اولاد معصومینؑرسالاتسلائیڈرشخصیات

حضرت مسلم علیہ السلام اور فقاہت دین

جب کھبی کسی شخصیت کے تعارف کی بات آتی ہے تو سب سے پہلے یہ سوال اٹھتا ہے کہ تعلق کس خاندان سے ہے آپ کے والد کا کیا نام ہے والدہ کون ہیں اور آپ کی نشو ونما کس ماحول میں ہوئی. آپ کی تربیت کس نے کی اور کس سے تعلیم حاصل کی تو جب حضرت مسلم کے تعارف کی بات آتی تھے تو باپ کی طرف سے آپ کی نسبت جناب ہاشم تک پہنچتی ہے، عرب میں سب سے اونچا خاندان قریش کا اور قریش میں ہاشمی خاندان تمام خاندانی کرامتوں کا حامل ہے آپ کے والد حضرت عقیل ابن ابی طالب ابن عبد المطلب ہیں،او رآپ رسول اکرم (ص) کے داماد کے بھتیجے ہیں، آپ کی والدہ محترمہ حرّیہ ہیں اور نسب عالیہ کی حامل تھیں وہی عقیل جنہوں نے جنگ صفین میں پورے خاندان کے ساتھ آکر نصرت کی خواہش ظاہر کی تھی،اور آپ کی بیوی رقیہ بنت امیر الموٴمنین علی علیہ السلام تھیں۔
اس مختصر سے تعارف کے بعد آپ کی فقاہت اور عالِمیت کی بحث آسان ہوجاتی ہے۔
لوح محفوظ سے حکم حاصل کرنے والا، معلم جبرئیل امین آپ کو علم وفقاہت کے جوہر سکھا رہا تھا تو فقاہتی اورعلمی لحاظ سے کسی کمی کا کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا، اخلاقی اعتبار سے حضرت امیر نے آپ کی تربیت کی تھی اور حضرت کی تعلیم کی حسنین علیہما السلام نظارت فرماتے، لہٰذا خطا کا امکان بھی ختم ہوجاتا ہے، نیز حضرت مسلم پر حضرت امیر کے وثوق واطمئنان کا عالم یہ تھا کہ جنگ صفین میں حضرت امیر نے آپ کو سپہ سالار بنایا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے حضرت امیر کے سامنے حضرت مسلم کی جنگی مہارت کے ساتھ علمی شخصیت بھی مسلم تھی، اور معصومین کے بعد آپ کی عملی اعتبار سے اپنی مثال آپ تھے، نیز آپ کی نشوونما کے لیے وحی کا ماحول مل گیا تھا متعدد معصومین کے درمیان آپ کی تربیت ہوئی او رماحول بھی پاک وشفاف چشمہ کی طرح مل گیا اور آپ اس کو دل ودماغ میں اتارتے چلے گئے، اور شخصیت سازی کے انمول مونگوں او رموتیوں سے جاملے جو علم ومعرفت کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح اپنی گہرائی اور اپنے مستحکم عزم وارادہ کا اعلان کررہے تھے۔
کتاب سفیر الحسین واصحاب الخمس ، محمد علی دخیل واضح انداز میں حضرت مسلم کی فقاہت کے بارے میں درج کیا ہے۔
فقہ کے معنی: الفقہ ھو الفہم، لغوی اعتبار سے فقہ کے معنی ”فہم“ کے ہیں۔
اصطلاح میں فقہ کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے:الفقہ ھو العلم بالاحکام الشریعة الفرعیة عن ادلتھا التفصیلیہ
(معالم الدین)
الفقیہ: من یتصدیٰ لعمل الفقہ عن اجتھادٍ فقیہ اس شخص کو کہتے ہیں جو بذریعہ اجتھاد احکام شرعیہ فرعیہ کو حاصل کرنے پر قدر رکھتا ہو۔
اس روشنی میں آپ ایک مسلم فقیہ تھے اس لئے کہ قرآن وسنت سے آپ بہت زیادہ نزدیک تھے مزید تشریح وتفصیل کے لئے معصوم استاد موجود تھے حضرت امیر کی زبانی آپ کے لئے احادیث وقرآن کا حصول علم ہاتھ کی پانچ انگلیوں کی طرح تھا، قرآن کی سنت کی روشنی میں بنحو احسن مسائل کا جواب دریافت کرکے لوگوں میں علوم اہلبیت (ع) کو نشر فرماتے تھے۔

حضرت مسلم کی جلالت رسول اکرم (ص) کی زبانی اور اظہار محبت نیز آپ پر رسول اعظم کا گریہ:
حضرت مسلم کی ولادت سے دس سال قبل رسول اکرم (ص) نے حضرت مسلم کی مظلومی کی یاد کرکے اس طرح گریہ کیا کہ رسول اکرم کے آنسو سینہ پر بہہ رہے تھے او رآپ کے مقام ومنزلت کی بہت تعریف وتمجید کی نیز اپنی چاہت اور محبت کا اظہار کیا۔ایک روز مولائے کائینات نے حضرت رسول اللہ سے دریافت کیا کہ آپ کے نزدیک میرے بھائی عقیل کتنے عزیز ہیں، پیغمبر اکرم نے جواب میں فرمایا:
ای واللہ انی لاٴُحِبّہ حبین حبا لہ ابی طالب لہ وان ولدہ لمقتول فی محبة ولدک فتدمہ علھی عین المومنین وتصلی علیہ ملائکة المقربون “ثم جرت دموعہ علی صدرہ ثم قال الیٰ اللہ اشکو ماتلقی عترتی من بعدی
جناب مسلم کی ولادت سے پہلے نبی کریم کا اتنی تمجید وتکریم اور اظہار محبت کرنا اور ان پر زاروقطار رونا خود اس بات کو بتاتا ہے کہ جناب مسلم علم وفقاہت کے اعتبار سے بھی اتنے ہی غیر معمولی شخصیت تھے جس قدر شجاعت او رمہارت جنگی میں آپ اپنی مثال آپ تھے، اس کے بعد یہ فرمانا کہ میری امت میرے بعد میرے اہلبیت (ع) کے ساتھ ناروا اور غیر انسانی سلوک کرے گی، اور میں اللہ سے شکایت کرونگا، اور اس کے بعد یہ کہنا: وتصلی علیہ ملائکة المقربون مقرب ملائکہ مسلم پر ہمیشہ صلوات اور تمجید وتکریم کرتے رہیں گے۔
خلاصہ یہ سب چیزیں یہ ثابت کررہی ہیں کہ آپ بہت اہم شخصیت ہیں جن کی وجہ سے تادیر رسول اکرم کی آنکھوں سے آنسو جاری رہے، اور اس کے بعد مقرب فرشتوں کا صبح ومساء تعریف وتمجید کرنا اور صلوات بھیجتے رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت مسلم حتی رسول اکرم کی نظر میں بھی علمی اور عملی اعتبار سے بھی بہت بڑی شخصیت تھے، اور اللہ ورسول کی نظر میں ان کی منزلت کتنی زیادہ ہے۔
حضرت اباعبد اللہ الحسین (ع) کے نزدیک حضرت مسلم کی علمی اوراخلاقی منزلت:
آپ علیہ السلام نے بنی ہاشم میں حضرت مسلم کا انتخاب کیا نظر انتخاب کا حضرت مسلم پر ٹک جانا یہ بتاتا ہے کہ جناب مسلم بنی ہاشم میں سب سے تجربہ کار اور علم واخلاق میں سب سے بہتر ہیں اسی لئے ان کا انتخاب کیا اور اس پر اصرار بھی کیا کہ تمھیں میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیج رہا ہوں اور اہل کوفہ سے بیعت لینی ہے چاہے جتنی سختیوں کا سامنا کرنا پڑے اور اگر مرضی پروردگار شہادت ہے تو شہید ہوکر سرخرو ہوں۔ یعنی یہ فخرو سرخروی جناب مسلم نے ہی پائی ہے۔
یہ امام علیہ السلام کا اصراراس بات کا غمّاز ہے کہ اے مسلم تم میں تمام فقہی، ثقافتی اور جنگی سفارت کی لیاقتیں پائی جاتی ہیں، لہٰذا یہ عہد و پیمان تمہارے سپرد کرتا ہوں جاؤ اور جاکر مجھے فوراً وہاں کے حالات سے باخبر کرو تاکہ میں جلد آسکوں، اور وہاں جانے کے بعد معتمدین کے یہاں اپنا ٹھکانا بنانا کہیں ایسا نہ ہوں کہ یہ کوفی پھر جائیں، او راس طریقہ سے خط تحریر کیا:
وانی باعث الیکم اخی وابن عمی من اهل بیتی مسلم ابن عقیل فان الی ان قد اجتمع راٴی ملائکم وذوی الحِجیٰ والفضل منکم علی مثل ماقدمت برسلکم وقرئت من کتبکم فانی اقدم الیکم وشیکاً انشاء اللہ
میں تمہارے درمیان اپنے اہل بیت میں چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیج رہا ہوں، درست ہے کہ تمہارے صاحبان عقل وخرد اور اہل فضل گروہ نے ہم پراتفاق کیا ہے جس بات کو تم سب نے مل کر لکھا ہے او رہم نے جو تمہارے خطوط میں پڑھا ہے اسی وجہ سے عنقریب میں تم تک پہنچنے والا ہوں۔
