احادیث امام علی رضا علیہ السلاماھل بیت علیھم السلامحدیثسلائیڈر

احادیث امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام

1۔ تین خصلتیں تین سنتیں
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: لا یكون المؤمن مؤمنا حتی تكون فیه ثلاث خصال ، سنة من ربه، وسنة من نبیه، وسنة من ولیه. فاما السنة من ربه فكتمان سره ، و اما السنة من نبیه فمداراة الناس ، و اما السنة من ولیه فالصبر فی البأساء و الضراء۔
مؤمن، حقیقی مؤمن نہیں ہے مگر یہ کہ تین خصلتوں کا حامل ہے: ایک سنت اللہ کی، ایک سنت اپنے پیغمبر(ص) کی اور ایک سنت اپنے امام کی۔ خدا کی سنت اپنا راز چھپا کر رکھنا ہے، پیغمبر(ص) کی سنت لوگوں کے ساتھ رواداری اور نرم خوئی ہے اور اس کے امام کی سنت تنگدستی اور پریشانی کے وقت صبر ہے۔
اصول کافی ، ج 3 ، ص (339)


2۔ چھپ کر نیکی کرنا
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: المستتر بالحسنة یعدل سبعین حسنة، والمذیع بالسیئة مخذول ، والمستتر بالسیئة مغفور له۔
نیک کام چھپا کر کرنے والے کا ثواب 70 حسنات کے برابر ہے، اعلانیہ بدی کرنے والا شرمندہ اور تنہا ہے اور (دوسروں کے) برے کام کو چھپانے والا بخشا ہوا ہے۔
اصول کافی ، ج 4 ، ص (160)۔


3۔ انبیاء کا اخلاق
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: من أخلاق الانبیاء التنظف۔
نظافت /پاکیزگی انبیاء کے اخلاق میں سے ہے۔
تحف العقول ، ص (466)۔


4۔ آدمی کا دوست اور دشمن
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: صدیق كل امرء عقله وعدوه جهله۔
آدمی کا دوست اس کی عقل اور اس کا دشمن اس کا جہل و نادانی ہے۔
تحف العقول ، ص (467)۔


5۔ عقل کامل کے لئے دس خصلتیں
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: لا یتم عقل امرء مسلم حتی تكون فیه عشر خصال ، الخیر منه مأمول ، و الشر منه مأمون ، یستكثر قلیل الخیر من غیره ، و یستقل كثیر الخیر من نفسه ، لا یسأم من طلب الحوائج الیه ، و لا یمل من طلب العلم طول دهره ، الفقر فی الله احب الیه من الغنی ، و الذل فی الله احب الیه من العز فی عدوه ، و الخمول أشهی الیه من الشهرة . ثم قال ( علیه السلام) : العاشرة و ما العاشرة ! قیل له : ما هی ؟ قال ( علیه السلام) : لا یری أحدا الا قال : هو خیر منی و أتقی۔
مسلمان شخص کی عقل کامل نہیں ہے مگر یہ کہ وہ دس خصلتوں کا مالک ہو: اس سے خیر و نیکی کی امید کی جاسکے، لوگ اس سے امن وامان میں ہوں، دوسروں کی مختصر نیکی کو بڑا سمجھے، اپنی خیر کثیر کو تھوڑا سمھجے، اس سے جتنی بھی حاجتیں مانگی جائیں وہ تھک نہ جائے، اپنی عمر میں طلب علم سے اکتا نہ جائے، خدا کی راہ میں غربت اس کے نزدیک مالداری سے بہتر ہو، خدا کی راہ میں ذلت اس کے نزدیک خدا کے دشمن کے ہاں عزت پانے سے زیادہ پسندیدہ ہو، گم نامی کو شہرت سے زیادہ پسند کرتا ہو، اور پھر فرمایا: اور دسویں خصلت کیا ہے اور کیا ہے دسویں خصلت؟ عرض کیا گیا: آپ فرمائیں وہ کیا ہے؟ فرمایا: جس کسی کو بھی دیکھے کہہ دے کہ وہ مجھ سے زیادہ بہتر اور زيادہ پرہیزگار ہے۔
تحف العقول ، ص (467)


