سلائیڈرعقائدنبوت

بعثت کی حقیقت

 بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحمدللّٰہ رب ّالعالمین والعاقبہ للمتقین والصّلوہ والسّلام علی خیر خلقہ محمد وآلہ اجمعین۔امّا بعد: فقدقال اللّٰہ تبارک وتعالی فی القرآن المجید:
ولقد بعثنا فی کلّ امہ رسولاً ان اعبدوا اللّٰہ واجتنبو االطاغوت(سورہ نحل، ۳۶)
اور یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی اطاعت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
مقدمہ:
فلسفہ بعثت ایک اساسی اور بنیادی موضوع ہے،براہ راست اس کا تعلق انسانی زندگی و حیات کے ساتھ ہے لہذا اس موضوع کو کھولنے کی ضرورت ہے، تجز یہ وتحلیل کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے اصلی چہرہ کی حقیقت کو جاننے کی ضرورت ہے۔ اس کے اہداف اور مقاصد پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔اس کے علل و اسباب کو جاننے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہم حقیقت بعثت کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
حقیقت بعثت
بعثت کا واقعہ تاریخ اسلام بلکہ تاریخ بشریت میں بے پناہ اہمیت کا حامل ہے لیکن اس کے باوجود یہ واقعہ کتب تاریخ کے دامن میں افسانوی رنگ اور قبائلی مفادات میں لپٹا ہوا ہے لہذا اس کی اصل حقیقت کو جاننے کی اشد ضرورت ہے۔
بعثت کا تعلق سب سے پہلے انسان کی ذات سے ہے اس کے بعد دوسری چیزوں سے اس کا تعلق ہے۔جب تک کسی حقیقت کو اس کا اپنا مقام نہ ملے اور اس کو اس کی حقیقی جہت سے نہ دیکھا جائے تب تک انسان غفلت اور تاریکی میں سرگردان اور حیران رہتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید کو ہی لیجیے، مسلمانوں کے پاس ہوتے ہوئے بھی مسلمان ہزار ہا مشکلات میں گرفتار ہیں۔ اس کی علت یہی ہے کہ قرآن کو اپنا مقام نہیں ملا ہے قرآن کو جہاں ہونا چاہیے تھا وہاں قرآن نہیں ہے۔
ایک اور مثال ناظرین محترم کی خاطر پیش کرتا ہوں، امامت کو ہی لیجیے،علماء نے اس کو کلامی نگاہ سے زیادہ دیکھا جس کی وجہ سے امامت کا اصلی ہدف فوت ہوگیا۔ امامت فقط ایک مسئلہ کلامی نہیں ہے بلکہ امامت ایک سسٹم ہے،ایک مکمل نظام ہے۔ اس سسٹم کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ نافذ کرنے سے ہی اس کو اپنا مقام حاصل ہوجاتا ہے۔
بعثت کے ساتھ بھی ا یسا ہی معاملہ ہے اکثر و بیشترعلماء نے اس کو تاریخی و کلامی تناظر سے دیکھا ہےجس کی وجہ سے اس کا اصلی مقصد حاصل نہیں ہوا لیکن اگر اس کو فلسفی و عرفانی تناظر سے دیکھا جائے تو اس کا حقیقی چہرہ سامنے آتا ہے اور اس کی عظمت ورفعت کا صحیح اندازہ ہوجاتا ہے۔
بعثت عربی لفظ ہے جس کے معنی ہے ابھارنا، اٹھانا، آمادہ کرنا۔لیکن خدا ئے متعال کی جانب سے بعثت بہت وسیع معنی کا حامل ہے جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنے دائرے میں لئے ہوئے ہے جس کے بہت ہی سادہ اور بہت ہی واضح مصادیق یہ ہیں:۔
بعثت یعنی شرک کے خلاف ابھارنا۔
بعثت یعنی جہالت کے خلاف ابھارنا۔
بعثت یعنی ظلم و فساد کے خلاف ابھارنا ۔
بعثت یعنی نسل پرستی کے خلاف ابھارنا ۔
بعثت یعنی غلامی کی زنجیروں کےخلاف لوگوں کو اٹھانا۔
بعثت یعنی خرافات و بدعات کے خلاف قیام کرنا۔
بعثت یعنی زمانے کے طاغوتوں کے خلاف قیام کرنا۔
بعثت یعنی زمانے کے مستکبروں اور ڈکٹیٹروں کے خلاف قیام کرنا۔
بعثت یعنی جھوٹے اقدار کی نابودی کے خلاف قیام کرنا ۔
بعثت یعنی لسانی، قبائلی، قومی اور وطنی امتیازات کے خلاف قیام کرنا۔
