خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:234)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک05جنوری 2024ء بمطابق 22جمادی الثانی 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: گناہ
ایسے کام کو انجام دینا جسے خداوند نے منع اور حرام کیا ہو یا ایسے کام کو ترک کرنا کہ جسے خداوند متعال نے واجب قرار دیا ہو، گناہ کہا جاتا ہے۔ عربی میں لفظ گناہ کو ذنب ، اثم اور معصیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔بعض گناہوں کا تعلق دل اور عقیدے سے ہوتا ہے جیسے شرک یا اہلبیت سے بغض رکھنا اور بعض گناہوں کا تعلق بدن کے اعمال سے ہوتا ہے جیسے نماز روزوہ کا ترک کرنا یا شراب پینا وغیرہ۔
گناہ کی کچھ قسمیں ہیں یہ تقسیم قرآن اور روایات کے ذریعے ہوئی ہے، سورہ نساء کی آیت 31 میں آیا ہے:
اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ نُدۡخِلۡکُمۡ مُّدۡخَلًا کَرِیۡمًا
اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کر دیں گے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کر دیں گے۔
اس آیت سے معلوم ہو ا کہ گناہوں کی دو اقسام ہیں:
i۔ گناہان کبیرہ ii۔ گناہان صغیرہ
اللہ کی نافرمانی اور گستاخی کے اعتبار سے تو ہر گناہ بڑا ہے، لیکن گناہ خود گناہ کی نسبت چھوٹے بڑے گناہ ہو سکتے ہیں۔
گناہ کبیرہ: اگر کبیرہ کے لغوی معنی کو دیکھیں تو ہر وہ گناہ کبیرہ ہوگا جو اسلام کی نظر میں بڑا ہے اور ا س کی برائی کی نشانی یہ ہوسکتی ہے کہ قرآن مجید نے صرف اس کی ممانعت پر قناعت نہ کی ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عذاب جہنم کی دھمکی بھی دی ہو مثلاً قتل، زنا، سود خوری وغیرہ ۔
جیسے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
اَلْکَبَائِرُ الَّتِی اَوْجَبَ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَیْھَا النَّارَ ۔ ( اصول الکافی ۲: ۲۷۶)
گناہ کبیرہ وہ ہے جس کا ارتکاب کرنے والے کے لیے اللہ نے جہنم کی سزا مقرر کی ہو۔
ان میں سرفہرست شرک ہے۔ اس کے بعد ناحق قتل، زنا، سود خوری، جنگ سے فرار، عقوقِ والدین، ولایت اہل بیت علیہم السلام کا انکار اور دیگر گناہان کبیرہ کی تعداد بعض روایات میں ستر تک پہنچ جاتی ہے۔لیکن روایات کے اس اختلاف میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اصل میں ان روایات میں سے بعض پہلے درجہ کے گناہان کبیرہ کی طرف بعض دوسرے درجہ کے کبائر کی طرف اور بعض سب گناہانِ کبیرہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
حضرت رسولِ  اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ابنِ مسعود کو مخاطب کر کے کچھ نصیحتیں فرمائیں:
لاَتَحْقِرَنْ ذَنْباً وَّلاَ تَصْغِرَنَّهُ
ہر گز کسی گناہ کو چھوٹا اور حقیر تصوّر نہ کرو
وَاجْتَنِبِ الْکَبَائِرَ
اور بڑے گناہوں سے پرہیز کرو
فَاِنَّ الْعَبْدَ اِذَا نَظَر اِلٰی ذُنُوبِهِ دَمِعَتْ عَیْنَاهُ دَمًا وَقِیْحًا
کیونکہ قیامت کے دن جب بندہ اپنے گناہ پر نظر کرے گا تو بے اختیار اس کی آنکھوں سے خون اور پیپ کے آنسو نکلیں گے ،
