جناب ام البنینؑ: ایک مثالی خاتون
ڈاکٹرسید عباس حسینی
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی حیات میں مولائے متقیانؑ نے دوسری شادی نہیں کی، جس طرح سے حضرت خدیجہؑ کی زندگی میں رسول اکرم ﷺ نے کوئی دوسری شادی نہیں کی تھی۔ بی بیؑ کی شہادت کے بعد مولائے متقیانؑ نے اپنے بھائی عقیل کو بلا کر کہا: میرے لیے عرب کے کسی شجاع خاندان سے ایک خاتون کا رشتہ چاہیئے تاکہ اس کے بطن سے ایک دلاور بیٹا اس دنیا میں آئے جو میری شجاعت کا وارث ہو ۔ (أنظر لي امرأة قد ولدتها الفحولة من العرب لأتزوجها فتلد لي غلاماً فارساً)۔
اس زمانے میں عرب کے چار خاندان چار خصوصیات کے حوالے سے مشہور تھے: بنی ہاشم عزت وعظمت میں، بنی امیہ سیاسی تدبیروں میں، بنی کلاب شجاعت اور بہادری میں اور بنی ثقیف خوبصورتی اور جمال میں۔ جناب عقیل نے عرب کے بہادر ترین خاندان بنی کلاب سے جناب امیر ؑ کے لیے خاتون پسند کر لائے۔
نام ان کا بھی فاطمہ ہی تھا، لیکن بعد میں زیادہ بیٹوں کی وجہ سے ام البنین کی کنیت کے ساتھ مشہور ہوئیں۔
جب بیاہ کر کے مولاؑ کے دولت سرا میں لائی گئیں تو حسنین علیھما السلام ابھی بہت چھوٹے اور بیمار تھے۔ دلہن نے گھر آتے ہی سب سے پہلے حسنینؑ کی خبر لی اور ان کی تیمارداری کی ۔ آپ نے عملی طور پر ان کی ماں کا کردار ادا کیا اور ان کی دلجوئی اورخدمت میں ہمیشہ مصروف رہیں۔ اپنے بیٹوں سے زیادہ حسنین ؑ کو توجہ اور وقت دیتی تھیں۔ خود کو فاطمہ کے نام سے پکارنے سے منع کیا گیا، کہیں حسنین ؑیہ نام سن کر اپنی ماں حضرت زہرا ؑ کی یاد میں نہ کھو جائیں اور کہیں یہ بات ان کے لیے غم اور آزار کا باعث نہ ہو۔
اس شادی کے نتیجے میں خدا نے تین اور بیٹوں کے علاوہ حضرت قمر بنی ہاشمؑ سے آپ کو نوازا۔ حضرت ام البنینؑ نے اپنے بیٹوں کو منع کیا ہوا تھا کہ حسنین ؑ کو کبھی بھی بھائی کہہ کر مت پکارنا۔ یہ زہرائے اطہرؑ کے بطن سے ہیں اور تمہارے آقا ومولا اور سید وسردار ہیں۔ تم لوگ ان کی برابری نہیں کر سکتے۔ یہی تربیت تھی اور پاکیزہ دودھ کا اثر تھا کہ حضرت عباس عملدارؑ عمر کے آخری لحظے تک امام حسین علیہ السلام کو سیدی ومولای کہہ کر پکارتے رہے۔
واقعہ کربلا کے بعد جب بشیر امام زین العابدینؑ کے حکم سے مدینے میں داخل ہوئے تاکہ لوگوں کو کربلا کے واقعے کے حوالے سے اور اسیران کے حوالے سے آگاہ کریں تب ان کی ملاقات جناب ام البنینؑ سے ہوئی۔ سب سے پہلے امام حسینؑ کے بارے میں پوچھا۔ بشیر نے کہا: خدا تجھے صبر دے، تیرا عباسؑ مارا گیا۔ ام البنین ؑنے کہا: حسینؑ کی خبر سناو۔ بشیر نے دوسرے فرزند کی شہادت کی خبر سنائی۔ اسی طرح تیسرے اور چوتھے فرزند کی شہادت کی بھی خبر سنائی لیکن ام البنینؑ ہر بار امام حسین ؑ کے بارے میں ہی پوچھتی رہیں۔ جناب ام البنینؑ نے کہا: میری ساری اولاد اور جو کچھ اس آسمان کے نیچے ہیں حسینؑ پر قربان ہو۔ اور پھر جب بشیر نے امام حسینؑ کی شہادت خبر دی تو ام البنینؑ نے کہا: اے بشیر، میرے دل کو اس خبر نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اور پھر فریاد شروع کی۔
کربلا کے واقعے کے تین سال بعد ۱۳ جمادی الثانی ۶۴ ہجری کو آپ کی وفات ہے۔ آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ آپ کے حوالے سے مشہور ہیں کہ اپنے بیٹے غازی عباس علمدارؑ کی طرح آپ بھی باب الحوائج ہیں۔