اعیاد شعبانمحافلمناقب امام حسین عمناقب و فضائل

عظمت امام حسین علیہ السلام قرآن اور احادیث کی روشنی میں

ازقلم: سیدبہادرعلی زیدی
امام حسین علیہ السلام آیۂ تطہیر میں :
﴿اِنّما یُرِیدُ اللّٰه لِیُذهبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهلَ البَیْتِ وَ یُطَهرَکُمْ تَطْهیراً‘‘(سوره اِحزاب٣٣)
شیعہ اور اہل سنت کی متواتر احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ آیہ کریمہ عالم خلقت کی ممتاز شخصیات کے زیرکساء، مقدس اجتماع کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔یہ آیت اور اس سلسلہ میں وارد ہونے والی احادیث حضرت امام حسین ؑ کی عصمت و جلالت اور بلندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
آیہ تطہیرصرف اہل بیت(ع) عصمت و طہارت، اصحاب کساء یعنی پیغمبر اسلام، حضرت علی، حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔شیعہ و سنی مصادر میں مختلف طرق سے وارد ہونے والی روایات ہمارے اس دعوے کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ یہ روایات امّہات المؤمنین، صحابہ و تابعین اور ائمہ(ع) سے نقل کی گئی ہیں۔
(حسینی مرعشی، احقاق الحق، ج٢، ص٥٠٢، ٥٧٣؛ موحد ابطحی، آیه تطهیر فی احادیث الفریقین، ج١، ص٢)
جنہیں چار گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
١۔ روایات مکان نزول
٭ حاکم نیشاپوری مستدرک صحیحین میں رقمطراز ہیں:
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ فِي بَيْتِي نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ ﴿إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً}، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ إِلَى فَاطِمَةَ وَ عَلِيٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْن‏۔۔۔فَقَال‏: اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي‏۔ قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ يَا رَسُولَ اللَّه‏! مَا أَنَا مِنْ أَهْلِ الْبَيْت؟ قَالَ إِنَّكِ لَعَلَى خَيْر وَ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي‏۔ اللَّهُمَّ أَهْلِي أَحَق‏۔
حاکم اس حدیث شریف کو بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح مانتے ہیں۔
(نیشاپوری، المستدرک علی الصحیحین، ج٣ ، ص ٢٥)
جناب امّ سلمہ اس آیۂ کریمہ کے محل نزول کو اپنا گھر بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی و فاطمہ و حسن و حسین علیھم السلام کو زیر کساء جمع کرکے دعا فرمائی اور میرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ میرے اہل بیت علیھم السلام بس یہی افراد ہیں۔
٭ حضرت عائشہ کہتی ہیں: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن بردیمانی کے ہمراہ تھے کہ امام حسن ؑ آئے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں چادر میں لے لیا پھر امام حسین ؑ آئے وہ بھی چادر میں چلے گئے پھر علی و فاطمہ(ع) بھی زیر کساء چلے گئے تو یہ آیت نازل ہوئی ۔
(صحیح مسلم، ج٧، ص ١٣٠؛ مصابیح السنه ، ج٢، ص ٢٧٨؛ ذخائر العقبیٰ، ص ٢٤)
”اوزاعی“ شدّاد بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب دربار میں سر امام حسین ؑ لایا گیا تو ایک مرد شامی نے امام اور ان کے والد بزرگوار کی شان میں جسارت کرنا شروع کردی، یہ دیکھ کر واثلہ بن اسقع کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: خدا کی قسم؛ میں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن جناب امّ سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے کہ حسن ؑ آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اپنی آغوش میں بٹھایا پھر امام حسینؑ آئے انہیں بھی اپنی آغوش میں بائیں طرف بٹھالیا، پھر فاطمہؑ آئیں انہیں اپنے سامنے بٹھایا پھر علیؑ کو بھی بلاکر اپنے پاس بٹھایا اور فرمایا: ﴿إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً}۔ اس وقت سے میں علی فاطمہ زہرا اور حسن و حسین علیھم السلام سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔
(اسد الغابة ج٢، ص ٢٠)
٢۔آیت کی تفسیر بیان کرنے والی روایات
٭ تفسیر طبری میں ابوسعید خدری سے اس طرح روایت کی گئی ہے:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي خَمْسَةٍ: فِيَّ وَ فِي عَلِيٍّ وَ حَسَنٍ وَ حُسَيْنٍ وَ فَاطِمَةَ۔۔۔
(جامع البیان ج١٢، ذیل آیہ)
اس روایت میں سبب نزول آیہ تطہیر صرف و صرف اصحاب کساء، انوار خمسہ سے مختص ہے۔
٭ مجمع الزوائد میں ابو سعید خدری سے نقل کیا ہے:
أَهْلِ الْبَيْتِ الَّذِينَ أَذْهَبَ اللَّهُ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهَّرَهُمْ تَطْهِيراً، وَ خَدّهم فِي يَدِهِ فَقَال‏: خَمْسَةٍ رَسُولِ اللَّهِ وَ عَلِيٍّ وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْن‏۔
