ایمانیاتحدیث

مقام کبریا از نظر رسول خدا ﷺ و آئمہ ہدیٰ علیھم السلام

معرفت خدا کی فضیلت
1۔”حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ الْوَلِيدِ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ هِلَالٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ مَا مِنْ شَيْ‏ءٍ أَعْظَمَ ثَوَاباً مِنْ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَا يَعْدِلُهُ شَيْ‏ءٌ وَ لَا يَشْرَكُهُ فِي الْأَمْرِ أَحَدٌ”
ابی حمزہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ "لا الہ الا اللہ کی گواہی سے زیادہ عظیم ثواب کسی شی میں نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا عدیل و مثل کوئی نہیں ہے اور نہ اس کے امر میں کوئی شریک ہے ۔”
(توحید شیخ صدوق، ص 20 )


2۔ ” عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ علیہ السلام إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى ضَمِنَ لِلْمُؤْمِنِ ضَمَاناً قَالَ قُلْتُ وَ مَا هُوَ قَالَ ضَمِنَ لَهُ إِنْ هُوَ أَقَرَّ لَهُ بِالرُّبُوبِيَّةِ وَ لِمُحَمَّدٍ ص بِالنُّبُوَّةِ وَ لِعَلِيٍّ ع بِالْإِمَامَةِ وَ أَدَّى مَا افْتُرِضَ عَلَيْهِ أَنْ يُسْكِنَهُ فِي جِوَارِهِ قَالَ قُلْتُ فَهَذِهِ وَ اللَّهِ الْكَرَامَةُ الَّتِي لَا يُشْبِهُهَا كَرَامَةُ الآْدَمِيِّينَ قَالَ ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع اعْمَلُوا قَلِيلًا تَتَنَعَّمُوا كَثِيراً”
مفضل بن عمرو کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالی نے مومن سے ایک چیز کی ضمانت لی ہے۔ پوچھا گیا کہ وہ کیا ہے تو آپ ؑ نے فرمایا” اللہ تعالی نے مومن سے یہ ضمانت لی ہے کہ اگر وہ ربوبیت، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت اور علی علیہ السلام کی امامت کا اقرار کریں اور اس پر جو فرائض ہیں انہیں ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے گا۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا پھر تو یہ خدا کی قسم ایسا شرف و کرامت ہے کہ آدمیوں کا کوئی شرف اس کے مشابہ نہیں ہے راوی کا بیان ہے کہ پھر حضرت امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا کہ پس تم لوگ تھوڑے پر عمل کرو اور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرو۔”
(توحید شیخ صدوق ص 21)


3۔ قال الامام علی علیہ السلام "من عرف اللہ کملت معرفتہ "
” جو اللہ کو پہچان لیتا ہے اس کی معرفت مکمل ہو جاتی ہے۔”
(منتخب میزان الحکمت، ج2 ص807)


4۔ قال الامام علی علیہ السلام "معرفۃ اللہ سبحانہ اعلی المعارف ”
"خدا وند سبحانہ کی معرفت سب سے بلند و بالا ہے ۔”
(منتخب میزان الحکمت ج2 ص807)


5۔ قال الامام الصادق علیہ السلام "لو یعلم الناس ما فی فضل معرفۃ اللہ عز و جل ما مدوا اعینھم الی ما متع اللہ بہ الاعداء من زھرۃ الحیاۃ الدنیا و نعیمھا و کانت دنیاھم اقل عندھم مما یطؤونہ بارجلھم و لنعموا بمعرفۃ اللہ جل و عز و تلذذوا بھا تلذذ من لم یزل فی جل انس من کل وحشۃ و صاحب من کل وحدۃ و نور من کل ظلمۃ و قوۃ م کل ضعف و شفاءمن کل سقم ”
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا "اگر لوگوں کو یہ بات معلوم ہو جائے کہ خدا تعالی کی معرفت کی کیا فضیلت ہے تو وہ ان چیزوں کی طرف ہرگز آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں جن سے خداوند عالم نے اپنے دشمنوں کو دنیاوی زندگی کی رونقوں اور نعمتوں سے نوازا ہے ان لوگوں کے نزدیک دشمنان خدا کی دنیا کی قدرو قیمت پاؤں تلے روندی جانے والی چیزوں سے بھی کم تر ہو وہ خدا کی معرفت کو بہت بڑی نعمت سمجھیں اور اس نعمت سے اس قدر لذت اٹھائیں جیسے دوستان خدا کے ساتھ بہشت کے باغوں میں لذت اٹھا رہے ہوں کیونکہ اللہ کی معرفت ہر خوف میں مونس اور غمخوار ہوتی ہے ہر سفر میں ساتھی ہوتی ہے ہر تاریکی میں روشنی ہوتی ہے ہر کمزوری میں طاقت ہوتی ہے اور ہر بیماری میں دوا ہوتی ہے ۔”
(منتخب میزان الحکمت، ج2 ص807)


معرفت خدا کے ثمرات
6۔ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "من عرف اللہ و عظمہ منع فاہ من الکلام و بطنہ من الطعام و عنی نفسہ بالصیام و القیام "
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا: "جو شخص اللہ کی معرفت حاصل کر لیتا ہے اور اس کا اعتراف کر لیتا ہے وہ اپنے منہ کو بات کرنے اور پیٹ کو کھانے سے روکے رکھتاہے اور اپنے نفس کو روزوں اور شب زندہ داری کے ذریعے پاک کرتا ہے۔”
(امالی صدوق ، ص 444 )


7۔ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "من کان باللہ اعرف کان من اللہ اخوف "
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے کہ فرمایا "جو اللہ کو زیادہ پہچانے گا وہ االلہ سے زیادہ ڈرے گا ۔
(بحار الانوار، ج 70 ص393)


8۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” لو عرفتم اللہ حق معرفتہ لمشیتم علی البحور و لزالت بدعایکم الجبال ”
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "اگر تمہیں اللہ کی حقیقی معرفت حاصل ہو جائے تو تم سمندروں کے اوپر چلنے لگو اور تمہاری دعاؤں سے پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں۔”
(کنز العمال ،ح 5893)


اثبات التوحید و نفی التشبیہ
9۔ قال الامام علی علیہ السلام فی وصیتہ لابنہ الحسن علیہ السلام "واعلم یا بنی انہ لو کان لربک شریک لاتتک رسلہ و لرایت آثار ملکہ و سلطانہ و لعرفت افعالہ و صفاتہ و لکنہ الہ واحد کما وصف نفسہ لا یضادہ فی ملکہ احد و لا یزول ابدا "
امام علی علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوے فرمایا ” اے فرزند یقین کرو اگر تمہارے پروردگار کا کوئی شریک ہوتا تو اس کے رسول بھی تمہارے ہاں آتے اور تمہیں اس کی سلطنت و فرمانروائی کے آثار بھی دکھائی دیتے اس کی صفات و افعال بھی تمہیں ضرور معلوم ہوتے مگر وہ اکیلا ہے جیسا کہ اس نے خود بیان فرمایا اس بارے میں اس کے ساتھ کوئی ٹکر نہیں لے سکتا وہ ہمیشہ کے لئے ابدی ہے ۔”
(نہج البلاغہ مکتوب 31)


10۔ من مناظرتہ زندیقا ان قلت انھما اثنان لم یخل من ان یکونا متفقین من کل جھۃ او مفترقین من کل جھۃ فلما راینا الخلق منتظما والفلک جاریا و اختلاف الیل و النھار والشمس والقمر دل صحۃ الامر و التدبیر وائتلاف الامر علی ان المدبر واحد ثم یلزمک ان ادعیت اثنین فلابد من فرجۃ بینھما حتی یکونا اثنین فصارت الفرجۃ ثالثا بینھما قدیما معھما فیلزمک ثلاثۃ فان ادعیت ثلاثۃ لزمک ما قلنا فی الاثنین حتی یکون بینھم فرجتان فیکون خمسا ثم یتناھی فی العدد الی ما لا نھایۃ فی الکثرۃ "
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک زندیق مناظرانہ گفتگو سے اقتباس
” تم جو کہتے ہو کہ کائنات کے دو خالق ہیں تو یہ بات اس امر سے خالی نہیں ہے کہ وہ دونوں تمام جہات کے لحاظ سے متفق ہو لیکن جب ہم خلق کے نظام کو منظم فلک کو چلتا ہوا رات و دن کی گردشون کو پیہم اور سورج و چاند کو دیکھتے ہیں تو امور و تدبیر و یکجہتی کا صحیح سمت پر چلنا اس بات کی دلیل بنتاہے کہ کائنات کو چلانے والا صرف ایک ہی ہے نیز تم نے جو یہ دعوی کیا ہے کہ کائنات کا نظام چلانے والے دو ہیں تو تمہیں یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ ان دونوں کے درمیان کوئی نہ کوئی فاصلہ ضرور ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ وہ دو ہیں پس ان دونوں کے درمیان فاصلہ تیسری چیز ہو گیا جو ان دونوں کی طرح قدیم ہو گا لہذا تمہیں ماننا پڑے گا کہ اس طرح خالق دو نہ رہے بلکہ تین ہو گے اب اگر تم تین کو تسلیم کرو گے و پھر سابقہ دلیل کی طرح ماننا پڑے گا کہ ان تینوں کے درمیان دو فاصلے ہوں اس طرح اعداد کا یہ سلسلہ غیر متناہی طور پر آگے پڑھتا جائے گا اور کہیں ختم ہونے میں ہیں آئے گا ۔”
(توحید شیخ صدوق ، ص250)


