خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:272)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 18 اکتوبر 2024ء بمطابق 14ربیع الثانی 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: بد رفتاری اور غرور
ہم کچھ عرصے سے حضرت لقمان کی قرآن میں بیان کی گئی حکمتوں اور نصیحتوں پر بات کر رہے ہیں۔ سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان حکیم کی دس حکمتیں اور نصیحتیں بیان کی ہیں ۔ ان میں سےجو حکمتیں ہم گزشتہ خطبوں میں بیان کر چکے ہیں وہ یہ تھیں:
پہلی حکمت میں شرک سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
وَإِذۡ قَالَ لُقۡمَٰنُ لِابۡنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُۥ يَٰبُنَيَّ لَا تُشۡرِكۡ بِاللّٰهِۖ إِنَّ الشِّرۡكَ لَظُلۡمٌ عَظِيم
اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
دوسری حکمت میں اللہ تعالیٰ کے حساب و کتاب سے ڈرایا کہ اس میں ذرہ بھر کمی بیشی نہ ہوگی:
يا بُنَيَّ إِنَّها إِنْ تَكُ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ في صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّماواتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللّٰهُ إِنَّ اللّٰهَ لَطيفٌ خَبيرٌ (سورہ لقمان آیۃ: 16)
اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی (اچھی یا بری) چیز کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو تو اللہ اسے یقینا نکال لائے گا یقینا اللہ بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔
تیسری حکمت میں نماز کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
حضرت لقمان اپنے بیٹے کو تیسری نصیحت کرتے ہوئے فرمارہے ہیں:
يا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلاةَ ؛اے بیٹے نماز کو قائم کرو
چوتھی اور پانچویں حکمت میں فرمایا:
حضرت لقمان کی چوتھی اور پانچویں حکمت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں ہے جیسا کہ وہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَر اے بیٹے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو۔
چھٹی حکمت و نصیحت:
اس چھٹی حکمت میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو اس طرح سے نصیحت کرتے ہیں:
وَ اصْبِرْ عَلى ما أَصابَكَ إِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
اے بیٹا! ۔۔جو مصیبت تجھے پیش آئے اس پر صبرکرو، یہ امور یقینا ہمت طلب ہیں۔
ساتویں حکمت و نصیحت:
اس نصیحت میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو فرمارہے ہیں :
وَ لا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لا تَمْشِ فِي الْأَرْض مَرَحاً إِنَّ اللّٰهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُور
اور لوگوں سے (غرور و تکبرسے) رخ نہ پھیرا کرو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کرو، اللہ کسی اترانے والے خود پسند کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔
آٹھویں و نویں نصیحت: بد رفتاری اور غرور سے پرہیز
وَ لا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً إِنَّ اللّٰهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُور وَ اقْصِدْ في مَشْيِكَ
اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کرو ، اللہ کسی اترانے والے خود پسند کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔
