ہوئے قتل ہوجائے وہ شہید ہے۔
(وسائل الشیعہ ، جلد ١١ ، ص ٣٤)
مَنْ مَاتَ مِنْكُمْ عَلَى فِرَاشِهِ وَ هُوَ عَلَى‏ مَعْرِفَةِ حقٍّ مِنْ رَبِّهِ وَ حَقِّ رَسُولِهِ وَ أهْلِ بَيْتِهِ مَاتَ شَهِيداً
تم میں سے جو بھی اپنی ناموس کا دفاع کرتے ہوئے قتل ہوجائے اور وہ اللہ، رسول خدا اور اہل بیت علیہم السلام کے حق کو پہچانتا ہو تو وہ شہید مرتا ہے۔
(وسائل الشیعہ ، جلد ١١ ، ص ٤٠)
مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه و آله وسلم مَاتَ شَهِيداً
جو بھی محمد و آل محمد کی محبت میں مرجائے وہ شہید ہے ۔
(بحار الانوار ، جلد ٢٣ ، ص ٢٣٣)
کیونکہ وہ وظیفہ کو پورا کرتے ہوئے اپنی جان دیتا ہے لہذا شہادت کے معنی وسیع ہیں، اس بناء پر مفہوم شہادت بہت وسیع اور جامع ہے۔
اس بیان کے مطابق حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
جو شخص بھی خدا کی راہ میں شہید ہوجائے اور اپنے خون میں غلطاں ہوجائے ، اس کا مقام اس شخص سے زیادہ نہیں ہے جو گناہ پر قدرت رکھتا ہو لیکن خداوندعالم کی وجہ سے گناہ نہ کرے ،اس بناء پر انسان روزانہ شہید کا ثواب حاصل کرسکتا ہے۔
(مشکات ہدایت ، ص ٨٣)
یہ لوگ مقام شہادت پر فائز ہیں ، اس کی واضح اور روشن دلیل یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ”جہاد اکبر”نفس سے جہاد ہے اور جو جہاد اکبر کے میدان میں ہو اس کی مثال ایسی ہے جو ”جہاد اصغر ” کے میدان میں جاتا ہے بلکہ اس سے بھی بلند وبالا ہے ۔
(مشکات ہدایت ، ص ۸۴)
راہ خدا،قرب الی اللہ ، مقام صالحان اور مقام شہود کا راستہ واضح ہے لیکن اس کو طے کرنا بہت مشکل ہے ، ہمیں چاہئے کہ اپنے آپ کو خدا کے حوالہ کردیں ، خاص طور سے ہم ایسے زمانہ میں زندگی بسر کررہے ہیں جس میں گناہ کے وسائل زیادہ ہیں اور ان تک پہنچنا بھی بہت آسان ہے ، لہذا ہمیں اپنے خاندان اور معاشرہ کی حفاظت کرنا چاہئے ۔
(مشکات ہدایت ، ص ۸۵)
حضرت علی (علیہ السلام) کی شہادت سے امت سلامی کو بہت عظیم خسارہ اٹھانا پڑا۔
آیۃ اللہ مکارم شیرازی نے نہج البلاغہ کے ١٤٧ ویں خطبہ کی تفسیر میں آپ کی شہادت کے بعد امت اسلامی کے نقصانات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :
وداعي لكم وداع امرى‏ء مرصد
(”مرصد” کا مادہ”ارصاد” ہے جس کے معنی آمادہ رہنے اور منتظر ہونے کے ہیں)
للتّلاقي! غدا ترون أيّامي، و يكشف لكم عن سرائري، و تعرفونني بعد خلوّ مكاني و قيام غيري مقامي
(نہج البلاغہ ، خطبہ ١٤٧)
جی ہاں ! جس دن مظہر عدالت لوگوں کے درمیان سے چلا گیا ، جس دن اس دلسوز اور مہربان رہبر نے اپنی جگہ دوسروں کو دیدی ، جس دن علوم الہی کے خزینہ دار جو کہ خطبہ دیتے وقت علم و دانش کو بیان کرتے تھے ، اس دنیا سے چلے گئے اور بنی امیہ کے ظالم و جابر افراد جو کہ شیطانی ہوس اور حیوانی زندگی کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے تھے ، ان کی جگہ پر بیٹھ گئے اور بہت سے بے گناہوں کا خون بہانے لگے اس وقت مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ وہ کس شخص کو کھو چکے ہیں اور کتنا عظیم نقصان انہوں نے اٹھایا ہے ،اس بناء پر ”غداء ” (آنے وال کل) کی تعبیر سے جیسا کہ عبارت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے ، نہ عالم برزخ کی طرف اشارہ ہے اور نہ ہی قیامت کی طرف اشارہ ہے (جیسا کہ بعض شارحین نے لکھا ہے )۔ بلکہ یہی برے ، نحس اور تاریک ایام ہیں جو امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد مسلمانوں پر ظاہر ہوئے ۔