(هیثمی؛ مجمع الزوائد ج٩، ص ١٦٥و ١٦٧)
اس روایت میں بھی سبب نزول آیت، اہل بیت علیھم السلام ہی سے وابستہ ہے اور آیت کے عینی و خارجی مضمون کی مکمل وضاحت کی گئی ہے۔
٭ صحیح مسلم میں زید ابن ارقم سے نقل کیا گیا ہے کہ کیا زنان پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہلبیت(ع) میں شمار ہوتی ہیں؟ تو وہ کہتے ہیں:
لَا، وَ ايْمُ اللَّهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْعَصْرَ مِنَ الدَّهْرِ ثُمَّ يُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إِلَى أَبِيهَا وَ قَوْمِهَا، أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ وَ عَصَبَتُهُ الَّذِينَ حُرِّمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَه‏۔
(مسلم نیشاپوری، صحیح مسلم، ج٧، ص ١٣٣)
اس روایت میں سرور کائنات کے مشہور صحابی زنان پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عنوان اہلبیت(ع) کے صادق آنے کی نفی کرتے ہیں۔
٣۔ نزول آیہ تطہیر کے بعد آنحضرت ؐ کے عمل کو بیان کرنے والی روایات
جلال الدین سیوطی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں:
شهدت رسول الله تسعة اشهر یأتی کل یومٍ باب علی بن ابی طالب عند وقت کل صلاة فیقول: السلام علیکم و رحمة الله و برکاته اهل البیت، ﴿إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً)
(الدرالمنثور، ج٦، ذیل آیہ)
اس روایت سے واضح ہے کہ سرکار رسالت، سرور کائنات نو ماہ تک روزانہ بوقت نماز در خانۂ علی و بتول و حسنین علیھم السلام پر آتے اور با آواز بلند فرماتے: ﴿إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ ۔۔۔} اور اہل بیت(ع) کہہ کر سلام فرماتے تھے۔
٤۔ ائمہ و بعض صحابہ کا اس آیت کے ذریعہ احتجاج بیان کرنے والی روایات
طبری، ابن اثیر اور سیوطی نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی بن الحسین (امام سجاد ) نے امام و اسیران کربلا کی توہین کرنے والے مرد شامی سے فرمایا: اے شخص کیا تو نے سورہ احزاب کی اس آیت ”إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ۔۔۔“ کو پڑھا ہے؟ کہا: کیوں نہیں؟ لیکن کیا آپ ہی اس کے مصداق ہیں؟ امام نے فرمایا: ہاں ہاں۔
(جامع البیان، ج١٢، ذیل آیه؛ الدرالمنثور ج٦، ذیل آیه؛ تفسیر القرآن کریم العظیم ج٣، ذیل آیہ)
البتہ مذکورہ روایت دیگر مصادر میں کامل طور سے آئی ہے اور امام نے اس طرح جواب دیا ہے:
”نحن اهل البیت الذی خصصنا بآیة التطهیر۔”
(خوارزمی، مقتل الخوارزمی، ج٢، ص ٦١)
توجہ: اس موقع پر اس اہم نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرانا مناسب ہے کہ نہ صرف یہ کہ تمام شیعہ علماء و دانشمند حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت تطہیر انوار خمسہ، اصحاب کساء کے بارے میں نازل ہوئی ہے بلکہ بعض منصف مزاج اہل سنت حضرات نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ امت اسلامی کا اتفاق ہے کہ یہ آیہ مبارکہ صرف و صرف اہل بیت(ع) عصمت و طہارت انوار خمسہ طیبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ مثلاً:
١۔ علامہ بجتم آفندی:
”امت اسلامی کا اتفاق ہے کہ آیہ ﴿إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ} حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین علیھم السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔“
(بجتر افندی: تاریخ آل محمد (طبع آفتاب، ص ٤٢)
٢۔ علامہ حضرمی:
“حدیث آیہ تطہیر حدیث صحیح و مشہور و مستفیض ہے جو معنی و مدلول کے اعتبار سے متواتر اور امت اسلامی کے نزدیک مورد اتفاق ہے۔”
(حضرمی: القول الفصل، ج١ ، ص ٤٨)
قرآن کریم کی روشنی میں امام حسین ؑ کا فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا:
سوال کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی کس آیت کی روشنی میں امام حسین فرزند رسول کہلائے جاتے ہیں؟
جواب: آیۂ مباہلہ ہی وہ آیت ہے جس کے ذریعے امام حسین فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہلائے جاتے ہیں۔ شیعہ مفسرین و محدثین نے تصریح کی ہے کہ یہاں ”أبناء نا” امام حسن و حسین(ع) سے مخصوص ہے۔ ورنہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔ اور یہ بھی ناممکن تھا کہ پیغمبر اگر تنہا چلے جاتے یا حسنین کے علاوہ کسی اور کو لے جاتے اور دعا کرتے تو دعا قبول نہ ہوتی۔ بلکہ جب پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا کرتے تو یقیناً دعا قبول ہوتی اور سارے عیسائی عذاب الٰہی میں گرفتار ہوجاتے۔ لیکن پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاید اسی حکمت کے تحت حضرات حسنینٍٍؑ کو لیکر جارہے تھے تاکہ آیت کے مطابق امام حسن اور امام حسین(ع) کا فرزند رسول ہونا بھی ثابت ہوجائے نہ فقط ثابت ہوجائے بلکہ انہی مقدس حضرات میں فرزندیت محدود ہوجائے اور پھر کوئی غیر، فرزند رسول ہونے کا دعویٰ نہ کرسکے۔
شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری کتاب شریف احقاق الحق میں فرماتے ہیں:
” اجمع المفسّرون علٰی أنَّ ”أبناء نَا ” اشارة اِلی الحسن والحسین ، و ”نِسَاء نَا” اِلی فاطمة و ”أنفسَنا” اشارَة اِلی علی ۔”
مفسّرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ ”ابناء نا” سے مراد حسن و حسین علیھم السلام ، ”نساء نا” سے مراد فاطمہ زہرا اور ”أنفسنا” سے مراد علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔
شہید کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امر پر شیعہ و سنی مفسرین کا اجماع ہے۔ اس کے علاوہ شہید جلد سوم و نہم یعنی ملحقات احقاق الحق میں ایک سو پچاس سے زیادہ اہل سنت کی معروف کتب کے نام بیان کرتے ہیں جن میں تفسیر فخر رازی جیسی مختلف راویوں سے روایات نقل کی گئی ہیں۔
(قاضی نور الله شوستری، ج٣، ص ٦٢۔ ٤٦ و ملحقات احقاق الحق ج١٠، ص ٩١۔ ٧٠)
واحدی، کتاب اسباب النزول میں فخر رازی جیسی روایت نقل کرتے ہوئے شعبی سے نقل کرتے ہیں:
”أبناء نا: الحسن و الحسین، ونساء نا: فاطمة، و أنفسنا: علی ابن ابی طالب”
(واحدی، اسباب النزول، ص ٥٩)
”ابناء نا” سے مراد حسن و حسین ، ”نساء نا” سے مراد فاطمہ زہراء اور ”أنفسنا” سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔
امام حسین علیہ السلام مصداق ذوی القربی
آیۂ مودّت:
﴿قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى)، (سوره شوریٰ آیه ٢٣)
امام حسین ؑ کی عظمت و رفعت بیان کرنے والی آیات میں سے ایک یہ آیۂ کریمہ ہے۔
احمد بن حنبل اپنی ”مسند” میں اور ابو نعیم حافظ، ثعلبی، طبرانی، حاکم نیشاپوری، رازی، شبراوی، ابن حجر، زمخشری، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، سیوطی اور دیگر علماء اہل سنت حضرات نے ابن عباس سے روایت کی ہے: جب یہ آیہ مبارکہ نازل ہوئی تو لوگ پیغمبر اکرم ؐ کے پاس آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کے قرابت دار جن کی مودت ہم پر واجب قرار دی گئی ہے کون ہیں؟
سرورکائنات نے ارشاد فرمایا: علی وفاطمہ(ع) اور ان کے دونوں بیٹے۔
(احیاء ا لمیت، ج٢؛ الاتحاف، ص ٥؛ صواعق ص ١٦٨؛ الأکلیل، ص ١٩١؛ الغدیر ج٢ ، ص٣٠٧؛ خصائص المبین، ج٥، ص ٥٢ تا ٥٥؛ عمدہ ابن بطریق، ف ٩ ، ص ٢٣ تا ٢٥)
شافعی کہتے ہیں:
یَا أهلَ البَیْتِ رَسُولِ اللّٰه حُبُّکُم
فَرَض مِنَ اللّٰه فی القرآن کریمِ أنْزَلَه
کَفَا کُمْ مِن عظیم القدر أَنَّکُمْ
مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْکُم لَا صلواة لَه
(نظم در رالسمطین، ص ١٨؛ اسعاف الراغبین، ص ١٢١؛ الاتحاف ص ٢٩؛ صواعق، ص١٤٨)
”اے اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ کی محبت کو واجب قرار دیا ہے اور آپ کی قدر و منزلت کے لئے یہی کافی ہے کہ اگر نماز میں کوئی آپ پر صلوات نہ پڑھے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوسکتی۔”
امام حسین علیہ السلام مصداق شہداء
﴿وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا)(نساء، آيه٦٩)
اور جو بھی اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جس پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفیق ہیں۔
جناب امّ سلمہؓ سے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: ”الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ” میں ہوں، ”الصِّدِّيقِينَ“ سے مراد علی ابن ابی طالب(ع) ، ”الشُّهَدَاء“ سے مراد حسن و حسین(ع) ، ”الصَّالِحِينَ“ سے مراد حمزہ اور ”حَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا“سے مراد میرے بعد بارہ امام ہیں۔
(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ١٨٣؛ علامه مجلسی، بحار،ج، ۳۴، ص۳۴۷، ح٢١٤؛ بحرانی، البرہان، ج١،ص ٣٩٢ ، ح٣)
امامت نسل امام حسین علیہ السلام میں
﴿وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ) (سوره زخرف ، آيه٢٨)
اور انہوں نے اس پیغام کو اپنی نسل میں ایک کلمہ باقیہ قرار دیدیا کہ شاید وہ لوگ خدا کی طرف پلٹ آئیں۔
ابو ہریرہ سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیۂ کریمہ کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ”جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِي عَقِبِ الْحُسَيْنِ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ تِسْعَةٌ مِنَ الْأَئِمَّةِ وَ مِنْهُمْ مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ ثُمَّ قَالَ : لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَ الْمَقَامِ ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ مُبْغِضاً لِأَهلِ بَيْتِي دَخَلَ النَّارَ“۔
