سلائیڈرسیرتسیرت امام محمد باقرؑ

امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی تحریک

سنہ 94ھ سے 114ھ تک کا زمانہ فقہی مسالک کی ظہور پذیری اور تفسیر قرآن کے سلسلے میں نقل حدیث کے عروج کا زمانہ ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس دور میں بنی امیہ کی سلطنت حضیض زوال کی طرف سرکنے لگی تھی اور کافی حد تک کمزور ہوچکی تھی۔ اس زمانے میں اموی عمائدین کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی زوروں پر تھی۔ اہل سنت کے علماء میں سے شہاب زہری، مکحول، ہشام بن عروہ وغیرہ جیسے افراد نقل ِحدیث کا اہتمام کرتے تھے اور فتویٰ دیتے تھے۔ اور بعض دوسرے افراد اپنے عقائد کی ترویج میں مصروف تھے جن میں خوارج، مرجئہ، کیسانیہ اور غالی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے اس دور میں وسیع علمی تحریک کی بنیاد رکھی جو آپ کے فرزند ارجمند امام ابو عبداللہ جعفر بن محمد صادق علیہ السلام کے دور میں عروج کو پہنچی۔ آپ علم، زہد اور فضیلت میں اپنے دور کے اکابرین میں سر فہرست تھے اور علمِ دین، سنت، علومِ قرآن، سیرت اور فنون اخلاق و آداب جیسے موضوعات میں جس قدر حدیثیں اور روایات آپ سے منقول ہیں وہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے کسی بھی دوسرے فرزند سے نقل نہیں ہوئی ہیں۔(1)
شیعہ فقہی احکام اگر چہ اس وقت تک صرف اذان، تقیہ، نماز میت وغیرہ جیسے مسائل کی حد تک واضح ہوچکے تھے لیکن امام محمد باقرعلیہ السلام کے ظہور کے ساتھ اس سلسلے میں نہایت اہم قدم اٹھائے گئے اور ایک قابل تحسین علمی و ثقافتی تحریک شیعیان آل رسولﷺ کے درمیان شروع ہوئی۔ اسی زمانے میں اہل تشیع نے فقہ، تفسیر اور اخلاق پر مشتمل فرہنگ کی تدوین کا کام شروع کیا۔(2)
امام محمد باقر علیہ السلام نے اصحاب قیاس کی دلیلوں کو شدت سے ردّ کردیا (3) اور دیگر منحرف فرقوں کے خلاف بھی سخت موقف اپنایا اور یوں مختلف موضوعات میں اہل بیت علیہم السلام کے صحیح اعتقادی دائرے کو واضح اور الگ کرنے کی (کامیاب) کوشش کی۔ آپ نے خوارج کے بارے میں فرمایا: "خوارج نے اپنی جہالت کے بموجب عرصۂ حیات کو اپنے لئے تنگ کردیا ہے، دین اس سے کہیں زیادہ نرم و ملائم اور لچکدار ہے جو وہ سمجھتے ہیں۔(4)
امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی شہرت، نہ صرف حجاز تک محدود نہ تھی بلکہ حتیٰ کہ عراق اور خراسان تک بھی پہنچ چکی تھی؛ چنانچہ راوی کہتا ہے: میں نے دیکھا کہ خراسان کے باشندوں نے آپ کے گرد حلقہ تشکیل دیا ہے اور اپنے علمی سوالات آپ سے پوچھ رہے ہیں۔ (5)
اگلی سطور میں اختصار کے ساتھ مختلف موضوعات (علم و سائنس کے شعبوں) میں امام علیہ السلام کی علمی میراث کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:
تفسیر القرآن
امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے اوقات کا ایک حصہ تفسیری مباحث کے لئے مختص کر رکھا تھا اور تفسیری حلقہ تشکیل دے کر علماء اور عام لوگوں کے سوالات و اعتراضات کا جواب دیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ نے تفسیر قرآن میں ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی جس کی طرف محمد بن اسحٰق ندیم نے اپنی کتاب "الفہرست” میں بھی اشارہ کیا ہے۔(6)
