خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:258)
(بتاریخ: جمعۃ المبارک 05 جولائی 2024ء بمطابق 28ذوالحجۃ 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: عزاداری اور ہماری ذمہ داریاں
ماہ محرم ایک بار پھر نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام، ان کے اصحاب و یاوران کی الم و غم اور شجاعت و حریت سے بھرپور داستان لے کر قریب آ پہنچا ہے، دنیا بھر میں امت مسلمہ اس ماہ "جو آغاز سال نو بھی ہے” کا آغاز الم و غم اور دکھ بھرے انداز میں کرتی ہے، اس کی بنیادی ترین وجہ اپنے پیارے نبی آخرالزمان محمد مصطفیٰ کے لاڈلے نواسے حضرت امام حسینؑ اور ان کے اصحاب و انصار و یاوران کی عظیم قربانی جو 10 محرم الحرام 61 ہجری کو میدان کربلا میں دی گئی، کی یاد کو زندہ کرنا ہے۔
میدان کربلا میں نواسہ رسول ﷺ اور ان کے باوفا اصحاب نے جو قربانیاں پیش کیں ہمارے لئے اسو ہ حسنہ ہیں،
کربلا کے شہداء کی داستان ہائے شجاعت سے ہمیں درس حریت و آزادی ملتا ہے۔
یہ کربلا ہی ہے جو آزادی کا پیغام دیتی ہے، کربلا کا درس ہے کہ بصیرت و آگاہی اور شعور و فکر کو بلند و بیدا ر رکھا جائے، ورنہ جہالت و گمراہی کے پروردہ ہر جگہ ایسی ہی کربلائیں پیدا کرتے رہیں گے۔
یزیدیت پاکیزہ نفوس کے قاتلوں کا ٹولہ تھا، جس کا راستہ روکنے کیلئے نواسہ رسول ﷺ جسے امت کے سامنے خود رسول اللہ ﷺ نے تربیت کیا تھا، سامنے آئے اور اپنی عظیم قربانی سے اس کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا، آپ کی قربانی آج چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی اسی انداز میں یاد رکھی جاتی ہے۔
دین کی بقاء کی اس داستان کو مٹانے کی خواہش دل میں رکھنے والے اپنی موت آپ مرتے رہیں گے۔ یہ تاریخی و بےمثال قربانی اور نمونہ ایثار و شجاعت ہمارے لئے درس کا باعث ہے، اس شہادت میں بہت سے درس اور راز موجود ہیں، ہمیں چاہیئے کہ ہم اس داستان سے درس لے کر موجودہ دور کی مشکلات کا مقابلہ کریں اور یزیدی طاقتیں جو امت مسلمہ کو نابود کرنے کی سازشیں کر رہی ہیں، کے ارادوں کو ناکام و نامراد کر دیں۔
ہماری عزاداری با مقصد ہونی چاہیے۔ عزاداری کو بامقصد بنانے کے لیے پہلے ہمیں قیام امام حسین علیہ السلام کے مقاصد جاننا ضروری ہیں۔
قیام امام حسین علیہ السلام کے مقاصد:
با مقصد عزاداری وہی ہے جس میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف و مقاصد کو مدنظر رکھا جائے گا اور انہیں زندہ اور دائمی رکھنے کی کوشش کی جائے گی تو ایسی عزاداری بامقصد ہونے کے ساتھ ساتھ مقبول اور موثر بھی ہوگی۔ امام علیہ السلام کے مقاصد خود ان کے فرامین و خطبات میں واضح ہیں:
أَنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشِراً وَ لَا بَطِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي ص أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أَسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّي وَ أَبِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عليه السلام
میں طغیانی و سرکشی، عداوت، فساد کرنے اور ظلم کرنے کے لیے مدینہ سے نہیں نکلا، میں فقط اور فقط اپنے نانا کی امت کی اصلاح کرنے کے لیے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور میں اپنے نانا اور اپنے والد علی ابن ابی طالب(علیہ السلام) کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔(بحارالانوار، ج:44 ص:329)
