خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:327)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 31 اکتوبر 2025 بمطابق 8 جمادی الاول 1447ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: رزقِ حلال
﷽
اما بعد فقد قال اللہ تبارک و تعالیٰ فی کلامہ المجید:
يَـٰٓأَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِى الْأَرْضِ حَلَـٰلًۭا طَيِّبًۭا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَٰتِ الشَّيْطَـٰنِ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّۭ مُّبِينٌ مومنین کرام! اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں جمعہ کے مقدس دن میں اپنے گھر میں جمع کیا۔ ہماری آج کی گفتگو کا موضوع ہے: "رزقِ حلال ”
اللہ تعالیٰ نے رزق کی ضمانت خود اپنے ذمہ لی ہے، وہ ہر جاندار کو رزق دیتا ہے۔
وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزۡقُہَا
اور زمین پر کوئی چلنے والا ایسا نہیں ہے کہ جس کی روزی خدا کے ذمے نہ ہو
اسی طرح رسول خدا ؐ فرماتے ہیں:
لا تَتَشاغَلْ عمّا فُرِضَ علَيكَ بِما قد ضُمِنَ لَكَ فإنّهُ لَيسَ بفائتِكَ ما قد قُسِّمَ لَكَ، ولَستَ بِلاحِقٍ ما قد زُوِيَ عنكَ .(بحارالانوار: ۷۷ / ۱۸۷ / ۱۰ )
جس رزق کی ضمانت دی جاچکی ہے وہ تمہیں تم پر عائد شدہ فریضہ سے روگرداں نہ کردے کیونکہ جو رزق تمہارے لیے تقسیم ہو چکا ہے وہ رُک نہیں سکتا اور جو تم سے روک لیا گیا ہے۔ اس تک تم پہنچ نہیں سکتے۔
لیکن اس رزق کے حصول کے لیے اسباب بھی مقرر کیے ہیں، اور ان اسباب میں حلال اور طیب ہونے کی شرط لگائی ہے۔ اسلام صرف نماز، روزہ اور حج کا دین نہیں، بلکہ یہ معاملات، تجارت اور معیشت کا بھی مکمل ضابطہ ہے۔ اگر معاشی زندگی میں پاکیزگی نہ ہو تو روحانی پاکیزگی حاصل نہیں ہو سکتی۔ حلال رزق ہی ایمان کی بنیاد مضبوط کرتا ہے جبکہ حرام خوری اسے کمزور کر دیتی ہے۔
اب دیکھیے کہ قرآن مجید رزقِ حلال کے بارے میں کیا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو مخاطب کر کے ارشاد فرماتا ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا۟ مِمَّا فِى الْأَرْضِ حَلَـٰلًۭا طَيِّبًۭا وَلَا تَتَّبِعُوا۟ خُطُوَٰتِ الشَّيْطَـٰنِ ۚ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّۭ مُّبِينٌ (سورۃ البقرہ، آیت ۱۶۸)۔
"لوگو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔”
اس آیت کا خطاب پوری انسانیت سے ہے۔ زیر بحث مسئلہ سب انسانوں سے مربوط ہے کہ زمین کی حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ یہ سب کچھ انسان کے لیے خلق ہوا ہے:
ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا۔ ۔۔ {۲ بقرہ: ۲۹}
جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا۔
