اصحاب رسولؓرسالاتسلائیڈرشخصیات

حضرت ابو طالب علیہ السلام

مؤلف: کمال سید
عام الفیل سنہ ٥٧٠ ء حبشیوں نے ابرہہ کی قیادت میں خانہ کعبہ کو مسمار کی غرض سے شہر مکہ پر حملہ کیا۔اس زمانہ میں ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجدحضرت عبد المطلب مکہ کے رئیس وسردار تھے ،انہوں نے کعبہ کا طواف کیا اور خدا سے دعا کی۔ اے پالنے والے! اس گھر کو جسے ابراہیم خلیل علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے ایک خدا کی عبادت کے لئے بنایا تھا ابرہہ کے لشکر کے حملوں سے بچالے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں حضرت عبد المطلب علیہ السلام کی دعا مستجاب ہوئی ،اور جب ہاتھی اور لشکر خانی کعبہ کو منہدم کرنے کی غرض سے چلا تو آسمان پر ابابیل پرندے ظاہر ہوئے جو اپنی منقاروں میں کنکریوں کولیے ہوئے تھے ،پرندوں نے لشکر پر کنکریاں گرانا شروع کردیں اور کعبہ کے پاس سے لشکر کو متفرق کردیا، جس سے اللہ تعالی کی قدرت اور حضرت عبد المطلب علیہ السلام کی عظمت ظاہر ہوئی ۔اس سال کو عام الفیل کہاجاتاہے ،اسی سال ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ولادت پائی اس وقت حضرت ابوطالب علیہ السلام کی عمر تیس سال تھی ،خانہ کعبہ پر ابرہہ کے حملے کا حادثہ قرآن مجید کے سورہ فیل میں بیان ہوا ہے :
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کا حال کیاہے؟
کیا ان کی تدبیر کو بیکار نہیں بنایا ؟ ان کے (سروں) پر ابابیل پرندے بھیجے جو ان پر کنکریاں گرارہے تھے پھر انہیں چبائے ہوئے بھوسے کی مانند بنادیا ۔
چاہ زمزم کو کھودنے والے:
حضرت عبد المطلب علیہ السلام کے دس بیٹے تھے ،انہی میں سے ایک ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد گرامی حضرت عبد اللہ علیہ السلام بھی تھے ان کے دوسرے بھائی حضرت ابوطالب علیہ السلام تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے ۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیم تھے ،ابھی آپ بطن مادر ہی میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد حضرت عبد اللہ علیہ السلام کا انتقال ہوگیا ،پانچ سال کے تھے کہ والدہ کی شفقت سے بھی محروم ہوگئے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب علیہ السلام نے کفالت کی،حضرت عبد المطلب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت محبت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نبوت کے آثار دیکھتے تھے ۔
حضرت عبد المطلب علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے دین پر قائم تھے،اپنے بیٹوں کو مکارم اخلاق کی وصیت کرتے تھے۔مرتے وقت انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا:میرے صلب سے ضرور ایک نبی ہوگا تم میں سے جو بھی اس وقت موجود ہو اسے اس نبی پر ایمان لانا چاہیئے۔
اس کے بعد اپنے بیٹے حضرت ابوطالب علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اورآہستہ سے ان کے کان میں کہا: اے ابوطالب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شان وشوکت والے ہیں لھذا تم اپنی زبان اور ہاتھ سےان کی مدد کرتے رہنا۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آٹھ سال کے تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد عبد المطلب کا انتقال ہوا اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کفالت حضرت ابو طالب کی طرف منتقل ہوئی۔
حضرت ابو طالب علیہ السلام کا نام عبد مناف ہے ،جو شیخ بطحا کے نام سے مشہور ہیں اور ان کی والدہ قبیلہ بنی مخزوم،کے عمرو کی بیٹی ،حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا ہیں۔ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا کے زیر سایہ زندگی گزارتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چچا کی آغوش تربیت میں بہت ہی محبت وشفقت پائی ،آپ کی چچی زوجہ ابوطالب علیہ السلام فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیھا بھی اپنی محبت سے سرشار رکھتی تھیں ہر چیز میں اپنے بیٹوں پر مقدم رکھتی تھیں ۔
