اخلاق حسنہاخلاقیات

سلام کے آداب اور فوائد

آیات کی روشنی میں:
اذۡ دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَقَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ ۚ قَوۡمٌ مُّنۡکَرُوۡنَ
جب وہ ان کے ہاں آئے تو کہنے لگے: سلام ہو! ابراہیم نے کہا: سلام ہو! ناآشنا لوگ (معلوم ہوتے ہو)۔
اُولٰٓئِکَ یُجۡزَوۡنَ الۡغُرۡفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یُلَقَّوۡنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا
ایسے لوگوں کو ان کے صبر کے صلے میں اونچے محل ملیں گے اور وہاں ان کا استقبال تحیت اور سلام سے ہو گا۔
فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ تَحِیَّۃً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً
اور جب تم کسی گھر میں داخل ہو تو اپنے آپ پر سلام کیا کرو اللہ کی طرف سے بابرکت اور پاکیزہ تحیت کے طور پر۔
( النور61)
جب کسی گھر میں داخل ہو تو اپنے آپ پر سلام کرو۔ یعنی اپنے ہم نوع اور برادران دینی پر سلام کرو جو فی الحقیقت خود تمہارا حصہ ہیں۔ روایت کے مطابق عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ کا مطلب یہ ہے کہ جب تم گھر والوں کو سلام کرو گے تو وہ جواب میں تمہیں سلام کریں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تم خود اپنے لیے سلام کر رہے ہو۔ چنانچہ اسی مضمون کی روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے۔ (الوسائل ۱۲: ۸۱)
تَحِیَّۃً یہ سلام ایک ایسی تحیت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مقرر کیا اور حکم دیا ہے کہ تم ایک دوسرے کی حیات کی دعا کرو کہ اللہ تجھے زندگی دے۔
مُبٰرَکَۃً اس سلام سے برکتوں میں اضافہ ہو گا۔ انس راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
فاذا دخلت بیتک فسلم علیہم یکثر خیرک
(عوالی للالی ۲:۱۳۵)
جب تم اپنے گھر میں داخل ہو جاؤ تو گھر والوں پر سلام کرو تمہاری بھلائی میں اضافہ ہو گا۔
طَیِّبَۃً جس سے نفس میں طمانیت اور طہارت آ جاتی ہے۔ نفس کدورتوں سے پاک ہو جاتا ہے۔
وَ اِذَا جَآءَکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ
اور جب آپ کے پاس ہماری آیات پر ایمان لانے والے لوگ آجائیں تو ان سے کہیے: سلام علیکم تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔
وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡھَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَسِیۡبًا
۸۶
اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر سلام کرو یا انہی الفاظ سے جواب دو، اللہ یقینا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔
اگر کو ئی تمہیں سلام و تحیت پیش کرے تو بد اخلاقی کے ساتھ پیش نہ آؤ، بلکہ اس سلام وتحیۃ کا بہتر شائستگی کے ساتھ جواب دو:
فَاصۡفَحۡ عَنۡہُمۡ وَ قُلۡ سَلٰمٌ
(زخرف: ۸۹)
پس ان سے درگزر کیجیے اور سلام کہدیجیے۔
تحیۃ و سلام کی رسم تو ہر قوم و ملت میں موجود ہے، لیکن دیگر اقوام میں سلام کا مفہوم یہ ہے کہ ایک حقیر شخص کسی کی بڑائی کے سامنے جھک جائے اور اس کی تعظیم کرے۔ لہٰذا ان اقوام میں کم درجہ رکھنے والوں پر فرض بنتا ہے کہ وہ بڑا درجہ رکھنے والوں کو سلام کریں اور یہی لوگ سلام میں پہل کریں۔
اسلام نے تحیۃ و تسلیم کے آداب میں اس قسم کی تمام تفریق کو مٹا کر اسے امن و سلامتی، صلح و آشتی اورمساوات و مؤاسات کا شعار قرار دیا۔ مثلاً کسی گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرنے کے بلا تفریق درجات آداب بتائے:
فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ تَحِیَّۃً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً
( نور : ۶۱)
اور جب تم کسی گھر میں داخل ہو تو اپنے آپ پر سلام کیا کرو اللہ کی طرف سے بابرکت اور پاکیزہ تحیت کے طور پر۔
خود سرورکائنات کے لیے یہ دستور ملا:
وَ اِذَا جَآءَکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ
( انعام :۵۴)
اور جب آپ کے پاس ہماری آیات پر ایمان لانے والے لوگ آ جائیں تو ان سے کہیے: سلام علیکم
چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ سلام کرنے میں رسالتمآب (ص) پر کوئی سبقت نہیں لے سکتا تھا۔
اس آیت میں آداب سلام یہ بتایا ہے کہ اگر کوئی سلام کرے تو جواب سلام بہتر انداز میں دو۔ مثلاً سلام کرنے والا سلام علیکم کہدے تو جواب میں وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہو اور انہی الفاظ میں جواب دینا تو واجب ہے ۔
سلام کرنا مستحب ہے۔ سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ جب کہ بہتر انداز میں جواب دینا مستحسن ہے۔ کسی نے اگر حالت نماز میں سلام کیا تو بھی جواب سلام واجب ہے۔ البتہ اس صورت میں ایک ایسی آیت پڑھے جس میں لفظ سلام موجود ہو۔ مثلاً سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ۔۔۔۔
( زمر: ۷۳۔ تم پر سلام ہو، تم خوب رہے۔) اگر کوئی نماز میں مشغول ہو، اس کو سلام نہیں کرنا چاہیے۔
احادیث میں سلام اکی اہمیت اور آداب
رسول اللہ (ص) سے روایت ہے:
السَّلَامُ تَطَوُّعٌ وَ الرَّدُّ فَرِیضَۃٌ
(اصول الکافی ۲:۶۴۴)
سلام کرنا مستحب ہے اور جواب واجب ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
یُسَلِّمُ الصَّغِیرُ عَلَی الْکَبِیرِ وَ الْمَارُّ عَلَی الْقَاعِدِ وَ الْقَلِیلُ عَلَی الْکَثِیرِ
(اصول الکافی ۲:۶۴۶)
چھوٹے بڑوں کو، راہ گیر بیٹھے ہوئے لوگوں کو اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔
دوسری روایت میں فرمایا:
یُسَلِّمُ الرَّاکِبُ عَلَی الْمَاشِیِ وَ الْمَاشِی عَلَی الْقَاعِدِ وَ اِذَا لَقِیَتْ جَمَاعَۃٌ جََمَاعَۃً سَلَّمَ الْاَقَلَُّ عَلَی الْاَکْثَرِ وَ اِذَا لِقِیَ وَاحِدٌ جَمَاعَۃً سَلَّمَ الْوَاحِدُ عَلَی الْجَمَاعَۃِ
(اصول الکافی ۲:۶۴۷)
سوار پیدل کو، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، اگر ایک جماعت دوسری جماعت سے ملاقات کرے تو تھوڑے زیادہ کو اور ایک شخص جماعت کو سلام کرے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک اور روایت میں آیا ہے:
لِلْمُسْلِمِ عَلَی اَخِیہِ مِنَ الْحَقِّ اَنْ یُسَلِّمَ عَلَیْہِ اِذَا لَقِیَہُ وَ یَعُودَہُ اِذَا مَرِضَ وَ یَنْصَحَ لَہُ اِذَا غَابَ وَ یُسَمِّتَہُ اِذَا عَطَسَ یَقُولَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رِبِّ الْعَالَمِینَ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَ یَقُولَ لَہُ یَرْحَمُکَ ﷲ۔۔۔۔
(اصول الکافی ۲:۶۵۳ باب العطاس و التسمیت)
مسلمان کے لیے اپنے بھائی کے ذمے حق عائد ہوتا کہ وہ ملاقات کے وقت اس پر سلام کرے، بیماری کی صورت میں عیادت کرے، غیر حاضری میں بھی مخلص رہے، جب چھینک آئے تو اس کو دعا دے (خود چھینکنے والا) الحمد اللہ رب العالمین کہے اور دوسرا یرحمک اللہ کہے۔
دوسری روایت میں ہے کہ یغفرک اللہ کہدے۔
(الکوثر فی التفسیر القرآن)
سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ مَنْ قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ فَهِيَ عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَ مَنْ قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ فَهِيَ عِشْرُونَ حَسَنَةً وَ مَنْ قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ فَهِيَ ثَلَاثُونَ حَسَنَةً
