خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:249)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 03 مئی 2024ء بمطابق 24 شوال المکرم 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: امید
خوف اور امید، دو ایسے مسائل ہیں جن کا انسان کی زندگی میں اہم کردار ہے۔ دینی تعلیمات میں، اللہ کے غضب اور سزا سے "خوف” اور اللہ کی رحمت پر "امید” رکھنا، دونوں کو اہمیت دی گئی ہے اور ان کے درمیان توازن قائم رکھنے پر تاکید کی گئی ہے۔
اگر انسان اللہ تعالیٰ پر امید رکھنے میں افراط یعنی حد سے تجاوز کرے اور اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے امان میں سمجھ لے تو دنیاوی لذتوں میں ڈوب جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی عبودیت اور آخرت کی یاد سے غافل ہوجائے گا، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی سنت استدراج کی زد میں آجائے گا اور رفتہ رفتہ مزید گمراہ ہوتا ہوا عذاب الٰہی میں مبتلا ہوجائے گا۔
اور اگر امید کی بجائے خوف میں افراط (یعنی حد سے زیادہ خوف کرنا)انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اور ناامید کردیتا ہے، لہذا اللہ کی رحمت پر بھی امید رکھنی چاہیے، مگر اس بات پر بھی توجہ رہے کہ اللہ کی رحمت پر مناسب عمل کے بغیر امید رکھنا ایک طرح کا اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔
وضاحت یہ ہے کہ خوف و امید انسان کے سب دنیاوی اور اخروی اختیاری کاموں میں اثرانداز ہے اور انسان ہر اختیاری عقلمندانہ کام کو خیر اور فائدہ  تک پہنچنے کی امید سے یا نقصان کے خوف اور خطرے کی وجہ سے کرتا ہے۔
توحید کے بارے میں مومنین کی جتنی معرفت ہو وہ اتنی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی امید اور خوف، اللہ تعالیٰ کی خاطر ہو۔ وہ ثواب حاصل کرنے اور گناہوں کی بخشش اور اللہ تعالیٰ کی توفیقات سے فیضیاب ہونے کی امید سے دنیاوی اور اخروی کام کرتے ہیں۔
اور ادھر سے وہ اس خوف سے کہ کہیں اللہ تعالیٰ کا ان پر غضب نہ ہوجائے اور اللہ تعالیٰ ان سے دنیاوی نعمتیں واپس نہ لے لے اور آخرت میں اس کے عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں، اعمال انجام دیتے ہیں۔ البتہ بعض افراد جو ایمان اور اللہ کے تقرب کے بلند درجات تک پہنچ چکے ہوتے ہیں، انہیں ہر بات سے زیادہ اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے محروم نہ ہوجائیں۔(اقتباس از بیانات آیۃ اللہ مصباح یزدی)
امید رحمت ہے:
روایات میں امید کو امت کے لیے رحمت قرار دیا گیا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
الأملُ رَحمةٌ لِاُمّتي ، ولَوْلا الأملُ ما أرْضَعَتْ والِدَةٌ وَلَدَها ولا غَرَسَ غارِسٌ شَجَرا۔
امید میری امت کے لئے رحمت ہے اگر امید نہ ہوتی تو نہ کوئی ماں اپنے بچے کو دودھ پلاتی اور نہ ہی کوئی درخت لگانے والا درخت لگاتا۔(بحارالانوار : ۷۷ / ۱۷۳ )