او رخط لکھ کر گویا امامت ورہبری کے فرائض بھی بیان کرنا چاہتے ہیں، )شاید وجہ یہ ہو کہ کوفیوں کو بھی ابھی سے آگاہ فرمانا چاہتے ہوں کہ میں اس طرح حکومت کرونگا کہ پچھلی حکومتوں کی طرح پیش نہیں آؤنگا، اور شاید جناب مسلم کو مثالیہ کی طور پر بتانا چاہتے ہوں فرمایا:
فلعمری ماالامام الا الحاکم بالکتاب، القائم بالقسط الدائن بدین الحق الحابس بنفسه علی ذات الله
میری جان کی قسم! امام صرف وہ ہوتا ہے جو کتاب خدا پر حل وفصل کرے اور عدل وانصاف پر قائم اور دین حق کا پابند او رذات خدا پر تکیہ کرے اور اپنے آپ کو صرف اللہ پر محبوس کرے (یعنی صرف خدا کا ہوجائے)
اس بات سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب بالا صفات میرے سفیر میں موجود ہیں اور کتاب سے وہی حکم کرسکتا ہے جو کتاب کے بارے میں علم رکھتا ہو اور عدل وانصاف بھی وہی برت سکتا ہے جو کتاب کا علم رکھتے ہوئے عمل بھی کرتا ہو، او رمتدین صرف وہی رہ سکتا ہے جو کتاب کا خاصہ علم رکھنے، اس پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ پر توکل بھی رکھتا ہو،اور ایک فقیہ میں انہیں شرائط کا ہونا ضروری ہے اور یہ سب باتیں حضرت مسلم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں، لہٰذا میرے خیال میں بالواسطہ جناب مسلم کی والا صفات ہی کا تذکرہ کیا ہے کہ آپ ان صفات کے حامل ہیں اور جب حضرت مسلم ان صفات کے حامل ہیں تو پھر حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کا کیا کہنا، وہ امام الکمالات ہیں۔
اخطب خوارزمی متوفی ۵۶۸ہجری لکھتا ہے کہ امام حسین (ع) نے خط لکھ کر مہر کیا اور اسے لپیٹ کر حضرت مسلم (ع) کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا: میں تم کو کوفہ والوں کی درمیان بھیج رہا ہوں عنقریب تمہارے بارے میں جو خدا کی مرضی ہوگی وہ تمہیں اس مقام تک پہنچادے گا۔
وانا ارجون ان اکون وانت فی درجة الشهداء فامضِ ببرکة الله وعونه
میں امید کرتا ہوں کہ ہم دونوں اللہ کی برکت اور اس کی مدد سے شہادت کے بلند مرتبہ پر پہنچ جائیں، اے مسلم اب چل پڑو۔ یہاں تک کہ کوفہ پہنچ جاؤ تو بھروسہ مند لوگوں کے یہاں سکونت اختیار کرو اور لوگوں کو میری اطاعت کی دعوت دو، اگر یہ دیکھوکہ میری اطاعت کے لئے ان سب لوگوں نے ایکا کرلیا ہے تو فوراً مجھے خبر دار کرو تاکہ میں اسی اعتبار سے کوفہ کی طرف آنے کی سوچوں۔امام حسین علیہ السلام جناب مسلم کو گلے لگاکر بہت روئے اور یہ دیکھ کر تمام حاضرین مجلس بھی رونے لگے اور اسی حالت میں وداع کی۔
مقتل خوارزمی ص ۱۹۵
جب جناب مسلم (ع) پر دھوکہ سے وار ہورہے تھے اور آپ پیکر مظلومیت وشجاعت بنے ہوئے تھے ایسے شدید وقت میں بھی اپنی فقیہانہ حیثیت پر اپنے کو باقی رکھا اور پیغمبر اکرم(ص) سے اپنی نسبت کو یاد دلاتے ہوئے قوم جفاکار سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ میرے ساتھ کافروں کا سا برتاؤ کررہے ہو، پتھروں کی بارش کیوں کررہے ہو میرا جرم کیا ہے تم سنگبارانی کررہے ہو ایسے موقع پر بھی پورے عزم وحوصلہ کے ساتھ فقہی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے فرمانے لگے اور جبکہ بے گناہ پر کوئی حدی نہیں ہے تو مجھے اس بے دردی سے کیوں زخمی کررہے ہو نیز فرمایا کہ اولاد رسول کا پاس لازم ہے اور یہ کرکے تم اللہ ، رسول اور امیر المومنین علی علیہ السلام کو ناراض نہ کرو تو محمد بن اشعث جناب مسلم سے کہتا ہے کہ: ”لاتقتل نفسک انت فی امانی “اے مسلم تم اپنے کو قتل نہ کرو تم میری امان میں ہو۔