(پیام امام امیرالمومنین علیہ السلام ، جلد ٥ ، ص ٧١٧)
نور حق کو خاموش کرنے کیلئے”اشق الاولین” اور ”اشق الآخرین” کا مشترک ہدف
یہ بات بھی واضح ہے کہ شقی ترین لوگوں کی طرف سے مولائے متقیان امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شہادت ، مختلف اہداف کے تحت انجام پائی ، لیکن حق حاصل کرنے والوں کی نفی اور انوار الہی کو خاموش کرنے کی خواہش ہمیشہ قرآن اور اسلام کے دشمنوں نے کی ہے ، حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے دشمنان اہل بیت کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے امام علی کی شہادت کے متعلق فرمایا : بزرگان شیعہ اوراہل سنت جیسے ثعلبی، واحدی، ابن مردویہ ، خطیب بغدادی، طبری ، موصلی اور احمد حنبلی نے اپنی اسناد کے ذریعہ عمار یاسر، جابر بن سمرة ، عثمان بن صھیب سے اورانہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس طرح نقل کیا ہے کہ آنحضرت ص نے علی ع سے فرمایا :
”يا على! اشقى‏الاولين عاقر الناقة، و اشقى الآخرين قاتلك، و فى رواية من يخضب هذه من هذا”
(تفسیر نمونہ ، جلد ٢٧ ، ص ٦١)
اے علیؑ ! سب سے پہلے شقی ترین لوگ وہ تھے جنہوں نے ناقہ صالح کو قتل کیا اور آخر میں سب سے شقی ترین انسان وہ ہے جو تمہیں قتل کرے گا۔ ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ شقی ترین وہ ہے جس اس کو رنگین کرے گا (اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کے محاسن کو خون میں خضاب کرے گا)۔
(تفسیر نور الثقلین ، جلد ٥ ، ص ٥٨٧)
حقیقت میں ناقہ صالح کو قتل کرنے والے ”قدار بن سالف” اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کے قاتل عبدالرحمن بن ملجم میں ایک شباہت پائی جاتی تھی ۔ ان دونوں کو ذاتی دشمنی نہیں تھی ،بلکہ یہ دونوں نور حق کو خاموش کرنا چاہتے تھے ، یہ دونوں آیات الہی کے معجزہ اور نشانی کو ختم کرنا چاہتے تھے ، جیسا کہ ناقہ صالح کو قتل کرنے کے بعد اس ظالم اور سرکش قوم پر خدا کا عذاب نازل ہوا ، مسلمانوں نے بھی امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد بنی امیہ کی ظالم و جابر حکومت کے نیچے بہت سے دردناک عذاب کو برداشت کیا ۔
(تفسیر نمونہ ، جلد ٢٧ ، ص ۶۲)
فزت و رب الکعبة کی آواز میں غور وفکر
یقینا فزت و رب الکعبہ کی آواز کو تمام پیغاموں اور حضرت علی علیہ السلام کی شہادت میں پائے جانے والے معنی کی کنجی سمجھنا چاہئے۔ مرجع عالی قدر اور قرآن کریم کے بزرگ مفسر اس اہم فراز کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : کلمہ ”فوز ” جو کہ قرآن مجید میں عام طور سے لفظ”عظیم” کی صفت کے ساتھ ذکر ہوا ہے اور کسی کسی جگہ پر ”مبین” اور ”کبیر” کی صفت کے ساتھ ذکر ہوا ہے ، مفردات میں راغب کے بقول اس لفظ کے معنی کامیابی اور سلامتی کے ساتھ خیرات تک پہنچنے کے ہیں اور یہ اس وقت ہے جب آخرت کی نجات اسی میں ہو چاہے اس کی وجہ سے دنیوی اور مادی چیزیں ہاتھ سے چلی جائیں۔
مشہور روایات کے مطابق جس وقت محراب عبادت میں ظالم وجابر عبدالرحمن بن ملجم نے امام علی علیہ السلام کے فرق مبارک پر تلوار ماری تو آپ نے فرمایا : ”فزت و رب الکعبة” ۔ خدائے کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا (اور میرے سر کے خون سے میرے سعادت نامہ پر دستخط ہوگئے) !