(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ٧٦؛ علامہ مجلسی، بحار، ٣٦، ص٣١٥، ح١٦٠؛ بحرانی، البرهان، ج٤، ص١٤٠، ح٩)
پروردگار نے حسین ؑ کی نسل میں امامت کو قرار دیا ہے اور ان کے صلب سے نو امام آئیں گے جن میں آخری مہدی (عج) ہوں گے۔
پھر فرمایا: اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان خدا کی عبادت کرتا ہوا مرجائے اور اس کے دل میں بغض اہل بیت(ع) ہو تو یقینا جہنم واصل ہوگا۔
امام حسین علیہ السلام مظلوم
جیسا کہ امام حسینؑ کے القاب میں سے ایک لقب ”مظلوم“ مشہور ہے بلکہ یہ لقب امام حسینؑ کے نام کے ساتھ اتنا کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ جب لفظ ”مظلوم کربلا“ زبان پر آتا ہے یا کانوں سے سنائی دیتا ہے تو فوراً ذہن میں امام حسین ؑ ہی کا نام آجاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ کبھی کبھی سوال ہوتا ہے کہ کیا قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بھی امام حسین ؑ کا یہ لقب ثابت کیا جاسکتا ہے؟
جواب: قرآن کریم کتاب ہدایت ہے اس میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہے لیکن قرآن کریم میں موجود ہر خشک و تر کو وہ ہی بیان کرسکتا ہے جسے قرآن کریم کا پورا علم ہو، قرآن کریم میں کلّی احکامات کو بیان کیا گیا ہے جبکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہل بیت(ع) مفسر و مبیّن قرآن کریم ہیں۔ انہی کے فرمودات کے مطابق ہم ایسی آیات کا مشاہدہ کرتے ہیں جن میں مظلومیت کا تذکرہ موجود ہے اور اہلبیت(ع) نے ان کی تفسیر بیان کی ہے۔
امام حسین کے اس مشہور و معروف لقب کی زیارت نامہ ، دعاؤوں اور احادیث میں بے حد تاکید کی گئی ہے مثلاً زیارت اربعین میں آیا ہے : ”السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيد۔۔۔“
(تهذیب، ج٦، ص ١١٣؛ مفاتیخ الجنان، ص ٨٤٨؛ بحار الانوار، ج٤٤، ص٢١٨۔ ٢١٩۔ ٢٩٨؛ ج٥١ ص ٣٠؛ ینابیع المودّة، ج٣، ص ٢٤٣؛ تاویل الآیات الظاهرة فی فضائل العترة الطاهرة ج١، ص ٢٨٠)
بعض مفسرین نے بھی روایات کو مدّنظر رکھتے ہوئے بعض آیات کو امام حسین ؑ پر تطبیق کیا ہے؛ مثلاً
١۔ ﴿سَیَعْلَمُ الذینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ} (سوره شعراء، آيه٢٢٧)
عنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائیں گے۔
٢۔ ﴿ومَنْ قُتِلَ مَظلوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّه سُلْطَاناً} (سوره اسراء، آيه٣٣)
جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلے کا اختیار دیدیتے ہیں۔
یہ آیت لوگوں کے خون کو محترم اور ان کے قتل کی شدید حرمت بیان کرتے ہوئے متوجہ کررہی ہے کہ خبردار کسی کو مظلومانہ قتل نہ کرنا اگر کسی نے ایسا کیا تو یاد رکھو ان کے ولی اور وارث کے لئے حق قصاص ثابت و مسلم ہے۔ روایت میں یہ مفہوم شہادت امام حسین ؑ پر تطبیق کیا گیا ہے۔ کسی شخص نے امام جعفر صادق ؑ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایا:
”هُوَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ قُتِلَ مَظْلُوماً وَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُهُ وَ الْقَائِمُ مِنَّا إِذَا قَامَ طَلَبَ بِثَأْرِ الْحُسَيْن‏۔۔۔”
اس سے مراد حسین ؑ ہیں جو مظلومانہ قتل کئے گئے ہیں اور ہم ان کے وارث ہیں اور ہمارے قائم (حجة بن الحسن العسکری ) ان کے انتقام کیلئے قیام کریں گے۔(تفسیر نور الثقلین، ج٤، ص ١٨٢)
امام حسین علیہ السلام ثاراللّٰہ
امام حسین ؑ کے القاب میں سے ایک لقب ”ثَارَ اللَّه“ مشہور ہے ، اس کے کیا معنی ہیں؟ کیا قرآن کریم کی روشنی میں امام حسین ؑ پر اس لقب کا اطلاق کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
جواب: کلمہ ”ثَارَ“ ، ”ثأر” و ”ثُؤره” سے ماخوذ ہے جس کے معنی انتقام، خون خواہی اور خون ہیں۔
(مجمع البحرین، ج١، ص٢٣٧؛ فرهنگ فارسی، ج١، ص ١١٨٥؛ مفردات راغب، ص٨١)
”ثَارَ اللَّه“ کے مختلف معنی بیان کئے گئے ہیں اور مجموعی طور پر اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ ان کا ولی ہے اور وہی ان کے دشمنوں سے خون بہا چاہتا ہے اس لئے کہ کربلا میں امام مظلوم کے خون بہانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے قاتلوں نے حریم و حرمت الٰہی سے تجاوز کیا ہے اور وہ خالق کائنات کے مدّ مقابل آگئے تھے بنابریں ان کے انتقام کا حق بھی خدا ہی کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ اہل بیت(ع) عصمت و طہارت ”آل اللہ” ہیں لہٰذا ان کے خون کا بدلہ بھی خدا ہی کے ذمّہ ہے۔
(درسهائی از زیارت عاشورا، ص ١٤؛ شرح زیارت عاشور، ص ٣٥)