ایسے کریم گھرانے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پروان چڑھے ،حضرت ابوطالب علیہ السلام کے دل میں بھتیجے کی محبت بڑھتی ہی جاتی تھی خصوصا اس وقت محبت میں اضافہ ہوجاتا تھا جب آپ کے بلند اخلاق اور بہترین آداب کو دیکھتے تھے۔
کھانا کھاتے وقت یتیم بچہ ادب سے ہاتھ بڑھاتا ،بسم اللہ پڑھتا اور فارغ ہونے کے بعد الحمد للہ کہتاتھا ۔
ایک دن حضرت ابوطالب علیہ السلام نے اپنے بھتیجے کو دسترخوان پر موجود نا پایا تو خود نے بھی کھانا نہ کھایا اور کہا: جب تک میرا بیٹا نہیں آئے گا میں کھانا نہیں کھاوں گا جب وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آگئے تو پینے کے لئے انہیں دودھ کا پیالہ دیا پھر اسی سے یکے بعد دیگرے بچوں نے پیا ،سب سیراب ہوگئے اس سے ابوطالب علیہ السلام کو بہت تعجب ہوا اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک تم بابرکت ہو۔
ابوطالب اہل کتاب سے بہت سی بشارتیں سنتے تھے،جن سے یہ معلوم ہوتاتھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کا زمانہ قریب ہے ۔اس وجہ سے ابوطالب اپنے بھتییجے کا زیادہ خیال رکھتے تھے پھر ان میں نبوت کے آثار بھی ملاحظہ کرتے تھے ۔انہیں تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔
جب ابوطالب علیہ السلام نے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام جانے کا قصد کیا تو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی آپ کے ہمراہ روانہ ہوئے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر نو سال تھی ۔تجارتی قافلے شہر بصرہ سے گزرتے تھے بصری میں ایک کلیسا تھا کہ جس میں بحیرانامی نصرانی راہب رہتاتھا ۔
یہ راہب بھی نئے نبی کی آمد کا منتظر تھا،جب اس کی نگاہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرپڑی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ صفات پائے جوآنے والے نبی کی بشارت سے واضح تھے ۔
راہب بچہ کے چہرے پر اپنی نظریں جمادیتاہے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کی دی ہوئی بشارتوں کے بارے میں غور کرنے لگتاہے۔راہب نے بچہ کانام پوچھا :ابوطالب نے فرمایا: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مبارک نام کوسن کر راہب کی فروتنی میں اضافہ ہوجاتاہے اور وہ ابوطالب سے کہتاہے:
مکہ لوٹ جاو اور اپنے بچے کو یہودیوں سے بچائو کیونکہ یہ بچہ بڑی شان وشوکت والا ہے ابو طالب علیہ السلام مکہ لوٹ آتے ہیں اوراب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اورزیادہ محبت ہوجاتی ہے اور ان کی حفاظت میں زیادہ کوشاں ہوجاتے ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود کی برکت برسوں گزرجاتے ہیں ،مکہ اوراس کے مضافات میں قحط پڑتاہے لوگ شیخ البطحا کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا تعالی سے بارش کی دعا کریں۔ابوطالب ! وادی مکہ قحط میں مبتلاہوگئی ہے اور بچے پیاسے ہیں چلیے ہمارے لئے بارش کی دعا کیجئے ،گھر سے نکلتے وقت اگرچہ ابوطالب کو خدا سے بڑی امید ہے لیکن اس کے باوجود اپنے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوساتھ لے جاتے ہیں۔
ابوطالب ،محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوساتھ لے کر کعبہ کے پاس کھڑے ہوئے ،بچہ کادل لوگوں کے لئے بارش مانگ رہاتھا اور حضرت ابوطالب علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے خدا سے دعا مانگی کہ موسلادھار بارش کو حکم دے۔محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھا اوردیکھتے ہی آسمان پر بادل چھاگئے ،بجلی چمکنے لگی اور کڑک ہونے لگی اور پھر ٹوٹ کر اتنا پانی برسا کہ جس سے ندی نالے بہہ نکلے۔ لوگ خوش خوش اپنے گھر لوٹ رہے تھے بارش کی نعمت اور زمین کے سرسبز ہوجانے پر خدا کا شکر ادا کررہے تھے ،ابوطالب بھی لوٹ آئے اب ان کے دل میں بھتیجے کی محبت پہلے سے زیادہ ہوگئی تھی۔
