خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:245)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 29 مارچ 2024ء بمطابق 18 رمضان المبارک 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: ایامِ امیر المومنینؑ  و فضائل شب قدر
حضرت علی علیہ السلام رسول خدا ﷺ کے بلا فصل خلیفہ اور امیر المومنین ہیں۔19 سے 21 رمضان کے ایام امیر المومنین سے منسوب ہیں کیونکہ 19 کی شب آپ کے سر اقدس پر ابن ملجم ملعون نے ضرب لگائی اور 21 کی شب آپ شہادت پا گئے۔
آپ کے مشہور القاب میں سے ایک لقب امیر المو منین ہے، یہ لقب آپ کو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے عطا کیا ہے، روایت میں ہے کہ ابو نعیم نے انس سے روایت کی کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا :
يَا أَنَسُ اسْكُبْ‏ لِي‏ وَضُوءً وَ مَاءً فَتَوَضَّأَ وَ صَلَّى ثُمَّ انْصَرَفَ
میرے وضو کرنے کے لئے پانی لاؤ، پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:
فَقَالَ يَا أَنَسُ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ عَلَيَّ الْيَوْمَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ سَيِّدُ الْمُسْلِمِينَ وَ خَاتَمُ الْوَصِيِّينَ وَ إِمَامُ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ
”اے انس اس دروازے سے جو بھی سب سے پہلے داخل ہوگا وہ امیر المو منین ہے، مسلمانوں کا سردار ہے، قیامت کے دن روشن ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے“،
قَالَ فَقُلْتُ اَللّٰهُمَّ اِجْعَلْهُ رَجُلاً مِنَ اَلْأَنْصَارِ وَ لَمْ أُبْدِهَا لَهُ
انس کہتا ہے میں نے دعا کی کہ وہ شخص ا نصار میں سے ہو۔
فَجَاءَ عَلِيٌّ حَتَّى ضَرَبَ الْبَابَ فَقَالَ مَنْ هَذَا يَا أَنَسُ
اتنے میں حضرت علی(علیہ السلام) تشریف لائے تو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا؟
قُلْتُ هَذَا عَلِيٌّ قَالَ افْتَحْ لَهُ فَدَخَلَ. میں نے کہا علیؑ ہیں تو فرمایا دروازہ کھول دو۔
فَدَخَلَ فَقَامَ إِلَيْهِ حَتَّى اِعْتَنَقَهُ فَجَعَلَ يَمْسَحُ عَرَقَ وَجْهِهِ فَيَمْسَحُ وَجْهَهُ
آپ ﷺنے آگے بڑھ کر علی(علیہ السلام) سے معانقہ کیا(یعنی گلے لگایا)، پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایا،
قَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي يَا رَسُولَ اَللّٰهِ لَقَدْ صَنَعْتَ بِيَ اَلْيَوْمَ مَا لَمْ تَصْنَعْهُ بِي قَطُّ
اس وقت علی(علیہ السلام) نے فرمایا: ”میرے ماں باپ آپ پر قربان یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا،
قَالَ وَ مَا يَمْنَعُنِي أَوْ قَالَ وَ لِمَ لاَ أَفْعَلُ وَ أَنْتَ تُؤَدِّي دَيْنِي وَ تُسْمِعُهُمْ صَوْتِي وَ تُبَيِّنُ لَهُمُ اَلَّذِي اِخْتَلَفُوا فِيهِ بَعْدِي .
آنحضرت نے فرمایا:”میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرا قرض ادا کرنے والے، میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میں صحیح راہنمائی کرنے والے ہو“۔[الیقین، ج1، ص430]۔
اسی طرح بہت سی روایات میں ملتا ہے کہ حضور نبی کریم نے دیگر اصحاب کو حکم دیا کہ وہ جناب علیؑ  کو امیر المومنین کہہ کر سلام کیا کریں۔

چونکہ ماہ رمضان ہے تو روزے سے متعلق امام علیؑ  کی تعلیمات بھی اپنی گفتگو کا حصہ بناتے ہیں۔روزے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے امیر المؤمنین علیؑ  کا فرمان یوں منقول ہے:
فَرَضَ اللّٰہ … الصِّيَامَ ابْتِلَاءً لِإِخْلَاصِ الْخَلْق‏.