پروردگار عالم قرآن پاک میں ارشاد فرمارہا ہے: ﴿مَنْ قُتِلَ مَظلوماً فَقَد جَعَلْنَا لِوَلِیّه سُلْطَاناً} (سوره اسراء، آيه٣٣)
؛ جسے مظلومانہ قتل کیا گیا ہے ہم نے اس کے ولی کے لئے حق قصاص قرار دیا ہے۔
اور پھر دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ﴿اللّٰه وَلِیُّ الَّذِین اٰمَنُوا} (سوره بقره، آيه ٢٥٧)
، خدا اہل ایمان کا ولی و سرپرست ہے۔
بلاشک اہل بیت(ع) مؤمنین اول ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان کے بلند ترین درجہ پر فائز ہیں۔ لہٰذا خداوند عالم درحقیقت ان مقدس حضرات کا ”ولی” و سرپرست ہے۔
دنیا میں کوئی بھی اگر مظلومانہ قتل کردیا جائے تو اس کے اولیاء اور متعلقین کو حق قصاص و خون بہا حاصل ہے۔ بنابریں کیونکہ امام حسین راہ خدا میں مظلومانہ شہید کئے گئے ہیں لہٰذا ان کا ولی و سرپرست ہونے کے ناطے وہ ہی منتقم خون حسین ؑ بھی ہے اگرچہ بظاہر ان کی آل و اولاد کیلئے حق قصاص محفوظ ہے۔
یہ بات بھی بیان کردینا مناسب ہے کہ کلمہ ”ثَارَ الله“ امام حسین کی کئی زیارات میں استعمال ہوا ہے جیسے زیارت عاشور وغیرہ یہ مقدس زیارت محدّثین و راویوں کے نقل کے مطابق احادیث قدسی میں سے ہیں یعنی درحقیقت یہ الفاظ معصوم میں کلام خدا ہے۔
(مفاتیح الجنان، ص ٨٣٨؛ مصباح المتهجد، ص ٧٢٠؛ کامل الزیارات، ص٣٢٨؛ اقبال الاعمال، ص ٣٤١)
حضرت امام حسین علیہ السلام سنت کے آئینے میں
١۔ جوانان جنت کے سردار
احمد بن حنبل نے مسند میں ، بیہقی نے سنن میں،طبرانی نے معجمِ اوسط اور معجم کبیر میں ، ابن ماجہ نے سنن میں، سیوطی نے جامع الصغیر والحاوی اور الخصائص الکبریٰ میں، سنن ترمذی میں، مستدرک حاکم میں، علامہ ابن حجر عسقلانی نے صواعق محرقہ میں، ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں، ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ میں، ابن عبدالبر نے الاستیعاب میں، بُغوی نے مصابیح السنة میں، ابن اثیر نے اُسد الغابة میں، حموینی شافعی نے فرائد السمطین میں، ابوسعید نے شرف النبوّة میں، محب طبری نے ذخائر العقبی میں، ابن السمان نے اپنی کتاب الموافقہ میں، نسائی نے خصائص امیر المومنین میں، ابونعیم نے معروف کتاب ”الحلیة” میں خوارزمی نے مقتل میں، ابن عدی نے کامل میں، مِنادی نے کنوز الحقائق وغیرہ میں متعدد اسناد کے ساتھ صحابہ و اہل بیت مثلاً حضرت علی ، ابن مسعود، حذیفہ، جابر، حضرت ابوبکر و عمر، عبداللہ بن عمر، قرة، مالک ابن الحویرث، بریدہ ابن سعید خدری، ابو ہریرہ، اسامہ براء اور اَنس وغیرہ نے پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ حضؐور سرور کائنات نے امام حسن و حسین(ع) کایہ کہہ کر تعارف کروایا: ”الحسن والحسین سَیِّدا شَبَابِ أَهلِ الجَنَّةِ“؛ حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔
اس سلسلے میں کثرت سے ان تمام حضرات سے وارد ہونے والی روایات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہاامام حسن و امام حسین(ع) کا تعارف اس عظیم صفت کے ساتھ کرایا ہے۔
لہٰذا یاد رہے کہ امام حسن و امام حسین(ع) جنت کے سردار ہیں اور کوئی بھی ان کی مخالفت کرکے ان سے جنگ کرکے یا ان سے بغض و عداوت اور دشمنی کرکے جنت میں جانے کی توقع نہ رکھے۔
امام حسین علیہ السلام محبوب پیغمبؐر
ایک مرد مؤمن کی نظر میں عظمت امام حسین ؑ کی معرفت کیلئے پیغمبؐر عظیم الشان اسلام کی یہی احادیث کافی ہیں جن میں حضؐور سرور کائنات نے ارشاد فرمایا ہے: ”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْن“؛ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔
یعلی بن مرّہ کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین کو گود میں اٹھا کر فرمایا: ”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط“
(سنن ابن ماجه، ج١، ص ٦٥؛ مصابیح السنة، ج٢، ص ٢٨١؛ ترمذی ، ج١٣، ص ١٩٥ و ١٩٦؛ اُسد الغابة، ج٥، ص ١٣٠ و٥٧٤ و ج٢ ص١٩؛ کنز العمال ، ج٦، ص ٢٣٣ و ج٣ ،ص ٣٩٥ ؛ مطالب السؤل، ص٧١ )
حسین ؑ مجھ سے ہیں اور میں حسین ؑ سے ہوں اور اللہ اسے محبوب رکھتا ہے جو حسین ؑ کو محبوب رکھتا ہے اور یاد رکھو! حسین ؑ میرے سبطوں میں سے ایک سبط ہے۔
بخاری، ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے یہی حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے۔
”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط“
(الجامع الصغیر، ج١، ص١٤٨؛ کنزالعمال ج٦، ص٢٢٣ ح٢٩٥٣؛ امالی الشریف المرتضیٰ، ج١، ص ٢١٩)
حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوں اللہ اسے دوست رکھتا ہے جو حسین ؑ سے محبت رکھتا اور یاد رکھو حسن ؑ و حسین ؑ میرے اسباط میں سے دو سبط ہیں۔
