محمد محمدی اشتہاردی
دوسری حکمت :حساب وکتاب
حضرت لقمان کی پہلی نصیحت توحید اور خداشناسی کے بارے میں تھی اور ابھی حضرت لقمان کی دوسری نصیحت کے بارے میں تشریح کریں گے کہ وہ اپنے بیٹے کو اس طرح نصیحت کرتے ہیں :
يا بُنَيَّ إِنَّها إِنْ تَكُ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ في صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّماواتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطيفٌ خَبيرٌ
(لقمان، ۱۶)
اے بیٹے! اگررائی کے دانے کے برابر بھی کوئی (اچھی یا بری) چیز کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو تواللہ اسے یقینا نکال لائے گا یقینا اللہ بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔اس آیت میں دو اہم مطالب بیان ہوئے ہیں ۔
۱۔ خداوند متعال کی قدرت کی وسعت اور اس کا تمام جہان پر احاطہ جوکہ خداشناسی میں سے ہے اورخدا کے نظام اور حساب رسی کو بیان کرتی ہے ۔
۲۔ اور خود انسان کے حساب وکتاب کا مسئلہ : یعنی انسان کو خود اپنے اعمال کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اپنے اعمال کا خود حساب و کتاب کریں اور اپنی کردار و رفتار کو خدا کے احکام کے ساتھ ہماہنگ کریں اور ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ دنیا اور آخر ت دونوں میں انسان سے سخت حساب ہونا ہے ۔ ایک دن اس کو حساب وکتاب کے میزان پر کھڑ ا ہونا پڑے گا اور اپنے کیے ہوئے اعمال کا نتیجہ اس دنیا میں یا آخرت میں ملنا ہے ۔
اس آیت میں خردل کی مثال دی گئی ہے اس سے مراد کسی جڑی بوٹی کانام ہے کہ جس کے کالے کالے اور چھوٹے چھوٹے دانے ہوتے ہیں اس آیت میں اس کی مثال دینے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اعمال اگرچہ اس خردل کے مانند چھوٹی ہی کیوں نہ ہوں اس کا بھی حساب ہو جائے گا ۔خداوند عالم کے حساب کا میزان اس طرح سے ہے کہ اگر انسان کے اعمال میں سے ذرہ بھی کسی پتھر کے اندر چھپا ہوا ہو خدا اس کو بھی اپنے میزان حساب میں حاضر کردے گا ۔اور آسمانوں کی عظمت اور اس کے حیرت انگیز وسعت کی طرف توجہ کرنے سے ہم خدا کے اس میزان حساب و کتاب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ آج کے دور میں علم سائنس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ بعض ستاروں کا زمین سے فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ لاکھوں سال تک ایک نور کی ضرورت ہے جو زمین تک پہنچ جائے اور اس بات کی توجہ دیتے ہوئے کہ اس نور کی جو حرکت ہے اس کی سپیڈ ایک سکنڈ میں تین لاکھ کلو میٹر تک ہے ۔ جب انسان کے اعمال میں سے ایک چھوٹا ساعمل بھی انہی ستاروں میں سے کسی ایک ستارے کے کونے میں بھی ہو تو وہ بھی خدا اپنے میزان حساب میں حاضر کرے گا ۔ لہذا حضرت لقمان کی یہ نصیحت انسان کو متوجہ کرتی ہے انسان اس خطرے کی گھنٹی کی طرح ہمیشہ ہوشیا ر رہے ۔
