خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:325)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 17 اکتوبر 2025 بمطابق 23 ربیع الثانی 1447ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: تفسیر سورہ عصر

مومنین کرام! میں سب سے پہلے اپنے آپ کو پھر آپ سب کو تقویٰ الٰہی کی نصیحت کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ہو کہ اس نے ہمیں قرآن مجید جیسی عظیم نعمت سے نوازا، جو ہدایت کا سرچشمہ ہے، زندگی کا لائحہ عمل ہے اور ہر مشکل کا حل ہے۔ یہ کتاب اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھاتی ہے، دل کو سکون دیتی ہے اور آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ آج کا خطبہ جمعہ قرآن مجید کی ایک مختصر مگر نہایت جامع سورت، سورۃ العصر پر مبنی ہے۔ یہ سورت قرآن کی مختصر ترین سورتوں میں سے ایک ہے، لیکن اس کی جامعیت ایسی ہے کہ اس میں انسانی زندگی کا مقصد، خسارے سے نجات کا راستہ اور اسلامی تعلیمات کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ سورۃ مکی ہے، یعنی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی، اور اس کا نام "العصر” اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے۔ ہم احادیث اہلبیت، شیعہ تفاسیر یعنی تفسیر الکوثر فی تفسیر القرآن اور تفسیر نمونہ سے اس کی تفسیر لے کر اسے وضاحت سے بیان کریں گے، تاکہ آپ لوگ آسانی سے سمجھ سکیں اور اس سے وعظ و نصیحت حاصل کر سکیں۔
سورۃ کی فضیلت:
تفسیر نمونہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث ہے:
"من قرأ ‘والعصر’ في نوافله بعثه اللّٰه يوم القيامة مشرقاً وجهه ضاحكاً سنّه قريرة عينه حتى يدخل الجنة”
یعنی جو نوافل میں یہ سورۃ پڑھے گا، قیامت میں اس کا چہرہ نورانی، مسکراتا اور آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی جب تک جنت میں داخل نہ ہو۔ مگر یہ پڑھنے کے ساتھ عمل پر ہے۔
وقت کی قسم اور انسان کا خسارہ
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ الۡعَصۡرِ ۙ ﴿۱﴾ اِنَّ الاِنۡ سَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ ﴿۲﴾
"قسم ہے زمانے کی ﴿۱﴾ انسان یقیناً خسارے میں ہے ﴿۲﴾”
۱. قسم ہے زمانے کی!
اللہ تعالیٰ یہاں "عصر” یعنی زمانے کی قسم کھا رہا ہے۔ کیوں؟
کیونکہ انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ اس کی زندگی ہے، اور یہ زندگی "زمانے” کے ہاتھوں ہی ختم ہو رہی ہے۔ انسان کا وجود زمانی ہے اور وہ زمانے کی زد میں ہے۔
تفسیر الکوثر فی تفسیر القرآن "وَالْعَصْرِ” کی تشریح کی گئی ہے کہ "عصر” سے مراد زمانہ ہے۔ زمانہ کیا ہے؟ یہ وہ وقت ہے جو مسلسل گزر رہا ہے، اور انسان اس زمانے کی زد میں ہے۔ ہر لمحہ، ہر سانس، ہر دن جو گزرتا ہے، وہ آپ کی زندگی کا ایک حصہ کھا رہا ہے۔ یہ زمانہ آپ سے آپ کی سب سے قیمتی چیز، یعنی زندگی کو چھین رہا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:
"نَفَسُ الْمَرْئِ خُطَاہُ إِلَى أَجَلِهِ”
یعنی انسان کی ہر سانس ایک قدم ہے جو اسے موت کی طرف بڑھا رہا ہے۔(نہج البلاغہ)
آپ کی زندگی ہر آن کم ہو رہی ہے۔ آپ جو کچھ بھی کر رہے ہیں، وہ اس وقت کے ساتھ ضائع ہو رہا ہے اگر اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تفسیر نمونہ میں بھی "عصر” کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے: کبھی یہ وقت عصر کا مطلب ہے، جو دن کا اختتام ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی بھی ختم ہو رہی ہے۔ کبھی یہ تمام زمانہ اور تاریخ بشر ہے، جو عبرتوں سے بھرا ہے۔ کبھی یہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دور ہے، اور ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسے حضرت مہدی علیہ السلام کے قیام کا زمانہ قرار دیا ہے۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ نے اس لیے کھائی ہے کہ زمانہ کی اہمیت کو سمجھاؤ، کیونکہ یہ ہمیں خدا کی قدرت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
۲. بے شک انسان خسارے میں ہے!
