اصحاب آئمہ اطہارؓشخصیات

قیس بن مسہر صیداوی رضوان اللہ تعالی علیہ

قیس بن مسہر صیداوی، امام حسین علیہ السلام کا قاصد جو آپ علیہ السلام کے خطوط کو کوفیوں اور مسلم بن عقیل تک پہنچاتے تھے اور اسی جرم میں قادسیہ کے مقام پر عبیداللہ بن زیاد کے سپاہیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور واقعہ عاشورا سے چند روز قبل شہید کر دئے گئے۔ ان کا نام زیارت الشہدا ءمیں آیا ہے اور انہیں واقعہ کربلا کا پہلا شہید تصور کیا جاتا ہے۔
خاندانی تعارف
قیس بن مسہر کا مکمل نام قیس بن مسہر بن خلید بن جندب بن منقذ بن جسر بن نکرة بن صیداء ہے۔ ان کے والد کا نام مُسہِر ہے لیکن چہ بسا مُسَہَّر پڑھا جاتا ہے۔
(أنساب الأشراف، ج۱۱، ص ۱۶۴؛جمہرةأنساب العرب، متن، ص ۱۹۵)
قبیلۂ قیس بنی صیداء کے نام سے معروف تھے۔ یہ قبیلہ بنی اسد کا ایک طائفہ شمار ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض منابع میں انہیں بنی اسد کے شہداء میں شمار کیا گیا ہے۔ آپ کے اجداد میں ایک کا نام نکرہ ہونے کی وجہ سے انہیں قیس بن مسہر نکری بھی کہا گیا ہے۔
(تاریخ الیعقوبی، ج۱، ص ۲۳۰،موسوعہ کربلاء، ج۲، ص ۲۴،تاج العروس ج۷، ص ۵۵۹)
تاریخی روایات میں انہیں ایک شریف، بہادر اور خاندان اہل بیت علیہم السلام کا محب قرار دیا گیا ہے۔ شاعر کمیت اسدی نے انہیں بنی صیداء کے بزرگ کے طور پر بیان کیا ہے۔
(نفس المہموم، ص ۵۸۶)
پیغام رسانی
واقعۂ کربلا میں ان کے اصلی کردار کو پیغام رسانی قرار دیا جا سکتا ہے۔ قیس نے اس واقعہ میں جن خطوط کو پہنچانے کا کام کیا وہ درج ذیل ہیں:
مکہ میں امام حسین علیہ السلام تک کوفیوں کے خطوط پہنچائے۔
(موسوعہ کربلاء، ج۱، ص ۵۷۳؛ تاریخ الطبری، ج ۶، ص۲۹۴ )
کوفہ سفر کے دوران حضرت مسلم کے خطوط امام حسین علیہ السلام تک پہنچائے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کے خطوط کو حضرت مسلم تک پہنچائے۔
کوفہ کے سفر میں حضرت مسلم بن عقیل کا ہمسفر اور مسلم کی طرف سے کوفیوں کی بیعت کی اطلاع کا خط امام تک پہنچایا۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی ہم سفری اور حاجز کے مقام سے کوفیوں کی طرف خط لے کر جانا۔
(موسوعہ کربلاء، ج۱، ص ۵۷۳)
امام حسین کے نام کوفیوں کے خطوط
تفصیلی مضمون: کوفیوں کے خطوط امام حسین علیہ السلام کے نام
10 رمضان کو عبداللہ بن مسمع ہمدانی اور عبد اللہ بن قیس کے توسط سے کوفیوں کے کئی خطوط حضرت امام حسین تک پہنچے۔ دو دن کے بعد قیس بن مسہر، عبدالرحمن بن عبداللہ ارحبی اور عمارۃ بن عبد سلولی کوفیوں کے مزید 150 خطوط لے کر امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے۔
(مقتل خوارزمی، ج۱، ص ۲۸۳؛ الإرشاد ، ج۲، ص ۳۸؛ موسوعہ التاریخ الإسلامی، ج۶، ص ۱۱۱)