یَقُوْلُ اللّٰهُ تَعَالٰی یَوْمَ تَجِدْکُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خیْرٍ مُحْضَرًا وَّمَا عَمَلَتْ مِنْ سُوْءٍ تَوَدُ لَوْ اَنَّ بَیْنَها وَبَیْنَه اَمَدًا بَعِیْداً (جلد ۱۷۔ بحارالانوار)
اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ قیامت وہ دن ہے کہ ہر ایک اپنے نیک و بد اعمال اپنے سامنے پائے گا اور آ رزو کرے گا کہ خود اس کے اور گناہوں کے درمیان بہت دور کا فاصلہ ہو جائے۔
نماز کو کمتر سمجھنا گناہ کبیرہ ہے:
نماز کا استخفاف یعنی نماز کو کم تر اور کم اہمیت سمجھنا گناہانِ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے۔ بعض روایتوں میں واضح طور پر بیان ہے کہ نماز کو حقیر سمجھنے والا شفاعت سے محروم ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
لاَ تَنَالُ شَفَاعَتُنَا مَنْ اِسْتَخَفَّ بِصَلَا تِه
"ہماری شفاعت ان لوگوں کو نہیں ملتی جنہوں نے نماز کو حقیر سمجھا "۔
حضرت رسولِ  اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
"لَیْسَ مِنِّیْ مَنْ اِسْتَخَفَّ بِالصَّلوٰةِ لاَیَرِدُ عَلَیَّ الحَوْضَ لاَوَاللّٰهِ(بحارالانوار)
"جو کوئی نماز کو حقیر شمار کرتا ہے وہ مجھ سے نہیں۔ اللہ کی قسم وہ مجھ سے نہیں ، اللہ کی قسم وہ حوض ِکوثر پر میرے نزدیک نہیں پہنچ سکتا”۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گناہوں سے نہ بچنا اور دلیری سے گناہوں میں ملوّث ہونا اور شفاعت کی امید میں توبہ کرنے میں تاخیر کرنا جہالت ، گھمنڈ اور لاپروائی کی علامت ہے۔
گناہوں کی وجہ سے دل کا سیاہ ہوجانا:
گناہوں میں ڈوبے انسان کا دل سیاہ ہو جاتا ہے پھر اس پر ہدایت کی بات اثر نہیں کرتی۔ حدیث حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
مَا مِنْ عَبْدٍ اِلاَّ وَفِیْ قَلْبِهِ نُکْتَةٌ بَیْضَاءٌ
ہر بندے کے دل میں ایک سفید نقطہ ہوتا ہے،
فَاِذا اَذْنَبَ ذَنْباًخَرَجَ مِن نُکتِهِ نُکْتَةٌ سَوْدٰٓاءٌ
جب وہ گناہ کرتا ہے تو اس نقطے سے سیاہ نقطہ نکل آتا ہے،
فَاِذَاتَابَ ذَهَبَ ذٰلِکَ السَّوٰادُ
اگر بندہ توبہ کرلے تو وہ سیاہی مٹ جاتی ہے ،
وَاِنْ تَمَادیٰ فِی الذُّنُوْبِ زَادَذٰلکَ السَّوَادُ
اگر وہ گناہوں میں ڈوب گیا اور لگاتار گناہ پہ گناہ کرتا رہا تو دل کی سیاہی بڑھتی جاتی ہے،
حَتٰی یغَطْیِ البَیَاضَ یہاں تک کہ وہ سیاہی دل کی پوری سفیدی کو گھیر لیتی ہے۔

فَاِذَا غَطٰی البَیَاضُ لَمْ یَرْجِعْ صَاحِبُهُ اِلٰی الْخَیرِ اَبَداً
جب سفیدنقطہ پر مکمل طور پر کالا پردہ چھا جاتا ہے تو ایسے دل کے مالک کبھی بھی خیر کی طرف رجوع نہیں کریں گے۔
وَهُوَ قَوْلُهُ تَعَالٰی کَلاَّبَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَاکانْوا یَکْسِبُوْنَ (کتاب کافی)
انہی لوگوں کے بارے قرآن میں ارشاد ہے:”نہیں ، نہیں بات یہ ہے کہ جو لوگ اعمال (بد) کرتے ہیں ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے”۔
گناہ اور طوق و زنجیر کی مثال:
گناہ کی لذت طوق و زنجیر کی طرح ہے کہ گناہ کا جتنا زیادہ ارتکاب کیا جائے اتنی زنجیر زیادہ مضبوط ہوتی چلی جائے گی اور آدمی کے ہاتھ پاؤں کو باندھ دے گی اور گناہ کا طوق اس کی گردن کو باندھ دے گا، اور ہر گناہ کی وجہ سے طوق و زنجیر زیادہ موٹے ہوجائیں گے۔
