خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:168)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک23ستمبر 2022ء بمطابق 26 صفر المظفر1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اس ہفتے کی اہم مناسبت 28 صفر کا دن ہے جو امت مسلمہ کے لیے انتہائی غم کا دن ہے کہ جس دن رسول کائنات سردار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مقدس سے ہم محروم ہوگئے اور اسی دن اس عظیم پیغمبر کے عظیم اور محبوب نواسے حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام بھی امت کے مظالم سہتے ہوئے شہادت پا گئے۔اسی مناسبت سے آج کی گفتگو میں انہی دو عظیم ہستیوں کی سیرت کے چند نمایاں گوشوں پہ گفتگو ہوگی۔
یہ بات یقینی ہے کہ امام علی ؑ کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت اور کسی کو حاصل نہیں تھی۔ لہذا مناسب ہے کہ پیغمبر کی زندگی کے چند گوشوں کا تعارف ہم امام علی ؑ کی زبانی پیش کریں۔
نہج البلاغہ میں امام علی ؑ نے مختلف مقامات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل بیان فرمائے۔
رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے مکارم اخلاق :
رسول اکر م صلی علیہ وآلہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:
وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيمٍ
”اوربے شک آپ اخلا ق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔ (القلم ،آیت ٤)
خود آپ صلی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل قرار دیا ہے ،آپ کا فرمان ہے :
اِنَّما بعثت لاُ تَمِّمَ مَکَارِمِ الَاخْلَاقِ ”(بحارالانوار ،ج ١٦ ،ص٢٨٧،ح١٤٢)
میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔
یہ اخلاق کی اہمیت اور عظمت کی دلیل ہے اسی طرح آپ انہی اعلیٰ اخلاق وصفات کا اعلیٰ ترین نمونہ ہیں ، نہج البلاغہ میں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کے جن اعلیٰ اخلاق کا تذکرہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا ہے انہیں ہم بیان کرتے ہیں:
زہد و پارسائی :
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
قَدْ حَقَّرَ الدُّنْيا وَصَغَّرَ ها وَأَهوَنَ بِها وَهوَّنَها ،وَعَلِمَ أَنَّ اللّٰه زَوَاها عَنْه اَخْتِياراً،وَبَسَطَها لِغَيرِه احْتِقَاراً،فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْيا بِقَلْبِه،وَأَمَاتَ ذِکْرَها عَنْ نَفْسِه ،وَأَحَبَّ أَن تَغِيبَ زِينَتُهاعَنْ عَينِه، لِکَيلَا يتَّخِذَمِنْها رِياشاً ،أَو يرْجُوَ فِيها مَقَاماً ،بَلَّغَ عَنْ رَبِّه مُعْذِراً،وَنَصَحَ لِأُ مَّتِه مُنْذِراً،وَدَعَا اِلَی اَلْجَنَّةِ مُبَشَّراً، وَخَوَّفَ مِنَ النَّارِ مُحَذَّراً”(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٠٧)
” آپ صلی علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا کو ذلیل و خوار سمجھا اور پست و حقیر جانا اور یہ جا نتے تھے اللہ نے آپ کی شان کو با لا تر سمجھتے ہو ئے اور اس دنیا کو آپ سے الگ رکھا ہے اور گھٹیا سمجھتے ہو ئے دوسروں کے لیے اس کا دامن پھیلا دیا ہے لہذا آپ نے دنیا سے دل سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اس کی یاد کو دل سے بالکل نکال دیا اور یہ چاہا کہ اس کی سج دھج نگاہو ں سے اوجھل رہے کہ نہ اس سے عمدہ لباس زیب تن فرمائیں اور کسی نہ خاص مقام کی امید کر یں ،آپ نے پروردگار کے پیغام کو پہنچانے میں سارے عذر اور بہانے بر طرف کر دئیے اور امت کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہو ئے نصحیت فرمائی جنت کی بشارت سنا کر اس کی طرف دعوت دی اور جہنم سے بچنے کی تلقین کر کے خوف پیدا کرایا ”