اس سے پتہ چلتا ہے قیس کوفہ کےرہنے والا تھے اور امام حسین علیہ السلام تک خطوط پہنچانے کیلئے مکہ آئے تھے۔
حضرت مسلم کے خطوط
قیس تین دن استراحت کرنے کے بعد 15 رمضان کو امام حسین کے حکم پر مسلم بن عقیل کے ہمراہ مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مسلم اپنے اہل خانہ سے خدا حافظی کے لئے پہلے مدینہ چلے گئے۔ اس سفر میں ان کے ساتھ راستوں سے واقف دو اور اشخاص بھی تھے جو راستے میں پیاس کی شدت کی وجہ سے فوت ہو گئے۔
(الإرشاد، ج۲، ص ۳۹؛ وقعۃ الطف ص ۹۷ ، ص ۹۶، تاریخ الطبری، ج۵، ص ۳۵۴)
پہلا خط: حضرت مسلم نے خبیت کے مقام سے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا۔ قیس نے امام تک پہنچایا اور جواب لے کر مسلم تک پہنچا۔
(تاریخ الطبری، ج۵، ص ۳۵۴؛ در کربلا چہ گذشت، ص ۱۱۲)
مقصد کی طرف رواں دواں: قیس نے مسلم بن عقیل کے ساتھ سفر جاری رکھا ان کے ساتھ عمارۃ بن عبد سلولی و عبد الرحمن بن عبد اللّہ بن کدن ارحبی بھی تھے۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ قیس اس پورے سفر میں مسلم بن عقیل کے ہمراہ تھے یہاں تک کہ مختار کے گھر پہنچ گئے۔
(وقعۃ الطف، ص ۹۷؛ در کربلا چہ گذشت، ص ۱۰۹)
افرادی قوت کیلئے تگ و دو:
قیس کوفہ سے اپنے قبیلے بنی اسد آئے اور لوگوں کو حضرت مسلم کے آنے کی اطلاع دی۔ پس حبیب بن مظاہر اسی قبیلے سے مسلم سے ملاقات کیلئے آئے۔
(موسوعہ التاریخ الإسلامی، ج۶، ص ۷۱)
دوسرا خط: کوفیوں کی طرف سے حضرت مسلم بن عقیل کی بیعت کرنے کے بعد قیس مسلم بن عقیل کا دوسرا خط لے کر امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے۔ اس خط کو امام تک پہنچانے میں عابس بن ابی شبیب شاکری نے قیس کے ساتھ ہمراہی کی۔بعض ماخذ میں شوذب کا نام بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
(تاریخ الطبری، ج ۶ ص۲۱۰؛ مثیر الأحزان، ابن نما الحلی، ص ۳۲)
آخری نامہ رسانی
حضرت امام حسین علیہ السلام نے وادی حاجز سے قیس کو کوفہ روانہ کیا اس سفر میں انہوں نے مسلم بن عقیل کو امام کا خط پہنچایا۔بعض نقل کے مطابق یہ خط کربلا سے کوفہ بھیجا گیا تھا۔بہر حال یہ خط حضرت مسلم کی شہادت کے بعد بھیجا گیا۔
(وقعہ الطف ، ص ۱۵۹؛ نہایة الأرب، ج۲۰، ص ۴۱۲،مقتل خوارزمی، ج۱، ص ۳۳۵؛ دمع السجوم ترجمہ نفس المہموم، ص ۱۸۰، الطبقات الکبری، خامسۃ۱، ص ۴۶۳؛ موسوعہ کربلاء، ج۱، ص ۵۷۱)
گرفتاری
قیس بن مسہر صیداوی جب قادسیہ پہنچے تو حصین بن نمیر نے انہیں گرفتار کر کے ابن زیاد کی طرف روانہ بھیجاتاکہ وہ اس کے بارے میں کوئی حکم صادر کرے۔ البتہ قیس نے گرفتار ہونے سے پہلے امام کا خط پھاڑ دیا تھا تا کہ یہ خط دشمن کے ہاتھ نہ لگے۔
(الأخبارالطوال، ص ۲۴۶؛ نہایة الأرب ، ج۲۰، ص۴۱۳؛ الطبقات الکبری، خامسہ۱، ص۴۶۳؛ دمع السجوم ترجمہ نفس المہموم، ص ۱۵۲،موسوعہ کربلاء، ج۱، ص ۵۷۳)