6۔ یقین سب سے افضل
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: إن الایمان افضل من الاسلام بدرجة ، و التقوی افضل من الایمان بدرجة ، و لم یعط بنو آدم افضل من الیقین۔
ایمان اسلام سے ایک درجہ افضل ہے اور تقوی ایمان سے ایک درجہ بالاتر ہے اور فرزند آدم کو یقین سے افضل کوئی چیز عطا نہیں ہوئی۔
تحف العقول ، ص (469)


7۔ ایمان کیا ہے؟
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: والایمان أداء الفرائض واجتناب المحارم والایمان هومعرفة بالقلب وإقرار باللسان وعمل بالاركان۔
ایمان واجبات و فرائض پر عمل اور افعال حرام سے اجتناب کرنا ہے۔ ایمان دلی عقیدہ، زبانی اقرار اور اعضاء و جوارح کے ساتھ عمل کرنے کا نام ہے۔
تحف العقول ، ص (444)۔


8۔ انبیاء کا اسلحہ، دعا
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: علیكم بسلاح الأنبیاء، فقیل: وما سلاح الأنبیاء ؟ قال: الدعاء۔
امام ہمیشہ اپنے اصحاب سے فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء کا اسلحہ اٹھاؤ، کہا گیا: انبیاء کا اسلحہ کیا ہے؟ فرمایا: دعا۔
اصول کافی ، ج 4 ، ص (214)


9۔ صلہ رَحِمی کی تاکید
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: صل رحمك و لو بشربة من ماء ، وافضل ما توصل به الرحم كف الأذی عنها۔
قرابتداروں سے اچھے تعلقات قائم کرو حتی اگر وہ ایک گھونٹ پانی کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، اور قرابتداری کا بہترین پیوند یہ ہے کہ قرابتداروں کو آزار و اذیت پہنچانے سے پرہیز کیا جائے۔
تحف العقول ، ص (469)


10۔ فہم دین کی نشانیاں اور خاموشی کی اہمیت
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: إن من علامات الفقه : الحلم و العلم ، و الصمت باب من ابواب الحكمة ، إن الصمت یكسب المحبة ، إنه دلیل علی كل خیر۔
فہم دین کی نشانیوں میں حلم اور علم شامل ہیں اور خاموشی حکمت کے دروازوں میں سے ایک ہے۔ خاموشی محبت کماتی ہے اور ہر نیکی کی طرف راہنمائی فراہم کرتی ہے۔
تحف العقول ، ص (469)


11۔ گوشہ نشینی اور خاموشی کا زمانہ
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: یأتی علی الناس زمان تكون العافیة فیه عشرة اجزاء : تسعة منها فی اعتزال الناس و واحد فی الصمت۔
ایک وقت لوگوں پرایسا آئے گا جب عافیت کے دس اجزاء ہونگے: 9 اجزاء لوگوں سے دوری اور گوشہ نشینی میں ہونگے اور ایک جزء خاموشی میں۔
تحف العقول ، ص (470)


12۔ توکل کی تعریف
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: سئل الرضا ( علیه السلام ) عن حد التوكل ، فقال ( ع ) : أن لا تخاف احدا الا الله۔
امام رضا علیہ السلام سے توکل کی حقیقت اور اس کی تعریف کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: توکل یہ ہے کہ خدا کے علاوہ کسی سےنہ ڈرو۔
تحف العقول ، ص (469)۔


13۔ چار افراد چار چیزوں سے محروم
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: لیس لبخیل راحة ، و لا لحسود لذة ، و لا لملوك وفاء ، و لا لكذوب مروة۔
بخیل کے لئے چین اور آسائش نہیں ہے، حسد کرنے والے کے لئے کوئی لذت نہیں ہے، بادشاہوں میں وفا نہیں ہے اور جھوٹے شخص میں مروت اور جوانمردی نہیں پائی جاتی۔
تحف العقول ، ص (473)


14۔خدا سے حسن ظن رکھنا
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: من کان منا و لم یطع الله فلیس منا
جو ہم میں سے ہو لیکن خدا کی اطاعت نہ کرے (در حقیقیت) وہ ہم میں سے نہیں
(سفینۃ البحار 2/ ص 98)


