سیرتسیرت امام علی نقیؑ

امام ہادی علیہ السلام کا منحرف عقائد کے خلاف علمی جہاد کرنا

چونکہ رسول اللہ کے وصال کے بعد معاشرے کی ہدایت و راہنمائی کی ذمہ داری آئمہ طاہرینؑ  پر عائد کی گئی ہے چنانچہ آئمہ نے اپنے اپنے عصری حالات کے پیش نظر یہ ذمہ داری بطور احسن نبہائی اور اصل و خالص محمدی اسلام کی ترویج میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ آئمہ کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کے عقائد کو انحرافات اور ضلالتوں سے باز رکھیں اور حقیقی اسلام کو واضح کریں چنانچہ امام علی النقی الہادی ؑ کو بھی اپنے زمانے میں مختلف قسم کے انحرافات کا سامنا کرنا پڑا اور انحرافات اور گمراہیوں کا مقابلہ کیا۔ آپ (ع) کے زمانے میں رائج انحرافات کی جڑیں گذشتہ ادوار میں پیوست تھیں جن کی بنیادیں ان لوگوں نے رکھی تھیں کہ جو یا تو انسان کو مجبور محض سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ انسان اپنے افعال میں مختار نہیں ہے اور وہ عقل کو معطل کیے ہوئے تھے اور ذاتی حسن و قبح کے منکر تھے اور کہہ رہے تھے کہ کوئی چیز بھی بذات خود اچھی یا بری نہیں ہے اور ان کا عقیدہ تھا کہ خداوند سے (معاذاللہ) اگر کوئی برا فعل بھی سر زد ہو جائے تو درست ہے اور اس فعل کو برا فعل نہیں کہا جا سکے گا۔ ان لوگوں کے ہاں جنگ جمل اور جنگ جمل کے دونوں فریق برحق تھے یا دوسری طرف سے وہ لوگ تھے جنہوں نے انسان کو مختار کل قرار دیا اور معاذ اللہ خدا کے ہاتھ باندھ لیے ہیں۔ یا وہ لوگ جنہوں نے دین کو خرافات سے بھر دیا اور امام ہادیؑ  کے دور میں یہ سارے مسائل موجود تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کو بھی ان مسائل کا سامنا تھا چنانچہ امام ؑ نے ان تمام مسائل کا مقابلہ کیا اور ہر موقع و مناسبت سے لوگوں کے عقائد کی اصلاح کا اہتمام کیا۔
جبر و تفویض:
علم عقائد میں افراط و تفریط کے نام پر دو عقائد "جبر و تفویض” مشہور ہیں کہ جو حقیقت میں باطل عقائد ہیں۔شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضا (ج 1 ص 114) میں اپنی سند سے امام علی بن موسی الرضا ؑسے روایت کی ہے کہ آپؑ  نے فرمایا کہ:برید بن عمیر شامی کہتے ہیں کہ میں "مرو” میں امام رضا ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ؑسے عرض کیا: آپ کے جد بزرگوار امام صادق ؑ سے روایت ہوئی کہ آپ ؑنے فرمایا: نہ جبر ہے اور نہ ہی تفویض ہے بلکہ امر دو ان دو کے درمیان ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟
امام رضاؑ نے فرمایا: جو شخص گمان کرے کہ "خدا نے ہمارے افعال انجام دیئے ہیں [یعنی ہم نے جو کیا ہے وہ در حقیقت ہم نے نہیں کیا بلکہ خدا نے کیے ہیں اور ہم مجبور ہیں] اور اب ان ہی اعمال کے نتیجے میں ہمیں عذاب کا مستحق ٹہرائے گا”، وہ جبر کا عقیدہ رکھتا ہے۔ اور جس نے گمان کیا کہ خدا نے لوگوں کے امور اور رزق وغیرہ کا اختیار اپنے اولیاء اور حجتوں کے سپرد کیا ہے [جیسا کہ آج بھی بہت سوں کا عقیدہ ہے] وہ درحقیقت تفویض [خدا کے اختیارات کی سپردگی] کا قائل ہے، جو جبر کا معتقد ہوا وہ کافر ہے اور جو تفویض کا معتقد ہوا وہ مشرک ہے۔
