خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:253)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 31 مئی 2024ء بمطابق 22ذوالقعدۃ 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: دنیا
اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ 
جان رکھو کہ دنیاوی زندگی صرف کھیل، بیہودگی، آرائش، آپس میں فخر کرنا اور اولاد و اموال میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش سے عبارت ہے،
کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا 
اس کی مثال اس بارش کی سی ہے جس کی پیداوار (پہلے) کسانوں کو خوش کرتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر دیکھتے ہو کہ وہ کھیتی زرد ہو گئی ہے پھر وہ بھس بن جاتی ہے۔
وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ
جب کہ آخرت میں (کفار کے لیے) عذاب شدید اور (مومنین کے لیے) اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو سامان فریب ہے۔(سورۃ الحدید آیۃ 20)
دنیوی زندگی مقصد:
اگر دنیوی زندگی مقصد قرار دی جائے اور اخروی زندگی کے تقاضوں سے متصادم زندگی ہو تو یہ زندگی طبیعت (nature) کے ہاتھوں ایک کھلونے سے زیادہ قیمت نہیں رکھتی۔
اس آیت اور دیگر آیات و احادیث میں دنیا کی مذمت کا تعلق اس دنیا سے ہے جو آخرت کے ساتھ متصادم ہے چونکہ آخرت کی ابدی اور ختم نہ ہونے والی زندگی کے مقابلے میں چند روزہ دنیا کی کوئی اہمیت نہیں بنتی۔
شیخ بہائیؒ سے منقول ہے:
پانچ خصلتیں انسان کی عمر کے مراحل سے مربوط ہیں:
• بچپنے میں کھیل میں مشغول ہوتا ہے۔
• بلوغ کی عمر کو پہنچے تو لہویات میں مشغول ہوتا ہے۔
• جوانی میں زیب و زینت کا دلدادہ ہوتا ہے۔
• درمیانی عمر میں فخر و مباہات میں لگ جاتا ہے۔
• اور عمر رسیدہ ہونے پر مال و اولاد کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔(الکوثر فی تفسیر القرآن)
امیر المومنین امام علیؑ نے نہج البلاغہ میں دنیا کے موضوع پر بہت زیادہ گفتگو فرمائی ہے۔اگر وہ سب بیان کی جائے تو اس پر کئی عشرے پڑھے جا سکتے ہیں۔اسی لیے ہم اپنے موضوع کی مناسبت سے نہج البلاغہ سے امیر المومنین کی زبانی دنیا کے بارے میں صادر شدہ فرامین بیان کرتے ہیں:
چنانچہ خطبہ 61 میں فرمایا:
اَلَا وَ اِنَّ الدُّنْيَا دَارٌ لَّا يُسْلَمُ مِنْهَا اِلَّا فِيْهَا،
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا ایسا گھر ہے کہ اس (کے عواقب) سے بچاؤ کا ساز و سامان اسی میں رہ کر کیا جا سکتاہے۔
وَ لَا يُنْجٰى بِشَیْ‏ءٍ كَانَ لَهَا.
اور کسی ایسے کام سے جو صرف اسی دنیا کی خاطر کیا جائے نجات نہیں مل سکتی۔
ابْتُلِیَ النَّاسُ بِهَا فِتْنَةً، لوگ اس دنیا میں آزمائش میں ڈالے گئے ہیں۔
فَمَاۤ اَخَذُوْهُ مِنْهَا لَهَا اُخْرِجُوْا مِنْهُ لوگوں نے اس دنیا سے جو دنیا کیلئے حاصل کیا ہو گا اس سے الگ کر دئیے جائیں گے۔
وَ حُوسِبُوْا عَلَيْهِ، اور اس پر ان سے حساب لیا جائے گا
وَ مَاۤ اَخَذُوْهُ مِنْهَا لِغَيْرِهَا قَدِمُوْا عَلَيْهِ وَ اَقَامُوْا فِيْهِ،
اور جو اس دنیا سے آخرت کیلئے کمایا ہو گا اسے آگے پہنچ کر پا لیں گے اور اسی میں رہیں سہیں گے۔
فَاِنَّهَا عِنْدَ ذَوِی الْعُقُوْلِ كَفَیْ‏ءِ الظِّلِّ،
دنیا عقلمندوں کے نزدیک ایک بڑھتا ہوا سایہ ہے،
بَيْنَا تَرَاهُ سَابِغًا حَتّٰى قَلَصَ، وَ زَآئِدًا حَتّٰى نَقَصَ‏.