جی ہاں کبھی کبھی پروردگار کا امتحان اس قدر سخت ہوتا ہے کہ سست ایمان کو بالکل ختم کردیتا ہے اور دلوں کو پلٹ دیتا ہے ، صرف سچے مومنین اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں جن کے پاس آرام وسکون کی نعمت ہوتی ہے اور قیامت میں بھی اس کے نتائج سے بہرہ مند ہوں گے اور یقینا یہ بہت عظیم کامیابی ہے ۔
(تفسیر نمونہ ، جلد ٢٧ ، ص ٣٤،۳۳)
حضرت علی علیہ السلام کی روح کا عالم ملکوت سے متصل ہوجانا
آیة اللہ مکارم شیرازی کے نقطہ نظر سے فزت و رب الکعبةکی آواز کے اہم ترین پیغام کو فرشتوں اور خدا کی ذات سے متصل ہونے میں تلاش کرنا چاہئے ، معظم لہ نے ایک حصہ میں فرمایا : یقینا جملہ مرصد للتلاقی
(وداعی لکم وداع امری ء مرصد للتلاقی ! غدا ترون ایام … (نہج البلاغہ ، خطبہ ١٤٧))
سے (جو شخص ملاقات کیلئے آمادہ او رمنتظر ہے) چاہے یہ ملک الموت سے ملاقات کے معنی میں ہو ، یا پروردگار سے ملاقات ہو ، معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی مقدس روح کا تعلق اس مادی اور بہت جلد ختم ہوجانے والی دنیا سے نہیں تھا بلکہ ان کا تعلق عالم ملکوت، خدا کے فرشتوں اور خدا کی ذات پاک سے تھا اور وہ ”ابن ملجم ” کی ضربت کو فوز عظیم اور پروردگار کعبہ سے ملاقات کا ایک مقدمہ سمجھتے تھے اور جملہ ”فزت و رب الکعبة” اس بات پر واضح ثبوت ہے اور اگر کچھ دنوں کیلئے پروردگار عالم کی حکمت کے مطابق ان کی پاک وپاکیزہ روح جسم کے اس پنجرہ میں قید تھی تو وہ اس دنیا میں زندگی بسر کررہے تھے ، جس وقت یہ پنجرہ ٹوٹ گیا تو آپ نے اپنے دوست کی گلی و کوچہ میں جانے کیلئے اپنے ہاتھوں کو پھیلا دیا ۔
(پیام امام امیرالمومنین علیہ السلام ، جلد ٥ ، ص ٧١٧،۷۱۸)
علوی سیرت میں انتقام نہ لینا ایک اہم خصوصیت
ظاہر سی بات ہے کہ جب بھی ا سلامی معاشرہ میں آپ مختلف حوادث سے روبرو ہوتے تھے تو عفو و بخشش کے نظریہ کو تقویت بخشتے تھے اور انتقام لینے سے پرہیز کرتے تھے ، یہ ایسا نظریہ ہے جس کو آپ نے شقی ترین انسان ابن ملجم کے ساتھ بھی انجام دیا ، حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اس مسئلہ کوبیان کرتے ہوئے فرمایا : امام علی علیہ السلام نے اپنے حکیمانہ قول میں انتقام سے پرہیز اور صبر و عفو کے طریقہ کی دعوت دی اور فرمایا ہے : ”غصہ کی آگ کو میں کن مواقع پر ٹھنڈا کروں ؟کیا اس وقت جب میں انتقام لینے سے عاجز ہوں اور مجھ سے کہا جائے کہ اگر صبر کرتے اور طاقت ور ہوجاتے تو بہتر تھا ، یا اس وقت کہ جب میں انتقام لینے پر قادر ہوں اور مجھ سے کہا جائے کہ معاف کردیتے تو بہتر تھا ؟’
مَتَى أَشْفِي غَيْظِي إِذَا غَضِبْتُ؟ أَحِينَ أَعْجِزُ عَنِ الِانْتِقَامِ فَيُقَالُ لِي لَوْ صَبَرْتَ؟ أَمْ حِينَ أَقْدِرُ عَلَيْهِ فَيُقَالُ لِي: لَوْ عَفَوْتَ
