متفرق مقالات

فلسفہ عیدالاضحیٰ

تحریر: حسین بشیر سلطانی
عید، عربی لغت کے مطابق، اُس دن کو کہتے ہیں جو کسی قوم کے لیے بار بار رجوعِ نعمت یا اپنے فطری اصولوں کی طرف پلٹنے کی علامت ہو۔ مفرداتِ راغب میں "عید” کو اُس دن سے تعبیر کیا گیا ہے، جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حیاتِ منعم، ولایتِ الٰہی اور بندگیِ پروردگار کی فضا نصیب ہو۔ لہٰذا، عیدُالاضحیٰ صرف جانوروں کی قربانی کا جشن نہیں، بلکہ طاغوتی نظام کی تکفیر اور الٰہی نظام کی طرف واپسی کا دن ہے۔
یہ دن صرف چرنے، کھانے یا روایتی لباسوں کی نمائش کا موقع نہیں بلکہ روحانی، سیاسی، معاشی، معاشرتی، عسکری اور اخلاقی میدانوں میں امامِ وقت سے تجدیدِ عہد کا دن ہے، جس میں انسان اپنی فطرت سے جڑ کر دوبارہ ولایتِ معصوم سے وفاداری کا اعلان کرتا ہے۔
یہ دن اُن انسانوں کے لیے عید ہے جو کبر و جلال کے اصل مالک کو پہچانتے ہیں:
اللّٰهُمَّ اَهْلَ الْكِبْرِيَاۤءِ وَ الْعَظَمَةِ
یعنی وہی اللہ جو عظمت کا حقیقی سرچشمہ ہے، نہ کہ وہ طاغوتی قوتیں، عسکری طاقت، ٹیکنالوجی یا نام نہاد تہذیبی غلبے کے زعم میں خود کو صاحبِ عظمت سمجھ بیٹھی ہیں۔ وہ دیکھ لیں کہ جود و جبروت کا حقیقی مالک کون ہے:
وَ اَهْلَ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ
یعنی عطا و قوت کی اصل مرکزیت صرف اللہ کی ذات ہے، نہ کہ سامراجی طاقتیں، مغرب و مشرق کی معیشتیں، سرمایہ دارانہ بینکوں یا وہ ملٹی نیشنل کمپنیاں جو انسانی خون سے بنائی گئی ہیں۔
وَ اَهْلَ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ
یہ دنیا اُن نظاموں سے نجات چاہتی ہے جو انسانیت کو عفو و رحمت کے بجائے بم و بارود اور ظلم و سفاکی کی زبان سکھاتے ہیں۔ اللہ ہی وہ ذات ہے جو عفو و رحمت کا خالق ہے جو انسانی معاشروں میں بخشش کے ذریعے امن اور الفت جیسی اقدار بکھیرتا ہے۔
وَ اَهْلَ التَّقْوٰى وَ الْمَغْفِرَةِ
تقویٰ کا مطلب ہے: اپنے آپ کو فطری اور عقلی راہ پر باقی رکھنا، شیطانی طاقتوں سے دامن چھڑا کر صرف الٰہی رہبریت سے وابستہ امیدیں رکھنا۔
اور مغفرت کا مطلب ہے: زخموں کو بھر دینا، اُن زخموں کا علاج کرنا جو وجودِ انسانی، امت اور معاشرے کو لگ چکے ہیں۔ یہ عمل صرف الفاظ اور رسمی کان پکڑی سے ممکن نہیں بلکہ اجتماعی تحریک اور طاغوتی نظریات کے خلاف اعلانیہ بغاوت کے ذریعے ممکن ہے تاکہ نہ فلسطین میں 60 ہزار لاشیں گریں، نہ لاکھوں لوگ دربدر ہوں۔
مغفرت کا حقیقی مفہوم ہے: اپنے وجود اور ریاست کو اُن درندوں سے نجات دلانا جو ٹرمپ جیسے خبیث شیاطین کے سامنے جھکتے ہیں اور امت کو ظلمت کے نظام سے نکال کر نورِ ولایت کی طرف لانا۔ کردارِ حضرت مسلم بن عقیلؑ ادا کرنا — یہی تقویٰ و مغفرت کی حقیقی راہ ہے۔
ہم اس دن کے حق کے صدقے میں، جو امتِ مسلمہ کے لیے عید یعنی راہ استقامت کی طرف پلٹنے اور رسولِ اکرمؐ کے لیے شرف، کرامت اور مزید کا دن، اللہ سے دعا کرتے ہیں:
اَنْ تُدْخِلَنِيْ فِيْ كُلِّ خَيْرٍ اَدْخَلْتَ فِيْهِ مُحَمَّدًا وَ اٰلَ مُحَمَّدٍ