اس بارے میں آنحضرت صلی علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو بیان کر تے ہو ئے ارشاد فرماتے ہیں
وَلَقَدْکَانَ صَلَّیٰ اللّٰه عَلَيه وَآلِه وَسَلَّمَ،يأ کُلُ عَلَیٰ اْلَارضِ ،وَيجْلِسُ جِلْسَةَ اَلْعَبْدِ ،وَيخْصِفُ بِيدِه نَعْلَه ،وَےَرْقَعُ بِےَده ثَوْبَه،وےَرْکَبُ اَلْحِمَارَ اَلْعَارِیَ وَيرْدِفُ خَلْفَه وَےَکُونُ السَّتْرُ عَلَیٰ بَابِ بَيته فَتَکُونُ فِيه التَّصَاوِيرُ ،فَيقُولُ : (ےَا فُلَانَةُ لِاحْدَیٰ أَزْوَاجِه غَيبيه عَنِّی ،فَانِّیِ اِذَا نَظَرْتُ اِلَيه ذَکَرْتُ الدُّنْيا وَزَخَارِفَها)فَأَعْرَضَ عَنِ الَدُّنْيا بِقَلْبِه،وَأمَاتَ ذِکْرَها مِنْ نَفْسِه ،وَأَحَبَّ أَنْ تَغِيبَ زِينَتُها عَنِ عَينِه ،لِکَيلَا يتَّخِذَ مِنْها رِےَاشاً ،وَلَا ےَعْتَقِدَها قَرَاراً،وَلَاےَرْجُوَ فِيها مُقَاماً ،فَأَخْرَجَها مِنَ النَّفْسِ ، وَأَشْخَصَهاعَنِ اَلْقَلْبِ،وَغَيبَهاعَنِ اَلْبَصَرِ وَکَذٰلِکَ مَنْ أَبْغَضَ شَياً أَبْغَضَ أَنْ ينْظُرِ اِلَيه ،وَأَنْ يذْکَرَ عِنْدَه”( نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٥٨)
”رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم زمین پر بیٹھ کر کھانا کھا تے تھے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے اپنے
ہا تھ سے جو تی ٹانکتے تھے اور اپنے ہا تھو ں سے کپڑوں میں پیو ند لگائے تھے اور بے پا لا ن گدھے پر سوار ہو تے تھے اور اپنے پیچھے کسی کو بیٹھا بھی لیتے تھے،گھر کے دروازے پر ایک دفعہ ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں تو آپ نے اپنی ایک زوجہ سے فرمایا کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو ،جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اور اس کی آرائشیں یاد آجا تی ہیں ،آپ نے دنیا سے دل ہٹا لیاتھا اور اس کی یاد تک اپنے نفس سے مٹا ڈالی تھی اور یہ چاہتے تھے کہ اس کی سج و دھج نگاہوں سے پوشیدہ رہے تا کہ ان سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کر یں اور نہ اُسے اپنی منزل خیال کریں اور نہ اُس میں زیادہ قیام کی آس لگائیں ،انہوں نے اس کا خیال نفس سے نکال دیا تھا اور دل سے ہٹا دیا تھا اور نگاہوں سے اُسے اوجھل رکھا تھا یو نہی جو شخص کسی شے کو بُرا سمجھتا ہے تو اُسے نہ دیکھنا چاہتا ہے اور نہ اس کا ذکر سننا گوارا کرتا ہے ”
حسن سلوک اور مہربانی :
قرآن مجید رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی بہترین اخلاقی خصوصیت حسن سلوک اورمہربانی وعطوفت بیان کر تا ہے ، آپ صلی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اسی خصوصیت کی بنا پر بہت سے دلوں کو اپنی طرف جذب کیا اور انہیں ہدایت کے چشمہ سے سیراب کیا ،ارشاد ہو تا ہے۔
‘فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰه لِنْتَ لَهمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْ مِنْ حَوْلِکَ”(آلعمران ،آیت ١٥٩)