پھر بھی وہ فقاہت جو امیر المومنین (ع)سے حاصل کرکے اپنی رگ وپے میں رچا بسا لیا تھا، اس کا ایک مرقع پیش فرماتے ہیں ایسے کہ جناب مسلم زخموں سے چور لشکر جفاکار سے لڑتے لڑتے بے حال ہوگئے تھے پھر تسلیم ھوجانے وامان حاصل کرنے کے بجائے تھوڑے وقفہ کے بعد دوبارہ پیکار میں مشغول ہوگئے اور فقیہانہ شاہکار پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اٴ وٴسروبی طاقة لاوالله لایکون ذالک ابداً
المناقب ج۴ ص۹۴
جب تک جان میں جان ہے میں اپنے آپ کو اسیری میں نہیں دے سکتا اور یہ درس دیتے ہیں کہ جب تک جان میں جان ہو ہراسلامی سپاہی پر لازم ہے ک دشمن سے ڈٹ کر مقابلہ کرے نہ یہ کہ ہمت چھوڑ کر بیٹھ جائے اور نہ پیٹھ دکھاکر بھاگ جائے بلکہ دینی اقدار کی حفاظت کے لئے خون کے آخری قطرے تک دین کا دفاع کرتا رہے۔
نیز جناب مسلم (ع) کو پیاس کے شدید غلبہ کے باوحود آقا کی فکر ہے اسی فکر میں ڈوبے ہوئے تھے کہ جناب مسلم کو چاروں طرف سے گھیر کر مزید کاری زخم لگائے، آہ! زخموں سے چور حضرت مسلم (ع) زمین پر گر پڑے اور انہیں اسیر کرلیا اس بیچ میں مولا کو یاد کرکے گریہ فرمانے لگے کہ ہائے میرا مولا اور بھائی، جان کی بازی لگادینے کے باوجود جانبر نہیں ہوسکے۔
حضرت مسلم (ع) اور آپ کویک طرفہ دیا گیا امان نامہ اور ابن زیاد کی غداری
جب کہ دوران جاہلیت سے عرب کاقاعدہ تھا کہ جنگ میں دشمن پر غلبہ پاکر اسیر بناکر امان دینے کے بعد اس پر کوئی تعدی نہیں کرتے تھے اور امان یافتہ کو کمال آسائش کا حق ہوتا نیز جس کو امان دیتے اس کی امنیت کے پاپند رہتے اور اسے قتل بھی نہ کرتے تھے نیز اسلام نے بھی اس پر صاد کردی اور اسی پر مہر صحت لگادی اسی بارے میں رسول خدا نے فرمایا:
من امّن رجلا علی دمه فقتله انا بری من القاتل وان کان المقتول کافر ا
من لا یحضرہ الفقیہ، ج۲ ص۵۶۹، بحار الانوار ج ۹۷ص ۴۷، ثواب الاعمال ص ۲۵۶
ایک دوسری حدیث میں اس طرح ارشاد فرماتے ہیں: من امن رجلا علی دمہ ثم قتلہ جاء یوم القیامة لحمل لواء الغدر“ تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ابن زیاد نے اک طرفہ امن وامان کا پیغام محمد بن اشعث کو دے دیا تھا اس کے باوجود غداری کی اور مکاری سے گرفتار کرواکر جناب مسلم کو کس مظلومی سے قتل کردیا۔
ایک روایت میں اس طرح آیا ہے کہ جیسے ھی حضرت مسلم کی تلوار کو ان کے قبضہ سے چھینا جارہا تھا آپ نے فوراً فرمایا:
”خدا کی قسم میں تجھے دیکھ رہا ہوں کہ تو امان نامہ کو بروی کار لانے سے عاجز ہے اب جب میں نے تیری گذارش قبول کرلی ہے تو کیا تیرا خیر مجھ تک پہنچ سکتا ہے اگر تیرے امکان میں ہو تو کسی کو میری جانب سے حسین کے پاس روانہ کردے اور وہ میری طرف سے یہ کہے کہ ابن عقیل دشمنوں کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے تھے اسی حالت میں انہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور کہا ہے کہ اے میر چچازاد بھائی آپ اور آپ کے خاندان پر میرے ماں باپ فدا ہوجائیں آپ مدینہ پلٹ جائیں کوفیوں کے دھوکہ میں نہ آئیں وہ وہی آپ کے باپ امیر المومنین (ع) کے اصحاب ہیں آپ کے والد گرامی بھی ان لوگوں کی وجہ سے موت کی تمنا کرنے لگے تھے کہ ان غداروں سے کیسے جان چھوٹ جائے کوفیوں نے آپ سے جھوٹ بولا اور جھوٹے کبھی بھی بھروسہ کے لائق نہیں ہوسکتے ہیں لہٰذا ایسی قوم پر بھروسہ کرنابھی مناسب نہیں ہے۔