خداوند نے روزے کو اپنی مخلوق کے اخلاص کو آزمانے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ (نہج البلاغہ حکمت 252)
اسی طرح ایک مقام پہ یوں ارشاد ہے:
الصِّيامُ اجتِنابُ الَمحارِمِ كما يَمتَنِعُ الرجُلُ مِن الطَّعامِ والشَّرابِ . (بحارالانوار : ۹۶ / ۲۹۴ / ۲۱)
روزہ ہر قسم کے حرام سے اجتناب کا نام ہے، جس طرح انسان کھانے پینے سے اجتناب کرتا ہے۔

وصیت ِامیر المومنین علیہ السلام:
ایام امیر المومنین میں ضروری ہے کہ ہم اپنے مولا و آقا کی آخری وصیت کا مطالعہ کریں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ روایت میں ہے کہ جب حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو ابن ملجم ملعون ضربت لگا چکا تو آپ علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو ایک وصیت فرمائی اگرچہ ظاہری طور پر یہ وصیت آپ علیہ السلام نے اپنے دونوں بیٹوں کو کی ہے لیکن اس وصیت پہ عمل کرنا تمام شیعان امیر المومنین علیہ السلام پہ واجب ہے۔ اس وصیت میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:
اُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللّٰہِ۔
میں تم دونوں کو خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔
وَاِنْ لَا تَبْغِیَاالدُّنْیَا وَاِنْ بَغَتْکُمَا۔
اور دیکھو دنیا کی طرف مائل نہ ہونا خواہ وہ تمہاری طرف مائل کیوں نہ ہو۔
وَلَا تَأَسَفًا عَلیٰ شَیْ ءٍ مِنْھَا زُوِیَ عَنْکُمَا۔
اور دنیا کی جس چیز سے تم کو روک لیاجائے اس پر افسوس نہ کرنا۔
وَقُوْلَا بِالْحَقِّ۔
اور جو بھی کہنا حق کہنا۔
وَاعْمَلَا لِلْاَجْرِ۔
اور جو کچھ کرنا ثواب کے لئے کرنا۔
وَکُوْنَا لِلظَالِمِ خَصْمًا وَلِلمَظْلُوْمِ عَوْنًا۔

ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔
اُوْصِیْکُمَا وَجَمِیْعَ وَلَدِیْ وَاَھْلِیْ وَمَنْ بَلَغَہُ کِتَابِیْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَنَظْمِ اَمْرِکُمْ۔
میں تم دونوں کو اوربقیہ اپنی تمام اولادوں اور، اپنے تمام اہل وعیال کواور ان تمام افراد کو کہ جن تک یہ میرانوشتہ پہنچے، اُن سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امور کو منظم رکھنا۔
وَصَلَاحِ ذَاتِ بَیْنِکُمْ۔ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ جَدَّکُمَاصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ یَقُوْلُ:صَلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ اَفْضَلُ مِنْ عَامَۃِ الصَّلٰوۃِ وَالصِّیَامِ۔
اورباہمی تعلقات کو استوار رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئےسنا ہے کہ:آپس کی کشیدگیوں کومٹانا، عام نماز روزے سے افضل ہے۔
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْاَیْتَامِ، فَلاَ تُغِبُّوْاأَفْوَاہَہُمْ وَلَا یَضِیْعُوْا بِحَضْرَتِکُمْ۔
خدارا خدارایتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کہ کہیں ان پر فاقے کی نوبت نہ آئے اور تمہاری موجود گی میں وہ ضائع نہ ہو جائیں
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ جِیْرَانِکُمْ، فَاِنَّھُمْ وَصِیَّۃُ نَبِیِّکُمْ، مَازَالَ یُوْصِیْ بِھِمْ، حَتَّی ظََنَنَّا أَنَّہُ سَیُوَرِّثُھُمْ۔
خدارا خدا را . اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا کہ ان کے بارے میں تمہارے نبی نے وصیت کی اور اتنی شدیدتاکید فرمائی ہےکہ یہ گمان ہونے لگا تھا کہ کہیں آپؐ اُنھیں بھی میراث پانے والوں میں سے قرار نہ دے دیں۔
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْقُرْاٰنِ، لَا یَسْبِقُکُمْ بِالْعَمَلِ بِہٖ غَیْرُکُمْ۔
خدارا خدارا قرآن کا خیال رکھنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں۔
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الصَّلوٰةِ، فَاِنَّھَاعَمُودُ دِیْنِکُمْ۔