15۔ ایمان کے چار ارکان
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: الایمان أربعة أركان: التوكل علی الله، والرضا بقضاء الله، و التسلیم لأمر الله، و التفویض الی الله۔
ایمان چار ارکان پر مشتمل ہے: خدا پر توکل، خدا کی قضا پر راضی ہونا، خدا کے امر کے سامنے تسلیم ہونا اور اپنے امور کو خدا کے سپرد کرنا۔
تحف العقول ، ص (469)


16۔ بہترین بندے
سئل (علیه السلام) عن خیار العباد، فقال: الذین اذا أحسنوا استبشروا، واذا اساءوا استغفروا، واذا أعطوا شكروا، و اذا ابتلوا صبروا، واذا غضبوا عفوا۔
امام رضا علیہ السلام سے بہترین بندوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: وہ جب نیکی کرتے ہیں، خوش ہوجاتے ہیں، جب برا عمل کرتے ہیں، استغفار کرتے ہیں، جب ان کو کچھ عطا کیا جاتا ہے، شکر کرتے ہیں، جب بلا اور مصیبت سے دوچار ہوتے ہیں صبر کرتے ہیں اور جب غضبناک ہوتے ہیں، درگذر کرتے ہیں۔
تحف العقول ، ص (469)


17۔ دنیاوی زندگانی
سئل الامام الرضا ( علیه السلام ) عن عیش الدنیا ، فقال: سعة المنزل وكثرة المحبین۔
امام رضا علیہ السلام سے دنیا کی خوشحال زندگی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: وسیع گھر اور دوستوں کی کثرت۔
بحار الانوار ، ج 76، ص (152)۔


18۔ مومن کے کام آنا
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: من فرج عن مؤمن فرج الله عن قلبه یوم القیامة۔
جو شخص کسی مؤمن (کے غم و اندوہ کو) دور کر دے تو خداوند متعال روز قیامت (غم و اندوہ کو) اس کے قلب سے دور کردیتا ہے۔
اصول کافی ، ج 3 ، ص (268)


19۔ مؤمن کے دل کو خوش کیا کرو
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: لیس شیء من الاعمال عند الله عزوجل بعد الفرائض افضل من إدخال السرور علی المؤمن۔
اللہ عزوجل کے نزدیک فرائض کی انجام دہی کے بعد کوئی بھی عمل مؤمن کے دل میں خوشی داخل کرنے سے افضل نہیں ہے۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)۔


20۔ سماجی تعلقات
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: تزاوَرُواو تحـابـوا و تصـافحُـوا۔
ایک دوسرے سے ملاقات کیا کرو، ایک دوسرے سے دوستی اور محبت کیا کرو اور ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرو۔ (متعدد روایات میں منقول ہے کہ: ہمارے امر کو زندہ رکھنے کے لئے، ایک دوسرے کو ہماری حدیث بیان کرنے کے لئے ملتے رہا کرو اور یہ کہ تمہارے میل جول میں ہمارے مکتب کی حیات ہے چنانچہ ملنا اگر لہو و لعب کے لئے ہو تو اس میں کوئی فضیلت نہیں ہے)۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)


21۔ دین و دنیا کے امور مخفی رکھو
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: علیكم فی أموركم بالكتمان فی أمور الدین و الدنیا ، فإنه روی ” أن الإذاعة كفر ” و روی ” المذیع و القاتل شریكان ” و روی ” ما تكتمه من عدوك فلا یقف علیه ولیك”۔
تم پر لازم ہے کہ اپنے دین و دنیا کے امور میں رازدار رہو، روایت ہوئی ہے کہ "راز فاش کرنا کفر ہے”، اور روایت ہوئی ہے کہ "جو اسرار کو فاش کرتا ہے وہ قاتل کے ساتھ قتل میں شریک ہے”، اور روایت ہوئی ہے کہ "جس چیز کو تم دشمن سے خفیہ رکھتے ہو تمہارا دوست بھی اس سے واقف نہ ہونے پائے”۔ (حدیث کے متن سے ظاہر ہے کہ کن کن امور کو چھپانا چاہئے)۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)


22۔ چار لوگوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھے؟
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام: اصحاب السلطان بـالحَذر، وَ الصـّدّيق بـالتّـواضُع، وَ العدوّ بـالتّحرُز، وَ العامّة بالبشـر۔
سلطان / حاکم کے سساتھیوں سے دوری اختیار کرو؛
دوست کے ساتھ خاکسارانہ رویہ رکھو؛
دشمن کے ساتھ احتیاط اور اجتناب کا رویہ اختیار کرو؛ اور
لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا کرو۔
بحارالانوار،ج 78، ص 356.