ابن زیاد سے گفتگو
دارالامارہ میں ابن زیاد کے پاس جب قیس کوپیش کیا گیا تو ان کے ما بین یہ گفتگو ہوئی:
ابن زیاد: تو کون ہے؟
قیس: علی اور حسین علیھما السلام کے شیعوں میں سے ایک ۔
ابن زیاد: خط کیوں پھاڑ دیا؟
قیس: تا کہ تجھے پتہ نہ چلے کہ اس میں کیا لکھا تھا۔
ابن زیاد: کس کی طرف سے تھا اور کسے لکھا گیا تھا؟
قیس: امام حسین علیہ السلام کی طرف سے کوفے کی ایک جماعت کے نام تھا ۔ انکے نام نہیں جانتا ہوں۔
ابن زیاد آگ بگولہ ہوا اور اس نے کہا:
خدا کی قسم!اس وقت تیری جان نہیں چھٹے گی جب تک تو مجھے ان کے نام نہیں بتاتا یا یہ کہ منبر پر جاؤ اور جھوٹے حسین بن علی علیھما السلام اور اسکے باپ پر لعنت کرو ورنہ تجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔
قیس : اس جماعت کے نام نہیں بتاتا لیکن لعنت کر دیتا ہوں۔
(دمع السجوم ترجمہ نفس المہموم، ص۱۵۲)
شہادت
ابن زیاد کے حکم پر قیس منبر پر گئے تاکہ ابن زیاد کے ساتھ کئے گئے وعدے کے مطابق علی علیہ السلام اور ان کی اولاد پر لعن کریں۔ منبر پر جانے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے خدا کی حمدد و ثنا کی۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوات بھیجی اور امام علی ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کی مدح و سرائی کی اور ان پر خدا کی رحمت کا بھیجی۔ اس کے بعد انہوں نے عبید اللہ بن زیاد ان کے والد اور بنی امیہ کے ستم کاروں پر اول سے آخر تک لعنت بھیجی اور آخر میں کہا:
اے لوگو! میں تمہاری طرف حسین ابن علی علیھما السلام کا سفیر ہوں فلان جگہ پر وہ مجھ سے جدا ہوئے ہیں پس ان کی طرف چل پڑو۔
(دمع السجوم ترجمہ نفس المہموم، ص۱۵۲)
شہادت کی نوعیت
قیس کی جانب سے بنی امیہ کے کرتوتوں کا راز فاش کرنے کے بعد ابن زیاد نے انہیں دارلامارہ کی چھت سے نیچے گرانے کا حکم دیا یوں قیس شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔اس کے بعد ابن زیاد کے حکم سے ان کے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا۔
(الأخبارالطوال، ص۲۴۶؛ أنساب الأشراف، ج۱۱، ص۱۶۴، نہایۃ الأرب، ج۲۰، ص۴۱۳)
شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھ پیر باندھ کر دارالعمارہ سے نیچے گرایا گیا جس سے ان کی ہڈیاں چکناچور ہو گئے تھے اور ابھی ان کے بدن میں جان باقی تھی کہ عبد الملک بن عمیر لخمی نامی شخص نے ان کا سر قلم کیا۔ حاضرین نے اس کام پر ان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کیوں کیا؟ اس پر اس نے جواب میں کہا: میں چاہتا تھا کہ ان کی موت جلد واقع ہو اور ان کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔البتہ بعض منابع میں یہ داستان عبداللہ بن یقطر کے لئے ذکر کی گئی ہے۔