یہ فرمان دین اسلام کے آفاقی مزاج، کائناتی تقاضوں اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے کہ انسان مَافِی الْاَرض سے صرف کھانے میں ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے تصرف میں آزاد ہے۔ اس میں کسی قسم کی ناروا اور غیر ضروری پابندی نہیں ہے۔ اگر کوئی پابندی ہے تو دراصل یہ بھی پاکیزگی کے لیے ہے۔ البتہ حلال و حرام کے سلسلے میں ایک بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ حلال و حرام، رازق کی طرف سے ہو، شیطان کی طرف سے نہ ہو۔ جس نے رزق دیا ہے وہی پابندی لگا سکتا ہے، کیونکہ وہ جائز پابندی لگائے گا۔ پابندی اگر شیطان کی طرف سے ہوگی تو وہ برائی اور فسق میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس حکم میں درج ذیل لوگ شامل ہیں:
۱۔ مشرکین: جنہوں نے اللہ کی حلال کردہ بہت سی چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ جن کا ذکر خود قرآن مجید نے مختلف مقامات پر کیا ہے۔
۲۔ رہبانیت: ترک دنیا کرنے والے۔ جنہوں نے خود اپنے اوپر بہت سی حلال اور طیب چیزوں کو حرام قرار دیا ہو۔ یہ باتیں اذنِ خدا کے بغیر خود اپنی طرف سے تشریع و تقنین میں دخل اندازی شمار ہوتی ہیں، جو شیطانی عمل ہے۔ کچھ سادہ مسلمان بھی اس توہم کا شکار ہیں کہ مؤمن کے لیے زمین کی تمام چیزیں جائز نہیں۔ اس کی تفصیل کسی مناسب مقام پر ذکر ہو گی۔
کافی میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
اِیَّاکَ وَ خَصْلَتَیْنِ فَفِیْھِمَا ھَلَکَ مَنْ ھَلَکَ: اِیَّاکَ اَنْ تُفْتِیَ النَّاسَ اَوْ تَدِینَ بِرَأْیِکَ وَ تُدِیْنَ بِمَا لَا تَعْلَمْ۔ {اصول الکافی ۱: ۴۲}
دو باتوں سے اجتناب کرو، کیونکہ ان دو باتوں کی وجہ سے لوگ ہلاکت میں پڑتے رہے ہیں۔ اپنی ذاتی رائے سے فتویٰ نہ دو اور جن چیزوں کا تمہیں علم نہیں ہے، انہیں اپنے دین کا حصہ مت بناؤ۔
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:
يَـٰٓأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَـٰتِ وَاعْمَلُوا۟ صَـٰلِحًا ۖ إِنِّى بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌۭ (سورۃ المؤمنون، آیت ۵۱)۔
اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور عمل صالح بجا لاؤ، جو عمل تم کرتے ہو میں اسے خوب جاننے والا ہوں۔
خطاب تمام رسولوں سے ہے کہ وہ اپنے طبیعاتی تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے مادی ضروریات سے استفادہ کریں اور جاہلوں کے اعتراضات کی پرواہ نہ کریں جو کہتے ہیں یہ کیسے رسول ہیں جو ہماری طرح کھاتے پیتے ہیں۔
۲۔ مِنَ الطَّیِّبٰتِ: پاکیزہ چیزیں کھائیں۔ نوعیت اور کسب دونوں اعتبار سے پاکیزہ ہوں۔ پاک اور حلال چیزیں کھائیں۔ ناپاک چیزیں جیسے مردار، خنزیر وغیرہ اور حرام طریقے سے کمائی ہوئی چیزیں نہ ہوں۔
۳۔ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا: نیک اعمال بجا لانا اور اللہ کی بندگی کرنا، بدن کی توانائی پر موقوف ہے لہٰذا پہلے اپنی جسمانی طاقت کو بحال رکھو پھر نیک اعمال کے لیے قدم اٹھاؤ۔(تفسیر الکوثر)
احادیث میں کسبِ حلال:
اہل بیت علیہم السلام نے بھی کسبِ حلال کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
