حقوق و فرائضرسالات

عید الاضحی،قربانیوں کا عظیم اسلامی تہوار اور اس کے تقاضے

عید الاضحی ،قربانیوں کا عظیم اسلامی تہوار اور اس کے تقاضے
ڈاکٹر ندیم عباس
عید قربان جسے عیدالاضحی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ،ایک بڑا مسلم تہوار ہے۔اسلامی تہذیب میں قربانی کے عظیم پیغام کا حامل یہ دن دنیا و آخرت کی سعادت کا پیغام لیے ہوئے ہیں۔قربانی روح ِزندگی ہے،قربانی سے ہی تہذیبیں آگے بڑھتی ہیں اور قربانی ہی نسلوں کی تربیت کرتی ہے۔ماں کی اولاد سے محبت کا جذبہ اس کے دل میں قربانی کی وہ شمع روشن کرتا ہے کہ وہ اپنا دن رات کا سکون بھول کر اولاد کی خدمت میں لگ جاتی ہے۔باپ کے دل میں موجزن یہ محبت جب قربانی کا روپ دھارتی ہے تو باپ اپنی جوانی اولاد کی آسائش کے لیے قربان کر دیتا ہے۔قربانی کا عظیم جذبہ نہ ہو تو فرعونیت و نمرودیت ہی بچ جائے اور انسانی تہذیب اپنے اختتام کو پہنچے۔قربانی کے کچھ واقعات ایسے ہیں جنہوں نے انسانی تہذیب پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔آج بھی حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کے ڈنکے ہر سو ہیں اور آج بھی نواسہ پیغمبرﷺ کا نینوا کے میدان میں اپنے پورے قبیلے کو قربان کر دینا دنیا کے آزادی پسندوں کے دلوں میں حرارت پیدا کر رہا ہے۔اقبال نے کیا خوب کہا تھا:
غریب و سادہ و رنگیِں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حُسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعِیلؑ
یہ تو قربانی کا وسیع مفہوم ہے جب ہم قربانی کہتے ہیں تو فقہی اصطلاح میں اس سے مراد وہ جانور ہے جس کو عید الاضحی (بقر عید کے روز) بارہویں یا تیرہویں ذی الحجہ تک مستحب یا واجب ہونے کے اعتبار سے ذبح یا نحر کرتے ہیں۔
حضرت آدمؑ کے بیٹوں کی قربانی
قربانی آغاز انسانیت کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔حضرت آدم ؑ نے بھی اللہ کی بارگاہ میں قربانی کی تھی۔ان کے بیٹوں کی قربانی کی تفاصیل قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں:
فَتُقُبِّلَ قُرْبَانُ هَابِیلَ وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ قُرْبَانُ قَابِیلَ،
ہابیل کی قربانی قبول ہو گئی اور قابیل کی قربانی قبول نہ ہوئی۔
یہودیت اور قربانی
یہودیت میں قربانی کا بہت زیادہ تذکرہ ہے۔اگر تورات کا مطالعہ کریں تو بار بار قربانی سے متعلقہ احکامات ملتے ہیں۔شریعت موسوی میں جانوروں کی قربانی دی جاتی تھی۔سفر خروج باب نمبر 5 میں ہم پڑھتے ہیں:
’’چلئے ہم صحراء میں جا کر یہودہ خدا کا قرب حاصل کرتے ہیں اور وہاں پر قربانی دیتے ہیں، تاکہ کہیں ہم لوگ وباء اور تلوار کے بھینٹ نہ چڑھ جائیں‘‘
مسیحیوں میں قربانی
موجودہ مسیحیت میں قربانی نہیں ہے۔ان کے ہاں حضرت مسیحؑ نے سب کی طرف سے قربانی دے دی ہے۔انجیل میں اس حوالےسے کافی وضاحت کی گئی ہے :
‏ اسرائیلیوں کی قربانیاں تو خدا تک رسائی کرنے کا عارضی ذریعہ تھیں لیکن مسیحی ان سے کہیں زیادہ افضل یسوع کی قربانی کی بنیاد پر خدا کی قربت میں آتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۶؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۱۸‏)‏
قربانی کے قرآنی اصول
قرآن مجید نے قربانی کی اہمیت اور اس کے طریقہ کار کی وضاحت کی ہے تاکہ جب بھی کوئی مسلمان قربانی کرے تو وہ ان اصول وضوابط کو مدنظر رکھے۔
۱۔قربانی اللہ کے لیے ہو گی
قرآن مجید ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ قربانی اللہ تعالی کے لیے ہونی چاہیے۔ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔َ سورہ انعام: آیت 162
۱۶۲۔ کہدیجئے: میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب یقینا اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
اس آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مومن کی قربانی صرف اور صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہوتی ہے۔اس کا مقصد خوشنودی پرودگار کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔اس لیے وہ اپنی قربانی کو خالص اللہ کے لیے انجام دیتا ہے۔
۲۔قربانی برائے تقوی
ہر عمل میں اللہ کا تقوی اس کی قبولیت کی شرط ہے۔اللہ تعالی اہل تقوی کے اعمال کو قبول فرماتا ہے۔ارشاد باری ہوتا ہے:
لَن یَنَالَ اللَّهَ لحُومُهَا وَ لَا دِمَاؤُهَا وَ لَكِن یَنَالُهُ التَّقْوَى‏ مِنكُمْ، سورہ حج ایت نمبر 37