(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے،
حضرت علیؑ آنحضرت صلی علیہ وآلہ وسلم کی اسی خصوصیت کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں :
‘وَاَطْهرَ المُطَهرِينَ شِيمَةً، وَاَجْوَدَ المُسْتمْطَرِينَ دِيمَةً ”(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٠٣)
”عادات کے اعتبار سے آپ صلی علیہ وآلہ وسلم تمام پاکیزہ افراد سے پا کیزہ اور بارا ن رحمت کے اعتبار سے ہر سحاب رحمت سے زیادہ کریم و جواد تھے ۔”
لوگوں کی خیر خواہی اور ہمدردی:
قران مجید نے اپنی دو آیتوں میں رسول خدا صلی علیہ وآلہ وسلم کی اس صفت کے بارے میں بیان فرمایا :
‘لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْل مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيز عَلَيه مَا عَنِتُّمْ حَرِيص عَلَى کُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَئُ وْف رَّحِيم ” (التوبہ ،آیت ١٢٨)
بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لیے نہایت شفیق، مہربان ہے۔
حضر ت علیؑ نہج البلاغہ میں ذکر کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت بھجیا جب لوگ گمراہی و ضلالت میں حیران و سرگردان تھے اور فتنوں میں ہا تھ پائوں مار رہے تھے ،نفسانی خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کر دی تھی اور بھرپور جاہلیت نے ان کی مت مار دی تھے اور وہ غیر یقینی حالات اورجہالت کی بلائوں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے ”
”فَبَالَغَ صلی الله عيله وآله وسلَّم فِی النَّصِيحَةِ ومَضٰی عَلَی الطّريقَةِ ، وَدَعَا اِلیَ الحِکْمَةِ والمَوْعِظَةِ الحَسَنَةِ
”چنانچہ نبی اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم نے نصیحت اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا ،سید ھے راستے پر چلے اور لو گوں کو حکمت و دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف دعوت دیتے رہے ”(نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین )،خطبہ نمبر٩٣)
بوڑھے امتی کا واقعہ:
ابوجعفر امام باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک شخص رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا جس کا نام شیبہ ہذلی تھا اس نے عرض کیا میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور زیادہ بڑے اعمال کو ادا کرنےکے لیے طاقت نہیں رکھتا، یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے ایسا کلام تعلیم کریں جو مختصر ہو، حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دوبارہ کہو اس نے دوبارہ کہا ،پھر فرمایا پھر کہو اس نے پھر کہا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، درخت، پتھر اور دریا سب ہی تیری ضعیفی پر اﷲ کی رحمت طلب کرنے کےلیے گریہ کرتے ہیں اور جب نمازِ صبح پڑھ لو تو دس بار کہو۔
”سُبْحانَ اللهِ الْعَظِيمِ وَبِحَمْدِهِ وَلا حَوْلَ وَلا قُوَةَ اِلاّ بِاللهِ الْعَلِيِ الْعَظِيمِ
” پاک ہے اﷲ جو عظیم ہے اور اسی کی حمد ہے اور کوئی بھی قوت و طاقت نہیں مگر صرف اﷲ کے لیے جو عظیم ہے“
بے شک خدا اس کے ذریعہ سے تجھے نا بینا پن دیوانگی، جزام، برص وفالج و فقرو غیرہ سے محفوظ رکھےگا ۔اس نے عرض کیا یا رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو دنیا کےلیے ہے آخرت کے لیے کیا ہے، فرمایا ہر نماز کے بعد یہ کہا کرو۔