آسمانوں کی وسعت اور اس کی عظمت ایک مثال سے بہتر سمجھ میں آئے گی مثال کے طور پر سورج کی روشنی تقریبا آٹھ منٹ تک زمین پر پہنچ جاتی ہے اور زمین سے سورج کا فاصلہ تقریبا 149 ملین کلومیٹرہے ۔ اب زمین سے ان ستاروں کا فاصلہ کتنی وسعت کے ساتھ ہونا چاہیے یہاں سے ہمیں آسمانوں کی وسعت اور عظمت کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔
حضرت لقمان خدوند عالم کے اس احاطہ علمی اور اس کی قدرت اور حساب کتاب کو یاد کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو ہوشیار کرتاہے کہ اپنے اعمال کی حفاظت کرو اور اپنے اعمال کا حساب کرکے خود کو کنٹرول میں رکھو تاکہ کل حساب و کتاب کردیتے وقت سرخرو ہو جاؤ اور خدا کے لطف اور انعام کےمستحق ہوجائے ۔
حساب و کتاب قرآن کی دوسری آیتوں میں :
علم خداکی وسعت اور حساب و کتاب کے بارے میں قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی بیان ہوا ہے انہی میں سے ایک سورہ سبا آیت ۳ میں ہم اس طرح سے پڑھتے ہیں کہ :
لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ فِي السَّماواتِ وَ لا فِي الْأَرْضِ وَ لا أَصْغَرُ مِنْ ذلِكَ وَ لا أَكْبَرُ إِلاَّ في كِتابٍ مُبين
آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر بھی (کوئی چیز) اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ذرے سے چھوٹی چیز اور نہ اس سے بڑی مگر یہ کہ سب کچھ کتاب مبین میں ثبت ہے۔
جب ہم کلمہ حساب کو قرآن میں دیکھتے ہیں تو یہ کلمہ قرآن مجید میں مختلف شکلوں میں تقریبا ۴۷ مرتبہ ذکر ہوا ہے انہی میں سے اٹھ آیتوں میں سریع الحساب کا لفظ ذکر ہوا ہے یعنی خداوند عالم کی حساب رسی بہت ہی سرعت کے ساتھ بغیر کسی سستی اور کاہلی کے انجام پائے گی ۔ اور اسی طرح سے پانچ آیتوں میں قیامت کے دن کیلئے یوم الحساب آیا ہے ۔ جو قیامت کے مشہور ترین ناموں میں سے ہے ۔
(ابراهیم، ۴۱، ص، ۱۶، ۲۶، ۵۳، غافر، ۲۷)
اور اصل میں قیامت اس لئے ہے کہ سورہ انبیاء آیت ۴۷ میں ہم پڑھتے ہیں کہ فرمایا:
وَ نَضَعُ الْمَوازينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيامَةِ فَلا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئاً وَ إِنْ كانَ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنا بِها وَ كَفى بِنا حاسِبين
اور ہم قیامت کے دن عدل کا ترازو قائم کریں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا اور اگر رائی کے دانے برابر بھی (کسی کا عمل) ہوا تو ہم اسے اس کے لیے حاضر کر دیں گے اور حساب کرنے کے لیے ہم کافی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نامہ اعمال کا میزان اور ان اعمال کو ( رقیب و عتید ) دو فرشتوں کے ذریعے سے ثبت کرنا جیسا کہ قرآن مجید سورہ ق آیت ۱۸ میں تکرار کے ساتھ آیا ہے یہ سب کل قیامت کے دن خداوند عالم کے حساب و کتاب کو بیان کرتا ہے لہذا انسان کو حساب و کتاب کے مسئلہ سے غافل نہیں ہونا چاہیے ۔
حساب و کتاب روایات کی نظر میں :