آداب معاشرت اور آداب اسلامی کے اہم ترین موارد میں سے ایک یہ ہے کہ انسان دوسروں کے ساتھ نیک رفتاری سے پیش آئیں اور ہر قسم کی تکبر اور غرور سے پرہیز کریں چونکہ غرور اور خود پسندی برے اعمال کے انجام دینے کا باعث بنتے ہیں جس کا نتیجہ دوستوں کے درمیان اختلاف اور جدائی اور کینہ کا سبب بنتا ہے ۔
خود خواہی اور تکبر سے ظاہر ہونے والی ایک صفت کہ جس کے بارے میں حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اس سے بچنے کی سفارش کی ہے وہ مستی اور مغرورانہ انداز میں چلناہے جو انسان میں موجود بری صفات میں سے ہے اس طریقے سے چلنے والے کو مستی اور غفلت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
یہ ایک قسم کی بزرگ نمائی ہے یعنی اپنے کو بہت بڑا کرکے دکھانا جو انسان کو سرکش بناتا ہے جبکہ حکم یہ ہے کہ چال میں اکڑ کی بجائے نرمی ہونی چاہیے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا ہے : وَ عِبادُ الرَّحْمنِ الَّذينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنا اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی سے دبے پاؤں چلتے ہیں۔
قرآن میں اکڑ کر چلنے سے منع کیا گیا ہے:
وَ لا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبالَ طُولاً
اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو، بلاشبہ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ ہی بلندی کے لحاظ سے پہاڑوں تک پہنچ سکتے ہو۔
خداوند عالم کا اس طرح سے حکم دینا انسان کے غرور کو ختم کردیتا ہے کہ انسان جتنا بھی تکبر کرے نہ ہی وہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی پہاڑوں تک پہنچ سکتا ہے ۔
اسی بناپر خدا وند عالم کی مخلوق کو دیکھتے ہی بندے کو چاہیے کہ خود کو ایک ناچیز جانے اور ہر قسم کے غرور کو اپنے اندر سے نکال دے نہ کہ دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے زمین پر اکڑ اکڑ کر چلے؟ ۔
پیغمبر اسلام اور ائمہ معصومین اپنی زندگی کے تمام امور میں حتی کہ چلتے وقت بھی تواضع کی انتہائی رعایت کیا کرتے تھے جیساکہ پیغمبر اسلام کا قول ہے کہ:
مَنْ مَشَى عَلَى الْأَرْضِ اخْتِيَالًا لَعَنَتْهُ الْأَرْضُ وَ مَنْ تَحْتَهَا وَ مَنْ فَوْقَهَا;
جو شخص زمین پر غرور اور تکبر سے چلتاہے تو جو چیز اس زمین پر ہے اور جو اس زمین کے اندر ہے سب کے سب اس پر لعنت کرتے ہیں۔
ایک دن پیغمبر اسلام کسی گلی سے کزر رہے تھے تو ایک گروہ کودیکھا جو جمع ہوئے تھے پیغمبر اسلام ان کے پاس جاکر پوچھنے لگے کیا ہوا ہے ؟ تو انہوں نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ ایک دیوانہ ہے اپنی حرکتیں اور ہنسا دینے والی باتوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور لوگ اس کےتماشا دیکھنے کے لئے جمع ہوئے ہیں تو پیغمبر اسلام نے ان لوگوں کو کہا یہ شخص کسی بیماری میں مبتلا ہے لیکن کیا میں آپ لوگوں کو بتاؤں کہ حقیقی دیوانہ کون ہے؟
تو انہوں نے کہا ! ہاں بتائیے؟
تو پیغمبر اسلام نے فرمایا:
الْمُتَبَخْتِرُ فِي مِشْيَتِهِ النَّاظِرُ فِي عِطْفَيْهِ الْمُحَرِّكُ جَنْبَيْهِ بِمَنْكِبَيْهِ فَذَاكَ الْمَجْنُون;
اصل دیوانہ وہ ہے جو مغرور ہو کر چلتا ہے اور ہمیشہ اپنے کاندھوں کو ادھر ادھر ہلاتا رہتا ہے اور اپنے کو باربار دیکھتا ہے تو ایسا شخص اصلی اور حقیقی دیوانہ ہے۔
فخر و غرور کے بارے میں دیگر روایات:
امام علیؑ:أهلَكَ الناسَ اثنانِ : خَوفُ الفَقرِ ، وطَلَبُ الفَخرِ .(الخصال : ۶۹ / ۱۰۲)
دوچیزوں نے انسان کو ہلاک کرڈالا: ۱۔غربت کا خوف ۲۔فخر کی طلب۔
ایک اور مقام پہ فرمایا: ضَعْ فَخرَكَ ، واحطُطْ كِبرَكَ ، واذكُرْ قَبرَكَ.(نهج البلاغة : الحكمة ۳۹۸ )
