سلائیڈرمحافلمناقب امام موسیٰ کاظم عمناقب و فضائل

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر

آیۃ اللہ حسن مظاہری
آپ کا نام نامی موسیٰ اور مشہور لقب کاظم ، عبد صالح اور باب الحوائج ہیں، آپ کی مشہور کنیت ابو الحسن ہے۔ آپ کی عمر مبارک تقریبا ۵۴ سال تھی۔ ۷ صفر ۱۲۸ ہجری کو آپ نے ولادت پائی۔ اور ۲۵ رجب سال ۱۸۶ہجری کو ہارون رشید کے حکم سے سندی بن شاہک کے ہاتھوں زہر کی وجہ سے شہادت پائی۔ آپ کی مدت امامت آپ کے والد بزرگوار کی طرح ۳۴ سال ہے۔ اس پوری مدت میں یا تو آپ زندان میں تھے یا جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔
آپ عوام میں مکمل نفوذ رکھتے تھے اور ہر وقت دشمن کے ساتھ مقابلہ پر رہے اور دشمن بھی غیر معمولی حد تک آپ سے ڈرتے تھے۔ دشمن کے آخری وقت میں یہ چاہتا تھا کہ بالکل خاموشی کے ساتھ کسی کو پتہ کرائے بغیر آپ کی تدفین کرے۔ مگر خدا کو یہ منظور نہیں تھا۔ لہذا بڑے اہتمام کے ساتھ آپؑ کی تدفین عمل میں آئی۔ آپؑ کی شہادت کے وقت بہت سارے علماء، فضلاء اور چیدہ چیدہ لوگوں کو جمع کیا گیا تاکہ یہ لوگ گواہی دیں کہ آپ اپنی طبعی موت مرے ہیں۔ لیکن آپ کی باتوں نے ان کے جھوٹ کا فاش کردیا۔
حضرت موسی ابن جعفر علیہما السلام کے القاب بھی دوسرے اہل بیت علیہم السلام کی طرح بے مقصد نہیں بلکہ ان کے تمام القاب عالم ملکوت سے ہی معین کئے گئے تھے۔ لہذا ہمآپ کے صرف القاب کی مختصر تشریح پر اکتفا کرتے ہیں۔
آپ کے القاب میں سے ایک لقب کاظم ہے آپ اپنے صبر و حلم میں بے مثال تھے۔ اور عظیم سے عظیم مصیبتیں آپ کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہ کرسکیں۔ آپ کی زیارت میں ہم پڑھتے ہیں۔
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ وَ صَلِّ عَلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ وَصِيِّ الْأَبْرَارِ وَ إِمَامِ الْأَخْيَارِ وَ عَيْبَةِ الْأَنْوَارِ وَ وَارِثِ‏ السَّكِينَةِ وَ الْوَقَارِ وَ الْحِكَمِ وَ الْآثَارِ
بار الٰہ درود نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے پاکیزہ آل پر اور درود نازل فرما وصی ابرار حضرت موسی بن جعفر علیہما السلام پر جو نیکوں کے جانشین ، مومنوں کے امام، صفات الہی کے مظہر، وقار وسکون کے وارث ، جس نے مصائب میں صبر و استقامت کا ساتھ دیا جو اہل بیت علیہم السلام کے حکمت اور علم کے وارث ہیں۔
مختصر یہ کہ آپ کاظم ہیں، صابر ہیں، حلیم ہیں، فراخ دل ہیں ، قسم قسم کے طوفان اور اتار چڑھاؤ میں پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہنے والے ہیں اور دشمن اپنی تمام طاقت و اقتدار کے باوجود ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کرسکا۔