پیغمبر اسلام اور ائمہ معصومین کی روایات میں حساب و کتاب کے بارے میں بہت ساری روایات تقل ہوئی ہیں انہی میں سے کچھ روایتوں کو ہم یہاں پر ذکر کریں گے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا
(بحارالانوار، ج۷۰، ص۷۳)
اس سے پہلے کہ تم سے حساب لیا جائے اپنا حساب وکتاب کرو ۔
امام علی علیہ السلام نے فرمایا :
قَيِّدُوا أَنْفُسَكُمْ بِالْمُحَاسَبَة
(غرر الحكم، میزان الحكمۃ، ج۲، ۴۰۵)
حساب و کتاب کے ذریعے سے اپنے اوپر کنٹرول کرو ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
أَكْيَسُ الْكَيِّسِينَ مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهُ
(بحار، ج۷۰، ص۷۰)
چالاک ترین انسان وہ ہے جو اپنا حساب و کتاب خود کرتاہے ۔
امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے۔
حَقٌ عَلَى كُلِ مُسْلِمٍ يَعْرِفُنَا أَنْ يَعْرِضَ عَمَلَهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ عَلَى نَفْسِهِ فَيَكُونَ مُحَاسِبَ نَفْسِهِ فَإِنْ رَأَى حَسَنَةً اسْتَزَادَ مِنْهَا وَ إِنْ رَأَى سَيِّئَةً اسْتَغْفَرَ مِنْهَا لِئَلَّا يَخْزَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ
(بحار، ج۷۸، ص۲۷۹)
ہر وہ مسلمان جو ہمیں جانتا ہے اور ہماری امامت کو قبول کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ ہر صبح و شام اپنا حساب و کتاب کرے اگر اپنے اعمال میں نیکی پائے تو اس میں اور اضافہ کرنے کی کوشش کرے اور اگر اپنے اعمال میں گناہ پائے تو استغفار اور توبہ کیا کرے تاکہ کل قیامت کے دن رسوا نہ ہو جائے ۔
روایات میں جو مختلف مسائل ذکر ہوئے ہیں ان میں سے ایک مسئلہ انسان کے اعمال کا پیغمبر اسلام اور ائمہ معصومین کے سامنے پیش ہونے کا ہے اور یہ موضوع بھی اسی حساب و کتاب کو بیان کرتا ہے اس طرح سے کہ پورے ہفتے میں ہمارے اعمال کئی مرتبہ پیغمبر اور ائمہ معصومین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اسی موضوع کے بارےمیں اصول کافی میں تقریبا چھ روایتیں آئی ہیں انہی میں سے پہلی روایت امام صادق سے نقل ہوئی ہے۔
تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص أَعْمَالُ الْعِبَادِ كُلَّ صَبَاحٍ أَبْرَارُهَا وَ فُجَّارُهَا فَاحْذَرُوهَا وَ هُوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى- اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُولُه
(اصول كافی، ج۱، ص۲۱۹)
نیکو کار اور فاسق لوگوں کے اعمال ہر صبح اور شام کو پیغمبر اسلام کے سامنے پیش ہوتے ہیں لہذا اپنے برے کردار سے بچو اور قرآن مجید میں خداوند عالم کا کلام سورہ توبہ کی آیت ۱۰۵ میں اسی معنی پر دلالت کرتا ہے ۔
اور کہدیجیے: لوگو! عمل کرو کہ تمہارے عمل کو عنقریب اللہ اور اس کا رسول اور مومنین دیکھیں گے اور پھر جلد ہی تمہیں غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹا دیا جائے گا پھر وہ تمہیں بتا د ے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ۔
اور اسی طرح اعمال کے ائمہ معصومین کے سامنے پیش ہونے کے بارےمیں بھی کئی روایات ذکر ہوئیں ہیں ۔
