صبر قرآن وحدیث کی روشنی میں
ترتیب و تدوین: حسنین امام
صبر:
صبر کا معنی قوت برداشت،تحمل کے ہیں نیز یہ مقابلےکے معنیٰ میں بھی استعمال ہوا ہے۔
مصائب واعلام میں چیخنے چلانے اور اور بے قابو ہونے کی بجائے برادشت اور ااطمینان رکھنا صبر کہلاتا ہے ۔صبر انسان کی عقل کی بلندی اور وسعت فکری کا نتیجہ ہے۔ صبر انسان کو بہترین فیصلے کرنے کی طاقت و قوت عطاکرتا ہے نیز قرآن و حدیث میں بھی اس کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے اور صاحبان صبر کو بشارت اور نتیجہ خیز حیات کی نوید سنائی گئی ہے۔
صبر از نظر قرآن:
۱۔ فما وھنوا لما اصابھم فی سبیل اللہ وما ضعفوا وما استکانوا واللہ یحب الصابرین
"لیکن اللہ کی راہ میں آنے والی مصیبتوں کی وجہ سے نہ وہ بد دل ہوئے نہ انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ وہ خوار ہوئے اور اللہ تو صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔”
(آل عمران ۱۴۶)
۲۔واصبروا ان اللہ مع الصابرین
"اور صبر کرو،بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔”
(انفال۴۶)
۳۔ولنبلونکم بشئی من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات و بشر الصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للہ وانا الیہ راجعون
"اور ہم تمہیں کچھ بھوک ، خوف، جان ومال اور پھلوں کے نقصانات سے ضرور بضرور آزمائیں گے اور آپ میں صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادیجیے جو مصیبت میں مبتلا ہو کر کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔”
(بقرہ ۱۵۵،۱۵۶)
۴۔واستعینوا بالصبر والصلوۃ
"اور صبر اور نماز کا سہارا لو” (بقرہ ۴۵)
۵۔یا ایھا الذین اٰمنوا استعینوا بالصبر والصلوۃ ان اللہ مع الصابرین
"اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لو، اللہ یقینا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔”
(بقرہ۱۵۳)
۶۔ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولما یعلم اللہ الذین جٰھدوا منکم ویعلم الصابرین
"کیا تم (لوگ) یہ سمجھتے ہو کہ جنت میں یونہی چلے جاو گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ دیکھاہی نہیں کہ تم میں سے جہاد کرنے والے اور صبر کرنے والے کون ہیں۔؟”
صبر احادیث کی روشنی میں:
عن ابا عبد اللہ قال:
الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الجسد فاذا ذھب الراس ذھب الجسد کذالک اذاذھب الصبر ذھب الایمان
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"صبر کا ایمان کے ساتھ تعلق ایسا ہے جیسے سر کا تعلق انسان کے بدن کے ساتھ ہوتا ہے اگر سر بدن سے جدا ہوجائےتو بدن ختم ہو جاتا ہے اسی طرح اگر صبر ایمان سے چلا جائےتو ایمان بھی ختم ہوجاتا ہے۔”
(الوافی ج۳ ص ۶۵)
اسی طرح ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ
اصبروا علی طاعۃ اللہ واصبروا عن معصیۃ اللہ فانما الدنیا ساعۃ فما مضی منھا فلیس تجد لہ سرورا ولا حزنا وما لم یات فلست تعرفہ علی تلک الساعۃ التی انت فیھا وکانک قد اعطیت
"اللہ کی اطاعت کرنے پر صبر کرو اور اس کی معصیت نہ کرنے پر صبر کرو۔ دنیا ایک لحظے کی طرح ہے جو گزر چکی ہےاس کی آپ کو خوشی اور غمی نہیں ہونی چاہیے اور جو آنے والی ہے آپ اس کے بارے میں جانتے نہیں آپ کے پاس اس دنیا میں جو لحظہ ہے اس میں اگر آپ صبر کریں تو آپ کا حال احوال اچھا ہوجائے گا۔”
(الزھد ج۱ ص۴۶ماخوذ جامع الاحادیث حدیث نمبر۳۲۵۰۷۶)
دوسری جگہ آپؑ نے ارشاد فرمایا:
الصبر صبران صبر عند المصیبۃ حسن جمیل و احسن من ذلک الصبر عند ما حرم اللہ عز وجل لیکون لک حاجز
"صبر دو طرح کا ہے مصیبت پر صبر کرنا قابل تعریف اور خوبصورت ہے لیکن اس سے بہتر اور افضل ان چیزوں پر صبر کرنا ہےجو اللہ نے حرام قرار دی ہیں تاکہ یہ صبر تمہارے لیے گناہوں سے رکاوٹ بن سکے۔”