امام پنجم قرآن کی شناخت و معرفت کو اہل بیت علیہم السلام تک محدود سمجھتے تھے کیونکہ صرف وہی محکمات کو متشابہات اور ناسخ کو منسوخ سے تمیز دینے کی قوت رکھتے ہیں اور ایسی خصوصیت اہل بیت علیہم السلام کے سواکسی کے پاس بھی نہيں پائی جاتی۔ اسی بنا پر آپ نے فرمایا ہے:
"کوئی بھی چیز تفسیر قرآن کی مانند لوگوں کی عقل سے دور نہیں ہے؛ کیونکہ ایک آیت کا آغاز متصل ہے ایک مسئلے کے بارے میں، اور یہ کلامِ متصل کئی وجوہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے”۔(7)
حدیث
امام محمد باقر علیہ السلام نے احادیث نبوی کو خاص شکل میں توجہ اور اہمیت دی تھی، حتیٰ کہ جابر بن یزید جعفی نے آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ستر ہزار حدیثیں نقل کی ہیں؛ جیسا کہ ابان بن تغلب اور دوسرے شاگردوں نے اس عظیم ورثے میں سے بڑے مجموعے نقل کئے ہیں۔
امام علیہ السلام نے صرف نقل حدیث اور ترویج حدیث ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے اصحاب کو فہمِ حدیث اور ان کے معانی کے ادراک کا اہتمام کرنے کی پرغیب دلائی ہے۔ مثلاً آپ نے فرمایا ہے:
"ہمارے پیروکاروں کے مراتب کو احادیث اہل بیت نقل کرنے اور ان کی معرفت و ادراک کی سطح دیکھ کر پہچانو، اور معرفت در حقیقت روایت کو پہچاننے کا نام ہے اور یہی درایۃالحدیث ہے، اور روایت کی درایت و فہم کے ذریعے مؤمن ایمان کے اعلیٰ درجات پر فائز ہوجاتا ہے”۔(8)
علمِ کلام
امام محمد باقر (علیہ السلام) کے زمانے میں مناسب مواقع فراہم ہوئے، حکمرانوں کی طرف سے دباؤ اور نگرانی میں کمی آئی اور یوں مختلف عقائد و افکار کے ظاہر و نمایاں ہونے کے اسباب فراہم ہوئے۔ یہی آزاد فضا بھی معاشرے میں انحرافی افکار کے معرض وجود میں آنے کا سبب بنی۔ ان حالات میں امام کو درست اور حقیقی شیعہ عقائد کی تشریح، باطل عقائد کی تردید کے ساتھ ساتھ متعلقہ شبہات و اعتراضات کا جواب بھی دینا پڑ رہا تھا؛ چنانچہ آپ ان امور کے تناظر میں ہی کلامی (و اعتقادی) مباحث کا اہتمام کرتے تھے؛ "ذات پرودگار کی حقیقت کے ادراک سے عقل انسانی کی عاجزی” (9) اور "واجب الوجود کی ازلیت” (10) وغیرہ ان ہی مباحث میں سے ہیں۔
امام کی دیگر مواریث بھی ہم تک آ پہنچی ہیں جیسے فقہی میراث (11) اور تاریخی میراث (12) وغیرہ۔
امام محمد باقر علیہ السلام کے مناظرات
امام محمد باقر (علیہ السلام) کی علمی فعالیت میں مختلف موضوعات پر مختلف افراد کے ساتھ مناظرات بھی شامل ہیں۔ آپ کے بعض مناظرات کی فہرست کچھ یوں ہے:
*عیسائی اُسقُف (Bishop) کے ساتھ امام باقر علیہ السلام کا مناظرہ
*حسن بصری کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام کا مناظرہ
*ہشام بن عبدالملک کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام کا مناظرہ
*محمد منکدر کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام کا مناظرہ
*نافع بن ازرق کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام کا مناظرہ
*عبداللہ بن معمّر اللیثی امام محمد باقر علیہ السلام کا مناظرہ
*قتادہ بن دعامہ کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام کا مناظرہ
اسرائیلیات کے خلاف جدوجہد