یعنی ہمیں بھی اُسی خیر، نظامِ عدل، معرفتِ الٰہی، اور اطاعتِ اسماعیلؑ و انکارِ ابراہیمیؑ میں داخل فرما، جس میں محمد و آلِ محمدؐ کو داخل فرمایا۔ وہ نظام جس کی بنیاد ابراہیمی ہو، نہ کہ نمرودی جس کا مرکز عدل ہو، نہ کہ مفاد۔
وَ اَنْ تُخْرِجَنِيْ مِنْ كُلِّ سُوۤءٍ اَخْرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّدًا وَ اٰلَ مُحَمَّدٍ
یعنی ہمیں سرمایہ دارانہ ظلم، استعماری ذہنیت، اخلاقی انحطاط اور مغربی جاہلیت کے ہر گندے دائرے سے نکال دے، جن سے نبیؐ اور آلِ نبیؐ کو پاک رکھا۔ جس طرح اُن قدسیہ ہستیوں نے زمانے کے شیاطین، طواغیت، اور احبار و رہبان کے دلدلوں سے خود کو بچایا اور بشریت کی نجات کا محور بن کر توحید کا علم بلند کیا، اُسی طرح ہمیں بھی الٰہی رہبریت اور فطری نظام کی طرف پلٹا دے۔
یہ کب ہوگا؟
یہ اُس وقت ہوگا جب ایک ملت، راہِ ابراہیمؑ اختیار کرے، وقت کے نمرود کے سامنے ڈٹ جائے، اور اطاعتِ اسماعیلؑ کی طرح رہبریتِ الٰہی کے سامنے جھک جائے۔
ہم اس دن وہی خیر مانگتے ہیں جو صالحین نے مانگی اور اُن ہی شرور سے پناہ مانگتے ہیں، جن سے وہ محفوظ رہے:
اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَسْاَلُكَ خَيْرَ مَا سَاَلَكَ مِنْهُ عِبَادُكَ الصَّالِحُوْنَ وَ اَعُوْذُ بِكَ فِيْهِ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُكَ الصَّالِحُوْنَ
یہ دعا اور آئمہ معصومینؑ سے منسوب دیگر دعائیں، محض الفاظ نہیں بلکہ نظریاتی اعلامیے ہیں — صالح قیادت کی طرف رجوع، طاغوتی نظام سے عملی بغاوت، مغربی تہذیب کی گندگی سے انکار اور الٰہی نظامِ امامت کی تمہید!
ایسی عید جو فقط خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بن جائے، عید نہیں، عیاشی ہے۔
ایسی عید، جو غیر الہٰی نظاموں کے زیر سایہ منائی جائے، وہ حق کی تجدید نہیں، باطل کی توثیق ہے۔
حقیقی عید وہی ہے، جو سنتِ محمدیؐ، حکومتِ اسلامی اور فکرِ توحیدی سے تجدیدِ وفا کرے۔
حقیقی عید وہی ہے، جو ظالم کے خلاف نفرت اور مظلوم کے ساتھ وفاداری کا عہد کرے۔
حقیقی عید وہی ہے، جو انسان کو اپنی فطرت، اپنے معبود، ولیِ خدا، اور نائبِ امام سے جڑنے کی ذمہ داری کا احساس دے — اور سنتِ اسماعیلؑ پر عمل کرتے ہوئے اس ذمہ داری کو ادا کرے۔
ولایتِ الٰہی کو قبول کریں، طاغوت سے بیزاری کا اعلان کریں، سنتِ ابراہیمیؑ بالفاظ دیگر نمرودی کرداروں سے بغاوت کا عملی مظاہرہ کریں، اور اپنے وجود، اپنے معاشرےاور اپنی امت کو اُس راہ پر لے جائیں جو قرآن و عترتؑ کی طرف جاتی ہے۔
اپنا رُخ راہِ غضب و ضلالت سے موڑ کر صراطِ مستقیم و انعام کی طرف لے آئیں تاکہ ہم بھی منعمین کے ساتھ اُن کی نعمتوں میں شامل ہو سکیں۔
پس آئیے!
ہم اس عید پر صرف جانور ذبح نہ کریں بلکہ اپنے اندر موجود سرکش حیوان کو بھی قرآن، عقل، اور اہلبیت علیھم السلام کے تابع کر دیں تاکہ عید کا اصلی مقصد حاصل ہوسکے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button