امام محمد باقر علیہ السلام سے صبر کی اہمیت کے بارے میں روایت ہے
لماحضرت ابی الوفاۃ ضمنیالی صدرہ وقال یا بنی! اصبر علی الحق و ان کان مرا توف اجرک بغیر حساب
امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ جب میرے بابا امام زین العابدین علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپؑ نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور ارشاد فرمایا:
"بیٹا حق پرصبر کرنا اگرچہ یہ نا گوار ہی کیوں نہ ہو پس پھرتم بغیر حساب کے اجر و ثواب حاصل کر پاو گے۔”
اسی طرح امام علی علیہ السلام کا فرمان مبارک نہج البلاغہ میں موجود ہے آپؑ نے فرمایا:
ان صبر جری علیک القدر وانت ماجور وان جزعت جری علیک القدر وانت مازور
"اگر تم نے صبر کیا تو تقدیر الہیٰ نافذ ہوگی اس حال میں کہ تم اجر وثواب کے حق دار ہوگے اور اگر تم چیخے چلائےتو جب بھی حکم قضا جاری ہو کر رہےگا مگر اس حال میں کہ تم پر گناہ کا بوجھ ہوگا۔”
(حکمت ۲۹۱)
اس کے علاوہ بھی آپؑ نے اپنی مشہور و معروف وصیت جو اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو ارشاد فرمائی اس میں بھی باقاعدہ اپنے بیٹے کو حق پر صبر کرنے کی تلقین کی۔
سیرت انبیاء و ائمہ علیہم السلام میں صبر کے نمونے:
یہاں تک کہ جب ہم معصومین علیہم السلام کی حیات طیبہ کا بغور مطالعے کرتے ہیں تو صبر و شکیبائی کے پہلو نمایاں نظر آتے ہیں خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فرزند کی وفات پر صبر کیا اسی طرح امام علی علیہ السلام نے اسلام کی خاطر آنےوالے آلام و مصائب کا کس قدر جوانمردی سے مقابلہ کیا اور اس پہ مستزاد یہ کہ معرکہ کربلا تو صبر کا اعلیٰ نمونہ نظر آتا ہے حتی کہ خواتین کربلا جنہیں کوفہ و شام میں پھرایا گیا لیکن کسی مقام پر کسی بھی خاتون نے بے صبری اور کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثال لے لیں تو طائف کی طرف جب تبلیغ کےلیےتشریف لے گئے تو لوگوں نے پتھر ما رے اور لہو لہان کردیا حتی کہ جبرائیل امین نازل ہوئےاور عرض کی کہ اگر آپ کہیں تو اس بستی والوں کو تباہ کردیں مگر آپ نے ان کےحق میں ہدایت کی دعا فرمائی اور عذاب سے بچالیا۔
اسی طرح اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال لیں توا ٓپؑ نے خدا کی راہ میں کن کن صعوبتوں کو برداشت کیا سب سے پہلے توا ٓپؑ کوجب نبوت عطا ہوئی تو ایک ایسے گھر میں تھے جہاں بتوں کی تجارت کی جاتی تھی اور آپ کے چچا آزر نے آپ کو بتوں کی تجارت پر مجبور کیا پھر اس کے خلاف آپ نے تبیلغ شروع کی تو آپ کو کس قدر دھمکیاں دی گئیں۔ اس سے بڑا امتحان یہ کہ آپ کو اپنےفرزند کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا مگر آخر حضرت اسماعیل بھی آپ کے تربیت یافتہ تھے جب آپ نے بیٹے سے کہا
یٰبنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا تری
"میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کو ذبح کررہا ہوں بیٹے دیکھو تمہاری اس بارےمیں کیا رائے ہے۔”
توحضرت اسماعیل نے جواب دیا:
یٰابت افعل ما تومر ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین
"اے بابا جو آپ کو حکم ملا ہےآپ وہ کر دیجیے آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔”
پس دنیا نے اس واقعہ کو دیکھا اور باپ بیٹے نے کس طرح صبر سے اس حکم خدا کی تعمیل کی اور نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے بھی ایک بڑے انعام سے نوازا اور فرمایا:
و فدینٰہ بذبح عظیم
"اور ہم نےایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا۔”
صبر کی اقسام:
علماء اخلاق نےقرآن و حدیث کی روشنی میں صبر کو چند اقسام میں تقسیم کیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں
1. اطاعت پر صبر
2. معصیت پر صبر
3. مصیبتوں اور بلاوں پر صبر
4. نعمتوں پر صبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