یہاں پر بھی جناب مسلم نے ہمیں یہ بتاتے ہوئے ایک فقہی شق کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کسی کو امان دینے کے بعد اس کے ساتھ غداری نہ کرو ورنہ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور دلیل کے طور پر حدیث نبوی (ص) کو پیش کردیا کہ کسی کو امان دینے کے بعد اسے غداری سے قتل کرنا جہنم میں جانے کا سبب ہے چاہے مقتول کافر ہی کیوں نہ ہو۔من امّن رجلا علی دمہ فقتلہ انا بری من القاتل وان کان المقتول کافر ا
دار الامارہ میں آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے جس پر عبید اللہ ابن عباس نامی ایک شخص نے جملہ کسا اور کہنے لگا جو آدمی اتنے بڑے بلوے کرکے آشوب کو برپا کرتا ہے وہ اتنی تھوڑی مشکل میں پھنس کر گریہ وزاری نہیں کرتا، اس کی بات نے مسلم ابن عقیل کے دل میں آگ لگادی اور جناب مسلم (ع) نے فوراً اپنے رونے کا سبب بتادیا کہ میں اپنے لئے نہیں رورہا ہوں (جو مجھ کو طعنہ دے رہے ہو) بلکہ جو لوگ میرے خط کے بعد میری طرف چل پڑے ہیں میں اپنے اہل بیت امام حسین (ع) اور ان کے خاندان کی جان تلف ہوجانے کی خطرے سے رورہا ہوں،”واللّٰہ انی مالنفسی بکیت۔۔۔ ولاکنی ابکی لاہلی المقبلین انیّ ابکی للحسین وآل الحسین“۔
بحارالانوار ج ۴۴ص۳۵۳
اور یہ کہہ کر غمناک او ریادو کے ہولناک سمندر میں ڈوب کر مولائے کائنات کازمانہ یاد کرنے لگے۔
اس مقام پر گریہ بھی ایک ذمہ دار فقیہ کے عنوان سے تھا کہ میرے اس خط کے لکھ دینے سے میرے اہل بیت امام حسین (ع) اور ان کی اولاد ہماری طرف آرہے ہیں اور اس آنے میں آنے والوں کے جاں برہونے کی بھی کوئی امید نہیں ہے اور اتنے بہت سے نفوس کی حفاظت کا مسئلہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔
جواب دینے کے بعد محمد ابن اشعث سے فرمانے لگے کہ: میری طرف سے حسین (ع)کے پاس کوئی آدمی بھیج دے کہ کوفیوں نے وفا نہیں کی لہٰذا آپ پلٹ جائیے۔
معالی السبطین ج۲ ص ۲۳۸
شریک ابن اعور کی بصرہ سے کوفہ آمد، ہانی بن عروہ کے یہاں ٹھہرنا
جناب مسلم سے شریک بن اعور نے کہا کہ ابن زیاد میری عیادت کے لئے آئے گا اور جب میں پانی طلب کروں تو آپ آکر اس نجس کو قتل کردیں لیکن شریک کے بار بار پانی طلب کرنے کے باوجود آپ نے اسے قتل نہیں کیا یھاں تک کہ شریک نے ایک شعر پڑھا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ”مجھے پانی پلادو چاہے اسی پانی سے مجھے موت ہی کیوں نہ آجائے “ لیکن حضرت مسلم نے پھر بھی قتل نہیں کیا اور فرمانے لگے: الاسلام قید الفتک فلا یفتک مومن“ اسلام مخفیانہ طورپرقتل سے منع کرتا ہے اور مومن کسی کا مخفیانہ قتل نہیں کرتا (یعنی مومن کی شان اس سے بالا ہے کہ مخفیانہ قتل کرے چاہے مقتول کافر ہی کیوں نہ ہو۔
