شہادت حضرت مسلم ابن عقیل بن ابی طالب علیہ السلام

"امام حسین علیہ السلام مدینہ سے خارج ہوکر مکہ تشریف لے گئے اور مکہ ہی میں مقیم تھے کہ بڑی تعداد میں اہل کوفہ کے خطوط موصول ہونا شروع ہوئے۔ ان خطوط میں امام علیہ السلام کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ آخری خط بھی موصول ہوا اور اہل کوفہ کے خطوط کے تعداد کئی ہزار ہوئی تو امام علیہ السلام مسجد الحرام میں رکن و مقام کے مابین کھڑے ہوئے اور دو رکعت نماز ادا کی اور خداوند متعال سے خیر کی طلب کی اور اس کے بعد حضرت مسلم کو بلایا اور خطوط کا جواب تحریر فرمایا اور اہل کوفہ سے مخاطب ہوکر لکھا: «تمہاری بات یہی ہے کہ: "”ہمارا کوئی امام نہیں ہے، ہماری طرف آجائیں شاید خدا آپ کی وجہ سے ہمیں ہدایت فرمائے اور ہمیں متحد کرے”” میں اپنے بھائی اور ابن عم مسلم بن عقیل کو تمہاری طرف روانہ کررہا ہوں جو میرے معتمد ہیں۔ پس اگر انہوں نے مجھے لکھا کہ تمہارے عقلاء، فضلاء کی رائے اور تمہارا مشورہ وہی ہے جو تم نے خطوط میں لکھ بھیجا تھا تو میں بہت جلد تمہاری طرف آؤں گا۔۔۔”
باطل نظام کے خلاف قیام کی جدوجہد میں عوامی رابطہ مہم کی ذمہ داری جس شخصیت کے ذمہ لگائی گئی وہ حضرت مسلم بن عقیل بن ابی طالب تھے۔ حضرت مسلم بن عقیل نے حقیقی اسلام کے سفیر کا کردار ادا کیا۔ کیونکہ وہ جس ہستی کے حکم پر مدینہ سے کوفہ کی طرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لئے روانہ ہوئے وہ ہستی (امام حسین ؑ) دین اسلام اور شریعت محمدی ﷺ کے دفاع اور تحفظ کے لئے کمربستہ تھی اور حضرت مسلم بن عقیل نواسہ رسولﷺ کے شانہ بشانہ اس جہاد میں شریک تھے اور اپنی شہادت کے ذریعہ واقعہ کربلا کی بنیادیں استوار کرگئے۔
حضرت مسلم بن عقیل وفاشعاری اور شجاعت و بہادری کا پیکر تھے۔ آپ نے وفا کے جذبے کا ایسا مظاہرہ کیا جیسے حضرت علی ؑنے پیغمبر اکرم ﷺکے ساتھ وفاشعاری کی زندگی بسر فرمائی تھی اور حضرت علی ؑکی طرح ہی جنگی مہارتوں اور شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے جب کوفہ کے گلی اور کوچوں میں آپ کو یزیدی افواج نے گھیر لیا۔ شدت پیاس اور بے یارومددگار ہونے کے باوجود حضرت مسلم بن عقیل ہزاروں شامی فوجیوں کے مقابل تنہا ہوکر بھی مردانہ وار لڑے۔
آپ کی زندگی کے مطالعہ سے جہاں ہمیں دین اور دین کے رہبروں سے وفا کا سبق ملتا ہے وہاں حکومتی دباؤ میں آکر وفاداریاں بدلنے والے اور بیعت سے ہاتھ اٹھالینے والے چہرے بھی بے نقاب ہوتے ہیں ۔یہ تاریخ کا ایک اہم اور تاریک باب ہیں جن سے عبرت حاصل کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا ہمیں حضرت مسلم بن عقیل کی طرح اسلام اور اسلامی اقدار سے عملی وابستگی’ رہبر کی اطاعت’ دین کے تحفظ اور قربانی کے جذبے کو زندہ رکھنا چاہیے اور دور حاضر کی یزیدی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کرنی چاہیے۔