یہ سچ ہے کہ "امید پہ دنیا قائم ہے”۔اگر امید نہ ہو تو دنیا کا نظام ہی درہم برہم ہوجائے۔اس بابت حضرت عیسیٰؑ کا واقعہ ملتا ہے کہ:
بَيْنَمَا عيسى بن مريم ث جالِسٌ وشَيخٌ يَعملُ بِمِسْحاةٍ ويُثيرُ بهِ الأرضَ ، فقالَ عيسى: اللّٰهمَّ انْزعْ عَنْهُ الأملَ . فَوَضَعَ الشَّيخُ المِسْحاةَ واضْطَجَعَ ، فَلَبِثَ ساعةً فقالَ عيسى: اَللّٰهُمَّ ارْدُدْ إِليهِ الأَمَلَ ، فَقَامَ فَجَعَلَ يَعمَلُ (تنبيه الخواطر : ۱ / ۲۷۲ )
ایک مرتبہ حضرت عیسیٰؑ بیٹھے ہوئے تھے اور ایک بوڑھا زمین میں ہل چلا رہا تھا حضرت عیسیٰؑ  نے دعا کی :خدا وندا!’’اس سے امید کو سلب کرلے ‘‘چنانچہ بوڑھے نے ہل چلانا چھوڑ دیا اور زمین پر لیٹ گیا اور ایک گھنٹہ تک اسی طرح لیٹا رہا پھر انہوں نے دعا کی پروردگار !’’اس کی امید کو پلٹا دے ‘‘پس وہ اٹھ کر اپنے کام میں لگ گیا ۔
پس ہم بھی جب کوئی اچھا کام کرتے تھک جاتے ہیں اور اس کا خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آتا تو ایسے میں تھک کر بیٹھ جاتے ہیں۔اس حالت کو مایوسی کہتے ہیں۔ ایسے موقعے پر ہمیں خود کو اچھے نتائج کی امید دلانی چاہیے کہ اچھائی اور نیکی کا جو درخت آج ہم لگا رہے ہیں وہ ایک نہ ایک دن پھل ضرور دے گا۔
امام علیؑ فرماتے ہیں: الأملُ لَا غايةَ لَهُ (غرر الحکم: ۱۰۱۰)
امید کی کوئی انتہا نہیں۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہمیشہ نیکی اچھائی اور معاشرے کی بھلائی کی امید لگائیں اور اس کی کوشش کرتے ہیں جبکہ لمبی اور بے فائدہ خواہشات پر مشتمل امیدوں کے پھیلاؤ سے خود کو بچائیں۔یعنی فقط اچھے کی امید ہی نہ رکھیں بلکہ اس کے لیے مسلسل محنت اور کام بھی کرتے رہیں کیونکہ فقط امید رکھنے سے مقصد پورا نہیں ہوسکتا۔
جیسا کہ نہج البلاٖغہ میں امام نے فرمایا :
"لَا تَكُنْ مِمَّنْ يَرْجُو الْآخِرَةَ بِغَيْرِ عَمَلٍ
ان افراد میں سے نہ ہوجاؤ کہ جو ”نیک عمل انجام دینے کے بغیر“، آخرت کی نعمتوں کو حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔(نہج البلاغہ، حکمت 105)
جھوٹی امیدوں سے بچنا:
قرآن مجید میں ارشاد ہے: ذَرۡہُمۡ یَاۡکُلُوۡا وَ یَتَمَتَّعُوۡا وَ یُلۡہِہِمُ الۡاَمَلُ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ۔(الحجر:۳)
انہیں ان کی حالت پر رہنے دو کہ کھا(پی)لیں (اور دنیا میں چند روز )چین کر لیں اور آرزوئیں انھیں کھیل تماشے میں لگائے رہیں عنقریب ہی (اس کا نتیجہ)انہیں معلوم ہو جائے گا۔
جھوٹی امیدوں کے بارے امام علیؑ  فرماتے ہیں:
اِتَّقُوا بَاطِلَ الأمَلِ ، فَرُبَّ مُسْتَقْبِلِ يومٍ ليسَ بِمُسْتَدْبِرِهِ ،
جھوٹی آرزوؤں سے بچتے رہو کیونکہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو دن کا رخ تو کرتے ہیں لیکن اس کو پشت نہیں کرپاتے (یعنی یہ ان کی زندگی کا آخری دن ہوتا ہے)
ومَغْبُوطٍ في أوَّلِ لَيلِهِ قامَتْ بَواكِيهِ في آخِرِهِ .