(نہج البلاغہ ، حکمت ١٩١)
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان کے اوپر ظلم وستم ہو اور وہ غصہ میں ہوتا ہے تو اس کی دو حالتیں ہوتی ہیں : کبھی وہ چاہتا ہے کہ انتقام لے ، لیکن اس میں انتقام کی طاقت نہیں ہوتی اور کبھی کبھی ظالم کو دھمکی دیتا ہے اور بڑی بڑی باتیں کرتا ہے اور کبھی کبھی اس سے لڑنے لگ جاتا ہے ، لیکن جب اپنی کمزوری کو دیکھتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے ،اس وقت سب لوگ اس سے کہتے ہیں : اگر انتقام لینا چاہتے ہو تو اس وقت انتقام لینا جب تم میں اس قدر طاقت ہوجائے اور اس طرح تو بے عزتی اور سوائی کاسبب ہے ،اس بناء پر ایسی حالت میں لوگ اس کو صبر کی تلقین کرتے ہیں ،لیکن اگر اس میں انتقام کی طاقت ہوتی ہے اور سامنے والا ضعیف و کمزور ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ بہتر یہی ہے کہ تم اس کو معاف کردو کیونکہ تمہاری قدرت کی زکات ، اس کو معاف کرنا ہے۔
(پیام امام امیرالمومنین علیہ السلام ، جلد ١٣، ص ٥١۳)
اس بناء پر کسی بھی حالت میں انتقام لینا صحیح نہیں ہے۔
لہذا مام علیہ السلام اس لطیف تعبیر کے ذریعہ لوگوں کو انتقام سے پرہیز کرنے کی دعوت دے رہے ہیں ، وہی چیز جس کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھتی ہے اور پھر بہت وسیع پیمانہ پر خونی جنگیں شروع ہوجاتی ہیں۔
اپنے قاتل ”عبدالرحمن بن ملجم مرادی” کے متعلق امام علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو جو وصیت کی ہے اس میں فرمایا ہے کہ اس کو کھانا ، پانی دو اور اس کے آرام کا بند و بست کرو ،اگر میں زندہ رہا تو خود اس سے بدلہ لوںگا اور اگر تم بھی معاف کردو تو بہتر ہے اور اگر (عام لوگوں کی مصلحت نے تقاضا کیا ) اور قصاص لینا ضروری ہوگیا تو تم بھی اس کے ایک ہی ضربت لگانا کیونکہ اس نے بھی ایک ہی ضربت لگائی ہے ، امیرالمومنین علیہ السلام نے یہ درس اپنے استاد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حاصل کیا ہے جس کی مثال فتح مکہ ہے جس میں تمام لوگوں کو معاف کردیا تھا ۔
(پیام امام امیرالمومنین علیہ السلام ، جلد ١٣، ص ٥١٤)
اپنے قاتل کے ساتھ بھی عدالت سے کام لینا
حضرت علی علیہ السلام کی سیرت میں عدالت اس قدر وسیع تھی کہ آپ نے اپنے قاتل کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا۔ آیۃ اللہ مکارم شیرازی نے سیرت علوی میں اس بے نظیرنظریہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
آپ کی حکومت میں عدالت اس قدر وسیع پیمانہ پر تھی کہ آپ نے اپنے قاتل کے متعلق بھی اپنے بیٹوں سے وصیت میں فرمایا :