خدارا خدارا نماز کی ادائیگی میں پابند رہنا اس لئے کہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ بیْتِ رَبِّکُمْ، لَا تُخْلُوْہُ مَابَقِیْتُمْ۔
خدارا خدارا اپنے رب کے گھر کا خیال رکھنا، جب تک کہ تم زندہ ہو اسے خالی نہ چھوڑنا۔
فَاِنَّہُ اِنْ تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا۔

کیونکہ اگر اسے خالی چھوڑ دیا توپھر عذاب سےمہلت نہ ملے گی۔
اللّٰہَ اللّٰہَ فِی الْجِہَادِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔
خدارا خدارا راہِ خدا میں اپنی جان. مال.اور زبان کے ذریعے جہاد سے دریغ نہ کرنا۔
وَعَلَیْکُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَالتَّبَاذُلِ، وَاِیَّاکُمْ وَالتَّدَابُرَوَالتَّقَاطُعَ۔
تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھناا ور ایک دوسرے کی اعانت کرنا اورخبردار ایک دوسرے سے قطع تعلق سے پرہیز کرنا۔
لَا تَتْْرُکُواالْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ، فَیُوَلَّیٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ، ثُمَّ تَدْعُوْنَ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ۔
دیکھو!امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو ترک نہ کرنا، ورنہ بد کردار تم پر مسلّط ہوجائیں گے اور پھر اگر تم دعا مانگوگے تب بھی وہ قبول نہ ہوگی۔
یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لَا اُلْفِیَنَّکُمْ تَخُوْضُوْنَ دِمَآءَ الْمُسْلِمِیْنَ، خَوْضًا تَقُوْلُوْنَ: قُتِلَ اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ۔
اے عبدالمطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم، امیرالمو منین قتل ہوگئے، امیر المومنین قتل ہوگئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو۔
أَلاَ لاَ تَقْتُلُنَّ بِیْ اِلَّا قَاتِلِیْ۔دیکھو! میرےقتل کے بدلے صرف میرا قاتل ہی قتل کیاجائے۔
اُنْظُرُوْااِذَاأَ نَامُتُّ مِنْ ضَرْبَتِہِ ہٰذِہٖ، فَاضْرِبُوْہُ ضَرْبَۃً بِضَرْبَۃٍ، وَلَا تُمَثِّلُ بِالرَّجُلِ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہُ (صَلّی اللّٰہ عَلیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ) یَقُوْلُ: ”اِیَّاکُمْ وَالْمُثْلَۃَ وَلَوْبِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ۔
دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس کےسر پر ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا، اور اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو۔
(نہج البلاغہ مکتوب (47) وصیت ترجمہ مرحوم مفتی جعفر حسین)
شب قدر کی اہمیت و فضائل
آئمہ اہل بیت سے وارد روایات کے مطابق ماہ رمضان کی 19، 21 اور 23 رمضان کی شب میں سے ایک شب شب قدر ہے لہٰذا ان تینوں راتوں کو شب بیداری اور اعمال انجام دینے کی تاکید کی گئی ہے۔قرآن کریم اور روایتوں میں شب قدر کی بہت زیادہ عظمت بیان کی گئی ہے ، قرآن نے اس رات کو ہزار ماہ سے بالاتر "لیلۃ القدر خیرمن الف شھر” اور شب نزول قرآن بتایا ہے ، "شھر رمضان الذی انزل فیہ القران ” ۔
ہزار مہینے سے بہتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس ایک رات کا عمل تقریبا 82 سال کے اعمال سے زیادہ درجہ رکھتا ہے۔
حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ اسلام سے روایت ہے کہ شب قدر شبِ مقدرات ہے یعنی اس شب میں انسانوں کی پورے ایک سال تقدیر لکھی جاتی ہے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اس شب کو گناہوں کی بخشش کی شب جانا ہے ۔(بحار الانوار، ج 94، ص 80)
پیغمبر اسلامﷺ نے ایک روایت میں فرمایا :مَنْ حُرِمَها فَقَدْ حُرِمَ الْخَیْرَ کُلَّهُ؛ جو بھی شب قدر سے محروم رہا وہ تمام نیکیوں سے محروم رہا۔۔(کنز العمّال، مؤسسة الرسالة، ج 8، ص 534.)