11۔ عَنِ الْحُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ ع أَنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ع اسْتَنْهَضَ النَّاسَ فِي حَرْبِ مُعَاوِيَةَ فِي الْمَرَّةِ الثَّانِيَةِ فَلَمَّا حَشَدَ النَّاسَ قَامَ خَطِيباً فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْأَحَدِ الصَّمَدِ الْمُتَفَرِّدِ الَّذِي لَا مِنْ شَيْ‏ءٍ كَانَ وَ لَا مِنْ شَيْ‏ءٍ خَلَقَ مَا كَانَ قُدْرَتُهُ بَانَ بِهَا مِنَ الْأَشْيَاءِ وَ بَانَتِ الْأَشْيَاءُ مِنْهُ فَلَيْسَتْ لَهُ صِفَةٌ تُنَالُ وَ لَا حَدٌّ يُضْرَبُ لَهُ الْأَمْثَالُ كَلَّ دُونَ صِفَاتِهِ تَعْبِيرُ اللُّغَاتِ وَ ضَلَّ هُنَالِكَ تَصَارِيفُ الصِّفَاتِ وَ حَارَ فِي مَلَكُوتِهِ عَمِيقَاتُ مَذَاهِبِ التَّفْكِيرِ وَ انْقَطَعَ دُونَ الرُّسُوخِ فِي عِلْمِهِ جَوَامِعُ التَّفْسِيرِ وَ حَالَ دُونَ غَيْبِهِ الْمَكْنُونِ حُجُبٌ مِنَ الْغُيُوبِ وَ تَاهَتْ فِي أَدْنَى أَدَانِيهَا طَامِحَاتُ الْعُقُولِ فِي لَطِيفَاتِ الْأُمُورِ فَتَبَارَكَ اللَّهُ الَّذِي لَا يَبْلُغُهُ بُعْدُ الْهِمَمِ وَ لَا يَنَالُهُ غَوْصُ الْفِطَنِ وَ تَعَالَى اللَّهُ الَّذِي لَيْسَ لَهُ وَقْتٌ مَعْدُودٌ وَ لَا أَجَلٌ مَمْدُودٌ وَ لَا نَعْتٌ مَحْدُودٌ وَ سُبْحَانَ الَّذِي لَيْسَ لَهُ أَوَّلٌ مُبْتَدَأٌ وَ لَا غَايَةٌ مُنْتَهًى وَ لَا آخِرٌ يَفْنَى- سُبْحَانَهُ هُوَ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ وَ الْوَاصِفُونَ لَا يَبْلُغُونَ نَعْتَهُ حَدَّ الْأَشْيَاءَ كُلَّهَا عِنْدَ خَلْقِهِ إِيَّاهَا إِبَانَةً لَهَا مِنْ شِبْهِهِ وَ إِبَانَةً لَهُ مِنْ شِبْهِهَا فَلَمْ يَحْلُلْ فِيهَا فَيُقَالَ هُوَ فِيهَا كَائِنٌ وَ لَمْ يَنْأَ عَنْهَا فَيُقَالَ هُوَ مِنْهَا بَائِنٌ وَ لَمْ يَخْلُ مِنْهَا فَيُقَالَ لَهُ أَيْنَ لَكِنَّهُ سُبْحَانَهُ أَحَاطَ بِهَا عِلْمُهُ وَ أَتْقَنَهَا صُنْعُهُ وَ أَحْصَاهَا حِفْظُهُ لَمْ يَعْزُبْ عَنْهُ خَفِيَّاتُ غُيُوبِ الْهَوَى وَ لَا غَوَامِضُ مَكْنُونِ ظُلَمِ الدُّجَى وَ لَا مَا فِي السَّمَاوَاتِ الْعُلَى وَ الْأَرَضِينَ السُّفْلَى لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ مِنْهَا حَافِظٌ وَ رَقِيبٌ وَ كُلُّ شَيْ‏ءٍ مِنْهَا بِشَيْ‏ءٍ مُحِيطٌ وَ الْمُحِيطُ بِمَا أَحَاطَ مِنْهَا اللَّهُ الْوَاحِدُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ تُغَيِّرْهُ صُرُوفُ الْأَزْمَانِ وَ لَمْ يَتَكَأَّدْهُ صُنْعُ شَيْ‏ءٍ كَانَ إِنَّمَا قَالَ لِمَا شَاءَ أَنْ يَكُونَ كُنْ فَكَانَ ابْتَدَعَ مَا خَلَقَ بِلَا مِثَالٍ سَبَقَ وَ لَا تَعَبٍ وَ لَا نَصَبٍ وَ كُلُّ صَانِعِ شَيْ‏ءٍ فَمِنْ شَيْ‏ءٍ صَنَعَ وَ اللَّهُ لَا مِنْ شَيْ‏ءٍ صَنَعَ مَا خَلَقَ وَ كُلُّ عَالِمٍ فَمِنْ بَعْدِ جَهْلٍ تَعَلَّمَ وَ اللَّهُ لَمْ يَجْهَلْ وَ لَمْ يَتَعَلَّمْ أَحَاطَ بِالْأَشْيَاءِ عِلْماً قَبْلَ كَوْنِهَا فَلَمْ يَزْدَدْ بِكَوْنِهَا عِلْماً عِلْمُهُ بِهَا قَبْلَ أَنْ يُكَوِّنَهَا كَعِلْمِهِ بَعْدَ تَكْوِينِهَا لَمْ يُكَوِّنْهَا لِشِدَّةِ سُلْطَانٍ وَ لَا خَوْفٍ مِنْ زَوَالٍ وَ لَا نُقْصَانٍ وَ لَا اسْتِعَانَةٍ عَلَى ضِدٍّ مُثَاوِرٍ- وَ لَا نِدٍّ مُكَاثِرٍ وَ لَا شَرِيكٍ مُكَايِدٍ لَكِنْ خَلَائِقُ مَرْبُوبُونَ وَ عِبَادٌ دَاخِرُونَ فَسُبْحَانَ الَّذِي لَا يَئُودُهُ خَلْقُ مَا ابْتَدَأَ وَ لَا تَدْبِيرُ مَا بَرَأَ وَ لَا مِنْ عَجْزٍ وَ لَا مِنْ فَتْرَةٍ بِمَا خَلَقَ اكْتَفَى عَلِمَ مَا خَلَقَ وَ خَلَقَ مَا عَلِمَ لَا بِالتَّفَكُّرِ وَ لَا بِعِلْمٍ حَادِثٍ أَصَابَ مَا خَلَقَ وَ لَا شُبْهَةٍ دَخَلَتْ عَلَيْهِ فِيمَا لَمْ يَخْلُقْ لَكِنْ قَضَاءٌ مُبْرَمٌ وَ عِلْمٌ مُحْكَمٌ وَ أَمْرٌ مُتْقَنٌ تَوَحَّدَ بِالرُّبُوبِيَّةِ وَ خَصَّ نَفْسَهُ بِالْوَحْدَانِيَّةِ وَ اسْتَخْلَصَ الْمَجْدَ وَ الثَّنَاءَ فَتَمَجَّدَ بِالتَّمْجِيدِ وَ تَحَمَّدَ بِالتَّحْمِيدِ وَ عَلَا عَنِ اتِّخَاذِ الْأَبْنَاءِ وَ تَطَهَّرَ وَ تَقَدَّسَ عَنْ مُلَامَسَةِ النِّسَاءِ وَ عَزَّ وَ جَلَّ عَنْ مُجَاوَرَةِ الشُّرَكَاءِ فَلَيْسَ لَهُ فِيمَا خَلَقَ ضِدٌّ وَ لَا فِيمَا مَلَكَ نِدٌّ وَ لَمْ يَشْرَكْ فِي مُلْكِهِ أَحَدٌ الْوَاحِدُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ وَ الْمُبِيدُ لِلْأَبَدِ وَ الْوَارِثُ لِلْأَمَدِ الَّذِي لَمْ يَزَلْ وَ لَا يَزَالُ وَحْدَانِيّاً أَزَلِيّاً قَبْلَ بَدْءِ الدُّهُورِ وَ بَعْدَ صَرْفِ الْأُمُورِ الَّذِي لَا يَبِيدُ وَ لَا يُفْقَدُ بِذَلِكَ أَصِفُ رَبِّي فَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مِنْ عَظِيمٍ مَا أَعْظَمَهُ وَ جَلِيلٍ مَا أَجَلَّهُ وَ عَزِيزٍ مَا أَعَزَّهُ وَ تَعَالَى عَمَّا يَقُولُ الظَّالِمُونَ عُلُوّاً كَبِيراً وَ حَدَّثَنَا بِهَذِهِ الْخُطْبَةِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّقْرِ الصَّائِغُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ بْنِ بَسَّامٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو زَيْدٍ سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَصْرِيُّ قَالَ حَدَّثَتْنِي عُمْرَةُ بِنْتُ أَوْسٍ قَالَتْ حَدَّثَنِي جَدِّيَ الْحُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ ع أَنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ع خَطَبَ بِهَذِهِ الْخُطْبَةِ لَمَّا اسْتَنْهَضَ النَّاسَ فِي حَرْبِ مُعَاوِيَةَ فِي الْمَرَّةِ الثَّانِيَةِ "
عبد الرحمن اپنے باب سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے سنا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے دوسری مرتبہ لوگوں کو معاویہ سے جنگ کرنے کےلئے جمع کیا پس جب کہ لوگ جمع ہو گئے تو آپؑ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوے آپ ؑ نے فرمایا تمام شکر و سپاس اس اللہ کے لئے ہے جو واحد اور یکتا ہے بے نیاز ہے بغیر نظیر کے تنہاء ہے جو کسی چیز سے تو پیدا نہیں ہوا اور نہ کسی چیز سے جو پیدا ہوئی خلق ہوا وہ اپنی قدرت کی وجہ سے اشیاء سے جدا گانہ ہے اور اشیا اس سے جدا ہیں کوئی صفت اس کا وصف بیان نہیں کر سکتی کوئی حد و تعریف اس کے لئے امثال پیش نہیں کر سکتی ہے، تعبیر لغات اس کی صفات کے آگے عاجز و درماندہ ہیں اور یہاں صفات کی تمام گردنیں خم ہیں فکر و خیال کے مزاہب کی تمام گہرائیاں اس کی بادشاہت و قدرت کے بارے ہیں سرگرداں ہیں جامعین تفسیر با وصف علمی رسوخیت و پختگی اس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوے رک گئے ہیں اس کے غیب مکینوں کے آگے غیب کے پردے حائل ہیں بلند پایہ عقول امور لطیفہ میں سے قریب ترین امور میں سرگشتہ ہیں پس بابرکت ہے وہ ذات جس تک بلند ہمتوں کی رسائی نہیں ہو سکتی فکر و ذہانت کی گہرائی اس تک نہیں پہنچ سکتی بلند و بالا ہے وہ اللہ کہ جس کے لئے شمار کیا ہوا وقت نہیں ہے نہ اس کے لئے کوئی مدت ہے جو دراز ہو نہ کوئی نعت محدود ہے اور اس کی ذات تمام عیوب و نقایض سے پاک ہے جس سے اول کوئی پہلا نہیں نہ و غایت ہے جس کی منتہا ہو نہ و آخر ہے جو فنا ہو جائے اس کی ذات پاک و پاکیزہ ہے وہ اسی طرح کا ہے جیسا کہ خود اس نے اپنا وصف بیان کیا ہے تعریف کنندگان اس کی نیت تک نہیں پہنچ سکتے تمام کو اشیاء کو ان کی پیدائش کے وقت محدود کر دیا ہے خاص طور پر ان کو اپنی مشابہت اور خود کو ان کی مشابہت سے جدا اور الگ کر دیا ہے اس نے ان اشیاء میں حلول نہیں کیا کہ کہا جائے کہ وہ ان میں موجود ہے اور نہ وہ ان سے دور ہے کہ کہا جائے کہ وہ ان اشیاء سے جدا ہے اور نہ وہ ان سے الگ ہوا کہ کہا جائے کہ وہ کہاں ہے لیکن اللہ سبحانہ کے علم نے ان اشیاء کا احاطہ کیا اور اس کی کاریگری و مہارت نے ان کو مضبوط کیا اس کی حفاظت و نگرانی نے ان اشیاء کو گھیر ے میں لے لیا اس خدا سے پوشیدہ خواہشات کے راز نہ اندھیری رات کی تاریکیوں کے پوشیدہ معاملات اور نہ بلند آسمانوں اور پست زمیتوں میں جو کچھ ہے پوشیدہ ہیں وہ ان میں سے ہر شئ کا ذمہ دار و نگران ہے ہر شئی دوسری شئی کا احاطہ کیے ہوے ہے اور ان سب کا احاطہ کرنے والا اللہ ہے جو ایسا واحد اور بے نیاز ہے جس کو زمانہ کی گردش متغیر نہیں کر سکتیں اور نہ موجودہ اشیا کی صناعی نے اس کو مشکل میں مبتلا کیا اس نے جس چیز کے لئے چاہا کہ وہ ہو جائے کہا ہو وہ ہو گئی اس نے سابقہ مثال کے بغیر مخلوق کو بغیر کسی تھکاوٹ کے ایجاد کیا ہر صانع نے ایک شئی کو دوسری شئی سے بنایا اور اللہ تعالی نے جو چیز خلق کی وہ کسی شئی نے نہیں بنائی ہر عالم نے جہل کے بعد علم حاصل کیا اور اللہ تعالی نہ جاہل ہے اور نہ اس نے علم سیکھا اس نے وجود اشیاء سے قبل علم کے ذریعہ ان کا احاطہ کیا ان کے وجود سے اس کے علم میں زیادتی نہیں ہوئی اس کا علم ان اشیا کی تکوین سے قبل ایسا ہی تھا جیسے ان کی تکوین و تخلیق کے بعد ہے وہ ان اشیا کو شدت اقتدار و غلبہ کے لئے معرض وجود میں لایا اور نہ زوال و نقصان کے خوف سے تخلیق کیا اور کسی حملہ آور کے برعکس کسی سے مدد طلب نہیں کی اور نہ کوئی اس کا کثرت میں مقابل آنے والا مثل ہے نہ کوئی مکرو فریب کرنے والا شریک ہے لیکن تمام مخلوقات اس کے پرورش کردہ ہیں اور بندگان خدا پست و حقیر ہے پس پاکیزہ ہے وہ ذات کہ جس کو ابتدائے خلقت گراں نہیں گزرتی نہ کوئی تدبیر ہے جو عدم سے عالم ہستی میں لائے نہ عدم قدرت و عجز نہ کسی سستی و کمزوری کی بنا پر جو چیز خلق کی اس سے بے نیاز ہوا اس کے علم میں تھا جو اس نے خلق کیا اس چیز کو اس کے علم کے ساتھ جو بغیر فکر و تامل کے تھا اور نہ کوئی نو پیدا علم جو مخلووق کی وجہ سے پہنچا اور نہ اس پر کسی قسم کا شبہ وارد ہوا اس چیز کے بارے میں جو ابھی اس نے پیدا نہیں کیں لیکن اٹل فیصلہ ہے محکم علم ہے درست امر ہے وہ ربوبیت میں یکہ و تنہا ہے اور اس نے خود کو وحدانیت سے مخصوص کر لیا ہے حمد و ثنا کو اس نے چن لیا ہے وہ بزرگی کی نسبت سے بزرگ و تعریف کے لائق ہوا اس نے بار ہا حمد و سپاس کی رجہ سے فضل و حمد کو ظاہر فرمایا ہے وہ پیٹا بنانے سے بلند ہے وہ عور توں کی ملاست و قربت سے طاہر و پاک ہے اس کی ذات شرکاء کی ہمنشینی و قربت سے بالا و برتر ہے اس کی مخلوقات میں اس کی ضد نہیں ہے نہ ان اشیاء کی ملکیت میں اس کا کوئی مثل و نظیر ہے کوئی اس کے ملک میں شریک نیں وہ واحد عکتا بے نیاز ابدو ہر کا فنا کرنے والا ہے اور و ہ گردش امور کے بعد جو نہ ختم ہوں گے اور نہ معدوم ہو گے اس کی ذات بلند و بالا ہے اس سے جو ظالم کہتے ہیں ۔”
(توحید شیخ صدوق، ص36)