پس معلوم یہ ہوا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام امت اسلام کی اصلاح، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ، حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السلام کی سیرت بتانے کے لئے مدینہ سے روانہ ہوئے ، لہٰذا ہمیں بھی امت اسلامیہ کی اصلاح کے لئے قدم بڑھانا چاہئے، معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کو ختم کرنا چاہئے، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اہم فریضہ پر عمل کرنا چاہئے، نیز سیرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور سیرت علی علیہ السلام پر عمل کرتے ہوئے اس کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہئے، اور جب ہماری مجالسوں میں ان باتوں پر توجہ دی جائے گی تو یقینا عزاداری کے مقاصد پورے ہوتے جائیں گے ہمارا معاشرہ نمونہ عمل قرار پائے گا، اور معنوی ثواب سے بھرہ مند ہوگا، لیکن اگر ہم نے معاشرہ میں پھیلتی ہوئی برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی، اور لوگوں کو نیکیوں کا حکم نہ دیا تو مقصد حسینی پورا نہ ہوگا، ہم برائیوں میں مبتلا رہیں اور خود کو امام حسین علیہ السلام کا ماننے والا قرار دیں، ہمارے معاشرے میں برائیاں بڑھتی جارہی ہوں۔
بصرہ کے بزرگان کو امام حسین علیہ السلام کے لکھے گئے خط میں امام کے قیام کا مقصد واضح ہے:
و أنا أدعوكم إلى كتاب اللّٰه و سنة نبيه فإن السنة قد أميتت و إن البدعة قد أحييت و إن تسمعوا قولي و تطيعوا أمري أهدكم سبيل الرشاد۔
میں آپ سب کو قرآن کریم اور رسول خداﷺ کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں کیونکہ بے شک سنت بالکل ختم اور مر چکی ہے اور بدعت زندہ ہو چکی ہے اور اگر تم لوگ میری بات کو سنو اور میری اطاعت کرو تو میں تم کو صراط مستقیم کی طرف لے جاؤں گا۔(تاريخ الطبري ج3، ص 280)
امام حسین علیہ السلام نے لشکرِ حر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا؛
ألا إَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ قَدْ لَزِمُوا طَاعَةَ الشَّيْطَانِ وَ تَركوا طَاعَةِ الرَّحْمَنِ وَ أَظْهَرُوا الْفَسَادَ وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَ اسْتَأْثَرُوا بِالْفَيْءِ وَ أَحَلُّوا حَرَامَ اللّٰهِ وَ حَرَّمُوا حَلَالَهُ و أنا أحَقُّ مَنْ غَيَّر
آگاہ ہو جاؤ کہ اس قوم نے شیطان کی پیروی شروع کر دی ہے اور خداوند کی اطاعت کو چھوڑ دیا ہے، واضح طور پر فتنہ اور فساد کرتے ہیں، احکام اور حدود الہی پر عمل نہیں کرتے،فئ کہ تمام امت کا حق ہے اس کو انہوں نے اپنے لیے مختص کر لیا ہے، خداوند کے حرام کو حلال اور خداوند کے حلال کو حرام کر دیا ہے، میں اس تمام صورت حال کو بدلنے کے لیے دوسروں کی نسبت زیادہ حق رکھتاہوں۔
(الكامل في التاريخ، ج 4، ص 48)
امام حسین علیہ السلام کے نزدیک ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کی بجائے حق کی خاطر قیام کرکے موت کو گلے لگانا سعادت ہے:
وَ إِنِّي لَا أَرَى الْمَوْتَ إِلَّا سَعَادَةً وَ الْحَيَاةَ مَعَ الظَّالِمِينَ إِلَّا بَرَماً.