”شرباصی“قاموس سے ”حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط و أمَّة من الاّمَمِ“ حسین میرے اسباط میں سے ایک سبط اور امتوں میں ایک امت ہے، نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: ”سِبْطٌ“کے معنی جماعت و قبیلہ ہیں اور شاید حدیث کے معنی یہ ہیں کہ مقام و مرتبہ اور عظمت و رفعت کے اعتبار سے ایک امت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یا یہ کہ ان کا اجر وثواب ایک امت کے اجر و ثواب کی مانند ہے۔(حفیدة الرسول، ص ٤٠)
ابن اثیر جذری نے بھی اپنی معروف کتاب ”النِهَايَة“ میں اس حدیث کو مادۂ سبط میں نقل کیا ہے اور جملہ ”سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط“ کے بارے میں کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ حسین ؑ کارخیر میں امتوں میں سے ایک امت ہیں۔
جبکہ مرحوم طریحی، مجمع البحرین میں ایک دوسرے معنی بھی بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں ”ممکن ہے کہ اس حدیث میں ”سِبْطٌ“ ”قبیلہ” کے معنی میں استعمال کیا ہو اور اس سے مراد یہ ہو کہ نسل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہی سے قائم و دائم رہے گی اس لئے کہ ”سِبْطٌ“کے مختلف معنا میں سے ایک یہ بھی ہیں کہ ”سِبْطٌ“ اس درخت کو کہتے ہیں جس کی بیحد شاخیں ہوں۔ابن عبدالبر اور مسلم و شبلنجی نے ابوہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ حضؐور سرور کائناتت نے حسؑن و حسؑین کے بارے میں فرمایا ہے:”اللَّهمَّ اِنّی اُحِبُّهمٰا وَاَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّهمٰا“؛ پروردگار میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان لوگوں سے محبت فرما جو انہیں دوست رکھے۔
(الاستیعاب،ج١، ص ٣٧٦؛ نور الابصار، ص١٠٤؛ السیرة النبویة ، ج٣، ص٣٦٨)
بُغوی، ترمذی، سید احمد زینی، ابن اثیر اور نسائی نے اسامہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: میں ایک شب کسی طلب حاجت کیلئے آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور گیا۔ حضؐور باہر تشریف لائے اور ان کی عباء میں کوئی چیز تھی لیکن مجھے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کیا ہے؟ میں نے اپنی حاجت بیان کرنے کے بعد سوال کیا اے حبیب خدا یہ کیا ہے؟ حضؐور نے کچھ کہے بغیر اس کے اوپر سے عباء ہٹادی، دیکھا کہ حسؑن و حسیؑن ہیں؛ فرمایا:”هذان اِبنَایَ وَ اِبنَا ابنَتِی اللَّهمَّ اِنّی اُحِبُّهما فَاَحِبَّهما و أحِبَّ مَنَ یُحِبُّهمٰا“؛ یہ دونوں میرے اور میری بیٹی کے فرزند ہیں پروردگار یہ مجھے بہت عزیز ہیں جو انہیں عزیز رکھے تو بھی انہیں عزیز رکھ۔
جناب ترمذی نے اس روایت کو براء سے بھی نقل کیا ہے۔
(مصابیح السنة، ج٢، ص ٢٨٠؛ ترمذی، ج١٣، ص ١٩٢ و ١٩٣ و ١٩٨؛أسد الغابة، ج٢ ، ص ١١؛ خصائص نسائی، ص ٥٢و ٥٣)
ترمذی و بغوی نے أنس سے روایت نقل کی ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال ہوا کہ آپ اپنے اہل بیت(ع) میں زیادہ محبت کس سے کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: حسؑن و حسؑین سے۔
سیوطی و مناوی نے بھی نقل کیا ہے:”أحَبُّ أَهلِ بَیتِی اِلَیَّ الحَسَنُ والحُسَینُ“
(مصابیح السنّة ، ج٢، ص ٢٨١؛ ترمذی، ج١٣، ص١٩٤؛ الجامع الصغیر، ج١، ص ١١، کنوز الحقایق، ج١، ص١١؛ ذخائر العقبیٰ ، ص ١٤٣؛نورالابصار، ص ١١٤)
ترمذی و بغوی نے جناب أنس سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمؑہ سے فرمایا: ”اُدْعِی لِی اِبنَیَّ فَیَشُمُهمٰا و یَضُمُهمٰا الیه“
(مصابیح السنّة ، ج٢، ص ٢٨١؛ ترمذی، ج١٣، ص١٩٤؛ الجامع الصغیر، ج١، ص ١١، کنوز الحقایق، ج١، ص١١؛ ذخائر العقبیٰ ، ص ١٤٣؛نورالابصار، ص ١١٤)
اے بیٹی میرے بیٹوں حسؑن و حسیؑن کو بلاؤ، جب وہ آئے تو آنحضرؐت انہیں لپٹا کر پیار کرتے اور استشمام کرتے۔
اسی طرح احمد ابن حنبل، ابن ابی شیبہ، صَبان، محب طبری وغیرہ نے امام حسین سے پیمبر گرامی قدر کی محبت وا لفت اور والہانہ عشق و عقیدت کے بارے میں بیحد احادیث نقل کی ہیں۔
یہ تمام وہ روایات ہیں جن میں امام حسین سے محبت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور محبت کا حکم دیا ہے اِسی طرح کی ایک روایت محب طبری نے ذخائر العقبیٰ میں اس انداز سے نقل کی ہے۔
وہ احمد ابن حنبل یعلی بن مّرہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حسن و حسین علیھم السلام اپنے جدّ بزرگوار سرورکائنات کی خدمت میں مشرف ہونے کیلئے دوڑے دوڑے آئے ان میں ایک دوسرے سے پہلے پہنچ گئے حضور نےفوراً انہیں گود میں لیکر اپنے سینہ سے لپٹالیا اور پیار کرنے لگے اورپھر دوسرے فرزند پہنچے تو آنحضرؐت نے انہیں بھی اسی طرح اٹھا کر سینے سے لگا کر پیا رکیا اور پھر فرمانے لگے:
”اِنّی أُحِبُّهمٰا فَأحِبُّوهمٰا“ میں ان دونوں سے پیار کرتا ہوں تم لوگ بھی ان سے اسی طرح محبت کرو۔