بعثت یعنی مثالی معاشرہ اور قرآنی معاشرہ کی تشکیل کے لئے قیام کرنا۔
بعثت یعنی معاشرے میں صحیح وحقیقی اقدار کی ترویج کے لئے لوگوں کو آمادہ کرنا۔
بعثت یعنی اسلام کے آفاقی اور حقیقی پیغام کو دنیا کے تمام حریت پسند انسانوں تک پہنچانا۔
بعثت یعنی اسلام ناب محمدی کی صحیح شناخت سے لوگوں آگاہ کرنا۔
بعثت یعنی لوگوں کو اسلامی جہان بینی اور آئیڈیالوجی کی صحیح شناخت کے حصول کےلئے آمادہ کرنا۔
بعثت یعنی اسلام کے حقیقی راہنماؤں کو لوگوں کے سامنے متعارف کروانا۔
بعثت یعنی انسانی استعدادوں اور صلاحیتوں کو شکوفا کرنا۔
بعثت یعنی انسانی معاشرہ کو قرآنی تعلیمات سے ہمکنار کرنا۔
بعثت یعنی انسان کی تعمیر وترقی کا خاکہ ونقشہ بنی نوع انسان کے سامنے پیش کرنا۔
بعثت یعنی سماجی انصاف کے پھیلاؤ کے لئے وسیع پیمانے پر کوشش کرنا۔
خلاصہ کلام بعثت توحیدی اور الہیٰ پرچم کو دنیا کے ہر کونے میں لہرانا۔
زمین پر رونما ہونے والے حوادث میں سے سب سے بڑا حادثہ مسئلہ بعثت ہے۔  کیونکہ اس حادثہ میں عمق اور گہرائی پائی جاتی ہے حقیقتاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کی تاریخ کا آغاز اس حادثہ سے ہوا ہے۔لیکن مسئلہ بعثت جس طرح سے محل توجہ واقع ہونا چاہیے تھا اس طرح سے مورد توجہ قرار نہیں پایا ہے۔ بعثت ایک دن کا نام نہیں کہ جس میں یہ ماجرا واقع ہوا ہے بلکہ بعثت ایک کلچر ہے، ایک تفکر ہے، ایک مکتب ہے، ایک سسٹم ہے، ایک مکمل آئیڈیالوجی ہے، خدا وند عالم کا ایک عظیم لطف ہے، ایک امر مستمر ہے نہ امر منقطع یعنی بعثت ایک ایسا واقعہ نہیں ہے کہ جو ۲۷ رجب المرجب کو وقوع پذیر ہوا ہے اور پھر آئندہ تاریخ کے ساتھ اس کا کوئی رابطہ نہیں ہے یہ بعثت کی غلط تفسیر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای دامت برکاتہ بعثت کی حقیقت کے بارے میں فرماتے ہیں:
آج رسول اسلامﷺ کی بعثت کو صدیاں گزر چکی ہیں لیکن عصر حاضر کے ترقی یافتہ طاقتور انسانوں کو، پہلے سے بھی زیادہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پرامن پیغامات اور انسانیت آفریں تعلیمات کی ضرورت ہے۔
بعثت کا ہر عصر میں ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ بعثت انسانی حیات کی ضامن ہے، انسان کی بقا ء اسی پر موقوف ہے جس طرح سے زمین کو ہر وقت بارش کی ضرورت ہے زمین بارش سے زندہ ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے: وانزل من السّماء ماء فأحیابہ الارض بعد موتہا۔یعنی ہم نے آسمان سے بارش نازل کی ہے اور اس سے زمین دوبارہ زندہ ہوئی ہے۔ اس میں ایک نئی حیات آجاتی ہے، زمین کے اندر جتنے خزانے اور امانتیں ہوتی ہیں وہ نمایاں ہوجاتی ہیں۔ اگر بارش نہ برسے تو زمین کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سے بعثت ایک نوع حیات ہے، پانی کی حیات اس کی روانی میں ہے جو پانی رکا ہوا ہوتا ہے اس پانی کو فارسی میں "مرداب” کہا جاتا ہے یعنی اس پانی کو مرا ہوا پانی کہا جاتا ہے۔ انسان ایک امر مسلسل سے زندہ ہے اور وہ امر مسلسل بعثت ہے۔ بعثت کے ذریعے سے ہی انسان کو مادی ومعنوی حیات مل سکتی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
يَا أَيُّہا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّٰہ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ(انفال ۲۴)
اے ایمان والو اللہ و رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمہاری زندگی ہے۔
اس آیہ مبارکہ میں بعثت کو زندگی اور حیات سے تعبیر کیا گیا ہے جو معاشروں کو ترقی عطا کرکے تقاضوں کی تکمیل کی راہ دکھاتی ہے۔
بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ جہالت، تاریخ کے محض کسی خاص دور سے مخصوص ہے اور اس کو دور جہالت کا نام دیا گیا ہے اور عالم بشریت اُس دورسے گزر چکا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ زمانہ جب انسان، انسانیت کی حدوں سے دور ہوجاتا ہے اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے جہالت کے دائرے میں پہنچ جاتاہے اور دنیا اسے اپنا اسیر بنا لیتی ہے چاہے وہ کوئی بھی دور اور زمانہ ہو اور کسی بھی نئی شکل میں کیوں نہ جلوہ گر ہوئی ہو۔
سید قطب معاشرے کو جاہلی اور اسلامی حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں: آج ہم اسی جہالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں جو اسلام کے ظہور کے دور میں تھی اور ہمارے اطراف میں جو بھی ہے اس سے بھی زیادہ جاہلانہ ہے۔ ہمارا وظیفہ یہ ہے کہ پہلے اپنے اندر تغییر و تبدیلی پیدا کریں تا کہ اسی بنا پر معاشرے کو تبدیل کر سکیں۔ اسلام دو معاشرے سے زیادہ نہیں جانتا، ایک جاہلی معاشرہ دوسرا اسلامی معاشرہ۔ اسلامی معاشرہ وہ ہے کہ جس کے تمام پہلؤوں میں عقیدہ، عبادت، شریعت اور احکام سلوک اور اسلامی اخلاق عملی شکل اختیار کریں۔ اور جاہلی معاشرہ وہ ہے کہ جس میں اسلام پر عمل نہیں ہوتا۔ سید قطب کی یہ سیاسی فکر ہم کو امام خمینی کی یاد دلاتی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا: حکومت یا طاغوت ہے یا اسلام ہے۔ حقیقت میں سید قطب کا عقیدہ ہے کہ جس اسلام کی دشمن تبلیغ کرتے ہیں اس میں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے لائے ہوئے اسلام میں بہت زیادہ فرق ہے۔ سید قطب پہلے مفکر ہیں جنہوں نے "امریکی اسلام” کا لفظ پیش کیا۔ اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کے جس معاشرے کے لوگ مسلمان ہیں لیکن اسلام کے احکام پر عمل نہیں کرتے، چاہے نماز پڑہیں، روزہ رکھیں، حج کریں ایسا معاشرہ کسی بھی طرح اسلامی نہیں کہلاتا بلکہ جاہلی معاشرے کی صف میں قرار پاتا ہے۔ اور جو معاشرہ خدا کو مانتا ہے لوگوں کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ دین کو دوسرے معاشرے میں پھیلائے، بلکہ صرف اجازت دیتا ہے کہ لوگ خدا کی مسجدوں میں عبادت کریں، یہ معاشرہ بھی جاہلی معاشرہ ہے۔
بعثت کے پہلو
بعثت کے دو پہلو ہیں: ایک باطنی پہلو ہے اور ایک ظاہری پہلو ہے۔
باطنی پہلو کا تعلق حضرت رسول اکرمﷺ کی ذات سے ہے۔اور ظاہری پہلو کا معاشرے سے ہے۔
حضرت رسول اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے چالیس سالہ زندگی میں کوئی ایسا نمونہ نظر نہیں آتا ہے کہ جس میں پیغمبر اسلام نےموجود ہ حالات کے خلاف عمومی وہمہ گیر قیام کیا ہو اگر چہ حضرت رسول اکرم ﷺدلی طور سے موجودہ حالات سے راضی نہیں تھے اور ہر گز جاہلیت کےحالات اور جاہلی احکام کے مقابلے میں تسلیم نہیں ہوئے۔ لہذا بعثت کے پہلے مرحلے کا تعلق رسول اکرم ﷺکے باطن سے ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ پہلے مرحلہ میں پیغمبر اسلامﷺ نے اپنے آپ کو آمادہ کیا، اپنے آپ کو مبعوث کیا، اپنے باطن میں ایک عظیم انقلاب ایجاد کیا ، اسی انقلاب کے نتیجے میں معاشرے میں ایک عظیم انقلاب بعثت کی صورت میں وجود میں آیا ۔
یہاں پر ہم یہ نکتہ بھی استنباط کر سکتے ہیں کہ مصلح بننے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مرحلے میں مصلح اپنے آپ کی اصلاح کرے ،اپنے نفس کی اصلاح کرے ،اپنے باطن کی اصلاح کر ے۔ حضرت علیؑ اس مطلب کی یوں وضاحت کرتے ہیں، فرماتے ہیں :