حضرت مسلم کی ابن زیاد کے قتل نہ کرنے کی دوسری دلیل ہانی کی زوجہ کی گریہ وزاری اوران کی خوشامد تھی، آپ نے فرمایا کہ میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ مہمان ہوتے ہوئے اپنے میزبان کو ناخوش کرکے ابن زیاد کا قتل کردو ں۔تو شریک ابن اعور مسلم ابن عقیل سے عرض کرنے لگا کہ اگر آپ اس کوقتل کردیتے تو ایک فاسق وفاجر نیست ونابود ہوجاتا (اور مومنین کو سکون مل جاتا) ”لوقتلت فقلت فاسقاً فاجراً“ (اور اس کے قتل سے ہم سب کو اس کے شر سے خلاصی مل جاتی اور قصر کو آناً فاناً خالی کروالیا جاتا۔
حضرت مسلم کے جواب پر ایک طائرانہ تبصرہ
آپ مسلَّم فقہی بصیرت سے ہر مسئلہ کا حل قرآن وسنت اور عقل سے دریافت فرماتے (اور کسوٹی پر پرکھ کر ہی کسی کام پر مھر صحت ثبت کرتے تھے حضرت مسلم کا جواب اسلام اور عقل کی روشنی میں کاملاً منطقی اور صحیح تھا اور اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو علم وفقہ میں ید طولیٰ حاصل تھا اور اپنے علم کے مطابق زندگی کے تمام گوشوں میں پابند تھے اور اسی طرح زندگی بھر اصول وقوانین پرشدت سے عامل رہے یہاں تک کہ مشکل ترین حالات میں بھی اخلاقی اقدار واصول کی حفاظت فرماتے رہے اور فرعی مسائل کے حصول کے لئے کبھی بھی قانون اور اسلامی اقدار کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اس لئے کہ ناگھانی خفیہ قتل نامردی ہے اور اسلام اس کی ہزگز اجازت نہیں دیتا ، مخفیانہ ناگہانی قتل جنگ کے علاوہ کسی صورت میں جائز نہیں ہے چونکہ جناب مسلم (ع) نے حضرت علی (ع) سے تعلیم وتربیت حاصل کی تھی لہٰذا آپ دنیا کے دوسرے وہی عقائد پر اعتماد نہ کرتے کہ اپنے ذاتی مقصد کے حصول کے لئے کوئی راستہ اختیار کیا جاسکے بلکہ پہلے مقصد پر مبصرانہ نظر فرماتے اور بعد میں اسلامی کسوٹی پر خوب اٹھاؤ پٹک کرتے کہ یہ میرا حکم اسلامی کسوٹی پر پورا اترتا ہے یا نہیں اس لئے کہ مقصد پانے کے لئے فقہی اور اخلاقی کسوٹی کی رعایت ضروری ہے نہ یہ کہ آپ اچھے برے ہر راستہ سے مقصد کو پالینے کی کوشش کرتے ۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ آپ ہانی کے مہمان تھے او راگر میزبان کے یہاں اس کی مرضی کے خلاف عمل کرتے تو بھی مناسب نہیں تھا اس لئے کہ شریف جواں مرد لوگ ایسا کام نہیں کرتے جس میں میزبان کو تکلیف ہو،ان کی شان اس سے بلند وبالا ہے حضرت مسلم (ع)نے اس بات کو مذہب کے رہبر اپنے چچا امیر المومنین علی علیہ السلام سے سیکھ کر اپنی زندگی کا جزء بنالیا تھا، اس لئے کہ حضرت امیر زندگی کے ہرنشیب وفراز میں اسلامی قوانین کی ضرور بالضرور رعایت فرماتے اور اس کو دنیوی کاموں پرقربان نہ ہونے دیتے، مثلاً عمر کی طے کردہ چھ رکنی کمیٹی میں جب عبد الرحمن بن عوف نے کہا تھا کہ اگر آپ قرآن وسنت پیغمبر اور سیرت شیخین پر عمل کریں تو میں آپ کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں ، یہاں پر اگر حضرت امیر المومنین (ع) صرف یہ کہہ دیتے کہ ہاں میں ان تینوں چیزوں پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوں تو آپ کی خلافت عمر کے بعد محکم ہوجاتی لیکن مولائے کائنات نے ہاں کے بجائے اپنا اصلی موقف بیان کیا اور جواب میں فرمایا:
میں قرآن وسنت پیغمبر پرعمل کرونگا لہٰذا عبد الرحمن بن عوف نے عثمان کی بیعت کرلی اورعثمان کی خلافت مان لی گئی۔
شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید المعتزلی ج۱ ص ۱۸۷
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر مولا وقتی طور پر مان لیتے تو کیا ہوجاتا؟