اللَّهُمَّ اهْدِنِي مِنْ عِنْدِكَ وَ أَفِضْ عَلَيَّ مِنْ فَضْلِكَ وَ انْشُرْ عَلَيَّ مِنْ رَحْمَتِكَ وَ اَنْزِلْ عَلَیَّ مِنْ بَرَکاتَکَ
”خدایا میری اپنی طرف سے راہنمایی کر اور اپنے فضل کا مجھ پر اضافہ کر اور اپنی رحمت کو
مجھ پر نازل فرما“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کہتے جاتے تھے اور یہ مرد ہاتھوں کی انگلیوں سے اس کو گنتی کرتا جاتا تھا۔ ایک شخص نے ابن عباس سے کہا یہ کیسا محکم عمل ہے کہ جسے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے اگر ان کلمات کی تلاوت جاری رکھی جائے اور ” عمدا“ یعنی جان بوجھ کر اس کو ترک نہ کیا جائے تو بہشت کے آٹھ دروازے اس کے سامنے کھول دیئے جائیں گے کہ جس دروازے سے وہ چاہے داخل بہشت ہوگا۔(امالی شیخ صدوق، ص62)
رسول کی رحلت پر امام علیؑ کا اظہار غم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد جب امام علی علیہ السلام ان کو غسل و کفن دے رہے تھے تو فرمایا:
"بَاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّی يا رَسُولَ اللّٰه ! لَقَدْ اِنْقَطَعَ بِمَوْتِکَ مالم ينْقَطَعَ بِمَوْتِ غَيرِکَ مِنَ النُّبُوَّةِ وَاْلَانْبَائِ وَاَخْبَارِ السَّمَائِ خعَّصتَ حَتَّی صِرْتَ مُسَلِّياً عَمَّنْ سِوَاکَ،وَعَمَّمْتَ حَتَّی صَارَ النّاسُ فهلَ سَوَائً ،ولَوْلَا اَنَّکَ اَمَرْتَ بالصَّبْرِ وَنَهيتَ عَنِ الجَزَعِ ،لَاَ نْفَدْ نَا عَلَيلَ مائَ النتُّؤُونِ ولَکَانَ الدَّائُ مُمَا طِلاً، وَالْکَمَدُمُحَالِفا ،وَقَلَّا لکَ ولٰکِنَّه مالا يمْلَکُ رَدُّه ،ولا يسْتَطَاعُ دَفْعُه ! بِاَبی انت اُمِّی! اذکُرْنَا عِنْدَ رَبِّکَ،وَاجْعَلْنَا مِنْ بالِکَ ۔
”یا رسول اللہ ! میرے ما ں باپ آپ پر قربان ہوں ،آپ کے رحلت فرما جانے سے نبوت ،الٰہی احکام اور آسمانی خبروں کا سلسلہ ختم ہو گیا جو کسی اور نبی کے انتقال سے قطع نہیں ہو اتھا ،آپ کا غم اہل بیت کے ساتھ یوں خاص ہوا کہ ان کے لیے ہر غم میں باعث تسلی بن گیا اور ساری امت کے لیے عام ہواکہ سب برابر کے شریک ہو گئے ،اگر آپ نے صبرکا حکم نہ دیا ہو تا اور نالہ و فریاد سے منع نہ کیا ہو تا تو ہم آپ کے غم میں آنسوئوں کا ذخیرہ ختم کر دیتے اور یہ درد کسی درمان کو قبول نہ کر تا اور یہ رنج و الم ہمیشہ ساتھ رہتا پھر بھی یہ گریہ و بکا اور حزن و اندوہ آپ کی مصیبت کے مقابلے میں کم ہو تا لیکن موت ایسی چیزہے جس کا پلٹانا کسی کے بس میں نہیں اور جس کا ٹال دنیا کسی کے اختیار میں نہیں ۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان مالک کی بارگاہ میں ہمار ابھی ذکر کیجیے گا اور اپنے دِل میں ہمارا بھی خیال رکھیے گا ۔”(نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین )،خطبہ نمبر ٢٣٢)
سیرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام: اب ہم کچھ گفتگو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی سیرت کے حوالے سے کریں گے۔
پیغمبر اکرمﷺ کے نزدیک مقام و منزلت:
ایک دن سرور کائناتﷺ امام حسن علیہ السلام کو کاندھے پر سوار کئے، سیر کرا رہے تھے، ایک صحابی نے کہا: اے صاحبزادے تمہاری سواری کس قدر اچھی ہے! یہ سن کر آنحضرتؐ نے فرمایا: ‘‘یہ کہو کہ کس قدر اچھا سوار ہے۔’’ ایک صحابی کا بیان ہے کہ میں اس دن سے امام حسنؑ کوبہت زیادہ دوست رکھنے لگا ہوں جس دن سے میں نے رسول خداؐ کی آغوش مبارک میں بیٹھ کر انہیں آپؐ کی داڑھی سے کھیلتے دیکھا ہے۔