(البدایۃوالنہایۃ، ج۸، ص۱۶۸؛ دمع السجوم ترجمہ نفس المہموم، ص۱۵۲، أنساب الأشراف، ج۳، ص۱۶۹؛ چاپزکار، ج۳، ص۳۷۹)
تاریخ شہادت
قیس کی تاریخ شہادت میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ حضرت امام حسین عذیب الہیجانات کے مقام پر تھے کہ آپ کو قیس کی شہادت کی خبر دی گئی۔ اس لحاظ سے امام علیہ السلام کے کربلا پہنچنے سے پہلے قیس شہید ہوئے ہیں۔
(مقتل الحسیؑن خوارزمی ، ص۱۹۲؛ وقعۃ الطف، ص۱۷۴)
لیکن بعض روایات کے مطابق کربلا سے کوفہ خط لے جاتے ہوئے دو محرم اور عاشورا کے درمیان شہادت ہوئی ہے۔
بہرحال یہ بات قطعی ہے کہ قیس مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد عازمِ کوفہ ہوئے لہذا ان کی شہادت روزِ عرفہ کے بعد واقع ہوئی ہے۔
امام حسین علیہ السلام کا رد عمل طرماح بن عدی کے ذریعے جب امام حسین کو قیس کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے نمناک آنکھوں سے اس آیت کی تلاوت فرمائی:
فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا "
(احزاب٢٣ )
ان میں کچھ شہادت کو پہنچ گئے ہیں اور کچھ ان میں سے اس کے منتظر ہیں اور وہ کسی صورت میں (اپنے عقیدے کو) تبدیل کرنے والے نہیں ہیں۔ اور فرمایا :بار الہا!ہمارے اور انکے لئے بہشت قرار دے نیز ہمارے اور انکے درمیان رحمت قرار دے اور ثواب مرحمت فرما۔
(نفس المہموم، ص۵۸۶؛ موسوعہ التاریخ الإسلامی ، ج۶، ص۱۲۴)
بعض نے کہا ہے کہ مجمع بن عبد اللہ عائدی نے شہادت قیس کی خبر پہنچائی۔
(در کربلا چہ گذشت، ص۲۴۰)
پیغام رسانی کا اختلاف
بہت سے تاریخی مستندات میں خطوط کی ارسال و ترسیل میں قیس بن مسہر کی جگہ عبد اللہ بن یقطر مذکور ہے۔ لیکن کوفہ بھیجے جانے کا راستہ مختلف ذکر ہوا ہے۔ لیکن باریک بینی سے جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے نامہ رسانی کے درمیان تفاوت موجود ہے۔
(موسوعہ کربلاء، ج۱، ص۵۵۲، پژوہشی پیرامون شہدای کربلا، ص۳۱۹)
امام نے ایک دفعہ عبد اللہ بن یقطر کو ایک راستے سے کوفہ روانہ کیا دوسری مرتبہ ایک دوسرے راستے سے قیس بن مسہر کو روانہ کیا۔ لیکن دونوں قاصد گرفتار ہو گئے اور شہید ہو گئے۔
عبد اللہ بن یقطر کو حاجز کے علاقے سے بھیجا اور ان کی شہادت کی خبر زبالہ نامی جگہ ملی۔
قیس بن مسہر کو بیضہ نامی جگہ سے کوفہ بھیجا اور عذیب الہیجانات میں ان کی شہادت کی خبر امام کو ملی۔
(أنساب الأشراف، ج۳، ص ۱۶۷؛ چاپزکار، ج۳، ص۳۷۸؛ موسوعہ کربلاء، ج۱، ص۵۵۳؛ تجارب الأمم، ج۲، ص۶۰، موسوعہ کربلاء، ج۱، ص ۵۵۳)
زیارت ناحیہ
زیارت ناحیہ میں آپ کا نام بھی مذکور ہے :
السلام علی قیس بن مسهر الصیداوی
https://ur.wikishia.net/

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button