بے شک میں موت کو سعادت و خوش بختی سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو اپنے لیے ہلاکت اور عار سمجھتا ہوں۔(بحارالأنوار ج : 44 ص : 192)
سید الشہداء علیہ السلام کا دائمی پیغام ہے کہ اگر ساری دنیا بھی مخالف ہو جائے پھر بھی حق کی پاسداری اور ظالم سے بیزاری ترک نہیں کرنی چاہیے،
محمد بن حنفیہ سے فرمایا:
یا اخی واللّٰه لولم یکن فی الدنیاملجاء ولاماوی لما بایعت یزید ابن معاویه اے بھائی اگر ساری زمین میں میرے لیے کوئی بھی پناہ گاہ نہ ہو تب بھی میں یزید کی بیعت نہیں کروں گا ۔(بحار الانوارج ۴۴ ص۳۲۹)
اسی طرح جب امام حسین ؑ نے دین کو خطرے میں دیکھا تو لوگوں کو نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث یاد دلاتے ہوئے فرمایا:
من رأی سلطانا جائرا مستحلالحرم اللّٰه ناکثا لعهد الله مخالفا لسنت رسول اللّٰه یعمل فی عباد الله با لاثم والعدوان ثم لم یغیّر بقول ولا فعل کان حقا علی اللّٰه ان یدخله مدخله
جو شخص کسی ایسے جابر بادشاہ کو دیکھے جو اللہ کے حرام کردہ کو حلال کر رہا ہو اور عہد خدا کو توڑ رہا ہو، سنتِ رسولﷺ کی مخالفت کر رہا ہو،بندگان خدا کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کر رہا ہو اور وہ شخص اس کے خلاف اقدام نہ کرے تو اللہ اسے بھی اسی ظالم کے انجام سے دوچار کرے گا۔(الارشاد ج ۲ ص ۲۳۴)
مجالس و عزاداری کے اہداف و مقاصد
پس مقصد قیام امام حسین ؑ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری مجالس و عزاداری کے مقاصد مندرجہ ذیل ہونے چاہیں:
1۔توحید کو عام کرنا۔ لوگوں کو خدائے وحدہ لا شریک کی معرفت کرانا۔ وہ خدا کہ جس کی رضا کی خاطر امام حسین ؑ نے قربانی پیش کی۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خطبات میں اپنی تحریک کا محور توحید کو قرار دیا چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ہم اہلبیت کی رضا وہی اللہ کی مرضی ہے۔ اسی طرح آپ نے زندگی کے آخری لمحہ میں بھی اللہ سے یہی مناجات کی کہ پالنے والے! تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں۔
2 اسلام کی عظیم ہستیوں محمد و آل محمد علیھم السلام کا مقام پہچنوانا اور معرفت کرانا کہ جن کی تمام زندگی اسلامی معاشرے کیلئے نمونہ عمل اور سرمشق ہے۔
3۔ اہل بیت علیھم السلام سے عشق اور محبت میں اضافے کے اسباب پیدا کرنا۔
4۔ دین کی طرف دعوت اور حقائق سے آگاہی اور لوگوں کو اصلاح کی طرف بلانا اور فساد و انحراف سے روکنا۔
5۔ لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے قیام اور اس کے مقاصد سے آگاہ کرنا۔
6۔ مجالس عزا کے ضمن میں بھوکوں اور ناداروں کو کھانا کھلانا (جو کہ قرآن و اسلام کے مؤکد دستورات میں سے ہے)۔
7۔ اہلبیت علیھم السلام کے مصائب کو یاد کرنا جس سے اپنی سختیاں اور مصائب آسان ہوجاتی ہیں۔
8۔ رسول خدا ﷺ ،حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اور تمام ائمہ علیہم السلام سے عشق، محبت و وابستگی و اطاعت کا اظہار کرنا۔
9۔ واقعہ عاشورا فراموش نہ ہونے دینا، کیونکہ اگر یہ عزاداری نہ ہوتی تو آنے والی نسلیں حقیقت سے بے خبر رہتیں۔