جسے ابھی بڑھا ہوا اور پھیلا ہوا دیکھ رہے تھے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ گھٹ کر اور سمٹ کر رہ گیا۔
ایک مقام پہ امام علیؑ  فرماتے ہیں:
إنّما سُمِّيَتِ الدُّنيا دُنيا لأ نّها أدنى مِن كلِّ شيءٍ ، وسُمِّيَت الآخِرةُ آخِرةً لأنّ فيها الجزاءَ والثوابَ
دنیا کا نام دنیا رکھا ہی اِ س لئے گیاہے کہ وہ ہرشئے سے پست تر ہے اور آخرت کو آخرت اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں جزاوثواب ہے۔.(علل الشرائع : ۲ / ۱)
ایک اور مقام پہ فرمایا: إنّ اللّٰهَ سبحانَهُ قد جَعَلَ الدنيا لِما بعدَها ، وابتَلى فيها أهلَها ، لِيَعلَمَ أيُّهُم أحسَنُ عَمَلاً ، ولَسنا للدنيا خُلِقنا ، ولا بالسَّعي فيها اُمِرنا,( نہج البلاغہ : الكتاب ۵۵ )
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دنیا کو اس کے بعد والے (عالم)کے لئے بنایا ہے ،اور اس میں اہل دنیا کی آزمائش کی ہے تاکہ وہ جانچے کہ ان لوگوں میں کس کے عمل اچھے ہیں۔ہم نہ تو دنیا کے لئے خلق کئے گئے ہیں اور نہ ہمیں اسی کے لئے تگ ودَو کرنے کا حکم ہے۔
دنیا کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الدنيا ملعونةٌ وملعونٌ مافيها ، إلاّ ما ابتُغِيَ به وَجهُ الله عز و جل.(كنزالعمّال : ۶۰۸۸)
دنیا ملعون ہے اور جوکچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے سوائے اس شخص کے جو رضائے الٰہی کا طالب ہو۔
یعنی اگر بندہ اپنی دنیا میں ایسے اعمال انجام نہیں دیتا جن سے اللہ کی رضا حاصل ہو تو پھر ایسی دنیا کی زندگی لعنت کی حقدار ہے۔ لعنت یعنی اللہ کی رحمت سے دوری۔
سابقہ حدیث کی مزید وضاحت امام زین العابدینؑ  کے اس فرمان مبارک سے ہوتی ہے:
الدنيا دُنياءانِ : دنيا بلاغٍ ودنيا ملعونةٌ.(الكافي : ۲ / ۳۱۷ / ۸)
دنیا دوطرح کی ہے۔ منزل مقصود (آخرت) تک پہنچانے والی دنیااور ملعون دُنیا۔ (جو آخرت سے باز رکھے)
دنیا کی بے ثباتی:
امیر المومنین نہج البلاغہ خطبہ 28 میں دنیا کی بے ثباتی کے بارے فرماتے ہیں:
فَاِنَّ الدُّنْیَا قَدْ اَدْبَرَتْ وَ اٰذَنَتْ بِوَدَاعٍ،
دنیا نے پیٹھ پھرا کر اپنے رخصت ہونے کا اعلان کیا
وَ اِنَّ الْاٰخِرَةَ قَدْ اَقْبَلَتْ وَ اَشْرَفَتْ بِاطِّلَاعٍ،
اور منزلِ عقبیٰ نے سامنے آ کر اپنی آمد سے آگاہ کر دیا ہے۔
اَلَا وَ اِنَّ الْیَوْمَ الْمِضْمَارَ وَ غَدًا السِّبَاقَ،
آج کا دن تیاری کا ہے اور کل دوڑ کا ہو گا۔
وَ السَّبَقَةُ الْجَنَّةُ، وَ الْغَایَةُ النَّارُ،