اللہ تعالیٰ زمانے کی قسم کھا کر یہ فیصلہ سنا رہا ہے کہ ہر انسان، بلا تفریق، خسارے میں ہے، نقصان میں ہے۔
یہ کیسا خسارہ ہے؟ یہ وہ تاجر ہے جو اپنا سب سے قیمتی سرمایہ، یعنی زندگی، ہر لمحے اپنے ہاتھ سے دے رہا ہے، اور اس کے بدلے میں کوئی تلافی، کوئی منافع حاصل نہیں کر رہا۔
یہ زندگی ہر لمحہ نکل رہی ہے، اور اگر آپ نے اس کی تلافی نہیں کی تو خسارہ ہے۔
تفسیر نمونہ میں اسے مزید وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ انسانی زندگی کی فطرت یہ ہے کہ یہ تدریجی طور پر ختم ہو رہی ہے۔ عمر کے دن، مہینے، سال گزرتے جاتے ہیں، جسم کی قوتیں کمزور ہوتی ہیں، اور یہ ایک جبری نقصان ہے۔
فخر رازی کی تفسیر سے ایک واقعہ نقل ہے کہ ایک برف فروش پکار رہا تھا:
"ارحموا من يذوب رأس ماله” یعنی اس پر رحم کرو جس کا سرمایہ پگھل رہا ہے۔
یہ انسانی عمر کی مثال ہے جو بغیر ثواب کے ضائع ہو رہی ہے۔ امام ہادی علیہ السلام کا فرمان ہے: "الدنيا سوق ربح فيها قوم وخسر آخرون” یعنی دنیا ایک بازار ہے جہاں کچھ لوگ نفع کماتے ہیں اور کچھ خسارے میں رہتے ہیں۔ اے مسلمانو! سوچیے، آپ کا سرمایہ کیا ہے؟ آپ کی عمر، صحت، وقت۔ اگر یہ اللہ کی راہ میں نہیں لگایا تو خسارہ ہے۔ یہ آیت ہمیں جھنجھوڑتی ہے کہ ہم سب خسارے میں ہیں اگر ہم نے راہ راستہ نہیں اپنایا۔
یہ ایک ہولناک اعلان ہے! لیکن اللہ تعالیٰ، جو رحمن و رحیم ہے، فوراً ہی اس خسارے سے بچنے کا راستہ بھی بتاتا ہے۔
خسارے سے بچنے کا چار نکاتی فارمولا
وہ کون لوگ ہیں جو اس عظیم خسارے سے محفوظ ہیں؟ اللہ فرماتا ہے:
اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡ ا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡ ا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡ ا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳﴾
"سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور جو ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے ہیں اور صبر کی تلقین کرتے ہیں”۔
یہ چار صفات ہیں۔ یہ کامیابی کا مکمل پیکج ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی کمزور ہے، تو ہم اب بھی "خسارے” کے خطرے میں ہیں۔ آئیے ان چار ستونوں کو مختصراً سمجھتے ہیں:
پہلا ستون: ایمان (اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡ ا)
خسارے سے بچنے کے لیے پہلی شرط اور تلافی کا پہلا قدم ایمان ہے۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر باقی عمارت کھڑی ہو گی۔ یہ صرف جامد فکر یا عقیدے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ وہ پختہ یقین ہے جو انسان کے نظریات اور سوچ کو بدل دے۔