بلکہ مناسب راستہ امر بین الامرین ہے جس نا تو خدا نے مکمل مجبور کر دیا ہے اورنا ہی مکمل آزاد کےکیا ہے۔
جبر و تفویض کا مسئلہ اور امام ہادی :
شہر اہواز [جو آج ایران کے جنوبی صوبے خوزستان کا دار الحکومت ہے] کے عوام نے امام ہادیؑ  کے نام ایک خط میں اپنے لیے در پیش مسائل کے سلسلے میں سوالات پوچھے جن میں جبر اور تفویض اور دین پر لوگوں کے درمیان اختلافات کی خبر دی اور چارہ کار کی درخواست کی۔
امام ہادیؑ نے اہواز کے عوام کے خط کا تفصیلی جواب دیا جو ابن شعبہ حرانی نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔
امامؑ نے اس خط کی ابتداء میں مقدمے کی حیثیت سے مختلف موضوعات بیان کیے ہیں اور خط کے ضمن میں ایک بنیادی مسئلہ بیان کیا ہے جو ثقلین (قرآن و اہل بیت) سے تمسک ہے جس کو امامؑ نے مفصل انداز سے بیان کیا ہے۔ اور اس کے بعد آیات الہی اور احادیث نبوی سے استناد کر کے حضرت امیر المؤمنین (ع) کی ولایت اور عظمت و مقام رفیع کا اثبات کیا ہے۔
(تحف العقول، ابن شعبہ حرّانی، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، صص339 ـ 338)
شاید یہاں یہ سوال اٹھے کہ "اس تمہید اور جبر و تفویض کی بحث کے درمیان کیا تعلق ہے ؟”، چنانچہ امام (ع) وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ہم نے یہ مقدمہ اور یہ امور تمہید میں ان مسائل کے ثبوت اور دلیل کے طور پر بیان کیے جو کہ جبر و تفویض کا مسئلہ اور ان دو کا درمیانی امر ہے۔
(تحف العقول ، ص340.)
شاید امام ہادیؑ  نے یہ تمہید رکھ کر جبر و تفویض کے مسئلے کو بنیادی طور حل کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر لوگ ثقلین کا دامن تھامیں اور اس سلسلے میں رسول اللہ الاعظم کے احکامات پر عمل کریں تو مسلمانان عالم کسی بھی صورت میں گمراہ نہ ہونگے اور انتشار کا شکار نہ ہونگے اور کبھی منحرف نہ ہونگے۔
امام ہادی (ع) اس تمہید کے بعد موضوع کی طرف آتے ہیں اور امام صادقؑ  کے قول شریف:
” لا جَبْرَ وَ لا تَفْویضَ و لكِنْ مَنْزِلَةٌ بَيْنَ الْمَنْزِلَتَيْن "
انسان نہ مجبور ہے نہ ہی اللہ نے اپنے اختیارات اس کو سونپ دیئے ہیں بلکہ امر ان دو کے درمیان ہے یا درمیانی رائے درست ہے۔
کا حوالہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:
"اِنَّ الصّادِقَ سُئِلَ هلْ اَجْبَرَ اللّٰه الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی؟ فَقالَ الصّادِقُ علیه‏السلام هوَ اَعْدَلُ مِنْ ذلِكَ۔ فَقیلَ لَهُ: فَهلْ فَوَّضَ اِلَيْهمْ؟ فَقالَ علیھ‏السلام : هوَ اَعَزُّ وَاَقْهَرُ لَهمْ مِنْ ذلِكَ”؛
امام صادقؑ سے پوچھا گیا کہ کیا خدا نے انسان کو نافرمانی اور معصیت پر مجبور کیا ہے؟
امامؑ  نے جواب دیا: خداوند اس سے کہیں زیادہ عادل ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔
پوچھا گیا: کیا خداوند متعال نے انسان کو اس کے حال پر چھوڑ رکھا ہے اور اختیار اسی کے سپرد کیا ہے؟