جناب مسلم بن عقیل امام حسین علیہ السلام کے خط کے ساتھ کوفہ میں جناب مختار کے گھر پہنچے،اس خط میں امام حسین علیہ السلام نے جناب مسلم کو اپنا بھائی اور مورد اعتماد قرار دیا تھا ۔
جس وقت کوفہ والوں کو جناب مسلم کے آنے کی خبر ملی تو ۱۸ہزار افراد نے آکر جناب مسلم کے ہاتھوں پر بیعت کی، اور جب جناب مسلم کو ان کی باتوں پر اطمینان ہو گیا تو آپ نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا کہ ۱۸ ہزار اہل کوفہ نے آپ کے نام پر ہمارے ہاتھوں پر بیعت کر لی ہے لہٰذا خط ملتے ہی آپ کوفہ کے لئے روانہ ہو جائیں ۔
امویوں نے جناب مسلم کے اس عظیم استقبال کو دیکھتے ہوئے یزید کو خط لکھا کہ اگر کوفہ بچانا چاہتے ہو تو کسی لائق والی کو یہاں بھیج دے ۔ چنانچہ یزید نے عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا والی مقرر کیا اور وہ بصرہ سے کوفہ آیا اور لوگوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کیا جس کی وجہ سے اہل کوفہ نے جناب مختار کی حمایت کم کر دی اور جیسے جیسے عبیداللہ کا منحوس سایہ اہل کوفہ پر پڑتا گیا جناب مسلم کے حامی کم ہوتے گئے ۔
جب عبیداللہ نے ڈرا دھمکا کر اہل کوفہ کو مسلم سے دور کر دیا تو جناب مسلم کی تلاش شروع کی اور جناب مسلم کا پتہ بتانے والے کو انعام و اکرام سے نوازنے کا وعدہ کیا ۔جناب مسلم کے میزبان ہانی بن عروہ کو دار الامارہ میں بلا کر سزا دی۔جناب مسلم نے چار ہزار افراد کے ساتھ دارالامارہ کا محاصرہ کیا لیکن عبیداللہ کی سازشوں کی وجہ سے لشکر کے درمیان پھوٹ پڑ ی اور لوگ جناب مسلم کا ساتھ چھوڑنے لگے یہاں تک کہ نماز مغرب و عشاء کے بعد جناب مسلم تنہا ہو گئے ۔
آخر کار کوفہ کی گلیوں میں عبیداللہ کے سپاہیوں سے مقابلہ ہوا اور جناب مسلم نے تنہا ۴۱ سپاہیوں کو واصل جہنم کیا لیکن پیاس کی شدت اور شدید زخموں کی وجہ سے مقابلے کی تاب نہ لا سکے۔ایک سپاہی نے پیچھے سے نیزہ مارا آپ زمین پر گر پڑے۔لشکر والوں نے آپ کو گرفتار کر لیا اور دارالامارہ لے گئے۔عبیداللہ بن زیاد نے حکم دیا کہ آپ کو دارالامارہ کی چھت سے نیچے پھينک دیا جائے جس سے آپ کی شہادت واقع ہو گئی اس کے بعد ابن زیاد نے جناب ہانی بن عروہ اور جناب مسلم رضوان اللہ علیھما کے سر اقدس کو یزید کے پاس بھیج دیا ۔
"آپ کی شہادت ۹ ذی الحجہ سن ۶۰ ہجری میں واقع ہوئی۔ آپ کی شہادت سے ایک دن قبل امام حسین علیہ السلام نے کوفہ کے ارادہ سے مکہ کو چھوڑا اس لئے آپ کو شہادت کی خبر راستے میں ملی۔ جس وقت امام حسین علیہ السلام نے جناب مسلم اور جناب ہانی کی شہادت کی خبر سنی تو آپ نے کئی مرتبہ یہ آیت پڑھی " انا للہ وانا اليہ راجعون” اور جناب مسلم کے حق میں دعا کی۔”
https://www.danishkadah.com/muslim.php