رسولِ خداؐ نے فرمایا: ‘‘حسنؑ اورحسینؑ جوانانِ جنت کے سردار ہیں اوران کے والدِ بزرگوار، یعنی علی بن ابی طالبؑ ان دونوں سے بہترہیں۔’’
نبی کریم ﷺ نے امام حسن و حسین علیھما السلام کے بارے میں فرمایا:
مَنْ أَحَبَّ اَلْحَسَنَ وَ اَلْحُسَيْنَ أَحْبَبْتُهُ وَ مَنْ أَحْبَبْتُهُ أَحَبَّهُ اَللَّهُ وَ مَنْ أَحَبَّهُ اَللَّهُ أَدْخَلَهُ اَلْجَنَّةَ وَ مَنْ أَبْغَضَهُمَا أَبْغَضْتُهُ وَ مَنْ أَبْغَضْتُهُ أَبْغَضَهُ اَللَّهُ وَ مَنْ أَبْغَضَهُ اَللَّهُ أَدْخَلَهُ اَلنَّارَ(بحار الانوار ج۴۳ , ص۲۷۵ )
جس نے حسن ؑ و حسینؑ سے محبت کی تو میں اس سے محبت کروں گا اور جس سے میں محبت کروں تو اللہ اس سے محبت کرے گا اور جس سے اللہ محبت کرے تو وہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جس نے ا ن دونوں سے بغض رکھا تو میں بھی اس سے غضبناک ہوں گا اور جس سے میں غضب ناک ہوا تو اللہ بھی اس سے غضبناک ہو گا اور جس سے اللہ غضبناک ہو تو وہ اسے جہنم میں داخل کرے گا۔
ایک اور مقام پہ ان دونوں ہستیوں سے فرمایا:أَنْتُمَا اَلْإِمَامَانِ وَ لِأُمِّكُمَا اَلشَّفَاعَةُ.
آپ دونوں امام ہیں اور آپ کی ماں کو حق شفاعت حاصل ہے۔(کشف الغمہ جلد ۱، صفحه ۴۷۷)
ایک اور مقام پہ فرمایا: إِنَّ عَلِيّاً وَصِيِّي وَ خَلِيفَتِي وَ زَوْجَتَهُ فَاطِمَةَ سَيِّدَةَ نِسَاءِ اَلْعَالَمِينَ اِبْنَتِي وَ اَلْحَسَنَ وَ اَلْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ اَلْجَنَّةِ وَلَدَايَ مَنْ وَالاَهُمْ فَقَدْ وَالاَنِي وَ مَنْ عَادَاهُمْ فَقَدْ عَادَانِي
یقینا علیؑ میرے وصی ہیں اور خلیفہ ہیں اور ان کی زوجہ فاطمہؑ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں اور حسنؑ و حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں ،جس نے ان سے محبت رکھی اس نے محبت رکھی اور جس نے ان سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔( من لا يحضره الفقيه , جلد۴ , صفحه۱۷۹ )
آپؑ کا علمی مقام
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ آئمہ معصومینؑ علم لدنی کے مالک ہیں اس لیے وہ کسی سے تحصیل علم کے محتاج نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں ہی ایسے مسائلِ علمیہ سے واقف ہوتے ہیں جن سے عام لوگ حتّی کہ دانشمند حضرات بھی آگاہ نہیں ہوتے۔ امام حسن علیہ السلام نے بھی بچپن میں لا تعداد ایسے عملی مسائل کے جوابات دیئے کہ جن سے بڑے بڑے اہلِ علم عاجز تھے۔ ہم یہاں فقط ایک سوال کا جواب ہی پیش کر سکتے ہیں:
آپؑ سے پوچھا گیا: وہ دس چیزیں کونسی ہیں جن میں سے ہر ایک کو خداوند عالم نے دوسرے سے سخت پیدا کیاہے؟آپؑ نے جواب میں فرمایا: ‘‘خدا نے سب سے زیادہ سخت پتھر کو پیدا کیا ہے مگر اس سے زیادہ سخت لوہا ہے جوپتھر کو بھی کاٹ دیتا ہے اور اس سے بھی زیادہ سخت آگ ہے جو لوہے کو پگھلا دیتی ہے اور آگ سے زیادہ سخت پانی ہے جو آگ کو بجھا دیتا ہے اور اس سے زیادہ سخت اور قوی ابر ہے جو پانی کو اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے اور اس سے زیادہ طاقتور ہوا ہے جو ابر کو اڑائے پھرتی ہے اور ہوا سے سخت تر وقوی فرشتہ ہے جس کی ہوا محکوم ہے اوراس سے زیادہ سخت و قوی ملک الموت ہے جو فرشتۂ موت کی بھی روح قبض کرلے گا اور ملک الموت سے زیادہ سخت خود موت ہے جو ملک الموت کو بھی نہیں چھوڑے گی اور موت سے زیادہ قوی حکمِ خداہے جو موت کو بھی ٹال دیتا ہے۔’’(مناقب ابن شہر آشوب بحوالہ شرح اخبار قاضی نعمان)