۳۷۔ نہ اس کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
قربانی کے بعد گوشت انسان ہی کھا لیتے ہیں ،اللہ کو ان ظاہری چیزوں کی ضرورت نہیں ہے اس کے ہاں قربانی کا معیار تقوی ہے جس قدر تقوی زیادہ ہو گا اسی قدر قربانی کی عظمت بھی بڑھ جائے گی۔
۳۔قربانی ضروری ہے
جس طرح اللہ تعالی نے انسان پر نماز ،روزہ اور حج فرض کیا ہے اسی طرح حج کے ایک رکن کے طورپر قربانی بھی ہر حاجی پر فرض قرار دی گئی ہے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں نماز کے ساتھ قربانی کا حکم دیا ہے ارشاد ہوتا ہے:
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ، سورہ الکوثر آیت 2
۲۔ لہٰذا آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔
قربانی کا جانور شعائر اللہ میں سے ہے
قربانی اللہ کے شعائر میں سے ہے اور اللہ جس کو اپنا شعائر کہے وہ معمولی یا کم اہمیت کی حامل نہیں ہو سکتی۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر قربانی کے جانوروں کو شعائر اللہ کہا ہے۔ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ ۖ سورہ حج ۳۶
۳۶۔ اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تم لوگوں کے لیے شعائر اللہ میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے
اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں اور اسلام کے بعد بھی قربانی کے جانور پر علامت لگا دی جاتی تھی جس سے یہ پتہ چلتا رہتا تھا کہ یہ جانور قربانی کا ہے۔ارشاد پروردگار ہوتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا سورہ مائدہ ، آیت 2
۲۔ اے ایمان والو! تم اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانور کی اور نہ ان جانوروں کی جن کے گلے میں پٹے باندھ دیے جائیں اور نہ ان لوگوں کی جو اپنے رب کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں بیت الحرام کی طرف جا رہے ہوں۔
اس آیت مجیدہ سے واضح ہوتا ہے کہ جس طرح حرمت والے مہینے کی بے حرمتی نہیں ہو سکتی اسی طرح قربانی کے جانور کی حرمت کا خیال رکھنا فرض ہے۔
عید احادیث کی روشنی میں
حدیث شریف میں عید منانے کے بارے میں کافی تفصیلات آئی ہیں آپﷺ نے فرمایا:
صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، ”یا رسول اللہ!یہ قربانیاں کیا ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،”تمہارے باپ ابراہیم علیہِ السَّلام کی سُنَّت ہیں “۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ،”یارسول اللہ !ان میں ہمارے لیے کیا ثواب ہے؟“ فرمایا، ”ہربال کے بدلے ایک نیکی ہے “۔عرض کیا ، ”اور اُون میں“؟ فرمایا، ”اس کے ہرہربال کے بدلے بھی ایک نیکی ہے“۔(ابن ماجہ ،کتاب الاضاحی)
عن النبیﷺ قال: یا أیہا الناس! ضحوا واحتسبوا بدمائہا، فان الدم وان وقع فی الأرض، فانہ یقع فی حرز (الترغیب والترہیب)
نبی کریم ﷺنے فرمایا: اے لوگو! تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجر وثواب کی امید رکھو، اس لئے کہ (ان کا) خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے لیکن، وہ اللہ تعالیٰ کی حفظ وامان میں چلاجاتاہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا : اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ قربانی میں کتنے فوائد ہیں تو وہ قرض لے کر قربانی کرتے ۔ قربانی کا جو پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے اس پہلے قطرہ کی وجہ سے انسان کو بخش دیا جاتا ہے۔الوسائل، ج 14 ، ص 210
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ قربانی کرنے کے بہت زیادہ فضائل ہیں قرض لے کر بھی قربانی کرنا پڑے تو کرنی چاہیے۔
حضرت اسماعیلؑ کی قربانی
حضرت ابراہیمؑ کا حضرت اسماعیل ؑ کے گلے پر خدا کے حکم کی اطاعت میں چھری رکھ دینا اور اطاعت گزار فرزند کا اللہ کے حکم کے سامنے خوشی سے خود کو اطاعت کے لیے پیش کر دینا وہ عظیم واقعہ ہے جس کی یاد آج دنیا بھر میں منائی جاتی ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰـبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی ط قَالَ یٰٓـاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ.(الصافات، 37: 102)
۱۰۲۔ پھر جب وہ ان کے ساتھ کام کاج کی عمر کو پہنچا تو کہا: اے بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، پس دیکھ لو تمہاری کیا رائے ہے، اس نے کہا : اے ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔
حضرت ابراہیمؑ اللہ کا حکم بیان کرتے ہیں اوربیٹا کمال اطاعت کرتا ہےا ور صابرین کا اعلی مصداق بن جاتا ہے۔جب چھری گلے پر رکھ دی گئی تو فرشتہ وحی پیغام خدا لے کر آیا:
فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِۚ۝ وَ نَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰهِیْمُۙ۝ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَا ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۝ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ۝ وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۝(الصافات، 37: 103 تا 107)
۱۰۳۔ پس جب دونوں نے (حکم خدا کو) تسلیم کیا اور اسے ماتھے کے بل لٹا دیا، ۱۰۴۔ تو ہم نے ندا دی: اے ابراہیم! ۱۰۵۔ تو نے خواب سچ کر دکھایا، بے شک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔ ۱۰۶۔ یقینا یہ ایک نمایاں امتحان تھا۔ ۱۰۷۔ اور ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا ۔
اللہ تعالی نے حضرت اسماعیلؑ کو بچا لیا اور اس قربانی کو ایک بڑی قربانی سے بدل دیا۔اس قربانی کے جذبے کو خدا نے قیامت تک کے لیے امر کر دیا ۔رہتی دنیا تک حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی اس قربانی کی یاد منائی جاتی رہے گی۔
اقبال نے کیا خوب کہا تھا:
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
قربانی او رمعاشرتی ذمہ داریاں
قربانی کئی طرح کی معاشرتی ذمہ داریاں لے کر آتی ہے۔اسلام تو عام حالات میں بھی ضرورت مندوں کا خیال رکھنے کا حکم دیتا اس بڑے دن کی مناسبت سے اسلام نے اس عید کی خوشیوں کو سب لوگوں میں بانٹنے کا انتظام فرمایا ہے۔اس حوالے سے چند نکات بہت اہم ہیں:
۱۔گوشت کی مناسب تقسیم
حدیث میں آیا ہے کہ قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم فرماتے تھے: ایک حصے کو ہمسایوں میں دوسرے حصے کو نیازمندوں میں تقسیم فرماتے تھے جبکہ تیسرے حصے کو اہل خانہ کیلئے رکھتے تھے۔ بن طاووس، ص ۴۵۱ فریز کے آنے سے کچھ لوگ سارا گوشت فریز کر لیتے ہیں،یہ نادرست رویہ ہے۔گوشت کو مستحقین میں مندرجہ بالا طریقہ کے مطابق تقسیم کرنا چاہیے۔
۲۔گوشت اکٹھا کرنے کا بزنس
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ ایک مہم بنا کر گوشت اکٹھا کرتے ہیں۔منوں کے حساب سے گوشت جمع کر لیا جاتا ہے۔یہ نامناسب طریقہ ہے جو جس کا جتنا حق بنتا ہے اسے اتنا ہی گوشت لینا چاہیے۔
۳۔غریبوں اور سفید پوشوں کا خاص خیال
ہمارے معاشرے میں بہت سے گھرانے ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر سفید پوش نظر آتے ہیں اور ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں انہوں نے قربانی کی ہو گی مگر وہ قربانی سےمحروم رہتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کا خیال رکھیں جو خود سے مانگ بھی نہیں سکتے.
۴۔عید کی خوشیوں میں عزیز و اقارب کی شرکت
اپنے عزیز اقارف کو خوشیوں میں شریک کریں اور ان کے ہاں خوشیاں بانٹنے کے لیے تشریف لے جائیں۔اس سے انسان کی عمر بڑھتی ہے اور اس کے رزق میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔صلح رحمی ایک عظیم عبادت ہے اور اسے عید کے موقع پر انجام دینا زیادہ سزاوار ہے۔
۵۔باہمی عداوتوں کا خاتمہ
عید ایک بڑا دن ہے،اس دن کو باہمی عداوتوں کی نطر نہیں کرنا چاہیے۔دلوں میں موجود کدورتوں کو محبتوں میں تبدیل کرنا چاہیے۔معاف کرنےو الوں کو اللہ ویسے ہی پسند کرتا ہے اور اگر معاف کرنا عید کے دن ہے تو یہ نور علی نور والا معاملہ ہو جائے گا۔
۶۔قربانی میں عملی طور پر شریک ہوں
آج کل یہ رواج آ گیا ہے کہ قربانی کے جانور کہیں باہر ہی رکھے جاتے ہیں قربانی والے دن گوشت گھر آ جاتا ہے۔اگر آپشن ہو تو قربانی کے جانور کو ذبح کرنے اور گوشت بنانے کے عمل میں شریک ہونا چاہیے۔اس میں اپنے بچوں کو بھی شریک کرنا چاہیے تاکہ ان کی بھی تربیت ہو۔
۷۔جانور کی آلائشوں کو درست ٹھکانے لگائیں
عید دن خوشیوں کا دن ہے،ایسےمیں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ جانور کو ذبح کر کے اس کے گوشت الگ کر نے کے بعد جو الائشیں بچ جاتی ہیں۔عام طو رپر دیکھا گیا ہے کہ انہیں گلیوں اور چوراہوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔اس گلیاں محلے اذیت کا سبب بن جاتے ہیں۔ضروری ہے کہ ان آلائشوں کو درست میں ٹھکانے لگایا جائے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button