جس طرف آگے بڑھنا ہے وہ تو جنت ہے اور جہاں کچھ اشخاص (اپنے اعمال کی بدولت بلا اختیار) پہنچ جائیں گے، وہ دوزخ ہے۔
اَ فَلَا تَآئِبٌ مِّنْ خَطِیْٓئَتِهٖ قَبْلَ مَنِیَّتِهٖ؟
کیا موت سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے والا کوئی نہیں؟
اَلَا عَامِلٌ لِّنَفْسِهٖ قَبْلَ یَوْمِ بُؤْسِهٖ؟
اور کیا اس روزِ مصیبت کے آنے سے پہلے عمل (خیر) کرنے والا ایک بھی نہیں؟
اَلَا وَ اِنَّكُمْ فِیْۤ اَیَّامِ اَمَلٍ مِّنْ وَّرَآئِهٖ اَجَلٌ،
تم امیدوں کے دور میں ہو جس کے پیچھے موت کا ہنگامہ ہے۔
فَمَنْ عَمِلَ فِیْۤ اَیَّامِ اَمَلِهٖ قَبْلَ حُضُوْرِ اَجَلِهٖ
تو جو شخص موت سے پہلے ان امیدوں کے دنوں میں عمل کر لیتا ہے
فَقَدْ نَفَعَهٗ عَمَلُهٗ وَ لَمْ یَضْرُرْهُ اَجَلُهٗ،
تو یہ عمل اُس کیلئے سود مند ثابت ہوتا ہے اور موت اُس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی
وَمَنْ قَصَّرَ فِیْۤ اَیَّامِ اَمَلِهٖ قَبْلَ حُضُوْرِ اَجَلِهٖ
اور جو شخص موت سے قبل زمانہ امید و آرزو میں کوتاہیاں کرتا ہے
فَقَدْ خَسِرَ عَمَلُهٗ وَ ضَرَّهٗ اَجَلُهٗ.
تو وہ عمل کے اعتبار سے نقصان رسیدہ رہتا ہے اور موت اس کیلئے پیغامِ ضرر لے کر آتی ہے۔
آخرت کی تیاری:
اسی طرح خطبہ 62 میں فرمایا:
وَ اتَّقُوا اللّٰهَ عِبَادَ اللّٰهِ، وَ بَادِرُوْا اٰجَالَكُمْ بِاَعْمَالِكُمْ،
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور موت سے پہلے اپنے اعمال کا ذخیرہ فراہم کر لو،
وَ ابْتَاعُوْا مَا یَبْقٰی لَكُمْ بِمَا یَزُوْلُ عَنْكُمْ،
اور دنیا کی فانی چیزیں دے کر باقی رہنے والی چیزیں خرید لو۔
وَ تَرَحَّلُوْا فَقَدْ جُدَّ بِكُمْ،
چلنے کا سامان کرو کیونکہ تمہیں تیزی سے لے جایا جا رہا ہے،
وَ اسْتَعِدُّوْا لِلْمَوْتِ فَقَدْ اَظَلَّكُمْ،
اور موت کیلئے آمادہ ہو جاؤ کہ وہ تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔
وَ كُوْنُوْا قَوْمًا صِیْحَ بِهِمْ فَانْتَبَهُوْا،
تمہیں ایسے لوگ ہونا چاہیے جنہیں پکارا گیا تو وہ جاگ اٹھے،
وَ عَلِمُوْا اَنَّ الدُّنْیَا لَیْسَتْ لَهُمْ بِدَارٍ فَاسْتَبْدَلُوْا،
اور یہ جان لینے پر کہ دنیا ان کا گھر نہیں ہے، اسے (آخرت سے) بدل لیا ہو۔
فَاِنَّ اللّٰهَ سُبْحَانَهٗ لَمْ یَخْلُقْكُمْ عَبَثًا،
اس لئے کہ اللہ نے تمہیں بیکار پیدا نہیں کیا،
وَ لَمْ یَتْرُكْكُّمْ سُدًی،
اور نہ اس نے تمہیں بے قید و بند چھوڑ دیا ہے۔
وَ مَا بَیْنَ اَحَدِكُمْ وَ بَیْنَ الْجَنَّةِ اَوِ النَّارِ اِلَّا الْمَوْتُ اَنْ یَّنْزِلَ بِهٖ.