اور دوسری وہ روایات ہیں جن میں امام حسین سے بغض کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ ابن حجر ھیثمی اپنی معروف کتاب صواعق میں ہارون رشید سے اور وہ اپنے بزرگوں اور ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ حضور سرور کائنات نے ارشاد فرمایا ہے:”مَن أحَبَّ الحسن و الحسین فقد أَحَبَّنِی و مَنْ أَبْغَضَهمٰا فَقد أَبْغَضَنِی“؛ جو حسن و حسین سے محبت رکھتا ہے وہ مجھ سے محبت رکھتا اور جو ان سے دشمنی رکھتا ہے وہ مجھ سے دشمنی رکھتا ہے۔
(ابن حجر عسقلانی، صواعق، ص ٩٠؛ بحار الانوار، ج٤٣، ص ٣٠٣)
اس روایت میں دو نکتے قابل فہم ہیں اور وہ یہ ہے:
١۔ گویا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ محبت حسین ، محبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علامت ہے۔ اگر تم مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو حسین ؑ سے محبت رکھنا اس لئے کہ مجھ سے محبت و عقیدت کا دارو مدار حسین ؑ کی محبت پر ہے۔
اسی طرح حسین ؑ سے دشمنی، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی کی علامت ہے، جو بھی حسین ؑ کا دشمن ہے، حسینؑ کے مشن کا دشمن ہے ، حسین ؑ کی عزاداری کا دشمن ہے اور حسین ؑ کی تعلیمات کا دشمن ہے وہ گویا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن اور ان کی تعلیمات کا دشمن ہے لہٰذا اگر محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعویٰ ہے تو یہ دیکھ لو کہ دل میں حسین ؑ کی کتنی محبت ہے!؟
٢۔ در حقیقت امام حسین ؑ سے دشمنی پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی ہے لہٰذا خبردار کیا گیا ہے کہ دشمنان حسین ؑ سے بھی محبت نہیں رکھنی چاہیے جو لوگ حسین ؑ کے دشمن ہیں چاہے وہ تاریخ کے کسی دور میں بھی ہوں خود ان سے بھی محبت نہیں رکھنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک طرف حسین ؑ سے محبت کا دعویٰ ہو اور دوسری طرف امام حسن ؑ و حسین ؑ کے دشمنوں کی محبت کو دلوں میں جگہ دے رکھی ہو یہ دونوںمتضاد چیز ہیں محبت حسؑین نور ہے اور بغض حسیؑن تاریکی ہے، محبت حسیؑن ہدایت ہے اور بغض حسیؑن گمراہی ہے۔ لہٰذا محبت حسؑین کے ساتھ ساتھ اس بات کا خیال رہے کہ دل میں ان کے دشمنوں کی محبت نہ آنے پائے۔
مسند احمد میں ہارون رشید کی بیان کردہ دو احادیث میں سے ایک کی عبارت کچھ اس طرح نقل ہوئی ہے: ”الحسنُ والحسینُ مَنْ أحَبَّهما فَفِی الجَنَّة و مَنْ أَبغَضَهما فَفِی النَّار“؛ جس نے حسؑن و حسیؑن کو دوست رکھا وہ اہل بہشت میں سے ہے اور جس نے ان سے عداوت و دشمنی کی وہ اہل جہنم سے ہے۔(مسند احمد، ج٢ ، ص٢٨٨ )
محبت حسیؑن کی عظمت و فضیلت اور بغض حسیؑن کی مذمت:
محبت و بغض حسیؑن کے سلسلہ میں وارد ہونے والی ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت حسیؑن کی فضیلت یہ ہے کہ ان کی محبت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہے، ان کی محبت خدا کی محبت ہے اگر کوئی خدا پر یقین رکھتا ہے اس کی توحید کا اقرار کرتا ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لایا ہے اور ان سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ امام حسین ؑ سے محبت رکھے ان کا مطیع و فرمانبردار رہے ان کی پاکیزہ سیرت کو اپنے لیے نمونہ حیات قرار دے ورنہ محبت حسیؑن سے دل کو خالی رکھ کر اعلان توحید و رسالت پیغمبؐر فقط ایک دعویٰ ہی رہے گا اور اس کی کوئی حقیقت نہ رہے گی اور نہ ہی یہ عقیدہ توحید و رسالت اس شخص کو کوئی فائدہ ہی پہنچا سکے گا۔
اسی طرح ان تمام روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بغضِ حسیؑن اور ان سے عداوت و دشمنی کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
حسیؑن سے عداوت و دشمنی کرکے ان روایات کی روشنی میں وہ مسلمانوں کا سربراہ ہونا تو بہت دور کی بات ہے اسلام و قرآن کریم اور مزاجِ توحید و لسان وحی کے مطابق مسلمان کہلائے جانے کے قابل بھی نہیں ہے بلکہ دشمن حسین ؑ، دشمن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دشمن خدا ہے اور روز محشر اس کا وہ ہی انجام ہونے والا ہے جو خدا رسول کے دشمنوں کا ہوگا۔
امام حسین علیہ السلام راکب دوش رسالت
امام حسین ؑ کے فضائل و مناقب بیان کرنے والی بعض روایات میں اس طرح بھی نقل ہوا ہے پیغمبؐر امام حسنؑ و حسین ؑکو اپنے کاندھوں پر سوار کرکے لوگوں کے سامنے لیکر آتے اور ان کا تعارف کراتے تاکہ لوگ اچھی طرح ان کے مقام و مرتبہ کو پہچان لیں مثلاً: ایک مرتبہ حضوؐر سرورکائنات، سرکار رسالت اس انداز سے گھر سے باہر تشریف لائے کہ دائیں کاندھے پر حسؑن اور بائیں کاندھے پر حسیؑن تھے اور آنحضرتؐ کبھی امام حسن کو پیار کرتے اور کبھی امام حسین کو پیار کرتے اور اسی انداز سے لوگوں کے درمیان آئے اور پھر فرمایا: جس نے انہیں دوست رکھا اس نے مجھے دوست رکھا، جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی۔