فرمایا: خداوند اس سے کہیں زیادہ قوی، عزیز اور مسلط ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔
امام ہادی ؑ مزید فرماتے ہیں: مروی ہے کہ امام صادقؑ نے فرمایا:
"النّاسُ فِی القَدَرِ عَلی ثَلاثَةِ اَوْجُهٍ: رَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ الاْمْرَ مُفَوَّضٌ اِلَيْهِ فَقَدْ وَهنَ اللّه‏َ فی سُلْطانِهِ فَهوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّٰه جَلَّ و عَزَّ اَجْبَرَ الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی وَكَلَّفَهمْ ما لا يُطیقُون فَقَدْ ظَلَمَ اللّٰه‏ فی حُكْمِهِ فَهوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّٰه‏ كَلَّفَ الْعِبادَ ما يُطیقُونَ وَلَمْ يُكَلِّفْهُمْ مالا يُطیقُونَ فَاِذا أَحْسَنَ حَمَدَ اللّٰه‏ وَاِذا أساءَ اِسْتَغْفَرَ اللّٰه؛ فَهذا مُسْلِمٌ بالِغٌ”۔
لوگ "قَدَر” پر اعتقاد کے حوالے سے تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں:
1- کچھ کا خیال ہے کہ تمام امور و معاملات انسان کو تفویض کیے گئے ہیں، ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے تسلط میں سست گردانا ہے، چنانچہ یہ گروہ ہلاکت اور نابودی سے دوچار ہو گیا ہے۔
2- کچھ لوگ وہ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسانوں کو گناہوں اور نافرمانی پر مجبور کرتا ہے اور ان پر ایسے افعال اور امور واجب قرار دیتا ہے جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے! ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے احکام میں ظالم اور ستمگر قرار دیا ہے چنانچہ اس عقیدے کے پیروکار بھی ہلاک ہونے والوں میں سے ہیں۔
3- تیسرا گروہ وہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسان کی طاقت و اہلیت کی بنیاد پر انہیں حکم دیتا ہے اور ان کی طاقت کے دائرے سے باہر ان پر کوئی چیز واجب نہیں کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر نیک کام انجام دیں تو اللہ کا شکر انجام دیتے ہیں اور اگر برا عمل انجام دیں تو مغفرت طلب کرتے ہیں؛ یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی اسلام کو پا چکے ہیں۔
(تحف العقول ص 371.)
اس کے بعد امام ہادیؑ  مزید وضاحت کے ساتھ جبر و تفویض کے مسئلے کو بیان کرتے ہیں اور ان کے بطلان کو ثابت کرتے ہیں۔
فرماتے ہیں کہ:
"اَمّا الْجَبْرُ الَّذی يَلْزَمُ مَنْ دانَ بِهِ الْخَطَأَ فَهُوَ قَوْلُ مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّه‏ جَلَّ وَ عَزَّ أجْبَرَ الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی و عاقَبَهُمْ عَلَيْها وَ مَنْ قالَ بِهذَا الْقَوْلِ فَقَدْ ظَلَمَ اللّٰه فی حُكْمِهِ وَ كَذَّبَهُ وَ رَدَّ عَليْهِ قَوْلَهُ:
«وَ لا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدا» (کہف/49.)
وَ قَوْلَهُ «ذلكَ بِما قَدَّمَتْ يَداكَ وَ اَنَّ اللّٰه لَيْسَ بِظَلاّمٍ لِلْعَبید”۔( حج/10.)