12۔ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ غَالِبٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص فِي بَعْضِ خُطَبِهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَانَ فِي أَوَّلِيَّتِهِ وَحْدَانِيّاً وَ فِي أَزَلِيَّتِهِ مُتَعَظِّماً بِالْإِلَهِيَّةِ مُتَكَبِّراً بِكِبْرِيَائِهِ وَ جَبَرُوتِهِ ابْتَدَأَ مَا ابْتَدَعَ وَ أَنْشَأَ مَا خَلَقَ عَلَى غَيْرِ مِثَالٍ كَانَ سَبَقَ بِشَيْ‏ءٍ مِمَّا خَلَقَ رَبُّنَا الْقَدِيمُ بِلُطْفِ رُبُوبِيَّتِهِ وَ بِعِلْمِ خُبْرِهِ فَتَقَ وَ بِإِحْكَامِ قُدْرَتِهِ خَلَقَ جَمِيعَ مَا خَلَقَ وَ بِنُورِ الْإِصْبَاحِ فَلَقَ فَلَا مُبَدِّلَ لِخَلْقِهِ وَ لَا مُغَيِّرَ لِصُنْعِهِ وَ لا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ وَ لَا رَادَّ لِأَمْرِهِ وَ لَا مُسْتَرَاحَ عَنْ دَعْوَتِهِ وَ لَا زَوَالَ لِمُلْكِهِ وَ لَا انْقِطَاعَ لِمُدَّتِهِ وَ هُوَ الْكَيْنُونُ أَوَّلًا وَ الدَّيْمُومُ أَبَداً الْمُحْتَجِبُ بِنُورِهِ دُونَ خَلْقِهِ فِي الْأُفُقِ الطَّامِحِ وَ الْعِزِّ الشَّامِخِ وَ الْمُلْكِ الْبَاذِخِ فَوْقَ كُلِّ شَيْ‏ءٍ عَلَا وَ مِنْ كُلِّ شَيْ‏ءٍ دَنَا فَتَجَلَّى لِخَلْقِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونَ يُرَى وَ هُوَ بِالْمَنْظَرِ الْأَعْلَى فَأَحَبَّ الِاخْتِصَاصَ بِالتَّوْحِيدِ إِذِ احْتَجَبَ بِنُورِهِ وَ سَمَا فِي عُلُوِّهِ وَ اسْتَتَرَ عَنْ خَلْقِهِ وَ بَعَثَ إِلَيْهِمُ الرُّسُلَ لِتَكُونَ لَهُ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ عَلَى خَلْقِهِ وَ يَكُونَ رُسُلُهُ إِلَيْهِمْ شُهَدَاءَ عَلَيْهِمْ وَ ابْتَعَثَ فِيهِمُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ- لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَ يَحْيى‏ مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ وَ لِيَعْقِلَ الْعِبَادُ عَنْ رَبِّهِمْ مَا جَهِلُوهُ فَيَعْرِفُوهُ بِرُبُوبِيَّتِهِ بَعْدَ مَا أَنْكَرُوا وَ يُوَحِّدُوهُ بِالْإِلَهِيَّةِ بَعْدَ مَا عَضَدُوا”
امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد محترم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ و آلہ وسلم نے اپنے کسی ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا؛ اس اللہ کا شکر و سپاس ہے جو اپنی اولیت میں اکیلا ہے اور اپنی ازلیت میں خدائی کی وجہ سے متکبر ہے وہ اپنی کبرائی اور جبروت کی بنا پر مغرور ہے اس نے ہر ایجاد کردہ شئ کی ابتداء کی اس نے جس چیز کو پیدا کیا بغیر مثال کے پیدا کیا ہمارا رب اپنےلطف ربوبیت کی وجہ سے قدیم ہے اس نے اپنے تجربہ و آزمایش کے علم سے ان امور کو پیدا کیا اس نے اپنی قدرت مضبوطی سے تمام خلق شدہ اشیاء کو پیدا کیا صبح کے نور سے رات کی تاریکی کو شگافتہ کیا پس اس کی خلق میں کوئی تبدیلی کرنے والا نہیں نہ اس کی صنعت میں کوئی تغیر و تبدل کرنے والا ہے اور نہ کوئی اس کے فیصلے کی چارہ جوئی کرنے والا ہے اور نہ کوئی اس کے امر و فرمان کو رد کرنے والا ہے نہ اس کی دعوت سے کوئی پھرنے والا ہے نہ اس کے ملک و حکومت کو زوال ہے اس کی مدت کو کوئی ختم کرنے والا نہیں ہے وہ اول موجود ہے وہ ہمیشہ سے ابد ہے وہ اپنے نور کی وہ اپنی مخلوقات کے لئے جلوہ فگن ہوا بغیر اس کے کہ وہ دیکھا جائے وہ منت وجہ سے مخلووق کی نظر سے بلنس و بالا افق برتر غلبہ و عزت اور ملک کبیر والا ہے وہ ہر شئی پر غالب ہے ہر شئی سے قریب ہے پس وہ اپنی مخلوقات کے لئے جلوہ فگن ہوا بغیر اس کے کہ وہ دیکھا جائے وہ منتظر اعلی پر ہے تو اس نے توحید سے مختص ہونے کو پسند کیا جب کہ وہ اپنے نور کی وجہ سے حجاب میں رہا وہ علو ذاتی میں بلند ہو ا وہ اپنی مخلوق سے چھپا ہوا ہے اور اس نے ان کی طرف رسولوں کو مبعوث فرمایا تاکہ اپنی مخلوق پر اس کی حجت بالغہ ہو جائے اور اس کے رسول ان پر گواہ ہو جائیں ان مخلوقات کے درمیان بشارت دینے والے اور خوف الہی سے ڈرانے والے انبیاء کو مبعوث کیا تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل و حجت سے ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ بھی دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور اس لئے کہ بندہ اپنے رب کے بارے میں غور کر سکیں جس سے وہ واقف نہیں ہے پھر وہ اس کی ربوبیت کی معرفت حاصل کریں بعد اس کے کہ انہوں نے انکار کیا اور اس کو الہیت میں یکتا مانا بعد اس کے کہ انہوں نے اس کی معبودیت سے قطع تعلق کیا ۔”
(توحید شیخ صدوق، ص 45 )


