حدیثسلائیڈرسیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑمقالات حدیث و رجال

فدک شیعہ کتب کی روایات میں

شیعہ کتب میں بھی رسول خدا کے حضرت زہرا (س) کو فدک دینے کے بارے میں بہت سی روایات ذکر ہوئی ہیں۔ ان روایات میں سے ایک طولانی روایت ہے کہ جو امام صادقؑ  سے نقل ہوئی ہے، اس روایت کے ایک حصے میں امام نے فرمایا ہے کہ: فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ علیها السلام فَقَالَ یا بُنَیةِ إِنَّ اللّٰهَ قَدْ أَفَاءَ عَلَى أَبِیكِ بِفَدَكَ وَ اخْتَصَّهُ بِهَا فَهِی لِی خَاصَّةً دُونَ الْمُسْلِمِینَ أَفْعَلُ بِهَا مَا أَشَاءُ وَ إِنَّهُ قَدْ كَانَ لِأُمِّكِ خَدِیجَةَ عَلَى أَبِیكِ مَهْرٌ وَ إِنَّ أَبَاكِ قَدْ جَعَلَهَا لَكِ بِذَلِكِ وَ نَحَلْتُكِهَا تَكُونُ لَكِ وَ لِوُلْدِكِ بَعْدَكِ قَالَ فَدَعَا بِأَدِیمٍ عُكَاظِی وَ دَعَا عَلِی بْنَ أَبِی طَالِبٍ علیه السلام فَقَالَ اكْتُبْ لِفَاطِمَةَ بِفَدَكَ نِحْلَةً مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیه وآله وَ شَهِدَ عَلَى ذَلِكَ عَلِی بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَ مَوْلًى لِرَسُولِ اللّٰهِ وَ أُمُّ أَیمَنَ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیه وآله إِنَّ أُمَّ أَیمَنَ امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ جَاءَ أَهْلُ فَدَكَ إِلَى النَّبِی صلی اللّٰه علیه وآله فَقَاطَعَهُمْ عَلَى أَرْبَعَةٍ وَ عِشْرِینَ أَلْفَ دِینَارٍ فِی كُلِّ سَنَةٍ…..،
رسول خدا (ص) جب غزوے سے واپس آئے تو حضرت زہرا کے پاس گئے اور فرمایا کہ: اے میری بیٹی! خداوند نے فدک  تیرے باپ کو بخشا ہے اور اس کے ساتھ خاص کیا ہے اور اس فدک میں کسی دوسرے مسلمان کا کوئی حق نہیں ہے۔ تم اس فدک کے بارے میں جو کچھ کرنا چاہتی ہو، انجام دے سکتی ہو، کیونکہ میں تیری ماں خدیجہ کو اس کا حق مہر ادا کرنے کا مقروض تھا، اس لئے میں فدک کو تیری ماں کے مہر کے بدلے میں تجھے عطا کرتا ہوں کہ یہ فدک تیرے لیے اور تیری اولاد کے لیے ہو گا۔ اسکے بعد ایک کھال کی بنی ہوئی چیز کو لے کر علیؑ  کو دیا اور ان سے فرمایا کہ لکھو کہ رسول خدا نے فدک کو اپنی بیٹی فاطمہ کو عطا کر دیا ہے۔ علیؑ  نے لکھنے کے بعد رسول خداؐ کے غلام اور ام ایمن کو اس تحریر پر گواہ بنایا۔ رسول خدا نے ام ایمن کے بارے میں فرمایا ہے کہ: ام ایمن اہل بہشت میں سے ہے۔ اہل فدک آئے اور انہوں نے رسول خداؐ کے ساتھ ہر سال میں 24،000 دینار دینے کے بدلے میں، اتفاق اور صلح کر لی۔
(الراوندی، قطب الدین (متوفى573هـ)، الخرائج والجرائح، ج‏1، ص 113، تحقیق و نشر: مؤسسة الإمام المهدی علیه السلام ـ قم، الطبعة: الأولى، 1409هـ.)