جواب : میں اس طرح کہا جاسکتا ہے مولائے کائنات اور ان کا معصوم خاندان جھوٹ اور وعدہ خلافی سے کوسوں دور تھا،کیونکہ وعدہ خلافی رجس ہے اور رجس ان کے پاس نہیں آسکتا، لہٰذا آپ نے ہرگز ایساکام نہیں کیا جس کی بناجھوٹ اور دھوکہ پر ہو نیز جنگ صفین کے واقعہ میں پہلے معاویہ کی فوج نے گھاٹ پرتصرف کرلیا تو مولاکی فوج کو پانی سے روک دیا لیکن جیسے ہی مولا کی فوج نے دشمن کی فوج پر غلبہ پاکر پانی کو اپنے قبضہ میں لے لیا تولشکر اسلام کے شدید اصر ار پر مولا تیار نہیں ہوئے کہ دشمن پر پانی روک دیں، اور اسی صورت کو امام حسین نے بھی لشکر حر سے پہلی ملاقات میں کثیر مقدار میں جوپانی کا ذخیرہ جو ان کے پاس تھا اس سے مع جانوروں کے دشمن کی پیاسی فوج کو سیراب کردیا۔
ترجمہ ارشاد مفید ج۲س ۸۲
مخفیانہ ناگہانی حملہ کے بارے میں ایک سوال کا جواب:
باوجود اس کے کہ حضرت مسلم (ع) کو یہ معلوم تھا کہ ابن زیاد ستمگر، پست او رمشرک ہے اور اس کے خون کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ وہ واجب القتل ہے، اس لئے کہ وہ مفسد فی الارض اور اس کا وجود فساد وظلم کا باعث ہے اس لئے کہ یہ بنی امیہ کا فرمانبردار غلام ہے لہٰذا اسکو قتل کیوں نہ کردیا جائے۔آیا ہانی یا ان کی بیوی کی ممانعت، اسلام میں ناگہانی مخفی حملہ کی ممانعت، یہ سب کچھ ابن زیاد کو قتل نہ کرنےکاجواز بن سکتی ہے؟ باوجود اس کے کہ ہر چیز میں ایک استثناء ہوتا ہے۔
اگرچہ جناب مسلم کویہ معلوم تھا کہ ابن زیاد کے خون کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور اس کا خون بہاناواجب ہے نیز جناب مسلم (ع) کو یہ بھی معلوم تھا کہ ابن زیاد کاوجود فساد کا باعث ہے، اور امام حسین (ع) کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے اس کا قتل بہت مفید اور کار ساز ہے لیکن حضرت کے نزدیک ابن زیاد کے قتل نہ کرنے کا سب سے اہم سبب ناگہانی خفیہ قتل کے خلاف قانون ہے، جس کی حرمت کا استنباط آپ نے احادیث نبوی سے کیا تھا چونکہ اسلام نے حفظ نفس اور امنیت کی خاطر ہر قسم کی دہشت گردی کو محکوم کیا ہے اگر مسلم (ع) ابن زیاد کو مخفی طور پر قتل کردیتے تو خفیہ طورپر قتل کی ممانعت کی حرمت پامال ہوجاتی اور اسلام کے بین الاقوامی قانون کوزبردست نقصان پہنچتا، الغرض نظام اور سماج کے تتر بتر ہوجانے کا خطرہ لاحق ہوتا نیز اس کے درہم وبرہم ہونے میں آپ بھی شریک ہوجاتے، اور سماج میں دراڑ ڈالنے کا گناہ اس باغی، غدار کے مخفیانہ قتل کے ثواب سے کہیں زیادہ ہوتا۔
حضرت مسلم (ع)کے اس مناسب اقدام پربعض دانشور وں کا نظریہ:
ابن زیاد کا بے اہمیت اور سبک ہونا حفظ نفوس کے قانون کی سنگینی سے کوئی ٹکراؤ نہیں رکھتا ، قانون عدالت کے فیض سے ایک مچھر بھی بچ جائے تو کوئی خاص بات نہیں ہے مچھر کی اہمیت ہو یا نہ ہو مگر عدالت کی اہمیت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہ جائے گی اور ظلم کی مذموم تاریکی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کافور ہوجائے گی اور مخفیانہ ناگہانی حملہ کا ناسور بھی خود بخود ختم ہوجائے گا۔ یہ اور بات ہے کہ جناب مسلم (ع) کو کیا معلوم کہ عدالت اور داد خواہی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اموی کٹہرےمیں بند کردیا جائے گا اور ظلم وبربریت کو عام کردیا جائے گا حضرت مسلم (ع) اسلامی نظام کے محافظ تھے جاہ، منصب ومقام کے شیدائی نہیں کہ تمام اسلامی اقدار کو جاہ ومقام پر قربان کردیتے، بلکہ الہٰی نظام کے پاسبان اور محافظ تھے، جناب مسلم (ع) کی سوچ اور انکی فکر نظام اسلام میں اور اس کے عقائد میں رچی بسی تھی یعنی مسلم کے رگ وپے میں سرایت کرچکی تھی۔