10۔ ظالموں خاص کر بنی امیہ اور بنی عباس کے ظلم و ستم کو افشا کرنا۔
11۔ انسانی اور خدائی فضائل میں رشد اور شہادت کیلئے روح کی پرورش کرنا۔
12۔ اسلام کو زندہ رکھنا کیونکہ اس عزاداری سے اسلام بھی زندہ رہاہے۔
13: مرکز عزت و حمیت:حضرت امام حسین علیہ السلام کا تعلق اس خاندان سے ہے، جو عزت و آزادی کا مظہر ہے۔ امام علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے، ایک ذلت کے ساتھ زندہ رہنا اور دوسرا عزت کے ساتھ موت کی آغوش میں سو جانا۔ امام نے عزت کو ذلت پر ترجیح دیتے ہوئے فرمایا، ابن زیاد نے مجھے تلوار اور ذلت کی زندگی کے بیچ لا کھڑا کیا ہے، لیکن میں ذلت کو قبول کرنے والا نہیں ہوں۔ آپ نے تاقیامت بشریت کو عزت سے جینے کا گُر سکھایا۔پس کربلا سے ہمیں عزت، غیرت و حمیت کا درس ملتا ہے۔
14: ہدف کے حصول میں استقامت:جو چیز عقیدہ کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، وہ اپنے ہدف پر آخری دم تک باقی رہنا ہے امام علیہ السلام نے عاشورا کی پوری تحریک میں یہ ہی کیا کہ اپنی آخری سانس تک اپنے ہدف پر باقی رہے اور دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے۔ امام علیہ السلام نے امت مسلمہ کو ایک بہترین درس یہ دیا کہ حریم مسلمین سے تجاوز کرنے والوں کے سامنے ہرگز نہیں جھکنا چاہیئے اور اسقامت و پائیداری کے ساتھ دشمنان دین کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔
عزاداری کے آداب
ہم حقیقی عزاداران حسین کی خدمت میں کچھ آداب عزاداری امام حسینؑ کو بیان کرتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ تمام محبان حسین ، ان قواعد و ضوابط کا خیال رکھیں گے ان شاء اللہ تعالی:
۱- عزاداری سید الشہداء علیہ السلام پر رنج و الم اور سوگواری کی فضا طاری ہو، اس کے اجتماعات اور رسومات دیکھنے والے پر غم و اندوہ کا تاثر پیدا کریں، تا کہ ایک طرف اس کے ذریعہ اسلام کی خاطر اٹھائی جانے والی اہل بیتؑ کی مصیبت اجاگر ہو اور دوسری طرف اس فضا میں بیان کیا جانے والا پیغام سننے والوں کے دل کی گہرائی میں اتر جائے۔
۲- عزاداری محض غم کی داستان کا بیان نہیں بلکہ اس کا پیغام مسلمانوں کے اجتماعی اور انفرادی معاملات میں دین کی حکمرانی کا قیام ہے۔ لہذا اس کے دوران ، خطیبوں و ذاکرین کی تقاریر اور شعراء کے کلام میں حسین ابن علیؑ ان کے اصحاب ، اہل حرم کے مصائب کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کی ترویج اور مسلمانوں کے اجتماعی معاملات و مسائل کے بارے میں بھی گفتگو ہو۔
امام حسین ابن علیؑ اپنی تحریک کے ذریعے مسلمانوں میں ایک ایسے مکتب کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے کہ جس کے ماننے والے مسلمانوں کے امور و معاملات سے کسی طور غافل اور لا تعلق نہ ہوں، اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والے رحجانات اور ان کے خلاف ہونے والے اقدامات سے نہ صرف آگاہ ہوں بلکہ انہیں ناکام بنانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہ کریں۔