23۔ اس شخص سے امید مت رکھو
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام :خمس من لم تكن فيه فلا ترجوه لشئ من الدنيا والاخرة: من لم تعرف الوثاقة في أرومته والكرم في طباعه، والرصانة في خلقه والنبل في نفسه، والمخافة لربه.
پانچ چیزیں اگر کسی میں نہ ہوں تو دنیا اور آخرت کے بارے میں اس سے امید وتوقع وابستہ نہ کرو: وہ جس کے وجود میں اعتماد نہ دیکھ سکو؛ وہ جس کی طینت میں کرم اور بزرگواری نہ دیکھ سکو، وہ جس کے اخلاق اطوار میں استحکام و استواری نہ پاسکو، وہ جس کے نفس میں نجابت و شرافت نہ پاسکو اور وہ جس کے وجود میں خدا کا خوف نہ پاسکو۔()


24۔ مجاہد سے بھی زیاد ہ اجر کا مستحق
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام :ان الذی یطلب من فضل یكف به عیاله أعظم أجرا من المجاهد فی سبیل الله۔
بے شک جو اپنے اہل و عیال کے لئے رزق و روزی وسیع کرنے کی کوشش کررہا ہے اس کا اجر و انعام خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد سے بھی بڑھ کر ہے۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (339)۔


25۔ حب آل محمد(ص) اور نیک اعمال ایک دوسرے کے بغیر نامکمل
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام :لا تدعوا العمل الصالح و الاجتهاد فی العبادة اتكالا علی حب آل محمد ( علیهم السلام ) ، لا تدعوا حب آل محمد (علیهم السلام) و التسلیم لأمرهم اتكالا علی العبادة ، فإنه لا یقبل أحدهما دون الَاخر۔
(خبردار) نیک اعمال اور عبادت میں کوشش کو آل محمد(ص) کی محبت کے بھروسے پر ترک نہ کرنا، اور (خبردار) آل محمد(ص) کی محبت اور ان کی فرمانبرداری کو عبادت کے بھروسے پر ترک نہ کرنا، کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر قابل قبول نہیں ہیں۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)۔


26۔ تفکر عبادت ہے
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام :لیس العبادة كثرة الصیام والصلاة، وانما العبادة كثرة التفكر فی أمر الله۔
عبادت زیادہ روزہ رکھنا اور زیادہ نماز پڑھنا ہی نہیں ہے بلکہ امر خدا میں زیادہ غور وتفکر کرنا ہی عبادت ہے۔
تحف العقول ، ص (466)


27۔ ہماری صورت حال
قیل له: وكیف اصبحت؟ قال (ع ): اصبحت بأجل منقوص، وعمل محفوظ ، والموت فی رقابنا، والنار من ورائنا، ولا ندری ما یفعل بنا۔
عرض کیا گیا: یابن رسول اللہ(ص)! کس حالت میں صبح کی ؟ فرمایا: اس حالت میں صبح کی کہ عمر کم ہوئی، عمل محفوظ ہوا، اور موت ہماری گردن پر ہے اور دوزخ ہمارا پیچھا کررہا ہے اور ہم (یعنی انسان) نہیں جانتے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوگا!۔
تحف العقول ، ص (470)۔


28۔ حقیقی ایمان
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام :لا یستكمل عبد حقیقة الایمان حتی تكون فیه خصال ثلاث: التفقه فی الدین، وحسن التقدیر فی المعیشة ، والصبر علی الرزایا۔
کوئی بھی بندہ ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ تین خصلتوں کا مالک نہ ہو: دین میں سمجھ بوجھ رکھنا، معیشت میں اچھی تدبیر کرنا، اور مصائب اور بلاؤں پر صبر کرنا۔
تحف العقول ، ص (471)۔