طَلَبُ الْحَلَالِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَةٍ
ترجمہ: رزقِ حلال کا طلب کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے (بحار الانوار، ج ۱۰۳، ص ۹)۔
یعنی جس طرح نماز اور روزہ فرض ہیں، اسی طرح حلال کمائی بھی شرعی فریضہ ہے۔
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:
الْعِبَادَةُ سَبْعُونَ جُزْءاً، أَفْضَلُهَا طَلَبُ الْحَلَالِ
ترجمہ: عبادت کے ستر حصے ہیں، جن میں سب سے افضل حصہ رزقِ حلال طلب کرنا ہے (الکافی، ج ۵، ص ۷۸)۔
یہ بتاتا ہے کہ محنت سے حلال کمانا محض دنیاوی کام نہیں، بلکہ اعلیٰ ترین عبادت ہے۔
مولا علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
علَيكَ بلُزومِ الحَلالِ، وحُسنِ البِرِّ بالعِيالِ، وذِكرِ اللّٰه في كُلِّ حالٍ. (غرر الحكم: ۶۱۳۱)
تم پر لازم ہے کہ حلال کو اختیار کرو،اہل وعیال کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ہر حالت میں خدا کو یادکرو۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
الْكَادُّ عَلَى عِيَالِهِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ
ترجمہ: جو شخص اپنے اہل و عیال کے لیے محنت و مشقت کرتا ہے، وہ اس مجاہد کی طرح ہے جو راہِ خدا میں جہاد کرتا ہے (الکافی، ج ۵، ص ۸۸)۔
یعنی حلال رزق کی جدوجہد جہاد کے برابر ہے۔
ایک اور مقام پہ فرمایا:
مُجادَلَةُلسُّيُوفِ أهْوَنُ من طَلَبِ الحَلالِ.(الكافي: ۵ / ۱۶۱ / ۱)
تلواروں کے ساتھ لڑنا رزق حلال کے حصول کی نسبت آسان تر ہے۔
یعنی رزق حلال حاصل کرنا تلواروں کی لڑائی سے بھی زیادہ مشکل امر ہے کیونکہ یہاں قدم قدم پر حرام کی ملاوٹ کا خطرہ ہوتا ہے۔
رزق اچھے طریقے سے طلب کرو:
حدیث رسول اللہ :
ألا وإنّ الرُّوحَ الأمينَ نَفَثَ في رُوعِي أ نّهُ لَن تَمُوتَ نفسٌ حتّى تَستَكمِلَ رِزقَها، فاتَّقُوا اللّٰهَ وأجمِلُوا في الطَّلَبِ، ولا يَحمِلْ أحَدَكُم استِبطاءُ شَيءٍ مِنَ الرِّزقِ أن يَطلُبَهُ بغَيرِ حِلِّهِ، فإنّهُ لا يُدرَكُ ما عِندَ اللّٰه إلاّ بطاعَتِهِ.(الكافي: ۲ / ۷۴ / ۲ )
روح الامین ع (جبرائیل) نے مجھ تک یہ بات پہنچائی ہے کہ جب تک کوئی شخص اپنا رزق مکمل (طور پرحاصل) نہ کرلے اسے ہرگز موت نہیں آتی۔ لہٰذا اللہ سے ڈرو، رزق اچھے طریقے سے طلب کرو اور کسی کو رزق کا دیر سے پہنچنا ناجائز طور پر حصولِ رزق پر آمادہ نہ کرلے کیونکہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ صرف اطاعت ہی کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
خُذْ مِن الدنيا ما أتاكَ وتَوَلَّ عمّا تَوَلّى عنك، فإن أنتَ لَم تَفعَلْ فَأجمِلْ في الطَّلَبِ.(نہج البلاغة: الحكمة ۳۹۳ )
دنیا سے جو حصہ تمہارے پاس آپہنچے اسے لے لو اور جو تم سے رخ پھیر لے تم بھی اس سے روگردانی کر لو۔ اگر تم ایسا نہیں کرسکتے تو پھر میانہ روی سے کام لو اور اچھے طریقہ سے اسے طلب کرو۔
تشریح:
امام اس حکیمانہ کلام میں دو نکات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں، ان میں سے ایک زاہدانہ ہے اور دوسراعا قلا نہ۔ پہلے نکتے میں آپ فرماتے ہیں: "جو دنیا سے تمہیں حاصل ہو اُسے لے لو اور جو چیز رخ پھیر لے اُس سے منہ موڑے رہو، خُذْ مِنَ الدُّنْيَا مَا آتَاكَ وَتَوَلَّ عَمَّا تَوَلَّى عَنْكَ
یہ اس جانب اشارہ ہے کہ ہر انسان کے لیے اُس کے معمول کے حالات اور کاروبار زندگی میں کچھ نہ کچھ آمدنی ہوتی ہی ہے اور یہ آمدنی خود بخود اس تک پہنچتی ہے، مثلاً جب وہ کھیتی باڑی کرتا ہے، تو معمولاً اُس سے آمدنی حاصل ہوتی ہے اور اسی طرح تجارت و صنعت اور مویشی پالنے میں کچھ نہ کچھ آمدنی ہاتھ آتی ہے۔
لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اُس سے بڑھ کر آمدنی انسان کا رُخ نہیں کرتی۔ امام فرماتے ہیں: کیاہی بہتر ہوگا کہ تم بھی اُس کا رُخ نہ کرو اور یہ حقیقی زہد اور دنیا سے لا پروائی ہے۔
امام کا مقصود یہ ہرگز نہیں کہ انسان اپنے گھر میں بیٹھا رہے، تاکہ اُس کی روزی اُس کی تلاش میں آجائے۔ یہ وہی چیز ہے، جس سے روایات میں صریح طور پر منع کیا گیا ہے، بلکہ امام کا مقصود یہ ہے کہ جہاں اسباب فراہم نہیں وہاں مال دولت زیادہ جمع کرنے پر زور نہ دے، کیوں کہ اس صورت میں ایک توانسان کو زیادہ مشقت اٹھانا پڑے گی اورپھر ممکن ہے کہ وہ مختلف گناہوں میں مبتلا ہو جائے اور راہ حق سے منحرف ہو جائے۔ بعض اوقات تو انسان دولت ہاتھ نہ آنے پر ناشکری اور کفر کی باتیں بھی کرنے لگتا ہے۔
پھر امام دوسرے جملے میں فرماتے ہیں:” اور اگر ایسا نہ کرسکو تو پھر تحصیل و طلب میں میانہ روی اختیار کرد. فَإِن أَنْتَ لَمْ تَفْعَلُ فَأَجْلُ فِي الطَّلَبِ "
یہ اس مطلب کی طرف اشارہ ہے کہ اگر تم اپنے مال و منصب کی فراوانی اور بڑھوتری پر مصر ہی ہو، تو اس میں زیادہ روی سے باز رہو اور عاقلانہ روش اپنا لو اور گناہوں کی طرف نہ جانا۔ دوسرے لفظوں میں دنیا پرستوں کی روش پر نہ ہو جو حلال و حرام سب طریقوں سے سمیٹ لیتے ہیں۔
یقینا ایک سادہ اور آبرومندانہ زندگی جو ہر قسم کی گناہوں سے پاک ہو، اس پر تکلف زندگی سے کہیں قابل فخر ہے جو تھکا دینے والی تلاش اور مختلف گناہوں کے ارتکاب کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔(کلام امیر المومنین ج 15 ص 189)
اصول کافی میں شیخ کلینی نے ایک حدیث نقل کی ہے، جس میں حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا:
خَرَجَ النَبیُّ وَ هُوَ مَحْزُونَ فَأَتَاهُ مَلَكَ وَ مَعَهُ مَفَاتِيْحُ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ هَذِهِ مَفَاتِحُ عَوَالي الدُّنْيَا يَقُولُ لَكَ رَبُّكَ افْتَحْ وَ خُذْ مِنْهَا مَا شِئْتَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ شَيْئًا عِنْدِي فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ
رسول اکرم ؐمحزون (غمگین) حالت میں (اپنے بیت الشرف سے )نکل آئے۔ اتنے میں ایک فرشتہ جس کے پاس زمین کے خزانوں کی کنجیاں تھیں، آپ کی خدمت میں پہنچا اور عرض کی: یہ زمین کے خزانوں کی گنجیاں ہیں۔ آپ کا رب فرما رہا ہے کہ انہیں کھولیں اور جتنا چاہے لے لیں، بغیر اس کے میرے پاس آپ کی منزلت میں کمی ہو۔ رسول خدا ؐ نے فرمایا:
الدُّنیا دَارُ مَنْ لا دَارَ لَهُ وَلَهَا يَجْمَعُ مَنْ لَّا عَقْلَ لَهُ فَقَالَ الْمَلَكُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ سَمِعْتُ هَذَا الْكَلَامَ مِنْ مَلَک یقولہ في السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ حِينَ أُعْطِيتُ الْمَفَاتِيحَ
دُنیا اُس کا گھر ہے جس کا کوئی اور گھر نہیں اور اسے وہی جمع کرتا ہے جو بے عقل ہو، تو اس فرشتے نے کہا: اُس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا، میں نے چوتھے آسمان پر ایک فرشتے کو یہی بات اُس وقت کہتے ہوئے سنا، جب مجھے یہ کنجیاں دی جاری تھیں۔
اسی طرح امام جعفر صادق ؑکی حدیث ہے:
لِيَكُن طَلَبُكَ المَعيشَةَ فَوقَ كَسبِ المُضَيِّعِ، دُونَ طَلَبِ الحَريصِ الراضِي بالدنيا المُطمَئنِّ إلَيها، ولكنْ أنزِلْ نفسَكَ مِن ذلكَ بمَنزِلَةِ المُنصِفِ المُتَعَفِّفِ تَرفَعُ نفسَكَ عن مَنزِلَةِ الواهِي الضَّعيفِ وتَكتَسِبُ ما لابُدَّ للمُؤمنِ مِنهُ .(بحارالانوار: ۱۰۳/ ۳۳/ ۶۳ )
تمہارا معیشت کو تلاش کرنا اس شخص سے زیادہ ہونا چاہیے جو (سستی کر کے اسے) ضائع کر دیتا ہے، اس سے کم ہو جو حرص کے ذریعہ اسے حاصل کرتا ہے، دنیا پر نہال نہال ہے اور اسی پر وہ مطمئن ہے، بلکہ تم اپنے آپ کو اس سے کم درجے پر لے آؤ، جو لوگ میانہ روی اور پاکدامنی اختیار کرتے ہیں ان کی طرح رزق طلب کرو، اپنے آپ کو کمزور اور سست انسان کے درجہ سے بلند کر کے ایسے طلب کرو جیسے مومن کےلیے ضروری ہوتا ہے۔۔۔
رزقِ حلال کے فوائد
رزقِ حلال کے فوائد بہت ہیں۔
پہلافائدہ، یہ عبادات اور دعا کی قبولیت کی شرط ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
طَيِّبْ كَسْبَكَ تُسْتَجَبْ دَعْوَتُكَ
ترجمہ: اپنی کمائی کو پاکیزہ بناؤ، تمہاری دعا قبول ہوگی (بحار الانوار، ج ۹۰، ص ۳۷۳)۔
دوسرا فائدہ، یہ دل کو نورانی کرتا ہے اور تقویٰ بڑھاتا ہے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
طَعَامُ الْبَرَرَةِ دَوَاءٌ
ترجمہ: نیک لوگوں کا کھانا (جو حلال ہوتا ہے) دوا ہے (غرر الحکم)۔
تیسرا فائدہ، معاشرتی طور پر یہ برکت لاتا ہے۔ جب سب حلال کمائیں گے تو رشوت، چوری اور ظلم ختم ہو جائیں گے، اور معاشرہ میں استحکام آئے گا۔
خلاصہ یہ کہ رزقِ حلال ایمان کی جڑ ہے،جبکہ حرام نفاق کی۔
دعا ہے کہ
پروردگارا! ہمیں رزقِ حلال اور پاکیزہ روزی عطا فرما ئےاور اس پر قناعت کی توفیق دے۔
ہمیں اور ہماری نسلوں کو حرام سے محفوظ فرمائے۔ ہماری عبادات کو قبول فرمائے۔ ہمیں ان لوگوں میں شمار کرے جن کے پیٹ حلال سے اور دل خدا کے نور سے بھرے ہوں، تاکہ ہم امامِ زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی نصرت کے قابل ہو سکیں۔آمین
اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ
٭٭٭٭٭