علی بن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیر میں آیت «فَآتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ وَ الْمِسْكِینَ وَ ابْنَ السَّبِیلِ‏» کی تفسیر میں اس روایت کو ذکر کیا ہے کہ:
حَدَّثَنِی أَبِی عَنِ ابْنِ أَبِی عُمَیرٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِیسَى وَ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللّٰهِ علیه السلام قَالَ لَمَّا بُویعَ لِأَبِی بَكْرٍ وَ اسْتَقَامَ لَهُ الْأَمْرُ عَلَى جَمِیعِ الْمُهَاجِرِینَ وَ الْأَنْصَارِ بَعَثَ إِلَى فَدَكَ فَأَخْرَجَ وَكِیلَ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیه وآله مِنْهَا- فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ علیها السلام إِلَى أَبِی بَكْرٍ، فَقَالَتْ یا أَبَا بَكْرٍ مَنَعْتَنِی عَنْ مِیرَاثِی مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ وَ أَخْرَجْتَ وَكِیلِی مِنْ فَدَكَ فَقَدْ جَعَلَهَا لِی رَسُولُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیه وآله بِأَمْرِ اللّٰهِ، فَقَالَ لَهَا هَاتِی عَلَى ذَلِكَ شُهُوداً- فَجَاءَتْ بِأُمِّ أَیمَنَ فَقَالَتْ لَا أَشْهَدُ- حَتَّى أَحْتَجَّ یا أَبَا بَكْرٍ عَلَیكَ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیه وآله فَقَالَتْ أَنْشُدُكَ اللّٰهَ، أَ لَسْتَ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیه وآله قَالَ إِنَّ أُمَّ أَیمَنَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ قَالَ بَلَى، قَالَتْ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللّٰهَ أَوْحَى إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیه وآله «فَآتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ» فَجَعَلَ فَدَكَ لِفَاطِمَةَ بِأَمْرِ اللّٰهِ- وَ جَاءَ عَلِی علیه السلام فَشَهِدَ بِمِثْلِ ذَلِكَ- فَكَتَبَ لَهَا كِتَاباً بِفَدَكَ وَ دَفَعَهُ إِلَیهَا- فَدَخَلَ عُمَرُ فَقَالَ مَا هَذَا الْكِتَابُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ فَاطِمَةَ ادَّعَتْ فِی فَدَكَ وَ شَهِدَتْ لَهَا أُمُّ أَیمَنَ وَ عَلِی فَكَتَبْتُ لَهَا بِفَدَكَ، فَأَخَذَ عُمَرُ الْكِتَابَ مِنْ فَاطِمَةَ فَمَزَّقَهُ وَ قَالَ هَذَا فَی‏ءُ الْمُسْلِمِین‏…..،
امام صادقؑ نے فرمایا کہ: جب ابوبکر کی بیعت کی گئی اور اسکی خلافت کا زبردستی اعلان ہو گیا تو، اس نے اپنے بندوں کو باغ فدک بھیجا اور انہوں نے باغ فدک میں کام کرنے والے حضرت زہرا کے کاریگروں کو وہاں سے زبردستی نکال دیا۔ جناب فاطمہؑ، ابوبکر کے پاس گئیں اور اس سے فرمایا کہ: اے ابوبکر! تم نے مجھے رسول خدا کی میراث سے محروم کر دیا ہے اور میرے مزدوروں کو بھی وہاں سے نکال دیا ہے، حالانکہ رسول خدا نے خداوند کے حکم کے مطابق فدک کو مجھے دیا تھا۔
ابوبکر نے کہا کہ: اپنے اس دعوی کو ثابت کرنے کے لیے گواہ لے کر آؤ۔ حضرت زہراؑ نے ام ایمن کو پیش کیا۔ اس نے کہا کہ: میں رسول خدا (ص) کے اس فرمان پر گواہی دیتی ہوں تا کہ تمہارے سامنے احتجاج کر سکوں۔ ام ایمن نے کہا کہ: اے ابوبکر میں تم کو خدا کی قسم دیتی ہوں کہ کیا تم نے رسول خدا سے نہیں سنا کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ: ام ایمن اہل جنت میں سے ہے؟  ابوبکر نے جواب دیا: ہاں سنا ہے، ام ایمن نے کہا کہ: میں گواہی دیتی ہوں کہ: خداوند نے اپنے رسول کو وحی کی کہ اپنے ذوی القربی کا حق انکو دے دو، اس پر رسول خدا نے فدک کو خداوند کے حکم کے مطابق اپنی بیٹی فاطمہ کو دے دیا، پھر علیؑ آئے اور انہوں نے بھی ام ایمن کی طرح گواہی دی۔ یہ سن کر ابوبکر نے حضرت زہراؑ کے لیے ایک حکم نامہ لکھا اور انکو دیا ، جس میں لکھا تھا کہ، فدک انکو واپس کر دیا جائے۔ اسی وقت عمر ، ابوبکر کے پاس آیا اور کہا: یہ کیسا حکم نامہ ہے؟ ابوبکر نے کہا کہ: فاطمہؑ نے فدک کے بارے میں ایک دعوی کیا تھا اور اپنے اس دعوی پر ام ایمن اور علیؑ  کو گواہی کے لیے بھی پیش کیا ہے اور انہوں نے گواہی دی ہے کہ رسول خدا نے خداوند کے حکم کے مطابق فدک کو حضرت زہراؑ کو عطا کیا تھا، میں نے اسی وجہ سے اس حکم نامے کو لکھ کر حضرت زہراؑ کو دیا ہے۔ یہ سن کر عمر ،نے فاطمہ (س) سے حکم نامہ لے کر اسکو پھاڑ کر کہا کہ یہ فدک تمام مسلمانوں کا حق ہے……،
(القمی، أبی الحسن علی بن ابراهیم (متوفى310هـ) تفسیر القمی، ج‏2، ص 156، تحقیق: تصحیح وتعلیق وتقدیم: السید طیب الموسوی الجزائری، ناشر: مؤسسة دار الكتاب للطباعة والنشر – قم، الطبعة: الثالثة، صفر 1404.)