يا بنى عبد المطلب لا الفينكم تخوضون دماء المسلمين خوضا تقولون قتل امير المؤمنين، الا لا تقتلن بى الا قاتلى، انظروا اذا انا مت من ضربته هذه فاضربوه، ضربة بضربة، و لا تمثلوا بالرجل
اے عبدالمطلب کے بیٹوں ! ایسا نہ ہو کہ تم میری شہادت کے بعد مسلمانوں کے خون میں غوطہ ور ہوجاو اور کہنے لگو کہ امیرالمومنین کو قتل کردیا گیا ہے اور اس بہانہ سے بہت سے خون بہا دو ، خبر دار ! میرا قاتل فقط عبدالرحمن بن ملجم مرادی ہے اور صرف اسی کو قتل کرنا۔
امام علی علیہ السلام کی تعلیمات میں عدالت کا نظریہ ایساہے کہ آپ فرماتے ہیں :
جس وقت میں شہید ہوجائوں تو تم بھی اس کے فقط ایک ہی ضربت لگانا اور قتل کرنے کے بعداس کے جسم کو مثلہ (ٹکڑے ٹکڑے) نہ کرنا ۔
( نہج البلاغہ ، بخش نامہ ہا شمارہ ، ٤٧، تفسیر نمونہ ، ج ١٢ ، ص ١٠٩)
شہادت کے وقت بھی خانہ خدا کی اہمیت
آیۃ اللہ مکارم شیرازی کے بیان میں خانہ کعبہ کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے بستر شہادت پر چند اہم مسائل کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا :
وَاللَّهَ اللَّهَ فِي بَيْتِ رَبِّكُمْ لَاتُخَلُّوهُ مَابَقِيتُمْ، فَإِنَّهُ انْ تُرِك لَمْ تُنَاظَرُوا
خانہ کعبہ کے متعلق بھی خدا یاد رہے ، جب تک تم زندہ ہو اس کو خالی نہ رہنے دینا کیونکہ اگر اس کو خالی چھوڑ دو گے تو تمہیں مہلت نہیں ملے گی (اور الہی بلائیں تمہارے اوپر نازل ہوجائیں گی )۔
(نہج البلاغہ ، نامہ ٤٧،داستان یاران : مجموعہ بحث ہای تفسیری ، ص ١١٨)
سنت کی حفاظت کیلئے بستر شہادت پر امام کی اہم وصیت
آیة اللہ مکارم شیرازی کی نظر میں پیغمبر اکرم ص کی سنت کی حفاظت اور قرآن کریم کے احکام پر عمل کرنا ایسی نصیحتیں ہیں جو ا مام علی علیہ السلام کے اہم وصایا میں ذکر ہوئے ہیں ، معظم لہ نے اس مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کو محفوظ کرنے کے معنی فقط قول کو محفوظ کرنے کے نہیں ہیں بلکہ ان پر عمل پیرا ہونا سنت کی حفاظت کا ایک مصداق ہے۔ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ بعض گروہ صرف اسلام کے نام پر قناعت کرتے ہیں اور سنت پیغمبر اکرم ص کو بالکل بھول گئے ہیں۔
ایک دوسرے گروہ نے مختلف قسم کی تفسیروں کے ذریعہ تفسیر بالرائے ، توجیہات اور جدید قرائت کی اصطلاحوں کو سنت پر تحمیل کردیا اور اپنی ہوا و ہوس کو سنت کا جانشین بنا دیا ، یہی وجہ ہے کہ امام علی علیہ السلام نے بستر شہادت پر دوسری وصیت (٢٨) میں فرمایا : ایسا نہ ہو کہ قرآن سے بہت دور رہنے والے قرآن پر عمل کریں اور تم لوگ جن کی تربیت قرآن کریم کے سایہ میں ہوئی ہے ، قرآن کو فراموش کردو ۔ دوسرے اپنی امانت ا ور صداقت کو ظاہر کریں اور تم اپنے جھوٹ اور خیانت کو ظاہر کرو۔ دوسرے لوگ اپنی دنیا میں متحد ہوں اور تم اپنے دین پر منتشر اور غیر متحد ہوجاو۔