"من نصب نفسہ للنّاس اماماً فلیبدأ بتعلیم نفسہ قبل تعلیم غیرہ
جو لوگوں کا پیشوا بنتا ہے تو اسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے کو تعلیم دینا چاہیے۔ ”
ضرورت بعثت انبیاءؑ
کیا ہماری عقل وشعور حقائق کو سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے؟ کیا انسان کی علمی ترقی پوشیدہ اسرار کو کشف کر نے اور تمام حقائق کو واضح کر نے کے لئے کافی اور مددگار نہیں ہے؟
جواب
چند نکات کی طرف توجہ کر نے سے ان تمام سوالات کے جوابات انسان کو حاصل ہوجاتے ہیں:
۱ ۔ ہمارے علم ودانش کی محدودیت
ہمیں جاننا چاہیے کہ ہمارا علم وشعور محدود ہے۔ بشر کو نصیب ہوئی تمام علمی ترقی کے باوجود آج جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ ہمارے نہ جاننے کے مقابلہ میں ایک سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ اور ایک پہاڑ کے مقابلہ ایک تنکے کے مانند ہے۔ یا بعض بڑے دانشوروں کے کہنے کے مطابق جو بھی علوم آج ہمارے اختیار میں ہیں وہ کائنات کی کتاب ہستی کے الف باء کے برابر ہیں۔
دوسرے الفاظ میں ہمارے فیصلہ اور عقلی ادراک کا دائرہ ایک چھوٹے سے علاقہ کے مانند ہے کہ علم ودانش کی شعاعوں نے اسے روشن کیا ہے اور ہم اس کے باہر کی دنیا سے بالکل بے خبر ہیں۔
انبیاء آتے ہیں اور اس وسیع علاقہ کو ہماری ہر ضرورت کی حد تک روشن کرتے ہیں۔حقیقت میں ہماری عقل ایک قوی اور تیز روشنی والے لیمپ کے مانند ہے،لیکن انبیاء اور آسمانی وحی کی مثال تمام عالم کو روشن کر نے والے سورج کے مانند ہے۔ کیا ایک قوی اور تیز روشن لیمپ رکھنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ میں سورج کا محتاج نہیں ہوں ؟!
واضح تر عبارت میں زندگی کے مسائل کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :”معقول“،”غیر معقول“ اور”مجہول“۔
انبیاء ہر گز نا معقول بات،یعنی عقل وخرد کے خلاف نہیں کہتے اور اگر ایسی بات کہیں تو وہ انبیاء نہیں ہیں۔وہ مجہولات کو سمجھنے اور درک کر نے میں ہماری مدد کرتے ہیں اور یہ بات ہمارے لئے بہت اہمیت رکہتی ہے۔
لہذا وہ افراد جو زمانہ ماضی میں کہتے تھے کہ عقل وخرد کے ہوتے ہوئے ہم انبیاء کے محتاج نہیں ہیں،(جیسے برہمن جو ہندوستان اور بعض دیگر علاقوں میں رہتے ہیں)یا وہ لوگ جوآج یہ کہتے ہیں کہ ان تمام علمی ترقیوں اور کا میابیوں کے بعد انسان انبیاء اور ان کی تعلیمات کا محتاج نہیں ہے، تو وہ نہ انسان کے علم ودانش کی وسعت سے باخبر ہیں اور نہ انبیاء کی رسالت کا ادراک رکھتے ہیں۔
ان لو گوں کی مثال اس بچے کی ہی ہے جوپہلی جماعت میں الف باء پڑھنے کے بعد کہے کہ میں سب کچھ جا نتا ہوں اور مجھے معلم و استاد کی ضرورت نہیں ہے، کیا اس کی یہ بات بے بنیاد نہیں ہے؟
۲۔تعلیم کے اعتبار سے احتیاج
اگر ہم نور کی ایک خیالی اور افسانوی سواری پر سوار ہو کر تین لاکھ کیلو میٹر (پچاس ہزار فرسخ)فی سیکنڈ کی رفتار سے اس لامحدود کائنات کی سیر کریں تو کسی شک وشبہہ کے بغیر ہمیں حضرت نوحؑ کی عمر جیسی ہزاروں عمریں در کار ہوں گیں تاکہ ہم اس وسیع و عریض کائنات کے صرف ایک گوشے کا نظارہ کرسکیں۔
یہ کائنات اپنی ان تمام حیرت انگیز وسعتوں کے ساتھ یقیناً عبث اور فضول نہیں بنائی گئی ہے اور جیسا کہ ہمیں توحید کے اسباق میں معلوم ہوا ہے کہ اس کائنات کا کوئی بھی فائدہ یا نفع خداوند متعال کے لئے نہیں ہے کیونکہ وہ ایک ایسا وجود ہے جو ہر لحاظ سے کامل،بے نیاز، لامحدود اور ہر نقص وعیب سے پاک ہے۔اس نے اس کائنات کو اس لئے نہیں بنایا ہے کہ اپنے کسی نقص کو بر طرف کرے۔