فرض کیجئے کہ گنہگار نے گناہ کی ابتدا میں طوق و زنجیر کو اپنی گردن اور پاؤں پر باندھ دیا تھا، اُس وقت استغفار اور توبہ کرتے ہوئے انہیں اپنے ہاتھوں کے ذریعے اپنی گردن اور پاؤں سے کھول سکتا تھا، لیکن گناہ کو بار بار دہرانے اور مختلف گناہوں کے ارتکاب کرنے سے پاؤں کے بندھے جانے کے بعد اب اس نے زنجیروں کو اپنے ہاتھوں پر بھی باندھ دیا ہے، یعنی جس چیز کے ذریعے کھول سکتا تھا اب ان کو بھی باندھ دیا ہے، اب کس چیز کے ذریعے کھولے گا؟ البتہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ کھلا ہے، انسان استغفار اور توبہ کے ذریعے گناہوں سے پاک ہوسکتا ہے، لیکن اگر اس نے اس توفیق کے لئے کوئی راستہ باقی رکھا ہو!
سورہ غافر کی آیات ۷۰، ۷۱ میں ارشاد الٰہی ہے: "الَّذِينَ كَذَّبُوا بِالْكِتَابِ وَبِمَا أَرْسَلْنَا بِهِ رُسُلَنَا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ . إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ”
"جن لوگوں نے اس کتاب (قرآنِ مجید) کو جھٹلایا اور اس (پیغام) کو بھی جس کے ساتھ ہم نے اپنے پیغمبروں کو بھیجا تو انہیں بہت جلد (اس کا انجام) معلوم ہو جائے گا۔ جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور (پاؤں میں) زنجیریں ان کو گھسیٹتے ہوئے لایا جائے گا”۔
دنیا میں گناہ سے مصیبتوں کا نزول:
جب انسان اپنے خالق کی نافرمانی کریگا تو اس کا اثر اس سے زیادہ اس دنیا پر پڑیگا جس کے بارے میں معصومین(علیہم السلام) سے بہت زیادہ روایتیں نقل ہوئی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت علی(علیہ السلام) دعاء کمیل میں اس طرح خدا کی بارگاہ میں عرض فرمارہے ہیں:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ‏ الْبَلَاءَ خدایا میرے ان گناہوں کو بخش دے جن کے وجہ سے بلاء(مصیبت) نازل ہوتی ہے،
مثال کے طور پر ہم آج کل کی جدید بیماریوں کو پیش کرسکتے ہیں جو پہلے نہیں تھیں لیکن اب بہت زیادہ ہیں جن کے وجہ سے بہت زیادہ لوگ مر جاتے ہیں، کیونکہ ان کا علاج ابھی تک ڈاکٹروں کے سمجھ میں نہیں آیا۔
بعض بلائیں اور مصیبتیں ایسی ہیں جن پر انسان کا کوئی اثر نہیں ہوتا، مثال کے طور پر موت جس کے بارے میں خداوند متعال قرآن مجید میں اس طرح ارشار فرمارہا ہے:
أَیْنَما تَکُونُوا یُدْرِکْکُمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ کُنْتُمْ فی بُرُوجٍ مُشَیَّدَة(سورۂ نساء، آیت:۷۸)
تم جہاں بھی رہو گے موت تمہیں پالے گی چاہے مستحکم قلعوں میں کیوں نہ بند ہوجاؤ۔
اور بعض بلائیں اور مصیبتیں ایسی ہیں جن میں انسان کا کردار اثر انداز ہوتا ہے جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا ہے:
أَوَ لَمَّا أَصابَتْکُمْ مُصیبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَیْها قُلْتُمْ أَنَّى هذا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِکُم(سورۂ آل عمران، آیت:۱۶۵)
کیا جب تم پر وہ مصیبت پڑی جس کی دوگنی تم کفّارپر ڈال چکے تھے تو تم نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ کیسے ہوگیا تو پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ یہ سب خود تمہاری طرف سے ہے۔