اور بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ رات کے اول حصے میں تو ان کی زندگی پر لوگ رشک کرتے ہیں لیکن رات کے آخری حصے میں اس پر رونے والیاں رورہی ہوتی ہیں۔ (یعنی ان کی قابل رشک زندگی کی یہ آخری رات ہوتی ہے)
اسی طرح ایک مقام پہ امام علیؑ نے جھوٹی امیدوں کو سراب کی طرح قرار دیا ہے: الأملُ كالسَّرابِ : يَغِرُّ مَنْ رَآهُ ، ويُخْلِفُ مَن رَجاهُ .(غرر الحکم: ۱۸۹۶)
آرزوئیں سراب کی مانند ہوتی ہیں جو اپنے دیکھنے والوں کو دھوکا دیتی ہیں اور امید رکھنے والوں سے بے وفائی کرتی ہیں۔
سراب: گرمیوں میں صحرا یا راستے پر چلتے ہوئے اپنے سامنے کچھ فاصلے پر پانی سا دکھائی دیتا ہے لیکن بندہ جب وہاں پہنچتا ہے تو وہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا اور وہ پانی مزید دور دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ اسے سراب کہتے ہیں یعنی آنکھوں کا دھوکا جس کے پیچھے حقیقت نہیں ہوتی۔
ایک اور مقام پہ فرمایا: الأمانِيُّ تُعْمي عُيُونَ البصائرِ.(غرر الحکم: ۱۳۷۵)
آرزو آنکھوں کو بصارت سے اندھا کردیتی ہیں۔
اسی طرح جھوٹی امیدوں کے بارے مزید فرمایا:
إنّ الأملَ يُسْهي القلبَ ، ويُكْذِبُ الوَعْدَ ، ويُكْثِرُ الغَفْلَةَ ، ويُورِثُ الحَسْرَةَ ۔
امام علیؑ:اس میں تو شک ہی نہیں کہ آرزو دل کو غامل کردیتی ہے جھوٹے وعدے کرتی ہے غفلت کو زیادہ کرتی ہے اور حسرت کا موجب بنتی ہے۔(بحارالانوار : ۷۸/ ۳۵ / ۱۱۷)
مزید فرمایا:
إِنَّ الأملَ يُذْهِبُ العقلَ ، ويُكْذِبُ الوَعدَ ، ويَحُثُّ على الغَفْلَةِ ، ويُورِثُ الحَسْرَةَ . فأكْذِبوا الأملَ ؛ فإنّه غَرُورٌ ، وإنَّ صاحِبَهُ مَأزُورٌ.(بحارالانوار : ۷۷ / ۲۹۳ / ۲)
آرزوئیں عقل کو زائل کر دیتی ہیں جھوٹے وعدے کرتی ہیں اور حسرت کا موجب بنتی ہیں لہٰذا تم آرزؤں کو جھٹلائو (ان کا کہا نہ مانو)کیونکہ یہ دھوکہ دیتی ہیں اور ان کا حامل گناہوں میں گھر چکا ہوتا ہے۔
خوف اور امید کی درمیانی حالت میں رہنا ایمان ہے:
مومن میں خوف و امید کا ایک ہی وقت میں ہونے کی ضرورت کے پیش نظر بعض روایات میں خوف و امید کی حالت کو ایمان کے شرائط میں سے شمار کیا گیا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
 "لَا يَكُونُ الْمُؤْمِنُ مُؤْمِناً حَتَّى‏ يَكُونَ‏ خَائِفاً رَاجِياً وَ لَا يَكُونُ خَائِفاً رَاجِياً حَتَّى يَكُونَ عَامِلًا لِمَا يَخَافُ وَ يَرْجُو”،
"مومن، مومن نہیں بنتا یہاں تک کہ خوف (اور) امید رکھنے والا بن جائے، اور خوف (اور) امید رکھنے والا نہیں بنتا یہاں تک کہ جس چیز سےخوف رکھتا ہے اور جس کی امید رکھتا ہے اس کے لیے عمل کرے”۔ [الکافی، ج۲، ص۷۱، ح۱۱]
یعنی جس چیز سے خوف رکھتا ہے اس سے بچنے کے لیے اور جس چیز کی امید رکھتا ہے اسے پانے کے لیے عمل کرے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کا مسلمان جنت کی امید تو رکھتا ہے مگر اسے پانے کے لیے عمل نہیں کرتا اور جہنم سے اور عذاب الٰہی سے ڈرنے کا دعویٰ تو کرتے ہے لیکن اس سے بچنے کے لیے عمل نہیں کرتا۔