اس لئے ہم یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ خداوند متعال کا مقصد یہ ہے کہ دوسروں پر جو دو کرم کرے اور تمام موجودات کو تکا مل تک پہنچا دے ،جیسے سورج جو ہم زمین والوں پر چمکتا ہے حالانکہ وہ ہمارا محتاج نہیں ہے ۔سورج کی یہ روشنی صرف ہمارے فائدے کے لئے ہے ورنہ ہم سورج کے لئے کون سی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔
کیا ہمارے لئے رشد و تکامل کی راہ کو طے کرنے اور انسان کامل کے مرحلہ تک پہنچنے کے لئے صرف ہماری معلومات کافی ہیں؟
ہم اس کائنات کے اسرار ورموز میں سے کتنے اسرار کے بارے میں آگاہ ہیں؟ بنیادی طور پر ہماری زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ یہ کائنات کب سے وجود میں آئی ہے؟کوئی بھی شخص ان سوالات کے صحیح اور دقیق جوابات نہیں جانتا۔ یہ کائنات کب تک باقی رہے گی؟ اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔
اجتماعی اور اقتصادی زندگی کے لحاظ سے بھی ہر دانشور اپنا ایک خاص نظریہ رکہتا ہے۔
مثلاً ایک گروہ”سر مایہ داری“نظام کا قائل ہے جبکہ دوسرا گروہ ”سوشلزم“اور ”کمیونزم“ کے نظریات کا حامی ہے اور تیسرا گروہ نہ پہلے کو قبول کر تا ہے اور نہ ہی دوسرے کو بلکہ دونوں گروہوں کے نظریات کو نقصاندہ جان کر مسترد کرتا ہے۔
اسی طرح زندگی کے دیگر مسائل میں بھی دانشوروں کے نظریات میں کافی اختلافات پائے جاتے ہیں۔
انسان حیران وپریشان ہو جاتا ہے کہ ان نظریات میں سے کس نظریہ کو قبول کرے۔؟!
انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس بات کا اعتراف کیا جانا چاہیے کہ خلقت کے بنیادی اور حقیقی مقصد یعنی ”انسان کی تمام جہات میں پرورش، بالید گی اور تکامل“کی منزل تک پہنچنے کے لئے ایسی تعلیمات کی ضرورت ہے جو صحیح اور حقیقی ہوں اور ہر قسم کی خطاؤں سے پاک اور زندگی کے حقائق کے مطابق ہوں، ایسی تعلیمات جو اس طویل راہ میں اصلی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے انسان کی مددگار ثابت ہوسکیں۔
اور یہ سب کچھ صرف علم خدا یعنی انبیاء کے ذریعہ حاصل ہو نے والی الہٰی وحی سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے جس خدانے ہمیں اس کو طے کرنے کے لئے پیدا کیا ہے، ضروری ہے کہ وہ ایسا علم ودانش بھی ہمارے اختیار میں قرار دے۔
۳۔اجتماعی اور اخلاقی مسائل میں رہبری کی احتیاج
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے وجود میں” عقل وخرد “کے علاوہ ایک اور قوت بھی موجود ہے کہ جس کا نام ”غرائز اور خواہشات“ ہے:خود پسندی کا غریزہ، خشم وغضب کا غریزہ ،شہوت کا غریزہ اور اس قسم کے بہت سے دیگر غرائز اور خواہشات۔
بیشک اگر ہم اپنے غرائز کو قابو میں نہ رکہیں تو وہ ہم پر مسلط ہو جائیں گے حتی ہماری عقل وخرد کو بھی اسیر بنالیں گے اور انسان تاریخ کے ظالموں اور جابروں کی طرح ایسے بھیڑیے کی شکل اختیار کرلے گا جو ہر اعتبار سے جنگل کے بھیڑیوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔
ہم اخلاقی تربیت کے لئے ایک تربیت کرنے والے استادکے محتاج ہیں،ہم ایک”نمونہ“اور ”اسوہ“کے محتاج ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہر لحاظ سے ایک کامل اور تربیت یافتہ انسان اس خطرناک اور نشیب و فراز سے پر راستے میں ہمارا ہاتھ پکڑ لے اور ہمیں غرائز وخواہشات کے طغیان سے بچائے، اخلاقی فضائل کے اصولوں کو اپنے کردار وعمل سے ہمارے دل وجان میں نقش کردے اور ہماری روح میں شجاعت، شہامت، انسان دوستی، مروت، عفو وبخشش، وفادری، سچائی، امانت داری اور پاک دامنی کو پروان چڑہائے۔