۳- عزاداری کے اجتماعات اور رسموں میں شرعی اصول اور دینی اقدار پیش نظر رہیں۔ کوئی ایسا عمل انجام نہ دیا جائے جو احکام دینی کے خلاف اور ان سے متصادم ہو، دین کو کمزور کرنے والا ہو، مسلمانوں میں انتشار و افتراق پھیلانے کا موجب ہو، اور ہمارے مذہب کو تماشا بناتا ہو۔
۴- اہل بیتؑ کی ثقافت کو زندہ رکھنا:
1۔: معصوم کی حدیث ہے کہ عزاداری کی مجالس میں اہلبیت کی تعلیمات کو اجاگر کیا جائے:’’قال جعفر بن محمد الصادقؑ:تلاقوا و تحادثوا و تذاكروا فإن في المذاكرة إحياء أمرنا رحم اللّٰه امرأ أحيا أمرنا‘‘امام صادقؑ نے فرمایا ہے کہ: آپس میں ملاقات کرو، اور آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کرو، پس جو باتوں باتوں میں ہماے امر (ولایت و امامت) کو زندہ کرے گا تو خداوند اس شخص پر اپنی خاص رحمت نازل کرے گا۔(بحار الانوار ، ج ۱۱۵ ، ص ۱۵)
خطیب کے منبر پر جانے سے یا ایک نوحہ خواں کے نوحہ پڑھنے سے سامعین کی فکری سطح اور سوچ میں تبدیلی آنی چاہیے۔ اگر خطیب کی تقریر سے لوگوں کے علم میں اضافہ ہوتا ہو اور لوگوں کی فکری سطح اور سوچ میں تبدیلی آتی ہو اور لوگوں کے اخلاق ، کردار اور گفتار میں مثبت تبدیلی آتی ہے، تو اس خطیب اور نوحہ خواں نے اہلبیت کے امر کو زندہ کیا ہے۔ اسی طرح سامعین کو بھی چاہیے کہ خطیب کے نصائح پر عمل کر کے اہلبیت کے امر کو زندہ کریں۔
2: معرفت و بصیرت: مجالس عزاداری میں جو افراد شرکت کرتے ہیں وہ وہاں سے کوئی نئی بات ، علمی ، تاریخی ، فقہی معلومات یا دور جدید کے حوالے سے کچھ حاصل کر کے جائیں اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جو خطیب مجلس پڑھ رہا ہے، وہ اپنے مطالعات کو وسعت دے اور ساتھ ساتھ اخلاص کے ساتھ گفتگو کرے تا کہ لوگوں کی معرفت و بصیرت میں اضافہ کر سکے۔
3: احکام کی تعلیم : ہر خطیب کو چاہیے کہ وہ اپنی مجالس میں فقہی احکام بھی بیان کرے اور سامعین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ فقہی احکام پر عمل کریں خصوصا مجالس عزاداری میں عزاداری کے احکام پر عمل ہونا چاہیے۔
4: اعترضات کا جواب دینا: معاشرے میں ، لوگوں کے ذہن میں بعض اوقات کچھ سوالات پیش آتے ہیں یا مخالفین کی طرف سے کچھ اعتراضات کیے جاتے ہیں، لہذا خطیب کو چاہیے کہ ان کا منطقی ، عقلی و نقلی دلائل سے جواب دے ۔ البتہ سامعین کو بھی چاہیے کہ ان کے ذہنوں میں موجود شبہات اور اعتراضات علماء کے حضور پیش کریں تا کہ ان کے اذہان باطل چیزوں سے پاک و خالی ہو جائیں۔
5: نماز کی پابندی: آئمہ اہل بیتؑ نے ہمیشہ نماز کی پابندی فرمائی اور اس کی اہمیت بتلائی۔ عزاداری کے اجتماعات میں نماز کی پابندی کا خاص خیال رکھا جائے۔ یوم عاشور امام حسین ؑ نے جنگ روک کر نماز کا اہتمام فرمایا لہذا امام کے نام لیواؤں کو بھی چاہیے کہ عزاداری کے اجتماعات اس طرح ترتیب دیں کہ جس میں وقت نماز کا خاص خیال رکھا جائے اور اگر ممکن ہو تو عزاداری کے اجتماع میں ہی نماز جماعت کا اہتمام کیا جائے۔
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