ہارون رشید نے اپنی تمام تر مساعی ختم کیں کہ امام موسی کاظم علیہ السلام آپ کے سامنے عجز و انکسار اختیار کریں۔ لیکن اسی خواہش کے ساتھ قبر میں پہنچا جو کبھی پوری نہ ہوسکی۔ ربیع کہتا ہے کہ ہارون نے مجھے زندان میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے پاس بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ مجھے معلوم ہے آپ بے گناہ ہیں۔ لیکن میری اور آپ کی بھلائی اسی میں ہے کہ آپ زندان میں رہیں۔ لہذا جو بھی غذا آپ چاہیں حکم فرما دیں تاکہ تیار کی جائے ربیع کہتا ہے کہ میں اس پیغام کے ساتھ آپ کے پاس زندان میں پہنچا تو دیکھا کہ آپ نماز میں مشغول ہیں۔ ہر چند میں نے کوشش کی کہ آپ کےساتھ باتکروں اور پیغام پہنچا دوں مگر آپ کے مسلسل نماز میں مشغول ہونے کی وجہ سے بہت دیر بعد اتنا موقع ملا کہ آپ نے یہ پیغام سن کر جواب میں فرمایا۔
لا حاضر لی مال فينضعنی و لم اخلق سوالا
اس کے بعد پھر نماز میں مشغول ہوئے۔ یعنی آپ نے فرمایا
میرا کوئی مال نہیں کہ اس سے فائدہ اٹھاؤں اور سوال کرنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہوں۔
یعنی ہم اہل بیتعلیہم السلام کسی سے سوال نہیں کرتے۔ ہم اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ بے جا سوال مت کریں۔ یعنی پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے سوال کی ذلت نہ اٹھائیں۔ ربیع کہتا ہے کہ ہارون نے ایک اور دفعہ مجھے آپ(ع) کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ میں آپ(ع) سے کہوں کہ آپ(ع) اپنے جرم کا اقرار کریں تو آپ کو زندان سے رہائی مل جائے گی۔ آپ (ع) صرف میرے سامنے اقرار کریں۔ میرے اور آپ کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں ہوگا۔ چونکہ میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک آپ اپنے جرم کا اقرار نہیں کریں گے رہائی نہیں دوں گا۔ آپ نے جواب میں فرمایا
میری طرف سے ہارون کو کہہ دو کہ میری تکلیف اور تمہاری راحت و خوشی کے دن مسلسل گزر رہے ہیں اور گزرنے والے ہیں میرے اور تمہارے درمیان حاکم خداوند عالم ہے اب بہت کم دن رہ گئے ہیں۔ ربیع کہتا ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کو جواب سن کر ہارون کی پیشانی پر پل پڑگئے اور کئی دنوں تک ان کا چہرہ بدلا رہا۔
آپ کے مشہور ترین القاب میں سے ایک عبد صالح ہے ہم آپ کی زیارت میں کہتے ہیں۔
الصَلاة عَلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ كَانَ يُحْيِي اللَّيْلَ بِالسَّهَرِ إِلَى السَّحَرِ بِمُوَاصَلَةِ الِاسْتِغْفَارِ حَلِيفِ السَّجْدَةِ الطَّوِيلَةِ وَ الدُّمُوعِ الْغَزِيرَةِ وَ الْمُنَاجَاةِ الْكَثِيرَةِ وَ الضَّرَاعَاتِ الْمُتَّصِلَةِ الْجَمِيلَةِ
موسی بن جعفر پر ہمارا سلام ہو جو رات سے لے کر صبح صادق تک استغفار طویل سجدہ ، گریہ و زاری اور اپنے رب کے حضور مناجات میںگزارنے والے ہیں۔