موت تمہاری راہ میں حائل ہے۔ اس کے آتے ہی تمہارے لئے جنت ہے یا دوزخ ہے۔
دنیوی زندگی، آخرت کی زندگی بہتر بنانے کا ذریعہ:
اگر زندگی کو کسب آخرت کے لیے ذریعہ بنایا جائے تو اس صورت میں نہ صرف یہ کہ مذمت نہیں ہے بلکہ اس زندگی کو فضیلت حاصل ہے۔ چنانچہ اس دنیا کی ساٹھ ستر سال کی زندگی کے عوض آخرت کی ابدی زندگی سنور سکتی ہے تو اس زندگی کے ہر آن کے مقابلے میں آخرت کے اربوں سال کی زندگی بن جاتی ہے۔ اس طرح مومن کی دنیا اور ایمان کی زندگی کی قیمت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا:
الدنیا مزرعۃ الآخرۃ۔ (بحار ۶۷: ۲۲۵)
دنیا آخرت کے لیے کھیتی ہے۔
تو آخرت کی جو بھی قیمت لگائی جائے کھیتی کو وہی قیمت مل جاتی ہے۔
اس نکتے کی طرف اشارہ فرمایا مولائے متقیان علی علیہ السلام نے:
اِنَّ الدُّنْیَا۔۔۔ دَارُ غِنًی لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْھَا وَ دَارُ مَوْعِظَۃٍ لِمَنِ اتَّعَظَ بِھَا مَسْجِدُ اَحِبَّائِ اللّٰہِ وَ مُصَلَّی مَلَائِکَۃِ اللہِ وَ مَھْبِطُ وَحْیِ اللّٰہِ وَ مَتْجَرُ اَوْلِیَائِ اللّٰہِ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ نصیحت ۱۳۱ )
یہ دنیا۔۔۔ جو اس سے زاد راہ حاصل کر ے اس کے لیے دولتمندی کی منزل ہے اور جو اس سے نصیحت حاصل کرے اس کے وعظ و نصیحت کا محل ہے۔ وہ دوستان خدا کے لیے عبادت کی جگہ، اللہ کے فرشتوں کے لیے نماز پڑھنے کا مقام ، وحی الٰہی کی منزل اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے۔
سبق آموز واقعہ:
دنیا کی بے ثباتی اور یہاں سے خالی ہاتھ جانے کے متعلق ذوالقرنین سکندر کا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے وصیت کی کہ جب میرا جنازہ اٹھایا جائے تو میرے دونوں ہاتھوں کو میرے جنازے کے کفن سے باہر نکال دیا جائے جنہیں دیکھنے والے دیکھ سکیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کی وصیت پر عمل کیا گیا اور ان کے دونوں ہاتھ ہاتھوں کو کفن سے باہر نکال دیا گیا ۔ان کے جنازے کے ساتھ چلنے والے سب لوگ اس کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھتے لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ ایک عقلمند سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ اس وصیت کا مقصد ہمیں یہ بات سمجھانا ہے کہ غور سے دیکھو سکندر جیسا بادشاہ بھی اس دنیا سے خالی ہاتھ جا رہا ہے وہ اس دنیا کے مال اور خزانوں سے کچھ بھی اپنے ساتھ نہیں لے جا رہا۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دنیوی زندگی میں مگن ہو کر آخرت فراموش کرنے سے بچائے اور دنیا کی زندگی کو آخرت کی بہتری کا ذریعہ بنانے کی توفیق دے۔آمین

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button