سالہا سال گزر جاتے ہیں ،محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں ،اخلاق انسانی کاعظیم نمونہ ہیں یہاں تک کہ لوگ صادق وامین کہتے ہیں۔
ابوطالب علیہ السلام کوکسی چیز سے نفرت نہیں تھی جتنی ظلم سے تھی ۔سب سے زیادہ مظلوموں کے ہمدرد تھے۔ لہذا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوطالب سے محبت رکھتے تھے۔
ایک مرتبہ قبیلہ کنانہ اور قبیلہ قیس کے درمیان جنگ چھڑ گئی اس جنگ میں قبیلہ قیس کی غلطی تھی۔ کنانہ کے افراد ابوطالب کی خدمت میں پہنچے اورعرض کی :اے پرندوں کو دینے والے اور حاجیوں کو سیراب کرنے والے کے فرزند ! ہم سے چشم پوشی نہ کیجئے ہم جانتے ہیں کہ فتح وظفر آپ کے ساتھ ،ابوطالب نے جواب دیا:
جب ظلم وتعدی ،ترفقی اندازی اور بہتان سے دست بردار ہوجائوگے تو میں تم سے چشم پوشی نہیں کرونگا ،ان لوگون نے اس بات پوابوطالب سے معاہدہ کرلیا کہ ہم انہیں انجام نہیں دیں گے ۔
اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے چچا کے ساتھ دیا تو وہ فتحیاب ہوئے۔ مکہ کے بعض لوگ حاجیوں پر ظلم کرتے تھے ایک مرتبہ قبیلہ خثعمی کا ایک آدمی اپنی بیٹی کے ہمراہ حج بیت اللہ کے لئے آیا۔
مکہ کا ایک جوان اٹھا اور اس نے اس شخص کی بیٹی کو پکڑ لیا ،خثعمی نے چلا کر کہا: کون ہے جو میری مدد کرے۔ بعض نے کہا: تمہارے لئے ضروری ہے کہ حلف الفضول سے رجوع کرو ۔
وہ شخص ابوطالب کے پاس گیا۔حلف الفضول کے بانی ابوطالب ہی تھے ،حلف الفضول مکہ والوں کے درمیان ایک عہد تھا اور وہ یہ کہ مظلوم کی مدد کریں گے اور ظالم سے انتقام لیں گے۔
جب خثعمی ان کے پاس مدد حاصل کرنے کے لئے گیا تو مسلح افراد اس جوان کے گھر پہونچے اور اسے دھمکی دی اور لڑکی اس کے باپ کے سپرد کردی ۔محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس انجمن کے رکن تھے۔
ابوطالب کثیر العیال تھے اور محتاجوں کی مدد کرنے سے بھی کبھی چشم پوشی نہیں کرتے تھے نتیجہ میں تنگ دست ہوگئے تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ محسوس کیاکہ مجھے کچھ کرنا چاہئیے ۔مالدار عورت خدیجہ نے درخواست کی کہ میرا مال تجارت کے لئے شام لے جائیے۔
تجارتی قافلہ تیار تھا ۔محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امانتوں کو اہل تک پہونچادیا ۔خدیجہ اپنے بارے مین فکر مند تھیں انہوں نے محمدؐکو شادی کا پیغام دیا۔ اس رشتہ سے ابوطالب بہت خوش ہوئے اور بنفس نفیس خدیجہ کا پیغام لے کر گئے۔ ابوطالب کے ساتھ بنی ہاشم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حمزہ بن عبد المطلب بھی تھے۔ ابوطالب نے فرمایا:
حمد اس خدا کی جس نے ہمیں ابراہیم کی نسل اور اسماعیل کی ذریت میں قراردیا اور ہمارے لئے پردہ کا گھر اور امن کا حرم بنایا اور ہمارے شہر میں ہم پر برکت نازل کی۔
بے شک میرے بھتیجے محمد بن عبد اللہ کا قریش کے جس شخس سے بھی موازنہ کیا جائے گا اسی پر فوقیت لے جائیگا۔ جس سے بھی مقابلہ کیا جائیگا اسی سے اعظم قرار پائیگا ۔اگرچہ مال ان کے پاس کم ہے ،پھر مال تو آنے جانے والی چیز ہے وہ خدیجہ سلام اللہ علیھا سے رغبت رکھتے ہیں اور خدیجہ سلام اللہ علیھا بھی انہیں چاہتی ہے ۔
تم ان سے جو کچھ مہر مانگو گے وہ میں اپنے مال سے دونگا ،قسم خدا کی میرا بھتیجانباء عظیم کا مالک ہے ۔
شادی ہوگئی ۔ برسوں گرز جانے کے بعد خدا نے ابوطالب کو ایک اور بیٹا عطاکیا جس کا نام علی رکھا ۔ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا کے بار کو ہلکا کرنے کا ارادہ کیا ایک دن چچا کے گھر تشریف لے گئے اور علی کو اپنے گھر لے آئے۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام کا نزول اب ابوطالب ستر سال کے ہوچکے ہیں اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر چالیس سال ہے وہ اپنی عادت کے مطابق ہر سال غارحراء میں تشریف لے جاتے ہیں اسی سال آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاتف کی آواز سنتے ہیں ہاتف کہتاہے:
پڑھو !پڑھو! اپنے رب کے نام سے ،جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا ،پڑھواور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ہے ،جس نے انسان کو وہ سب کچھ سکھادیاہے ،جووہ نہیں جانتا تھا۔پھر کہتا ہے:
اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل ہوں۔
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حراء سے باررسالت اٹھائے ہوئے گھر کی طرف لوٹتے ہیں۔ ایک دن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے پیچھے علی نماز پڑھ رہے تھے کہ ابوطالب تشریف لائے اور فرط محبت سے فرمایا: بھتیجے کیاکررہے ہو؟
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہم دین اسلام کے مطابق اللہ کی عبادت کررہے ہیں۔
ابوطالب کی آنکھیں چمک اٹھیں اور فرمایا: میں اس سے راضی ہوں ، جو کچھ تم انجام دے رہے ہو اس میں کوئی حرج نہیں ہے پھر اپنے بیٹے علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی علیہ السلام ! اپنے ابن عم کی پیروی کیا کرو کیونکہ وہ تمہیں خیر ہی کی دعوت دیں گے۔
دعوت ذو العشیرہ
ایک مدت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام خدا کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے:
وانذر عشیرتک الاقربین واخفض جناحک لمن اتبعک من المئومنین۔
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو جن کی عمر دس سال تھی حکم دیا کہ بنی ہاشم کی دعوت کرو دعوت میں ابوطالب ،ابولہب اور دوسرے لوگوں نے شرکت کی۔جب سب لوگ کھانا کھا چکے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
میں کسی عرب جوان کو نہیں پہچانتا ہوں کہ جو مجھ سے بہتر اپنی قوم کے لئے کوئی چیز لایا ہو یقینا میں تمہارے لئے دنیا وآخرت کی نیکیاں لے کر آیاہوں۔
اس کے بعد ان کے سامنے دین اسلام پیش کیا ۔
ابولہب !اٹھا اور غصہ میں کہنے لگا ۔ یقینا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تم پر جادو کیا ہے ۔ ابو طالب نے غضبناک ہوکر کہاخاموش !اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا:
اٹھیے اور جو آپ کا دل چاہے کہئیے اور اپنے رب کا پیغام پہنچائیے کہ آپ صادق وامین ہیں۔اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے اور فرمایا:
مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اسی کی طرف بلاوں پس تم میں سے کون ہے جو اس سلسلہ میں میری مدد کرے گا وہ میرے بعد تم میں میرا نھائی وصی اور خلیفہ ہوگا۔ سب خاموش رہے ۔اس خاموشی کے سناٹے کو علی نے اپنے شباب کے ہمہمہ سے توڑ دیا اور فرمایا:
اے اللہ کے رسول میں آپ کی مدد کرونگا ،یہ سن کر رسول نے اپنے ابن عم کو گلے سے لگایا ۔
بنی ہاشم اٹھ کھڑے ہوئے ابولہب نے قہقہہ لگاکر تمسخر کیا اور ابوطالب سے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو حکم دیا ہے کہ اپنے بیٹے کی باتیں سنو اور اطاعت کرو۔
لیکن ابوطالب اس بات سے شرمندہ نہ ہوئے بلکہ اس کی طرف قہر آلود آنکھوں سے دیکھا ۔اور اپنے بھتیجے سے شفقت کے ساتھ فرمایا:
جس چیز کا آپ کو حکم ہواہے اس کو انجام دیتے رہئیے ۔خدا کی قسم میں آپ کی ہمیشہ حفاظت کرونگا۔
ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قدرشناس آنکھوں سے ابوطالب کی طرف دیکھ رہے تھے اور محسوس کررہے تھے جب تک سردار مکہ میرے ساتھ ہین میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتاہے۔
ناصر ومددگار بڑھاپے کی کمزوری کے باوجود ابوطالب پوری طاقت سے پیغام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دفاع کرتے تھے اور مشرکین مکہ سے جاری رہنے والی جنگ میں آپ پہلی صف میں رہتے تھے۔
مکہ والوں کی کثیر تعداد بت پرست تھی اور قریش کے جابروں کی دھمکیوں کو ٹھوکر مار کر دین خدا میں داخل ہورہی تھی۔
ایک دن مشرکین کے سرغنہ ابوطالب کے پاس آئے ابوطالب بستر پر لیٹے ہوئے تھے ۔مشرکین نے غصہ میں کہا: اے ابوطالب اپنے بھتیجے کو روک لیجئے اس نے ہماری نیند حرام کردی ہے یہ ہمارے خدائوں کو براکہتاہے۔
ابوطالب اپنی قوم والوں کی طرف سے محزون ہوئے کیونکہ وہ صدائے حق نہیں سننا چاہتے تھے لہذا ابوطالب نے کہا:
مجھے ان سے گفتگو کرنے کی مہلت دو!