نتیجہ
لہذا ان روایات کے مطابق رسول خدا (ص) نے اپنی بیٹی فاطمہ (س) کو فدک ہدئیے کے طور پر عطا کیا تھا تو، اس سے یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ فدک حضرت زہرا (س) کی ملکیت تھا اور فقط وہ اس کی مالک تھیں اور دوسرا جو بھی باغ فدک میں کوئی بھی کام انجام دینا چاہتا ہو تو، وہ حضرت زہراؑ  کی اجازت کے ساتھ انجام دے گا اور باغ فدک لینا یا اس پر قبضہ کرنا تو بہت دور کی بات ہے، کوئی بھی ان کی اجازت کے بغیر کوئی کام بھی اس باغ میں انجام نہیں دے سکتا تھا۔
لیکن رسول خدا (ص) کی شہادت کے بعد جب ابوبکر زبردستی خلیفہ بن گیا تو اس نے باغ فدک میں کام کرنے والوں  کو زبردستی نکال کر فدک کو اس کے مالک کی مرضی و رضایت کے خلاف مسلمانوں کے عمومی اموال میں قرار دے دیا۔
اس واضح غصب کے بعد حضرت زہرا (س) نے اپنے حق فدک کو واپس لینے کے لیے اپنے مطالبات کا آغاز کیا۔
یہ نکتہ مہم اور قابل توجہ ہے کہ حضرت زہرا (س) کی طرف سے چند مرحلوں میں اور مختلف عنوانات کے ساتھ بار بار فدک کو واپس لینے کا مطالبہ کیا کیونکہ آپ نے پہلے مرحلے میں اس کو عطاء رسول کے عنوان سے مطالبہ کیا ۔ لیکن جب یہ منظور نہ ہوا تو آپ نے اس کو میراث کے عنوان سے مطالبہ کیا۔
پہلے مرحلے میں حضرت زہرا (س) نے ابوبکر سے فدک کا اپنے والد سے لیے گئے ہدیے کے عنوان سے مطالبہ کیا، لیکن ابوبکر نے حضرت زہراؑ سے کہا کہ اپنے اس دعوی پر گواہ لے کر آئے۔ حضرت زہراؑ نے علی (ع)، ام ایمن اور رسول خدا (ص) کے غلام رباح کو اپنے گواہوں کے طور پر پیش کیا۔
بعض دوسری روایات کے مطابق حضرت زہرا (س) گواہی کے لیے امام حسنؑ اور امام حسینؑ  کو اپنے ساتھ لے گئیں، لیکن بہت ہی افسوس کہ ابوبکر نے مختلف بہانوں سے ان کی گواہی کو جھٹلا دیا۔
قواعد کے اعتبار سے فدک کا عطاء الرسول ہونا ثابت ہے ۔
اہل سنت کے علماء کے بنائے ہوئے قواعد کی روشنی میں ہم اس کو اہل سنت کے لئے حجت کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔
اس سلسلے میں ہم تین قواعد کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جس کو اہل سنت کے علماء دوسرے موارد میں استعمال کرتے ہیں لیکن عطیہ کے بارے میں اس کی رعایت نہیں کرتے ۔۔۔
پہلا قانوں : راوی مختلف فیہ کی روایت حسن کا درجہ رکھتی ہے۔
راوی مختلف فیہ کی روایات کو اہل سنت کے علماء حسن کا درجہ دیتے ہیں۔ عطیہ کو بعض نے ثقہ کہا ہے بعض نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ لہذا یہ مختلف فیہ راویوں میں سے ہے۔ اس قسم کے راوی کی روایت کو جعلی کہنا تو دور کی بات اس کو ضعیف بھی کہنا صحیح نہیں ہے۔
دیکھیں اہل سنت کے مایہ ناز عالم ابن حجر یہی قانون دوسرے راوی کے بارے میں جاری کرتا ہے اور اس کی روایت کو حسن کہتا ہے ۔
ابن حجر عسقلانی نے «القول المسدد فی الذب عن مسند للامام احمد» میں «قزعۃ ابن سوید» کے بارے میں لکھا ہے:
وَأَمَّا قَزَعَةُ بْنُ سُوَيْدٍ فَهُوَ بَاهِلِيٌّ بَصْرِيٌّ يُكَنَّى أَبَا مُحَمَّدٍ رَوَى أَيْضًا عَنْ جَمَاعَةٍ مِنَ التَّابِعِينَ وَحَدَّثَ عَنْهُ جَمَاعَةٌ مِنَ الأَئِمَّةِ وَاخْتُلِفَ فِيهِ كَلامِ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ فَقَالَ عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ عَنْهُ ضَعِيفٌ وَقَالَ عُثْمَانُ الدَّارِمِيُّ عَنْهُ ثِقَةٌ وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ مَحَلُّهُ الصِّدْقُ وَلَيْسَ بِالْمَتِينِ يُكْتَبُ حَدِيثُهُ وَلا يُحْتَجُّ بِهِ وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ لَهُ أَحَادِيثُ مُسْتَقِيمَةٌ وَأَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْس بِهِ وَقَالَ الْبَزَّار لَمْ يَكُنْ بِالْقَوِيِّ وَقَدْ حَدَّثَ عَنْهُ أَهْلُ الْعِلْمِ وَقَالَ الْعِجْلِيُّ لَا بَأْسَ بِهِ وَفِيهِ ضَعِيفٌ فالحاصل من كلام هؤلاء الأئمة فيه أن حديثه في مرتبة الحسن.
(القول المسدد في الذب عن المسند للإمام أحمد؛ اسم المؤلف: أحمد بن علي العسقلاني أبو الفضل الوفاة: 852، دار النشر: مكتبة ابن تيمية – القاهرة – 1401، الطبعة : الأولى، تحقيق: مكتبة ابن تيمية، ج 1، ص 30)
«ابن حجر» نے «تہذیب التہذیب» میں «عبداللہ ابن صالح» کے بارے میں بھی یہی بات کی ہے :
«وقال ابن القطان هو صدوق ولم يثبت عليه ما يسقط له حديثه إلا أنه مختلف فيه فحديثه حسن »
( تهذيب التهذيب؛ اسم المؤلف: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي الوفاة: 852، دار النشر: دار الفكر – بيروت – 1404 – 1984، الطبعة : الأولى، ج5، ص228)
اور حسن روایت حجت ہونے کے اعتبار سے صحیح روایت کی طرح ہے ۔
« الحسن وهو في الاحتجاج به كالصحيح عند الحمهور. »  (اختصار علوم الحديث – ج1، ص37)
لہذا صاف واضح ہے کہ اہل سنت کے علماء عطیہ اور حق حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی بات جب آتی ہے تو اس قسم کے سارے قواعد بول جاتے ہیں۔
دوسرا قانون: جعلی اور ضعیف روایت میں فرق ہے۔
کسی مختلف فیہ راوی کی روایت کو ضعیف کہنے کا معنی اس کا جعلی ہونا نہیں ہے۔جعلی اور ضعیف کی اصطلاح میں واضح فرق ہے۔ سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کی صورت میں دوسرے قرائن اور شواہد کو بھی دیکھ کر اس کی ضعف اور کمزوری کا علاج بھی کرسکتے ہیں۔ جبکہ جعلی روایت ایک مردہ شخص کی طرح ہے قابل علاج نہیں ہے۔ جیساکہ بہت سے ایسی روایات موجود ہیں کہ جو اس روایت کی ضعف کو دور کر سکتی ہیں۔
جیساکہ اس سلسلے کی باقی اسناد اس بات پر گواہ ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے۔
تیسرا قانون : متعدد طرق سے روایت نقل ہونا روایت کی ضعف کا جبران کرتا ہے۔
روایت کم از کم تین متعدد اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ اگر مثال کے طور پر فرض بھی کر لیں کہ ان تینوں سندوں میں کوئی نہ کوئی علمی مسئلہ ہے تو پھر بھی ہم اس روایت کے حجت نہ ہونے کو قبول نہیں کر سکتے، کیونکہ اہل سنت کے علم رجال کے قواعد کے مطابق، اگر ایک روایت کی تین سے زیادہ اسناد ہوں اور وہ تمام کی تمام اسناد ضعیف بھی ہوں تو ، پھر بھی وہ اسناد ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں اور نتیجے کے طور وہ روایت صحیح و حجت ہو جاتی ہے۔
جیسا کہ بدر الدين عینی (متوفی 855 ہجری) نے کتاب عمدۃ القاری میں محیی الدین نووی سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
وقال النووي في (شرح المهذب): إن الحديث إذا روي من طرق ومفرداتها ضعاف يحتج به، علي أنا نقول: قد شهد لمذهبنا عدة أحاديث من الصحابة بطرق مختلفة كثيرة يقوي بعضها بعضا، وإن كان كل واحد ضعيفا.