13۔ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ أَخْرَجَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ علیہ السلام حُقّاً فَأَخْرَجَ مِنْهُ وَرَقَةً فَإِذَا فِيهَا سُبْحَانَ الْوَاحِدِ الَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ الْقَدِيمِ الْمُبْدِئِ الَّذِي لَا بَدْءَ لَهُ الدَّائِمِ الَّذِي لَا نَفَادَ لَهُ الْحَيِّ الَّذِي لا يَمُوتُ الْخَالِقِ مَا يُرَى وَ مَا لَا يُرَى الْعَالِمِ كُلَّ شَيْ‏ءٍ بِغَيْرِ تَعْلِيمٍ ذَلِكَ اللَّهُ الَّذِي لَا شَرِيكَ لَهُ”
ابو بصیرکہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک ڈبہ نکالا اس میں سے ایک کاغذ نکالا جس میں تحریر تھا وہ پاک و پاکیزہ ہے وہ واحد ہے کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ ایسا قدیم و مبدی ہے جس کی کوئی ابتدا نہیں ہے وہ ایسا ہمیشہ رہنے والا ہے جس کی انتہا نہیں ایسا زندہ ہے جس کو موت نہیں آئے گی وہ دیکھی ان دیکھی اشیاء کا خلاق ہے وہ بغیر علم حاصل کئے ہوے ہر شئ کا عالم ہے وہ ایسا اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔”
(توحید شیخ صدوق ص 48 )


14۔ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ الْخَزَّازِ عَنْ رِجَالِهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ اللَّهُ غَايَةُ مَنْ غَيَّاهُ وَ الْمُغَيَّا غَيْرُ الْغَايَةِ تَوَحَّدَ بِالرُّبُوبِيَّةِ وَ وَصَفَ نَفْسَهُ بِغَيْرِ مَحْدُودِيَّةٍ۔”
” امام جعفر صادق علیہ السلام سےروایت کی ہے کہ امام ع نے فرمایا اللہ غایت ہے اس کی جس نے اس کو گم کر دیا ہے اور گم کردہ غایت کا غیر ہے وہ ربوبیت کی وجہ سے منفرد و یکتا اس نے اپنی تعریف محدودیت کے بغیر کی ہے ۔”
(توحید شیخ صدوق ص 58 )


15۔ عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْقَاسِمِ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ مُوسَى الرِّضَا علیہ السلام يَقُولُ مَنْ شَبَّهَ اللَّهَ بِخَلْقِهِ فَهُوَ مُشْرِكٌ وَ مَنْ وَصَفَهُ بِالْمَكَانِ فَهُوَ كَافِرٌ وَ مَنْ نَسَبَ إِلَيْهِ مَا نَهَى عَنْهُ فَهُوَ كَاذِبٌ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الآْيَةَ- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِ‏آياتِ اللَّهِ وَ أُولئِكَ هُمُ الْكاذِبُونَ "
داؤد بن موسی کہتے ہیں کہ میں نے امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے سنا وہ فرماتے تھے کہ جس نے اللہ کو اس کی مخلوق سے مشابہ قرار دیا تو وہ مشرک ہے اور جس نے مکان سے موصوف کیا وہ کافر ہے جس چیز سے نہیں کی ہے اس کی طرف نسبت دی تو وہ کاذب ہے پھر آپ ؑ نے یہ ایت تلاوت فرمائی سوائے اس کے نہیں کہ جھوٹ کا بہتان وہی لوگ باندھتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے ہیں اور یہ سب جھوٹے ہیں۔”
(توحید شیخ صدوق ص 67)


حدوث عالم سے وجود خدا کا ثبوت
16۔ عن محمّد بن علیّ، عن محمّد بن عبد اللّه الخراسانیّ خادم الرّضا علیه السّلام قال:دخل رجل من الزّنادقه علی أبی الحسن علیه السّلام و عنده جماعه فقال أبو الحسن علیه السّلام: أیّها الرّجل أرأیت إن کان القول قولکم و لیس هو کما تقولون أ لسنا و إیّاکم شرعا سواء، لا یضرّنا ما صلّینا و صمنا و زکّینا و أقررنا؟ فسکت الرّجل؛ ثمّ قال أبو الحسن علیه السّلام: و إن کان القول قولنا و هو قولنا ألستم قد هلکتم و نجونا؟ فقال رحمک اللّه أوجدنی کیف هو و أین هو؟ فقال: ویلک إنّ الّذی ذهبت إلیه غلط هو أیّن الأین بلا أین و کیّف الکیف بلا کیف فلا یعرف بالکیفوفیّه و لا بأینونیّه و لا یدرک بحاسّه و لا یقاس بشیء فقال الرّجل: فإذا إنّه لا شیء إذا لم یدرک بحاسّه من الحواسّ؟ فقال أبو الحسن علیه السّلام: ویلک لمّا عجزت حواسّک عن إدراکه أنکرت ربوبیّته و نحن إذا عجزت حواسّنا عن إدراکه أیقنّا أنّه ربّنا بخلاف شیء من الأشیاء قال الرّجل: فأخبرنی متی کان؟ قال أبو الحسن علیه السّلام: أخبرنی متی لم یکن فأخبرک متی کان. قال الرّجل: فما الدّلیل علیه؟ فقال أبو الحسن علیه السّلام: إنّی لمّا نظرت إلی جسدی و لم یمکنّی فیه زیاده و لا نقصان فی العرض و الطّول و دفع المکاره عنه و جرّ المنفعه إلیه علمت أنّ لهذا البنیان بانیا فأقررت به مع ما أری من دوران الفلک بقدرته و إنشاء السّحاب و تصریف الرّیاح و مجری الشّمس و القمر و النّجوم و غیر ذلک من الآیات العجیبات المبیّنات علمت أنّ لهذا مقدّرا و منشئا۔”
حضرت امام رضا علیہ السلام کا خادم محمد بن عبد اللہ الخراسانی بیان کرتے ہیں کہ ایک زندیق امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں آیا جبکہ آپ کے پاس مسلمانوں کی ایک جماعت موجود تھی امام رضا علیہ السلام نے فرمایا اے بندہ خدا جیسا کہ تو گمان کرتا ہے اگر معاملہ ایسا ہوا جیسا کہ تو کہتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے پھر تم اور ہم برابر ہوئے اور ایک جیسے ہیں ہماری نمازیں اور روزے زکاۃ اور یہ اقرار ہمیں نقصان نہیں دیں گی کیوں کہ وہ سب فضول ہو جائیں گے وہ مرد خاموش رہا پھر آپ ؑ نے فرمایا اور اگر معاملہ ایسا ہوا جیسا کہ ہم کہتے ہیں حالنکہ ایسا ہی ہے پھر تو ہلاک ہو جائے گا اور ہم کامیاب ہو جائیں گے اس نے کہا خدا آپ پر رحم فرمائے مجھے بتائیں کہ وہ کیسا ہے کہاں ہے آپ ؑ نے فرمایا وائے ہو تیرے لیے جس راستے پر تو جا رہا ہے وہ غلط ہے اس نے مکان کو مکان بنایا ہے اور اس کی کیفیت کو کیفیت عطا کی ہے لیکن اس کی ان چیزوں سے معرفت حاصل نہیں ہو سکتی اور اس کو حواس ظاہریہ سے نہیں پہچانا جا سکتا ہے اور اس کو کسی چیز پر قیاس نہیں کیا جا سکتا اس شخص نے کہا اگر اس کو حواس ظاہریہ سے درک نہیں کیا جا سکتا پھر تو وہ کوئی چیز ہے ہی نہیں امام ؑ نے فرمایا وائے ہو تیرے پر جس ذات کو تیرے حواس درک کرنے سے عاجز ہو جائیں تو اس کی ربوبیت کا انکار کر رہا ہے جبکہ ہمارے حواس اس کو درک کرنے سے عاجز ہیں تو ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ وہ ہمارا رب اور وہ دوسری چیزوں کے علاوہ و خلاف ہے اس شخص نے کہا رب کب سے ہے ابو الحسن ؑ نے فرمایا تو مجھے بتاؤ کہ وہ کب نہیں تھا تاکہ میں تجھے بتاؤں کہ وہ کب سے ہے ۔ اس نے کہا اس کے ہونے پر دلیل کیا ہے جو بیان کرے کہ وہ ہے آپ ؑ نے فرمایا جب میں اپنے وجود کی طرف نظر کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ میں اس جسم میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں کر سکتا ہوں اور اس سے کوئی نقصان یا بدی کو اپنے سے دور نہیں کر سکتا اور کوئی فائدہ اور خوبی کو اپنے آپ کو نہیں دے سکتا تو اس سے مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اس وجود کا کوئی بنانے والا ہے تبھی تو یہ بنا ہے اور اس کا بنانے والے کا وجود کا میں اعتراف کر لیا ہے اس کے علاوہ افلاک کی گردش اس کی قدرت سے ہے بادلوں کا پیدا ہونا اور ہواؤں کا چلنا سورج و چاند ستاروں کا جاری و ساری رہنا اس کی واضح و روشن نشانیاں ہیں جو بیان کرتیں ہیں ان سے بھی مجھے علم و یقین ہو گیا ہے وہ قدرت والا اور پیدا کرنے والا ہے۔”
(الشافی ترجمہ اصول کافی، جلد 1 ص 195)


17۔ ” محمد بن یعقوب قال حدثنی عدۃ من اصحابنا عن احمد بن محمد البرقی عن ابیہ عن علی بن النعمان عن ابن مسکان عن داؤد بن فرقد عن ابی سعید الزھری عن ابی جعفر قال کفی لاولی الالباب بخلق الرب المسخر و ملک الرب القھر جلال الرب الظاھر و نور الرب الباھر و برھان الرب الصادق و ما انطق بہ السن العباد و ما ارسل بہ الرسل و ما انزل علی العباد دلیلا علی الرب "
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ صاحبان عقل کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ دنیا کی ہر شئی اس کی تسخیر میں ہے اس کے رب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ رب رب قاہر ہے صاحب عظمت و جلال ہے اور اس کی قدرت ظاہر ہے اس کا نور واضح ہے اس کی قدرت کی دلیلیں روشن ہیں اور وہ صادق ہے اس کی قدرت کی دلیلیں اس کے بندوں کی زبانیں ہیں اور رسولوں کا بھیجنا ہے اور جو بندوں پر نازل کیا ہے ۔
(الشافی ترجمۃ اصول الکافی ج 1 ص 204)


توحید اور موحد کے معنی
18۔ عَنْ أَبِي هَاشِمٍ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ الثَّانِيَ ع مَا مَعْنَى الْوَاحِدِ فَقَالَ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ بِجَمِيعِ الْأَلْسُنِ بِالْوَحْدَانِيَّةِ”
ابو ہاشم جعفری ابو جعفر محمد بن علی علیہ السلام سے دریافت کرتے ہیں کہ واحد کا کیا معنی ہے تو آپ ع نے فرمایا کہ واحد کا معنی یہ ہے کہ جس پر تمام لوگ اپنی باتوں میں وحدانیت پر مجتمع ہو جائیں ۔”
(توحید شیخ صدوق ص 80)


19۔ عَنْ أَبِي هَاشِمٍ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ الثَّانِيَ ع مَا مَعْنَى الْوَاحِدِ قَالَ الَّذِي اجْتِمَاعُ الْأَلْسُنِ عَلَيْهِ بِالتَّوْحِيدِ كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ- وَ لَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ”
"ابو ہاشم بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر الثانی علیہ السلام سے دریافت کیا کہ واحد کے کیا معنی ہیں اپؑ نے جواب میں فرمایا کہ جس پر تمام زبانوں کا توحید کے ساتھ اجتماع ہو جیسا کہ اللہ عزو جل نے فرمایا اے رسول ان سے سوال کرو کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا تو وہ ضرور جواب دیں گے کہ اللہ نے ۔”
(توحید شیخ صدوق ص 80)