ایمان۔ تفسیر الکوثر میں کہا گیا ہے کہ مومن اپنی زندگی کو بغیر تلافی کے نہیں جانے دیتا۔ ایمان پہلا قدم ہے۔ ایمان کیا ہے؟ یہ صرف زبان سے کہنا نہیں، بلکہ دل سے یقین کرنا کہ اللہ ایک ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، امام علی علیہ السلام اور ان کے جانشین اللہ کے حکم سے ہمارے امام ہیں۔ تفسیر نمونہ میں ایمان کو تمام کارکردگیوں کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ یہ خدا کی صفات، قیامت، کتابوں، انبیاء اور اوصیاء پر ایمان کو شامل کرتا ہے۔ ایمان کے بغیر اعمال ضائع ہیں۔
حدیث رسولؐ:
أوْثَقُ عُرى الإيمانِ: الوَلايةُ في اللّٰه، والحُبُّ في اللّٰه، والبُغْضُ في اللّٰه۔ ۔ (كنز العمّال: ۴۳۵۲۵ )
۶۲۱۔ایمان کا مضبوط ترین پایہ یہ چیزیں ہیں:۱۔اللہ کی راہ میں دوستی، خدا کے لئے محبت،خدا ہی کے لئے دشمنی۔
امام علیؑ  فرماتے ہیں:
لا يَكْمُلُ إيمانُ عبدٍ حتّى يُحِبَّ مَن أحَبَّهُ اللّٰهُ سبحانه، ويُبغضَ مَن أبْغَضَهُ اللّٰهُ سبحانَهُ۔ (غرر الحكم: ۱۰۸۴۹ )
۶۰۹۔کسی بندے کا ایمان اسوقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اس چیز کو ناپسند نہ کرے جس سے خدا محبت کرتا ہے اور اس چیز سے بغض نہ رکھے جس کو خدا وندتعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔

دوسرا ستون: عملِ صالح (وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ)
دوسری شرط عملِ صالح ہے۔ ایمان کے اثرات ہونے چاہئیں، اور وہ نیک اعمال ہیں۔ اس نام نہاد ایمان کی کوئی قیمت نہیں جس کا انسان کے کردار پر کوئی اثر نہ ہو۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ "زندگی” ہے، تو وہ کون سا عمل ہے جو اس "زندگی” کے نقصان کی تلافی کر سکے؟
تفسیر "الکوثر” کے مطابق، مومن اپنی اس دنیا کی فانی زندگی کو دے کر آخرت کی ابدی اور پاکیزہ زندگی حاصل کرتا ہے۔ زندگی کا سودا زندگی سے ہی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ نے سورہ نحل میں فرمایا:
"مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡ مِنٌ فَلَنُحۡ یِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً۔۔۔” (۱۶ نحل: ۹۷) "جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی (حَیٰوۃً طَیِّبَۃً) ضرور عطا کریں گے”۔ لہٰذا مومن نہ صرف خسارے سے بچ جاتا ہے، بلکہ وہ منافع میں آ جاتا ہے۔
حدیث رسولُ اللّٰه ﷺ: يَتبَعُ المَيِّتَ ع لاثَةٌ: أهلُه ومالُهُ وعَمَلُهُ، فيَرجِعُ اثنانِ ويَبقى واحِدٌ ؛ يَرجِعُ أهلُهُ ومالُه ويَبقى عَمَلُهُ.(كنز العمّال: ۴۲۷۶۱)
میت کے ساتھ تین قسم کی چیزیں جاتی ہیں اس کے اہل و عیال، اس کا مال اور اس کے اعمال، پہلے دو ساتھی تو واپس آجاتے ہیں لیکن اعمال اس کے ساتھ باقی رہتے ہیں۔
امام علیؑ:قَليلٌ تَدومُ علَيهِ، أرجى مِن كَثيرٍ مَملولٍ مِنهُ.(نهج البلاغة: الحكمة ۲۷۸)
وہ تھوڑا عمل جسے تو پابندی کے ساتھ بجا لائے اس زیادہ عمل سے بہتر ہے جس سے تو اکتا جائے۔
امام محمد باقرؑ: ما مِن شَيءٍ أحَبَّ إلَى اللّٰه عز و جل مِن عَمَلٍ يُداوَمُ علَيهِ، وإن قَلَّ. (الكافي: ۲ / ۸۲ / ۳)