نووی نے کتاب شرح مہذب میں کہا ہے کہ: اگر ایک روایت متعدد سندوں کے ساتھ نقل ہو ، لیکن اسکے بعض راوی ضعیف ہوں، پھر بھی اس روایت کے ساتھ استدلال کیا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ ہم کہتے ہیں کہ: کچھ روایات صحابہ اور دوسرے راویوں سے نقل ہوئی ہیں کہ وہ روایات ایک دوسرے کی تائید اور تقویت کرتی ہیں، اگرچہ ان روایات میں سے ہر ایک ضعیف ہی کیوں نہ ہوں۔
(العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 3، ص 307، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.)
ابن تیمیہ حرّانی ناصبی نے اپنی کتاب مجموع فتاوی میں لکھا ہے کہ:
تعدّد الطرق وكثرتها يقوي بعضها بعضا حتي قد يحصل العلم بها ولو كان الناقلون فجّارا فسّاقا فكيف إذا كانوا علماء عدولا ولكن كثر في حديثهم الغلط.
روایات کا متعدد اور کثیر واسطوں (اسناد) سے نقل ہونا، یہ ایک دوسرے کی تائید و قوی کرتے ہیں کہ اس سے اس روایت کے صحیح (معتبر) ہونے کا علم حاصل ہو جاتا ہے، اگرچہ وہ راوی فاسق اور فاجر بھی ہوں، تو پھر کیسے وہ روایات صحیح نہ ہوں کہ جن کو عالم و عادل راویوں نے نقل کیا ہو، لیکن ان کی نقل کردہ احادیث میں خطائیں بہت زیادہ بھی ہوں۔
(ابن تيميه الحراني، أحمد عبد الحليم أبو العباس (متوفي 728 هـ)، كتب ورسائل وفتاوي شيخ الإسلام ابن تيمية، ج 18، ص 26، تحقيق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي، ناشر: مكتبة ابن تيمية، الطبعة: الثانية.)
جب ایک روایت کی متعدد اسناد ہوں اور اس کے تمام راوی فاسق اور فاجر بھی ہوں، تو وہ اسناد ایک دوسرے کی تائید و محکم کرتی ہیں اور ان روایات میں نقل شدہ مطلب و بات صحیح و حجت ہو جاتی ہے، تو ابوبکر کے اقرار و اعتراف والی روایت کی اسناد میں صرف ایک راوی کو منکر الحدیث کہا گیا ہے تو ایسی روایت سو فیصد اور قطعی طور پر صحیح و حجت ہو گی۔
محمد ناصر البانی نے کتاب ارواء الغليل میں ایک روایت کی متعدد اسناد کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ:
وجملة القول: أن الحديث طرقه كلها لا تخلو من ضعف ولكنه ضعف يسير إذ ليس في شئ منها من اتهم بكذب وإنما العلة الارسال أو سوء الحفظ ومن المقرر في « علم المصطلح » أن الطرق يقوي بعضها بعضا إذا لم يكن فيها متهم.
یعنی اس حدیث کی تمام اسناد ضعیف ہیں، اگرچہ وہ ضعف بھی معمولی سا ضعف ہے، کیونکہ ان اسناد میں کوئی راوی بھی کاذب و جھوٹا نہیں ہے اور ان اسناد کے ضعیف ہونے کی علت یا روایات کا مرسلہ ہونا ہے یا پھر راوی کا کم حافظہ ہونا ہے۔ علم رجال کے ثابت شدہ قواعد میں سے یہ ہے کہ جب روایت کی متعدد اسناد میں کسی راوی پر کوئی بھی تہمت نہ لگائی گئی ہو تو، وہ اسناد ایک دوسرے کو محکم و قوی کرتی ہیں۔
(الباني، محمد ناصر، إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل، ج 1، ص 160، تحقيق: إشراف: زهير الشاويش، ناشر: المكتب الإسلامي – بيروت – لبنان، الطبعة: الثانية، 1405 – 1985 م.)
https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=2172

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button