بعثت کے علل واسباب
بعثت کے علل واسباب کیا ہیں؟ یعنی کس معاشرہ میں بعثت کی ضرورت پڑتی ہے؟ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ بعثت کے پیچھے کون سے عوامل ہیں کہ جن کے نتیجے میں بعثت کا واقع ہونا ضروری ہوجاتا ہے؟
حضرت علی ابن ابی طالبؑ نے نہج البلاغہ میں معاشرہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:
بعثت سے پہلے کا معاشرہ جس کو عصر جاہلیت کےنام سے یاد کیا جاتا ہے۔
عصر بعثت کا معاشرہ جس کو عصر شکوفائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
عصر بعثت کے بعد والا معاشرہ جس کو عصر جمود کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ جہالت، تاریخ کے محض کسی خاص دور سے مخصوص ہے اور اس کو دور جہالت کا نام دیا گیا ہے اور عالم بشریت اس دورسے گزر چکا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ زمانہ جب انسان، انسانیت کی حدّوں سے دور ہوجاتا ہے اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے جہالت کے دائرے میں پہنچ جاتاہے اور دنیا اسے اپنا اسیر بنا لیتی ہے چاہے وہ کوئی بھی دور اور زمانہ ہو اور کسی بھی نئی شکل میں کیوں نہ جلوہ گر ہوئی ہو۔
سید قطب معاشرے کو جاہلی اور اسلامی حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں آج ہم اسی جہالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں جو اسلام کے ظہور کے دور میں تھی اور ہمارے اطراف میں جو بھی ہے اس سے بھی زیادہ جاہلانہ ہے۔ ہمارا وظیفہ یہ ہے کہ پہلے اپنے اندر تغییر و تبدیلی پیدا کریں تا کہ اسی بنا پر معاشرے کو تبدیل کر سکیں۔ نہج البلاغہ میں حضرت علیؑ نے بعثت کے علل واسباب کو تفصیلی طور پر بیان کیا ہے۔بعض اسباب اعتقادی ہیں، بعض اخلاقی ہیں اور بعض اجتماعی ہیں یہاں پر ہم اختصار کے ساتھ بعض علتوں کی طرف اشارہ کریں گے۔
اعتقادی اسباب
طلوع اسلام سے قبل عرب مختلف مذاہب اور خود ساختہ اقدار کو سینے سے لگائے ہوئے تھے، کہیں پر بت پرستی ہو رہی تھی اور کہیں پر آتش پرستی سے سکون قلب کا ساما ن مہیا کیا جارہا تھا،کہیں سورج کی پرستش ہو رہی تھی اور کہیں پر انسان جسے اشرف المخلوقات بنایا گیا تھا ،ستاروں کے آگے سر بسجود تھا،خانہ کعبہ اصنام پرستی کا مرکز تھا۔
حضرت علیؑ عصربعثت میں لوگوں کے عقائد کی تصویر کشی ان الفاظ میں کرتے ہیں:
وَاَہلُ الاَرضِ یَؤمَئِذٍ مِلَلٌ مُتفرّقة، وأہواءُ مُنتَشِرَة، وطَرَائِقُ مُتَشَتِّتَة،بَینَ مُشبِّہ لِلّٰہ بِخلقِہ ،أومُلحِدٍ فِی اِسمِہ،أومُشیرٍاِلی غَیرِہ (خطبہ ،١)
”اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب، منتشرخواہشات اورمختلف راستوں پرگامزن تھے۔ بعض خدا کو مخلوقات سے تشبیہ دیتے تھے۔ کچھ اس کے ناموں کوبگاڑدیتے تھے،کچھ خدا کو چھوڑ کر دوسروں کے پیچھے جاتے تھے ۔”
جن گرہوں کا ذکرامام نے یہاں فرمایاہے قرآن میں بھی مختلف آیات کریمہ میں ان کاذکرہواہے:
پہلاگروہ: "مشبّہ للّٰہ بخلقہ”یہ وہ لوگ تھے جومخلوقات کی صفات کوخداوندمتعال کے لئے ثابت جانتے تھے قرآن کریم فرماتاہے :
وَقَالَتِ الْيَہودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّٰہ وَقَالَتْ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّہ ذَلِكَ قَوْلُہم بِأَفْوَاہہم يُضَاہؤُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَبْلُ قَاتَلَہم اللّٰہ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (توبہ/٣٠)