وَاللَّهَ اللَّهَ فِي الْقُرْآنِ، لَايَسْبِقُكُمْ بِالْعَمَلِ بِهِ غَيْرُكُمْ‏
(پیام امام امیرالمومنین علیہ السلام ، ج ٩ ، ص ٢٧٨، مکتوب نامہ ٤٧)
ہم اس سے ڈرتے ہیں کہ وہ دن
لا يبقى من الاسلام الا اسمه و لا يبقى من القرآن الا رسمه‏
نہ آجائے ۔
(پیام امام امیرالمومنین علیہ السلام ، ج ٩، ص ٢٧٩)
اپنے قاتل سے روبرو ہوتے ہوئے حضرت علی کی رحمت
اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ رافت و رحمت کا نظریہ شیعوں کی ایسی خصوصیت ہے جو کبھی بھی ان سے جدا نہیں ہوسکتی اور اس کی مثال اور عینی شواہد کو امام علی علیہ السلام کی زندگی میں دیکھ سکتے ہیں کہ جب آپ اپنے قاتل ابن ملجم کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ کو اس کا کس قدر خیال تھا۔
آیة اللہ مکارم شیرازی نے اس اہم خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : حضرت علی علیہ السلام دینی احکام کی پیروی کرتے ہوئے اس قدر رحیم اور مہربان تھے کہ انہوں نے اپنے قاتل عبدالرحمن بن ملجم مرادی کو بھی جس نے آپ کوقتل کرنے کے ارادہ سے زخمی کیا تھا ، اپنی رحمت سے مایوس نہیں کیا ، اسی وجہ سے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ابن ملجم کو پکڑنے سے لے کر اپنی شہادت تک اس کے سلسلہ میں وصیت فرماتے رہے :
اے میرے بیٹو ! میرا قاتل فقط ابن ملجم ہے ، ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کچھ لوگ وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے فائدہ کیلئے تلواریں نیام سے نکال لیں اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے لگ جائیں اور اس بہانہ سے ان کا خون بہانے لگیں کہ وہ علی کے قتل میں شریک تھے اور اس مقدس شعار (نعرہ) کے لباس میں اپنی ذاتی دشمنی کا بدلہ لینے لگ جائیں۔
(والا ترین بندگان ، ص ٣٥)
میرے عزیزو ! جوکھانا تم نے میرے لئے آمادہ کیا ہے اسی میں سے میرے قاتل کو بھی دیدو !
میرے نور نظر ! اگر میں زندہ رہا تو اپنے قاتل سے خود بدلہ لے لوں گا اور اگر میں اپنے خدا سے ملحق ہوگیا تو تمہیں قصاص کرنے کا حق ہے ، لیکن اسی طرح جیسے اس نے ایک ضربت ماری ہے ، تم بھی اس کے ایک سے زیادہ ضربت مت لگانا !
رسول خدا کے بیٹو ! مرنے کے بعد اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کرنا !
یہ وہ وصیتیں تھیں جو حضرت علی علیہ السلام اپنے آخری وقت میں اپنے قاتل کیلئے کر رہے تھے۔
اب ان تفاسیر کو مدنظر رکھتے ہوئے جس پیغمبر کا جانشین اس قدر مہربان اور روئوف ہے وہ دین و آئین تشدد کا دین ہوسکتا ہے ؟
(والا ترین بندگان ، ص ۳۶)
شکنجہ اور اذیت دینا ممنوع !
