اخلاق رذیلہاخلاقیاترسالاتسلائیڈر

خود پسندی اور عجب

از نظر قرآن
خود پسندی اور خود ثنائی انتہائی ناپسندیدہ کام ہےمومن ہمیشہ ڈرتا رہتاہے کہ نجانے اس کے اعمال قبول بھی ہوں گے یا نہیں۔وہ اپنے متعلق کبھی مطمئن نہیں ہوتا اپنےاندرونی اور بیرونی اعمال کے محاسبےسے ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہےوہ دوسروں کو خود سے بہتر اور اپنےآپ کو دوسروں سے حقیر تصور کرتا ہےاس کی ساری زندگی امید وبیم اور خوف و رجا کے درمیان گزر جاتی ہےمرتے دم تک یہی سوچتا ہےکہ نجانے اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ یُزَکُّوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا
(النساء۴۹)
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو پاکباز خیال کرتے ہیں، (نہیں) بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاکیزہ کرتا ہے اور ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہو گا۔
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ
اللہ کسی اترانے والے خود پسند کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔
اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو مُخۡتَالٍ ہے۔ اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرتا ہے۔ خود بین ہے اور ساتھ اس خیال اور واہمے کا فخر و مباہات کے ذریعے اظہار بھی کرتا ہے۔
خود بینی اور تکبر شخصیت میں خلا ہونے کی علامت ہے۔
فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ھو اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی
(النجم 32)
پس اپنے نفس کی پاکیزگی نہ جتاؤ، اللہ پرہیزگار کو خوب جانتا ہے۔
جب اللہ تمہاری حالت پر خود تمہارے وجود میں آنے سے پہلے باخبر ہے تو تم اپنے نفس کی پاکیزگی کے دعوے نہ کرو۔ اللہ بہتر جانتا ہے تمہارے دعوے کہاں تک درست ہیں۔ اگر اس کا مقصد لوگوں کے سامنے اپنی پاکیزگی کا اظہار کرنا ہے تو یہ خود ستائی اور خود بینی ہے جو بندگی کے سراسر خلاف ہے۔
از نظر آئمہ معصومین علیھم السلام
امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت ہے:
سَیِّئَۃٌ تَسُوئُکَ خَیْرٌ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ حَسَنَۃٍ تُعْجِبُکَ
(نہج البلاغۃ حکمت: ۴۶)
وہ گناہ جو خود تجھے برا لگے اللہ کے نزدیک اس نیکی سے بہتر ہے جو تجھے خود پسندی میں مبتلا کر دے۔
بلکہ انسان کا لوگوں کے سامنے اپنے اعمال کا ذکر بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔
راوی کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
قَولُ الْاِنْسَانِ صَلَّیْتُ الْبَارِحَۃَ وَ صُمْتُ اَمْسِ وَ نَحْوَ ھَذَا۔۔۔
(الوسائل ۱: ۷۴)
انسان کا یہ کہنا خود ستائی ہے کہ میں نے رات نماز پڑھی کل روزہ رکھا اور اس طرح کی باتیں۔
(تفسیر الکوثر فی القرآن)
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَلِمَ أَنَّ الذَّنْبَ خَيْرٌ لِلْمُؤْمِنِ مِنَ الْعُجْبِ وَ لَوْ لَا ذَلِكَ مَا ابْتُلِيَ مُؤْمِنٌ بِذَنْبٍ أَبَداً
امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:
اللہ جانتا ہے کہ مومن کا گناہ اس کی خود پسندی سے بہتر ہے اگر ایسا نہ ہو تو مومن گناہ میں کبھی مبتلا نہ ہو۔
عَنْ أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْعُجْبِ الَّذِي يُفْسِدُ الْعَمَلَ فَقَالَ الْعُجْبُ دَرَجَاتٌ مِنْهَا أَنْ يُزَيَّنَ لِلْعَبْدِ سُوءُ عَمَلِهِ فَيَرَاهُ حَسَناً فَيُعْجِبَهُ وَ يَحْسَبَ أَنَّهُ يُحْسِنُ صُنْعاً وَ مِنْهَا أَنْ يُؤْمِنَ الْعَبْدُ بِرَبِّهِ فَيَمُنَّ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لِلَّهِ عَلَيْهِ فِيهِ الْمَنُّ‏
حضرت موسی کاظم (ع) سے راوی نے عجب (خودپسندی) کے متعلق پوچھا جس سے عمل فاسد ہو جاتا ہے۔تو آپؑ نے جواب میں فرمایا :
عجب(خودپسندی)کے درجات ہیں۔
ایک ان میں سے یہ ہے کہ بندہ اپنے برے اعمال کو اچھا سمجھے۔ اور مغرور ہو کر یہ گمان کرے کہ وہ اچھا کام کر رہا ہے
دوسرا یہ عبادت کا اپنے رب پر احسان رکھے حالانکہ خدا کا احسان اس پر ہے۔
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: أَتَى عَالِمٌ عَابِداً فَقَالَ لَهُ كَيْفَ صَلَاتُكَ فَقَالَ مِثْلِي يُسْأَلُ عَنْ صَلَاتِهِ وَ أَنَا أَعْبُدُ اللَّهَ مُنْذُ كَذَا وَ كَذَا قَالَ فَكَيْفَ بُكَاؤُكَ قَالَ أَبْكِي حَتَّى تَجْرِيَ دُمُوعِي فَقَالَ لَهُ الْعَالِمُ فَإِنَّ ضَحِكَكَ وَ أَنْتَ خَائِفٌ أَفْضَلُ مِنْ بُكَائِكَ وَ أَنْتَ مُدِلٌّ إِنَّ الْمُدِلَّ لَا يَصْعَدُ مِنْ عَمَلِهِ شَيْ‏ءٌ
حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حکایت نقل ہوئی ہے کہ
آپ نے فرمایا: ایک عالم، عابد کے پاس آیا اور اس سے پوچھا آپ کی نماز کا کیا حال ہے اس نے کہا مجھ جیسے کی نماز کا کیا پوچھنا میں اللہ کی عبادت اس اس طرح کرتا ہوں۔
تو اس عالم نے پوچھا پوچھا تمہاری گریہ وزاری کا کیا حال ہے ؟
اس نے کہا کہ اس قدر گریہ کرتا ہوں کہ آنسؤ میرے رخساروں پر جاری ہوتے ہیں۔
تو عالم نے کہا تمہارا ہنسنا ایسی حالت میں کہ تم خدا سے ڈرتےہو تمہارے آنسو سے زیادہ افضل ہےدر آنحالیکہ تم مسرور اور خود پسند ہو یہ تمہاری خود پسندی کسی عمل کو اوپر نہیں جانے دے گی۔
عَنْ أَحَدِهِمَا ع قَالَ: دَخَلَ رَجُلَانِ الْمَسْجِدَ أَحَدُهُمَا عَابِدٌ وَ الْآخَرُ فَاسِقٌ فَخَرَجَا مِنَ الْمَسْجِدِ وَ الْفَاسِقُ صِدِّيقٌ‏ وَ الْعَابِدُ فَاسِقٌ وَ ذَلِكَ أَنَّهُ يَدْخُلُ الْعَابِدُ الْمَسْجِدَ مُدِلًّا بِعِبَادَتِهِ يُدِلُّ بِهَا فَتَكُونُ فِكْرَتُهُ فِي ذَلِكَ وَ تَكُونُ فِكْرَةُ الْفَاسِقِ فِي التَّنَدُّمِ عَلَى فِسْقِهِ وَ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ مِمَّا صَنَعَ مِنَ الذُّنُوبِ
حضرت امام جعفر صادق یا امام محمد باقر علیھما السلام میں سے کسی ایک سے روایت ہے کہ
دو افراد مسجد میں داخل ہوئے ایک ان میں عابد تھا اور دوسرا فاسق۔ وہ عبادت کر کے مسجد سے نکلے توفاسق اپنے ایمان میں سچا تھا اور عابد فاسق بن چکا تھا۔اور یہ اس طرح کہ جب عابد مسجد میں داخل ہوا تو وہ اپنی عبادت میں مغرور تھا اور اس کی سوچ بچار اسی بارے میں تھی اور فاسق اپنے فسق پر نادم تھا اور اس نے اپنے گناہوں کے متعلق خدا سے استغفار کیا۔
