عدل و انصاف قرآن وسنت کے آئینے میں
قرآن مجید میں عدل کی اہمیت:
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ وَ اِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡل.
"بے شک اللہ تم لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کر دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو۔”(النساء ۵۸)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ۚ اِنۡ یَّکُنۡ غَنِیًّا اَوۡ فَقِیۡرًا فَاللّٰہُ اَوۡلٰی بِہِمَا ۟ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡہَوٰۤی اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ۚ وَ اِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا
"اے ایمان والو! انصاف کے سچے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو اگرچہ تمہاری ذات یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی امیر یا فقیر ہے تو اللہ ان کا بہتر خیرخواہ ہے، لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو اور اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا(گواہی دینے سے) پہلوتہی کی تو جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔”(النساء۱۳۵)
عدل کا انفرادی حکم مختلف آیات میں آیا ہے لیکن اس آیت میں عدل اجتماعی کا حکم ہے کہ عدل و انصاف کے قوام یعنی سچے داعی بن جائیں۔ مومن پر فرض فقط یہ نہیں کہ خود عدل و انصاف کرے اور معاشرے میں موجود ظلم و زیادتی سے لاتعلق ہو جائے، بلکہ مؤمنین کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں بھی عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
العدل سائس عام
"عدل ایک جامع نظام ہے۔ "(روضۃ الواعظین 2:416)
عدل اجتماعی کی اہمیت کے بارے میں منقول ہے:
وَاِنَّ قُرَّۃِ عَیْنِ الْوُلَاۃِ اسْتِقَامَۃُ الْعَدْلِ فِی الْبِلَادِ
"یعنی حکمرانوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ملک میں عدل و انصاف کا استحکام ہے۔”(مستدرک الوسائل 13:164)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی
” اے ایمان والو! اللہ کے لیے بھرپور قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہاری بے انصافی کا سبب نہ بنے، (ہر حال میں) عدل کرو! یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے۔”
(المائدہ۰۸)
متعدد آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام عدل و انصاف کو بنیادی انسانی حقوق میں سے قرار دیتا ہے۔ اس میں مذہب، نسل وغیرہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم ملا ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل و انصاف سے پیش آیا کرو۔ کیونکہ جہاں وہ دشمن ہے وہاں انسان بھی ہے، بلکہ پہلے انسان اور بعد میں دشمن ہے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
اما اخ لک فی الدین و اما نظیرلک فی الخلق
یا تو وہ تمہارا برادر دینی ہے یا تجھ جیسی مخلوق۔ (نہج البلاغہ)
لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ
"بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔”(الحدید 25)
اس آیت میں تمام انبیاء کے مبعوث ہونے کی غرض و غایت کا خلاصہ بیان فرمایا ہے کہ ان کو شریعت، آیات بینات، کتابیں اور میزان عنایت ہوئی ہیں تو ان سب کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ عدل و انصاف قائم کریں اور اس انسانی مسئلہ، یعنی عدل و انصاف کو نافذ کرنے والوں کے ساتھ مزاحمت کرنے والوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ نے لوہا نازل کیا یعنی پیدا کیا، تاکہ وہ قوت بھی فراہم ہو سکے اور عدل قائم کرنے میں رکاوٹ پیدا کرنے والوں کا قلع قمع ہو سکے۔
(بلاغ القرآن)
عدل روایات ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی روشنی میں:
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع فِي كَلَامٍ لَهُ: أَلَا إِنَّهُ مَنْ يُنْصِفِ النَّاسَ مِنْ نَفْسِهِ لَمْ يَزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا عِزّاً
"امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ امیر الومنین علیہ السلام نے فرمایا جو اپنے نفس سے دوسروں کے درمیان انصاف کرتا ہے خدا س کی عزت کو زیادہ کرتا ہے۔”
(الکافی، کتاب الایمان والکفر)
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ فِي حَدِيثٍ لَهُ :أَ لَا أُخْبِرُكُمْ بِأَشَدِّ مَا فَرَضَ اللَّهُ عَلَى خَلْقِهِ فَذَكَرَ ثَلَاثَةَ أَشْيَاءَ أَوَّلُهَا إِنْصَافُ النَّاسِ مِنْ نَفْسِكَ
امام جعفر صادق علیہ السلام نےفرمایا: "کیا میں تمھیں بتاؤں کہ خدا کاسب سے بڑا فرض اس کی مخلوق پر کیا ہے پھر تین چیزوں کا ذکر کیا جن میں سب سے پہلی بات یہ تھی کہ وہ اپنے نفس کے مقابل لوگوں کے درمیان انصاف کرے۔”
جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ ص وَ هُوَ يُرِيدُ بَعْضَ غَزَوَاتِهِ فَأَخَذَ بِغَرْزِ رَاحِلَتِهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمْنِي عَمَلًا أَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ فَقَالَ: مَا أَحْبَبْتَ أَنْ يَأْتِيَهُ النَّاسُ إِلَيْكَ فَأْتِهِ إِلَيْهِمْ وَ مَا كَرِهْتَ أَنْ يَأْتِيَهُ النَّاسُ إِلَيْكَ فَلَا تَأْتِهِ إِلَيْهِمْ خَلِّ سَبِيلَ الرَّاحِلَةِ
جب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جہاد کے لئے جا رہے تھے بدو عرب نے آپ کے گھوڑے کی رکاب تھام کر کہا مجھے کوئی ایسی بات بتائے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاوں۔
تو آپ نے فرمایا :تو جس کام کو پسند کرتا ہے کہ لوگ تیرے ساتھ یہ انجام دیں پس لوگوں کے ساتھ ویسا کر اور جس کام کو تو ناپسند کرتا ہے کہ لوگ تیرے ساتھ یہ انجام دیں تو تو بھی اس کو لوگوں کے ساتھ کرنا چھوڑ دے۔ پس رکاب چھوڑ کہ میں جاؤں۔
(الکافی کتاب الایمان والکفر)
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: اتَّقُوا اللَّهَ وَ اعْدِلُوا فَإِنَّكُمْ تَعِيبُونَ عَلَى قَوْمٍ لَا يَعْدِلُونَ
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
"اللہ سے ڈرو اور اپنے گھر والوں کے درمیان عدل کرو ،کیونکہ تم ان لوگوں کی حکومت کو نا پسند کرتے ہو جو عدل نہیں کرتے۔”
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الْعَدْلُ أَحْلَى مِنَ الشَّهْدِ وَ أَلْيَنُ مِنَ الزُّبْدِ وَ أَطْيَبُ رِيحاً مِنَ الْمِسْكِ
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ:
"عدل شہد سےزیادہ شیرین ہے مکھن سے زیادہ نرم اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے۔”
امام عالی مقام علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ عدل اورجودوسخا میں سے کون سا افضل ہے؟ تو امام نے فرمایا:
عدل امورکو انکی اپنی جگہ پر برقرارکرتا ہے لیکن سخاوت امور کو انکی اپنی جہت سے خارج کر دیتی ہے عدل ایک عام اور وسیع سیاست گر ہے لیکن سخاوت کا کا اثرمحدودہے اس لئے عدل جودوسخاوت سے افضل ہے۔
ایک اور جگہ امام علی علیہ السلام عدل کے بارے میں قرآن مجید کی اس آیہ مجیدہ کے ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں۔
فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰى:اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ
’’اللہ تمہیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔فرمایا:
اَلْعَدْلُ الْاِنْصَافُ، وَ الْاِحْسَانُ التَّفَضُّلُ
’’عدل‘‘ انصاف ہے اور ’’احسان‘‘ لطف و کرم۔
(نہج البلاغہ حکمت ۲۳۱)
اسی طرح ایک اور جگہ مولائے کائنات علیہ السلام نےاپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو عدل و انصاف کے متعلق وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
یَا بُنَیَّ! اجْعَلْ نَفْسَكَ مِیْزَانًا فِیْمَا بَیْنَكَ وَ بَیْنَ غَیْرِكَ، فَاَحْبِبْ لِغَیْرِكَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ، وَ اكْرَهْ لَهٗ مَا تَكْرَهُ لَهَا، وَ لَا تَظْلِمْ كَمَا لَا تُحِبُّ اَنْ تُظْلَمَ، وَ اَحْسِنْ كَمَا تُحِبُّ اَنْ یُّحْسَنَ اِلَیْكَ، وَ اسْتَقْبِـحْ مِنْ نَّفْسِكَ مَا تَسْتَقْبِحُ مِنْ غَیْرِكَ، وَ ارْضَ مِنَ النَّاسِ بِمَا تَرْضَاهُ لَهُمْ مِنْ نَّفْسِكَ، وَ لَا تَقُلْ مَا لَا تَعْلَمُ وَ اِنْ قَلَّ مَا تَعْلَمُ، وَ لَا تَقُلْ مَا لَا تُحِبُّ اَنْ یُّقَالَ لَكَ
"اے فرزند! اپنے اور دوسرے کے درمیان ہر معاملہ میں اپنی ذات کو میزان قرار دو، جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کیلئے پسند کرو اور جو اپنے لئے نہیں چاہتے اُسے دوسروں کیلئے بھی نہ چاہو، جس طرح یہ چاہتے ہو کہ تم پر زیادتی نہ ہو یونہی دوسروں پر بھی زیادتی نہ کرو اور جس طرح یہ چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ حُسن سلوک ہو یونہی دوسروں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک سے پیش آؤ، دوسروں کی جس چیز کو بُرا سمجھتے ہو اُسے اپنے میں بھی ہو تو بُرا سمجھو اور لوگوں کے ساتھ جو تمہارا رویہ ہو اسی رویہ کو اپنے لئے بھی درست سمجھو، جو بات نہیں جانتے اس کے بارے میں زبان نہ ہلاؤ، اگرچہ تمہاری معلومات کم ہوں، دوسروں کیلئے وہ بات نہ کہو جو اپنے لیے سُننا گوارا نہیں کرتے۔”
(نہج البلاغہ مکتوب ۳۳)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں عدل کا حقیقی مفہوم سمجھنے اور عدل کے ہی آئینے میں زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا ء فرمائیں۔ آمین