”اوریہودیوں کاکہناہے کہ عزیز اللہ کے بیٹے ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں یہ سب ان کی زبانی باتیں ہیں ان باتوں میں یہ بالکل ان کے مثل ہیں جوان کے پہلے کفارکہاکرتے تھے، اللہ ان سب کوقتل کرے یہ کہاں بہکے چلے جارہےہیں ”
دوسراگروہ :”اوملحدٍفی اسمہ”علامہ مجلسی اس عبارت کی تشریح میں فرماتے ہیں:”وہ نام، جوخداوندمتعال کے شایان شان نہ ہو،کو اس پر اطلاق کرتے تھے اوراس کی طرف منسوب کرتے تھے یاخداکے اسم کودوسروں پراطلاق کرتے تھے۔
تیسر اگروہ:”أومشیرٍالی غیرہ”یہ وہ لوگ تھے کہ جو اللہ کواشیاؤوں میں تأثرکے اعتبارسے مؤثراورمستقل جانتے تھے جیسے دہریہ کہ جوطبعتد اورفلکی حرکات کومؤثرجانتے تھے یاثنویہ کہ جوعالم میں دوخالق کے قائل تھے یابت پرست جوبتوں کے تأثرکے قائل تھے۔
امام علی عربوں کی بت پرستی کویوں ترسمہ کرتے ہیں:
واَنتُم مَعشَرَالعَرَبِ عَلی شَرِّدِینٍ ،وَفِی شَرِّدارٍوالاصنامُ فیکم مَنصُوبة (خ۔۲۶)
” اے گروہ عرب اس وقت تم بدترین دین پر اوربدترین گھروں میں تھے بت تمہارے درمیان نصب تھے دوسری جگہ امام فرماتے ہیں: "والاصنام معبودة”بت ان کے معبودتھے۔
بعض خدا کے قائل تھے لیکن قیا مت اور جزا وسزا کے منکر تھے ان میں سے بعض تو خدا کی ذات کے منکر تھے وہ عالم دنیا کو ہی سب کچھ جانتے تھے قرآن ایسے افراد کے بارے میں فرماتا ہے:
وَقَالُوا مَا ہيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُہلِكُنَا إِلَّا الدَّہر وَمَا لَہم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ ہم إِلَّا يَظُنُّونَ (سورہ جاثیہ،آیہ ٢٤)
”اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف زندگانی دنیا ہے اسی میں مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہم کو ہلاک کردیتا ہے”
اجتماعی اسباب
بعثت کے اجتماعی اسباب کے بارے میں حضرت علیؑ فرماتے ہیں:
اَرسَلَہ عَلی حِینِ فَترَةٍ مِنَ الرُّسُلِ وَطُولِ ہجعَةٍ مِنَ الاُمَمِ وَاعتِزَامٍ مِنَ الفِتَنِ وانتِشَارٍمِنَ الاُمُورِوتَلَظٍّ مِنَ الحُرُوبِ،وَالدُّنیَاکَاسِفَةُ النُّورِظَاہرةُ الغُرُورِعَلی حِینِ اِصفِرَارٍ مِن وَرَقِہاوَاِیَاسٍ مِن ثَمَرِہاوَاِعوِرَاراً مِن مَائِہا،قَددَرَسَت مَنَارُالہدَیٰ وَظَہرت اَعلَامُ الرَّدَیٰ ثَمَرُہاالفِتنَةُوَطَعَامُہاالجِیفَةُ (خ،٨٧)
اللہ نے اپنے پیغمبر ﷺکو اس وقت بھیجا جب کہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ رکا ہوا تھا۔ اور ساری امتیں مدت سے پڑی سو رہی تھیں، فتنے سر اٹھار ہے تھے، سب چیزوں کا شیرازہ بکھرا ہوا تھا، جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے، دنیا بے رونق دبے نور تھی اور اس کی فریب کاریاں کھلی ہوئی تھیں، اس وقت اس کے پتوں میں زردی دوڑی ہوئی تھی اور پھلوں سے نا امیدی تھی، پانی زمین میں تہ نشین ہو چکا تھا، ہدایت کے مینار مٹ گئے تھے، ہلاکت و گمراہی کے پرچم کھلے ہوئے تھے، اس کا پھل فتنہ تھا اور ا س کی غذا مردار تھی۔
ابن اثری کہتاہے : "فترۃ” دورسول کے درمیان فاصلہ زمانی کوکہاجاتاہے، وہ زمانہ جس میں رسالت منقطع ہوتی ہے۔
جناب عیسیٰ کے آسمان پرجانے کے بعدجتنے دن وحی آسمان کاسلسلہ منقطع رہااورہدایت کاکاروبار اوصاء کے ذریعہ چلتارہااسے زمانہ فترۃ کہاجاتاہے۔
ایک اور جگہ حضرت فرماتے ہیں:
وَاَنتُم مَعشَرَالعَرَبِ عَلی شَرِّدِینٍ وَفِی شَرِّدَارٍ،مُنِیخُونَ بَینَ حِجَارَةٍ خُشنٍ وَحَیَّاتٍ صُمٍّ تَشرَبُونَ الکَدِرَوَتأکُلُونَ الجَشَبَ (خ۔ ۲۶)