ترجمہ: جہاں تک جبر کا تعلق ہے ـ جس کا ارتکاب کرنے والا غلطی پر ہے ـ پس یہ اس شخص کا قول و عقیدہ ہے جو گمان کرتا ہے کہ خداوند متعال نے بندوں کو گناہ اور معصیت پر مجبور کیا ہے لیکن اسی حال میں ان کو ان ہی گناہوں اور معصیتوں کے بدلے سزا دے گا!، جس شخص کا عقیدہ یہ ہو گا اس نے اللہ تعالی کو اس کے حکم و حکومت میں ظلم کی نسبت دی ہے اور اس کو جھٹلایا ہے اور اس نے خدا کے کلام کو رد کردیا ہے جہاں ارشاد فرماتا ہے "تیرا پرورد‏گار کسی پر بھی ظلم نہیں کرتا”، نیز فرماتا ہے: "یہ ( عذاب آخرت ) اُسکی بناء پر ہے جو کچھ تُمہارے اپنے دو ہاتھوں نے آگے بھیجا ، اور بے شک اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے”۔
امامؑ  تفویض کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
"وَ اَمَّا التَّفْویضُ الَّذی اَبْطَلَهُ الصّادِقُ علیه ‏السلام وَ اَخْطَأَ مَنْ دانَ بِهِ وَ تَقَلَّدَه فَهوَ قَوْلُ الْقائِلِ: إنَّ اللّٰه جَلَّ ذِكْرُه فَوَّضَ إِلَی الْعِبادِ اخْتِیارَ أَمْرِه وَ نَهْيِهِ وَ أَهمَلَهمْ”؛
ترجمہ: اور جہاں تک تفویض کا تعلق ہے ـاس کو امام صادق (ع) نے باطل کر دیا ہے اور اس کا معتقد غلطی پر ہے ـ خداوند متعال نے امر و نہی [اور امور و معاملات کے پورے انتظام] کو بندوں کے سپرد کیا ہے اور اس عقیدے کے حامل افراد کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔
(تحف العقول ص 463.)
فرماتے ہیں کہ:
فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ اللّٰه‏ تَعالی فَوَّضَ اَمْرَه وَ نَهيَهُ إلی عِبادِهِ فَقَدْ أَثْبَتَ عَلَيْهِ الْعَجْزَ وَ أَوْجَبَ عَلَيْهِ قَبُولَ كُلِّ ما عَملُوا مِنْ خَيْرٍ وَ شَرٍّ وَ أَبْطَلَ أَمْرَ اللّه‏ وَ نَهْيَهُ وَ وَعْدَه وَ وَعیدَه، لِعِلَّةِ ما زَعَمَ اَنَّ اللّٰه‏ فَوَّضَها اِلَيْهِ لاِنَّ الْمُفَوَّضَ اِلَيْهِ يَعْمَلُ بِمَشیئَتِه، فَاِنْ شاءَ الْکفْرَ أَوِ الاْیمانَ کانَ غَيْرَ مَرْدُودٍ عَلَيْهِ وَ لاَ مَحْظُورٍ۔۔۔”
ترجمہ: پس جس نے گمان کیا کہ خدا نے امر و نہی [اور معاشرے کے انتظامات] کا کام مکمل طور پر اپنے بندوں کے سپرد کیا ہے اور ان لوگوں نے گویا خدا کو عاجز اور بے بس قرار دیا ہے اور انہوں نے [اپنے تئیں اتنا اختیار دیا ہے] کہ اپنے ہر اچھے اور برے عمل کو قبولیت کو اللہ پر واجب قرار دیا ہے! اور اللہ کے امر و نہی اور وعدہ و وعید کو جھٹلا کر باطل قرار دیا ہے؛ کیونکہ اس کا وہم یہ ہے کہ خداوند متعال نے یہ تمام امور ان ہی کے سپرد کیے گئے ہیں اور جس کو تمام امور سپرد کیے جاتے ہیں وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ پس خواہ وہ کفر کو اختیار کرے خواہ ایمان کا راستہ اپنائے، اس پر کوئی رد ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی رکاوٹ ہے۔
(تحف العقول ص 464.)
