خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:282)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 27 دسمبر2024ء بمطابق 24 جمادی الثانی 1446ھ)

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: شیخ بہائی کے والد کی نصیحت
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نیک طینت افراد کے صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
خَيْرُ القُلوبِ اَوعاها لِلخَيْرِ وَ شَرُّ القُلوبِ اَوعاها لِلشَّرِّ، فَاَعلَى القَلبِالَّذى يَعِى الخَيْرَ مَمْلُوٌّ مِنَ الْخَيْرِ اِن نَطَقَ نَطَقَ مَأجورا و اِنْ اَنْصَتَ اَنْصَتَ مَأجورا ۔
اچھا اور بہترین دل وہ ہے جس میں سب سے زیادہ اچھائی پائے جائے اور سب سے زیادہ برا دل وہ ہے جس میں سب سے زیادہ بدی پائے جائے، لہذا سب سے زیادہ بہتر اور اچھا وہ دل ہے جس میں سب سے زیادہ سب کے لئے اچھائی کرنے کی نیت پائی جائے یعنی جس میں اچھائی ہی اچھائی بھری ہوئی ہو ( یعنی کبھی بھی کسی کے حق میں برائی کے بارے میں سوچے ہی نہیں) اور اگر وہ نیک شرشت انسان کوئی بات کرے تو ایسی گفتگو کرے کہ اجر و ثواب کے مستحق ہو اور اگر چپ رہے تو اس کا چپ رہنا بھی اجر و پاداش کے مستحق ہو۔
آیات و روایت میں قلب اور دل سے مراد روح ہے البتہ بعض اوقات صنوبری شکل کی چیز کو بھی دل سے تعبیر کیا گیا ، لیکن زیادہ تر روایات اور آیات جب بھی قلب اور دل کے سلسلہ میں گفتگو کرتی ہیں تو اس سے مراد انسان کی حقیقت ہے کہ جو روح ہے، قیامت میں ایک وہ چیز جس کے بارے میں انسان سے سوال ہوگا وہ قلب انسان ہے جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا : إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولـئِکَ کَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً؛ یقینا سماعت اور بصارت اور دل ان میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے۔ ( سورہ اسراء، آیت ۳۶ )
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے بدن میں تین چیزیں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں، لہذا ہمیں ہر چیز کو اپنے دل اور اپنی روح میں نہیں سمونا چاہئے، اس دل کے بھی دو دریچہ ہیں، ایک انسان کی انکھ اور دوسرے اس کا کان کہ فرمایا: اگر چاہتے ہو کہ تمھارا دل محفوظ رہے تو اپنی نگاہوں کی حفاظت کرو۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے منقول روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: انسان کا دل آنکھوں کی کتاب ہے، یعنی آنکھ دیکھتی ہے اور دل میں اس کا نقش محفوظ ہوجاتا ہے، دل پر اچھائیاں اور برائیاں اثر انداز ہوتی ہیں، انسان کے دل کو حکمت کا مقام حاصل ہے اور اس کے کان مطالب کو دل تک پہنچانے کا وسیلہ ہیں۔
بزرگان میں ایک صاحب نے بہت ہی لطیف تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: انسان کا دل فیکٹری کے فرمے کے مانند ہے کہ اگر اس میں صاف چیزیں ڈالی جائیں تو صاف پروڈیکٹ بنے گا اور اگر گندی سامان ڈالا گیا تو نامطلوب اور گندا ہی سامان بن کر باہر آئے گا۔