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا:
جو کوئی کہے السلام علیکم تو یہ دس نیکیاں ہوئیں اور جو کہے السلام علیکم و رحمۃ اللہ یہ بیس نیکیاں ہوئی اور جو کہے السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ تو یہ تیس نیکیاں ہوئیں۔
(الکافی: باب التسلیم)
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ قَالَ إِنَّ الْبَخِيلَ مَنْ يَبْخَلُ بِالسَّلَامِ
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
اللہ تعالی (حدیث قدسی میں ) فرماتا ہے بخیل وہ ہے جو سلام سے بخل کرے۔
(الکافی: باب التسلیم)
سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ مَنْ قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ فَهِيَ عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَ مَنْ قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ فَهِيَ عِشْرُونَ حَسَنَةً وَ مَنْ قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ فَهِيَ ثَلَاثُونَ حَسَنَةً
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
جو کوئی کہے السلام علیکم تو یہ دس نیکیاں ہوئیں اور جو کہے السلام علیکم و رحمۃ اللہ یہ بیس نیکیاں ہوئی اور جو کہے السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ تو یہ تیس نیکیاں ہوئیں۔
(الکافی: باب التسلیم)
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: مَرَّ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٌّ ع بِقَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ فَقَالُوا عَلَيْكَ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ وَ مَغْفِرَتُهُ وَ رِضْوَانُهُ فَقَالَ لَهُمْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع لَا تُجَاوِزُوا بِنَا مِثْلَ مَا قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ لِأَبِينَا إِبْرَاهِيمَ ع إِنَّمَا قَالُوا رَحْمَتُ اللَّهِ وَ بَرَكاتُهُ عَلَيْكُمْ- أَهْلَ الْبَيْتِ‏
کہامام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حکایت نقل کی گئی ہےکہ:
امیر المومنین (ع) ایک قوم کی طرف سے گزرے ان پر سلام کیا انہوں نے جواب میں کہا و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ و مغفرتہ و رضوانہ حضرت نے فرمایا ہمارے لئے اس سے زیادہ نہ کہو جتنا ملائکہ نے ابراہیم (ع) کے لئے کہا تھا رحمۃ اللہ و برکاتہ اہل البیت۔
(الکافی: باب التسلیم)
وَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ قَالَ: مَنْ بَدَأَ بِالْكَلَامِ قَبْلَ السَّلَامِ فَلَا تُجِيبُوهُ وَ قَالَ ابْدَءُوا بِالسَّلَامِ قَبْلَ الْكَلَامِ فَمَنْ بَدَأَ بِالْكَلَامِ قَبْلَ السَّلَامِ فَلَا تُجِيبُوهُ
انہی اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے:
جو سلام سے پہلے کلام کرے اس کا جواب نہ دو اور کلام سے قبل سلام کیا کرو جو کوئی بغیر سلام کلام کرے اس کا جواب نہ دو۔
(الکافی: باب التسلیم)
ایک دوسرے سے ملتے وقت سلام کرنا انتہائی خوبصوت انداز ہے جس کی تعلیم دین مقدس اسلام نے دی ہے۔ معاشرے میں سلام کر پرچار کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے خصوصا آج کے معاشروں میں جہاں سلام کرنے کا رواج کم ہوتا جارہا ہے۔ سب سے بہترین طریقہ اس مورد میں خود کا سلام میں پہل کرنا اور بلند آواز سے سلام کرنا ہے۔ تاکہ دوسرے صرف باتوں سے نہیں بلکہ عمل سے سیکھے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button