اسلام کی نظر میں ہر طرح کا شکنجہ ممنوع ہے ، یہ مسئلہ اس کی نظر میں اس قدر اہم ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے شمر اور یزید سے بھی زیادہ شقی ترین شخص ابن ملجم کو بھی شکنجہ دینے سے منع کیا ہے اور اپنی اولاد کو وصیت کی ہے کہ اگر قصاص لینا چاہو توایک تلوار سے زیادہ نہ مارنا لیکن حقوق بشر کی مدعی ظالم حکومتوں میں جن کے چھوٹے نعروں نے پوری دنیا کو بہرہ کررکھا ہے ، حد سے زیادہ شکنجہ کیا جاتا ہے ۔
(سوگند ہای پر بار قرآن ، ص ٢٠٨، نہج البلاغہ ، کلمات قصار ، ٤٧)
علوی سیرت میں جرائم پیشہ قیدیوں کے ساتھ بھی اچھا برتائو کرنے کا حکم
ہم ایسے زمانہ میں زندگی بسر کررہے ہیں جہاںاستکباری طاقتیں، حقوق بشر کی حمایت کا دم بھر رہی ہیں ،لیکن اہل بیت علیہم السلام کی سیرت حقوق بشر کا ہر طرف سے خیال رکھتی ہے ،یہاں تک کہ قیدیوںکے ساتھ بھی صحیح برتائو کرنے کا حکم دیتی ہے ، حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے سیرت علوی کی تشریح اور اپنے قاتل یعنی شقی ترین شخص ابن ملجم کے ساتھ صحیح برتائو کرنے کے بیان کرتے ہوئے فرمایا : انسانی اصول و قوانین اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ اگر قیدی گنہگار بھی ہوں تو ان کے ساتھ انسانی سلوک کیا جائے ، اگر چہ آج کی دنیا ممکن ہے کہ اپنے آپ کو قیدیوں کی حامی بتاتی ہے لیکن اسلام کی پوری تاریخ میں اسیروں اور قیدیوں سے متعلق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصیحت اور سفارش ہمیں یاد ہیں اور حضرت علی علیہ السلام کی وصیت بھی اس شقی ترین انسان یعنی عبدالرحمان بن ملجم مرادی کے متعلق سنتے رہتے ہیں۔
(تفسیر نمونہ ، ج ١٠ ، ص١٣)
جس وقت امام علیہ السلام کا سر مبارک زخمی تھا اور آپ بستر پر لیٹے ہوئے تھے ، امام حسن دودھ کا ایک پیالہ لائے امام علی علیہ السلام نے اس میں سے کچھ پیا اور باقی ابن ملجم کو دیدیا ۔
(بحار الانوار ، ج ٤٢، ص ٢٨٩، پیام قرآن ، ج ١٠ ، ص ٢١١)
اسی طرح آپ نے اس کو قتل کرنے کے متعلق فرمایا : اس کے ایک سے زیادہ ضربت مت لگانا کیونکہ اس نے بھی ایک ہی ضربت لگائی ہے۔
(تفسیر نمونہ ، ج١٠ ، ص١٤)
مکتب علوی میں حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کا ملاک و معیار معاد تھا
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ آیۃ اللہ مکارم شیرازی کی نظر میں حضرت علی علیہ السلام کی شہادت اور ”فزت و رب الکعبة” کی آواز معاد کا ملاک و معیار تھی ، معظم لہ نے ایک جگہ فرمایا ہے : بعض لوگ موت کو فنا اور مطلق نابودی سمجھتے ہیں اوراپنے تمام وجود کے ساتھ اس سے فرار کرتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعہ تمام چیزیں ختم ہوجاتی ہیں۔
لیکن بعض لوگوں کی نظر میں موت ایک جدید پیدائش ہے جس کے ذریعہ ایک وسیع دنیا میں انسان قدم رکھتا ہے۔
فطری سی بات ہے کہ اس مکتب کے ماننے والے اپنے ہدف کے راستہ میں موت اور شہادت سے نہیں ڈرتے بلکہ امیرالمومنین علی علیہ السلام کے مکتب سے الہام حاصل کرتے ہیں امام نے فرمایا ہے : خدا کی قسم ابوطالب کے بیٹے کوموت سے اس قدر محبت ہے جس قدر شیر خوار بچہ کو اپنی ماں کے پستان سے ہوتی ہے اور اپنے مقدس ہدف کو مدنظر رکھتے ہوے میں موت کا استقبال کرتا ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ جب شقی ترین شخص ابن ملجم نے آپ کے فرقد مبارک پر تلوار ماری تو فرمایا : ”فزت و رب الکعبة” خدائے کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا !
نماز عمود دین
آیۃاللہ مکارم شیرازی کے فکری منظومہ میں نماز ، روح اخلاص کوزندہ کرتی ہے کیونکہ نماز ایسا مجموعہ ہے جو خالص نیت ، پاک و پاکیزہ زبان اور خالص اعمال سے وجود میں آتی ہے ، اس عمل کو شب و روز پانچ مرتبہ انجام دینے سے انسان کے تمام اعمال نیک ہوجاتے ہیں اور روح اخلاص قوی ہوجاتی ہے۔
اسی وجہ سے انہوں نے ایک جگہ فرمایا ہے : امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنی ایک وصیت میں فرمایا ہے :
اللہ اللہ فی الصلاة فانھا عمود دینک
نماز کے بارے میں اللہ کو یاد رکھو کیونکہ نماز تمہارے دین کا ستون ہے ۔
(نہج البلاغہ ، وصیت نامہ ٤٧)
ہم جانتے ہیں کہ اگر عمودخیمہ ٹوٹ جائے یا گر جائے تو اس کے اطراف کی رسیاں چاہے جس قدر قوی اور مضبوط ہوں ، ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، اسی طرح جب بندوں کا اپنے خداسے نماز کے ذریعہ ارتباط ٹوٹ جاتا ہے تو دوسرے اعمال کا اثر باقی نہیں رہتا ۔
(تفسیرنمونہ، ج١٦ ، ص٢٩٢)
لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی عمرکے آخری لمحوں تک عبادت کو ترک نہیں کیا اور حضرت علی علیہ السلام نے محراب عبادت میں جام شہادت نوش فرمایا اور اسی طرح تمام ائمہ علیہم السلام کی شہادت بھی عبادت کے عالم میں واقع ہوئی ۔
(اخلاق اسلامی در نہج البلاغہ خطبہ متقین ج ١ ، ص ٢٥٤، تفسیر نمونہ ج١١ ، ص ١٤٣)

شیعوں کے لئے امام علی علیہ السلام کا آخری پیغام
آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی نے حضرت علی علیہ السلام کے نورانی اقوال کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :
امام علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے ١٤٩ ویں خطبہ کے دوسرے حصہ کے دوران بہت ہی مختصر اور جامع عبارت میں اپنی زندگی کو بہت بڑی عبرت کے نام سے بیان کیا اور فرمایا :
میں کل تمہارا یار و مددگار تھا اور آج (جبکہ بستر شہادت پر لیٹا ہوا ہوں) تمہارے لئے درس عبرت ہوں اور کل تم سے جدا ہوجاوں گا (اور دنیا کو الوداع کہہ دوں گا)
انا بالامس صاحبکم ، والیوم عبرة لکم ، و غدا مفارقکم
(نہج البلاغہ ، خطبہ ١٤٩)
میں فاتح خیبر، خندق اور بدر ہوں اور کل تمہارے درمیان بہت ہی طاقتور انسان تھا ، ایک دن گزرنے کے ساتھ ساتھ میں بھی تبدیل ہوگیا اوراب زخمی ہو کر بستر شہادت پر ہوں اور میرے سر کا زخمی ہونا تمہیں دنیا کے بے وفا ہونے کا درس دیتا ہے ، کل جب میری خالی جگہ کو دیکھو گے تو احساس کرو گے کہ دنیا بالکل بھی معتبر نہیں ہے ، بہت ہی آسانی کے ساتھ ایک شجاع ترین انسان دنیا سے آنکھیں بند کرلیتا ہے اور حوادث کے سامنے تسلیم ہوجاتا ہے۔
(پیام امام امیرالمومنین علیہ السلام ، ج ٩ ، ص ٢٧٤)
تنظیم و ترتیب اور تحقیق آیۃ اللہ مکارم شیرازی کے دفتر کی سایٹ کی طرف سے اہل قلم کی ایک جماعت
https://www.makarem.ir/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button