(اصول کافی، ص۲۱۹ و ۲۲۰)
مکہ میں ہارون رشید اور امام کاظم علیہ السلام کا جو مناظرہ ہوا اس میں ہارون نے امام سے کئی سؤالات پوچھے کہ دین کیا ہے ؟ اور اس دین کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کے بارے میں بیان کریں تو امام علیہ السلام نے کچھ اعداد گن کر کہا کہ دین سے مراد یہی اعداد ہیں ؟ تو ہارون ہنستے ہوئے کہنے لگے میں آپ سے دین کے بارے میں پوچھتاہوں اور آپ مجھے ریاضی کے اعداد گن کر بتا رہے ہیں تو امام کاظم نے فرمایا :
أَ مَا عَلِمْتَ أَنَ الدِّينِ كُلَّهُ حِسَاب
کیا آپ نہیں جانتے ہیں کہ اس دین میں سارا حساب ہی ہے ؟پھر اسی کی تائید میں سورہ انبیاء کی آیت ۴۸ کی تلاوت کرنے لگے ۔
حساب و کتاب کے بارے میں تجزیہ و تحلیل :
محاسبہ اورحساب و کتاب یہ ہیں کہ انسان اپنے کردار کی حفاظت کریں اور اس کو اپنے کنٹرول میں رکھیں اور اس کو اسلامی احکام کے ساتھ ہماہنگ کریں تاکہ صراط مستقیم سے منحرف نہ ہو جائیں ۔
روایات میں آیا ہے کہ کسی نے امیر المؤمنین سے پوچھا محاسبہ سے مراد کیا ہے ؟ اور انسان کس طرح سے اپنا محاسبہ کریں ؟ تو امام نے فرمایا : جب صبح ہو جائے تو انسان اپنے روز مرہ کاموں میں مشغول ہو جائیں اور جب رات ہو جائے تو اپنے وجدان کی طرف رجوع کریں اور اس کو مخاطب قرار دے کر کہیں ! اے وجدان ! آپ کی عمر کا ایک اور دن گزر گیا اور وہ کبھی واپس نہیں آئے گا اور خداوند عالم اس دن کے بارے میں تم سے سؤال کرے گا کہ تم نے اس دن کو کیسے گزارا ؟ کونسا عمل انجام دیا ؟ اور کیا خدا کا شکر ادا کیا یا نہیں ؟ اور کسی بندے کے غم کو برطرف کیا یا نہیں ؟ اور اس کی غیبت پر اس کی آبرو کو محفوظ رکھا یانہیں ؟ اور اس کے مرنے کے بعد اس کے خاندان میں ان خدمات کو محفوظ رکھا یانہیں ؟ اور کسی مسلمان کی مدد کی یانہیں ؟
اگر انسان کا وجدان اس کے جواب میں کہے کہ میں نے نیک کاموں کو انجام دیا ہے تو اس کو خداوند عالم کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اگر اس کے جواب میں گناہ آجائے تو اس وقت انسان کو توبہ و استغفار کرنا چاہیے ۔
(بحار، ج۷۰، ص۷۰)
پیغمبر اکر م کا فرمان ہے کہ انسان اسوقت تک پرہیز گار نہیں بن سکتا ہے جب تک وہ اپنا حساب و کتاب نہ کرے ۔ اور اس کو یہ علم ہونا چاہیے کہ یہ کھانے پینے کی چیزیں کہاں سے آئیں اور اس کے کپٹرے کہاں سے آئے ؟ کیا وہ حرام مال سے ہاتھ آئیں ہیں یا حلال مال سے ؟
(همان، ج۷۷، ص۸۶)
اسی بنا پر علماء اخلاق نے محاسبہ کرنے کا طریقہ اس طرح سے بیان فرمایا ہے کہ جب مؤمن صبح کو نیند سے اٹھتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان پانچ مراحل کو طے کریں ۔ ۱ ۔ مشارطہ ۔۲۔ مراقبہ ۔ ۳۔ محاسبہ ۔ ۴۔ معاقبہ ۔ ۵۔ مکافئہ ۔