مبلغین کی ذمہ داری:
مبلغ کے لیے بھی ضروری ہے کہ جب لوگوں کو تبلیغ کی جائے تو خوف اور امید دونوں کی طرف متوجہ کرنا چاہیے، نہ یہ کہ صرف جنت کی نعمتوں کے بارے میں امید دلائی جائے اور نہ یہ کہ صرف جہنم کے عذاب سے ڈرایا جائے، بلکہ جنت اور جہنم دونوں کا تذکرہ کرنا چاہیے تاکہ حد سے زیادہ نہ خوفزدہ ہوجائیں اور نہ حد سے زیادہ امید رکھیں، بلکہ خوف اور امید کے درمیان توازن ہو، لہذا جو شخص منبر پر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بارے میں امید دلاتا ہے اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے خوف بھی دلائے۔
قرآن کریم کی آیات اور اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث میں بشارت (خوشخبری) اور اِنذار (ڈرانا) دونوں پائے جاتے ہیں، جیسے سورہ فاطر کی آیت ۲۴ میں ارشاد الٰہی ہے: "إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيراً وَنَذِيراً"، "بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشیر و نذیر (بشارت دینے والا اور ڈرانے والا) بنا کر بھیجا ہے”۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
 "إنّهُ لَيس مِن عَبدٍ مؤمنٍ إلاّ [و] في قَلْبهِ نُورانِ: نورُ خِيفَةٍ و نورُ رَجاءٍ، لَو وُزِنَ ھذا لَم يَزِدْ على ھذا، و لَو وُزِنَ ھذا لَم يَزِدْ على ھذا”،
"کوئی مومن بندہ نہیں ہے مگر اس کے دل میں دو نور ہیں: خوف کا نور اور امید کا نور، اگر اِسے وزن کیا جائے تو اُس سے زیادہ نہیں ہوگا اور اگر اُسے وزن کیا جائے تو اِس سے زیادہ نہیں ہوگا”۔ [الکافی، ج۲، ص۷۱، ح۱۳]

احادیث امام جعفر صادق علیہ السلام:
15 شوال اور 25 شوال کو امام جعفر صادقؑ  کی شہادت کی روایات ہیں۔ اس مناسبت سے امام کی چند احادیث شامل کرتے ہیں:
-كَمْ مِنْ نِعمةٍ للّٰه ِ على عبدِهِ في غَيْرِ أملِهِ ، وكَمْ مِنْ مُؤَمِّلٍ أملاً الخِيارُ في غَيرِهِ.
امام جعفرصادقؑ:اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بندے پر کتنی ایسی نعمتیں ہیں جو اسے آرزو کے بغیر مل جاتی ہیں اور کتنے ایسے آرزو رکھنے والے ہیں کہ ان کا اختیار ان کے غیر کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔(بحارالانوار : ۷۱ / ۱۵۲ / ۵۵ )
-الإمامُ الصّادقُ ع: يَعيشُ النّاسُ بإِحسَانِهِم أكثرَ مِمّا يَعِيشُونَ بأعمَارِهِم ، وَيَموتُونَ بذُنُوِبِهِم أكثرَ مِمّا يَموتُونَ بآجَالِهِم .
۔امام جعفر صادقؑ:لوگ اپنی عمروں کے ذریعہ جینے سے زیادہ اپنی نیکیوں سے جیتے ہیں او اپنی اجل کے ذریعہ مرنے سے زیادہ اپنے گناہوں سے مرتے ہیں۔ (بحارالانوار : ۵/ ۱۴۰/ ۷)
-الامام الصادق عليه السلام :المُؤمنُ أخو المؤمنِ ، عَينُهُ ودَليلُهُ ، لا يَخونُهُ ، ولا يَظْلِمُهُ ، ولا يَغُشُّهُ ، ولا يَعِدُهُ عِدَةً فيَخْلِفَهُ.