فخر و غرور کو چھوڑ دو۔ تکبر و غرور کو مٹادو اور قبر کو یادرکھو۔
امام علیؑ:مَن صَنَعَ شيئا للمُفاخَرَةِ حَشَرَهُ اللّٰهُ يَومَ القِيامَةِ أسوَدَ .(بحارالانوار : ۷۳ / ۲۹۲ / ۲۰)
جو شخص اترانے اور غرور کی غرض سے کوئی چیز بنائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے سیاہ رنگت میں محشور فرمائےگا۔
امام علیؑ:ما لابنِ آدمَ والفَخرِ؟! أوَّلُهُ نُطفَةٌ ، وآخِرُهُ جِيفَةٌ ، ولا يَرزُقُ نفسَهُ ، ولا يَدفَعُ حَتفَهُ.(نهج البلاغة : الحكمة ۴۵۴)
فرزندِ آدم ع کو فخر و مباہات سے کیا واسطہ جب کہ اس کی ابتداء نطفہ اور انتہا مردار ہے وہ نہ اپنے لیے روزی کا سامان کرسکتا ہے، نہ موت کو اپنے سے ہٹا سکتا ہے۔
حضرت امیرالمؤمنینؑ نے (اپنے صحابی)صعصعہ بن صوحان کی ایک موقع پر عیادت کی اور جب واپس جانے لگے تو فرمایا: يا صَعصَعةُ ، لا تَفتَخِرَنَّ على إخوانِكَ بعِيادَتي إيّاكَ واتَّقِ اللّٰہَ .(مستدرك الوسائل : ۱۲ / ۹۰ / ۱۳۵۹۹)
صعصعہ! یہ جو میں نے تمہاری عیادت کی ہے اس کی وجہ سے اپنے دوسرے بھائیوں پر ہرگز فخر و تکبر نہ کرنا۔ اس بات سے پرہیز کرنا اور اللہ سے ڈرنا۔
جبکہ ہماری قومی حالت تو یہ ہے کہ کوئی دنیوی سردار یا سیاسی ہماری بیٹھک پر آ جائے تو ہم اسے فخر سمجھنے لگ جاتے ہیں۔
امام جعفرصادقؑ فرماتے ہیں:
ثلاثٌ هُنَّ فَخرُ المؤمنِ وزَينُهُ في الدنيا والآخِرَةِ : الصلاةُ في آخِرِ اللّيلِ ، وَيأسُهُ مِمّا في أيدي الناسِ ، ووَلايَتُهُ الإمامَ مِن آلِ محمّدٍ ﷺ.(الكافي : ۸ / ۲۳۴ / ۳۱۱)
تین چیزیں مومنین کے لیے مایۂ افتخار اور دنیا و آخرت کی زینت ہیں: ۱۔رات کے پچھلے حصہ میں نماز۔ ۲۔لوگوں کے ہاتھوں میں موجود (مال و دولت) سے ناامیدی اور ۳۔حضرت محمد مصطفیٰ ص کی آل سے (معصوم) امام کی ولایت (کا اقرار)۔
دسویں حکمت: آواز میں اعتدال
حضرت لقمان کی آخری نصیحت جو اپنے بیٹے کو کی ہے وہ قرآن مجید میں اس طرح سے بیان ہوئی ہے۔
وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَميرِ
اور اپنی آواز نیچی رکھ، یقینا آوازوں میں سب سے بری گدھے کی آواز ہوتی ہے۔
اعتدال کی ایک اور قسم آواز میں اعتدال کی رعایت کرنا ہے اور یہ آداب اسلام میں سے ہے کہ انسان اپنی آواز میں اعتدال پیدا کرے۔
قرآن مجید میں تین جگہوں پر اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ ان میں سے دو ایسے موارد ہیں کہ جن میں پیغمبر اسلام سے بات کرنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے ۔اور ان میں سے ایک مورد ایسا ہے جس میں حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کی ہوئی نصیحتوں میں سے جانا گیا ہے ۔حضرت لقمان کی اس نصیحت میں جیساکہ ابتدا کلام میں بیان ہوا اس طرح سے بیان ہو رہا ہے:
وَ اقْصِدْ فىِ مَشْيِكَ وَ اغْضُضْ مِن صَوْتِكَ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الحْمِير
اور اپنی چال میں اعتدال رکھو اور اپنی آواز نیچی رکھ، یقینا آوازوں میں سب سے بری گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔
اس آیت میں دو اہم مطلب کو بیان کیا ہے:
پہلا : جب آپ کسی سے بات کرتے ہو یا اس کو آواز دیتے ہو تو اپنی آواز کو دھیمی رکھو یعنی اپنی آواز کو اونچی نہ کرو۔
لفظ ( غض ) اصل میں آواز کو دھیمی رکھنے کے معنی میں ہے یعنی بلندی سے نیچے کی طرف آنے کے معنی میں ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اپنی آواز کو بالکل ہی نرم اور ہلکی آواز میں بات کرو اور چیخنے اور پکارنے سے بچو !