یعنی سب سے پہلے انسان اپنے ساتھ شرط باندھے کہ میں آئندہ گناہ نہیں کرونگا پھر اسی کی مراقبت کرے تاکہ کوئی گناہ انجام نہ دے اور اس کا وعدہ نہ ٹوٹ جائے اس کے بعد جب رات ہوتو اپنا محاسبہ کرے کہ کیا دن میں کوئی گناہ اس سے سرزد ہوا یانہیں؟ اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے تو اپنی سرزنش کرے اور توبہ کرنے کی کوشش کرے ۔اور پانچواں مرحلہ میں اپنے انجام دئیے ہوئے ان گناہوں کی تلافی میں نیک اور اچھے کام کرنے کی کوشش کرے ۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
ثَمَرَةُ الْمُحَاسَبَةِ إِصْلَاحُ النَّفْسِ
(غرر الحكم، میزان الحكمۃ ، ج۲، ص۴۰۹)
محاسبہ کرنے کا نتیجہ انسان کی روح اور نفس کی اصلاح ہے۔
شیخ عباس قمی نے شیخ بہائی سے نقل کیا ہے کہ ( ثوبہ بن صمۃ ) نام کا ایک شخص ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتا تھا وہ ایک دن اپنا محاسبہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ساٹھ سال کی عمر گزر گئی جو اکیس ہزار پانچ سو دن بن جاتے ہیں اگر میں ہر دن ایک گناہ انجام دیتا تو میرے اکیس ہزار پانچ سو گناہ بن جاتے اور اس وقت میں خدا کو کیا جواب دیتا لہذا وہ اپنے اس حساب کتاب سے غمگین ہو کر زمین پر گر جاتے ہیں اور اسی حالت میں ہی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں ۔
(سفینة البحار، ج۱، ص۴۸۸،لفظ ذنب)
اور اسی طرح سے نقل کرتے ہیں کہ ( احمد بن ابی الجواری ) جو کہ پرہیز گاری میں بہت ہی مشہور و معروف تھے ۔اس کا ایک استاد ( ابو سلیمان دارانی ) تھا اس کے مرنے کے ایک سال بعد اسکو خواب میں دیکھا اور احوال پرسی کرنے کے بعد اس سے کہنے لگا اے استاد آپ کے مرنے کے بعد خداوند عالم نے آپ سے کیسا سلوک کیا ؟ تو ابو سلیمان نے اس کے جواب میں کہا اے احمد ! میں ایک دن دمشق میں باب الصغیر کے کنارے سے گزر رہا تھا ایک بوڑ ھے کو دیکھا جو اونٹ پر لکڑیاں لادھے ہوا تھا میں نے اس کے اونٹ سے لکڑی کا ایک چھوٹا سا تنکا اٹھایا لیکن ابھی مجھے معلوم نہیں کہ میں نے اس کو خلال کے طور پر استعمال کیا تھا یا اسے پھینک دیا تھا ؟ جب سے میں مرا ہوں ابھی تک اسی عذاب میں گرفتار ہوں کہ میں نے اجازت کے بغیر وہ لکڑی کیوں اٹھائی ؟ اور میں ابھی اسی کا حساب دے رہا ہوں ۔اس عجیب واقعہ کونقل کرنے کے بعد محدث قمی فرماتے ہیں قرآن مجید کی آیات اس واقعہ کی تصدیق کرتی ہیں جیسا کہ خداوند متعال نے حضرت لقمان کے قول کونقل کرتے ہوئے فرمایا :
إِنَّها إِنْ تَكُ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ في صَخْرَة
(سفینة البحار ، ص۲۵۰،لفظ حسب)
اگررائی کے دانے کے برابر بھی کوئی (اچھی یا بری) چیز کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو تواللہ اسے یقینا نکال لائے گا
اور اسی طرح سے امام صادق کا یہ قول بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ فرمایا:
اتَّقُوا الْمُحَقَّرَاتِ مِنَ الذُّنُوبِ فَإِنَّهَا لَا تُغْفَر
چھوٹے چھوٹے گناہوں سے پرہیز کرو اور ان کو کبھی بھی چھوٹا نہیں سمجھو کیونکہ ان کے انجام دینے والے جب تک توبہ نہیں کریں گے بخشے نہیں جائیں گے ۔