اے گروہ عرب اس وقت تم بدترین دین پر اوربدترین گھروں میں تھے ناہموارہ پتھروں اورزہریلے سانپوں کے درمیان تم بودوباش رکھتے تھے،تم گندہ پانی پتے تھے اورغلیظ غذااستعمال کرتے تھے۔
دوسری آیت میں قرآن مجید انہیں اس ناشائستہ فعل اور انسانیت سوز حرکت کے بدلے خدا وند عالم کی بارگا ہ میں جواب دہ قرار دیتاہے:
وَإِذَا الْمَوْؤُودَةُ سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ (سورہ تکویر ،آیات،٨۔٩)
”اور جب زندہ گور لڑکیوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ انہیں کس گناہ میں مارا گیا ہے”
خداوند عالم نے رسالت خاتم الانبیاءﷺ اس وقت قرار دی جب بہت زمانہ گزر گیا تھا اور لوگ خواب غفلت میں سوئے ہوئے تھے اور دنیا جنگ وجدال کی کیفیت میں تھی اس وقت معنویت، نورانیت اور انسانیت رحم دلی مروّت جیسی کوئی چیز نہیں تھی۔تقریباًحضرت عیسیٰ علیہ السلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے درمیان سات سو سال کا فاصلہ ہو چکا تھا اس وقت ہدایت اور ارشاد کا بندوبست تک نہیں تھا اتنا زمان انبیاء الٰہی سے خالی تھا اس کی وجہ سے ظلم اور جاہلیت تمام دنیا میں سرایت کر چکی تھی اس وقت خاتم الانبیاء ﷺمبعوث بہ رسالت ہو گئے اور دنیا سے تمام برائیوں کو دور کیا اور دنیا کو ایک ہدایت کا باغ بنا دیا۔
اخلاقی اسباب
عربوں کی اخلاقی حالت پستی و زوال کی انتہا کو پہنچ چکی تھی،عفت وعصمت، تہذیب و شرافت کے تصورات قصہ پارینہ بن چکے تھے،معمولی معمولی سی بات پر لڑنا، ایک دوسرے کا سر اڑادینا ان کے نزدیک کوئی بری بات نہیں تھی ہر قبیلہ دوسرے قبیلے سے اور ہر خاندان دوسرے خاندان سے بر سر پکار رہتا تھا، ہر بچہ اپنے باپ اور عزیزوں کے قاتل سے انتقام لینے کے جذبے میں پرورش پاتا تھا جوان ہوکر اپنے جذبہ انتقام کی آگ کوسرد کرنے میں ہی اپنا اول مقصد بنالیتا تھا، یوں ایک ایک لڑائی کا سلسلہ برسوں تک قائم اور جاری رہتا تھا جسان کہ ”جنگ بسوس”جو کہ دو قبیلوں ہیں بنی بکر اور بنی تغلب کے درمیان چڑی چالس سال تک جاری رہی اور اس جنگ کی وجہ یہ تھی کہ قبیلہ بنی بکر کا اونٹ جو کہ بسوس نامی خاتون کا تھا بنی تغلب کی چراگاہ میں چرنے کے لئے چلا گیا تو اسے ان لوگوں نے مار ڈالا،جنگ وجدل کے اس ماحول میں لڑنا، مرجانااور مارنا جاہلیت کا شرف وکمال سمجھاجاتا تھاان لڑائوں میں سفاکی،بے رحمی اور قتل وغارت کی بدترین مثالیں سامنے آتی ہیں، اسیران جنگ کا ایک ایک عضو کاٹ کر اور انہیں مسلسل اذیت میں مبتلا کر کے موت کے گھاٹ اتاراجاتا تھا ،دشمنوں کا جگر نکال کر کچا چبا لیا جاتا تھا۔
عربوں میں جوانی اور انسانی جان کا احترام بالکل ختم ہوچکا تھا، حرام اور حلال کی قطعاًانہیں کوئی تمیز نہیں تھی، وحشت وبربریت، جہالت وتارییر کا دور دورہ تھا، زندہ جانوروں کے حصے کاٹ کر کھائے جاتے تھے، بعض نجس جانوروں کا گوشت کھانے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے، درندوں کے نوچے ہوئے جانور کو بھی کھانے سے احتراز نہیں کرتے تھے، اہل عرب میں عریانی وبے حیائی، قمار بازی، زناکاری جیسے اخلاقی جرائم عام تھے۔
امام علیؑ آپس میں لوگوں کاایک دوسرے کوقتل کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں:
"وَتَسفِکُونَ دِمَاءَ کُم وَتَقطَعُونَ أرحَامَکُم(خ۔٢٦)
”آپس میں ایک دوسرے کاخون بہاتے تھے اوررشتہ داروں سے بے تعلقی کا اظہارکرتے تھے۔ ”
https://erfan.ir/urdu/33817.html

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button