اللہ تعالیٰ کو اس عمل سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے جس پر ہمیشگی اختیار کی جائے، خواہ وہ کم ہی ہو۔

تیسرا ستون: حق کی تلقین (وَ تَوَاصَوۡ ا بِالۡحَقِّ)
تیسری شرط "ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرنا” ہے۔ اگرچہ یہ بھی عملِ صالح میں شامل ہے، لیکن اللہ نے اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے الگ سے بیان فرمایا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ انسان صرف اپنی ذات کی اصلاح پر اکتفا نہیں کر سکتا۔ اسے معاشرے کی بھی فکر کرنی ہے۔ "حق” ایک جامع لفظ ہے جس میں تمام سچے عقائد، احکام اور اخلاقیات شامل ہو جاتے ہیں۔
لیکن حق پر عمل کرنا اور اس کی تلقین کرنا آسان کام نہیں۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"الْحَقُّ اَوْسَعُ الْاَشْیَائِ فِی التَّوَاصُفِ وَ اَضْیَقُھَا فِی التَّنَاصُفِ”
"حق، مقامِ بیان (باتوں) میں سب سے زیادہ وسیع تر ہے، مگر مقامِ عمل (انصاف) میں سب سے زیادہ تنگ تر ہے”۔ (شرح نہج البلاغۃ ۱۱: ۸۸)
رسول اللّٰہ: اقْبَـلِ الـحَقَّ مِمَّن أتاكَ بهِ صَغيرٌ أو كَبيرٌ ـ وإن كانَ بَغيضا، وارْدُدِ الباطِلَ على مَن جاءَ بهِ مِن صَغيرٍ أو كَبيرٍ وإنْ كانَ حَبيبا. (كنز العمّال: ۴۳۱۵۲)
حق کو قبول کرو خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اور جس کسی سے بھی تمہارے پاس پہنچے اگرچہ وہ ناپسندیدہ بھی ہو باطل کو ٹھکرا دو جو بھی تمہارے پاس لے آئے چاہے باطل چھوٹا ہو یا بڑا اور اسے لانے والا محبوب اور پسندیدہ شخص بھی کیوں نہ ہو۔
چوتھا ستون: صبر کی تلقین (وَ تَوَاصَوۡ ا بِالصَّبۡرِ)
جب انسان حق کی بات کرے گا (تیسرا ستون)، تو لازماً مشکلات آئیں گی۔ یہ راستہ صبر آزما ہوتا ہے۔اس لیے چوتھی شرط رکھی گئی کہ "ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرو”۔ اس کی اہمیت کی وجہ سے اللہ نے اسے بھی الگ سے بیان فرمایا ہے۔صبر کے بغیر نہ ایمان محفوظ رہتا ہے اور نہ ہی عملِ صالح ممکن ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"رَاَسُ طَاعَۃِ اللّٰہِ الصَّبْرُ”
"اللہ کی اطاعت کی بنیاد (سر) صبر ہے”۔ (الکافی ۲: ۶۰)
ایک اور حدیث میں فرمایا:
"اِذَا ذَھَبَ اَلصَّبْرُ ذَھَبَ الْاِیْمَانُ”
"جب صبر چلا جاتا ہے تو ایمان (بھی) چلا جاتا ہے”۔ (الکافی۲: ۸۷)
حضرت عیسیٰؑ  کا قول:إنّكُم لا تُدرِكُونَ ما تُحِبُّونَ إلاّ بِصَبرِكُم على ما تَكرَهُونَ.(مسكّن الفؤاد: ۴۸)
تم اپنی پسندیدہ چیزوں کو اس وقت تک حاصل نہیں کرپاؤ گے جب تک تم ناپسندیدہ باتوں پر صبر نہیں کرو گے۔
یہ صبر ہر میدان میں چاہیے:
• اللہ کی اطاعت پر صبر (عبادات کی مشقت)۔
• گناہوں سے بچنے پر صبر (خواہشات کے خلاف مزاحمت)۔
• مصیبتوں اور آزمائشوں پر صبر۔
اور یہاں بھی "تَوَاصَوْا” یعنی "ایک دوسرے کو تلقین” کا حکم ہے، کہ معاشرہ مل کر اس صبر کے ماحول کو قائم رکھے۔