راوی کہتا ہے کہ آپ جب بغداد میں جلا وطن تھے تو ہارون نے مجھے بھیجا میں نے بغداد پہنچ کر آپ کو تلاش کیا تو بہت دور ایک جھونپڑی میں آپ کو پایا جو خرما کے پتوں اور جھال سے بنائی گئی تھی۔ آپ وہاں تشریف فرما تھے اور ایک غلام آپ کے سامنے ہاتھ میں قینچی لیے آپ کے عضائے سجدہ کے گھٹوں کو کاٹ رہا تھا۔ آپ اس قدر طویل سجدہ کرتے تھے کہ آپ کے اعضائے سجدہ میں گھٹے پڑے ہوتے تھے۔ زندان میں آپ جو دعائیں پڑھتےتھے ان میں سے ایک کے الفاظ ہیں۔
میرے معبود! میں تیری عبادت کے لیے ایک خلوت کی جگہ مانگتا تھا۔ تیرا شکر کہ تو نے وہ جگہ میرے لیے عنایت فرمائی۔
آپؑ کا ایک لقب عالم بھی ہے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی تقریبا ساری عمر زندان یا جلا وطنی میں گزری۔ اسلام ادر انسانیت کے دشمنوں نے عوام کو موسی بن جعفر علیہ السلام کےعلم سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا۔ اس کے باوجود حضرت موسی بن جعفر علیہما السلام نے اپنے بہترین لائق شاگرد اور فقیہ کے درجے کے حامل افراد کی تربیت کی اور مسلمانوں کو ہدیہ پیش کیا۔ شیخ طوسی علیہ الرحمتہ نے اپنے رجال میں بہت سارے افراد جیسے، یونس بن عبدالرحمان ، صفوان بن یحی ، محمد بن ابی عمیر ، عبداﷲ بن مغیرہ ، حسن بن محبوب، احمد بن ابی نصرہ وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔
جو بڑے پائے کے فقہاء تھے علی بن یقطین جس نے تشیع کی بہت خدمت کی ہے آپ ہی کہ صحابہ میں سے تھے۔ آپ نے ہی علی بن یقطین کو ظالم حکومت کی ملازمت اختیار کرنے کو کہا تھا۔ علی بن یقطین ہارون رشید کا وزیر تھا۔ مگر امام موسی کاظم علیہ السلام ان کی ترتیت کررہے تھے۔ جس طرح آپ ان کی ترتیب کا خیال رکھتے تھے۔ اسی طرح ان کے تحفظ کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ یہاں پر ان کے چند ایک واقعاتکا ذکر کرتے ہیں۔
۱ـایک دفعہ ابراہیم جمال جو آپ کے اچھے پیروکاروں میں سے تھے۔ حضرت موسی بن جعفر علیہما السلام کی زیارت کی غرض سے بغداد آئے اور چاہا کہ علی بن یقطین سے ملتے ہوئے امام کے پاس جاتے ۔ لیکن علی بن یقطین اتنے مصروف تھے کہ ابراہیم جمال ان کے ساتھ ملاقات کئے بغیر مدینہ روانہ ہوئے اور جب مدینہ میں امام کے حضور پہنچے تو امام نے علی بن یقطین کے بارے میں پوچھا تو ابراہیم جمال نے اپنا واقعہ اور ملاقات نہ ہونے کا ذکر کیا۔ اسی سال علی بن یقطین بھی مدینہ پہچے چاہا کہ امام کی خدمت میں حاضر ہوجائیں مگر امام نے انہیں اجازت نہ دی اور دوسرے اور تیسرے دن بھی امام نے ملاقات کی اجازت نہیں دی۔ علی بن یقطین بڑے آزردہ ہوئے۔ اور گریہ کرنے لگے کہ مجھ سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے؟ آخر کار امام نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ جب تک ابراہیم جمال کو راضی نہ کرا دو ہم تم سے راضی نہیں۔ یہ سن کر علی بن یقطین مدینہ گئے اور ابراہیم جمال سے معافی مانگی اور معاف کرنے کی نشانی کے طور پر ابراہیم جمال کے پاؤں اپنے چہرے پر زبردستی رکھوادئے اور اس کے نشانات کی حفاظت کر کے امام کے حضور پہنچے اور امام نے یہ دیکھ کر فرمایا اب ہم تم سے راضی ہیں۔