معنی توحید و عدل
20۔ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّاهِدُ السَّمَرْقَنْدِيُّ بِإِسْنَادِهِ رَفَعَهُ إِلَى الصَّادِقِ ع أَنَّهُ سَأَلَهُ رَجُلٌ فَقَالَ لَهُ إِنَّ أَسَاسَ الدِّينِ التَّوْحِيدُ وَ الْعَدْلُ وَ عِلْمُهُ كَثِيرٌ وَ لَا بُدَّ لِعَاقِلٍ مِنْهُ فَاذْكُرْ مَا يَسْهُلُ الْوُقُوفُ عَلَيْهِ وَ يَتَهَيَّأُ حِفْظُهُ فَقَالَ ع أَمَّا التَّوْحِيدُ فَأَنْ لَا تُجَوِّزَ عَلَى رَبِّكَ مَا جَازَ عَلَيْكَ وَ أَمَّا الْعَدْلُ فَأَنْ لَا تَنْسُبَ إِلَى خَالِقِكَ مَا لَامَكَ عَلَيْهِ”
امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک آدمی نے دریافت کیا تو آپ ؑ نے فرمایا کہ دین کی بنیاد توحید اور عدل ہے اور جس کا علم بہت زیادہ ہے لہذا مرد عاقل کے لئے اس کا علم ضروری ہے پس تم اس کو اتنا حاصل کرو جتنا اس پر فائز رہنے کے لئے آسان ہو اور جس کو یاد رکھ سکو پھر آپ ؑ نے فرمایا لیکن توحید تو تم اپنے رب کے لئے وہ امر جائز قرار نہ دو جو تمہارے اوپر درست ہو لیکن وہ عدل تم خدا کی طرف منسوب نہ کرو جس پر تم کو ملامت کی جائے ۔”
(توحید شیخ صدوق ص93)


21۔ حَدَّثَنَا أَبُو سُفْيَانَ مَوْلَى مُزَيْنَةَ عَمَّنْ حَدَّثَ عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ رَحِمَهُ اللَّهُ أَنَّهُ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ إِنِّي لَا أَقْوَى عَلَى الصَّلَاةِ بِاللَّيْلِ فَقَالَ لَا تَعْصِ اللَّهَ بِالنَّهَارِ وَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنِّي قَدْ حُرِمْتُ الصَّلَاةَ بِاللَّيْلِ فَقَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع أَنْتَ رَجُلٌ قَدْ قَيَّدَتْكَ ذُنُوبُكَ”
ابو سفیان کے غلام کی روایت ہے کہ ایک شخص سلمان فارسی کے پاس آیا اس نے کہا کہ اے ابو عبد اللہ میں رات کی نماز ادا کرنے کی قوت نہیں رکھتا تو انہوں نے جواب دیا کہ تم روز روشن میں اللہ کی نافرمانی نہ کرو اور ایک آدمی امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ میں نے نماز شب کو حرام قرار دیدیا ہے تو امیر المومنین نے فرمایا کہ تم وہ آدمی ہو کہ جس کو تمہارے گناہوں نے مقید کر رکھا ہے۔”
(توحید شیخ صدوق ص93)


22۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیہ السلام سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ الْحَكَمِ يَرْوِي عَنْكُمْ أَنَّ اللَّهَ جَلَّ وَ عَزَّ جِسْمٌ صَمَدِيٌّ نُورِيٌّ مَعْرِفَتُهُ ضَرُورَةٌ يَمُنُّ بِهَا عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ خَلْقِهِ فَقَالَ ع سُبْحَانَ مَنْ لَا يَعْلَمُ أَحَدٌ كَيْفَ هُوَ إِلَّا هُوَ- لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ لَا يُحَدُّ وَ لَا يُحَسُّ وَ لَا يُجَسُّ وَ لَا يُمَسُّ وَ لَا تُدْرِكُهُ الْحَوَاسُّ وَ لَا يُحِيطُ بِهِ شَيْ‏ءٌ لَا جِسْمٌ وَ لَا صُورَةٌ وَ لَا تَخْطِيطٌ وَ لَا تَحْدِيدٌ”
علی بن حمزہ نےامام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ میں نے سنا ہے کہ ہشام بن الحکم آپ حضرات سے روایت کرتا ہے کہ اللہ عز و جل جسم ہے صمدی ہے نوری ہے جس کی معرفت ضروری ہے خدا اپنی مخلوق میں سے جس پر چاہتا ہے اس کے ذریعے احسان کرتا ہے تو آپ ؑ نے فرمایا کہ پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات کہ کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کیسا ہے مگر وہ ہے اس کی مثل کوئی شئی نہیں کہے اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے نہ اس کی حد بیان کی جا سکتی ہے اور نہ اس کا احسان کیا جا سکتا ہے نہ اس کو حواس خمسہ کے ذریعے پہچانا جا سکتا ہے اور نہ اس کو چھوا جا سکتا ہے حواس اس کا ادراک نہیں کر سکتے نہ کوئی چیز اس کا احاطہ کر سکتی ہے نہ وہ جسم ہے نہ وہ صورت ہے نہ اس کے لئے نشان خط لگایا جا سکتا ہے ۔
(توحید شیخ صدوق ص95)


اللہ کو شئی مانا جا سکتا ہے ؟؟
23۔ عن علی بن ابراھیم عن محمد بن عیسی عن عبد الرحمن بن ابی نجران قال سالت ابا جعفر ؑ عن التوحید فقلت اتوھم شیئا فقال نعم غیر معقول و لا محدود فما وقع وھمک علیہ من شئء فھو خلافہ لا یشبھہ شیء و لا تدرکہ الاوھام کیف تدرکہ الاوھام وھو خلاف ما یعقل و خلاف ما یتصور فی الاوھام انما یتوھم شیء غہر معقول و لا محدود”
جناب عبد الرحمن بن ابی نجران بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو جعفر محمد باقرعلیہ السلام سے توحید کے بارے میں سوال کرتے ہوے عرض کیا اے فرزند رسول کیا اللہ کو شیء گمان کیا جا سکتا ہے ؟ آپ ؑ نے فرمایا ہاں لیکن ایسی چیز جو عقل میں نہیں آتی اور اس کو محدود نہیں کیا جا سکتا پس جس پر تیرا وہم آے گا وہ اس ذات کے خلاف ہے کوئی چیز اس کا مشابہ نہیں ہے اور اوہام اذہان اس کو روک نہیں کر سکتے بھلا اوہام اس کو درک کیسے کر سکتے ہیں اوہام جس کو بھی درک کرتے ہیں وہ اس کے غیر ہے اور جس کا توھم کریں گے وہ اس کے غیر ہے پس اس کے بدلے فقط یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ شیء ہے جو نا معقول ہو سکتی ہے اور نا محدود ہے ۔”
(الشافی فی اصول الکافی ج 1 ص205)


24۔ حدثنا الحسين بن أحمد بن إدريس رضي الله عنه عن أبيه قال: حدثنا محمد بن بندار عن محمد بن علي الكوفي عن محمد بن علي الخراساني خادم الرضا عليه السلام قال: قال بعض الزنادقة لأبي الحسن عليه السلام هل يقال لله: انه شئ؟ فقال: نعم وقد سمى نفسه بذلك في كتابه فقال: (قل أي شئ أكبر شهادة قل الله شهيد بيني وبينكم) فهو شئ ليس كمثله شئ”
محمد بن علی خراسانی خادم امام علی رضا علیہ السلام بیان کرتے ہیں کہ ایک زندیق نے حضرتؑ سے پوچھا کیا خدا کے لئے لفظ شئی کا اطلاق درست ہے آپؑ نے فرمایا جی ہاں اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں بھی اپنے آپ کو لفظ شئ سے تعبیر کیا ہے چنانچہ اس کا ارشاد گرامی ہے اگر آپ سے سوال کریں کہ گواہی کے اعتبار سے کون سی چیز سب سے بڑی ہے آپ ؐ کہہ دیں اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے لہذا اللہ شئی ے لیکن کوئی شئی اس کے مشابہ نہیں ہے ۔
(عیون اخبار الرضا ج1 ص229)


اللہ ہر شئی کا خالق ہے۔
25۔ عن زرارۃ بن اعین قال سمعت ابا عبد اللہؑ علیہ السلام یقول ان اللہ خلو من خلقہ و خلقہ خلو منہ و کل ما وقع علیہ اسم شئ ما خلا اللہ فھو مخلوق و اللہ خالق کل شئ تبارک الذی لیس کمثلہ شئ وھو السمیع البصیر "
جناب زرارہ بن اعین بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو عبد اللہ علیہ السلام سے سنا آپ نے فرمایا اللہ اپنی مخلوق سے اوصاف میں جدا ہے اور مخلوق اللہ والے اوصاف نہیں رکھتی ہر وہ جس پر شئی کا نام بولا جاتا ہے وہ مخلوق ہے سواے اللہ کے اللہ ہر شئی کا خالق ہے وہ شئی ے کہ جس کی مثل کوئی شئی نہیں ہے وہ سننے والا دیکھنے والا ہے ۔”
(الشافی فی اصول کافی ج 1 ص 206)


26۔ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى خِلْوٌ مِنْ خَلْقِهِ وَ خَلْقُهُ خِلْوٌ مِنْهُ وَ كُلُّ مَا وَقَعَ عَلَيْهِ اسْمُ شَيْ‏ءٍ مَا خَلَا اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ فَهُوَ مَخْلُوقٌ وَ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْ‏ءٍ تَبَارَكَ الَّذِي لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ”
زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی اپنی مخلوق سے جدا ہے اور اس کی مخلوق اس سے جدا ہے اور جس پر بھی شئی کا اسم واقع ہو گا سوائے اللہ تعالی کے تو وہ مخلوق ہو گی اور اللہ ہر شئی کا خالق ہے بابرکت ہے وہ ذات کہ جس کی مثل کوئی شئی نہیں۔ ”
(توحید شیخ صدوق ص102)


27۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نَجْرَانَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ الثَّانِيَ ع عَنِ التَّوْحِيدِ فَقُلْتُ أَتَوَهَّمُ شَيْئاً فَقَالَ نَعَمْ غَيْرَ مَعْقُولٍ وَ لَا مَحْدُودٍ فَمَا وَقَعَ وَهْمُكَ عَلَيْهِ مِنْ شَيْ‏ءٍ فَهُوَ خِلَافُهُ لَا يُشْبِهُهُ شَيْ‏ءٌ وَ لَا تُدْرِكُهُ الْأَوْهَامُ كَيْفَ تُدْرِكُهُ الْأَوْهَامُ وَ هُوَ خِلَافُ مَا يُعْقَلُ وَ خِلَافُ مَا يُتَصَوَّرُ فِي الْأَوْهَامِ إِنَّ مَا يُتَوَهَّمُ شَيْ‏ءٌ غَيْرُ مَعْقُولٍ وَ لَا مَحْدُودٍ "
عبد الرحمن بن ابی نجران کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد تقی علیہ السلام سے توحید کے بارے میں پوچھا کہ کیا اللہ پر شئی کا گمان کیا جا سکتا ہے تو آپ ؑ نے فرمایا ہاں اس کی ذات عقل میں آنے والی شی ںہیں اور نہ محدود ہے پس جبکہ اس پر تمہارا شئی ہونے کا وہم واقع ہو تو وہ اس کے خلاف ہو گا کوئی شئی اس کے مشابہ نہیں ہے اور نہ قوت واہمہ اس کا ادراک کر سکتی ہے اوہام و خیالات کس طرح اس کا ادراک کر سکتے ہیں اور وہ عقل و تصور کے خلاف ہے سواے اس کے نہیں کہ شئی غیر معقول اور لا محدود کا وہم کیا جاتا ہے ۔
(توحید شیخ صدوق، ص103)


28۔ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ سُئِلَ أَبُو جَعْفَرٍ الثَّانِي ع يَجُوزُ أَنْ يُقَالَ لِلَّهِ إِنَّهُ شَيْ‏ءٌ فَقَالَ نَعَمْ يُخْرِجُهُ مِنَ الْحَدَّيْنِ حَدِّ التَّعْطِيلِ وَ حَدِّ التَّشْبِيهِ”
حسین بن سعید کہتے ہیں کہ امام محمد تقی علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ اللہ کے لیے شئی کہنا جائز ہے تو آپ ع نے فرمایا ہاں وہ اس کو حد تعطیل اور حد تشبیہ کی دونوں حدوں سے نکال دیتا ہے ۔
(توحید شیخ صدوق، ص104)


29۔ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا قَالَ مَرَّ أَبُو الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام بِقَبْرٍ مِنْ قُبُورِ أَهْلِ بَيْتِهِ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِلَهِي بَدَتْ قُدْرَتُكَ وَ لَمْ تَبْدُ هَيْئَةٌ فَجَهِلُوكَ وَ قَدَّرُوكَ وَ التَّقْدِيرُ عَلَى غَيْرِ مَا بِهِ وَصَفُوكَ وَ إِنِّي بَرِي‏ءٌ يَا إِلَهِي مِنَ الَّذِينَ بِالتَّشْبِيهِ طَلَبُوكَ لَيْسَ كَمِثْلِكَ شَيْ‏ءٌ إِلَهِي وَ لَنْ يُدْرِكُوكَ وَ ظَاهِرُ مَا بِهِمْ مِنْ نِعْمَتِكَ دَلِيلُهُمْ عَلَيْكَ لَوْ عَرَفُوكَ وَ فِي خَلْقِكَ يَا إِلَهِي مَنْدُوحَةٌ أَنْ يَتَنَاوَلُوكَ بَلْ سَوَّوْكَ بِخَلْقِكَ فَمِنْ ثَمَّ لَمْ يَعْرِفُوكَ وَ اتَّخَذُوا بَعْضَ آيَاتِكَ رَبّاً فَبِذَلِكَ وَصَفُوكَ تَعَالَيْتَ رَبِّي عَمَّا بِهِ الْمُشَبِّهُونَ نَعَتُوكَ”
بعض اصحاب سے روایت ہے کہ حضرت ابوالحسن امام علی رضا علیہ السلام کا گزر اپنے خاندان کی ایک قبر کی طرف سے ہوا آپ ؑ نے اس پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اے میرے معبود تیری قدرت تو اشیاء میں ظاہر ہو گئی لیکن اس کی کیفیت ظاہر نہیں ہوئی لہذا لوگ تجھ سے نا واقف رہے اور تجھ کو قادر مانا اس کے بر خلاف جو انہوں نے تیرا وصف بیان کیا اے میرے معبعود میں ان لوگوں سے اظہار برات کرتا ہو ں جنہوں نے تجھ کو تشبیہ کے ذریعے طلب کیا ہے کوئی شئی تجھ جیسی نہیں ہے میرے معبود وہ تیرا ادراک ہرگز نہیں کر سکتے اگر وہ تجھ کو پہچاننا چاہتے تو تیری ظاہری نعمتوں سے رہنمائی حاصل کرتے اور اے میرے معبود تیری مخلوق میں وہ آزادی ہے کہ تجھ تک پہنچ سکیں بلکہ انہون نے تجھ کو تیری مخلوق کے مساوی قرار دیا پھر بھی وہ تجھ کو نہ پہچان سکے اور انہوں نے تیری بعض نشانیوں کو رب بنا لیا پھر اسی سے تیرا وصف بیان کیا میرا رب بلند ہے اس سے جو تشبیہ دینے والے لوگ تیری تعریف کرتے ہیں ۔
(توحید شیخ صدوق ، ص105)


30۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیہ السلام قَالَ قِيلَ لِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع هَلْ يَقْدِرُ رَبُّكَ أَنْ يُدْخِلَ الدُّنْيَا فِي بَيْضَةٍ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُصَغِّرَ الدُّنْيَا أَوْ يُكَبِّرَ الْبَيْضَةَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَا يُنْسَبُ إِلَى الْعَجْزِ وَ الَّذِي سَأَلْتَنِي لَا يَكُونُ”
عمر بن اذینہ امام جعفر صادق علیہ السلام ے روایت کرتے ہیں کہ آپ ع نے فرمایا کہ امیر المومنین ؑ سے کہا گیا کہ کیا آپ ؑ کا پروردگا ر اس پر قادر ہے کہ دنیا کو انڈے میں داخل کر دے بغیر اس کے کہ دنیا کو چھوٹا کرے اور انڈے کو بڑا کرے تو آپؑ نے فرمایا کہ اللہ کو نا چاری و بے مقدوری سے نسبت نہیں دی جا سکتی اور جو تم نے مجھ سے دریافت کیا ہے نہیں ہو سکتا ۔
(توحید شیخ صدوق ص107)


اللہ کو اللہ ہونے سے پہچانو
31۔ عن الفضل بن السکن عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال ” قال امیر المومنین علیہ السلام :اعرفو اللہ باللہ و الرسول بالرسالۃ و اولی الامر بالامر بالمعروف العدل و الاحسان و معنی قولہ ؑ اعرفو اللہ باللہ یعنی ان اللہ خلق الاشخاص و الانوار والجواھر والاعیان فالاعیان الابدان والجواھر الارواح وھو جل وعز لایشبہ جسما و لا روحا و لیس لاحد فی خلق الروح الحساس الدراک امر و لا سبب ھو النتفرد بخلق الارواح او الاجسام فاذا نفی عنہ الشبھین شبہ الابدان ع شبہ الارواح فقد عرف اللہ باللہ و اذا شبھہ بالروح اوالبدن او النور فلم یعرف اللہ باللہ "
حضرت ابو عبد اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا اللہ کو اللہ ہونے کے ساتھ پہچانو اور رسول کو رسالت سے پہچانو اور اولی الامر کو امر بالمعروف اور عدل و احسان کے ذریعے پہچانو آپؑ نے جو فرمایا ہے کہ اللہ کو اللہ ہونے سے پہچانو اس سے مراد ہے کہ اللہ تعالی نے اشخاص کو پیدا کیا ہے اور انوار و جواہر کو اور اعیان کو پیدا کیا ہے اعیان سے مراد ابدان ہیں اور جواہر سے مراد ارواح ہیں وہ اس سے بلند و بالا عز و جل ہے کہ اس کو جسم اور روح سے تشبیہ دی جاے اور کسی ایک کے لئے جو حساس بہت زیادہ درک کرنے والا اس کی خلقت میں امر و سبب ہے وہ ذات ارواح اور اجسام کو خلق کرنے میں منفرد و واحد ہے تو جب اس ذات سے شبہیں کی نفی کر دی گئی ہے تو پھر وہ نا کہ ابدان کے مشابہ ہے اور نہ ارواح کے تو پھر معلوم ہو جاے گا وہ اللہ اپنے اللہ ہونے کی وجہ سے اور جب اس رو ح یا بدن کے یا نور کے ساتھ شباہت دی جائے گی توپھر اللہ کی معرفت اللہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہے ۔
(الشافی اصول الکافی ج1 ص214)


32۔ قال الامام الحسین علیہ السلام فی الدعاء "الھی ترددی فی الاثار یوفب بعد المزار فاجمعنی علیک بخدمۃ توصلنی الیک کیف یستدل علیک بما ھو فی وجودہ مفتقر الیک ایکون لغیرک من الظہور ما لیس لک حتی یکون ھو المظھر لک متی غبت حتی تحتاج الی دلیل یدل علیک "
امام حسین علیہ السلام اپنی دعا میں فرماتے ہیں : ” بار الہا تیرے آثار میں میری جستجو زیارت سے مجھے دور لے جانے کا سبب بنتی ہے مجھے اپنے وصال کے طلب کے صلے میں مجھے اپنے ساتھ ملا لے جو چیز اپنے وجود کے لئے تیری محتاج ہے اس کے ذریعہ تیری ذات پر کیونکر استدلال کیا جا سکتا ہے تیرے علاوہ کسی چیز میں وہ ظہور پایا جاتا ہے جو تجھ میں نہیں پایا جاتا اور وہ تیری ذات کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے تو غائب ہی کب ہے کہ تجھے اپنے ظہور کے لیے کسی دلیل و استدلال کی ضرورت ہو۔”
(بحار الانوار ج98 ص 225)


اللہ کو مخلوق سے نہیں پہچانا جاتا
33۔ عن منصور بن حازم قال قلت لابی عبد اللہ علیہ السلام انی ناظرت قوما فقلت لھم ان اللہ جل جلالہ اجل و اعز و اکرم من ان یعرف بخلقہ بل العباد یعرفون باللہ فقال رحمک اللہ”
"منصور بن حازم بیان کرتا ہے کہ میں نے حضرت ابو عبد اللہ علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا اے مولا میں نے ایک قوم کے ساتھ مناظرہ کرتے ہوے ان سے کہا اللہ جل جلالہ اس سے بزرگ و برتر ہے اس سے زیادہ اس کا اکرام ہے کہ وہ مخلوق سے پہچانا جاے بلکہ بندے اس کے ذریعے پہچانے جاتےہیں آپؑ نے فرمایا خدا تیرے اوپر رحم فرمائے۔”
(الشافی اصول الکافی ،ج 1 ص215)