پرہیزگاری:
آپ خدا کی طرف سے مخصوص توجہ کے حامل تھے اور اس توجہ کے آثار کبھی وضو کے وقت آپ کے چہرہ پر لوگ دیکھتے تھے جب آپ وضو کرتے تو اس وقت آپ کا رنگ متغیر ہوجاتا اور آپ کاپنے لگتے تھے_ جب لوگ سبب پوچھتے تو فرماتے تھے کہ جو شخص خدا کے سامنے کھڑا ہو اس کے لئے اس کے علاوہ اور کچھ مناسب نہیں ہے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: امام حسن علیہ السلام اپنے زمانہ کے عابدترین اور زاہدترین شخص تھے_ جب موت اور قیامت کو یاد فرماتے تو روتے ہوئے بے قابو ہوجاتے تھے۔
امام حسن علیہ السلام ، اپنی زندگی میں 25 بار پیادہ اور کبھی پابرہنہ(ننگے پاؤں) زیارت خانہ خدا کوتشریف لے گئے تا کہ خدا کی بارگاہ میں زیادہ سے زیادہ ادب و خشوع پیش کرسکیں اور زیادہ سے زیادہ اجر ملے۔
سخاوت:
امام علیہ السلام کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ میں اتنا ہی بیان کافی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار تمام اموال اور اپنی تمام پونجی خدا کے راستہ میں دیدی اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا_ آدھا راہ خدا میں دیدیا اور آدھا اپنے پاس رکھا ۔
ایک دن آپ نے خانہ خدا میں ایک شخص کو خدا سے گفتگو کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا خداوندا: مجھے دس ہزار درہم دیدے_ امام _اسی وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص کو دس ہزار درہم بھیج دیئے۔
ایک دن آپ کی ایک کنیز نے ایک خوبصورت گلدستہ آپ کو ہدیہ کیا تو آپ علیہ السلام نے اس کے بدلے اس کنیز کو آزاد کردیا_ جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ خدا نے ہماری ایسی ہی تربیت کی ہے پھر اس کے بعد آپ علیہ السلام نے آیت پڑھی و اذاحُيّیتم بتحيّة: فحَيّوا باحسن منہا ” جب تم کو کوئی ہدیہ دے تو اس سے بہتر اس کا جواب دو”
امام حسن لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے ،آپ اکثر غریبوں پر احسان فرماتے تھے ،کسی سائل کو کبھی رد نہیں کر تے تھے اور ایک مرتبہ آپ سے سوال کیا گیا : آپ سائل کو رد کیوں نہیں کرتے ہیں ؟
آپ نے فرمایا:”بیشک میں اللہ کا سائل ہوں ،اسی سے لو لگاتا ہوں ،مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ میں خود تو سائل ہوں اور سوال کرنے والے کو رد کردوں ،بیشک خدا کی مجھ پر اپنی نعمتیں نازل کر نے کی عادت ہے، لہٰذا میں نے بھی اس کی نعمتیں لوگوں کو دینے کی عادت بنا لی ہے اور مجھے یہ خوف ہے کہ ا گر میں نے اپنی عادت ختم کر لی توخدا کہیں اپنی عادت ختم نہ کر لے۔ ”(نور الابصار، صفحہ ١١١)
واقعہ:
امام حسنؑ ایک ایسے حبشی غلام کے پاس سے گذرے جو اپنے سا منے رکھی ہو ئی روٹی کا ایک ٹکڑا خود کھاتاتھا اور دوسرا ٹکڑا اپنے کتےّ کو ڈال رہا تھا ،امام نے اس سے فرمایا:”تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟”
اس نے کہا مجھے شرم آتی ہے کہ میں تو روٹی کھائوں اور اس کو نہ کھلائوں۔