امام کا یہ حکم کرنا علی بن یقطین کی تہذیب نفس کے لیے ایک خاص لطف پر مبنی تھا۔
۲ـایک دفعہ ہارون رشید نے ایک قیمتی کپڑا علی بن یقطین کو انعام کے طور پر دے دیا۔ علی بن یقطین نے وہ کپڑا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے کپڑا واپس کرتے ہوئے کہلا بھیجا کہ وہ کپڑے کو حفاظت سے رکھے اور اسے خوشبو سے معطر کر کے رکھے۔ کچھ عرصے کے بعد چغل خوروں نے ہارون کے پاسچغلی کھائی کہ علی بن یقطین نے وہ کپڑا امام موسی کاظم علیہ السلام کو بھیجا ہے۔ ہارون نے انہیں طلب کر کے پوچھا کہ جو لباس میں نے انعام کے طور پر دیا تھا اسے کیوں نہیں پہنے ہو؟ انہوں نے جواب دیا چونکہ آپ کا انعام دیا ہوا ہے لہذا اسے معطر کر کے حفاظت سے اٹھا رکھا ہے۔ ساتھ ہی غلام کو بھیج کر وہ کپڑا منگوا لیا۔ ہارون نے جب یہ صورت حال دیکھی تو قسم کھائی کہ آئندہ علی بن یقطین کے بارے میں کسی کی کوئی بات نہیں سنے گا۔
۳ـعلی بن یقطین اپنے معمولی کے مطابق اپنے وظائف شرعی پر عمل کررہے تھے۔ ایک دن انہیں امام موسی کاظم علیہ السلام کی طرف سے ایک خط ملا جس میں یہ ہدایت تھی کہ اپنے معروف طریقے کے برخلاف وضو کے طریقے پر عمل کرے۔ خط ملتے ہی اس نے عمل شروع کیا۔ چند دن تک یہ سلسلہ جاری رہا اسی دوران بدخواہوں نے ہارون کے کان میں یہ بات ڈال دی کہ علی بن یقطین شیعہ ہیں۔ ہارون نے تصدیق کے لیے چھپ کر ان کا وضو کرنا دیکھا تو علی بن یقطین کو اپنے طریقے پر وضو کرتے پایا اور چغلی کرنے والوں کی سرزنش کی۔ اس واقعے کے کچھ دن بعد امامکی طرف سے دوسرا خط جس میں اپنے طریقے کے مطابق وضو کرنے کا حکم تھا۔
حضرت موسی بن جعفر علیہما السلام نے اپنے اصحاب ، اجماع ، شاگردوں کے علاوہ دوسرے ایسے افراد کی بھی تربیت کی جنہوں نے مذہب شیعہ کی غیر معمولی خدمت کی ہے جیسے کہ علی بن یقطین۔
اگر ہم حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام کےعلم کے بارے میں بات کرنا چاہیں تو آپ کے لیے زیارات میں پایا جانے والا یہ لفظ آپ کے علم پر کما حقہ دلالت کرنے کے لیے موجود ہے اور وہ لفظ “ عیبتہ الانوار” ہے عیبہ کے معنی تجوری کے ہیں جس میں گرانقدر قیمتی جواہرات کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔ حضرت موسی بن جعفر علیہما السلامانوار الہی کی تجوری قرار پاتے ہیں۔ قدرت خدا کی تجوری ، خدا کی وسیع رحمتوں کی تجوری، صفات حقہ کی تجوری، ہم جس قدر بھی آپ کے علم کے بارے میں بات کریں گے وہ ناکافی ہے۔ آپ کے علم کے اظہار کے لیے صحیح اور مناسب تر لفظ “ عیبتہ الانوار” ہے۔ آپ کا ایک لقب باب الحوائج ہے۔ محمد بن طلحہ شافعی آپ کے بارے میں کہتا ہے۔