ابوطالب نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ باتیں بتائیں جوسردار قریش نے کہی تھیں ،رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت ہی ادب کے ساتھ فرمایا:
چچا جان میں اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرسکتا۔
ابوجہل نے، جو کہ سب سے زیادہ کینہ ور تھا ۔کہا:
آپ کو جس قدر مال چاہئے ہم دیں گے بلکہ اگر آپ ہم پر بادشاہی کرنا چاہیں گے تو ہم بادشاہ بنادیں گے۔
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے سوائے کلمہ کے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔
ابوجہل نے کہا: وہ کیاہے ؟ تاکہ وہ اور ایسی ہی دسیوں چیزیں آپ کو دیدیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قولوالاالہ الا اللہ، کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔
ابوجہل غصہ میں آپے سے باہر ہوگیا اور کہنے لگا : اس کے علاوہ کسی اور چیز کا سوال کیجئے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اگر تم میرے ہاتھ پر سورج بھی رکھ دوگے تو بھی میں اس کے علاوہ تم سے کچھ نہیں طلب کروں مشرکین اٹھ کھڑے ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈرانے دھمکانے لگے ۔ابوطالب نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: اپنی جان کا خیال رکھو! اور مجھ پر اتنا بار نہ ڈالو ! جس کی مجھ میں طاقت نہیں ہے ۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روتے ہوئے جواب دیا :
چچا جان خدا کی قسم اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھدیں اور پھر کہیں کہ اس امر سے دست کش ہوجاوں تو بھی میں ایسا کرونگا ۔یہاں تک کہ خدا اسے غالب کردے اور اس کے غیر کو فنا کردے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آنسو صاف کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ،ابوطالب نے رقت آمیز لہجہ میں آواز دی اور کہا:
بیٹے میرے قریب آو۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے قریب گئے چچا نے بھتیجے کوبوسہ دیا اور کہا:
جاو بیٹے جو تمہارادل چاہے کہو خدا کی قسم میں تمہیں کسی کے سپرد نہیں کرونگا۔
پھر ابوطالب نے قریش کے جابروں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا:
خدا کی قسم اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ قریش اپنی کثرت کے باوجود تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتے ۔
یہاں تک کہ میں زمین کے نیچے دفن کردیا جاوں۔
نور اسلام کی کرنیں
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نئے دین کی بشارت دیتے تھے تاکہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئیں۔
ایک مرتبہ پھر قریش ابوطالب کے پاس آئے اور ابو طالب کو نئے انداز سے مخاطب کیا کہنے لگے :اے ابوطالب !یہ عمار بن ولید (خالد بن ولید کا بھائی) ہے قریش میں اس جیسا جوان نہیں ہے نہایت ہی حسین اسے آپ لے لیجئے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمارے حوالے کردیجئے تاکہ ہم اسے قتل کردیں۔
ابوطالب کو اپنی قوم پر بہت افسوس ہوا کہ کہ ان کے سوچنے کا اندازہی نرالا ہے ۔ابوطالب نے انکار کرتے ہوئے جواب دیا:
کیا تم اپنا بیٹا اس لئے میرے سپرد کرناچاہتے ہو کہ میں اس کی پرورش کروں اور اپنا بیٹا تمہیں اس لئے دیدوں تم اسے قتل کردو!خدا کی قسم یہ کبھی نہیں ہوگا ۔کیا تم نے اونٹنی کو غیر کے بچہ کو دودھ پلاتے دیکھاہے؟!
اب مشرکین کی ایذارسانی کا سلسلہ بڑھ گیا ۔انہوں نے مسلمانوں کو اور زیادہ ستانا شروع کردیا۔
ابو طالب کو یہ خوف ہواکہ کہیں اس ایذا رسانی کا سلسلہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک نہ پہونچ جائے ۔لھذا انہوں نے بنی ہاشم کو طلب کیا اور انہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کی دعوت دی ابوطالب کے علاوہ سب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر لبیک کہا:
ایک مرتبہ ابوطالب کو یہ خبر ملی کہ ابو جہل اور بعض مشرکین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کے درپے ہیں لہذا وہ جعفر کو ساتھ لے کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلے مکہ کے ٹیلوں میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلاش کیا اِدھر ادھر ڈھونڈا تودیکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی نماز پڑھ رہے ہیں ،محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنہا نظر آئے ،علی علیہ السلام کے سواء ان کے ساتھ کوئی نہ تھا لہذا ابوطالب کو قلق ہوا ،انہوں نے بھتیجے کا بازو مضبوط کرنا چاہا اور اپنے بیٹے جعفر سے کہا: اپنے عم کی دوسری طرف تم کھڑے ہوجائو ۔