اگر آنکھ اور کان کے وسیلہ اچھی ، حکمت آمیز ، حسین اور لطیف چیزیں دل تک پہنچی تو اس کی روح ملکوتی اور الھی ہوگی اور اگر بری چیزیں انسان کے دل تک پہنچے تو انسان کی روح تاریک ہوگی۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے قران کریم کی تلاوت کے سلسلہ میں فرمایا: … وَ یعْمَلُونَ بِأَحْکامِهِ وَ یَرْجَونَ وَعْدَهُ وَ یخْشَوْنَ عَذَابَهُ؛ تلاوت کا حق یہ ہے [انسان] قرآن کے احکام پر عمل کرے اس کے دیئے ہوئے وعدہ پر امید رکھے اور جن آیات میں عذاب الھی کا وعدہ کیا گیا ہے اس سے دل میں خوف لائے۔ (مجموعہ ورّام، ج ۲، ص ۲۳۶)
شیخ بہائی کے والد نے اس روایت کے ذیل میں اپنے فرزند یعنی شیخ بہائی کو وصیت کی کہ پورے قرآن میں سے تین آیات پرضرور عمل کرنا کہ تمھاری سعادت اور کامیابی کے لئے وہی کافی ہیں:
پہلی آیت:
تلْک الدَّارُ الآخرَةُ نجْعَلُها لِلَّذینَ لا یریدُونَ عُلُوًّا فِی الْأَرْضِ وَ لا فَساداً وَ الْعاقِبَةُ لِلْمتَّقینَیہ
دار آخرت وہ ہے جسے ہم ان لوگوں کے لئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں بلندی اور فساد کے طلبگار نہیں ہوتے ہیں اور عاقبت تو صرف صاحبانِ تقویٰ کے لئے ہے۔ (سورة قصص، آیت نمبر ۸۳ )
اس آیت کریمہ میں بہشت میں جانے کے لئے تین شرط رکھی گئی ہے:
۱: برتری سے پرہیز کرتے ہوئے تواضع اختیار کرنا۔
۲: فساد اور فتنہ پروری سے دوری۔
۳: تقوائے الٰہی کی مراعات۔
دوسری آیت:
وَ هُمْ یصْطَرِخُونَ فیها رَبَّنا أَخْرِجْنا نَعْمَلْ صالِحاً غیرَ الَّذی کنا نعْمَلُ أَ وَ لَمْ نُعَمِّرْکمْ ما یتَذَکرُ فیهِ مَنْ تَذَکرَ وَ جاءَکمُ النَّذیرُ فَذُوقُوا فما لِلظالِمینَ مِنْ نَصیرٍ
اور یہ وہاں فریاد کریں گے کہ پروردگار ہمیں نکال لے ہم اب نیک عمل کریں گے اس کے برخلاف جو پہلے کیا کرتے تھے تو کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرسکتے تھے اور تمہارے پاس تو ڈرانے والا بھی آیا تھا لہٰذا اب عذاب کا مزہ چکھو کہ ظالمین کا کوئی مددگار نہیں ہے۔ (سورة فاطر، آیت نمبر ۳۷ )
اس آیت کریمہ بھی تین باتوں کی جانب اشارہ ہے:
۱: اہل جہنم شدت کے ساتھ پشیمان ہوں گے اور ہمیشہ فریاد کریں گے کہ خدایا ہمیں دنیا میں دوبارہ لوٹا دے تاکہ بہتر عمل کرسکیں۔
۲: انہیں جواب دیا جائے گا کہ کیا تمہیں طولانی عمر نہیں دی گئی تھی؟ تم نے اس سے کیوں نہیں استفادہ کیا؟ ہم نے تمھارے لئے پغمبر صلوات اللہ علیہم اور امام علیہم السلام نہیں مبعوث کئے تھے؟ تم لوگوں نے ہمارے احکامات پر کیوں عمل نہیں کیا؟
۳: سخت ترین عذاب جھلیں گے اور کوئی بھی ان کی فریاد کو نہ پہنچے گا۔
تیسری آیت:
یا أَیها الناسُ إِنَّا خَلَقْناکمْ مِنْ ذَکرٍ وَ أُنْثی وَ جَعَلْناکمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَکرَمَکمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقاکمْ إِنَّ اللَّه علیمٌ خَبیرٌ
انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگارہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے۔ (سورة حجرات، آیت نمبر ۱۳)
اس آیت کریمہ میں بھی پانچ نکتے پوشیدہ ہیں:
۱: تمام انسان ایک مرد و زن سے پیدا ہوئے ہیں۔
۲: قوموں اور زبانوں کے اختلاف کی بنیاد، شناخت ہے۔
۳: کسی قوم کو دوسری قوم پر برتری حاصل نہیں ہے۔
۴: انسانوں کی برتری کا معیار تقوائے الھی ہے۔
۵: تقوائے الھی کی بنیاد یہ ہے کہ انسان اِس بات پر یقین و ایمان رکھے کہ خدا ہمارے کردار و ہماری گفتار سے آگاہ ہے اور اسے دیکھ رہا ہے۔ (کشکول شیخ بهائی، ج ۱، ص۲۳۰)

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button