انه الامام جليل القدر عظيم الشان کثير التهجد المواظب علی الطاعات المشهور بالکرامات مسهر الليل بالسجدته والقيام و متم اليوم بالصيام والصدقه والخيرات المسمی بالکاظم لعفوه و احسانه بمن اسائه والمسمی بالعبد الصالح لکثيره عبوديته والمشهور باب الحوائج اذ کل من يتوسل اليه اصاب حاجته کراماته تحار منها العقول
بتحقیق آپ جلیل القدر ، عظیم الشان پیشوا ہیں۔ راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے والے اور اﷲ کے اطاعت گزار ہیں۔ اپنی کرامات میں مشہور راتوں کو طویل سجدے اور قیام کرنے والے ہیں اور دنوں کو روزے رکھنے والے ہیں، ضرورتمندوں کی مدد کرنے والے ہیں۔ ان بزرگ کا لقب کاظم ہے ۔ جو آپ کے ساتھ برا کرتے ہیں آپ انہیں معاف کرتے ہوئے ان کےساتھ نیکی کرتے ہیں۔ آپ کا لقب عبدصالح بھی ہے کثرت عبادت اور بندگی کی وجہ سے یہ لقب پڑ گیا۔ باب الحوائج بھی آپ کا لقب ہے جو بھی آپ کا وسیلہ اختیار کرتا ہے اس کی حاجت پوری ہوتی ہے حضرت موسی بن جعفر علیہما السلام کی کرامات اتنی زیادہ ہیں کہ انسانی عقل متحیر ہوتی ہے۔
خطیب خوارزمی کہتا ہے کہ مجھے جب کبھی بھی کوئی غم والم در پیش ہوا میں حضرتموسی بن جعفر علیہما السلام کے روضے پر گیا اور میرا غم بھی دور ہوا۔ تاریخی تجربات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرت موسی بن جعفر علیہما السلام باب الحوائج ہیں۔ منقول ہے کہ خلفاء میں کسی ایک کو دل کی بیماری لاحق ہوئی۔ ہر چند دوا تجویز کی گئی مگر افاقہ نہیں ہوا ۔ اس کے خاص حکیم نے جو نصرانی تھا کہا تمہارے اس درد کی کوئی دوا نہیں تو کسی اﷲ والے کو تلاش کرو اور اس کے ذریعے دعا کراؤ۔ خلیفہ نے کہا کہ حضرت موسی بن جعفر عماہو السلام کو بلایا جائے آپؑ نے آکر دعا فرمائی تو وہ بالکل تندرست ہوئے۔ اس کے شفا پانے کے بعد آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے کیا پڑھا تھا کہ فورا صحت یاب ہوا۔ آپؑ نے فرمایا ،میں نے صرف اتنا کہا تھا۔
اللہم کما اریتہ ذل معصیتہ فارہ عن طاعتی
خداوندا جس طرح تو نے اسے نافرمانی کی ذلت سے آگاہ کیا اسی طرح میری اطاعت کی عزت بھی اسے دکھا۔آپ دیکھیں کیا ہی بلیغ اور لطیف کلام کس طرح کا تعمیری اور تہدیدی کلام ہے۔
شیخ طوسی اپنے رجال میں حماد سے نقل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ مٰیں حضرت موسی بن جعفر علیہما السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرے حق میں دعا فرمائیں کہ خداوند عالم مجھے اچھا گھر ، اچھی بیوی اور نیک اولاد دے اور پچاس حج کرنے کی توفیق دے۔ آپ نے دعا فرمائی تھوڑی مدت نہیں گزری تھی کہ خداوند عالم نے مجھے سب کچھ دیا۔ یہ شخص ہر سال حج کرنے جاتا تھا۔ ایک دفعہ حج پر گیا تھا۔ احرام کےموقع پر غسل کرنے پانی میں اترا اور وہی غرق ہوکر مرا اس طرح آخری سال حج بجا نہ لاسکا۔ تاریخ میں حضرت موسی بن جعفر علیہما السلام سےمتعلق اسی قسم کے واقعات بہت ملتے ہیں۔
(اقتباس از: اسلام کے محافظ)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button