اصحاب آئمہ اطہارؓشخصیات

جناب سعید بن عبد اللہ حنفی رضوان اللہ تعالی علیہ

سعید یا سعد بن عبداللہ حنفی کا نام ۶۱ ہجری قمری میں واقعہ کربلا کے شہیدوں میں ذکر ہوتا ہے۔ وہ کوفہ کے ان شہداء میں سے تھے کہ جو کوفیوں اور امام حسین علیہ السلام کے درمیان ہونے والی خط و کتابت میں خطوط پہنچانے کا کام کرتے تھے۔ اسی طرح مسلم بن عقیل علیہ السلام کا خط امام حسین علیہ السلام کو پہنچانے کے بعد وہ امام حسین علیہ السلام کے کاروان کے ساتھ ہو گئے۔ سعید نے شب عاشورا امام حسین علیہ السلام کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے قسم اٹھا کر کہا:
اگر مجھے ستّر مرتبہ مارا جائے اور زندہ کیا جائے تو میں پھر بھی امام حسین علیہ السلام کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوں گا۔
نسب
سعید قبیلۂ بنی حنیفہ بن لجیم سے تھے جو قبیلۂ عدنان کی بنی‌ بکر بن وائل کی ذیلی شاخوں میں سے ایک تھی۔سعید کوفہ کے رہنے والے تھے۔اور شجاعت و عبادت میں شہرت رکھتے تھے۔ زیارت الشہدا ءمیں ان کا نام سعد ذکر ہوا ہے۔
(انصارالحسین، ص۷۶، بحارالانوار، ج۴۵، ص۷۰)
واقعہ کربلا
سعید بن عبداللہ اور ہانی بن ہانی سبیعی کوفیوں کی جانب سے تیسرا خط لے کر امام حسین علیہ السلام کے پاس گئے۔ اس خط کے لکھنے والے شَبَثُ بن رِبعی، حَجّار بن اَبجَر، یزید بن حارث، یزید بن رویم، عزرة بن قیس، عمرو بن حجاج و محمد بن عمیر تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ سعید کو یہ ذمہ داری سونپنے کا مقصد انکی شخصیت کی وجاہت تھی کہ کوفی امیدوار تھے کہ ان کے ذریعے امام حسین علیہ السلام کو کوفے آنے کیلئے قانع کیا جا سکتا ہے۔
(تاریخ طبری، ج۴، ص۲۶۲، مناقب، ج۴، ص۹۷ ، ابصار العین، ص۲۱۶،عنصر شجاعت، ج۱، صص۱۵۸-۱۶۰، عنصر شجاعت، ج۱، ص۱۵۸)
امام حسین علیہ السلام نے سعید کے ذریعے اس خط کا جواب ارسال کیا اور لکھا:
میں نے مسلم بن عقیل علیہ السلام کو اپنے سفیر کے عنوان سے کوفہ روانہ کیا ہے۔ جب مسلم کوفہ پہنچے تو انہوں نے تقریر کی۔ عابس بن ابی شبیب شاکری اور حبیب بن مظاہر نے خطبہ پڑھا۔ ان دو کے بعد سعید بن عبداللہ اٹھے اور قسم کھا کر کہنے لگے:
وہ امام حسین علیہ السلام کی مدد کیلئے قطعی ارادہ رکھتے ہیں۔ مسلم نے اس مجمع میں سعید بن عبداللہ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ امام کو کوفہ آنے کی دعوت دیں۔ سعید مکہ واپس آئے اور مسلم بن عقیل کا خط امام کو دیا اور خود امام کے قافلے کے ساتھ ہو گئے۔
(ابصار العین، ص۲۱۶)
کربلا میں موجودگی
شب عاشورا امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو خیام کی پشت پر جمع کیا اور اپنی مشہور تقریر میں کہا وہ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر اور اس رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں سے چلے جائیں۔ سعید یہ سن کر اٹھے ہوئے اور کہا:
یا ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! خدا کی قسم! ہم آپ کی نصرت سے ہاتھ نہیں اٹھائیں گے …. بخدا! اگر مجھے قتل کیا جائے پھر زندہ کیا جائے، مجھے جلایا جائے اور میری خاک ہوا میں اڑا دی جائے لیکن میں پھر بھی آپ کی حمایت اور نصرت سے ہاتھ نہیں کھینچوں گا۔
(تاریخ طبری ، ج۴، ص۳۱۸ ، قاموس الرجال، ج۵، ص۱۰۷ ، ابصار العین، ص۲۱۶ ، تنقیح المقال، ج۲، ص۲۸، عنصر شجاعت، ج۱، ص۱۶۴، مقتل الحسین علیہ السلام ، ص۸۹، وقعۃ الطف، ص۲۲۹، مناقب، ج۴، ص۱۰۷، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۲۴۱)
شہادت
کچھ معتقد ہیں کہ وہ روز عاشورا نماز ظہر کے بعد شہید ہوئے۔ کچھ مؤرخین کے نزدیک سعید کی شہادت دسویں محرم کے دن زوال آفتاب اور نماز ظہر کے بعد ہوئی۔
(تاریخ طبری، ج۴، ص۳۲۶)

مندرجہ ذیل رجز ان سے منسوب ہے:
أقدم حسین الیوم تلق أحمدا و شیخک الخیر علیا ذا الندی
(مناقب آل ابی‌ طالب، ج۴، ص۱۱۲)
عاشورا کے روز جب امام حسین علیہ السلام نے نماز خوف ادا کی تو سعید بن عبداللہ امام کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ سامنے سے آنے والے تیروں کو اپنے چہرے، سینے، ہاتھوں اور پہلو پر روکتے رہے تا کہ تیر مبادا امام حسین علیہ السلام کو نہ لگیں۔
(قاموس الرجال، ج۵، ص۱۰۷-۱۰۸ ، ابصار العین، ص۲۱۷،وقعۃ الطف، ص۲۶۶، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۲۴۱)
نقل کرتے ہیں کہ جب زخموں سے نڈھال ہو کر زمین پر گرے تو یہ دعا پڑھ رہے تھے:
خدایا! جس طرح تو نے قوم عاد و ثمود پر لعنت کی تھی اسی طرح کوفہ کی سپاہ کو بھی مورد لعن قرار دے۔ خدایا! میرا سلام و درود اپنے پیغمبر کو پہنچا اور جو میں نے اپنے جسم پر زخموں کے بدلے میں درد و رنج جھیلے ہیں انہیں ان تک پہنچا؛ کیونکہ میں پیغمبر کی حمایت و نصرت کی پاداش و اجر کا طلبگار ہوں۔
(قاموس الرجال، ج۵، ص۱۰۷-۱۰۸، ، ابصار العین، ص۲۱۷-۲۱۸، تنقیح المقال، ج۲، ص۲۸)
پھر اپنا رخ امام حسین علیہ السلام کی جانب کیا اور کہا:
اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا میں نے اپنے عہد کو نبھایا؟
امام علیہ السلام نے جواب میں ارشاد فرمایا:
ہاں کیوں نہیں، تم بہشت میں مجھ سے پہلے موجود ہو گے۔منقول ہے کہ شہادت کے وقت تلوار و نیزوں کے زخموں کے علاوہ ۱۳ تیر ان کے جسم میں پیوست تھے۔
(قاموس الرجال، ج۵، ص۱۰۸ ، ابصار العین، ص۲۱۸ ، تنقیح المقال، ج۲، ص۲۸، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۲۴۱)
https://ur.wikishia.net/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button