اللہ کی کم ترین معرفت
34۔ عن الفتح بن یزید عن ابی الحسن ؑ قال سالتہ عن ادنی المعرفۃ فقال الاقرار بانہ لا الہ غیرہ ولا شبہ لہ و لا نظیر و انہ قدیم مثبت موجود غیر مقید و انہ لیس کمثلہ شئ ”
فتح بن یزید بیان کرتا ہے کہ میں نے حضرت ابو الحسن امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا اے فرزند رسولؐ اس کی کم ترین معرفت کیا ہے آپؑ نے فرمایا یہ اقرار کرنا کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اس کے کوئی مشابہ نہیں اس کی کوئی نظیر و مثل نہیں وہ قدیم ہے وہ ثابت ہے اور ایسا موجود ہے جو کبھی گم نہ ہونے والا ہے وہ ایسا ہے کہ اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔”
(الشافی اصول کافی ج1 ص 216)


35۔ عن عبد العزيز بن المهتدى قال: سألت الرضا عليه السلام عن التوحيد فقال: كل من قرأ قل هو الله أحد وآمن بها فقد عرف التوحيد قلت:
كيف يقرأها؟ قال: كما يقرأها الناس وزاد فيه كذلك الله ربى كذلك الله ربى كذلك الله ربى ثلاثا.”
زیاد بن عبد العزیز بن مہتدی کہتے ہیں میں نے امام علی رضا علیہ السلام سے توحید کے متعلق پوچھا آپؑ نے فرمایا جس نے سورۃ اخلاص کو پڑھا اور اس پر ایمان لایا تو اس نے توحید کی پہچان حاصل کر لی پھر آپ نے سورۃ الاخلاص کے خاتمہ پر تین بار کذالک اللہ ربی کا جملہ ارشاد فرمایا۔”
(عیون اخبار الرضا ج 1 ص229)


اللہ معبود ہے ۔
36۔ عن عبد الرحمن بن ابی نجران قال کتبت الی ابی جعفر او قلت لہ جعلنی اللہ فداک نعبد الرحمن الرحیم الواحد الاحد الصمد قال فقال ان من عبد الاسم دون المسمی بالاسماء اشرک و کفر و جحد ولم یعبد شیئا بل اعبد اللہ الواحد الاحد الصمد المسمی بھذہ الاسماء دون الاسماء ان الاسماء صفات وصف بھا نفسہ "
جناب عبد الرحمن بن ابی نجران بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں خط تحریر کی اور عرض کیا خدا مجھے آپ پر قربان کر دے کیا ہم رحمن و رحیم واحد و احد صمد کی عبادت کرتے ہیں ؟ آپؑ نے فرمایا جس نے معنی و ذات کے بغیر اسم و اسماء کی عبادت کی وہ مشرک منکر و کافر ہے گویا اس نے کسی کی عبادت نہیں کی بلکہ ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں جو واحد و احد و صمد ہے اور ان اسماء کا مسمی ہے اسماء کی عبادت ہم نہیں کرتے کیونکہ یہ سارے اسماء اس کے وہ اوصاف ہیں جو اس نے اپنے لیے خود بیان کیا ہے ۔”
(الشافی اصول کافی ج 1 ص220)


خدا کب سے ہے ؟
37۔ عن احمد بن محمد بن ابی مضر قال جاء رجل الی ابی الحسن الرضاؑ من وراء مھر بلخ فقال انی اسالک عن مسالۃ فان اجبتنی فیھا بما عندی قلت بامامتک فقال ابو الحسن ؑ سل عما شئت فقال اخبرنی عن ربک متی کان و کیف کان وعلی ای شئ کان اعتمادہ فقال ابو الحسنؑ ان اللہ تبارک و تعالی این الاین و کیف الکیف بلا کیف و کان اعتمادہ علی قدرتہ فقام الیہ الرجل فقبل راسہ و قال اشھد ان لا الہ الا اللہ و ان محمدا رسول اللہ و ان علیا وصی رسول اللہ والقیم بعدہ بما قام بہ رسول اللہ و انکم الائمۃ الصادقون و انک الخلف من بعدھم "
جناب محمد بن نصر بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام ابو الحسن الرضا علیہ السلام کی اقدس میں نہر بلغ کے دوسری طرف سے ایک شخص آیا اور عرض کی کہ میں آپ سے ایک مسئلہ کے بارے میں سوال کرنے آیا ہوں اگر آپ نے اس کا وہی جواب دیا جو میرے پاس لکھا ہوا ہے تو میں آپ کی امامت کا قائل ہو جاؤں گا ابو الحسن نے فرمایا جو تو چاہتا ہے وہ سوال کر مرد آپ اپنے رب کے بارے میں بیان کریں کہ وہ کیسا ہے اور اس کا اعتماد کس چیز پر ہے ابوالحسن الرضاؑ نے فرمایا اللہ تبارک و تعالی وہ ذات ہے جس نے مکان کو مکان بنایا بغیر اس کے کہ وہ مکان کا محتاج ہو اور اس نے کیفیت کو کیفیت بنایا بغیر اس کے کہ اس کو کوئی کیفیت طاری ہو اس کا اعتماد اس کی قدرت پر ہے پس وہ شخص کھڑا ہوا اور اس نے آپ کے سر اقدس کا بوسہ لیا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے علاوہ کائی معبود نہیں ہے محمد اللہ کے رسول ہیں اور علیؑ رسول کے وصی برحق ہیں انہوں نے اپنی زندگی میں اس پر قیام کیا جس کے ساتھ رسول خدا نے قیام کیا تھا آپ ان کے بعد جو سچے آئمہ ہیں ان میں سے آپ ہیں جو ان کے خلیفہ ہیں ۔
(الشافی اصول الکافی ج1 ص222)


خدا کی کیفیت کے بارے میں گفتگو کرنا منع ہے ۔
38۔ عن ابی بصیر قال قال ابو جعفرؑ تکلموا فی خلق اللہ و لا تتکلموا فی اللہ فان الکلام فی اللہ لا یزداد صاحبہ الا تحیرا "
جناب ابو بصیر فرماتے ہین کہ حضرت ابو جعفر محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا مخلوق خدا کے بارے میں گفتگو و بحث کرو لیکن خدا کے بارے میں گفتگو نہ کرو کیوں کہ اللہ کے بارے میں گفتگو کرنے سے پریشانی کے علاوہ کوئی اضافہ نہیں ہو گا ۔”
(الشافی اصول کافی ج1 ص 233)


39۔ ” قال الامام الصادق علیہ السلام ” ایاکم ولاتفکر فی اللہ فان التفکر فی اللہ لا یزید لک تیھا ان اللہ عز و جل لا تدرکہ الابصار و لا یوصف بمقدار "
امام جعفر صادق علیہ السلام اللہ کے بارے میں سوچ بچار سے پرہیز کرو کیونکہ اس بارے میں غور و فکر کرنے سے سر گردانی بڑھتی جائے گی اللہ کو نہ تو آنکھیں دیکھ سکتی ہیں اور نہ ہی اس کی حدود کو بیان کیا جا سکتا ہے۔
(امالی الصدوق، ص 340 ح 3)


40۔ عن الحسین بن المیاح عن ابیہ قال و سمعت ابا عبد اللہ ؑ یقول من نظر فی اللہ کیف ھو ھلک”
حضرت ابو عبد اللہ ؑ فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے کہ وہ کیسا ہے، وہ ہلاک ہو جاتا ہے ۔
(الشافی اصول کافی ج 1 ص235)


خدا کو دیکھنا نا ممکن ہے
41۔ ” محمد بن ابی عبداللہ عن علی بن ابی القاسم عن یعقوب بن اسحاق قال کتبت الی ابی محمد ؑ اسالہ کیف یعبد العبد ربہ وھو لا یراہ فوقع ؑ یا ابا یوسف جل سیدی و مولای و المنعم علی و علی آبائی وان یری قال و سآلتہ ھل رآی رسول اللہ ؐ ربہ فوقع ؑ ان اللہ تبارک و تعالی اری رسولہ بقلبہ من نور عظمتہ ما احب ‘”
جناب یعقوب بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام ابو محمد حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں خط تحریر کیا اور عرض کی بندہ اس رب کی کیسے عبادت کرتا ہے جس کو دیکھتا نہین آپ ؑ نے جواب دیا میں نے تحریر فرمایا اے ابو یوسف میرا سردار و مولا و رب اور میرے آباء و اجداد پر نعمتیں نازل کرنے والا اس سے بزرگ و برتر ہے کہ اس کو دیکھا جا سکے ابو یوسف میں نے سوال کیا کہ کیا رسول خدا ﷺنے دل سے خدا کو دیکھا تھا آپ نے جواب میں تحریر فرمایا اللہ تبارک و تعالی اپنی عظمت کے نور میں جتنا چاہا وہ رسول خدا کے دل کو دکھا دیا تھا (یعنی ظاہری آنکھوں سے اس کو نہیں دیکھا جا سکتا ہے )۔”
(الشافی اصول کافی ج1 ص239)


42۔ علی بن ابراھیم عن ابیہ عن علی بن معبد عن عبد اللہ بن سنان عن ابیہ قال حضرت ابا جعفر ؑ فدخل علیہ رجل من الخوارج فقال لہ یا ابا جعفر ای شئ تعبد قال اللہ تعالی قال رائتہ قال بل لم ترہ العیون بمشاھدہ الابصار و لکن راتہ القلوب بحقائق الایمان لا یعرف بالقیاس و لا یدرک بالحواس و لا یشبہ بالناس موصوف بالآیات معروف بالعلامات لا یجور فی حکمہ ذلک اللہ لا الہ الا ھو قال فخرج الرجل وھو یقول اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ "
جناب عبد اللہ بن سنان نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ خوارج میں سے ایک خارجی حضرت امام باقر علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضرہوا اور عرض کی اے ابو جعفر کس چیز کی عبادت کرتے ہو امام ؑ نے فرمایا اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہو ں خارجی کیا اس کو دیکھا ہے امامؑ میں نے اس کو ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھا بلکہ میں نے اس کو دل کی آنکھ سے حقائق ایمان کے ساتھ دیکھا ہے اس کی قیاس سے معرفت حاصل نہیں ہوتی اور اس کو حواس ظاہری درک نہیں کر سکتے اس کو لوگوں سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی وہ آیات جو اس کی صفت بیان کرتیں ہیں وہ علامات سے معروف ہے اور وہ اپنے حکم سے ظلم نہیں کرتا وہ اللہ ہے کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ شخص یہ کہتے ہوے چلا گیا کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے ۔
(الشافی اصول کافی ج1 ص245)


43۔ قال عبد العظيم بن عبد الله بن علي بن الحسن زيد بن الحسن بن علي بن أبي طالب عليهم السلام عن إبراهيم بن أبي محمود قال: قال علي بن موسى الرضا عليهم السلام في قول الله تعالى: (وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة) قال: يعنى مشرقه ينتظر ثواب ربها.”
سید عبد العظیم حسنی نے ابراھیم بن ابی محمود سے روایت کی اس نے کہا امام علی رضا ؑ علیہ السلام نے قرآن مجید کی اس آیت کہ اس دن چہرے ترو تازہ ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے کی تفسیر کرتے ہوے فرمایا یعنی روشن ہوں گے اور اپنے رب کے ثواب کے منتظر ہوں گے۔
(عیون اخبار الرضا ج 1 ص 193)