شب قدرمیں شب بیداری اور بیدار رہنے کے لئے تمام معصومین علیھم السلام نے تاکید فرمائی ہے مرسل اعظم ﷺ کا ارشاد ہے کہ حضرت نے فرمایا :مَنْ اَحْیا لَیْلَةَ الْقَدْرِ حُوِّلَ عَنْهُ الْعَذابُ اِلَى السَّنَةِ الْقابِلَةِ؛
شب قدر میں بیدار رہنے والا آئندہ ایک سال تک عذاب خدا سے محفوظ رہےگا۔( بحار الانوار، ج 95، ص 145)
روایات میں ملتا ہے کہ رسول اسلام ﷺ شب قدر میں فقط بیدار نہیں رہتے تھے بلکہ ماہ مبارک رمضان کے آخری عشرہ میں اپنا بستر سمیٹ دیتے تھے اور فقط و فقط عبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ ‏السلام نے شب قدر میں رسول اسلام ﷺ کی سیرت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
أنَّ رَسُولَ اللّٰهِ کانَ یَطْوى فِراشَهُ وَ یَشُدُّ مِئْزَرَهُ فِى الْعَشْرِ الاْءَواخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضانَ وَ کانَ یُوقِظُ أَهْلَهُ لَیْلَةَ ثَلاثٍ وَ عِشْرینَ وَ کانَ یَرُشُّ وُجُوهَ النِّیامِ بِالْماءِ فى تِلْکَ اللَّیْلَةِ؛
رسول خدا صلی ‏اللہ‏ علیہ و ‏آلہ و سلم ماہ مبارک رمضان کے آخری عشرہ میں اپنا بستر سمیٹ کر عبادت کے لئے کمر کس لیتے تھے، حضرت تیئسویں شب قدر میں خود اور اپنے خاندان کو بیدار رکھتے تھے اور سونے والوں کے منھ پر پانی چھڑک دیتے تھے تاکہ وہ شب قدر اور اس رات کی فضلیت سے محروم نہ رہ سکیں۔ (بحار الانوار، ج 95، ص 10)

مصائب امیر المومنین بزبان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
نبی کریم ﷺ نے ماہ شعبان کے آخری دنوں میں اپنا مشہور خطبہ شعبانیہ بیان فرمایا تھا۔ اسی خطبے کے آخری حصے میں منقول ہے کہ:
قَالَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ علیه السلام فَقُمْتُ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَٰهِ مَا أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِی هَذَا الشَّهْرِ؟ فَقَالَ یَا أَبَا الْحَسَنِ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِی هَذَا الشَّهْرِ الْوَرَعُ عَنْ مَحَارِمِ اللَٰهِ.
امیر المؤمنین علیؑ فرماتے ہیں: پس میں کھڑا ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ اس مہینے میں سب سے بہترین عمل کیا ہے ؟ فرمایا: اے ابوالحسن اس مہینے میں بہترین عمل محرّمات الہی سے پرہیز کرنا ہے۔
ثمّ بَکَی، فَقلتُ: یا رسولَ اللّٰهِ ما یَبکِیکَ؟فقالَ یا علیّ، أبکی لِما یَستحلّ مِنک فی هذا الشّهر.کأنّی بِکَ وَ أنتَ تُصلّی لِرَبّکَ وَ قد انبَعَثَ أشقَی الأولینَ شَقیقَ عاقِرِ ناقَهِ ثمود، فَضَرَبَکَ ضربَةً علَی قَرَنِکَ فَخَضّبَ منها لِحیتَکَ، قالَ امیرُالمؤمنینَ علیه السّلام: فَقلتُ: یا رسولَ اللّٰهِ، و ذلکَ فی سَلامَةٍ مِن دِینی؟فقال صلی اللّٰه علیه و آله: فی سلامة من دینک.