اور دوسرا یہ کہ : حضرت لقمان کی اس نصیحت میں اونچی آوازوں کو گدھوں کی آواز کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ اگرچہ اس سے بڑھ کر خوفناک آوازیں ہیں لیکن اسی کے ساتھ تشبیہ دینا اس کی عمومیت کی وجہ ہے جو کہ اس قسم کی مثالیں ہر زمان اور ہر جگہ پر پائے جاتے ہیں جو عمومیت کی بنا پر ہے اور بہت ہی واضح اور روشن ہے۔
اور اس کے علاوہ کہ یہ آواز دوسرے آوازوں سے بہت ہی خوفناک اور بری ہے کبھی بغیر کسی مقصد اور ہدف کے بے اختیار نکلتی ہے جس طرح سے انسان کے منہ سے نکلنے والی وہ آوازیں اور نعرے جو بغیر کسی مقصد کے ہوتے ہیں۔
قرآن مجید میں دو ایسے موارد کو بیان کیا گیا ہے کہ جن میں آواز میں اعتدال اور اس کی رعایت کرنے کے بارے میں ذکر ہوا ہے جیساکہ سورہ حجرات میں ارشاد ہوتاہے۔
يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَرْفَعُواْ أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبىِِّ وَ لَا تجَهَرُواْ لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تحَبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَ أَنتُمْ لَا تَشْعُرُون۔
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔
اور اس کے بعد والی دو آیتوں میں ارشاد ہوتا ہے:
جو لوگ اللہ کے رسول کے سامنے دھیمی آواز میں بات کرتے ہیں بلاشبہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ نے تقویٰ کے لیے آزما لیے ہیں ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے ۔ جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں بلاشبہ ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔
ان آیتوں میں بیان ہورہا ہے کہ پیغمبر اسلام اور ائمہ معصومین کے سامنے بات کرتے وقت آداب کی رعایت کرے اور کبھی بھی ان کے سامنے اپنی آواز کو بلند نہ کرے اور ان سے برے الفاظ میں بات نہ کرے ان کی حرمت کی حفاظت کرے اور نازیبا الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کرے ۔ جیسا کہ امام سجاد علیہ السلام استاد اور شاگرد کے درمیان حقوق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
شاگر د کا اپنے استاد پر حق یہ ہے کہ وہ اپنے استاد کے سامنے بلند آواز میں بات نہ کرے ۔
نتیجہ یہ ہے کہ ان آیات میں آداب اسلامی کی رعایت کرنے اور لوگوں کے سامنے بات کرتے وقت اپنی آواز میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کو بیان کرتے ہیں اور خصوصا پیغمبر اسلام اور ائمہ معصومین کے سامنے ان آداب کی رعایت کرنے کی زیادہ تاکید ہوئی ہے۔
پیغمبر اسلام کا فرمان ہے:
ان اللّٰه یحب الصوت الخفیض، و یبغض الصوت الرفیع;
خداوند عالم نرم اور دھیمی آواز کو پسند کرتا ہے اور اونچی آواز کو پسند نہیں کرتا ہے ۔
امام کسی اور کلام میں فرماتے ہیں اپنی آواز کو بلند نہ کرنا اور اپنی آنکھوں کو جھکائے رکھنا اور بولتے وقت اپنی آواز میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا چونکہ یہ ایمان کی نشانی ہے اور اچھی دینداری شمار ہوتی ہے ۔
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