یعنی بائیں طرف تم کھڑے ہوجائو تاکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوزیادہ قوت وعزم محسوس ہوسکے۔
جعفر نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے بھائی علی کے ساتھ زمین وآسمان کے خالق اور رب العالمین کے لئے نماز ادا کی ۔
ایک بار اور ابوطالب نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ پایا ۔حسب عادت ان کا انتظار کیا لیکن وہ نہ لوٹے ابوطالب نے تلاش کرنا شروع کیا ،ان تمام جگہوں پر گئے جہاں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آتے جاتے تھے لیکن کہیں نہ پایا واپس لوٹ آئے اور بنی ہاشم کے جوانوں کو جمع کیا اور کہا:
تم سب تلوار اٹھالو اور میرے ساتھ چلو جب میں مسجد میں داخل ہوجائوں توتم ان قریش کے سرداروں کے پاس بیٹھ جانا ۔جب یہ معلوم ہوجائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کردئیے ہیں توتم ان کو قتل کردینا ۔
بنی ہاشم کے جوانوں نے حکم کی تعمیل کی اور ان میں سے ہرایک مشرکین کے سردار کے پاس بیٹھ گئے۔
ابوطالب بھی بیٹھ کر انتظار کرنے لگے ۔اسی اثنا میں زید بن حارثہ آئے اور انہوں نے بتایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحیح وسالم ہیں۔
اس وقت ابوطالب نے اعلان کیا :اگر کوئی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے کھیلے گا تو اس کاانجام برا ہوگا۔ اب مشرکین کو اپنی ذلت کا احساس ہوا ،ابوجہل نے گردن جھکائی اور خوف سے اس کا چہرہ زرد ہوگیا ۔
بعض مشرکین اپنے لڑکوں اور غلاموں کو ترغیب دیتے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوستائیں۔
ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں گئے تو ایک غلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر گند ڈال دی اور مشرکین نے قہقہہ لگانا شروع کردیا۔
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت قلق ہوا، دل پکڑ کر رہ گئے ،جاکے اپنے چچا سے شکایت کی،ابوطالب کو غیظ آگیا تلوار کھینچ لی اور مشرکین کے پاس پہنچے اور اپنے غلام کو حکم دیا کہ گندگی اٹھا کر یکے بعد دیگرے ان سب کے منہ پر مل دو۔
مشرکین نے کہا: اے ابوطالب اتنا کہدینا ہی آپ کے لئے کافی ہے۔
بائیکاٹ:
جب مشرکین کو یہ یقین ہوگیا کہ ابوطالب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت سے دست بردار نہیں ہونگے اور ان کی حمایت وحفاظت میں جان بھی دینے کو تیار ہیں تو انہوں نے بنی ہاشم کا سماجی واقتصادی بائیکاٹ اور ان سے ہر قسم کی قطع تعلقی کا اعلان کردیا۔
مکہ کے چالیس سرداروں نے قطع تعلقی کے سلسلہ میں ایک دستاویز لکھی اور اسے خانہ کعبہ کے اندرلٹکادیا یہ واقعہ ماہ محرم میں بعثت کے ساتویں سال پیش آیا۔
قریش کویہ توقع تھی کہ ابوطالب ہتھیار ڈالدیں گے لیکن شیخ البطحاء کا دوسرا ہی موقف تھا۔ ابوطالب اپنے قبیلہ کو دوپہاڑوں کے درمیان کی وادی میں لے گئے ۔یہ اس لئے کیاتاکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل سے بچاسکیں۔
ابوطالب غار میں چلے گئے اور اس کے سوراخوں کو بند کردیا تاکہ ان سے داخل ہوکر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل نہ کردیں۔
اپنے بڑھاپے کے باوجود اپنے بھائی حمزہ اور بنی ہاشم کے دوسرے لوگوں کے ساتھ ابوطالب بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچانے کے لئے پہرہ دیتے تھے اور ان کو ایک بستر سے دوسرے بستر پر منتقل کرتے رہتے تھے۔
اسی طرح بہت سے دن گزر گئے ۔اس گوشہ نشینی کی زندگی میں شعب میں رہنے والے رنج ومحرومی ا ور بھوک کی تکلیف برداشت کرتے رہے۔
جب حج کازمانہ آیا تو وہ لوگ کھانے پینے اور پہننے کی چیزیں خریدنے کے لئے باہر نکلے کہ بازار میں کوئی چیز باقی نہیں بچتی تھی کہ جس محاصرہ میں پھنسے ہوئے بنی ہازم خرید لیتے۔
اس متزلزل کردینے والے زمانہ میں ابوطالب چٹان کی طرح ثابت رہے نہ نرمی اختیار کی نہ اپنے اس موقف سے ہٹے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں تھا ۔اس مومن کی مثال چٹان کی سی ہے ،جو ثابت رہتی ہے ۔اکثر لوگوں نے ابوطالب کی زبان سے یہ اشعار بھی سنے ہیں:
نصرت الرسول رسول الملیان
بیض تلائلاء کلمع البرق
اذب واحمی رسول الله
حمایة حام علیه شفیق