اس زمانے میں اسلامی معاشرے کے اندر سرگرم اور معاشرتی تہذیب و ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے گروہوں میں سے ایک گروہ یہودیوں کا تھا۔ بعض یہودی احبار جو بظاہر مسلمان ہوگئے تھے یا ہنوز اپنے دین پر ثابت قدم تھے، اسلامی معاشروں میں پھیل گئے تھے اور مسلمانوں کے ایک سادہ لوح طبقے کے لئے علمی مرجعیت کے مرتبے کے حامل تھے! یہودیوں اور اسلامی معاشرے میں ان کے القائات اور تبلیغات کے خلاف علمی جدوجہد اور انبیاء کے بارے میں یہودیوں کی وضع کردہ جھوٹی حدیثوں اور انبیاء کا چہرہ مخدوش کرنے والے مسائل کی تردید امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی تحریک میں خاص طور پر نمایاں ہے۔ یہاں ہم اس کا ایک نمونہ پیش کرتے ہیں:
زرارہ نقل کرتے ہیں: میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ امام نے جو کعبہ کی طرف رخ کرکے بیٹھے تھے ـ فرمایا: "بیت اللہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے”۔ اسی حال میں عاصم بن عمر نامی شخص بھی امام علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا: "کعب الاحبار کہتا ہے: "إنّ الكعبة تَسْجُدُ لبیت المقدس فی كلِّ غَداة؛ (یعنی کعبہ ہر صبح بیت المقدس کی طرف سجدہ کرتا ہے)”۔
امام نے فرمایا: کعب الاحبار کے اس قول کے بارے میں تمہاری اپنی رائے کیا ہے؟
عاصم نے کہا: کعب کی بات صحیح ہے!
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "كَذِبتَ وكَذِبَ كَعبُ الأحبارِ مَعَكَ؛ تم بھی جھوٹ بول رہے ہو اور تمہارے ساتھ کعب الاحبار بھی جھوٹ بول رہا ہے”۔ اس کے بعد امام نے شدید غضب کی حالت میں فرمایا:
"ما خَلَقَ اللّٰهُ عَزَّوَجلَّ بُقْعَةً فِي الأَرْضِ اَحَبَّ اِلَیْهِ مِنْها۔۔۔؛ خداوند متعال نے زمین پر کوئی بھی بقعہ (یعنی ممتاز قطعۂ ارضی) پیدا نہیں کیا جو اس کے نزدیک کعبہ سے زیادہ محبوب ہو۔ (13)
اصحاب اور شاگرد
امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں معاشرے کے سیاسی حالات کچھ اس طرح بدل گئے کہ آپ کو ایک عظیم علمی مجمع تشکیل دینے کا موقع میسر آیا اور آپ نے شریعت کی اقدار کے پابند بےشمار عالم و دانشمند افراد کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔
اسی بنا پر جب ہم صدر اول کی تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی حیات میں آپ کے بہت سے شاگردوں اور عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیات نظر آتی ہیں۔
اس کے باوجود یہ تصور کرنا درست نہیں ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام کو ان رکاوٹوں اور ممانعتوں سے آسودہ خاطر تھے جو حکمرانوں کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام پر مسلط کی جاتی رہی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی زندگی کا ماحول شدت سے تقیہ کا ماحول تھا۔ کیونکہ غیر صالح حکومتوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی معاشرتی صورت حال میں تقیہ ترک کرنا علمی فعالیت سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور دین کے اصولی معارف و تعلیمات کی ترویج سے دور رہنےکے مترادف تھا۔