کتاب عنصر شجاعت ص ۵۳۹،۵۴۰
مثال کے طور پر جب بھی کسی مفسد کا خون بہانا نہ صرف یہ کہ اہمیت رکھتا بلکہ ایسے افراد کا خون بہانا مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر ضروری ہو تب ن بھی ایسا کام ہرگز مناسب نہیں ، اور یہاں پر کوئی استثناء بھی نہیں ہے۔
اس بناپر بعض قوانین میں عمومی فوائد کی حفاظت کے پیش نظر ایسے قوانین میں استثناء کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور عقلاً بھی عظیم فوائد کو تھوڑے فائدہ پر قربان نہیں کیا جاسکتا اور دنیا کے کسی ایک حصہ میں بہت معمولی سے مفید حادثہ پر عمومی اور عالمی امنیت کو خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا، حضرت مسلم ابن عقیل (ع) نے اپنے چچا امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے تعلیم وتربیت حاصل کی ، اور آپ نے علم ومعرفت کے شفاف چشمہ سے سیر ہوکر حضرات حسنین علیہما السلام کے مکتب سے فارغ ہوکر محمد وعلی علیہما السلام کے حقیقی اسلام کے تمام احکام کے اتار چڑھاؤ سے بخوبی واقف تھے اور اسی بنیاد پر اپنی زندگی کے تمام اتار چڑھاؤ کو تیزی سے با آسانی سے طے کرتے چلے گئے اور کمالات کی معراج تک پہنچ گئے اور کبھی اپنے احساسات کو اسلام کے عالمی نظام(قانون) پر ترجیح نہیں دی، ایک دائرہ میں اپنے کو محدود کرکے زندگی گذار نا یہ خود بتاتا ہے کہ آپ میں فقہیانہ پہلو کمال درجہ کے پائے جاتے ہیں جو آپ کی زندگی کے مختلف گوشوں میں اپنی تمام گہرائیوں کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔ حضرت مسلم ابن عقیل (ع) کی زندگی جو غیر معصوم ہوتے ہوئےبھی مختلف مقام پر معصومانہ شان دیکھنے کو ملتی ہے ۔
یہ سبھی چیزیں اپنے مقام پر حضرت مسلم (ع) کی بلند مرتبہ زندگی کے دل نشین افتخارات میں سے ہے کہ شجاعت اور جہاد کے اسلامی فریضہ کو کبھی احساساتی اندھی مٹھ بھیڑ پر ترجیح نہ دی اور آخری قطرہٴ خون تک اسی عقیدے کا دفاع کرتے رہے کہ” ان الحیاة عقیدة وجھاد“(درحقیقت زندگی صرف عقیدہ کے مطابق جھاد کا نام ہے)اور اسی حالت میں خون سے شرابور جان کی بازی لگاکر الاسلام ھو التسلیم کا عملی پیکر بن کر معشوق حقیقی حق تعالی سے جاملے اور شہادت کے اس رفیع درجہ کو پاکر اپنی مربی کے ہاتھ کوثر کے جام سے سرفراز ہوکر اپنے بہشتی انعامات حاصل کرکے سرخروہوگئے جو انسانیت کے لئے باعث فخر ہے۔
خدایا! تو اپنے فضل وکرم سے توفیق عنایت کر کہ ہم تیری راہ کے فقیہ ہوکر حضرت مسلم کی طرح تیرے اہل بیت (ع) کے حریم کا دفاع کرتے ہوئے سرخرو ہوکر شہید اٹھائے جائیں او رخون کے آخری قطرہ تک زندگی کا ہر قدم پر اپنے سید ومولا امام زمانہ (ع) کے دین کی نصرت کرتے ہوئے گزرے ۔ ہمیں جناب مسلم(ع) کی طرح اسلام کا مخلص سپاہی بنادے۔(آمین)
http://alhassanain.org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button