دوسری قسم کی جو بلائیں اور مصیبتیں ہیں وہ انسان کے فردی یا اجتماعی گناہوں کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا ہے:
ظَهَرَ الْفِسادُ فِى الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِما کَسَبَتْ أَیْدِى النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ(سورۂ روم، آیت:۴۱)
لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بنا پر فساد خشکی اور تری ہر جگہ غالب آگیا ہے تاکہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھا دے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستے پر آجائیں۔
حضرت امام رضا (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "کُلَّمَا أَحْدَثَ الْعِبَادُ مِنَ‏ الذُّنُوبِ‏ مَا لَمْ‏ یَکُونُوا یَعْمَلُونَ‏ أَحْدَثَ‏ اللَّهُ‏ لَهُمْ‏ مِنَ‏ الْبَلَاءِ مَا لَمْ یَکُونُوا یَعْرِفُونَ"، "جب بھی بندے ایسے گناہوں کو وجود میں لائیں جن کا (پہلے) ارتکاب نہیں کرتے تھے تو اللہ ان کے لئے ایسی مصیبت پیدا کرے گا جسے وہ (پہلے) نہیں جانتے تھے”۔ (الکافی، ج۲، ص۲۷۵)
مختلف گناہوں کے اثرات:
ہر گناہ اگرچہ خدا کی نافرمانی ہے لیکن دنیا میں بھی گناہوں کے کچھ خاص اثرات انسان کی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں جنہیں اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے:
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
 "الذُّنُوبُ الَّتِی تُغَیِّرُ النِّعَمَ الْبَغْیُ‏،
جو گناہ نعمتوں کو تبدیل کردیتے ہیں (دوسروں کے حقوق پر) زیادتی ہے،
وَ الذُّنُوبُ الَّتِی تُورِثُ النَّدَمَ الْقَتْلُ،
اور جو گناہ پشیمانی کا باعث ہے وہ قتل ہے،
وَ الَّتِی تُنْزِلُ النِّقَمَ الظُّلْمُ،
اور جو مصیبت کو نازل کرتے ہیں وہ ظلم ہے،
وَ الَّتِی تَهْتِكُ السِّتْرَ شُرْبُ الْخَمْرِ،
اور جو پردے کو پامال (رازکو فاش کرتے اور ذلیل و خوار) کرتے ہیں وہ شراب خواری ہے،
وَ الَّتِی تَحْبِسُ الرِّزْقَ الزِّنَا،
اور جوگناہ رزق کو روک دیتے ہیں،وہ زنا ہے،
وَ الَّتِی تُعَجِّلُ الْفَنَاءَ قَطِیعَةُ الرَّحِمِ،
اور جو فنا (موت) کو جلدی لاتے ہیں قطع رحمی کرنا ہے،
وَ الَّتِی تَرُدُّ الدُّعَاءَ وَ تُظْلِمُ الْهَوَاءَ عُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ”،
اور جو دعا کو پلٹا دیتے ہیں اور فضا کو اندھیرا کردیتے ہیں عاقِ(نافرمان) والدین ہے”۔ (الکافی، ج۲، ص۴۴۷)
خطبے کے شروع میں ہم نے قرآن کی آیت بیان کی کہ جس میں اللہ فرماتا ہے کہ
اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ نُدۡخِلۡکُمۡ مُّدۡخَلًا کَرِیۡمًا
اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کر دیں گے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کر دیں گے۔
اس آیت مجیدہ میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں کبائر یعنی گناہان کبیرہ کے مقابلے میں سیّاٰت کا ذکر آیا ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیّاٰت سے مراد چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں۔ ان چھوٹے گناہوں ہی کے بارے میں دوسری جگہ ارشا د ہوتا ہے:
اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ۔۔۔۔ (۱۱ ہود: ۱۱۴)
بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔
ان دونوں آیات سے یہ مطلب سامنے آتا ہے کہ اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو چھوٹے گناہوں کو اللہ خود عفو و درگزر یا نیکیوں کے ذریعے مٹا دیتا ہے، لیکن اگر گناہ بڑے ہوں تو ان سے درگزر کے لیے توبہ کی ضرورت ہے۔
گناہ کے بڑا ہونے کی صورت میں یہ دیکھنا چاہیے کہ ارتکاب گناہ کی نوعیت کیاہے؟ کیا ارتکاب نادانی کی وجہ سے ہوا ہے یا بارگاہ الٰہی میں جرأت اور گستاخی کی وجہ سے ہوا ہے یا خواہشات پر قابو نہ رکھنے کی وجہ یا گناہ کو خفیف سمجھنے کی وجہ سے ہوا ہے؟ پھر گناہ کبیرہ کے بھی مدارج ہیں: کچھ کبیرہ ہیں اور کچھ بہت زیادہ کبیرہ ہیں۔ مثلا زنا کبیرہ ہے۔ اگر یہ مسجد میں ہو تو زیادہ کبیرہ ہے۔ شادی شدہ عورت کے ساتھ ہو تو اور زیادہ کبیرہ ہے۔ یہ شادی شدہ عورت ہمسائے کی عورت ہو تو اور زیادہ کبیرہ ہے۔ یہ عورت اگر محرموں میں سے ہو تو اور زیادہ کبیرہ ہے۔
یہاں سے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ روایات میں گناہان کبیرہ کی تعداد میں اختلاف کیوں ہے۔
سوال: کیا اس سے چھوٹے گناہوں کے ارتکاب کی تشویق نہیں ہوتی؟
جواب: اولاً اگر گناہ کو خفیف اور ناچیز سمجھے تو اس سے گناہ چھوٹا نہیں رہتا، بڑا ہو جاتا ہے۔ ثانیاً یہ کہ گناہ صغیرہ کا ارتکاب بار بار ہو تو بھی صغیرہ نہیں رہتا، کبیرہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہؐ سے روایت ہے:
لاَ کَبِیْرَ مَعَ اُلِاسْتِغْفَارِ وَ لَا صَغِیْرَ مَعَ الْاِصْرَارِ ۔ (الوسائل ۱۵ : ۳۳۵ باب صحۃ التوبۃ)
استغفار کے ساتھ کوئی گناہ کبیرہ نہیں رہتا اور بار بار ارتکاب کی صورت میں کوئی گناہ صغیرہ نہیں رہتا۔
لہٰذا گناہ صغیرہ کی تشویق کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
اَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَھَانَ بِہٖ صَاحِبُہُ ۔ (نہج البلاغۃ حکمت: ۳۴۸۔ ص ۸۸۳ ۔ طبع امامیہ کتب خانہ۔ لاہور۔)
سب سے بھاری گناہ وہ ہے جس کا ارتکاب کرنے والا اسے سبک (ہلکا اور حقیر)سمجھے۔
گناہان کبیرہ میں سے شرک کے بعد ایک بڑا گناہ کسی بے گناہ مومن کو قتل کرنا ہے جس کے بارے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ مَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا (النساء:93)
اور جو شخص کسی مومن کو عمداً قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہو گی اور ایسے شخص کے لیے اس نے ایک بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اگر مومن ہونے کی وجہ سے اس کا خون حلال سمجھ کر قتل کرتا ہے تو اس صورت میں قاتل ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اس پر خدا کا غضب ہو گا اور وہ خدا کی رحمت سے بھی دور ہو گا اور اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی، جیسا کہ ہمارے ملک میں کافی عرصے سے کچھ نام نہاد مسلمان دہشت گرد،شیعوں کو شیعہ ہونے کے جرم میں قتل کر رہے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے ان کو جنت ملے گی۔

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button