امام علیہ السلام کے ایک شاگرد ( زید بن شحام ) کا کہنا ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا چھوٹے گناہ سے مراد کیا ہے ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا :
الرَّجُلُ يُذْنِبُ الذَّنْبَ فَيَقُولُ طُوبَى لِي لَوْ لَمْ يَكُنْ لِي غَيْرُ ذَلِكَ
ایک شخص گناہ انجام دیتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے کہ میرا صرف اسی کے علاوہ کوئی اور گناہ نہیں ہے ۔
(اصول كافی، ج۲، ص۲۸۷)
اور اسی طرح سے امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام اپنے شاگردوں اور مسلمانوں کو حساب و کتاب سمجھانے کے لئے ایک دن اپنے اصحاب کے ساتھ کسی سفرپر گئے اور جب ایک صحرا میں ٹھہرنے لگے تو پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا جاکر کوئی لکڑیاں جمع کرو تاکہ کھانے کا بندوبست کریں تو اصحاب نے کہا یا رسول اللہ اس بیابان میں کہاں سے لکڑی آئے گی ؟ تو پیغمبر نے کہا جو ملے وہ لیکر آو تو اصحاب چلے گئے اور لکڑیاں لیکر آئے ان سب کو جمع کیا تو لکڑیوں کا ایک ڈھیر بن گیا تو پبغمبر نے اصحاب کو کہا هَكَذَا تَجْتَمِعُ الذُّنُوبانسان کے گناہ بھی اسی طرح سے جمع ہو جائیں گے۔ اس کے بعد فرمایا کہ ایسی چھوٹے چھوٹے گناہ جو آپ کی نظر میں بہت ہی حقیر اور چھوٹے ہیں ان سے بچو ! چونکہ ان چھوٹے گناہوں کا بھی حساب ہے اور جب یہ جمع ہونگے تو گناہوں کا ایک ڈھیر بن جائے گا ۔
(اصول کافی ، ص۲۸۸)
کسی اور روایت میں صفوان کہتا ہے کہ عبد اللہ بن حسن یعنی امام حسن مجتبیٰؑ کا پوتا اور امام صادقؑ کے درمیان کسی سیاسی بحث پر اختلاف پیدا ہوا اور بہت سارے لوگ جمع ہوگئے ۔ لوگوں کے مجمع میں ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں اسی طرح سے رات ہوگی تو ایک دوسرے سے جدا ہوئے اور گھروں کو چلے گئے۔ اگلے دن صبح کو میں جلدی گھر سے نکلا راستے میں امام صادق کو عبد اللہ کے گھر کے دروازے پر دیکھا جو عبداللہ کی کنیز سے کہہ رہا تھا کہ جاکر عبداللہ کو بتاؤ کہ میں دروازے پر انتظار کررہا ہوں۔ جب عبداللہ گھر سے نکلا تو امام کو غمگین حالت میں دیکھ کر پوچھنے لگا کہ آپ اتنے غمگین کیوں ہیں ؟ تو امام صادق علیہ السلام نے کہا کل کی اس بحث میں جب اختلاف ہوا تو رات کو گھر جاکر جب قرآن کی یہ آیت
وَ الَّذينَ يَصِلُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ يَخافُونَ سُوءَ الْحِساب
(رعد۲۱)
خردمند لوگ وہ ہیں جو صلہ رحم انجام دیتے ہیں کہ جو خدا کا ایک حکم ہے اور اللہ نے جن رشتوں کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں قائم رکھتے ہیں اور اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں اور بر ے حساب سے بھی خائف رہتے ہیں۔
پڑ ھ کر میں بہت ہی متاثر ہوا گویا کہ یہ آیت میں نے نہیں پڑھی تھی لذا میں ابھی صلح کرنے آیا ہوں دونو ں ایک دوسرے کو آغوش میں لیکر بہت رونے لگے ۔
(تفسیر نورالثقلین، ج۲، ص۴۹۴)
(حضرت لقمان کی دس حکمتیں سے اقتباس)