29۔ قرآن میں ہدایت تلاش کرو
قال الریان للرضا (ع): ما تقول فی القرآن؟ فقال: كلام الله لا تتجاوزوه، ولا تطلبوا الهدی فی غیره فتضلوا۔
ریان بن صلت نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا: قرآن کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ امام(ع) نے فرمایا: قرآن خدا کا کلام ہے، اس سے تجاوز نہ کرو اور قرآن کے بغیر کسی اور سے ہدایت و راہنمائی مت مانگو ورنہ گمراہ ہوجاؤگے۔
بحار الانوار ، ج 92، ص (117)سوال: پھر ہم پر اہل بیت(ع) کی پیروی کیوں واجب ہے؟ جواب: وہ بھی قرآن ہی کا حکم ہے اور باعث ہدایت ہے۔


30۔ علوم محمد و آل محمد سیکھنے سکھانے کی اہمیت
قال عبدالسلام بن صالح الهروی: سمعت الرضا (ع) یقول: رحم الله عبدا احییٰ امرنا. قلت : وكیف یحیی امركم ؟ قال: یَتَعَلَّمُ علومَنا وَیُعَلِّمُها الناسَ۔
عبدالسلام الہروی کہتے ہیں: میں نے امام رضا(ع) کو فرماتے ہوئے سنا: خدا رحم کرے اس بندے پر جو ہمار ےامر (اور ہمارے مشن) کو زندہ رکھے۔ میں نے عرض کیا: آپ کے امر کو کیسے زندہ رکھا جا سکتا ہے؟ فرمایا: ہمارے علوم کو سیکھ لے اور لوگوں کو سکھائے۔
وسائل الشیعۃ ، ج 18، ص (102)۔


31۔ محاسبہ نفس
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام :من حاسب نفسه ربح ، ومن غفل عنها خسر، ومن خاف أمن، ومن اعتبر أبصر، ومن أبصر فهم ، ومن فهم علم۔
جو اپنے آپ کا احتساب کرے منافع اٹھائے گا، جو اپنے آپ سے غافل ہوجائے نقصان اٹھائے گا، جو خوفزدہ ( خدا کی نافرمانی سے)ہوگا، محفوظ رہے گا اور جو دنیا کے حوادث اور واقعات سے عبرت لے، وہ صاحب بصیرت بنے گا اور جو صاحب بصیرت ہوگا وہ مسائل کو سمجھ لےگا اور جو مسائل کو سممجھ لے وہ علم حاصل کرے گا۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (352)


32۔ خودپسندی کی درجہ بندی
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام :العجب درجات: منها ان یزین للعبد سوء عمله فیراه حسنا فیعجبه ویحسب انه یحسن صنعا، ومنها أن یؤمن العبد بربه فیمن علی الله ولله المنة علیه فیه۔
خود پسندی کے کئی درجات ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ بندے کو اپنا برا عمل بھی خوبصورت نظر آئے اور وہ اکڑ کر گمان کرے کہ اس نے اچھا کام کیا ہے، ایک یہ ہے کہ خدا پر ایمان رکھنے والا بندہ خدا پر احسان جتائے حالانکہ خدا نے اس سلسلے میں اس پر احسان کیا ہے۔
تحف العقول ، ص (468)


33۔ تین چیزوں کا تعلق تین چیزوں سے
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام :إن الله عزوجل أمر بثلاثة مقرون بها ثلاثة اخری: امر بالصلاة و الزكاة، فمن صلیٰ ولم یزك لم یقبل منه صلاته ، وامر بالشكر له وللوالدین، فمن لم یشكر والدیه لم یشكر الله، وامر باتقاء الله و صلة الرحم، فمن لم یصل رحمه لم یتق الله عزوجل۔
خداوند متعال نے تین چیزوں کو تین چیزوں سے مربوط کردیا ہے (اور ایک دوسری کے بغیر ناقابل قبول ہے): نماز کو زکوٰۃ کے ساتھ ذکر فرمایا ہے پس جو نماز ادا کرے اور زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز قبول نہ ہوگی، نیز اس نے اپنے شکر کو والدین کے شکر کے ساتھ ذکر کیا ہے پس جو خدا کا شکر کرے اور والدین کا قدر دان نہ ہو اس نے خدا کا شکر ادا نہیں کیا ہے۔ اور خدا نے تقوائے الہی اور اعزاء و اقارب کے ساتھ پیوند استوار رکھنے کا حکم دیا ہے پس جو اپنوں کے ساتھ نیکی و احسان نہ کرے وہ متقی اور پرہیزگار شمار نہ ہوگا۔
عیون اخبار الرضا ، ج 1 ، ص (258)