۔امام جعفر صادقؑ:مومن، مومن کا بھائی ہوتا ہے اس کی آنکھ اور راہنما کی حیثیت رکھتا ہے اس سے خیا نت نہیں کرتا نہ ہی اس پر ظلم کرتا ہے نہ ہی اس سے فریب کرتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی ایسا وعدہ کرتا ہے جس کو وہ ایفا نہ کرے ۔ (الكافي : ۲ / ۱۶۶ / ۳)
-تَحتاجُ الإخْوةُ فيما بَيْنَهُم إلى ثلاثةِ أشياءَ ، فإنِ استَعمَلُوها وإلّا تَبايَنُوا وتَباغَضُوا، وهي : التَّناصُفُ ، والتَّراحُمُ ، ونَفْيُ الحَسَدِ.
۔امام جعفر صادقؑ:باہمی بھائی چارے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر ان کی پابندی کرو گے تو بھائی چارہ بحال رہے گا وگرنہ تم ایک دوسرے سے جدا ہو جائو گے اور ایک دوسرے کے دشمن بن جائو گے وہ تین چیزیں یہ ہیں: باہمی انصاف ،رحمدلی اور حسد کی نفی۔ (تحف العقول : ۳۲۲ )
-الإخْوانُ ثلاثةٌ : مُواسٍ بنفسِهِ ، وآخرُ مُواسٍ بمالِهِ ؛ وهُما الصّادقانِ في الإخاءِ ، وآخَرُ يأخذُ منكَ البُلْغَةَ ، ويُريدُكَ لِبَعضِ اللّذَّةِ ، فلا تَعُدَّه مِن أهلِ الثِّقَةِ .
۔امام جعفر صادقؑ:بھائی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو اپنی جان کی قربانی دیتا ہے، دوسرا وہ جو اپنا مال قربان کرتا ہے اور یہی دونوں محبت میں سچے انسان ہوتے ہیں، تیسرا وہ جو اپنے مقصد کے حصول کے لئے تم سے بھائی چارہ کرتا ہے اور اپنی اغراض کو تم سے پورا کرنا چاہتا ہے اس قسم کے انسان پر کبھی بھروسہ نہ کرو ۔(تحف العقول : ۳۲۴)
-احذَرْ أن تُواخيَ مَن أرادَكَ لِطَمعٍ أو خَوفٍ أو مَيْلٍ أو للأكلِ والشُّرْبِ ، واطلبْ مُواخاةَ الأتقياءِ ولو في ظُلُماتِ الأرضِ ،وإنْ أفنيتَ عُمْرَكَ في طلبِهِم.
۔امام جعفر صادقؑ:جو شخص تمھارے ساتھ طمع خوف، نفسانی خواہشات یا کھانے پینے کی غرض سے دوستی کرنا چاہے تو تم اس کو بھائی بنانے سے پرہیز کرو اور متقی لوگوں کو اپنا بھائی بنانے کی کوشش کرو خواہ ان کی تلاش میں تمھیں اپنی ساری زندگی ختم کرنا پڑے۔ (بحارالانوار : ۷۴ / ۲۸۲ / ۳ )
– مُرِ الصَّبيَّ فلْيَتَصدَّقْ بيدِهِ بالكِسْرةِ والقَبْضةِ والشَّيءِ وإنْ قَلَّ ، فإنَّ كلَّ شيءٍ يُرادُ بهِ اللّٰهُ وإنْ قَلَّ بعدَ أنْ تَصدُقَ النِّيّةُ فيهِ عظيم۔
۔امام جعفر صادقؑ:اپنے بچے کو حکم دو کہ وہ اپنے ہاتھ سے روٹی کا ٹکڑا یا مٹھی بھر اناج یا کوئی اور چیز خواہ وہ قلیل مقدار میں ہی ہو صدقہ دیا کرے کیو نکہ جو چیز راہ خدا میں دی جائے اور نیت بھی صادق ہو تو وہ قلیل بھی عظیم ہوتی ہے۔(الكافي : ۴ / ۴ / ۱۰ )

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button