اس کے بعد پیامبرﷺ گریہ کرنے لگے میں نے عرض کیا یارسول اللہ کس چیز نے آپ کو رلایا؟ فرمایا: اے علی میں اس لئے رو رہا ہوں کیوں کہ اس مہینے میں تمہارا خون بہایا جائے گا ( اس مہینے آپ کو شہید کردیا جائے گا) گویا میں تمہاری شہادت کے منظر کو دیکھ رہا ہوں ، درحالیکہ تم اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھنے میں مشغول ہو گے، اس وقت شقی اولین وآخرین قاتل ناقہ صالح ، تمہارے فرق پر ایک وار کریگا جس سے تمہاری ریش اور چہرہ خون سے ترہوں جائے گا۔ امیر المؤمنین فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا یارسول اللہؐ  کیا اس وقت میرا دین ثابت وسالم ہوگا؟ فرمایا : ہاں اس وقت تمہار دین سالم ہوگا۔
ثمّ قالَ صلّی اللّٰه علیه و آله: یا علیّ، مَن قَتلکَ فَقد قَتلَنِی،و مَن أبغَضَکَ فَقَد أبغَضَنی،و مَن سَبّکَ فَقَد سَبّنِی، لأنّکَ مِنّی کَنَفسِی، روحُکَ مِن روحی، و طِینتُکَ مِن طینتِی، إنّ اللّٰه تبارک و تعالی خَلقنِی و ایّاکَ،و أصطَفانِی وَ ایّاکَ،و أختارَنی للنبوّة، وَ أختارَکَ لِلإمامَةِ،و مَن أنکَرَ امامَتَکَ فَقَد أنکَرَ نُبُوّتِی
اس کے بعد پیامبرﷺنے فرمایا: اے علی جس نے تمہیں قتل کیا گویا اس نے مجھے قتل کیا اور جس نے تمہارے ساتھ بغض ودشمنی کی درحقیقت اس نے مجھ سے دشمنی کی ہے اور جو کوئی تمہیں ناسزا کہے گویا اس نے مجھے ناسزا کہا ہے کیونکہ تم مجھ سے ہو اور میرے نفس کی مانند ہو تمہاری روح میری روح سے ہے اور تمہاری طینت وفطرت میری فطرت سے ہے یقینا خدا نے ہم دونوں کو خلق کیا اور ہم دونوں کو انتخاب کیا، مجھے نبوت کے لئے انتخاب کیا اور تمہیں امامت کے لئے انتخاب کیا اگر کوئی تمہاری امامت سے انکار کرے تو اس نے میری نبوت سے انکار کیاہے۔
یا عَلِی أَنْتَ وَصِیی وَ أَبُو وُلْدِی وَ زَوْجُ ابْنَتِی وَ خَلِیفَتِی عَلَی أُمَّتِی فِی حَیاتِی وَ بَعْدَ مَوْتِی أَمْرُک أَمْرِی وَ نَهْیک نَهْیی أُقْسِمُ بِالَّذِی بَعَثَنِی بِالنُّبُوَّةِ وَ جَعَلَنِی خَیرَ الْبَرِیةِ إِنَّک لَحُجَّةُ اللَّهِ عَلَی خَلْقِهِ وَ أَمِینُهُ عَلَی سِرِّهِ وَ خَلِیفَتُهُ عَلَی عِبَادِه
ذات خدا کی قسم کہ جس نے مجھے نبوت پر مبعوث کیا اور مجھے انسانوں میں سے سب سے بہترقرار دیا یقینا تم مخلوقات پر خدا کی حجت ہو اور خدا کے اسرار کا امین ہو اور اس کے بندوں پر خلیفہ ہو۔(خطبہ شعبانیہ)

٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button