اللہ کی صفات عین ذات ہے
44۔ ” محمد بن یحیی عن محمد بن الحسین عن ابن ابی عمیر عن ھشام بن سالم عن محمد بن مسلم عن ابی جعفر ؑ قال سمعتہ یقول کان اللہ عز و جل و لا شئ غیرہ و لم یزل عالما بما یکون فعلمہ بہ قبل کونہ کعلمہ بہ بعد کوکونہ ”
جناب محمد بن مسلم بیان فرما رہے ہیں کہ میں نے حضرت ابو جعفر محمد باقر علیہ السلام نے سنا ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا اللہ تھا اور کوئی چیز نہ تھی اور جو کچھ ہونے والا تھا وہ سب کا عالم تھا پس اس کا علم ہر چیز کے ہونے سے قبل ایسے ہی ہے جیسے اشیاء کے ہونے کے بعد اس میں کوئی فرق نہیں ۔
(الشافی اصول کافی جلد 1 ص 269)


45۔ عن الحسين بن خالد قال: سمعت الرضا عليه السلام يقول لم يزل الله تعالى عالما قادرا حيا قديما سميعا بصيرا فقلت له: يا ابن رسول الله ان قوما يقولون: لم يزل الله عالما بعلم وقادرا بقدره وحيا بحياه وقديما بقدم وسميعا بسمع وبصيرا ببصر فقال عليه السلام: من قال ذلك ودان به فقد اتخذ مع الله آلهة أخرى وليس من ولايتنا على شئ ثم قال عليه السلام: لم يزل الله عز وجل عليما قادرا حيا قديما سميعا بصيرا لذاته تعالى عما يقولون المشركون والمشبهون علوا كبيرا.”
حسین بن خالد کا بیان ہے میں نے امام علی رض علیہ السلام کو یہ کہتے ہوے سنا اللہ ازل سے ہی علیم قادر حی قدیم سمیع اور بصیر ہے میں نے عرض کیا کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی علم کی وجہ سے عالم اور قدرت کی وجہ سے قادر اور حیات کی وجہ سے حی اور قدم کی وجہ سے قدیم اور قوت سماعت کی وجہ سے سمیع اور قوت بصارت کی وجہ سے بصیر رہا ہے یہ سن کر امام ع نے فرمایا جو شخص اس نظریہ کا قائل ہو اور اس بات کا اعتقاد رکھتا ہو تو اس نے اللہ کے ساتھ کئی معبود اور بنا ڈالے اور اس کا ہماری ولایت سے کوئی واسطہ نہیں ہے پھر آپؑ نے ارشاد فرمایا اللہ ازل سے ہی علیم قادر حی قدیم سمیع اور بصیر لذاتہ رہا ہے اور جو کچھ مشرکین اور تشبیہ دینے والے کہتے ہیں اللہ اس سے کہیں بلند و برتر ہے ۔
(عیون اخبار الرضا ج 1 ص 201)


46۔ عن ابی بصیر قال سمعت ابا عبد اللہ ؑ یقول لم یزل اللہ عز و جل ربنا و العلم ذاتہ و لا معلوم و السمع ذاتہ و لا مسمع و البصر ذاتہ و لا مبصر و القدرۃ ذاتہ و لا مقدور فلما احدث الاشیاء و کان المعلوم وقع العلم منہ علی المعلوم والسمع علی المسموع و البصر علی المبصر و القدرۃ علی المقدور قال قلت فلم یزل اللہ متحرکا قال فقال تعالی اللہ عن ذالک ان الحرکۃ صفۃ محدثۃ بالفعل قال قلت فلم یزل اللہ متکلما قال فقال ان الکلام صفۃ محدثۃ لیست بازلیۃ کان اللہ عز و جل ولا متکلم "
جناب ابو بصیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو عبد اللہ علیہ السلام نے سنا آپ نے فرمایا اللہ ہمیشہ ہمارا رب ہے علم اس کی عین ذات ہے نہ کہ معلوم اور سمع اس کی عین ذات ہے نہ کہ مسموع بصر اس کی عین ذات ہے نہ کہ مبصر قدرت اس کی عین ذات ہے نہ کہ مقدور کیونکہ جب اشیاء خلق ہوئیں تو معلوم بنی او اس کا علم ان پر واقع ہوا تو پھر وہ معلوم بنی اور پھر اس کی سمع اس پر واقع ہوئی تو وہ مسموع بنیں پھر بصر واقع ہوئی تو وہ مبصر قرار پائیں اور قدرت ان پر واقع ہو کہ وہ مقدور واقع ہوئیں راوی بیان کرتا ہے کہ میں نے عرض کیا کہ خدا ہمیشہ سے متحرک نہیں ہے آپ ؑ نے فرمایا وہ اس سے بلند و بالا ہے کیونکہ حرکت صفت ہے جو فعل سے وجود میں اری ہہے لذا یہ صفت قدیمی نہیں حادثہ ہے میں نے عرض کیا وہ ہمیشی سے متکلم نہیں سے فرمایا کلام بھی صفت ہے جو محدث ہے ازلی نہیں ہے لذا اللہ تھا لیکن متکلم نہیں تھا ۔
(الشافی ترجمہ اصول کافی ج 1 ص 268)


مخلوق و خالق کے ارادے کا فرق
47۔ عن صفوان بن يحيى قال: قلت لأبي الحسن عليه السلام: اخبرني عن الإرادة من الله تعالى ومن الخلق فقال الإرادة من المخلوق الضمير وما يبدو له بعد ذلك من الفعل وأما من الله عز وجل: فأرادته احداثه لا غير ذلك لأنه لا يروى ولا يهم ولا يتفكر وهذه الصفات منفية عنه وهي من صفات الخلق فأراده الله تعالى هي الفعل لا غير ذلك يقول له: كن فيكون بلا لفظ ولا نطق بلسان ولا همه ولا تفكر وكيف كذلك كما أنه بلا كيف”
صفوان بن یحیی نے امام علی رضا علیہ السلام ے پوچھا خالق اور مخلوق کے ارادے کا کیا فرق ہے آپؑ نے فرمایا مخلوق کا ارادہ کسی امر کے سر انجام دینے کے متعلق خیال کرنا ہوتا ہے اور اسی ارادہ کے ثمر کے طور پر فعل واقع ہوتا ہے جب کہ اللہ کا ارادہ کسی کام کو سر انجام دینا ہوتا ہے کیونکہ اللہ کسی طرح کے سوچ و بچار کا محتاج نہیں ہے اور یہ صفات اس سے منفی ہے اللہ کے ارادہ سے مراد فعل ہی ہوتا ہے اور کچھ نہیں ہوتا اللہ کن کہتا ہے تو وہ چیز معرض وجود میں آجاتی ہے اور واضح رہے کہ کن کا اطلاق بھی لفظ اور زبان اور سوچ و بچار اور کیفیت کا محتاج ہوتا ہے اور جیسا کہ اللہ کسی کیفیت کا پابند نہیں ہے اسی طرح لفظ کن بھی کسی کیفیت کا پابند نہیں ہے ۔
(عیون اخبار الرضا ج 1 ص202)


کفر و شرک کا معیار
48۔ "حدثنا محمد بن موسى بن المتوكل رضي الله عنه قال: حدثنا علي بن إبراهيم بن هاشم عن أبيه عن الصقر بن دلف عن ياسر الخادم قال: سمعت أبا الحسن علي بن موسى الرضا عليهما السلام يقول: من شبه الله تعالى بخلقه فهو مشرك ومن نسب إليه ما نهى عنه فهو كافر.”
یاسر خادم سے روایت کرتے ہے کہ میں نے امام علی رضا علیہ السلام کو یہ کہتے ہوے سنا آپؑ نے فرمایا جس نے اللہ کی شبیہ اس کی مخلوق سے دی وہ مشرک ہے اور جس نے اللہ کی طرف اس چیز کی نسبت دی جس سے اس نے منع کیا وہ کافر ہے ۔
(عیون اخبار الرضا ج 1 ص193)


خدا پر چیز کا جاننے والا ہے
49۔ "حدثنا الحسين بن بشار عن أبي الحسن علي بن موسى الرضا عليه السلام قال: سألته أيعلم الله الشئ الذي لم يكن لو كان كيف كان يكون؟ قال: إن الله تعالى هو العالم بالأشياء قبل كون الأشياء قال عز وجل: (انا كنا نستنسخ ما كنتم تعملون) وقال لأهل النار: (ولو ردوا لعادوا لما نهوا عنه وانهم لكاذبون فقد علم عز وجل انه لو ردوهم لعادوا لما نهوا عنه وقال للملائكة لما قالت: (أتجعلفيها من يفسد فيها ويسفك الدماء ونحن نسبح بحمدك ونقدس لك قال إني اعلم ما لا تعلمون) فلم يزل الله عز وجل علمه سابقا للأشياء قديما قبل ان يخلقها فتبارك الله ربنا وتعالى علوا كبيرا خلق الأشياء وعلمه بها سابق لها كما شاء كذلك ربنا يزل عالما سميعا بصيرا”
.حسین بن بشار نے امام علی رضا علیہ السلام سے سوال کیا کیا اشاء کی تخلیق سے بھی پہلے اللہ کو تمام اشاء کے آغاز و انجام کا علم تھا اس کے جواب میں حضرت نے ارشاد فرمایا اللہ اشیاء کی تخلیق سے بھی پہلے ان کا عالم تھا اللہ تعالی کا فرمان ہے ہم تمہارے اعمال کو برار لکھوا رہے تھے اور اللہ تعالی نے اہل نار کے لئے فرمایا اور اگر یہ پلٹا بھی دئے جائیں تو وہی کریں گے جو سے یہ روکے گئے ہیں سب جھوٹے ہیں اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جانتا ہے کہ اگر انہیں دنیا میں لوٹنے کی اجازت بھی دے دی جائے تو بھی وہ منہیات کے مرتکب ہو گے علاوہ ازین جب فرشتوں کے متعلق اعراض کیا تھا کہ یہ زمین یہ فساد کریں اور خون بہائیں گے اور ہم تیری توبیح و تقدیس کرتے ہیں تو اللہ تعالی نے فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں تم اسے نہیں جاننتے اللہ کا علم اشیاء کی تخلیق سے پہلے ہے ہمارا رب بلندی و عظمت کا مالک ہے اور وہ برکت والا ہے اس نے اشیاء پیدا کیں جب کہ ان کا علم اس کے پاس پہلے سے موجود تھا اور ہمارا رب ازل ہے ہی جاننے والا ہے دیکھنے والا ہے ۔
(عیون اخبار الرضا ج1ص 199)

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button