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ بَيْنَمَا مُوسَى ع جَالِساً إِذْ أَقْبَلَ إِبْلِيسُ وَ عَلَيْهِ بُرْنُسٌ ذُو أَلْوَانٍ فَلَمَّا دَنَا مِنْ مُوسَى ع خَلَعَ الْبُرْنُسَ وَ قَامَ إِلَى مُوسَى فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ مُوسَى مَنْ أَنْتَ فَقَالَ أَنَا إِبْلِيسُ قَالَ أَنْتَ فَلَا قَرَّبَ اللَّهُ دَارَكَ‏ قَالَ إِنِّي إِنَّمَا جِئْتُ لِأُسَلِّمَ عَلَيْكَ لِمَكَانِكَ مِنَ اللَّهِ قَالَ فَقَالَ لَهُ مُوسَى ع فَمَا هَذَا الْبُرْنُسُ قَالَ بِهِ أَخْتَطِفُ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ‏ فَقَالَ مُوسَى فَأَخْبِرْنِي بِالذَّنْبِ الَّذِي إِذَا أَذْنَبَهُ ابْنُ آدَمَ اسْتَحْوَذْتَ عَلَيْهِ‏ قَالَ إِذَا أَعْجَبَتْهُ نَفْسُهُ وَ اسْتَكْثَرَ عَمَلَهُ وَ صَغُرَ فِي عَيْنِهِ ذَنْبُهُ وَ قَالَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ- لِدَاوُدَ ع يَا دَاوُدُ بَشِّرِ الْمُذْنِبِينَ وَ أَنْذِرِ الصِّدِّيقِينَ قَالَ كَيْفَ أُبَشِّرُ الْمُذْنِبِينَ وَ أُنْذِرُ الصِّدِّيقِينَ قَالَ يَا دَاوُدُ بَشِّرِ الْمُذْنِبِينَ أَنِّي أَقْبَلُ التَّوْبَةَ وَ أَعْفُو عَنِ الذَّنْبِ وَ أَنْذِرِ الصِّدِّيقِينَ أَلَّا يُعْجَبُوا بِأَعْمَالِهِمْ فَإِنَّهُ لَيْسَ عَبْدٌ أَنْصِبُهُ لِلْحِسَابِ إِلَّا هَلَكَ
امام جعفر صادق (ع)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
حضرت موسیٰ(ع) ایک روز بیٹھے تھے کہ ابلیس ایک اونچی رنگ برنگ کی ٹوپی پہنے ہوئے آیا اور جناب موسی کے قریب آ کر ٹوپی اتار لی اور ان کو سلام کیا انہوں نے پوچھا تو کون ہے اس نے کہا ابلیس ہوں۔
تو آپ نے فرمایا تو ابلیس ہے خدا تجھ سے دور رکھے۔ اس نے کہا میں تو آپ کو سلام کرنے آیا تھا آپ کی قرابت کےسبب جو خدا سے آپ کو حاصل ہے جناب موسیٰ(ع)نے کہا یہ ٹوپی کیسی ہےا س نے کہا میں اس سے بنی آدم کے قلوب اچک لیتا ہوں۔ جناب موسی (ع) نے کہا وہ گناہ بتا جسے آدمی کرتا ہے اور تو اس پر غالب آ جاتا ہے اس نے کہا جب اس کا نفس خود پسند ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ عمل کر کے گناہ کو حقیر سمجھنے لگتا ہے ۔
حضرت داؤد (ع) سے خدا نے کہا ۔ اے داؤد گنہگاروں کو بشارت دو اور صدیقوں کو ڈراؤ انہوں نے کہا یہ دونوں صورتیں کیسے ہوں فرمایا گنہگاروں سے کہو میں توبہ کا قبول کرنے والا ہوں اور گناہوں کا بخشنے والا اور صدیقین کو اس بات سے ڈراؤ کہ وہ اپنے اعمال پر مغرور نہ ہوں کیوں کہ جس کو میں پکڑوں گا وہ ہلاک ہو جائے گا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ایک دن ابلیس آیااور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا:
ملعون!یہ بتا کہ وہ کون سا گناہ ہے کہ جب وہ فرزند آدم سے سرزد ہوجائے توتو اس پر مسلط ہوجاتا ہے۔ تو ابلیس ملعون نے آپ کو جواب دیا:
جب کوئی شخص اپنے آپ پر اترائے اور خود پسندی میں ڈوب جائے اور اپنے عمل کو بڑا سمجھنے لگے اور اپنے گناہ کو حقیر تصور کرنے لگے تو میں اس پر قابو پالیتا ہوں۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button