زمانے کے حالات نے امام باقر علیہ السلام نیز آپ کے فرزند ارجمند امام جعفر صادق علیہ السلام کو مناسب امکان فراہم کیا جو دوسرے آئمہ طاہرین علیہم السلام کو فراہم نہیں ہوا۔ یہ مناسب حالات اموی حکومت کی بنیادیں سست ہونے کے بموجب معرض وجود میں آئے تھے۔ اس زمانے کے سیاسی نظام کا اندرونی بحران حکمرانوں کو سابقہ حکمرانوں کی طرح خاندان رسالت پر دباؤ ڈالنے اور انہیں گوشہ نشینی پر مجبور کرنے کا امکان فراہم نہ تھا۔ ان حالات میں امام باقر اور امام صادق علیہما السلام کو زیادہ سے زيادہ فقہی، تفسیری اور اخلاقی آراء، فقہ و حدیث کی کتب میں اپنے نفیس اور عمدہ ورثے کے طور پر چھوڑنے کا موقع ملا۔
ایسے ہی حالات میں محمد بن مسلم امام محمد باقرعلیہ السلام سے 30 ہزار حدیثیں نقل کرنے میں کامیاب ہوئے (14) اور جابر جعفی جیسی شخصیت نے 70 ہزار حدیثیں نقل کیں۔(15)
شیعہ علماء کے نزدیک اسلام کے صدر اول کے فقیہ ترین فقہاء چھ افراد تھے اور وہ سب امام محمد باقر اور امام صادق علیہما السلام کے اصحاب میں سے تھے؛ ان فقہاء کے نام کچھ یوں ہیں:
* زرارہ بن اعین بن سنسن شَیبانی کوفی،
* معروف بن خربوذ مکی،
* ابو بصیر، یحیی بن ابی القاسم اسدی،
* ابوالقاسم فضیل بن یسار نہدی،
* محمد بن مسلم ثقفی کوفی الطائفی اور
* برید بن مُعاویہ عجلی (16)
شیخ طوسی (رحمہ اللہ) نے اپنی کتاب اختیار معرفۃ الرجال میں تحریر کیا ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام کے ان شاگردوں کی تعداد 462 تھی جنہوں نے آپ سے حدیث نقل کی ہے۔ آپ کے ان شاگردوں میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام کے بعض اصحاب اور شاگردوں کی وثاقت اور اعتبار پر امامیہ اور اہل سنت کا اتفاق ہے اور بعض دیگر کو اپنے گہرے شیعہ رجحانات کی بنا پر اہل سنت کے رجال میں جگہ نہیں دی گئی ہے بلکہ صرف امامیہ کے نزدیک قابل اعتماد، ثقہ اور معتبر ہیں۔
ادارہ : عالمی اہل بیت علیہم اسلام  اسمبلی،ابنا
ترجمہ و تصحیح: فرحت حسین مہدوی

حوالہ جات
1۔ شیخ مفید، الارشاد،ص 507۔
2۔ العاملی، السيد جعفر مرتضىٰ، دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام، ج1، ص57_56؛ جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص295۔
3۔ الشیخ الحُرُّ العاملی، محمد بن الحسن، وسائل الشیعۃ إلىٰ تحصیل مسائل الشریعۃ (20 مجلدات، مطبوعہ دار احیاء التراث ـ بیروت)، ج18، ص38۔
4۔ الشیخ الطوسی، محمد بن حسن بن علی بن حسن، تہذیب الاحکام فی شرح المقنعہ للشیخ الفید، ج1، ص241۔
5۔ الکلینی، الکافی، ج6، ص266؛ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج46، ص357۔
6۔ ابن ندیم، ابوالفرج محمد بن ابی یعقوب اسحاق بن محمد بن اسحاق، الفہرست (یا الفہرست لإبن الندیم)، ص59؛ القَرَشی، باقر شریف (باقر بن شریف)، حیاۃ الإمام محمد الباقر (علیہ السلام)، ج1، ص174۔
7۔ مؤلفین کی ایک ٹیم، پیشوایان ہدایت، ص320۔
8۔ القرشی، باقر، حیاۃ الإمام محمد الباقر (علیہ السلام)، ص140و141۔
9۔ الکلینی، الکافی، ج1، ص82۔
10۔ الکلینی، وہی ماخذ، ج1، ص88-89۔
11۔ مؤلفین کی ایک ٹیم، پیشوایان ہدایت، ج7، ص341 تا 347۔
12۔ مؤلفین کی ایک ٹیم، پیشوایان هدایت ج7 ص330 تا 334۔
13۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج46، ص354۔
14۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج11، ص83۔
15۔ دخیل، علی محمد علی، أَئِمَّتُنا، ج1، ص347؛ شیخ عباس قمی، منتہیٰ الآمال، (مطبوعہ تہران، 1390ھ ش) ج1، 1310۔
16۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (علیہم السلام)، ج4، ص211۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button