ایک مرتبہ قریش کے موقف کو ٹھکراتے ہوئے فرمایا:
الم تعلموا انا وجدنا مهمدا
رسولا کموسی خط فی اول الکتب
وان علیه فی العباد محبة
ولا حیف فیمن خصه الله فی الحب
لوگوں کے دل میں ان کی محبت ہے اور یہ کوئی افسوس ناک بات نہیں ہے کہ اللہ نے محبت کو ان سے مختص کیاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے بیٹوں سے زیادہ چاہتے تھے کبھی آپ کی طرف دیکھ کر رونے لگتے اور فرماتے تھے : جب میں انہیں دیکھتا ہوں تو مجھے میرے بھائی عبد اللہ یاد آجاتے ہیں ۔
ایک مرتبہ رات کو ابوطالب آئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیدار کیا اور علی سے فرمایا:
بیٹے تم ان کے بستر پر سوجاو۔
جب حضرت علی علیہ السلام نے اپنے والد کو یہ بات سمجھانے کے لئے کہ میں اپنے نفس کوقربان کرنے کے لئے تیار ہوں، فرمایا:
اس طرح عنقریب قتل ہوجاؤنگا ۔
ابو طالب نے کہا:
حبیب اور فرزند حبیب کی طرف سے فدیہ بننے پر صبر کرو۔
حضرت علی علیہ السلام دلیری سے کہتے ہیں:
میں موت سے نہیں ڈرتا ہوں میں تو صرف آپ پر اپنی فداکاری واضح کرنا چاہتا تھا۔
جناب ابوطالب علیہ السلام نے محبت سے اپنے بیٹے کا بازو تھپتھپایا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسری جگہ لے گئے تاکہ وہاں آرام کریں اور جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر پر آرام فرماتے تھے تو ابو طالب آرام نہیں فرماتے تھے تاکہ نیند غالب نہ آجائے اور ان کا قلب ایمان سے سرشار رہتاتھا۔
مہینوں گزرتے جارہے تھے اور غار میں محبوس لوگوں کی بھوک اور صبر میں اضافہ ہوتا جارہاتھا ۔یہاں تک درختوں کے پتے کھاکر بسر کرتے تھے ،بھوکے بچوں کو دیکھ کررسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت قلق ہوتاتھا۔
خوشخبری:
ایک دن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا کے پاس آئے جبکہ فرحت ان کے درخشاں چہرہ سے عیاں تھی۔ اور فرمایا:
چچا!خدا نے قریش کے عہد نامہ پر دیمک کو مسلط کردیا ہے اور اس نے اللہ کے نام کے علاوہ سارا عہد نامہ چاٹ لیاہے۔
جناب ابوطالب علیہ السلام نے خوشی سے کہا:
کیا تمہارے رب نے تمہیں اس کی خبر دی ہے؟!
ہاں۔
جناب ابوطالب علیہ السلام فورا اٹھے ،ان کا قلب ایمان سے معمور تھا ۔خانہ کعبہ کے پاس گئے ،وہاں دار الندوہ میں قریش کے سردار جمع تھے۔
جناب ابوطالب علیہ السلام نے ان لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
اے گروہ قریش !
وہ سب بارعب شیخ کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے اور منتظر رہے کہ دیکھئے کیا کہتے ہیں شاید یہ اعلان کریں گے کہ میں محاصرہ سے عاجز آگیاہوں اور اپنا موقف بدل دیاہے۔ شیخ البطحاء نے کہا:
اے گروہ قریش ! میرے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے عہد نامہ پر خدا نے دیمک کو مسلط کردیاہے اور اس نے خدا کے نام کے سوا ساری عبارت کو چاٹ لیاہے ۔
اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچے ہیں تو ہمارے بائیکاٹ اور محاصرہ سے دست بردار ہوجاو۔
ابوجہل نے کہا:
اگر وہ جھوٹے ہیں؟ (معاذ اللہ)
ابوطالب علیہ السلام نے وثوق وایمان کے ساتھ کہا:
میں اپنے بھتیجے کو تمہارے حوالے کردونگا۔
قریش کے سرداوں نے کہا:
اس بات پر ہم راضی ہیں ،ہمارا تم سے عہد ومیثاق ہے۔
دیمک کو دیکھنے کے لئے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا گیا ۔دیکھا کہ اس نے خدا کے نام کے سوا سارا عہد نامہ کھالیا ہے۔
سارے محاصرین شعب ابوطالب سے نکل آئے ۔محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھ ان لوگوں نے جو کہ ایمان لے آئے تھے۔ حج بیت اللہ کی زیارت کے لئے آنے والے وفود کو نور اسلام کو دعوت دینا شروع کردی۔
کوچ ابوطالب:
اپنی عمر کے اسی سال پورے کرچکے ہیں۔ شدید ضعف کا احساس ہوتاہے ،بیمار پڑتے ہیں ،صاحب فراش ہوجاتے ہیں ۔انہیں کسی چیز کی فکر نہیں ہے ۔ صرف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ محسوس کرتے ہیں کہ میرے بعد قریش کو کسی کا خوف نہیں رہے گا اور وہ میرے بھتیجے کو قتل کردیں گے۔
قریش کے سردار شیخ البطحاء ،ابوطالب علیہ السلام کی عیادت کے لئے آتے ہیں اور کہتے ہیں:
اے ابو طالب علیہ السلام آپ ہمارے سردار ہیں ،مرنے کے قریب ہیں ہمارے اور اپنے بھتیجے کے درمیان سے دشمنی کی جڑ کو ختم کردیجئے۔ان سے کہیے کہ وہ ہمیں کچھ نہ کہیں اور ہم بھی انہیں کچھ نہیں کہیں گے۔