34۔ حرص و حسد اور بخل سے اجتناب کا حکم
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام :ایاكم والحرص و الحسد، فإنها أهلكا الامم السالفة، وایاكم والبخل فإنها عاهة لا تكون فی حر ولا مؤمن، إنها خلاف الإیمان۔
حرص و حسد سے پرہیز کرو کیونکہ ان دونوں نے سابقہ امتوں کو نیست و نابود کیا اور بخل و کنجوسی سے پرہیز کرو کیونکہ یہ ایک آفت ہے جس میں کوئی بھی مؤمن اور آزاد انسان مبتلا نہیں ہوتا اور بخل ایمان سے متصادم ہے۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (346)


35۔ صدقہ دینا
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام :تصدق بالشیء وإن قل، فان كل شیء یراد به الله، وإن قل بعد ان تصدق النیة فیه عظیم۔
صدقہ دیا کرو خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ہر وہ کام جو خدا کی خاطر انجام دے اگرچہ کم ہی کیوں نہ ہو صدق نیت کے ساتھ ہو تو وہ کام عظیم ( بہت بڑا) ہے۔
وسائل الشیعة ، ج 1 ، ص (87)۔


36۔ تائب بےگناہ ہے
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام :التائب من الذنب كمن لا ذنب له۔
توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا۔
بحار الانوار ، ج 6 ، ص (21)


37۔ بہترین عقل
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام :افضل العقل معرفة الانسان نفسه۔
بہترین عقل یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان لے (اور معرفت نفس حاصل کرے)۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (352)


38۔ خدا سے حسن ظن رکھنا
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام :أحسن الظن بالله، فإن الله عزوجل یقول: أنا عند ظن عبدی المؤمن بی، إن خیراً فخیراً وإن شراً فشراً۔
اللہ سے حسن ظن رکھو کیونکہ خداوند عزوجل فرماتا ہے: میں اپنے مؤمن بندے کے حسن ظن کے ساتھ ہوں، اگر اس کا گمان اچھا ہے تو میرا سلوک بھی نیک ہوگا اور اگر اس کا خیال میرے بارے میں برا ہے تو میرا سلوک بھی اس کے ساتھ اچھا نہ ہوگا۔
اصول کافی ، ج 3 ، ص (116).


39۔ صلہ رحمی طول عمر کا سبب
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام :یكون الرجل یصل رحمه، فیكون قد بقی من عمره ثلاث سنین فیصیرها الله ثلاثین سنة ویفعل الله ما یشاء۔
کبھی، ایک شخص صلہ رحمی کرتا ہے (اور اپنوں سے پیوند برقرار کرتا ہے) جبکہ اس کی عمر میں سے صرف تین سال باقی رہ گئے ہوتےہیں پس ( صلہ رحمی کی وجہ سے) خداوند متعال اس کی عمر 30 سال تک بڑھا دیتا ہے، اور خدا جو چاہے انجام دیتا ہے۔
اصول کافی ، ج 3 ، ص (221)


40۔ لوگوں کی حاجت روائی کی اہمیت
قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام :احرصوا على قضاء حوائج المؤمنين وإدخال السرور علیهم ودفع المكروه عنهم، فإنه لیس شیءٌ من الاعمال عندالله عزوجل بعد الفرائض افضل من إدخال السرور علی المؤمن۔
مؤمنین کی حاجات پوری کرنے اور ان کو خوشنود کرنے اور مشکلات کو ان سے دور کرنے کی کوشش کرو کیونکہ فرائض کی انجام دہی کے بعد خدا کے نزدیک کوئی بھی عمل مؤمن کو خوشنود کرنے سے افضل نہیں ہے۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)


41۔ قال علی ابن موسی الرضا علیہ السلام : مـن لقى فقيـرا مسلما فسلم عليه خلاف سلامه على الاغنياء لقى الله عزوجل يـوم القيامه وهو عليه غضبان.
"جو شخص ایک مسلمان فقیر سے ملے اور اس کو سلام کرے لیکن اس طرح سے سلام نہ کرے جس طرح سے وہ امیروں کو کیاکرتا ہے تو قیامت کے دن خداوند متعال اس سے غیض و غضب کے ساتھ پیش آئے گا۔
(بحار الانوار ، ج 76، ص 152)


 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button