امام نے اس غلام میں اس بہترین خصلت کا مشاہدہ فرمایا اور اس کو اس اچھی خصلت کی جزا دینا چاہی اس کے احسان کے مقابلہ میں احسان کرنا چاہاتاکہ فضیلتوں کو رائج کیا جا سکے۔اس سے فرمایا :تم اسی جگہ پر رہو ،پھر آپ نے اس کے مالک کے پاس جاکر غلام اور جس باغ میں وہ رہتا تھا اس کو خریدااور اس کے بعد اسے آزاد کرکے اس باغ کا مالک بنا دیا۔(البدایہ والنھایہ جلد ٨ صفحہ ٣٨)
بردباری:
ایک شخص شام سے آیا ہوا تھا اور معاویہ کے اکسانے پر اس نے امام علیہ السلام کو برا بھلا کہا امام علیہ السلام نے سکوت اختیار کیا ، پھر آپ نے اس کو مسکرا کر نہایت شیرین انداز میں سلام کیا اور کہا:
” اے ضعیف انسان میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ تو اشتباہ میں پڑگیا ہے _ اگر تم مجھ سے میری رضامندی کے طلبگار ہو یا کوئی چیز چاہیے تو میں تم کو دونگا اور ضرورت کے وقت تمہاری راہنمائی کروں گا _ اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو میں اس قرض کو ادا کروں گا _ اگر تم بھوکے ہو تومیں تم کو سیر کردونگا … اور اگر ، میرے پاس آؤگے تو زیادہ آرام محسوس کروگے۔
وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض کی: ” میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں _خدا بہتر جانتا ہے کہ و ہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے_ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین شخص تھے لیکن اب آپ میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہیں”۔(مناقب ج4 ص53)

امام حسن ؑ کی چند احادیث:
امام حسن مجتبی علیہ السلام: مَنَ صَلّى، فَجَلَسَ فى مُصَلاّه إلى طُلُوعِ الشّمسِ کانَ لَهُ سَتْراً مِنَ النّارِ
جو نماز پڑھنے کے بعد طلوع آفتاب تک اپنے مصلے پر بیٹھا رہے اس کو جہنم کی آگ سے بچنے کی سپر (ڈھال) حاصل ہو جاتی ہے ۔ (الوافی؛ ج۴، ص۱۵۵۳، ح۲)
امام حسن مجتبی علیہ السلام:
يَا ابْنَ آدْم! عَفِّ عَنِ مَحارِمِ اللّهِ تَكُنْ عابِداً، وَ ارْضِ بِما قَسَّمَ اللّهُ سُبْحانَهُ لَكَ تَكُنْ غَنِيّاً، وَ أحْسِنْ جَوارَ مَنْ جاوَرَكَ تَكُنْ مُسْلِماً، وَ صاحِبِ النّاسَ بِمِثْلِ ما تُحبُّ أنْ يُصاحِبُوكَ بِهِ تَكُنْ عَدْلاً.
اے بنی آدم! محرمات الٰہی سے باز رہو تو عابد بن جاؤ گے ۔ اللہ کی تقسیم سے راضی رھو تو بے نیاز ہو جاؤ گے ۔ اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرو تو مسلمان بن جاؤ گے اور لوگوں کے ساتھ ایسے رہو جیسے کہ تم پسند کرتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ رہیں تو عادل بن جاؤ گے ۔(بحار الانوار؛ج۷۸، ص۱۱۲، س۸)
امام حسن مجتبی علیہ السلام:
مَنْ أدامَ الاْخْتِلافَ إلَى الْمَسْجِدِ أصابَ إحْدى ثَمان: آيَةً مُحْكَمَةً، أَخاً مُسْتَفاداً، وَعِلْماً مُسْتَطْرَفاً، وَرَحْمَةً مُنْتَظِرَةً، وَكَلِمَةً تَدُلُّهُ عَلَى الْهُدى، اَوْ تَرُدُّهُ عَنْ الرَّدى، وَتَرْكَ الذُّنُوبِ حَياءً اَوْ خَشْيَةً.
جو مسلسل مسجدوں میں آمد و رفت رکھے گا اسے آٹھ میں سے کوئی ایک چیز ضرور حاصل ہو جائے گی آیت محکم، مفید بھائی، جامع معلومات، رحمت عام، ایسی بات جو نیکی کی ہدایت کر دے یا برائی سے باز رکھے، شرم وحیا یا خوف خدا سے گناہوں کو ترک کرنا ۔ (تحف العقول؛ ص۲۳۵)
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button