اس سلسلہ میں اہل سنت کے بہت سے علماء مثلاً: علامہ حجر عسقلانی نے ابوہریرہ سے اسی طرح دیگر افراد نے ابن مسعود، جابر اور انس وغیرہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امام حسین ؑ سے اس انداز محبت کو نقل کیا ہے۔
(الاصابة ج١، ص ٢٣٠، ح١٧١٩؛ الجامع الصغیر، ج٢ ، ص ١١٨؛ ذخائر العقبیٰ، ص١٢٣و ١٣٢)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلسل امام حسن و امام حسین(ع) کو اپنے کاندھے پر سوار کیا ہے اور ان کی عظمت و فضیلت کا قصیدہ پڑھا ہے۔ یہاں تک کہ یہ حضرات نماز و دیگر حالات میں بھی سوار دوش رسالت ہوتے تھے لیکن پیغمبرؐ نے کبھی انہیں منع نہیں بلکہ لطف و محبت کا اظہار کرتے اور لوگوں کو بھی ان سے محبت و دوستی کا حکم فرماتے تھے۔
ابو سعید نے ”شرف النبوّة” میں روایت کی ہے کہ آنحضرتؐ تشریف فرما تھے کہ حسؑن و حسیؑن ان کی طرف آئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جیسے ہی انہیں دیکھا، کھڑے ہوگئے اور انہیں گود میں لیکر اپنے کاندھوں پرسوار کرلیا، پھر فرمایا: ” نِعْمَ المَطِیُّ مَطِیَّتُکما، و نِعمَ الرَّاکبانِ أنْتُمٰا“ (ذخائر العقبیٰ، ص ١٣٠)
کتنی اچھی سواری ہے یہ، اور کتنے اچھے سوار ہو تم۔
شبلخی نے اس طرح روایت کی ہے کہ ایک دن آنحضرؐت کا حسن و حسین(ع) کے پاس سے گزر ہوا تو سرکار رسالت نے اپنی گردن مبارک جھاو کر انہیں اپنے دوش مبارک پر بٹھالیا اور فرمایا: ”کتنی اچھی ہے ان کی سواری اور کتنے اچھے ہیں یہ سوار“
(ذخائر العقبیٰ، ص ١٣٠ )
جمال الدین زرندی حنفی، ترمذی اور ابن حجر نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب سرکار رسالت، حضؐور سرورکائنات نے حسیؑن کو اپنے دوش پر سوار فرمایا تو ایک شخص دیکھ کر کہنے لگا: واہ! کیا سواری ہے!
پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً فرمایا: ”نِعمَ الرَّاکب هوَ“
(ترمذی، ج١٣، ص ١٩٨و ١٩٩؛ نظم در رالسمطین، ص٢١٢؛ صواعق، ص١٣٥)
تم نے سواری دیکھی ہے کہ کتنی اچھی ہے ارے سوار بھی تو دیکھو کتنا اچھا ہے!
زرندی جو کہ اہل سنت کے عظیم عالم محدث و حافظ ہیں، نے اپنی معروف کتاب در رالسمطین میں جابر، سعد اور انس وغیرہ سے بھی دیگر روایات نقل کی ہیں۔
امام حسین علیہ السلام ریحان پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اہل سنت کے بعض مشہور و معروف محدثین نے حضرت علؑی، ابن عمر، ابو ہریرہ ، سعید بن راشد اور ابوبکر وغیرہ سے روایت کی ہے کہ حضوؐر سرورکائنات نے فرمایا: ”اِنّ الحسن والحسین همٰا رَیْحٰانَتَای مِنَ الدُّنیا“؛حسؑن و حسیؑن دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔یہ حدیث مختلف الفاظ سے کثرت سے وارد ہوئی ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرؐت نے مکرر یہ بھی فرمایا ہے
(صحیح بخاری، ج٢، ص ١٨٨؛ ترمذی، ج١٣، ص ١٩٣؛ اسد الغابة، ج٢، ص ١٩؛ الاصابة، ج١، ص٣٣٢؛ مصابیح السنة ،ج، ص٢٧٩ و٢٨٠؛ کنوز الحقائق، ج١، ص ٦٣و٦٧و ج٢، ص ١٥١؛ خصائص نسائی ص ٥٤؛ کنزالعمال، ج٦، ص ٢٢٠، ح٣٨٧٤ و ص٢٢١، ح٣٩١٢؛ نظم در رالسمطین، ص٢١٢؛ مطالب السؤل ص٥٦؛ صواعق ص ١٩١)
اور اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یاد رکھو یہ میرے پھول ہیں لہٰذا امّت کو چاہیے کہ انہیں پھول کی طرح رکھیں لیکن افسوس! آنحضرؐت کے چلے جانے کے بعد کسی نے ایک پھول کے جنازے پر تیر برسائے اور دوسرے پھول کی پتیوں کو کربلا کے صحرا میں ظلم و ستم کے ذریعہ مسل دیا گیا۔
سعید بن راشد نقل کرتے ہیں: حسن و حسین دوڑتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو پیغمبؐر نے فوراً ایک کو ایک گود میں اور دوسرے کو دوسری گود میں اٹھالیا اور فرمایا: ”هذان رَیْحٰانَتَا یَ مِنَ الدّنیا مَنْ أَحَبَّنِی فَلْیُحِبُّهمٰا“
”یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اسے چاہیے کہ انہیں محبوب رکھے۔“ (ذخائر العقبیٰ، ص ١٢٤)
امام حسین شبیہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بخاری و ابن اثیر نے روایت کی ہے کہ جب سر امام حسین کو عبید اللہ ابن زیاد کے پاس لایا گیا تو ایک طشت میں رکھا گیا۔ ابن زیاد تلوار یا چھڑی امام حسین کی نازنین آنکھوں اور چہرے پر لگاتا اور ان کی خوبصورتی بیان کرتا یہ دیکھ کر انس کہنے لگے: اے ابن زیاد! یہ اہل بیت میں سب سے زیادہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ تھے۔
(صحیح بخاری، ج٢، ص ١٨٨؛ اسد الغابة، ج٢، ص ٢٠؛ البدء والتاریخ، ج٦، ص ١١)۔
نوٹ: ادارے کا مقالہ نگار کی تمام آراء سے متفق ہونا ضرروی نہیں۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button