امام ہادیؑ  یہ دونوں افراطی اور تفریطی نظریات کو باطل کرنے کے بعد قول حق اور صحیح نظریہ پیش کرتے ہیں جو "امرٌ بین الأمرین” سے عبارت ہے، فرماتے ہیں کہ:
"لكِنْ نَقُولُ: إِنَّ اللّٰه‏ جَلَّ وَ عَزَّ خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِه و مَلَّكَهُمْ اِسْتِطاعَةَ تَعَبُّدِهمْ بِها، فَاَمَرَهمْ وَ نَهاهُمْ بِما اَرادَ، فَقَبِلَ مِنْهُمُ اتِّباعَ أَمْرِه وَ رَضِىَ بِذلِكَ لَهمْ، وَ نَهاهمْ عَنْ مَعْصِيَتِهِ وَ ذَمّ مَنْ عَصاه وَ عاقَبَهُ عَلَيْها”؛
ترجمہ: لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ: خداوند عزّ و جلّ نے انسان کو اپنی قوت سے خلق فرمایا اور ان کو اپنی پرستش اور بندگی کی اہلیت عطا فرمائی اور جن امور کے بارے میں چاہا انہیں حکم دیا یا روک دیا۔ پس اس نے اپنے اوامر کی پیروی کو اپنے بندوں سے قبول فرمایا اور اس [بندوں کی طاعت و عبادت اور فرمانبرداری] پر راضی اور خوشنود ہوا اور ان کو اپنی نافرمانی سے روک لیا اور جو بھی اس کی نافرمانی کا مرتکب ہوا اس کی ملامت کی اور نافرمانی کے بموجب سزا دی۔
(تحف العقول ص 465۔)
امام علی النقی الہادیؑ اور غلات (نصیریوں) کا مسئلہ:
ہر دین و مذہب اور ہر فرقے اور قوم میں ایسے افراد پائے جا سکتے ہیں جو بعض دینی تعلیمات یا اصولوں میں مبالغہ آرائی سے کام لیں یا بعض دینی شخصیات کے سلسلے میں غلو کا شکار ہوتے ہیں اور حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ برادر مکاتب میں صحابیوں کی عمومی تنزیہ اور ان سب کو عادل سمجھنا اور بعض صحابہ کو رسول اللہ (ص) پر فوقیت دینا یا صحابہ کی شخصیت اور افعال کا دفاع کرنے کے لیے قرآن و سنت تک کی مرضی سے تأویل و تفسیر کرتے ہیں اور اگر صحاح سے رجوع کیا جائے تو ایسی حدیثوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو ان ہی مقاصد کے لیے وضع کی گئی ہیں۔
لیکن یہ بیماری دوسرے ادیان و مکاتب تک محدود نہیں ہے بلکہ پیروان اہل بیت (ع) یا شیعہ کہلانے والوں میں بہت سے افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ حضرت امیر المؤمنینؑ کے زمانے سے جاری رہا اور ہمیشہ ایک گروہ یا چند افراد ایسے ضرور تھے جو آئمہ اہل بیتؑ  کی نسبت غلو کا شکار تھے اور غالیانہ انحراف میں مبتلا تھے۔
غالیوں کے یہ گروہ حضرات معصومین کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کر کے ان کے سلسلے میں غلو آمیز آراء قائم کرتے تھے اور بعض تو آئمہ معصومین کو معاذ اللہ الوہیت تک کا درجہ دیتے ہیں چنانچہ غلو کی بیماری امام ہادی ؑکے زمانے میں نئی نہیں تھی بلکہ غلو بھی دوسرے انحرافی عقائد کی مانند ایک تاریخی پس منظر کا حامل تھا۔
غلو کے مرض سے دوچار لوگ رسول اللہ کے وصال کے بعد ہر دور میں نظر آ رہے ہیں۔ حتی کہ امام سجاد (ع) کے زمانے میں بھی یہ لوگ حاضر تھے اور شیعیان اہل بیت ؑ کے لیے اعتقادی مسائل پیدا کر رہے تھے۔
نہ غالی ہم سے ہیں اور نہ ہمارا غالیوں سے کوئی تعلق ہے:
امام علی بن الحسین زین العابدینؑ  غالیوں سے یوں برائت ظاہر کرتے ہیں کہ:
"إنَّ قَوْما مِنْ شیعَتِنا سَيُحِبُّونا حَتّی يَقُولُوا فینا ما قالَتِ الْيَهودُ فی عُزَيْرٍ وَ قالَتِ النَّصاری فی عیسَی ابْنِ مَرْيَمَ؛ فَلا همْ مِنّا وَ لا نَحْنُ مِنْهمْ”۔
ترجمہ: ہمارے بعض دوست ہم سے اسی طرح محبت اور دوستی کا اظھار کریں گے جس طرح کہ یھودی عزیر (ع) کے بارے میں اور نصرانی عیسی (ع) کے بارے میں اظہار عقیدت کرتے ہیں نہ تو یہ لوگ (غالی) ہم سے ہیں اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے۔
(اختیار معرفة الرجال، طوسی، تصحیح و تعلیق حسن مصطفوی، ص102)
امام سجادؑ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ آئمہ (ع) اپنے عصری تقاضوں کے مطابق اس قسم کے انحرافات کا مقابلہ کرتے تھے اور اس قسم کے تفکرات کے سامنے مضبوط اور فیصلہ کن موقف اپناتے تھے اور ممکنہ حد تک انہیں تشیع کو بدنام نہیں کرنے دیتے تھے۔
امام سجاد (ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ:
أَحِبُّونا حُبَّ الاْسْلامِ فَوَ اللّٰه‏ ما زالَ بِنا ما تَقُولُونَ حَتّی بَغَّضْتُمُونا إلَی النّاسِ”۔
ترجمہ: ہم سے اسی طرح محبت کرو جس طرح کا اسلام نے تمہیں حکم دیا ہے؛ پس خدا کی قسم! جو کچھ تم [غالی اور نصیری] ہمارے بارے میں کہتے ہو اس کے ذریعے لوگوں کو ہماری دشمنی پر آمادہ کرتے ہو۔
(الطبقات الکبری، ابن سعد، دار صادر، ج5، ص214.)
امام علی النقی الہادیؑ کے زمانے میں غالی سرگرم تھے اور اس زمانے میں ان کے سرغنے بڑے فعال تھے جو اس گمراہ اور گمراہ کن گروپ کی قیادت کر رہے تھے چنانچہ امامؑ  نے اس کے سامنے خاموشی روا نہ رکھی اور مضبوط اور واضح و فیصلہ کن انداز سے ان کی مخالفت کی اور ان کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔
احمد بن محمد بن عیسی اور ابراہیم بن شیبہ، امام ہادی (ع) کے نام الگ الگ مراسلے روانہ کرتے ہیں اور اس زمانے میں غلات کے عقائد اور رویوں و تفکرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان کے بعض عقائد بیان کرتے ہیں اور امام ؑ واضح اور دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہیں کہ:
"لَيْسَ هذا دینُنا فَاعْتَزِلْهُ”ترجمہ: یہ ہمارا دین نہیں ہے چنانچہ اس سے دوری اختیار کرو۔
(اختیار معرفة الرجال (رجال کشی)، صص518 ـ 516.)
محمد بن عیسی کہتے ہیں کہ امام ہادی ؑ نے ایک مراسلے کے ضمن میں میرے لیے لکھا ہے کہ:
"لَعَنَ اللّٰه الْقاسِمَ الْيَقْطینی وَ لَعَنَ اللّه‏ عَلِىَّ بْنَ حَسْكَةِ الْقُمىّ، اِنَّ شَيْطانا تَرائی لِلْقاسِمِ فَيُوحی اِلَيْهِ زُخْرُفَ الْقَولِ غُرُورا”
ترجمہ: اللہ تعالی قاسم یقطینی اور علی بن حسکہ قمی پر لعنت کرے۔ ایک شیطان قاسم الیقطینی کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور باطل اقوال اقوال کو خوبصورت ظاہری صورت میں اس کو القاء کرتا ہے اور اس کے دل میں ڈال دیتا ہے اور اس کو دھوکا دیتا ہے۔
(رجال کشی ، ص518)
https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=668

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button