ابوطالب علیہ السلام نے ابو جہل وابوسفیان اور قریش کے دیگر سرداروں کی طرف دیکھا اور نحیف آواز میں کہا:
اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں پر کان دھروگے اور ان کے حکم کا اتباع کروگے تو کبھی نقصان نہ اٹھاوگے اس کی اطاعت کرو کہ تمہاری دنیا وآخرت سنور جائے گی۔
یہ بات سن کر مشرکین اٹھ گئے اور ابوجہل نے کہا:
کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ایک خدا کو تسلیم کرلیں؟
قریش کے اس موقف پر ابوطالب علیہ السلام کو بہت افسوس ہوا ۔محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف فکر مند تھے بنی ہاشم کو بلایا اور انہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت کرنے کی تاکید کی اور کہا اگر وہ جان دینے کا حکم بھی دیں تو بھی دریغ نہ کرنا پھر ابوطالب علیہ السلام نے آنکھیں بند کرلیں اور اطمینان سے جان کو جاں آفریں کے سپرد کردیا۔
سردار مکہ خاموش ہوگیا ۔بدن کی حرکت بند ہوگئی ۔ان کے بیٹے علی نے دل خراش نالوں سے رونا شروع کیا ۔مکہ کی فضا میں آہ وبکا کی آواز گونجنے لگی ۔مشرکین کے چراغ روشن ہوگئے ۔ابوجہل نے کہا:
اب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انتقام لینے کا وقت آگیاہے ۔
اپنے چچا کو آخری باروداع کرنے کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ۔ان کی درخشاں پیشانی کو بوسہ دیا اور کہنے لگے:
چچا خدا آپ پر رحم کرے جب میں چھوٹا تھا اس وقت میری تربیت کی ۔میں یتیم تھا تو میری کفالت کی،بڑا ہوا تو میری مدد کی، خدا وند عالم میری اور اسلام کی طرف سے آپ کو جزا ئے خیر عطاکرے یہ کہہ کراتنا روئے کہ آنسو بہہ نکلے اور اس زمانہ کو یاد کرنے لگے جو کہ اپنے چچا کے سایہ میں گزرا تھا ،وہ دن بھی یاد آگیا جب بچے تھے اور چچا تجارت کے لئے شام جارہے رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹ کی مہار پکڑ کر روتے ہوئے کہاتھا:
مجھے کس کے سہارے چھوڑ کر جارہے ہیں ،ماں ہے نہ باپ ،میں کس سے دل بہلاؤں؟
وہ وقت بھی یاد آگیا جب چچا نے روتے ہوئے کہاتھا:
خدا کی قسم میں تمہیں کسی غیر کے سہارے پر نہیں چھوڑونگا۔
پھر ہاتھ بڑھا کر اٹھالیا تھا اور بوسے دینے لگے تھے اور دونوں ناقہ پر سوار ہوکر صحراء طے کرنے لگے تھے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر روز اپنی شیرینی اور تلخی کے ساتھ یاد آرہاتھا اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا کی منور پیشانی کو بوسہ دیا اور اپنے ابن عم علی علیہ السلام کو گلے لگاکر رونے لگے۔
عام الحزن چند ہفتے گزرے تھے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا نے بھی وفات پائی، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کانام عام الحزن (غم کاسال) رکھا پھر کیاتھا قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کو ایذائیں پہنچاناشروع کردیں۔
ایک دن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر آرہے تھے کہ بے وقوف بے ہودوں نے آپ و کے سر پر خاک ڈال دی ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا ،حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باپ کا سر صاف کرتی جاتی تھیں اور روتی جاتی تھیں ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا:
بیٹی رؤ نہیں ،خدا تعالی تمہارے باپ کو محفوظ رکھے گا اور اسے اپنے دین وپیغام کے دشمنوں پر فتح یاب کریگا ۔جبرائیل نازل ہوئے اور یہ کہتے ہوئے آسمانی پیغام پہنچایا:
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !مکہ سے ہجرت کرجائیے آپ کے مددگار مرچکے ہیں۔اورجب قریش نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تواس دفعہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جان قربان کرنے کے لئے ابوطالب کے شیر علی علیہ السلام ہی بستر پر لیٹنے کے لئے تیار ہوئے۔
علی علیہ السلام ! شیخ البطحاء ابوطالب ہی کے بیٹے ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یثرب ،مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے تاکہ وہاں سے نور اسلام پھیلائیں اور دنیا کوروشن کریں۔
آج بھی جب مسلمان ہرسال خانہ خدا کی زیارت کے لئے جاتے ہیں تو انہیں شیخ البطحاء کا موقف اور دین خدا اور اس کے پیغام سے ان کادفاع کرنایاد آجاتاہے۔
منبع: کتاب :ابوطالب ناصر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
http://alhassanain.org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button