خلاصہ کلام: ہم خسارے میں ہیں یا منافع میں؟
قرآن مجید: قُلۡ ہَلۡ نُنَبِّئُکُمۡ بِالۡاَخۡسَرِیۡنَ اَعۡمَالًا، اَلَّذِیۡنَ ضَلَّ سَعۡیُہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ ہُمۡ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ یُحۡسِنُوۡنَ صُنۡعًا۔ (الکہف:۱۰۳۔۱۰۴)
آپ کہہ دیجئے! کیا ہم تمہیں ان لوگوں کے بارے خبردیں کہ اعمال کے لحاظ سے تمام لوگوں سے زیادہ خسارے میں کون ہے؟وہی کہ دنیوی زندگی میں جن کی کوششیں رائیگاں گئیں حالانکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شائستہ اور نیک اعمال انجام دے رہے ہیں۔
سب سے زیادہ ناقابل تلافی خسارے میں وہ لوگ ہیں،جو مرکب گمراہی میں ہیں۔ مرکب گمراہی کا مطلب یہ ہے کہ ایک یہ کہ وہ خودگمراہی میں ہیں، دوسرا یہ کہ وہ اپنی اس گمراہی کو درست کام سمجھتے ہیں۔ اس قسم کی گمراہی زیادہ خطرناک اور ہدایت سے دور ہوتی ہے۔ یہ بالکل جہل مرکب کی طرح ہے کہ ایک شخص ایک مطلب کو نہیں جانتا اور اپنے اس نہ جاننے کو بھی نہیں جانتا۔ ایسا شخص جاننے کی کوشش کبھی نہیں کرے گا۔ اس لیے اس گمراہی کو سب سے زیادہ نامراد قرار دیا۔
حدیث رسول خداؐ : الخاسِرُ مَن غَفَلَ عَن إصْلاحِ المَعَادِ۔(تنبيه الخواطر: ۲ / ۱۱۸)
نقصان اٹھانے والا وہ شخص ہے جو آخرت کی اصلاح سے غافل ہوجائے۔
ایک اور حدیث میں فرمایا: المُنْفِقُ عُمرَهُ في طَلَبِ الدُّنيا خاسِرُ الصَّفْقَةِ، عادِمُ التَّوفيقِ.(تنبيه الخواطر: ۲ / ۱۱۹)
دنیا کی طلب میں اپنی عمر کو صَرف کرنے والا(آخرت کی) تجارت میں نقصان اٹھاتااور توفیق کو ضائع کردیتاہے۔
سورۃ العصر ہمیں بتا رہی ہے کہ کامیابی ایک مکمل پیکج ہے۔ ہم اس میں سے اپنی مرضی کے ٹکڑے نہیں اٹھا سکتے۔
ہمیں آج اپنا محاسبہ کرنا ہے:
1. کیا ہمارا ایمان مضبوط ہے؟
2. کیا ہمارے اعمال اس ایمان کی گواہی دیتے ہیں؟
3. کیا ہم صرف اپنی نماز روزے پر خوش ہیں، یا اپنے معاشرے میں حق کی تلقین کا فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں؟
4. اور کیا ہم اس راستے کی مشکلات پر خود بھی صبر کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی ہمت دلاتے ہیں؟
اگر ان چاروں ستونوں پر ہم عمل پیرا ہیں، تو مبارک ہو، ہم اس خسارے سے محفوظ ہیں اور منافع بخش تجارت کر رہے ہیں۔

بارگاہِ الٰہی میں دعا ہے کہ وہ ہمیں سورۃ العصر کے اس گہرے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پروردگارا! ہمیں ان چاروں ستونوں: ایمان، عملِ صالح، حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین، پر ثابت قدمی عطا فرما۔
اے اللہ! ہمارے امام، امامِ زمانہ (عجل اللہ فرجہ الشریف) کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہمیں ان کے حقیقی اعوان و انصار میں شامل فرما۔
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button